Surat ul Fatah
Surah: 48
Verse: 3
سورة الفتح
وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۳﴾
And [that] Allah may aid you with a mighty victory.
اور آپ کو ایک زبردست مدد دے ۔
وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۳﴾
And [that] Allah may aid you with a mighty victory.
اور آپ کو ایک زبردست مدد دے ۔
And that Allah may help you with strong help. (due to your obedience of the orders of Allah, the Exalted and Most Honored; Allah will elevate your status and give you victory above your enemies). An authentic Hadith states, وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ للهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ رَفَعَهُ اللهُ تَعَالَى No servant pardons but Allah grants him honor, and none humbles himself for Allah except that Allah the exalted and sublime raises him (in rank). Umar bin Al-Khattab said, "You will never punish someone who disobeyed Allah with you better than obeying Allah the Exalted and Most Honored with him."
[٣] صلح حدیبیہ میں اللہ کے چار احسانات :۔ اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزیں عطا فرمائیں۔ (١) سابقہ اور آئندہ لغزشوں کی معافی، (٢) اتمام نعمت، اتمام نعمت سے مراد یہ ہے کہ آئندہ اب مسلمانوں پر ہنگامی فضا مسلط نہ رہ سکے گی اور وہ اپنی جگہ ہر طرح کے خوف اور بیرونی مداخلت سے محفوظ و مامون رہ کر پوری طرح اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکیں گے اور اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ بجا لاسکیں گے، (٣) اس مقام پر آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کی راہ دکھانا ہے۔ یعنی اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کے لئے وہ راہ ہموار کردی جس سے تمام اسلام دشمن طاقتیں مغلوب ہوتی جائیں اور (٤) (نَصْرًا عَزِیْزًا) سے مراد ایسی مدد ہے جو بظاہر دشمن کو اپنی فتح نظر آرہی ہے مگر حقیقت میں وہی اس کی جڑ کاٹ دینے والی اور مغلوب کرنے والی ہے۔ خ حدیبیہ میں پانی کی قلت اور آپ کے معجزات :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کچھ اور بھی احسان فرمائے۔ اسلامی لشکر یہاں بیس دن سے بھی زیادہ قیام پذیر رہا۔ اس دوران پانی کی شدید قلت واقع ہوگئی۔ چناچہ سیدنا جابر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ سخت پیاسے ہوگئے۔ رسول اللہ کے پاس ایک چھاگل تھی۔ آپ نے اس میں سے وضو کیا۔ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں پوچھا : کیا ماجرا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ہمارے پاس نہ وضو کے لئے پانی ہے اور نہ پینے کے لئے۔ بس یہی پانی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ اس چھاگل میں رکھ دیا۔ آپ کی انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح بہنے لگا۔ چناچہ ہم سب لوگوں نے پانی پیا اور وضو بھی کیا سالم (راوی) نے جابر (رض) سے پوچھا : اس دن تم کتنے آدمی تھے ؟ جابر (رض) نے کہا کہ اگر لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی ہمیں کفایت کرجاتا ہم تو صرف پندرہ سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) دوسرا واقعہ سیدنا براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ کے ہمراہ چودہ سو یا زیادہ آدمی تھے۔ ایک کنوئیں پر اترے اور اس کا سارا پانی کھینچ ڈالا۔ پھر آپ کے پاس آکر عرض کیا کہ پانی نہیں رہا۔ اب کیا کریں۔ آپ کنوئیں پر تشریف لا کر اس کی منڈیر پر بیٹھے اور فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ آپ نے اپنا لب اس میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی۔ پھر فرمایا : ساعت بھر اس سے پانی نہ نکالنا۔ اس کے بعد اس کنوئیں کے پانی سے آدمیوں نے اپنے آپ کو اور سب جانوروں کو سیراب کرلیا۔ پھر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) خبارش کو سیاروں سے منسوب کرنے والا کافر ہے :۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت سے بارش ہوگئی اور مسلمانوں نے پانی ذخیرہ بھی کرلیا۔ چناچہ زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہوچکی تھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم جانتے ہو کہ تمہارا پروردگار اللہ عزوجل کیا فرماتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے کچھ بندے مومن ہوئے اور کچھ کافر۔ جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی۔ وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں کا مومن ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم)
وینصرک اللہ نصراً عزیزاً : چوتھی اور آخری نعمت یہ ہے کہ ” نصر عزیز “ کا ذکر اپنے سب سے باعظمت نام ” اللہ “ کے ساتھ فرمایا، تاکہ اس کی اہمیت واضح ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد فرمائیگا جس سے آپ کو عزت و قوت اور غلبہ حاصل ہوگا اور آپ کے دشمن عاجز اور مغلوب ہوجائیں گے۔ یہاں مبالغے کے لئے ” عزیز “ کی نسبت ” نصر “ کی طرف فرمائی ہے، ورنہ عزیز تو اس کے نتیجے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہونا ہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہتے ہیں :” فلان نھارہ صائم ولیلہ قائم “ ” فلاں کا دن روزہ رکھنے والا اور رات قیام کرنے والی ہے۔ “
وَيَنصُرَكَ اللَّـهُ نَصْرًا عَزِيزًا (and so that Allah may support you with a mighty support - 48:3.) This is the third bounty which follows naturally from the preceding circumstance of the manifest victory. The Holy Prophet has always had help from Allah, but on this occasion he received a very large share.
(آیت) وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَــصْرًا عَزِيْزًا، یہ تیسری نعمت ہے جو اس فتح مبین پر مرتب ہوئی کہ حق تعالیٰ کی امداد و اعانت جو آپ کو ہمیشہ حاصل رہی ہے اس وقت اس مدد کا ایک بڑا درجہ آپ کو دیا گیا۔
وَّيَنْصُرَكَ اللہُ نَــصْرًا عَزِيْزًا ٣ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
آیت ٣ { وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا } ” اور اللہ آپ کی مدد کرے گا ‘ بہت زبردست مدد۔ “ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مدد شامل ہوگی جسے کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔
5 Another translation can be: "Bestow on you an unprecedented victory," for the word aziz in the original may mean mighty as well as unprecedented and unparalleled. According to the first meaning, the sentence means: "By means of this treaty AIIah has helped you in a way as to make your enemies helpless"; and according to the second, it means: "Seldom has this novel method ever been adopted to help somebody, that a thing which apparently is a mere peace treaty, and that too a treaty concluded from a weak position, would turn into a decisive victory."
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم کو بے مثل نصرت بخشے ۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے ۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بے نظیر ، بے مثل اور نادر کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہو جائیں گے ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے ، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے ۔
(48:3) وینصرک اللّٰہ نصرا عزیزا جملہ ہذا کا عطف بھی لیغفرلک اللّٰہ پر ہے ل ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر نصرا عزیزا موصوف صفت مل کر مفعول ثانی۔ نصرا عزیزا۔ ایسی مدد (نصرت) کہ آپ ہمیشہ غالب رہیں گے اور کسی قسم کی کمزوری روپذیر نہ ہوگی۔ ترجمہ : اور تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست نصر فرمائے۔ صاحب تفسیر مظہری وینصرک اللّٰہ کی تفسیر میں ایک شبہ اور اس کے ازالہ میں رقمطراز ہیں :۔ ایک شبہ : ینصر کا عطف لیغفر پر ہے اور مغفرت فتح پر مرتب ہے (یعنی فتح پہلے اور مغفرت اس کے بعد ہے) خواہ اس کا جہاد اور کوشش کا نتیجہ قرار دیا جائے یا کہ شکر اور استغفار کا سبب، بہرحال مغفرت کا ترتب فتح پر ہوگا۔ اور چونکہ ینصر کا عطف یغفر پر ہے اس لئے ضروری ہے کہ نصرت کا ترتب بھی فتح پر ہو (یعنی فتح کے بعد نصرت کا وقوع ہو) مگر معاملہ برعکس ہے۔ نصرت فتح پر مقدم ہے کیونکہ سبب فتح نصرت ہے۔ ازالہ شبہ : اگر فتح سے مراف صلح حدیبیہ میں فتح کا وعدہ ہوگا اور وعدہ نصرت کا سبب ہے اور نصرت فتح پر مقدم ہے۔
ف 9 یعنی ایسی مدد جس کے بعد آپ کا کوئی دشمن آپ کو نیچا نہ دکھا سکے۔
(3) اور تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد فرمائے جو باعزت فتح کو شامل ہو اور آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو اور جو غلبہ قوی ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تجھ کو اس تحمل سے درجے بڑھے اور یہ بات اللہ نے کسی بندے کو نہیں فرمائی کہ اگلے پچھلے گناہ بخشے اگرچہ بہت بندے بخشے اس میں نڈر کردینا ہے۔ آپ کے گناہوں سے مراد وہی شان برتر کے نامناسب کام جو صورۃ خطا سمجھی جائے خواہ معنی وہ خطا نہ ہو اور کوئی ایسی خطا ہو جو صورۃ خطا ہو اور حقیقت میں خطانہ ہو وہ خطا معصومیت کے منافی نہیں۔ ایسی ہی خطائوں کو فرمایا کہ اگلی پچھلی سب بخش دیں صلح حدیبیہ کے ساتھ ان آیتوں کا تعلق ہے۔ بعض علمائے فتح مکہ سے ان آیتوں کا تعلق بیان کیا ہے لیکن راجح اور جمہور علماء کی رائے وہی ہے جو ہم نے اختیار کی ہے چونکہ یہ صلح آئندہ ہونے والی فتح کی تمہید اور سبب تھی اس لئے اس صلح کو فتح فرمادیا۔ بعض حضرات نے ماتقدم سے آدم (علیہ السلام) وحوا کی خطا اور ماتاخر سے امت کے گناہ گاروں کی خطائیں مراد لی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ضرورت نہیں۔ خطا کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں وہ راجح ہیں اور چونکہ اس صلح حدیبیہ کے بعد بعض عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں اور تبلیغ میں آسانیاں ہوئیں اور لوگ بکثرت مسلمان ہوئے اور اس صلح میں بھی آپ نے بڑی دانشمندی اور تحمل کا ثبوت دیا اس لئے آپ کے اجروثواب اور آپ کے درجات عالیہ میں زیادتی ہوئی اور یہی وجہ آپ کی تقصیرات اور خطائوں کی عام معافی کی موجب ہوئی۔ نعمتوں میں تکمیل اور احسانات کا اتمام یعنی آپ کے ہاتھ پر بہت لوگ مسلمان ہوں اور آپ کے لئے تبلیغ میں آسانیاں پیدا ہوں اور دین کی تکمیل ہوجائے اور آپ کو بغیر کسی مزاحمت اور روک ٹوک کے دین کی سیدھی راہ لے چلے اور وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ آپ کی مدد فرما کر آپ کو ایسا غلبہ دیا جائے کہ کوئی دین کی سیدھی راہ پر لے چلے اور وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ آپ مدد فرما کر آپ کو ایسا غلبہ دیا جائے کہ کوئی دین حق کا منکر آپ سے آنکھ نہ ملا سکے یعنی وہ غلبہ نہایت مضبوط اور قوی ہو۔