Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 5

سورة الفتح

لِّیُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ یُکَفِّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ۙ﴿۵﴾

[And] that He may admit the believing men and the believing women to gardens beneath which rivers flow to abide therein eternally and remove from them their misdeeds - and ever is that, in the sight of Allah , a great attainment -

تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ان جنتوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دور کردے ، اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيُدْخِلَ الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ... That He may admit the believing men and the believing women to Gardens under which rivers flow to abide therein forever, We mentioned the Hadith that Anas narrated in which the Companions said, "Congratulations, O Allah's Messenger! This good news is for you, so what good news do we have?" Allah the Exalted sent down this Ayah, لِيُدْخِلَ الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا (That He may admit the believing men and the believing women to Gardens under which rivers flow to abide therein forever), meaning they will remain in Paradise forever, ... وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّيَاتِهِمْ ... and He may expiate from them their sins; Allah will not punish them for their errors and mistakes. Rather, He will forgive, absolve and pardon them and cover the errors, grant mercy and appreciate, ... وَكَانَ ذَلِكَ عِندَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا and that is with Allah supreme success. Allah the Exalted said in a similar Ayah, فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ And whoever is removed away from the Fire and admitted to Paradise, he indeed is successful. (3:185) Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سورة فتح کا ابتدائی حصہ سنا لیغفرلک اللہ تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبارک ہو ہمارے لیے کیا ہے جس پر اللہ نے آیت لیدخل المومنین نازل فرما دی (صحیح بخاری باب غزوہ الحدیبیۃ)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] جذبات میں سکون اللہ کی طرف سے :۔ اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں آیت نمبر ٢ کے تحت درج شدہ حدیث ملاحظہ فرما لیجئے۔ یعنی حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں نے جو کمال صبر اور اللہ اور اس کے رسول کی بےچون و چرا اطاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس کا مسلمانوں کو بھی بہت اجر ملے گا اور ان مسلمان عورتوں کو بھی جنہوں نے کسی نہ کسی صورت میں اس غزوہ میں حصہ لیا تھا۔ کیونکہ مجاہدین کو بہ طیب خاطر روانہ کرنے، بعد میں گھر کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری میں عورتوں کا جتنا حصہ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالخصوص ان حالات میں کہ رسول اللہ صحابہ کی ایک کثیر تعداد کو ساتھ لے جارہے ہوں اور مدینہ کے ارد گرد دشمن ہی دشمن موجود ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(٢) لیدخل المومنین : سب سے واضح اور صحیح بات یہی ہے کہ لیدخل کا لام ھوالذی انزل السکینۃ کے متعلق ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادہ ہوجائیں اور تاکہ اس کی سکینت اور ایمان کی زیادتی کے ذریعے اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتون کو ان باغوں میں داخل کرے جن کے تلے نہریں چلتی ہیں والمومنت : مومن عورتوں کا ذکر خاص طور پر یہاں اس لئے فرمایا کہ جہاد کا اجر صرف مردوں کے ساتھ خاص نہ سمجھ لیا جائے، کیونکہ مومن عورتیں بھی جہاد میں شریک ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں، خاوندوں، بیٹوں، باپوں اور دوسرے عزیزوں کے جہاد پر نکلنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، ان کی عدم موجودگی میں تنہائی اور دوسری پریشانیوں پر صبر کرتی ہیں اور ان کی شہادت کی صورت میں بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے پر صبر کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی لشکر کے ساتھ جا کر کھانا پکانے، کپڑے دھونے، صفائی کرنے کی اور دوسری خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ لڑائی کی صورت میں مجاہدوں کو پانی پلانے ، زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماریوں کی تیمار داری کا اہتمام کرتی ہیں۔ (ابن عاشور) (٣) جنت تجری من تحتھا الانھر…: جنتوں میں داخل کرنے سے مراد یہاں خاص داخلہ ہے جو مجاہدین کے ساتھ خاص ہے ، وہ داخلہ نہیں جو محض ایمان اور عمل صالح کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے ساتھ ہی فرمایا :(ویکفر عنھم سیاتھم)” اور تاکہ وہ ان سے ان کی برائیاں دور کرے۔ “ (ابن عاشور) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان فی الجنۃ مائۃ درجۃ اعدھا اللہ للماجاھدین فی سبیل اللہ مابین الدر جتین کما بین السماء والارض فاذا سالتم اللہ فاسالوہ الفردوس فانہ اوسط الجنۃ و اعلی الجنۃ اراہ قال و فوقۃ عرش الرحمٰن ۔ ومنہ تفجر انھار الجنۃ) (بخاری، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ :2890) ” جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجادین فی سبیل اللہ کیلئے تیار فرمائے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے، تو جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ (یحییٰ بن صالح نے کہا) میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا وَيُكَفِّرَ عَنْہُمْ سَيِّاٰتِہِمْ۝ ٠ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللہِ فَوْزًا عَظِيْمًا۝ ٥ ۙ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

نبی اکرم کی یہ کرامت و فضیلت سن کر مومنوں نے عرض کیا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو فتح و مغفرت اور کرامت عطا کی ہے وہ آپ کو مبارک ہو باقی اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیں کیا صلہ ملے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ شہد شراب اور پانی کی نہریں بہتی ہوں گی اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ } ” تاکہ وہ داخل کرے اہل ِایمان مردوں اور عورتوں کو ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے ‘ اور دور کر دے ان سے ان کی برائیوں کو۔ “ { وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًا } ” اور یہی ہے اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 In the Qur'an generally mention of the rewards for the believers is made collectively and separate mention is not made of the rewards for the men and the women But here, since the general mention of giving the rewards could cause the doubt that this reward may perhaps be only meant for the men. Allah has made a separate mention of the believing women, saying that they too would be equal partners in this reward with the believing men. The reason is obvious. Those God-fearing women who encouraged their husbands, sons, brothers and fathers to proceed on the dangerous journey instead of stopping them from it and discouraging them by crying and wailing, who looked after their houses, their properties, their honor and children in their absence faithfully, who did not even feel the alarm lest at the sudden departure of 1,400 of the Companions the disbelievers and hypocrites of the surrounding areas would attack the city, should certainly have become equal partners with their men in the reward of Jihad although they stayed behind in their homes. 10 That is, that He may pardon whatever errors they might have committed because of human weaknesses, remove every trace and mark of the errors from them before admitting them into Paradise so that they may enter Paradise absolutely free from every evil that may cause them embarrassment.

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :9 قرآن مجید میں بالعموم اہل ایمان کے اجر کا ذکر مجموعی طور پر کیا جاتا ہے ، مردوں اور عورتوں کو اجر ملنے کی الگ الگ تصریح نہیں کی جاتی ۔ لیکن یہاں چونکہ یکجائی ذکر پر اکتفاء کرنے سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ اجر صرف مردوں کے لیے ہو ، اس لیے اللہ تعالی نے مومن عورتوں کے متعلق الگ صراحت کر دی کہ وہ بھی اس اجر میں مومن مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے ۔ جن خدا پرست خواتین نے اپنے شوہروں ، بیٹوں ، بھائیوں اور باپوں کو اس خطرناک سفر پر جانے سے روکنے اور آہ و فغان سے ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی ، جنہوں نے ان کے پیچھے ان کے گھر ، ان کے مال ، ان کی آبرو اور ان کے بچوں کی محافظ بن کر انہیں اس طرف سے بے فکر کر دیا ، جنہوں نے اس اندیشے سے بھی کوئی واویلا نہ مچایا کہ چودہ سو صحابیوں کے ایک لخت چلے جانے کے بعد کہیں گرد و پیش کے کفار و منافقین شہر پر نہ چڑھ آئیں ، وہ یقینا گھر بیٹھنے کے باوجود جہاد کے اجر میں اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہونی ہی چاہیے تھیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :10 یعنی بشری کمزوریوں کی بناء پر جو کچھ بھی قصور ان سے سرزد ہو گئے ہوں انہیں معاف کر دے ، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کر دے ، اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہ ہو جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:5) لیدخل۔ میں لام تعلیل کا ہے یدخل مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) واحد مذکر غائب ۔ ادخال (افعال) مصدر۔ تاکہ وہ داخل کرے۔ اس کا تعلق لیزدادوا سے ہے۔ المومنین والمؤمنت۔ معطوف علیہ معطوف مل کر مفعول فعل یدخل کا۔ جنت مفعول فیہ اسی فعل کا۔ تجری من تحتھا الانھر صفت جنت کی خلدین فیہا۔ حال ہے المؤمنین والمؤمنت سے ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جنت کی طرف راجع ہے۔ ویکفر۔ اس کا عطف لیدخل پر ہے واؤ عاطفہ ہے۔ یکفر مضارع منصوب (بوجہ عمل لام مقدرہ) واحد مذکر غائب۔ تکفیر (تفعیل) مصدر۔ وہ دور کر دے۔ وہ ساقط کردے۔ سیئاتھم : مضاف مضاف الیہ مل کر مفول یکفر کا۔ ان کے گناہ۔ ان کی برائیں۔ یدخل اور یکفر کی ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ تاکہ (اللہ) مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ایسی بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تکاہ وہ ان کے گناہ دور کر دے ۔ ذلک۔ یہ ادخال جنت و تکفر سیئات۔ فوزا عظیما۔ موصوف وصفت مل کر کان کی خبر : الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر یا مراد حاصل کرنے کے ہیں وکان ذلک عند اللّٰہ فوزا عظیما۔ اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی ہی کامیابی ہے۔ الفائزون۔ مراد کو پہنچنے والے۔ مراد کو پالینے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر ان سے جو گناہ سرزد ہوگئے انہیں معاف کر دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” لیدخل۔ الایۃ “ یہ دوسری بشارت کا دوسرا ثمرہ ہے۔ اللہ نے مومنوں کے دلوں میں سکون و طمانیت کا جذبہ پیدا کیا تاکہ وہ ثابت قدم رہیں اور جم کر دشمن کا مقابلہ کریں اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی پر تکلف اور دائمی نعمتیں عطا فرمائے اور ان کے سارے گناہ معاف کرے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔ ” من زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز “ (ال عمرن 185) ۔ یا اس سے مراد وہ مومنین ہیں جو اس صلح کے دوران ایمان لائیں گے یعنی ہم نے مومنوں کے دلوں میں لڑائی نہ کرنے کا خیال مضبوط کردیا تاکہ صلح ہوجائے اور اس طرح اللہ بہت سے مشرکین کو اسلام کی توفیق دے کر جنت میں داخل فرمائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) یہ سکینہ اس لئے نازل فرمایا اور کمال ایمانی کو اس لئے ترقی دی تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو ایسے باغوں اور ایسی بہشتوں میں دالخ فرمائے جن کے پائیں اور جن نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے اور اس لئے تاکہ ان کے گناہ ان سے زائل کرد اور دور کردے اور یہ جنت میں داخل ہونا اور گناہوں کا معاف ہوجانا اللہ کے ہاں بہت بڑی کامیابی اور مراد پانی ہے۔ یعنی نزول سکینہ سے جو اثرات قلوب پر مرتب ہوئے وہ اثرات موجب ہوئے وہ اثرات موجب ہوئے جنت میں داخل ہوکر ہمیشگی اختیار کرنا اور گناہوں کا بالکل معاف ہوجانا یہی باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ منافق اور مشرک وغیرہ اس سکینہ کی برکت سے محروم رہے آگے اس محرومی پر جو اثر مرتب ہوا اور وہ اثر جن چیزوں کا سبب بنا اس کو بیان فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔