Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 6

سورة الفتح

وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ لَعَنَہُمۡ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۶﴾

And [that] He may punish the hypocrite men and hypocrite women, and the polytheist men and polytheist women - those who assume about Allah an assumption of evil nature. Upon them is a misfortune of evil nature; and Allah has become angry with them and has cursed them and prepared for them Hell, and evil it is as a destination.

اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالٰی کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں ۔ ( دراصل ) انہیں پر برائی کا پھیرا ہے اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ ( بہت ) بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ... And that He may punish the hypocrites, men and women, and also the idolators, men and women, who think evil thoughts about Allah, who question the wisdom in Allah's decisions and think that the Messenger and his Companions, may Allah be pleased with them, might be killed and exterminated. This is why Allah the Exalted said, ... عَلَيْهِمْ دَايِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ ... for them is a disgraceful torment. And the anger of Allah is upon them, and He has cursed them, (He has cast them away from His mercy), ... وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا and prepared Hell for them -- and worst indeed is that destination. Allah the Exalted and Most Honored asserted His ability to take revenge from the enemies of Islam and all disbelievers and hypocrites, وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6 ۔ 1 یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر مہتم کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہوجائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ (ابن کثیر) 6۔ 1 یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو انہی کا مقدر بننے والی ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] منافقوں کا گمان کہ اب مسلمان کبھی واپس نہ آسکیں گے :۔ غزوہ حدیبیہ میں کوئی منافق شریک نہ ہوا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس غزوہ میں اموال غنیمت کا کوئی قصہ ہی نہ تھا۔ اور مسلمان محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کرنے جارہے تھے تو کافروں نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور حالات کشیدہ ہوتے گئے تو یہ خبریں مدینہ میں پہنچ رہی تھیں۔ چناچہ منافقوں نے خوب بغلیں بجانا شروع کردیں کہ پہلے تو قریش مکہ یہاں اپنے وطن سے بہت دور آکر لڑائی کرتے تھے لیکن اب مسلمان خود ان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ اب یہ وہاں سے بچ کر کبھی نہ آسکیں گے۔ اس صلح سے اور مسلمانوں کے بخیر و عافیت واپس مدینہ پہنچ جانے سے منافقوں کی دل کی جلن میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے درپردہ کئی منصوبوں پر پانی پھر گیا یہی ان کے لئے کافی سزا تھی۔ دوسری طرف مشرکین مکہ اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے کہ وہ مسلمانوں سے اپنی من مانی شرائط ان تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ بعد میں یہی شرائط ان کی جڑ کاٹ دینے والی ثابت ہوئیں۔ سب سے توہین آمیز شرط یہ تھی کہ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو قریش مکہ اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کریں گے۔ اس شرط کا جو نتیجہ نکلا اس کا حال ہم ابتدا میں لکھ چکے ہیں۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قبائل عرب میں سے جو کوئی فریقین میں سے کسی کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش مکہ کے۔ بنو خزاعہ اور بنوبکر میں جھگڑا ہوگیا تو قریش مکہ نے صلح نامہ حدیبیہ کے علی الرغم بدعہدی کرکے اپنے حلیف بنو بکر کی مدد کی اور بنو خزاغہ پر زیادتی کی۔ چناچہ مشرکین مکہ کی یہی بدعہدی فتح مکہ، ان پر وبال اور ان کے زوال کا سبب بن گئی۔ تیسری شرط یہ تھی کہ فریقین دس سال تک جنگ نہیں کریں گے۔ اس شرط کا حشر یہ ہوا کہ جب بنو خزاعہ نے جا کر مدینہ میں آپ سے فریاد کی اور قریش مکہ کی زیادتی اور بدعہدی کا ذکر کیا تو اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کے لئے خود ابو سفیان کو مدینہ جاکر منتیں کرنا پڑیں۔ پھر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ اور چوتھی شرط یہ تھی کہ مسلمان اگلے سال آکر عمرہ کریں گے اور تین دن کے لئے مشرکین مکہ اس شہر کو خالی کردیں گے۔ اس شرط پر ٹھیک طور پر عمل درآمد ہوا۔ اور یہ مسلمانوں کی انتہائی دیانتداری اور شرافت تھی کہ وہ اپنے عہد کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمرہ کرکے تین دن کے بعد واپس چلے گئے۔ مسلمانوں کے بجائے کوئی اور ہوتا تو جس طرح شہر خالی پڑا تھا فوراً اس پر قبضہ کرلیتا۔ اور یہ خطرہ مشرکین مکہ کو بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور مشرکوں کی آرزوؤں اور تدبیروں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ان کی تدبیریں انہی پر الٹ پڑیں۔ بعد میں انہیں جو عذاب دنیا میں دیکھنے پڑے یا آخرت میں ان سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ مستزاد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ویعذب المنفقین والمنفقت…: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت کی بدولت ایمان والے مجاہد مردوں اور عروتوں کے جنت میں داخلے کے ذکر کے بعد ان لوگوں کو عذاب دینے کا ذکر فرمایا جو اس غزوہ کے نتیجے میں اللہ کے غضب اور لعنت کا نشانہ بنے اور جہنم ان کا ٹھکانا بنی۔ منافقین و کافر کو یہ عذاب مسلمانوں کی تول اورں کے ساتھ بھی دیا گیا، جیسا کہ فرمایا (قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم) (التوبۃ : ١٣)” ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ اور مسلسل خوف اور رسوئای کے ساتھ بھی اور مسلمانوں کی کامیابیاں اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کی صورت میں بھی۔ آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں منافقین کا ذکر کفار سے پہلے کرنے کا مقصد مسلمانوں کو آگاہ کرنا عذاب اس کے علاوہ اور ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں منافقین کا ذکر کفار سے پہلے کرنے کا مقصد مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ منافقین کا کفر پوشیدہ ہے، اسلئے وہ زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو نہ انہیں بھولنا چاہیے اور نہ ان سے کبھی غافل ہونا چاہیے۔ منافق اور مشرک مردوں کے ساتھ منافق اور مشرک عورتوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ وہ بھی ان کی پوری طرح راز دار ، ہر طرح سے معاون اور تمام سازشوں میں شریک ہیں۔ (٢) الظانین باللہ ظن السوہ :” منافقین “ سے مراد مدینہ منورہ کے منفاقین ہیں اور ” مشرکین “ سے مراد مکہ معظمہ کے مشرکین۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب دیا، اس لئے کہ منافقین کا اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ غلط گمان تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ جکرام (رض) جو عمرہ حدیبیہ ادا کرنے کیلئے آپ کے ساتھ گئے ہیں وہ واپس مدینہ نہیں آسکیں گے، مشرکین انھیں وہیں تباہ و برباد کردیں گے اور مشرکین نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے دین کو مٹنے سے نہیں بچا سکے گا اور کفر کا کلمہ بند ہو کر رہے گا۔ (قرطبی وغیرہ) (٣) علیھم دآئرۃ السوئ : اس جملے کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٩٨) کی تفسیر۔ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے :” ای الظانین باللہ ظن السوہ والمتربصین لکم الدواثر، علیھم دائرۃ السوئ “ ” تاکہ ان منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کو عذاب دے) جو اللہ کے متعلق براگمان کرنے والے اور تم پر زمانے کی گردشوں کا انتظار کرنے والے ہیں، بری گردش خود انھی پر آنے والی ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ الظَّاۗنِّيْنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوْءِ۝ ٠ ۭ عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ۝ ٠ ۚ وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝ ٦ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تاکہ ان کے دنیوی گناہوں کو معاف کردے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے کہ ان لوگوں نے جنت اور اس کی نعمتیں حاصل کرلیں اور دوزخ اور اس کی سختیوں سے محفوظ رہے۔ جب عبداللہ بن سلول نے مومنین کی یہ فضیلت سنی تو دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ واللہ ہم بھی ان ہی جیسے ہیں تو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس کیا ہوگا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کا اگلہ حصہ نازل فرمایا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد نہیں فرمائے گا اور ان پر برا وقت پڑنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر غضبناک ہوگا اور ان کو ہر ایک بھلائی اور رحمت سے دور کردے گا اور ان کے لیے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { وَّیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْئِ } ” اور (تاکہ) اللہ سزا دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بہت ُ برے گمان رکھنے والے ہیں۔ “ یہ الفاظ سورة الاحزاب کی آخری آیت کے الفاظ سے گہری مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں۔ سورة الاحزاب ٥ ہجری میں نازل ہوئی تھی جبکہ سورة الفتح ٦ ہجری میں۔ { عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ } ” انہی پر مسلط ہے برائی کا دائرہ۔ “ یعنی برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ہیں۔ { وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا } ” اور اللہ ان پر غضبناک ہوا ہے اور اس نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹنے کی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The hypocrites living in the suburbs of Madinah were thinking, as has been stated in verse 12 below, that the Holy Prophet and his Companions would not return alive from that journey. As for the polytheists of Makkah and their pagan companions, they were thinking that they had successfully put to rout the Holy Prophet and his Companions by preventing them from performing `Umrah. In fact, whatever these two groups had thought they had this misunderstanding about Allah that He would not help His Messenger and in the conflict between the Truth and falsehood would allow falsehood to defeat and frustrate the Truth. 12 That is, "They were encompassed by the same evil fate which they wanted to avoid and against which they had devised all those plans, and their same plans caused the evil fate to be hastened."

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :11 اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا ، جیسا کہ آگے آیت 12 میں بیان ہوا ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے ۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار ، تو وہ اس خیال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمرے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں گواہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہہ میں درحقیقت اللہ تعالی کے متعلق یہ بدگمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :12 یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں ، اسی کے پھیر میں وہ آ گئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی وہ اپنے خیال میں مسلمانوں کے خلاف برے برے منصوبے بناتے ہیں، لیکن برائی کے پھیر میں وہ خود پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف ان کے منصوبے ناکام ہوں گے، اور دوسری طرف انہیں اللہ تعالیٰ کے قہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:6) ویعذب : واؤ عاطفہ۔ یعذب کا عطف بھی یدخل پر ہے۔ کیونکہ یہ بھی عطاء سکینہ کی علت کا جزو ہے (جب مومنوں نے صلح حدیبیہ اور دوسرے امور میں اللہ کے حکم کی تعمیل کی تو منافقوں اور مشرکوں نے اہل ایمان کے دین پر طنز کیا۔ اور مسلمانوں کو غضب آلود کردیا۔ اور اللہ کے متعلق بدگمانی کی اور یہی سبب ہوگیا ان پر اللہ کے عذاب نازل ہونے کا) المنفقین : منافق کی جمع ہے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے ، دوزخی کرنے والے۔ یعنی زبان و عمل سے بظاہر مسلمان اور دل سے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھنے والے سے گوہ داخل ہوتی ہے اور شکاری اس سوراخ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ دوسرے سوراخ سے باہر نکل جاتی ہے (تبریزی) نفاق اور منافقت اصطلاح قرآنی میں اسی دوزخی کا نام ہے بظاہر آدمی زبان سے مومن ہونے کا اقرار کرتا ہے اور دکھاوٹ کی نمازیں پڑھتا ہے لیکن دل میں کافر رہتا ہے اور اسلام کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ایسے آدمی کو عرف شریعت میں منافق کہا جاتا ہے لیکن اگر عقیدہ مومنانہ ہو اور عمل کا فرانہ تو دوزخی کی یہ بھی ایک شکل ہوتی ہے ایک دروازے سے آدمی اسلام کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستہ سے خارج ہوتا نظر آتا ہے لیکن قرانی اصطلاح میں ایسے آدمی کو منافق نہیں کہا جاتا بلکہ فاسق اور عاصی کہا جاتا ہے۔ (شرح عقائد نسفی) ۔ نفق الشیء وہ چیز چلی گئی۔ کسی چیز کے چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) ختم ہوجانا۔ کچھ باقی نہ رہنا۔ جیسے نفقت الدراہم۔ روپیہ سب خرچ ہوگیا کچھ باقی نہیں بچا۔ اس کا مصدر نفق ہے باب سمع ہے (2) مرجانا۔ جیسے نفقت الدابۃ گھوڑا مرگیا اس کا مصدر نفق ہے اور باب نصر ہے۔ (3) چیزوں کا خوب لین دین ہونا۔ مال خوب بکنا۔ بازار کا پررونق ہوجانا۔ فقیہ ہوجانا ۔ سب مال ختم ہوجانا۔ الظانین باللّٰہ ظن السوئ۔ یہ جملہ منافقین اور منافقات اور مشرکین و مشرکات کی تعریف ہے۔ یعنی جو اللہ کے بارے میں بڑے بڑے گمان رکھتے ہیں۔ الطانین۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے ظان کی جمع ہے بحالت نصب و جر ۔ ظن ایک کثیر المعانی لفظ ہے ہر معنی اپنے موقع و محل کے مطابق لیا جائے گا ۔ ظن بمعنی خیال۔ اٹکل۔ گمان ، تخمینی بات، علم، یقین، شک وغیرہ وغیرہ۔ ظن وہ اعتقاد راجح ہے کہ جس میں اس کے خلاف پائے جانے کا احتمال ہو۔ یہ ظن یظن (باب نصر) سے کبھی مصدر ہوکر استعمال ہوتا ہے اور کبھی اسم ہوکر جب بمعنی اسم ہو تو اس کی جمع ظنون آتی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تفسیر الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں :۔ ظن کے اصل معنی اعتقاد راجح کے ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے ان ظنا ان یقیما حدود اللّٰہ (2:230) اگر وہ دونوں گمان غالب رکھتے ہوں کہ خداوندی ضابطوں کو قائم رکھ سکیں گے۔ اور کبھی یقین کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے الذین یظنون انھم ملقوا ربھم (2:46) جن کو یقین ہے کہ ان کو ملنا ہے اپنے رب سے۔ ابن ابی حاتم وغیرہ نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ظن کا استعمال یقین مستعمل نہیں ہوا ہے تسلیم کرنا مشکل ہے جیسا کہ پہلی ہی آیت ہے۔ اور زرکشی نے برہان میں کہا ہے کہ قرآن مجید میں اس فرق کو سمجھنے کے لئے کہ کہاں ظن کا استعمال یقین کے معنی میں ہے اور کہاں شک کے معنی میں ؟ دو ضابطے ہیں :۔ (1) جہاں ظن کی تعریف آئی ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے وہاں یقین مراد ہے اور جہاں اس کی مذمت واقع ہوئی ہے اور اس پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے وہاں شک کے معنی ہوں گے۔ (2) ہر وہ ظن جس کے بعد ان خفیفہ ہوگا وہاں شک کے معنی ہوں گے جیسے بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابدا (48:12) بلکہ تمہیں شک تھا کہ رسول اور مؤمنین اپنے اہل و عیال میں اب لوٹ کر ہی نہیں آئیں گے۔ اور ہر وہ ظن جہاں اس کے ساتھ ان مشددہ متصل ہوگا وہاں بمعنی بیشک مجھے یقین تھا کہ مجھ کو ملنا ہے میرا حساب : اور وظن انہ الفراق (75: 28) اور یقین جانا کہ اب آیا وقت جدائی کا ۔ چناچہ بجائے ظن کے ایقن انہ الفراق کی قرات بھی مروی ہے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے مشددہ چونکہ تاکید کے لئے وضع کیا گیا ہے اس لئے وہ یقین کے موقع پر آتا ہے اور حفیفہ میں چونکہ یہ بات نہیں اس لئے وہ شک کے موقع پر استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مشددہ کا ستعمال علم میں ہوا کرتا ہے جیسے فاعلم انہ لاالہ الا اللّٰہ (47:19) سو یقین رکھ کر کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے۔ اور مخففہ کا حسبان (گمان کرنے ) میں چناچہ ارشاد ہے کہ :۔ وحسبوا ان لاتکون فتنۃ (5:71) اور انہوں نے گمان کیا کہ کچھ خرابی نہ ہوگی۔ راغب نے اس قاعدہ کو بیان کرکے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ وظنوا ان لا ملجا من اللّٰہ الا الیہ (9:118) اور انہوں نے یہ یقین کرلیا کہ اللہ سے خود اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔ میں یہ ضابطہ نہیں چلتا۔ کیونکہ یہاں باوجود ان خفیفہ کے یقین کے معنی ہیں لیکن اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہاں ان کا اتصال ملجا سے ہے جو کہ اسم ہے اور امثلہ سابقہ میں اس کا اتصال فعل سے تھا۔ اس جواب کو برہان میں نقل کرکے لکھا ہے کہ اس ضابطہ کو ہاتھ سے نہ دو کیونکہ یہ اسرار قرآن میں سے ہے۔ (ماخوذ از لغات القرآن تفصیل کے لئے وہاں ملاحظہ ہو) ۔ ظن السوئ۔ اللہ کی بابت بہت بڑا برا ظن رکھنے والے۔ یا گمان رکھنے والے۔ مثلا یہ کہ اللہ اپنے رسول اور اہل ایمان کی مدد نہیں کرے گا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے کو صحیح و سلامت نہیں لوٹیں گے۔ جیسا کہ آگے چل کر آیت 12 میں ہے : ۔ بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اھلیہم ابدا۔ (بلکہ تم یہ سمجھ رکھا تھا کہ یہ پیغمبر اور ایمان والے کبھی پھر کر اپنے اہل و عیال کی طرف نہیں آئیں گے) ۔ علیہم دائرۃ السوئ۔ یہ جملہ دعائیہ ہے اور اللہ کے متعلق برا گمان رکھنے والوں کے لئے بددعا ہے۔ انہیں پر بری گردش پھرے دائرۃ مصدر ہے دار یدور (باب نصر، دور مادہ) کا اسم فاعل کے وزن پر۔ یا یہ اسم فاعل بھی ہوسکتا ہے اسی باب سے دور ان مصدر بھی ہے داریدور کا۔ دائرۃ خط محیط (سرکل) کو کہتے ہیں ۔ یہ داریدور دوران سے ہے۔ جس کے معنی چکر کاٹنا کے ہیں۔ پھر مصیبت، گردش زمانہ کو بھی دائرۃ کہا جاتا ہے اسی مناسبت سے زمانہ کو الدواری کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی گردشیں بھی انسان پر گھومتی رہتی ہیں۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے :۔ والدھر بالانسان دواری کہ زمانہ انسان کو گھما رہا ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے :۔ نخشی ان تصیبنا دائرۃ (5:52) ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے دائرۃ کی جمع دوائر آتی ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے :۔ ویتربص بکم الدوائر علیہم دائرۃ السوء (9:98) اور تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں انہیں پر بری مصیبت (واقع) ہو۔ یعنی تباہی اور بربادی انہیں ہر طرف سے اس طرح گھیر لے جیسا کہ کوئی شخص دائرہ کے اندر ہوتا ہے اور ان کے لئے اس بربادی سے نکلنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ غضب اللّٰہ علیہم : غضب ماضی بمعنی مستقبل۔ واحد مذکر غائب۔ غضب (باب سمع مصدر۔ غضب علیہ۔ غضب ناک ہونا۔ غضب اسم فعل۔ سخت غصہ۔ بہت غصہ ہونا۔ انتقام کے لئے دل کے خون میں جوش آکر گردن کی رگیں پھول جانا اور آنکھیں سرخ ہوجانا۔ گویا بدن کے اندر ایک آگ بھڑک اٹھنا۔ لیکن اللہ کے غضب سے مراد انتقام۔ سخت عذاب دینا۔ غضب اللّٰہ علیہم۔ اللہ ان پر غضب ناک ہوا۔ غصہ ہوگا۔ (الماجدی) ولعنہم : لعن ماضی واحد مذکر غائب۔ لعن باب فتح مصدر۔ اس نے لعنت کی، وہ لعنت کرے گا۔ وہ رحمت سے دور کر دے گا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر وہ ان کی رحمت سے دور کر دے گا۔ (ایضا) واعدلہم جھنم۔ واؤ عاطفہ۔ اعد ماضی واحد مذکر غائب ۔ اعداد (افعال) مصدر۔ اعداد۔ عد سے مشتق ہے جس کے معنی شمار کرنے کے ہیں اس اعتباد سے اعداد کے معنی کسی چیز کے اس طرح تیار کرنے کے ہیں کہ شمار کی جاسکے۔ جھنم : دوزخ ۔ اسم مفعول واحد مؤنث۔ اور اس نے ان کے لئے دوزخ تیار رکھی ہے۔ وساءت مصیرا : ساءت ماضی واحد مؤنث غائب ، ضمیر واحد مؤنث غائب جھنم کے لئے ہے۔ سوء باب نصر مصدر سے۔ وہ بری ہے۔ مصیرا بوجہ تمیز کے منصوب ہے۔ اسم ظرف مکان۔ لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانا۔ قرار گاہ۔ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 منافقین سے مراد مدینہ منورہ کے منافین ہیں اور مشرکوں سے مراد مکہ معظمہ کے مشرکین۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذلت و رسوائی کی سزا دی اور وہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غلط توقع رکھتے تھے کہ آنحضرت اور صحابہ کرام جو غزوہ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ گئے ہیں وہ مدینہ واپس نہیں آسکیں گے اور مشرکین ان کو تباہ و برباد کردیں گے اور مشرکین نے یہ سمجھ رکھات ھ کہ اللہ ہرگز اپنے دین کو مٹنے سے نہ بچا سکے گا اور کفر کا کلمہ بلند ہو کر رہے گا۔ (قرطبی وغیرہ) 3 جس سے بچنے کے لئے انہوں نے ہزار جتن کئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ چناچہ مشرکین چند ہی روز بعد مقتول و ماخوذ ہوئے اور منافقین کی تمام عمر حسرت اور پریشانی میں کٹی کہ اسلام بڑہتا تھا اور وہ گھٹتے جاتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صحابہ (رض) کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید سنانے کے بعد منافقین اور مشرکین کو دنیا اور آخرت کی ذلت سے آگاہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو دنیا میں ان کے کیے کی سزا دی کیونکہ منافق اور مشرک اپنے اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے تھے اور مسلمانوں کے بارے میں برا سوچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا میں لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ مدینے کے منافق مرد اور منافق عورتوں کا خیال تھا کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کی طرف جا رہے ہیں اس لیے بچ کر واپس نہیں آئیں گے۔ یہی سوچ مشرکین مکہ اور ان کی عورتوں کی تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اس بار مسلمان ہمارے ہاتھوں بچ کر نہیں جاسکیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا مشرکین مکہ پر اس طرح رعب ڈال دیا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کی ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زمین و آسمانوں کے لشکر اللہ کے اختیار میں ہیں اور وہ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے اس کے فیصلوں کو زمین و آسمانوں کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی اور اس کے ہر حکم میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ (ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ ) (التوبۃ : ٢٦) ” پھر اللہ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی، اور وہ لشکر اتارے جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور ان لوگوں کو سزا دی جنہوں نے کفر کیا اور یہی کافروں کی سزا ہے۔ “ ” اور اہل کتاب اور مومن کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جہنم کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔ “ (المدثر : ٣١) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں منافق مرد اور منافق عورتیں، مشرک مرد اور مشرک عورتیں بداعتقادی اور بد ظنی رکھتے ہیں۔ ٢۔ منافق اور مشرک ہمیشہ مسلمانوں کے نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ٣۔ منافق مرد اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ان پر لعنت برستی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور مشرکین کے لیے جہنم تیار کی ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ ٥۔ زمین و آسمانوں کے لشکر ” اللہ “ کے اختیار میں ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کے بارے میں منافقین اور مشرکین کی بری سوچ اور ان کی سزا : ١۔ منافق ” اللہ “ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ : ٩) ٢۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ( المنافقون : ١) ٣۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) ٤۔ مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٤) ٥۔ کفار اور مشرک اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ (التوبہ : ٣٢) ٦۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٧۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اللہ کی حکمت کا ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے ، جو اللہ نے اس واقعہ میں رکھا ہوا تھا یہ کہ منافقین اور منافقات کو سزا دے اور مشرکین اور مشرکات سے ایسے کاموں کا صدور ہو اور وہ سزاؤں کے مستحق ہوجائیں۔ ویعذب المنفقین والمنقت ۔۔۔۔۔۔۔ وساءت مصیرا (٦) واللہ جنود ۔۔۔۔۔ عزیز حکیما (٤٨ : ٧) ” اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ، اللہ کا غضب ان پر ہو اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم مہیا کردی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ زمین اور آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ اس آیت میں اللہ نے مشرکین اور مشرکات ، منافقات اور منافقین کو صفت سوء ظن میں شریک کیا ہے اور اس صفت میں کہ ان کو یقین نہ تھا کہ اللہ مومنین کی امداد کرے گا۔ اس لیے اللہ نے ان کو اس سزا میں بھی شریک رکھا کہ ان پر برائی کا پھیر آگیا اور یہ خود ہی گھیرے گئے۔ اور یہ برائی ان پر پڑنے والی ہے ۔ اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے اور سب پر اللہ کی لعنت ہے اور ان سب کا انجام بھی برا ہے اور یہ اس میں شریک ہیں۔ یہ اس لیے کہ نفاق ایک بہت ہی ذلیل حرکت ہے۔ یہ شرک کے برابر ہے بلکہ شرک سے بھی بری ہے اور گری ہوئی حرکت ہے۔ اور مسلمانوں کو اذیت دینے میں ان منافقین اور منافقات کا کردار مشرکین اور مشرکات سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ دونوں کی اذیتوں کا دائرہ اور نوعیت مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کی اہم صفت یہ قرا ردی ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں بدگمانیاں کرتے ہیں۔ ایک مومن اپنے رب کے ساتھ حن ظن رکھتا ہے اور ہمیشہ اللہ سے خیر چاہتا ہے۔ اور خیر کی توقع کرتا ہے خواہ اس کے حالات اچھے ہوں یا وہ مشکلات میں ہو۔ وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے کہ دونوں حالات میں اللہ سے بھلائی چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا دل اللہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ بھلائی کے چشمہ کو کبھی بند نہیں فرماتا۔ جب انسان کا قلب واصل باللہ ہو تو وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے اور براہ راست اس کا ذائقہ محسوس کرتا ہے۔ رہے منافق اور مشرک تو ان کو تعلق باللہ کی نعمت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ اس حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے اندر پاتے ہیں۔ پس وہ اللہ کے ساتھ سوء ظن کرتے ہیں اور صرف ظاہری امور کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور اپنے احکام کو ظاہری امور پر مبنی کرتے ہیں۔ جب کوئی ظاہری علامات ان کو نظر آتی ہیں تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ان پر بھی مصیبت آگئی اور مسلمانوں پر بھی۔ ان کو اللہ کی تقدیر اور تدبیر پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ کی تقدیر اور تدبیر بعض اوقات نظروں سے اوجھل ہو کر کام کرتی ہیں۔ اس آیت میں اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مختلف انواع و اقسام کو جمع کیا ، ان کا حال بیان کیا اور بتایا کہ ان کے لئے کس قدر برا انجام ہے اور آخر میں بتایا کہ ان کا سوء ظن غلط ہے۔ اللہ کی قدرت وسیع اور حکمت دور رس ہے۔ وللہ جنود السموت والارض وکان اللہ عزیز حکیما (٤٨ : ٧) ” زمین و آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست و حکیم ہے “۔ لہٰذا ان دشمنان اسلام کی کوئی بات اللہ کو عاجز نہیں کرسکتی ، ان کی کوئی سرگرمی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو زمین و آسمان کی قوتوں کا مالک ہے اور عزیز و حکیم ہے۔ اس کے بعدنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رخ کیا جاتا ہے کہ آپ کا فرض منصبی کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے فرائض کیا ہیں۔ آپ نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ وہ ایمان لا چکے ، بیعت الرضوان میں براہ راست اللہ سے بیعت بھی کرچکے ۔ یہ عہد انہوں نے براہ راست اللہ سے کیا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ہی عظیم مقام ہے جس تک وہ پہنچ گئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس بیعت اور عقد کی ذمہ داریاں بھی عظیم ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ویعذب المنفقین۔ الایۃ “ یہ ” یدخل “ پر معطف ہے اور دوسری بشارت کا تیسرا ثمرہ اور وہ منافقوں اور مشرکوں کے دلوں کو تمہارے خلاف غیظ و حسد سے بھر دے گا اور ساتھ ہی ان پر تمہاری بہادری اور تمہارے ثبات و استقلال کا ان کے دلوں پر رعب طاری کردے گا اور تمہارے ہاتھوں ذلت آمیز شکست دے کر ان کو رسوا کن سزا دے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا سے بد گمانی کرتے ہیں۔ اور جن کا خیال یہ ہے کہ اللہ اپنے پیغمبر (علیہ السلام) اور مومنوں کی مدد نہیں کرے گا لیکن اس بدگمانی کا نتیجہ خود ان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ دنیا میں اللہ ان کو اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب و مقہور فرمائے گا اور وہ اللہ کے غضب و لعنت کا مورد بنیں گے اور ان کا دائمی ٹھکانا جہنم میں ہوگا جو نہایت برا ٹھکانا ہے۔ ” وللہ جنود السموات والارض “۔ یہ سابقہ جملہ معترضہ کا اعادہ ہے برائے تاکید۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی فوجوں کا مالک ہے اور سب پر غالب اور حکمت کا بادشاہ ہے وہ منافقوں اور مشرکوں کو مغلوب و رسوا اور اہل ایمان کا غالب و معزز کرسکتا ہے۔ فلو اراد اھلاک المنافقین والمشرکین لم یعزہ ذلک ولکن یوخرھم الی اجل مسمی (قرطبی ج 16 ص 266) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) نیز اس لئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور ان مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو سخت سزا دے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت برے برے گمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں کیا کرتے ہیں ان لوگوں پر بری گردش واقع ہونے والی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوگا اور ان پر لعنت کرے گا اور ان کو اپنی رحمت سے دور کردے گا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جہنم تیار کررکھی ہے اور وہ جہنم بہت ہب برا ٹھکانا ہے۔ یعنی سکینہ کی محرومی کا یہ اثر مرتب ہوا کہ منافق اپنے نفاق پر اور مشرک اپنے شرک پر قائم رہے اور کافر اپنے کفر پر جمے رہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں کرتے رہے۔ بیچ میں فرمایا انہی پر بری گردش آنے والی ہے یہ بری گردش تو دنیا میں ہوگی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا غصہ اور اس کی رحمت سے دوری۔ اور جہنم کو برا ٹھکانا فرمایا اور واقعی جہنم سے برا ٹھکانا اور ہو بھی کیا سکتا ہے ۔ بہرحال ! یہ کفر وشرک اور نفاق ان کے عذاب اور غضب الٰہی کا موجب ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں جنت کی طلب نقصان ہے یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں یہی بڑا کمال ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے اور فرمایا بڑی اٹکلیں یہ کہ مدینے چلتے وقت منافق بہانے کرکے بیٹھ رہے جانا کہ یہ لڑائی میں تباہ ہوں گے وطن سے دور ہے اور فوج کم اور دشمن کا دیس اور کفاروں نے جانا کہ عمرے کے نام سے آئے ہیں چاہتے ہیں دغا سے شہر مکہ لے لیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) کے زمانے میں کچھ جاہل پیر ایسے بھی تھے جو اپنے مریدوں کو جنت کی دعا مانگنے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے جنت مانگ کر ہم اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے ہم تو وصال چاہتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے وکان ذلک عنداللہ فوزاً عظیماً سے اس کا رد فرمایا اور بدگمانیاں یعنی بری اٹکلیں کرنے لگے اور یہ خیال کر بیٹھے کہ اتنی دور لڑنے جارہے ہیں ان مسلمانوں کی قضالے جارہی ہے چناچہ گائوں کے اکثر لوگ گھروں میں بیٹھے رہے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئے بدگمانی کرنے والوں کو بیچ میں فرمایا تھا کہ ان پر ہی بری گردش پڑنے والی ہے چناچہ مسلمانوں کی فتح یابی کے بعد ان بدگمانی کرنے والوں پر جو گزری اس کا اندازہ آج کرنا مشکل ہے۔ جب ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کفر کو سمٹتے ہوئے اور اسلام کو پھیلتے ہوئے دیکھا ہوگا تو ان کے کلیجے پر سانپ لوٹتا ہوگا اور اپنی موت نظر آتی ہوگی اور آخرت میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ ابھی باقی ہے۔