Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 7

سورة الحجرات

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

And know that among you is the Messenger of Allah . If he were to obey you in much of the matter, you would be in difficulty, but Allah has endeared to you the faith and has made it pleasing in your hearts and has made hateful to you disbelief, defiance and disobedience. Those are the [rightly] guided.

اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ تعالٰی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ... And know that among you there is the Messenger of Allah. `know that among you is the Messenger of Allah. Therefore, honor and respect him, be polite with him and obey his orders. For he is more knowledgeable about what benefits you and is more concerned with you than you yourselves are. His opinions in such matters are more complete than your own.' Allah the Exalted and Most Blessed said in another Ayah, النَّبِىُّ أَوْلَى بِالْمُوْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ The Prophet is closer to the believers than themselves, (33:6). Then He clarifies that they fall short in overseeing their own benefit; ... لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الاَْمْرِ لَعَنِتُّمْ ... If he were to obey you in much of the matter, you would surely be in trouble. `if he obeys all of your opinions and desires, you will earn trouble and hardship.' Allah the Exalted and Most Honored said, وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَـوَتُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَـهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُونَ And if the truth had been in accordance with their desires, verily, the heavens and the earth, and whosoever is therein would have been corrupted! Nay, We have brought them their reminder, but they turn away from their reminder. (23:71) Allah's statement, ... وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الاِْيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ ... But Allah has endeared the faith to you and has beautified it in your hearts, `made faith dear to your souls and beautified it in your hearts.' Allah said, ... وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ... and has made disbelief, Fusuq and `Isyan hateful to you. `He has made disbelief, sins, whether major or minor, and `Isyan -- all types of sins, hateful to you.' This statement transfers us from one level to a better level, to perfect Allah's bounty. Allah's statement next, ... أُوْلَيِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ Such are they who are the rightly guided. those who have these qualities are the rightly guided ones whom Allah has granted guidance and correctness. Imam Ahmad recorded that Abu Rifa`ah Az-Zuraqi said that his father said, "During the battle of Uhud, when the idolators retreated, the Messenger of Allah said, اسْتَوُوا حَتْى أُثْنِيَ عَلَى رَبِّي عَزَّ وَجَل Stay in straight lines so that I praise my Lord, the Exalted and Most Honored. They stood behind him in lines and he said, اللْهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ اللْهُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ وَلاَ هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ وَلاَ مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ وَلاَ مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ اللْهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ اللْهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لاَ يَحُولُ وَلاَ يَزُولُ اللْهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ وَالاَْمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ اللْهُمَّ إِنِّي عَايِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا وَمِنْ شَرِّ مَا مَنَعْتَنَا اللْهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الاْيمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ اللْهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ مَفْتُونِينَ اللْهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ اللْهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلهَ الْحَق O Allah! Your is the praise. O Allah! There is none who can withhold what You send, or send what You withhold, or guide whom You send astray, or misguide whomever You guide, or give what You deprive, or deprive whom You give, or draw closer whom You cast or cast whom You draw closer. O Allah! Bestow on us from Your blessings, mercy, grace and provisions. O Allah! I ask You for the eternal delight that never ends or fades away. O Allah! I ask You for provisions on the Day of deprivation and safety on the Day of fear. O Allah! I seek refuge with You from the evil repercussions of what You have given us and from the evil of what You have deprived us of. O Allah! Make faith dear to us and beatify it in our hearts and make disbelief, Fusuq and `Isyan hateful to us, and make us among the rightly guided. O Allah! Allow us to die as Muslims, live as Muslims and join us with the ranks of the righteous ones, without tasting humiliation or turmoil. O Allah! Fight the disbelievers who deny Your Messengers and hinder others from Your path; send on them Your torment and punishment. O Allah! Fight the disbelievers who were given the Scriptures, the True God." An-Nasa'i collected this Hadith in `Amal Al-Yawm wal-Laylah. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کردیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ) 23 ۔ المؤمنون :71) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] اپنی خواہش کو حق کے پیچھے چلانے کی ادا سیکھو :۔ یعنی تم لوگوں کے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ ایسی خبریں تم ان تک پہنچا دو اور خود رائے زنی نہ کرنے لگ جاؤ۔ بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو جو وہ کہیں اسے تسلیم کرو۔ اگر وہ تمہارا مشورہ قبول نہیں کرتے تو اس کا برا نہ مانو۔ اگر وہ تم سب کے مشورے اور آراء قبول کرنے لگیں تو تمہاری بھی آراء آپس میں مختلف اور متضاد ہوتی ہیں۔ اس صورت میں تو تم پر اور کئی مصیبتیں پڑجائیں گی۔ لہذا حق کو اپنی خواہشات کے پیچھے نہ چلاؤ۔ بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کو حق کے تابع کردینے کی ادا سیکھو۔ [٩] تم پر یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ تمہیں کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے کاموں سے نفرت ہوچکی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور رسول کی اطاعت میں تم راحت اور خوشی محسوس کرتے ہو۔ لہذا معاشرتی آداب کے سلسلہ میں ان ہدایات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کرو جو تمہیں اب دی جارہی ہیں۔ اسی صورت میں تم ہدایت یافتہ ہوسکتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واعلموا ان فیکم رسول اللہ : ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے، اس کے باوجود فرمایا :” اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنفس نفیس موجود ہونے اور آپ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننی چاہیے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آواز دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کا رروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ سالئے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو ! تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ (٢) لویطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم : یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبین ہے اس لئے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید یکم العسر) (البقر ١: ١٨٥)” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ “ اور رسول کو بھی تمہارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں فرمایا :(عزیز علیہ ما عنثم حریص علیکم) (التوبۃ : ١٢٨” اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حصر رکھنے والا ہے۔ “ اس کے برعکس اگر رسول تمہاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑجاؤ گے، کیونکہ اول تو تمہاری سب کی بات ایک نہیں ہوگی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا ؟ پھر تمہارا علم ناقص ہے، نہ تمہیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لئے فائدہ مند کو رہے اور وہ انجام کے لحا ظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ اس لئے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لئے چلر ہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا (ولو اثبع الحق اھوآء ھم لفسدت السموت والارض ومن فیھن) المومون : ٨١)” اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقیناً بگڑ جائیں۔ “ (٣) ” لو یطیعکم فی کثیر من الامر “ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمہارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، چناچہ فرمایا :(فاعف عنھم واستغفر لھم و شاورھم فی الامر) (آل عمران : ١٥٩)” سو ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ مگر یاد رکھو ! تمہارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمئای کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا :(فاذا عزمت فتوکل علی اللہ) (آل عمران :159)” پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسہ کرے۔ ‘ (٤) ولکن اللہ حبب الیکم الایمان : ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب ، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے (تمہیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور ) ایمان یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو تمہارے لئے محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں ایسا مزین کردیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہوگئے۔ اس لئے بعض اوقات بتقاضیء بشریت تم سے غل طی ہوجاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔ (٥) وکرۃ الیکم الکفر والفسوق والعصیان : یعنی کفر، فسوقا ور عصیان کو تمہارے لئے نپاسندیدہ بنادیا۔ رازی نے فرمایا :” ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالا ارکان تینوں شاملیں ۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔ “ شیخ عبدالرحمان السعید نے فرمایا :”(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔ “ (واللہ العم) (٦) اولئک ھم الرشدون : یعنی یہ لوگ جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لئے ناپسندیدہ بنادیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔” الف لام “ بیان کمال کے لئے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخلاف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بےحد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے جو اس نے انہیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہ راست پر ہونے کی شہادت دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Decision is Better According to the previous verse, Walid Ibn &Uqbah (رض) reported that Banul-Mustaliq had turned apostate and refused to pay Zakah. At this, the blessed Companions were disturbed and infuriated. They expressed the view that jihad should be declared on them immediately, but the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) rejected his report on the basis of strong circumstantial evidence to the contrary. He sent Khalid Ibn Walid for investigation. In the foregoing verse, the Qur’ an enjoined that if there are strong reasons to doubt the report conveyed by any person, it is not lawful to act upon it before investigation. In this verse the noble Companions (رض) are given one more guideline: &Although when you heard the news about Banul-Mustaliq&s apostasy, you reacted the way you reacted, and that was on account of your religious zeal and enthusiasm, yet your view was not right and proper. The decision taken by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) proved to be better (Mazhari). Thus in matters requiring consultation it is proper to express a view but it is not proper for you to exert efforts to get the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to act upon your opinion. Although there is a rare possibility that an opinion expressed by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in some worldly matters comes to be against worldly expedience, and this is not contrary to the station of his prophethood, yet Allah has gifted him with such insight, perspicacity and discernment which you do not have. Therefore, if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were to follow your opinion, in many matters, you will suffer loss and fall into difficulties. If rarely ever your opinion is right or proper, it is still better to abandon your opinion and obey the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . By doing so it is possible that you may suffer some worldly loss, but it would not be as harmful as his following your opinion. In this case, even if you suffer any worldly loss, the reward of obedience to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is a better compensation. Lexically, the word is derived from and it connotes |"to commit a sin or crime|" and it also means |"to suffer from hardship|". In this context, both connotations appropriately fit (Qurtubi).

خلاصہ تفسیر اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما) ہیں ( جو خدا کی بڑی نعمت ہیں کما قال تعالیٰ (آیت) لقد من اللہ الخ اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ کسی بات میں تم آپ کے خلاف مت کرو گو دنیوی ہی کیوں نہ ہو اور اس فکر میں مت پڑو کہ امور دنیویہ میں خود حضور ہماری رائے کی موافقت فرمایا کریں کیونکہ) بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اس میں تمہارا کہنا مانا کریں تو تم کو بڑی مضرت پہنچے (کیونکہ وہ مصلحت کے خلاف ہو تو ضرور اس کے موافق عمل کرنے میں مضرت ہو بخلاف اس کے کہ آپ کی رائے پر عمل کیا جائے کیونکہ امر دنیوی ہونے کے باوجود اس میں خلاف مصلحت ہونے کا احتمال گو فی نفسہ مستبعد اور خلاف شان نبوت نہیں لیکن اول تو ایسے امور جن میں ایسا احتمال ہو شاذو نادر ہوں گے پھر اگر ہوں بھی اور ان میں مصلحت فوت ہو بھی جاوے تو یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اس مصلحت کا نعم البدل یعنی اجر وثواب اطاعت رسول کا ضرور ہی میسر ہوگا بخلاف اس کے تمہاری رائے پر عمل ہو کہ گو شاذو نادر ایسے امور بھی نکلیں گے جن میں مصلحت تمہاری رائے کے موافق ہو لیکن متعین تو ہیں نہیں اور پھر بہت ہی کم ہوں گے زیادہ احتمال مضرت ہی کا ہے پھر اس مضرت کا کوئی تدارک نہیں اور اس تقریر سے فائدہ کثیر کی قید کا ہونا بھی معلوم ہوگیا، بہرحال اگر آپ تم لوگوں کی منافقت کرتے تو تم بڑی مصیبت میں پڑتے) لیکن اللہ تعالیٰ نے (تم کو مصیبت سے بچا لیا اس طرح سے کہ) تم کو ایمان (کامل) کی محبت دی اور اس (کی تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر و فسق (یعنی گناہ کبیرہ) اور (مطلق) عصیان (یعنی گناہ صغیرہ) سے تم کو نفرت دے دی (جس سے تم کو ہر وقت رضائے رسول کی جستجو رہتی ہے اور جس سے تم ان احکام کو مان لیتے ہو جو رضائے رسول کے موجبات ہیں چناچہ جب تم کو یہ معلوم ہوگیا کہ امور دنیویہ میں بھی اطاعت رسول کی واجب ہے اور بدون اطاعت مطلقہ کے ایمان کامل نہیں ہوتا اور ایمان کامل کی تحصیل کی رغبت پہلے سے موجود ہے پس تم نے فوراً اس حکم کو بھی قبول کرلیا اور قبول کر کے ایمان کی اور تکمیل کرلی) ایسے لوگ (جو کہ تکمیل ایمان کے محب ہیں) خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام سے راہ راست پر ہیں اور اللہ تعالیٰ (نے جو یہ احکام فرمائے ہیں تو وہ ان کی مصلحتوں کو) جاننے والا ( ہے اور چونکہ) حکمت والا ہے (اس لئے ان احکام کو واجب کردیا ہے ) ۔ معارف و مسائل اس سے پہلی آیت میں واقعہ حضرت ولید بن عقبہ اور قبیلہ بنی المصطلق کا مذکور تھا جس میں ولید بن عقبہ نے بنی المصطلق کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ وہ مرتد ہوگئے اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا اس پر صحابہ کرام میں بھی اشتعال پیدا ہوا، ان کی رائے یہ تھی کہ ان لوگوں پر جہاد کے لئے مجاہدین کو بھیج دیا جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ کی خبر کو قرائن قویہ کے خلاف سمجھ کر قبول نہ کیا اور تحقیقات کے لئے حضرت خالد بن ولید کو مامور فرما دیا۔ پچھلی آیت میں قرآن کریم نے اس کو قانون بنادیا کہ جس شخص کی خبر میں قرائن قویہ سے کوئی شبہ ہوجاوے تو قبل از تحقیق اس پر عمل جائز نہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کو ایک اور ہدایت کی گئی ہے کہ اگرچہ بنی المصطلق کے متعلق خبر ارتداد سن کر تمہارا جوش غیرت دینی کے سبب تھا مگر تمہاری رائے صحیح نہ تھی۔ اللہ کے رسول نے جو صورت اختیار کی وہ ہی بہتر تھی (مظہری) مقصد یہ ہے کہ مشورہ طلب امور میں کوئی رائے دے دینا تو درست ہے لیکن یہ کوشش کرنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری رائے کے مطابق ہی عمل کریں یہ درست نہیں کیونکہ امور دنیویہ میں اگرچہ شاذ و نادر رسول کی رائے خلاف مصلحت ہونے کا امکان ضرور ہے جو شان نبوت کے خلاف نہیں لیکن حق تعالیٰ نے جو فراست اور دانش اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہے وہ تمہیں حاصل نہیں ہے اس لئے اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری رائے پر چلا کریں تو بہت سے معالات میں نقصان و مصیبت میں پڑجاؤ گے اور کہیں شاذ و نادر تمہاری رائے ہی میں مصلحت ہو اور تم اطاعت رسول کیلئے اپنی رائے کو چھوڑ دو جس سے تمہیں کچھ دنیوی نقصان بھی پہنچ جاوے تو اس میں اتنی مضرت نہیں جتنی تمہاری رائے کے تابع ہو کر چلنے میں ہے کیونکہ اس صورت میں اگر کچھ دنیوی نقصان ہو بھی گیا تو اطاعت رسول کا اجر وثواب اس کا بہتر بدل موجود ہے اور لفظ عنتم، عنت سے مشتق ہے جس کے معنی گناہ کے بھی آتے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے بھی یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللہِ۝ ٠ ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّہَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝ ٧ ۙ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے عنت الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء/ 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران/ 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة/ 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1» أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة/ 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ. ( ع ن ت ) المعانتۃ : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء/ 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران/ 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة/ 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة/ 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اے گروہ مومنین جان لو کہ تم میں رسول اکرم موجود ہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اس میں تمہاری رائے پر عمل کرلیا کریں تو تمہیں بڑا نقصان پہنچے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کامل کی محبت دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت اور نفاق اور تمام گناہوں سے تمہیں نفرت دے دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ } ” اور جان لو کہ تمہارے مابین اللہ کا رسول موجود ہے۔ “ انسانی سطح پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف رشتے تھے۔ مثلاً بعض خواتین کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شوہر اور بعض کے باپ تھے۔ مردوں میں سے بعض کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داماد تھے ‘ بعض کے بھتیجے اور بعض کے سسر تھے۔ چناچہ اس حساس معاملے میں دو ٹوک انداز میں متنبہ کردیا گیا کہ خبردار ! تم میں سے کوئی کسی وقت یہ حقیقت نہ بھولنے پائے کہ محمد بن عبداللہ جو تمہارے درمیان موجود ہیں یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حیثیت تم میں سے ہر ایک کے سامنے ہر حال میں مقدم رہنی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی رشتہ دار محض اپنے کسی مخصوص رشتے کی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کا کبھی خیال بھی ذہن میں نہ لائے۔ { لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ } ” اگر وہ تمہارا کہنا مانا کریں اکثر معاملات میں تو تم لوگ مشکل میں پڑ جائو “ چناچہ تم ہر معاملے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور منشاء کو پیش نظر رکھا کرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع نہ رکھو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلے کرتے ہوئے تم لوگوں کی مرضی کا خیال رکھیں گے۔ { وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ } ” لیکن (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیو ! ) اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کے اندر کھبا دیا ہے “ { وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ } ” اوراُس نے تمہارے نزدیک بہت ناپسندیدہ بنا دیا ہے کفر ‘ فسق اور نافرمانی کو۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ } ” یہی لوگ ہیں جو صحیح راستے پر ہیں۔ “ صحابہ کرام (رض) کی شان کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت خصوصی اہمیت اور عظمت کی حامل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 This is evident from the context as well as understood by several commentators from this verse that the Holy Prophet was hesitant to take any military action against the Bani al-Mustaliq on the report given by Walid bin 'Uqbah in their case, but some of the people insisted that they should be attacked at once. At this those people were warned that they should not forget that the Holy Prophet was present among them, who understood them better than they did. Therefore, their thinking that the Holy prophet should act according to their counsel in important matters was undue boldness. For if he started acting according to what they counseled it would generally lead to blunders for which they themselves would have to suffer.

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :9 یہ بات سیاق و سباق سے بھی مترشح ہوتی ہے ، اور متعدد مفسرین نے بھی اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ بنی المصطلق کے معاملہ میں ولید بن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے ، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کر دی جائے ۔ اس پر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو بھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں جو تمہارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ تمہارا یہ چاہنا کہ اہم معاملات میں جو رائے تمہیں مناسب نظر آتی ہے آپ اسی پر عمل کیا کریں ، سخت بے جا جسارت ہے ۔ اگر تمہارے کہنے پر عمل کیا جانے لگے تو بکثرت مواقع پر ایسی غلطیاں ہوں گی جن کا خمیازہ خود تم کو بھگتنا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: سورت کے شروع میں جو حکم دیا گیا تھا، اور جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 1 میں گذری ہے، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں، بلکہ رائے قائم کر کے اس پر اصرار سے منع فرمایا گیا تھا، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تمہاری ہر رائے پر عمل ضرور کریں، بلکہ آپ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، اور اگر وہ تمہاری رائے کے خلاف ہو، تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہئے، کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ حضرت ولید بن عقبہ کے واقعے میں ہوا کہ وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بنو مصطلق لڑائی پر آمادہ ہیں، اس لیے ان کی رائے تو یہی ہوگی کہ ان سے جہاد کیا جائے، لیکن اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی رائے پر عمل کرتے تو خود مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اسی اسول پر عمل کرتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ٨۔ معتبر سند سے ترمذی ٣ ؎ میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابو سعید (رض) خدری اس آیت کو پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت کی حیات کے زمانہ میں اعلیٰ درجہ کے صحابہ کو ملا کر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کے رسول تم لوگوں کے کہنے پر چلیں گے بڑی خرابی آجائے اب تو وہ اعلیٰ درجہ کے صحابہ بھی نہ رہے آج کل کے لوگ اگر خواہ مخواہ کلام رسول کو اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہیں تو خرابی در خرابی ہے حضرت ابو سعید (رض) خدری نے پایا ہے اس زمانہ میں ان کا کلام رسول کی مخالفت یا بےتوقیری کی نسبت وہ خیال تھا حال زمانہ میں جو صحابہ کا زمانہ ہے نہ تابعیوں کا نہ تبع تابعیوں کا اس زمانہ میں جو کلام رسول کی کچھ بےتوقیری کی جائے گی تو اسکا انجام ظاہر ہے سورة مومنون میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سے حضرت ابو سعید (رض) خدری کے اس قول کی پوری تصدیق ہوتی ہے حاصل سورة مومنوں کی آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو کچھ نصیحت کرتے ہیں وہ سب حق ہے لیکن اکثر لوگوں کو حق بات اس سبب سے کڑوی معلوم ہوتی ہے کہ وہ حق بات ان کی مرضی کے مخالف ہوتی ہے اس لئے وہ لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کے کلام کو اپنی مرضی کے موافق ہوجانا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کا کلام ہر ایک کی مرضی کے موافق ہونے لگے تو زمین و آسمان کا انتظام بالکل بگڑ جائے۔ (٣ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحجرات ص ١٨٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:7) واعلموا ان فیکم رسول اللّٰہ۔ اس کا عطف ماقبل پر ہے واؤ عاطفہ۔ اعلموا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ علم (باب سمع) مصدر۔ تم جان لو۔ تم (اچھی طرح) ذہن نشین کرلو۔ تم خوب جان لو۔ ان بمعنی یقینا۔ بےشک۔ رسول منصوب بوجہ عمل ان اور خوب جان لو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے ۔ فارجعوا الیہ واطلبوا رأیہ۔ پس ہر مار میں اس کی طرف رجوع کرو۔ اور اس کی رائے طلب کرو۔ اوقدروا حق قدرہ اور اس کی کما حقہ قدر کرو۔ (اس کی قدر اس امر کی مقتضی ہے کہ اس کی ہر تدبیر کو تسلیم کیا جاوے کیونکہ وہ وحی بالہام من اللہ ہے اور تمہارے لئے اس میں خیر ہی خیر ہے) ۔ لم یطیعکم فی کثیر من الامر جملہ شرط۔ لعنتم جواب شرط ۔ لو حرف شرط یطیع مضارع واحد مذکر غائب اطاعۃ (افعال) مصدر کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اگر وہ اکثر امور میں تمہاری بات مانیں۔ لعنتم لام جواب شرط کا رم دشواری میں پڑجاؤ۔ عنت بمعنی دشواری میں پڑنا۔ (فیروز اللغات) دشواری میں پڑنا مصیبت سے ہلاک ہوجانا۔ گناہ کرنا۔ (المنجد) مشقت، تباہی۔ بربادی مجازا ۔ زنا۔ (قاموس القرآن) معجم الوسیط میں ہے عنت فلان : وقع فی مشقۃ وشدۃ مشقت اور دشواری میں پڑنا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے۔ لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم (9:128) تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول آئے ہیں کہ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے۔ العنت : الخطاء والزنی : قال تعالیٰ : ذلک لمن خشی العنت منکم (4:125) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ فائدہ : آیت نمبر 6 میں حکم ہوا تھا کہ اگر کوئی شریر فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو پیشتر اس کے کہ اس پر کوئی قدم اٹھایا جائے اس کی تحقیق کرلیا کرو مبادا کہ کہ تم لاعلمی میں ایسی کاروائی کر گزرو جس پر بعد میں پشیمانی ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب ولید بن عقبہ کی زبانی بنی المصطلق کے مرتد ہونے کی خبر سنی تو فرط جوش میں بعض نے ان کے خلاف کاروائی کا مشورہ دیا۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا مشورہ نہ مانا۔ اور حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک دستہ دے کر روانہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جلد بازی سے کام نہ لیں بلکہ تحقیق کے بعد ہی کوئی مناسب قدم اٹھائیں۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے موقعہ پر حالات کو ولید بن عقبہ کے بیان کے الٹ پایا اور واپس آکر دربار رسالت میں اطلاع دی۔ چناچہ اس پر ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ جب اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے اور پیچیدہ گتھی کو سلجھا سکتا ہے اور تم سے زیادہ انجام و عواقب کا صحیح اندازہ لگا سکتا ہے تو تمہیں اپنی صلاح یا مشورہ دینے کی بجائے اس کے حکم اور فیصلہ پر امنا صدقنا کہنا چاہیے کیونکہ اگر تم اپنی بات منوانے پر اصرار کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ تم ایسی دشواری میں پڑجاؤ کہ جس سے نکلنا دشوار ہوجائے (آیت نمبر 7) بنی مصطلق کے مسئلہ پر چونکہ صحابہ کرام کا مشورہ اور غصہ کسی ذاتی رنج یا مفاد کے لئے نہ تھا بلکہ صرف اللہ کے دین کی حمایت کے لئے تھا اس لئے اس ابہام کو دور کرنے کے لئے کہ بنی مصطلق پر غصہ کرنے والے اور فوجی کاروائی کا مشورہ دینے والے صحابہ کرام کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ارشاد ہوتا ہے ولکن اللّٰہ ۔۔ الخ یعنی تم نے جو تأمل اور تحقیق خبر سے کام نہیں کیا۔ یہ قابل ملامت نہیں ہے کیونکہ تم کو ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر و فسوق اور عصیان سے بغض پیدا کردیا ہے۔ حبب : ماضی واحد مذکر غائب۔ تحبیب (تفعیل) مصدر۔ بمعنی دوست بنانا محبوب کردینا۔ اس نے محبت ڈال دی۔ اس نے پیارا کردیا۔ حبب الیکم الایمان۔ اس نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنادیا۔ زینہ : زین ماضی واحد مذکر غائب تزیین (تفعیل) مصدر۔ مزین کرنا۔ اس نے آراستہ کردیا۔ اس نے زینت دی۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الایمان ہے۔ کرہ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تکریہ (تفعیل) مصدر۔ (اس کے دوسرے مفعول پر الی آنا ضروری ہے) کرہ الیکم۔ اس نے تمہارے لئے ناگوار بنادیا۔ اس نے تمہاری نظر میں مکروہ کردیا۔ (کفر کو تمہاری نظر میں ناگوار کردیا) الفسوق والعصیان : دونوں کا عطف الکفر پر ہے۔ الفسوق پر الف لام تعریف کے لئے ہے۔ فسوق بمعنی گناہ اور العصیان نافرمانی ۔ گناہ۔ حکم عدولی۔ اطاعت کی ضد ہے۔ اصل میں عصی یعصی کا مصدر ہے لیک بطور اسم یعنی حاصل مصدر کے زیادہ مستعمل ہے۔ اولئک ہم الراشدون : جملہ معترضہ ہے۔ اولئک اسم اشارہ ، جمع مذکر مشار الیہ۔ وہ صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کی محبت بھر دی اور کفر و نافرمانی سے ان کو متنفر کردیا۔ راشدون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ رشد و رشد (باب نصر) مصدر۔ راہ یافتہ بھلائی پانے والے۔ علامہ قرطبی (رح) اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں :۔ الرشد : الاستقامۃ علی طریق الحق مع تصلب فیہ۔ من الرشدہ وہی الصخرۃ۔ رشد طریق حق پر استقامت کو کہتے ہیں جس میں پختگی اور سختی ہو یہ رشدہ سے مشتق ہے جس کا معنی چٹان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ” اس لئے کسی کام میں جلدی نہ کرو بلکہ پیغمبر کی طرف رجوع کرو اور جو ارشاد وہاں سے پائو اس پر عمل کرو۔ “ شاہ صاحب لکھتے ہیں، یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اسی میں تمہارا بھلا ہے اگر تمہاری بات مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے پھر کس کس کی بات پر چلے۔ (موضع) 6 ” اس لئے بعض اوقات بتقاضائے بشریت تم سے غلطی ہوجاتی ہے مگر ایمان کی بدلوت جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتے ہو اور نافرمانی اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واعلموا ان فیکم رسول اللہ (٤٩ : ٧) “ خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے ”۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت موجود تھے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم حقیقت ہے ۔ کیا کوئی یہ بات تصور کرسکتا ہے کہ آسمان کا زمین کے ساتھ دائمی رابطہ ہوجائے اور یہ رابطہ ہر وقت بحال رہے اور لوگوں کو نظر آئے۔ اور ہم یہ کہیں کہ ارادۂ الٰہی اہل زمین کے لئے متوجہ ہے ۔ لوگوں کو ان کے حالات بتائے جارہے ہیں۔ ان کی خفیہ باتیں ان کو بتائی جارہی ہیں۔ ان کی ظاہری باتوں سے ان کو خبردار کیا جا رہا ہے اور ان کی غلطیوں کو فوراً درست کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنے دل کی بات چھپاتا ہو لیکن آسمان سے اطلاع آجاتی ہے کہ یہ سوچا جارہا ہے۔ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فوراً بتا دیتا ہے اور ہدایت کردیتا ہے کہ یہ ہدایات میرے بندوں کو دے دو ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی بات ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی خبر ہے اور یہ ایک عظیم حقیقت ہے۔ بعض اوقات ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ کو اپنے درمیان چلتا پھرتا پاکر ، بعض لوگ اس طرف متوجہ نہ ہوں ۔ اس لیے ان کو متوجہ کیا جا رہا ہے ۔ واعلموا ان فیکم رسول اللہ (٤٩ : ٧) “ خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان رسول اللہ موجود ہیں ”۔ اس کو جانو ، اور اس کی قدر کرو ، یہ تو ایک عظیم معاملہ ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی کو جانو ، اس کے تقاضے یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے کوئی فیصلہ آنے سے پہلے ہی فیصلے نہ کرتے پھرو۔ کیونکہ رسول اللہ کے فیصلے وحی والہام پر مبنی ہیں۔ اور اللہ کی ہدایات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلے فرماتے ہیں انہی میں خیروبرکت ہے۔ اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری ہی باتوں کے پیچھے چلیں تو تم اپنی نادانی سے اپنے آپ کو مشکلات میں مبتلا کردوگے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے اللہ کے الہام پر مبنی ہیں۔ اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ بندوں کی بہتری اس میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی تو بڑی رحمت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر اللہ کی تدبیر ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا ، اللہ کا کہا ہے۔ اس کے بعد ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم کو ایمان کی جو نعمت دی گئی ہے ، اس کی قدر کرو ، یہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنایا ، تمہارے دلوں میں ایمان کو خوبصورت بنا دیا ، تم نے اسے قیمتی جانا ، تمہارے دل اس سے لگ گئے ، اور کفر کو تمہارے دلوں کے لئے مکروہ بنا دیا۔ فسق و معصیت کو تم ناپسند کرنے لگے۔ یہ اللہ کی بڑی ہی رحمت اور کرم تھا۔ ولکن اللہ حبب الیکم ۔۔۔۔۔ ھم الرشدون (٤٩ : ٧) فضلاً من اللہ ۔۔۔۔ علیم حکیم (٤٩ : ٨) “ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا ۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رد ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے ”۔ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے دلوں کو ایمان کے لئے کھول دینا ، ان کے دلوں کو ایمان کے ساتھ متحرک کردینا ، ان کے دلوں کے لئے ایمان کو حسین بنا دینا کہ وہ اس کی طرف لپکیں ، اور ایمان کے کمالات و جمالات دیکھ سکیں ، یہ دراصل ان بندوں پر بہت ہی بڑا فضل و کرم ہے اور بہت ہی بڑی نعمت ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی زندگی اور اس کا وجود بھی ہیچ ہے۔ انسان کا وجود اور اس کی پوری زندگی بھی ایمان کے مقابلے میں کم قیمت اور ادنیٰ ہے۔ عنقریب یہ آیت آنے والی ہے۔ بل اللہ یمن علیکم ان ھدکم للایمان (٤٩ : ١٧) “ بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ تمہیں اس نے ایمان کی طرف ہدایت کی ”۔ مفصل بات وہاں آئے گی ، انشاء اللہ ! جو بات یہاں فکر و نظر کے لئے دامن کش ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو یاد دلایا رہا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے اس بھلائی کا ارادہ کیا۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے دلوں سے یہ شر نکالا ۔ یعنی کفر ، فسق اور معصیت کا شر۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے تمہیں راہ راست پر لگایا ہے۔ اور یہ سب کام اللہ نے اپنے علم و حکمت کی بنا پر کیا اور یہ اطمینان دلایا کہ اس کے نتیجے میں تمہارے لیے خیر اور برکت ہوگی۔ اس لیے تم جلد بازی نہ کرو ، اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تجاویز نہ رکھو اور حکم سے پہلے جوش و خروش نہ دکھاؤ کیونکہ اللہ ہی تمہارے لیے بہتر فیصلے کرتا ہے۔ اور ابھی تک تو رسول تمہارے اندر موجود ہیں۔ لہٰذا اپنے معاملات ان کی موجودگی میں اپنے ہاتھ میں نہ لو۔ یہی مقصد ہے اس تبصرے سے جو اس حکم پر کیا گیا کہ تم اپنے لیے مشکلات پیدا کرلو گے۔ انسان بہت ہی جلد بازی کرتا ہے۔ اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے اقدامات سے آگے کیا ہے۔ انسان اپنے نفس اور دوسروں کی بھلائی کے لئے تجاویز مرتب کرتا رہتا ہے لیکن اس کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ ویدع الانسان بالشر دعاء ہ بالخیر وکاین الانسان عجولا “ اور انسان شر کی دعا اس طرح کرتا ہے جس طرح کہ خیر کہ دعا کی جاتی ہے اور انسان بہت بڑا جلد باز ہے ”۔ اگر انسان اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اسلام میں پورا پورا داخل ہوجائے ، اللہ کی پسند کو اپنی پسند بنا لے اور اس بات پر مطمئن ہوجائے کہ اس کے لئے اللہ جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ اس کی اپنی پسند سے افضل ہے۔ وہ اس کے لئے زیادہ مفید اور خیر و برکت لانے و الی ہے ، تو انسان راحت اور سکون محسوس کرے۔ اور اس زمین پر اس کی یہ مختصر زندگی نہایت ہی اطمینان اور خوشی سے گزرے لیکن یہ اللہ کا ایک عظیم احسان ہوتا ہے ۔ اور وہ جس پر چاہتا ہے یہ احسان کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و انعام سے تمہارے دلوں میں ایمان کو مزین فرما دیا اور کفر و فسوق اور عصیان کو مکروہ بنا دیا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے امت مسلمہ کو اپنا ایک بہت بڑا انعام یاد دلایا اور فرمایا کہ دیکھو تمہارے اندر اللہ کا رسول موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ تمہارے اندر اپنے رسول کو مبعوث فرما دیا وھذا کقولہ تعالیٰ ﴿ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ دوسری بات یہ بتائی کہ ہمارا رسول جو عمل کرتا ہے اور تمہیں جو حکم دیتا ہے اس میں ان کی اپنی مصلحت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد بھی ہوتی ہے بعض مواقع میں تم مشورہ بھی دیتے ہو تمہارے بہت سے مشورے نتائج کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہوتے لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مطابق عمل نہیں کرتے تم اس سے دلگیر نہ ہو اگر وہ تمام امور میں تمہاری رائے پر چلیں تو بہت سی باتیں ایسی ہوں گے ان کے بارے میں تمہاری رائے قبول کرلی جائے گی تو تم مشقت میں پڑجاؤ گے اور تمہیں اس کا نقصان پہنچ جائے گا۔ تیسری بات یہ فرمائی (جو بطور امتنان ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اسے تمہارا محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرما دیا تمہارے دل نور ایمان سے منور ہیں اور اس جگمگاہٹ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سچا مومن بندہ کسی قیمت پر بھی ایمان کی نعمت سے محروم ہوجانے پر راضی نہیں ہوتا مزید انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں کفر اور فسوق اور نافرمانی کو مکروہ بنا دیا تمہیں کفر سے بھی نفرت ہے اور گناہوں سے بھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں جس کے اندر ہوں وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا : 1 جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوں۔ 2 دوسرا وہ شخص جو کسی بندہ سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔ 3 جب اللہ تعالیٰ نے کفر سے بچا دیا تو اب وہ کفر میں واپس جانے کو اتنا ہی برا جانتا ہو جتنا آگ میں ڈالے جانے کو مکروہ جانتا ہے۔ (رواہ البخاری ٧ ج ١) جن لوگوں کے دلوں میں ایمان محبوب اور مزین ہوگیا اور نافرمانی سے نفرت ہوگئی ان کے بارے میں فرمایا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ٠٠٧﴾ (یہ لوگ راہ ہدایت پر ہیں) ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةً ١ؕ﴾ اور اللہ تعالیٰ کی یہ بخششیں فضل اور انعام کے طور پر ہیں اللہ کے ذمہ کسی کا کوئی واجب نہیں ہے وہ جسے جو بھی نعمت عطا فرمائے وہ اس کا فضل ہی فضل ہے اور انعام ہی انعام ہے آخر میں فرمایا ﴿ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ٠٠٨﴾ اور اللہ علیم ہے اسے سب کا ظاہر باطن معلوم ہے اور حکیم بھی ہے وہ اپنی حکمت کے مطابق انعام سے نوازتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 7:۔ ” واعلموا ان فیکم “ یہ پہلے قانون سے متعلق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہ کرو۔ آپ پر تمہاری اطاعت ضروری نہیں، بلکہ تم پر آپ کی اطاعت لازم و فرض ہے۔ اگر پیغمبر (علیہ السلام) تم میں سے ہر ایک کے مشورے پر عمل کرنے لگیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے بعض خلاف صواب مشوروں پر عمل کرنے کی وجہ سے تم کئی مشقتوں میں پڑجاؤ گے۔ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے اس لیے تم آپ کے احکام کی پیروی کرو اور اپنی ہر بات منوانے پر زور نہ دو ۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی مصطلق کے ارتداد کی خبر ملی جو خلاف واقع تھی۔ اس وقت بہت سے صحابہ (رض) نے یہ رائے دی کہ فورًا ان پر چڑھا کرنی چاہئے، لیکن آپ نے پہلے کشف حقیقت اور تحقیق حال کا حکم فرمایا اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ” ولکن اللہ الخ ‘ ان کی طرف سے اس فوری اقدام کے مشورے کا عذر بیان کیا گیا ہے کہ ایمان سے فرط محبت اور کفر و عصیان سے دلی نفرت کی وجہ سے انہوں یہ مشورہ دیا تھا مگر حقیقت میں صحیح اقدام وہی تھا جس کا پیغمبر (علیہ السلام) نے حکم دیا تھا کہ تحقیق حال سے پہلے حملہ نہ کیا جائے۔ و معنی الایۃ لکن ما صدر منکم من ترک التثبت انما کان لحبکم الایمان و بغضکم الکفر فلا لوم علیکم ولا اثم (مظہری ج 9 ص 47) ، استدراج ببیان عذرھم وھو ان فرط حبہم الایمان وکراھتہم الکفر حملہم علی ذلک (بیضاوی) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ” لکن “ موضوع لہ کے اعتبار سے ماقبل کے ساتھ مرتبط نہیں ہوسکتا اس لیے سیاق وسباق کے اعتبار سے معنی یہ ہوگا کہ لیکن اللہ تعالیٰ کو تمہارے دلوں میں ایمان کو محبوب بنانا اور تمہیں کفر اور فسوق و عصیان سے متنفر کرنا مقصود ہے اس لیے اس نے تم پر پیغمبر (علیہ السلام) کی اطاعت فرض کی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت صحابہ کرام (رض) کے نہایت بلند مناقب بیان فرمائے ہیں۔ ایمان کو ان کے دلوں کا محبوب بنادیا اور ایمان سے ان کے دلوں کو منور و مزین فرمادیا۔ اور ان کے دلوں کو کفر اور فسوق و عصیان سے متنفر کردیا۔ پھر فرمایا یہ لوگ ہی در حقیقت رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن ہیں۔ اور یہ ان پر اللہ کا فضل و انعام ہے کہ اس نے ان کو ایمان کے اس بلند مقام پر فائز فرمایا یہ سب کچھ ان کے ایمان واخلاص، اطاعت و جاں نثاری اور ظاہر و باطن کی سچائی کا ثمرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیی سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور یہ بات خوب جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہیں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ رسول ان میں تمہاری رائے پر عمل کرنے لگے تو تم بڑی مشقت میں پڑ جائو لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا اور ایمان کو تمہارے دلوں میں خوشنما اور مستحسن کردیا اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو نفرت دی یہی لوگ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں۔