Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 100

سورة المائدة

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾٪  3

Say, "Not equal are the evil and the good, although the abundance of evil might impress you." So fear Allah , O you of understanding, that you may be successful.

آپ فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اے عقلمندو! تاکہ تم کامیاب ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says to His Messenger, قُل ... Say, (O Muhammad), ... لااَّ يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ ... Not equal are the bad things and the good things, even though they may please you, (O human), ... كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ... the abundance of bad. This Ayah means, the little permissible is better than the abundant evil. ... فَاتَّقُواْ اللّهَ يَا أُوْلِي الاَلْبَابِ ... have Taqwa of Allah, O men of understanding..., who have sound minds, avoid and abandon the impermissible, and let the permissible be sufficient for you. ... لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ in order that you may be successful. in this life and the Hereafter. Unnecessary Questioning is Disapproved of Allah said next,

رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے ، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بےفائدہ سوالات مت کیا کرو ، کرید میں نہ پرو ، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو ، صحیح بخاری شریف میں حصرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بےمثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں ، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے ، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے ، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا خزافہ ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بے آبروئی ہوتی ، آپ نے فرمایا سنو ماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا ، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا حذافہ ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری ، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو ، جو پوچھو گے ، بتاؤں گا ، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے ، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے ، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ جب آیت ( وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی ، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے ، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں ، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا ۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی ، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو ، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو ، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو ، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہدیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ ، پاس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17 ۔ الاسراء:59 ) یعنی معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:109 ) بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بےعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 خَبِیْثُ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ طیب (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق و فجور ہو، اشیا و اقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس لئے پلیدی کی وجہ سے اس چیز کی قیمت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٨۔ الف ] خبیث اور طیب کے مختلف معانی :۔ اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً (١) غلاظت کے ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے یا ایک گندے پانی کے نالہ سے صاف ستھرے پانی کا ایک گلاس زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے۔ (٢) حرام طریقہ سے کمائی ہوئی دولت اگر ایک سو روپیہ ہو تو حلال طریقے سے کمائے ہوئے پانچ روپے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ قدر و قیمت رکھتے ہیں اگرچہ تمہیں وہ سو روپے کی حرام کمائی کتنی ہی اچھی نظر آتی ہو۔ (٣) بدکار اور نافرمان آدمیوں کے ایک لشکر کے مقابلہ میں اللہ کے نزدیک گنتی کے چند فرمانبردار اور متقی لوگ زیادہ محبوب ہیں اور جو لوگ صاحب عقل و شعور ہیں وہ ان متضاد اشیاء کو کبھی یکساں قرار نہیں دے سکتے لہذا تم اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات کہو جسے اہل عقل و دانش بھی درست سمجھتے ہوں۔ اسی صورت میں کامیابی کا امکان ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ۔۔ : یعنی حرام اور حلال یا کافر اور مومن برابر نہیں ہوسکتے۔ حرام رزق کی فراوانی اور اس پر عیش و عشرت گو بظاہر کتنی ہی خوش کن کیوں نہ ہو، انسان پر لازم ہے کہ وہ رزق حلال پر قناعت کرے، خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر ہو۔ اسی طرح کافر کتنا بھی اچھا نظر آئے مومن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ رزق حلال اور مومن طیب ہیں اور رزق حرام اور کافر خبیث ہیں، خبث نے ان کی اچھائی کو ختم کردیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (100), it was said: قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ (Say, |"The bad and the good are not equal ... ). In Arabic, the words |"Tayyib|" and |"Khabith|" are antonyms. Tayyib refers to what is the best and purest in everything and Khabith to what is the most condemned and evil. In this verse, as held by the majority of commentators, Khabith means حَرَام haram or impure, while Tayyib means Halal and pure. Thus, the verse would come to mean that with Allah Ta` ala, rather with every-one having sound reason and good taste, pure and impure or Halal and haram cannot be equal. In view of the general sense of Khabith and Tayyib at this place, it is inclusive of wealth and property which is Halal or حَرَام haram, and hu¬man beings who are good or bad, and deeds and morals which are vir¬tuous or vicious, all of the three. The sense of the verse is clear from the truth that good and bad are not equal. According to this natural law, Halal and حَرَام haram and pure and impure things are not equal in the sight of Allah Ta` ala, similar to which, also not equal are good and bad deeds and morals, similarly again, also not equal are virtuous and vi¬cious human beings. Following immediately in this verse (100), it was said: وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَ‌ةُ الْخَبِيثِ (even though you are attracted by the profusion of the bad). It means that, though onlookers are sometimes awed by the abundance of things evil and impure, they would even go on to take these very things to be good just because they have spread out all over and be-cause they seem to be winning the day, but, this is only a disease of human knowledge and consciousness, and certainly a shortcoming of the inherent feeling for the right. The Background of the Revelation of the Verse Reporting the background of the revelation of this verse, some nar¬rations say that when liquor, and its buying and selling too, was pro¬hibited in Islam, a dealer in liquor who had some cash savings from that business asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ya Rasul Allah, I have with me this saving from my liquor business, if I were to spend this in some good and pious cause, would that be beneficial for me? The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: If you will spend it in Jihad or Hajj or something similar, it would not even be worth the weight of the tiny feather of a mosquito, for Allah Ta` ala does not accept anything other than what is pure and Halal (lawful). This devaluation and depreciation of wealth is in terms of the Hereafter. If we look a little deeper and keep the ultimate end of things in sight, we shall discover that Halal and حَرَام haram wealth or property are not equal even in the businesses of this mortal world. The kind of benefits, favourable consequences, real comfort and bliss which come through Halal, never do and never can come from حَرَام haram. Citing Ibn Abi Hatim, Tafsir Al-Durr Al-Manthur reports that when Sayyidna ` Umar ibn ` Abd Al-Aziz, the rightly-guided Khalifah of the age of the Tabi` in, stopped impermissible taxes imposed by the oli¬garchy before him, returned monies and properties taken illegally to the rightful owners, the government treasury became empty and the graph of usual income came very low. Then, the governor of a province wrote a letter to him in which he complained about the low income of the public treasury and asked him as to how would the affairs of the government run under such circumstances. Sayyidna ` Umar ibn ` Abd al-` Aziz رحمۃ اللہ علیہ answered him by quoting this very verse: لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَ‌ةُ الْخَبِيثِ ; (The bad and the good are not equal, even though you are attracted by the profusion of the bad). He also wrote: People before you had used injustice and oppression to fill the treasury, now you match it by establishing equity and justice and let the holding of your treasury stand reduced. And do not care. The expenditures of our government shall be met within this reduced income. Though the cause of the revelation of this verse is a particular event, the basic message of the verse is that numbers being low or high do not mean much. Matters cannot be measured by majority and minority and a human hand-count of fifty one against forty nine cannot go on to become the touchstone of that which is right and true. In fact, if we were to even casually look into the state of affairs pre¬vailing around every section of society in the world, then, we shall see less of good and more of evil. Compare belief with disbelief; godliness, purity, honesty and trust with sinfulness and debauchery; justice and equity with injustice and oppression; knowledge with ignorance; rea¬son with unreason - one is bound to find more of the later in all these comparisons. This leads us to become certain that the numerical abundance of something, group or party cannot be an absolute proof of its being good or true. Instead of that, the good in that thing or group or party depends on relevant particulars and states. If they are good, they are good, and if they are bad, they are bad. This is the reality the Holy Qur&an has stated clearly by saying: وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَ‌ةُ الْخَبِيثِ (even though you are attracted by the profusion of the bad). Of course, Islam too has declared numerical majority to be decisive on some occasions, and that too where there be no ruling authority competent enough to decide by the power of argument and the assess¬ment of intrinsic qualities. On occasions like this, in order to resolve the disputes among masses of people, majority vote is resorted to. Take the example of the problem of appointing an Imam or leader in a situation when there is no Imam or Amir or leader present to give a decision. Therefore, on some occasions, majority opinion has been pre¬ferred to ward off possible dispute and resolve matters peacefully. It never means that what has been adopted by a majority of people should become Halal and permissible and true. At the end of the verse it was said: فَاتَّقُوا اللَّـهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (So, fear Allah, O men of understanding). By addressing the men of understanding this verse indicates that it is not the attitude of the men of wisdom to be attracted to something because of its numerical or quantitative abundance, or to take the majority as the touchstone of what is true and correct. Intelligent people would not do something like that. Therefore, it is to caution all people of understanding against these at-titudes that they have been commanded with: فَاتَّقُوا اللَّـهَ (fear Allah).

چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا : قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ، عربی زبان میں طیّب اور خبیث دو متقابل لفظ ہیں، طیّب ہر چیز کے عمدہ اور جیّد کو اور خبیث ہر چیز کے ردی اور خراب کو کہا جاتا ہے، اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک خبیث سے مراد حرام یا ناپاک ہے، اور طیّب سے مراد حلال اور پاک، معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلکہ ہر عقل سلیم کے نزدیک پاک و ناپاک یا حلال و حرام برابر نہیں ہوسکتے۔ اس جگہ لفظ خبیث اور طیّب اپنے عموم کے اعتبار سے حرام و حلال مال و دولت کو بھی شامل ہے، اور اچھے برے انسانوں کو بھی، اور بھلے برے اعمال و اخلاق کو بھی، مطلب آیت کا واضح ہے کہ کسی عقل سلیم کے نزدیک نیک و بد اور بھلا برا برابر نہیں ہوتا اسی فطری قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال و حرام یا پاک و ناپاک چیزیں برابر نہیں اسی طرح اچھے اور برے اعمال و اخلاق برابر نہیں، اسی طرح نیک و بد انسان برابر نہیں۔ آگے ارشاد فرمایا وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ ، یعنی اگرچہ دیکھنے والوں کو بعض اوقات خراب اور خبیث چیزوں کی کثرت مرعوب کردیتی ہے، اور گردوپیش میں خبیث و خراب چیزوں کے پھیل جانے اور غالب آجانے کے سبب انہی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مگر یہ انسانی علم و شعور کی بیماری اور احساس کا قصور ہوتا ہے۔ آیت کا شان نزول آیت کے شان نزول کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ جب اسلام میں شراب کو حرام اور اس کی خریدو فروخت کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تو ایک شخص نے جس کا کاروبار شراب فروشی کا تھا، اور اس ذریعہ سے اس نے کچھ مال جمع کر رکھا تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا، کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ مال جو شراب کی تجارت سے میرے پاس جمع ہوا ہے اگر میں اس کو کسی نیک کام میں خرچ کروں تو کیا وہ میرے لئے مفید ہوگا ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم اس کو حج یا جہاد وغیرہ میں خرچ کروگے تو وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی قیمت نہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ پاک اور حلال چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔ حرام مال کی یہ بےتوقیری تو آخرت کے اعتبار سے ہوئی اور اگر گہری نظر سے معائنہ کیا جائے اور سب کاموں کے آخری انجام کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کاروبار میں بھی حلال و حرام مال برابر نہیں ہوتے، حلال سے جتنے فوائد اور اچھے نتائج اور حقیقی آرام و راحت نصیب ہوتی ہے وہ کبھی حرام سے نہیں ہوتی۔ تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جب سابق امراء کے زمانہ کے عائد کئے ہوئے ناجائز ٹیکس بند کئے، اور جن لوگوں سے ناجائز طور پر اموال لئے گئے وہ واپس کئے اور سرکاری بیت المال خالی ہوگیا اور آمدنی بہت محدود ہوگئی، تو ایک صوبہ کے گورنر نے ان کی خدمت میں خط لکھا کہ بیت المال کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے، فکر ہے کہ حکومت کے کاروبار کس طرح چلیں گے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جواب میں یہی آیت تحریر فرما دی، لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ اور لکھا کہ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم و جور کے ذریعہ جتنا خزانہ بھرا تھا تم اس کے بالمقابل عدل و انصاف قائم کرکے اپنے خزانہ کو کم کرلو اور کوئی پرواہ نہ کرو ہماری حکومت کے کام اسی کم مقدار سے پورے ہوں گے۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے کہ اعداد و شمار کی کمی زیادتی کوئی چیز نہیں، کثرت و قلت سے کسی چیز کی اچھائی یا برائی کو نہیں جانچا جاسکتا، انسانوں کے سر پر ہاتھ شمار کرکے اکیاون (51) ہاتھوں کو اننچاس (49) کے مقابلہ میں حق و صداقت کا معیار نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ اگر دنیا کے ہر طبقہ کے حالات پر ذرا بھی نظر ڈالی جائے تو سارے عالم میں بھلائی کی مقدار اور تعداد کم اور برائی کی تعداد میں کثرت نظر آئے گی، ایمان کے مقابلہ میں کفر، تقویٰ و طہارت اور دیانت و امانت کے مقابلہ میں فسق و فجور، عدل و انصاف کے مقابلہ میں ظلم و جور، علم کے مقابلہ میں جہل، عقل کے مقابلہ میں بےعقلی کی کثرت کا مشاہدہ ہوگا، جس سے اس کا یقین لازمی ہوجاتا ہے کہ کسی چیز یا کسی جماعت کی تعدادی کثرت اس کے اچھے یا حق پر ہونے کی قطعاً دلیل نہیں ہوسکتی، بلکہ کسی چیز کی اچھائی اور بہتری اس چیز اور اس جماعت کے ذاتی حالات و کیفیات پر دائر ہوتی ہے، حالات و کیفیات اچھی ہیں تو وہ اچھی اور بری ہیں تو بری ہیں، قرآن کریم نے اسی حقیقت کو وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ کے الفاظ میں واضح فرما دیا ہے۔ ہاں عدد کی کثرت کو اسلام نے بھی بعض مواقع میں فیصلہ کن قرار دیا ہے وہ اس جگہ جہاں قوت دلیل اور ذاتی خوبیوں کے موازنہ کا فیصلہ کرنے والا کوئی صاحب اقتدار حاکم نہ ہو، ایسے موقع پر عوام کا جھگڑا چکانے کے لئے عددی کثرت کو ترجیح دے دیجاتی ہے، جیسے نصب امام کا مسئلہ ہے، وہاں کوئی امام و امیر فیصلہ کرنے والا موجود نہیں، اس لئے کثرت رائے کو بعض دفعہ قطع نزاع کے لئے ترجیح دے دیگئی، یہ ہرگز نہیں کہ جس چیز کو زیادہ تعداد کے لوگوں نے اختیار کرلیا وہی چیز حلال اور جائز اور حق ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا فاتَّقُوا اللّٰهَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی اے عقل والو اللہ سے ڈرو، جس میں اشارہ فرما دیا کہ کسی چیز کی تعدادی کثرت کا مرغوب ہونا یا کثرت کو بمقابلہ قلت کے حق و صحیح کا معیار قرار دینا عقلاء کا کام نہیں، اسی لئے عقلاء کو خطاب کرکے ان کو اس غلط رویہ سے روکنے کے لئے فاتقوا اللّٰہ کا حکم دیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۝ ٠ۚ فَاتَّقُوا اللہَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ١٠٠ۧ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج) انسان تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ہر شے کی بہتات ہو ‘ لیکن ناجائز اور حرام طریقے سے کمایا ہوا مال اگرچہ کثرت سے جمع ہوگیا ہو مگر ہے تو خبیث اور ناپاک ہی۔ بیشک اس کی چکاچوند تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہو مگر اس میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے۔ بقول علّامہ اقبالؔ : ؂ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115. This verse enunciates a standard of evaluation and judgement quite distinct from the standards employed by superficial people. For the latter, for instance, a hundred dollars are worth more than five dollars, since a hundred is more than five. But, according to this verse, if those hundred dollars have been earned in a manner entailing the disobedience of God the entire amount becomes unclean. If, on the contrary, a man earns five dollars while obeying God then this amount is clean; and anything which is unclean, whatever its quantity, cannot be worth that which is clean. A drop of perfume is more valuable than a heap of filth; a palmful of clean water is much more valuable than a huge cauldron brimming with urine. A truly wise person should therefore necessarily be content with whatever he acquires by clean, permissible means, however small and humble its quantity may be. He should not reach out for what is prohibited, however large in quantity and glittering in appearance.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :115 یہ آیت قدر و قیمت کا ایک دوسرا ہی معیار پیش کرتی ہے جو ظاہر میں انسان کے معیار سے بالکل مختلف ہے ۔ ظاہر بیں نظر میں سو ( ۱۰۰ ) روپے بمقابلہ پانچ ( ۵ ) روپے کے لازماً زیادہ قیمتی ہیں کیونکہ وہ سو ہیں اور یہ پانچ ۔ لیکن یہ آیت کہتی ہے کہ سو ( ۱۰۰ ) روپے اگر خدا کی نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے ہوں تو وہ ناپاک ہیں ، اور پانچ روپے اگر خدا کی فرماں برداری کرتے ہوئے کمائے گئے ہوں تو وہ پاک ہیں ، اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو ، بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہو سکتا ۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلہ میں پاک پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے ۔ لہٰذا ایک سچے دانش مند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر و قلیل ہو ، اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر و شاندار ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

68: اس آیت نے بتادیا ہے کہ دنیا میں بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ناپاک یا حرام چیز کا رواج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ وقت کا فیشن قرار پاجاتا ہے، اور فیشن پرست لوگ اسے اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف کسی چیز کے عام رواج کی وجہ سے اسے اختیار نہ کریں ؛ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہدایات کی روشنی میں وہ جائز یا پاک ہے یا نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر مقاتل بن سلیمان وغیرہ میں اس آیت کی شان نزول کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ ربیعہ میں کا ایک شخص شریح بن ہند آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ کی نصیحت سن کر کہنے لگا کہ آپ کی نصیحت تو اچھی ہے لیکن میری قوم میں کچھ رودار لوگ ہیں جن کے مشورہ کے بغیر میں کوئی کام نہیں کرتا میں اپنے وطن پہنچ کر ان سے مشورہ لوں گا اور ان کو بھی اسلام پر آمادہ کروں گا اور شاید تھوڑے دنوں کے بعد ہم سب آن کر داخل اسلام ہوجاویں گے۔ حدیث کی روایت میں اگرچہ ان مقاتل بن سلیمان کو بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ایک جگہ اس تفسیر میں گذرچکا ہے کہ ان مقاتل کی تفسیر کو امام شافعی (رح) نے معتبر ٹھہرایا ہے۔ یہ تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت ہو کر جب اپنے وطن کو جانے لگا تو مدینہ کے جنگل میں سے مسلمان کے کچھ اونٹ ہانک کر اپنے ساتھ لے گیا اونٹوں کے لے جانے کی خبر سن کر اگرچہ چند صحابہ نے اس کا پیچھا کیا لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ اس قصہ کے ایک سال کے بعد اس نے حج کے ارادہ سے سفر کیا اس کے ساتھ تجارت کا بہت سا مال تھا اور قربانی کے جانور بھی تھے۔ یہ ایک جگہ گذر چکا ہے کہ اسلام سے پہلے حج کے مشرک لوگ بھی پابند تھے شریح کے اس سفر کا حال سن کر مسلمانوں نے شریح پر حملہ کرنے اور اس کا مال لوٹ لینے کی درخواست آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کی آپ نے یہ جواب دیا کہ جبکہ شریح کا قصد حج کا ہے اور قربانی کے جانور بھی اس کے ساتھ ہیں تو اس پر حملہ کرنا جائز نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے اس جواب کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی ٣ ؎۔ حاصل معنی آیت کے ہیں کہ یہ طریقہ مال کے ناجائز طور پر کمانے کا ہے اور ناجائز بہت سا مال جائز طور کے تھوڑے سے مال کی بھی برابری نہیں کرسکتا۔ صحیح بخاری مسلم نسائی ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ناجائز طریقہ سے کمائے ہوئے مال میں سے جو شخص کچھ صدقہ خیرات کرے وہ صدقہ بار گاہ الٰہی میں بالکل نامقبول ہے ١ ؎۔ صحیح مسلم ترمذی میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی ناجائز طور پر کسی کا کچھ مال دنیا میں لے لیوے گا تو عقبیٰ میں اس کی اسی قدر نیکیوں سے اس مال کا معاوضہ مالک کو دلوایا جاوے گا ٢ ؎۔ یہ حدیثیں گویا اس آیت کی تفسیر ہیں کیونکہ ان حدیث سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ بہت سا ناجائز طریقہ کا کمایا ہوا مال جائز طور کے کمائے ہوئے تھوڑے سے مال کی برابر اس سبب سے نہیں کرسکتا کہ دنیا میں یہ ناجائز مال کی نیک کام میں کار آمد نہیں ہوسکتا اور عقبیٰ میں اسی مال کی بدولت بہت سی نیکیاں برباد ہوجاویں گی اس واسطے پہلے فرمایا کہ ہر ایماندار شخص کو ناجائز کمائی سے بچنا اور خدا سے ڈرنا چاہیے کہ ایماندار شخص کی نجات کی صورت یہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:101) ان تبد۔ اصل میں تبدی تھا۔ ان کے عمل سے ی حذف ہوگئی۔ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ، اگر ہو ظاہر ہوجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی حرام اور حلال یا کافر اور مومن اس میں ترغیب وترہیب ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

خبیث اور طیب برابر نہیں ہیں لباب النقول ص ٩٨ میں اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کیا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کی حرمت بیان فرمائی تو ایک دیہات کا رہنے والا آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ میں شراب کی تجارت کرتا تھا اس کے ذریعہ میں نے مال حاصل کیا اگر یہ مال اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کروں تو کیا یہ مال مجھے نفع دے گا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لا یقبل الا الطیب ( کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ مگر پاکیزہ مال کو) اس پر اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی تصدیق فرماتے ہوئے آیت (قُلْ لاَ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ ) نازل فرمائی۔ اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت سے جو مال پہلے کمایا ہوا تھا وہ تو حلال ہونا چاہئے اس کو خبیث کیوں فرمایا ؟ بصورت صحت حدیث اس اشکال کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ چونکہ شراب کی حرمت نئی نئی نازل ہوئی تھی اس لئے کلی طور پر اس کے منافع سابقہ اور لاحقہ سب سے منع فرما دیا۔ یہ تشدید اس لئے کی گئی کہ شراب کے منافع سے بالکل ہی دست بردار ہوجائیں۔ اور دلوں میں اس سے کسی قسم کا لگاؤنہ رہے آیت کا سبب نزول جو کچھ بھی ہو بہر حال اس میں ایک اصولی بات بتاد ی اور وہ یہ خبیث اور طیب برابر نہیں۔ خبیث بری چیز کو اور طیب اچھی کو کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے خبیث کا ترجمہ ناپاک اور طیب کا ترجمہ پاک کیا ہے۔ آیت کا مفہوم عام ہے اچھے برے اعمال اور اچھے برے اموال اور اچھے برے افراد سب کو شامل ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ خبیث سے حرام مال اور طیب سے حلال مراد ہے بعض حضرات نے خبیث سے کافر اور طیب سے مومن مراد لیا۔ ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں الفاظ قرآنیہ کا عموم ان سب کو شامل ہے۔ کسب مال میں بھی حلال کا دھیان رکھا جائے۔ اور جب اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے لگیں تو حلال اور عمدہ مال خرچ کریں اور مومن کو کافر پر ترجیح دیں البتہ ظلم کسی پر نہ کریں۔ حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی بندہ حرام کمائے گا پھر اس میں سے صدقہ کریگا تو قبول نہ کیا جائے گا اور اس میں سے خرچ کریگا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا تو یہ اس کے لئے دوزخ میں جان کا توشہ ہوگا۔ بیشک اللہ برائی کو برائی سے نہیں ہٹاتا (یعنی مال خبیث کما کر اس میں سے صدقہ کردے تو اس صدقہ سے حرام مال پاک نہ ہوجائیگا اور حرام کمانے کا گناہ معاف نہ ہوگا) (مشکوۃ المصابیح ص ٢٤٢) وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَفْرَۃُ الْخَبِیْثِمیں یہ ارشاد فرمادیا کہ کسی چیز کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اچھی بھی ہو۔ دنیا میں کافر زیادہ ہیں اس کثرت کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک اچھے نہیں ہوگئے جو لوگ اسلام کے دعویدار ہیں ان میں بھی اکثر وہ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگ ان کی اکثریت دیکھ کر گناہوں کی راہ اختیار کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ گناہ چھوڑو تو کہہ دیتے ہیں کہ لاکھوں آدمی گناہ کر رہے ہیں یہ بھی اللہ کے بندے ہیں، یہ جاہلانہ جواب ہے اللہ کے بندے تو ہیں مگر گناہگار بندے ہیں۔ تمہیں پرہیزگار بندوں کی راہ اختیار کرنی چاہئے برے بندوں کے پیچھے کیوں چلتے ہو۔ الیکشن کی قباحت آیت کریمہ سے الیکشن کی قباحت بھی معلوم ہوگئی چونکہ الیکشن کی بنیاد اکثریت پر رکھی گئی ہے اس لئے الیکشن میں وہ آدمی جیت جاتا ہے جس کو ووٹ زیادہ مل جائیں بلکہ جس کے حق میں ووٹوں کی گنتی زیادہ ہوجائے وہ جیتنا ہے خواہ کسی طرح بھی ہو۔ دھاندلی بھی کی جاتی ہے ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں فریق مخالف کے ووٹوں کے بکس بھی غائب کئے جاتے ہیں۔ قطع نظر ان سب باتوں کے اکثریت پر کامیابی کی بنیاد رکھنا یہ مستقل وبال ہے اور غیر کے دین پر نہ خود چلنا ہے نہ دوسروں کو چلنے دینا ہے ایسے لوگوں کی رائے کا شرعاً کچھ وزن نہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے بہت سے لوگ جنہیں علم کا گمان بھی ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے فلاں ملک میں جمہوریت گئی ہے گویا انہوں نے دین کا بہت بڑا کام کردیا۔ یہ لوگ جمہوریت کے دینی نقصانات جانتے ہوئے اس کے لئے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں پھر جمہوریت کے اصول پر جو بھی کوئی بد سے بدتر ملحد زنذیق منکر اسلام منتخب ہوجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں ‘ کسی حلقے میں ووٹ ہوں اور اکیاون ووٹ کسی ملحد بےدین کو مل جائیں (جو اسی جیسے بےدینوں سے ملتے ہیں) تو فاسق فاجر الیکشن جیت لیتا ہے اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے کسی ملک کے چھوٹے بڑے عہدہ کے لئے کسی بھی فاسق فاجر کی رائے پر اعتماد کرنا درست نہیں جو لوگ اکثریت کے فیصلہ پر ایمان لاتے ہیں (اور اکثریت کا بےدین فاسق فاجر ہونا معلوم ہے) وہ (وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ) پر بار بار دھیان کریں۔ پھر فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ (اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج ٧ ص ٣٧۔ ” اں مدار الاعتبار ھوالخیر یۃ والرداء ۃ لا الکثرہ والقلۃ “ (ج) یعنی خبیث کے بچنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگرچہ زیادہ ہو اور طیب کو ترجیح دو اگرچہ کم ہو کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا مدار اچھائی اور برائی اختیار کرنے پر ہے قلت یا کثرت پر نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

165 خبیث سے برے اعمال مثلاً شرک وغیرہ اور حرام مال مثلاً غیر اللہ کی نذریں وغیرہ مراد ہیں اور طیب سے نیک اعمال اور حلال مال مراد ہے مثلاً اللہ کی نذریں اور منتیں، یعنی نیک اعمال اور برے اعمال اور اسی طرح حلال مال اور حرام مال خدا کے یہاں برابر نہیں ہیں اور دونوں کے احکام و نتائج یکساں نہیں ہیں۔ اگرچہ شرک و بدعت کے اعمال بہت زیادہ ہوں اور حرام کی کمائی نذر غیر اللہ وغیرہ ڈھیروں ہو لیکن اللہ کے یہاں ان کی کوئی قدر نہیں اور شرک و بدعت اور باقی آلائشوں سے پاک اعمال اگرچہ کم ہوں اور مال اگرچہ قلیل ہو خدا کے یہاں وہی پسندیدہ ہے۔ فَاتَّقُوْ اللہَ الخ اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو اور عمل طیب اور مال طیب کو اگرچہ کم ہو۔ عمل خبیث اور مال خبیث پر اگرچہ زیادہ ہو، ترجیح دو تاکہ تم دنیا و آخرت میں فلاح اور کامیابی حاصل کرسکو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

100 اے پیغمبر آپ ان لوگوں سے فرما دیجیے کہ ناپاک چیز خواہ دو گنا ہو یا گناہ کرنے والا ہو یا کوئی حرام چیز ہو کسی پاک چیز کے خواہ وہ نیکی ہو یا نیکی کرنیوالا ہو یا کوئی حلال چیز ہو دونوں چیزیں خبیث اور طب برابر نہیں ہوسکتیں اگرچہ اے دیکھنے والے ناپاک کی اکثرت تجھ کو تعجب میں ہی کیوں نہ ڈالتی ہو تب بھی دونوں میں مساوات اور برابری نہیں ہوسکتی یعنی ناپاک کی بہتات اور اکثریت قابل تعجب اور خوش آئند نہیں ہے لیکن اگر کسی کے لئے تعجب انگیز ہو تب بھی طیب ار خبیث میں برابری نہیں ہوسکتی حرام خواہ کتنا ہی زیادہ ہو بہرحال حرام اور خبیث ہے اور حلال کتنا ہی کم ہو بہرحال حلال اور طیب ہے لہٰذا اے عقل مند واللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ناپاک کی کثرت کو دیکھ کر اس کی جانب توجہ نہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔