Sequence of Verses Mentioned earlier was one ignorant habit of the disbelievers who were very rigid in their customs. There were many more of such habits which made Muslims grieve. Therefore, the text now addresses Mus¬lims asking them not to worry about others. They have been asked to correct themselves first - and then try to reform others within the limit of what they can do. Onward from there, that their efforts bear fruit is something beyond their control. Therefore, for them the best course is: Do your own job and not the job of others. Commentary The Background of the Revelation of the Verses Following forefathers was one of the many customs of Jahiliyyah which had involved them in all sorts of evils, and equally deprived them of all kinds of virtues too. As reported in the Tafsir Al-Durr Al-Manthur from Ibn Abi Hatim, if a lucky person listened to the truth and embraced Islam, he was put to shame on the plea that he had proved his forefathers to be no good since he took to another way at the cost of the way of his forefathers. It was this compounded error of theirs whereupon the following verse was revealed: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا And when it is said to them, |"Come to what Allah has sent down, and to the Messenger;|" they say, |"sufficient for us is what we have found our forefathers on.|" In other words, when they were asked to turn to the truth and to the injunctions revealed by Allah Ta` ala, and to the Messenger who is, in all possible respects, the guarantor of good for them, then, they have no answer to give but that the customs on which we found our forefathers are sufficient for us.& This is the master argument of Shaytan which made millions of people fall into error despite having at least average sense, knowledge and skills. Answering it, the Qur&an said: أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا (Is it so, even if their forefathers knew nothing ... ). For those who would care to ponder, this one sentence of the Qur&an has provided a correct principle to uphold when following a person or group or party - a principle which brings sight to the unsighted and reality to the ignorant and the heedless. It makes sense if those who do not know follow those who do, the uninitiated follow the experienced and the ignorant follow the learned. But, what does not make sense is that one elects to move away from the standards of knowledge, reason and guidance and ends up making the following of forefathers as preferred practice - without realizing as to where this leader of theirs is and to where would he take them yet having the compulsion to tag along behind him? This is how some people take a mob of people as the yardstick of right and wrong. Wherever they see a lot of people going, they will start moving in that direction. This too is absurd - because the majori¬ty of people in this world is always that of those who are not the wisest or the smartest or the most virtuous in deeds. Therefore, following a mob of people cannot become the criterion of distinction between truth and untruth or good and bad. Following an Undeserving Leader is Asking for Trouble This sentence of the Qur&an gives everyone a clear lesson in wisdom - that none of these criterions are at all sufficient to help in choosing someone as a leader to be followed. The correct attitude is that every-one should first determine the aim of his life and the direction of his journey in it. Then, in order to achieve that purpose, he has to look for a person who has the knowledge of that direction and is himself pro¬ceeding to it. When one finds a person like that, then, tagging along behind him can certainly take one all the way to his destination. This is the reality underlying what we know as the Taqlid (following) of the Mujtahid Imams. They know دین Din and they follow it too. Therefore, those who do not know can, by following them, achieve the main pur¬pose of religion, that is, the obedience to Allah and His Messenger, and the following of their commands. As for one who is already astray, who does not himself know the destination, or is knowingly going in a direction opposite to the destination, then, following him shall be, in the sight of every wise person, a waste of one&s efforts and deeds, rath¬er the signing of one&s own warrant of destruction. It is a pity that in the present age of so-called knowledge and enlightenment, even the people of education and foresight are ignoring the fact that the great¬est cause of world upheaval is the locked following of leaders who are incompetent, undeserving, and false.
ربط آیات اوپر رسم پرست کفار کی ایک جہالت کا ذکر تھا، اور ایسی ایسی جہالتیں ان کی بہ کثرت تھیں، جن کو سن کر مؤمنین کو رنج اور افسوس ہوتا تھا، اس لئے آگے مؤمنین کو اس کے متعلق ارشاد ہے کہ تم کیوں اس غم میں پڑے ہو، تم کو اپنی اصلاح کا اور دوسرے کی اصلاح میں بقدر وسعت وقدرت کوشش کرنے کا حکم ہے، باقی کوشش پر ثمرہ مرتب ہونا تمہارے اختیار سے خارج ہے، اس لئے ” کار خودکن کار بےگانہ مکن “ پر عمل کرو۔ خلاصہ تفسیر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف (جن پر وہ احکام نازل ہوئے ہیں) رجوع کرو (جو امر اس سے حق ثابت ہو حق سمجھو اور جو باطل ہو باطل سمجھو) تو کہتے ہیں کہ ہم کو (ان احکام اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت نہیں ہم کو) وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) کیا (وہ طریقہ ان کے لئے ہر حال میں کافی ہے) اگرچہ ان کے بڑے (دین کی) نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں، اے ایمان والو اپنی (اصلاح کی) فکر کرو (اصل کام تمہارے ذمہ یہ ہے، باقی دوسروں کی اصلاح کے متعلق یہ ہے کہ جب تم اپنی طرف سے اپنی قدرت کے مطابق اصلاح کی سعی کر رہے ہو مگر دوسرے پر اثر نہیں ہوتا تو تم اثر مرتب نہ ہونے کی فکر میں نہ پڑو کیونکہ) جب تم (دین کی) راہ پر چل رہے ہو (اور واجبات دین کو ادا کر رہے ہو اس طرح کہ اپنی بھی اصلاح کر رہے ہو اور دوسروں کی اصلاح میں بھی کوشش کر رہے ہو) تو جو شخص (باوجود تمہاری سعی اصلاح کے بھی) گمراہ رہے تو اس (کے گمراہ رہنے) سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (اور جیسا اصلاح وغیرہ میں حد سے زیادہ فکر و غم سے منع کیا جاتا ہے ایسے ہی ہدایت سے ناامید ہونے کی صورت میں غصہ میں آکر دنیا ہی میں ان پر سزا نازل ہونے کی تمنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ حق و باطل کا مکمل فیصلہ تو آخرت میں ہوگا، چنانچہ) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دیں گے جو کچھ تم سب کیا کرتے تھے (اور جتلا کر حق پر ثواب اور باطل پر عذاب کا حکم نافذ فرما دیں گے) ۔ معارف ومسائل آیات کا شان نزول جاہلیت کی رسموں میں ایک تقلید آباء بھی تھی، جس نے ان کو ہر برائی میں مبتلا اور ہر بھلائی سے محروم رکھا تھا، تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ ان میں سے کوئی خوش نصیب اگر حق بات کو مان کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو یوں عار دلائی جاتی تھی کہ تو نے اپنے باپ دادوں کو بیوقوف ٹھہرایا، کہ ان کے طریق کو چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرلیا۔ ان کی اس گمراہی در گمراہی پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یعنی جب ان کو کہا جاتا کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکام اور رسول کی طرف رجوع کرو جو ہر حیثیت سے حکمت و مصلحت اور تمہارے لئے صلاح و فلاح کے ضامن ہیں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ ہم کو تو وہی طریقہ کافی ہے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو دیکھا۔ یہ وہ شیطانی استدلال ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو معمولی سمجھ بوجھ اور علم و ہنر رکھنے کے باوجود گمراہ کیا، قرآن کریم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ ، غور کرنے والوں کے لئے قرآن کے اس ایک جملہ نے کسی شخص یا جماعت کی اقتداء کرنے کا ایک صحیح اصول بیان کرکے اندھوں کے لئے بینائی کا اور جاہل و غافل کے لئے انکشاف حقیقت کا مکمل سامان فراہم کردیا ہے، وہ یہ کہ یہ بات تو معقول ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں کی، ناواقف لوگ واقف کاروں کی پیروی کریں، جاہل آدمی عالم کی اقتداء کرے لیکن یہ کوئی معقول بات نہیں کہ علم و عقل اور ہدایت کے معیار سے ہٹ کر اپنے باپ دادا یا کسی بھائی بند کی اقتداء کو اپنا طریقہ کار بنا لیا جائے، اور بغیر یہ جانے ہوئے کہ یہ مقتداء خود کہاں جا رہا ہے، اور ہمیں کہاں پہنچائے گا اس کے پیچھے لگ لیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کسی کی اتباع و اقتداء کا معیار لوگوں کی بھیڑ کو بنا لیتے ہیں جس طرف یہ بھیڑ دیکھی اسی طرف چل پڑے، یہ بھی ایک نامعقول حرکت ہے، کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ دنیا میں بیوقوفوں یا کم عقلوں کی اور عمل کے لحاظ سے بدعملوں کی رہتی ہے، اس لئے لوگوں کی بھیڑ حق و ناحق یا بھلے برے کی تمیز کا معیار نہیں ہوسکتی۔ نااہل کو مقتداء بنانا ہلاکت کو دعوت دینا ہے قرآن کریم کے اس جملہ نے سب کو ایک واضح حکمت کا سبق دیا کہ ان میں سے کوئی چیز مقتداء و پیشواء بنانے کے لئے ہرگز کافی نہیں، بلکہ ہر انسان پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد اور اپنے سفر کا رخ متعین کرے، پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ دیکھے کہ کون ایسا انسان ہے جو اس مقصد کا راستہ جاننے والا بھی ہو، اور اس راستہ پر چل بھی رہا ہو، جب کوئی ایسا انسان مل جائے تو بیشک اس کے پیچھے لگ لینا اس کو منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہے، یہی حقیقت ہے ائمہ مجتہدین کی تقلید کی کہ وہ دین کو جاننے والے بھی ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی، اس لئے نہ جاننے والے ان کا اتباع کرکے دین کے مقصد یعنی اتباع خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل کرسکتے ہیں اور جو گم کردہ راہ ہو، منزل مقصود کو خود ہی نہ جانتا ہو، یا جان بوجھ کر منزل کے خلاف سمت چل رہا ہو اس کے پیچھے چلنا ہر عقل مند کے نزدیک اپنی سعی و عمل کو ضائع کرنا، بلکہ اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے، اس علم و حکمت اور روشن خیالی کے زمانہ میں بھی افسوس ہے کہ لکھے پڑھے ہوش و عقل والے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور آج کی بربادی اور تباہی کا سب سے بڑا سبب نااہل اور غلط مقتداؤں اور لیڈروں کے پیچھے چلنا ہے۔ اقتداء کا معیار قرآن کریم کے اس جملہ نے اقتداء کا نہایت معقول اور واضح معیار دو چیزوں کو بنایا ہے، علم اور اہتداء، علم سے مراد منزل مقصود اور اس تک پہنچنے کے طریقوں کا جاننا ہے اور اہتداء سے مراد اس مقصد کی راہ پر چلنا، یعنی صحیح علم پر عمل مستقیم۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جس شخص کو مقتداء بناؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ جس مقصد کے لئے اس کو مقتداء بنایا ہے وہ اس مقصد اور اس کے طریق سے پوری طرح واقف بھی ہے یا نہیں، پھر یہ دیکھو کہ وہ اس کی راہ پر چل بھی رہا ہے ؟ اور اس کا عمل اپنے علم کے مطابق ہے یا نہیں ؟ غرض کسی کو مقتداء بنانے کے لئے علم صحیح اور عمل مستقیم کے معیار سے جانچنا ضروری ہے، محض باپ دادا ہونا یا بہت سے لوگوں کا لیڈر ہونا، یا صاحب مال و دولت ہونا یا صاحب حکومت و سلطنت ہونا ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو معیار اقتداء سمجھا جائے۔ کسی پر تنقید کرنے کا مؤ ثر طریقہ قرآن کریم نے اس جگہ تقلید آبائی کے خوگر لوگوں کی غلطی کو واضح فرمایا، اور اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے پر تنقید اور اس کی غلطی ظاہر کرنے کا ایک خاص مؤ ثر طریقہ بھی بتلا دیا، جس سے مخاطب کی دل آزاری یا اس کو اشتعال نہ ہو، کیونکہ دین آبائی کی تقلید کرنے والوں کے جواب میں یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل یا گمراہ ہیں، بلکہ ایک سوالیہ عنوان بنا کر ارشاد فرمایا کہ کیا باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی کوئی معقول بات ہوسکتی ہے جب کہ باپ دادا، نہ علم رکھتے ہوں نہ عمل۔