Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 108

سورة المائدة

ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجۡہِہَاۤ اَوۡ یَخَافُوۡۤا اَنۡ تُرَدَّ اَیۡمَانٌۢ بَعۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾٪  4

That is more likely that they will give testimony according to its [true] objective, or [at least] they would fear that [other] oaths might be taken after their oaths. And fear Allah and listen; and Allah does not guide the defiantly disobedient people.

یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی اور اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سنو! اور اللہ تعالٰی فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ أَدْنَى أَن يَأْتُواْ بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا ... That should make it closer (to the fact) that their testimony would be in its true nature and shape (and thus accepted), means, the ruling requiring the two Dhimmi witnesses to swear, if there is a doubt that they were not truthful, might compel them to admit to the testimony in its true form. Allah's statement, ... أَوْ يَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ... or else they would fear that (other) oaths would be admitted after their oaths. means, requiring them to swear by Allah might encourage them to admit to the true testimony because they respect swearing by Allah and they glorify and revere Him. They also fear exposure if the heirs of the deceased are required to swear instead of them. In this case, the heirs would swear and earn the rightful inheritance that the two witnesses failed to declare. This is why Allah said, أَوْ يَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ (or else they would fear that (other) oaths would be admitted after their oaths). then, ... وَاتَّقُوا اللّهَ ... And have Taqwa of Allah, in all of your affairs, ... وَاسْمَعُواْ ... and listen, and obey, ... وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ And Allah guides not the rebellious people. who do not obey Him or follow His Law.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان ایک چاندی کا پیالہ تھا جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کر کے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کردی اور فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چناچہ انہوں نے ان غیر مسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔ (ترمذی 3059 به تحقیق أحمد شاکر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے (صحیح ترندی)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٦] ان آیات میں چند باتیں قابل ذکر ہیں جو یہ ہیں۔ (١) یہاں پہلی دفعہ شہداء کا جو ذکر آیا ہے وہ وصی کے معنوں میں آیا ہے یعنی وہ لوگ جن کو میت اپنا ترکہ حوالہ کر کے انہیں وصیت کرے (٢) غیر مسلموں کو صرف اس صورت میں وصی بنایا جاسکتا ہے جب مسلم وصی دستیاب نہ ہو رہے ہوں جیسے سفر میں اکثر ایسی ضرورت پیش آجاتی ہے (٣) آئندہ کے لیے یہ قانون مقرر کردیا گیا کہ اگر وصی کے بیانات میں کچھ شک پڑجائے تو اس کے بعد ان سے اہل تر گواہوں کی شہادت کی بنا پر اوصیاء کی گواہی کو کالعدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے لہذا انہیں چاہیے کہ گواہی ٹھیک ٹھیک دیا کریں تاکہ بعد میں رسوائی نہ ہو اور (٤) صحیح تر بات یہ ہے کہ وہ اپنی رسوائی سے ڈرتے ہوئے سچ بولنے کی بجائے اگر اللہ سے ڈر کر سچی گواہی دیں تو یہی بات زیادہ مناسب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ اَدْنٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِالشَّہَادَۃِ عَلٰي وَجْہِہَآ اَوْ يَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۢ بَعْدَ اَيْمَانِہِمْ۝ ٠ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاسْمَعُوْا۝ ٠ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ١٠٨ۧ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل می ج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ذلک ادنیٰ ان یاتوا بالشھادۃ علی وجھھا اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھاک گواہی دیں گے) یعنی واللہ اعلم … یہ طریقہ اس بات سے زیادہ قریب ہے کہ وہ گواہی کو نہیں چھپائیں گے اور نہ ہی اس میں کوئی رد و بدل کریں گے۔ قول باری ہے (او یخافوا ان تردد ایمان بعد ایمانھم، ای کم از کم اس بات کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے گی) یعنی جب یہ دونوں قسم کھائیں کہ ہم نے نہ تو کوئی چیز چھپائی ہے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا ہے۔ پھر میت کا کوئی سامان ان کے پاس سے برآمد ہوجائے تو اس صورت میں ورثاء کی قسم ان کی قسموں سے اولیٰ قرار دی جائے گی جو انہوں نے شروع میں قسم کھائی تھی کہ ہم نے نہ تو کوئی چیز چھپائی ہے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا ہے۔ تمیم داری اور عدی بن بداء کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت ابن عباس سے یہی کچھ منقول ہے۔ قول باری ہے (تحبسونھما من بعد الصلوۃ تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو گے) ابن سیرین اور قتادہ سے مروی ہے کہ ان سے عصر کی نماز کے بعد حلف لیا جائے گا، عصر کے بعد حلف لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس عظمت والے وقت میں قسم اٹھانے والوں کو قسم کی شدت اور اس کے دبائو کا احساس دلایا جاسکے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی، نمازوں کی نگہداشت کرو خاص طور پر وسطی نماز کی) ایک روایت کے مطابق یہ عصر کی نماز ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ انہوں نے اسی قسم کے واقعہ میں گواہوں سے عصر کے بعد حلف اٹھوایا تھا۔ ایک روایت ہے کہ عظمت والی جگہ یعنی مسجد میں حلف اٹھوانے کے ذریعے قسم کے اندر شدت پیدا کی جاتی ہے۔ حضرت جابر نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حلف عندھذا المنبر علی ایمین اثمۃ قلیتبوا مقعدہ من النار ولو علی سواک اخضر جس شخص نے اس منبر کے پاس کسی غلط بات کی قسم اٹھائی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا خواہ اس کی یہ قسم پیلو کے تازہ مسواک کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ آپ کے منبر کے قریب غلط بات کی قسم اٹھانا بدترین گناہ ہے۔ یہی حکم ان تمام مقامات کا ہے جو عبادت، اللہ کی تعظیم اور اس کی یاد کے لئے مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان مقامات میں معصیت کا ارتکاب زیادہ گناہ کا سبب بنے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مسجد حرام اور مکعبہ کے اندر (نعوذ باللہ) زنا کاری اور شراب خوری کا زیادہ گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ ان کا ارتکاب کسی اور مقام پر کیا جاتا۔ تاہم دعوں کے سلسلے میں منبر کے نزدیک یا مسجد کے اندر جا کر قسم کھانا واجب نہیں ہے۔ یہ تو صرف اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور اس کا خوف دلانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔ امام شافعی سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے منبر کے پاس لے جا کر اس سے حلف اٹھوایا جائے گا۔ بعض شوافع نے حضرت جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس حدیث کا ذکر ہم گزشتہ سطور میں کرچکے ہیں۔ انہوں نے حضرت وائل بن حجر کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرمی سے فرمایا تھا ” تمہیں اس کی یعنی فریق مخالف کی قسم ماننی پڑے گی۔ “ حضرمی نے عرض کیا کہ ” میرا مخالف ایک فاجر شخص ہے اسے جھوٹی قسم کھانے کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس کے سوا تم اس سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ “ جب وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے چل پڑا تو آپ نے فرمایا (من حلف علی مال لیا کلہ ظلماً لقی اللہ وھو عنہ معرض۔ جو شخص قسم کھا کر کسی کا مال ہتھیا لے گا تو قیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا اللہ اس سے اپنا منہ پھیر لے گا۔ ) اسی طرح ان حضرات نے اشعت بن قیس کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے چلا تو لوگو نے اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنایا کہ (من حذف عند ھذا المنبر علی یمین اثبۃ … ) یہ روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ منبر کے پاس لے جا کر قسمیں اٹھوائی جاتی تھیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان روایتوں میں یہ دلالت نہیں ہے کہ منبر کے پاس لے کر حلف اٹھوانا مسنون فعل تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر کے قریب تشریف فرما ہوتے تھے۔ اسی لئے اگر کسی سے حلف لینا ہوتا تو منبر کے پاس لیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں منبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جھوٹی قسم کھانے کا گناہ بھی زیادہ تھا اس لئے کہ اس مقام کی بڑی حرمت و عظمت تھی۔ اس بنا پر روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ قسم کھانے کا عمل منبر کے پاس ہی ہو۔ امام شافعی معمولی چیز کے متعلق حلف اٹھوانے کے لئے منبر کے پاس جانا ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ حدیث میں ذکر ہے کہ چاہے جھوٹی قسم کھانے الے نے تازہ مسواک کے بارے میں قسم کیوں نہ کھائی ہو۔ اس طرح امام شافعی نے اپنے اس اصل کی بنا پر حدیث کی مخالفت کی ہے۔ حضرت وائل بن حجر کی روایت اس امر کا ذکر ہے کہ جب وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے مڑا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے وہ وعید سنائی جس کا روایت میں ذکر ہے۔ اس میں یہ دلالت نہیں ہے کہ وہ شخص منبر کے پاس گیا۔ بلکہ اس سے قسم اٹھانے کے لئے اس کے ارادے اور عزم کا پتہ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ثم ادبرواستکبر پھر وہ مڑا اور تکبر کیا) آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کسی جگہ کی طرف جانے کے مڑا تھا بلکہ یہ مراد ہے کہ اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل پر اصرار کیا صحابہ کرام سے منبر کے پاس جا کر یا مقام ابراہیم اور رکن کے درمیان حلف اٹھانے کی جو روایتیں مقنول ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مقامات پر مقدمات کے فیصلے صادر فرمایا کرتے تھے۔ اس سے انکار نہیں کہ ان مقامات پر قسم اٹھانے کا معاملہ دوسرے مقامات کی بہ نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ لیکن ان مقامات پر جا کر قسم اٹھانا واجب نہیں ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لیمین علی المدعی علیہ ، مدعا علیہ پر قسم کھانے کی ذمہ داری ہے) آپ نے کسی جگہ اور مقام کے ساتھ قسم اٹھانے کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن اگر حاکم مدینہ منورہ میں منبر کے پاس یا مکہ معظمہ میں مسجد حرام کے اندر لے جا کر حلف اٹھوائے اور اس طرح قسم کے معاملے کو اور زیادہ مئوکد اور سخت بنا دے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں ان دونوں شخصوں سے جنہیں میت کی وصیت پر گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو ۔ عصر کی نماز کے بعد حلف اٹھوانے کا حکم دیا ہے اس لئے کہ بہت سے کفار اس وقت کی نیز غروب آفتاب کے وقت کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے۔ فصل آیت زیر بحث اہل ذمہ کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز پر دلالت کو متضمن ہے۔ اس لئے کہ آیت مسلمانوں پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہے تو اہل ذمہ کی اہل ذمہ کے بارے میں گواہی کے جواز کی اس سے بڑھ کر مقتضی ہوگی۔ آیت سفر میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن جب مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم قول باری (یایھا الذین امنوا اذا تدا اینتم بدین الی جل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) کے ذریعے منسوخ ہوگیا تو مسلمانوں پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی نفی ہوگئی اور اس کی وجہ سے قول باری (اواخران من غیر کم) کا حکم منسوخ ہوگیا۔ تاہم سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کے حکم پر آیت کی دلالت باقی رہی۔ جب سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم باقی رہ گیا تو یہ امر تمام حقوق کے اندر ذمیوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کا مقتضی ہوگیا اس لئے کہ جن لوگوں نے سفر میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ ک ی گواہی کو جائز قرار دیا ہے اور مسلمان کی وصیت پر ایسی گواہی کو جائز قرار نہیں دیا۔ انہوں نے تمام حقوق کے سلسلے میں اہل ذمہ کے لئے اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قاضی ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اور اوزاعی سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن تمام حقوق کے اندر وہ ذمی پر ایسی گواہی کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ مسلمانوں پر اس قسم کی گواہی کا حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن ذمیوں کے لئے تمام حقوق کے اندر باقی ہے۔ اہل ذمہ کی ایک دوسرے کے متعلق گواہی قبول کرلینا خواہ ان کے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے، نیز عثمان البتی اور سفیان ثوری بھی اس کے قائل ہیں۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اوزاعی ، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اہل ذمہ میں سے ہر مذہب کے پیروکاروں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے لیکن کسی اور مذہب کے ماننے والے پر جائز نہیں ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ کافروں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز نہیں ہے۔ ہم نے آیت زیر بحث کی جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ دین اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے پیروکاروں کی گواہیوں کی یکسانیت کی مقتضی ہے۔ چنانچہ قول باری ہے (اواخر ان من غیر کم) یعنی اہل ایمان جن کے ذکر سے ابتداء ہوئی تھی ان کے سوا یعنی تمام غیر مسلم ۔ آیت نے ان غیر مسلموں کے مذاہب کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی بلکہ سب کو یکساں درجے پر رکھا۔ آیت جس طرح سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ملل یعنی غیر مسلموں کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہے اسیطرح وہ کافروں کی وصیت پر غیر مسلموں کی گواہی کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے خواہ ان کے مذاہب ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ سنت کی جہت سے غیر مسلموں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کو واجب کرنے والی وہ روایت ہے جسے امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ یہودی ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زناء کا ارتکاب کیا ہے، اس گواہی پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو سنگسار کردینے کا حکم دے دیا۔ اعمش نے عبداللہ بن مرہ سے، انہوں حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک یہودی گذرا جس کا منہ کالا کردیا گیا تھا، آپ نے اس کے بارے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا جس کی بنا پر اس کا منہ کالا کردیا گیا ہے حضور نے اسے رجم کردینے کا حکم صادر فرمایا۔ جابر نے شعبی سے روایت کی ہے کہ یہود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مرد اور ایک عورت کو پکڑ کر لائے اور کہنے لگے کہ ان دونوں نے اپنا منہ کالا کیا ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اپنے مذہب کے چار گواہ پیش کرو۔ چناچہ چار یہودیوں نے گواہی دی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سنگسار کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔ شعبی سے مروی ہے کہ اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے۔ قاضی شریح عمر بن عبدالعزیز اور زہری سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ ابن وہب کا قول ہے کہ امام مالک نے عیسائیوں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی کو رد کر کے اپنے استادوں کی مخالفت کی ہے۔ ابن شہاب زہری یحییٰ بن سعید اور ربیعہ ایسی گواہی کے جواز کے قائل تھے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک اہل علم ابن ابی عمران کا قول ہے کہ ” یحی بن اکثم کہتے تھے کہ میں نے اس گواہی کے سلسلے میں تمام اقوال جمع کئے تھے، مجھے متقدمین میں سے عیسائیوں کی آپس میں ایک دوسرے کی گواہی کو رد کردینے کے بارے میں کسی کا بھی قول نہیں ملا۔ مجھے صرف ربیعہ کا قول ملا وہ اس قسم کی گواہی کو رد کردینے کے قائل تھے۔ تاہم مجھے ایسی گواہی کے جواز کے بارے میں بھی ان کا قول مل گیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت زیر بحث کی تاویل کے سلسلے میں سلف کے اقوال کا ذکر کردیا ہے اور یہ بیان کردیا ہے کہ آیت کا کون اس حکم منسوخ ہوچکا ہے اور کون اس حکم باقی اور ثابت ہے۔ اب ہم آیت کا اس کے سیاق کے حوالے سے ذکر کریں گے، نیز اس کے شان نزول کے پس منظر میں اس کی ترتیب جس حکم کے مقتضی ہے اسے بھی بیان کریں گے۔ وباللہ التوفیق قول باری (یھایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم) کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ ہے۔ “ تمہاری آپس کی گواہی تم میں سے دو عادل آدمیوں کی گواہی ہوگی۔ “ دوسری مرتبہ واقع ہونے والے شہادت کے لفظ کو حذف کردیا گیا اس لئے کہ مخاطبین کو اس کی مراد کا علم تھا۔ آیت میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ ” تم پر آپس کی گواہی لازم ہے۔ “ اس صورت میں دو عادل آدمیوں کو گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح قرض کے سلسلے میں یہ قول باری ہے (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) اس سے سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر د و عادل مسلمانوں یا دو غیر مسلموں کو گواہ بنانے کا حکم معلوم ہوا ۔ آیت کا نزول اس سبب کی بن اپر ہوا تھا جس کا ذکر حضرت ابن عباس کی روایت میں تمیم داری اور عدی بن بداء کے مذکورہ واقعہ کے سلسلے میں پہلے گذر چکا ہے۔ آیت میں اس سبب کے بعض حصوں کا ذکر ہوا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان انتم ضربتم فی الارض فاصا بتکم مصیبۃ الموت اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیت پیش آ جائے) مسلمان کی وصیت پر دو ذمیوں کی گواہی قبول کرنے کی یہ شرط لگائی گئی ہے کہ وصیت کا واقعہ سفر کی حالت میں پیش آئے۔ قو ل باری (حین الوصیۃ) اس مفہوم کو متضمن ہے کہ دونوں گواہ ہی وصی قرار پائیں اس لئے کہ اصل واقعہ میں وصیت کرنے والے نے دو ذمیوں کو وصیت کی تھی۔ پھر یہ دونوں آ گئے اور آ کر وصیت کی گواہی دی۔ یہ اس امر کو متضمن ہے کہ میت کی وصیت پر ایسے دو افراد کی گواہی جائز ہے جنہیں وصیت کی گئی ہو۔ پھر فرمایا (فاصابتکم مصیبۃ الموت) اس سے مراد اس میت کا واقعہ ہے جس نے وصیت کی تھی۔ ارشاد ہوا (تحسبوتھم من بعد الصلوۃ) اس سے مراد ہے یہ کہ جب ورثاء ان دونوں پر یہ الزام لگائیں کہ انہوں نے میت کے مال میں سے کوئی چیز روک لی ہے اور اپنے قبضے میں کرلیا ہے جیسا کہ عکرمہ نے تمیم داری کے واقعہ کے سلسلے میں روایت کی ہے۔ نیز جس طرح حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا تھا جب انہوں نے دونوں ذمی گواہوں سے یہ حلف لیا تھا کہ ہم نے کوئی خیانت نہیں کی اور نہ ہی کذب بیانی کی۔ اس الزام کی وجہ سے یہ دونوں گواہ مدعا علیہ بن گئے تھے اسی بنا پر ان سے حلف لیا گیا تھا ا سے یہ لحف گواہ ہونے کی بنا پر نہیں لیا گیا تھا۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فیقسمان باللہ ان ارتبتم لا نشتری بہ ثمنا و لوکان ذا قربی ولا نکتم شھادۃ وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں گے اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے کہ ” ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ( ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ ہی گواہی کو چھپانے والے ہیں) یعنی اس چیز کے متعلق جس کی میت نے وصیت کی تھی اور اس پر ان دونوں کو گواہ بنایا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (فان ععثر علی نھما استحقا اثماً لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے) یعنی اس کے بعد میت کے مال میں سے کوئی چیز ان کے قبضے سے نکل آئے۔ وہ چیز چاندی کا پیالہ تھا جو میت کے مال میں سے ان کے قبضے سے برآمد ہوا تھا۔ پھر ان دونوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے میت سے اسے خرید لیا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (فاخران یقومان مقامھما) پھر ان کی جگہ دو اور شخص کھڑے ہوں) یعنی قسم کے اندر، کیونکہ اس صورت میں وہ دونوں گواہ خریداری کے مدعی بن گئے تھے اس لئے ورثا پر قسم لازم ہوئی چونکہ میت کے ان دونوں وارثوں کے سوا اور کوئی وارث نہیں تھے اس لئے یہ دونوں مدعا علیہ بن گئے اور اسی بنا پر ان سے حلف لیا گیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (من الذین استحق علیھم الاولیان فیقسمان باللہ لشھادتنا احق من شھادتھما، ان لوگوں میں سے جن کا حق پچھلے دو گواہوں نے مارنا چاہا تھا وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ” ہماری شادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے) یعنی یہ قسم اس قسم سے اولیٰ ہے جو دونوں وصی یعنی گواہوں نے کھائی تھی کہ ہم نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا اس لئے کہ دونوں وصی یعنی گواہ اس صورت حال کے تحت مدعی بن گئے تھے اور دونوں وارث مدعا علیہ ہوگئے تھے۔ یہ دونوں گواہ قسم کھا کر ظاہری طور پر بری الذمہ ہوگئے تھے اس لئے وصیت کے متعلق ان کی گواہی قبول کرلی گئی لیکن جب ان کے قبضے سے میت کا مال برآمد ہوگیا تو پھر ورثاء کی قسم اولیٰ اور زیادہ برحق ہوگئی۔ قول باری (الاولیان) کی تاویل میں اختلاف رائے ہے۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ان سے مراد وہ ہیں جو میت سے قریب ہوں یعنی اس کے ورثاء ایک قول ہے کہ گواہی کے لئے اولیٰ اس مقام پر اس سے مراد ایمان یعنی قسمیں ہیں۔ آیت میں گواہوں پر ا ن کی دی ہوئی گواہی کے سلسلے میں قسم کے ایجاب پر کوئی دلالت نہیں ہے ان دونوں پر قسم اس وقت واجب کی گئی جب ورثاء نے ان کے خلاف بد دیاتنی اور خیانت نیز میت کے نز کہ میں ایک چیز دبا لینے کا دعویٰ کردیا۔ اس طرح آیت میں مذکورہ شہادتوں میں سے بعض نے قسموں کی صورت اختیار کرلی۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ وصیت پر گواہی کی وہی حیثیت ہے جو حقوق پر گواہی کی ہوتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (شھادۃ بینکم) اس سے لا محالہ وہ گواہیاں مراد ہیں جو حقوق کے سلسلے میں دی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ آگے ارشاد ہوا (اثنان ذوا عدل منکم اواخر ان من غیر کم ) اس کے بعد فرمایا (فیقسمان باللہ) اس میں قسم کے سوا اور کسی مفہوم کا احتمال نہیں ہے۔ پھر فرمایا (فاخران یقومان مقامھما من الذین استحق علیھم الاولیان فیقسمان باللہ لشھادتنا) اس سے قسم مراد ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ ایمان یعنی قسمیں ہیں جو دونوں وارث کھائیں گے اور قول باری (احق من شھادتھما) میں یہ احتمال ہے کہ شہادت سے یمین یعنی قسم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ گواہی مراد ہے ۔ اس لئے کہ وہ دونوں گواہ جو وصی تھے ان دونوں نے گواہی بھی دی تھی اور قسم بھی کھائی تھی اب وارث کی قسم دونوں وصی کی گواہی اور ان کی قسم سے زیادہ برحق ہوگئی۔ اسلئے کہ ان دونوں گواہوں کی اپنے حق میں گواہی درست نہیں تھی اور ان کی قسم بھی ان کے اس دعویٰ کو درست ثابت نہ کرسکی کہ انہوں نے میت سے یہ پیالہ خریدا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (ذلک ادنیٰ ان یاتوا بالشھادۃ علی وجھھا) یعنی … واللہ اعلم … وصیت پر گواہی نیز یہ کہ وہ خیانت نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کریں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان یعنی قسموں کا جو حکم دیا ہے پھر کبھی یہ قسمیں گواہوں پر واجب کردی ہیں۔ جب ان کے خلاف بد دیاتنی اور خیانت کا الزام لگایا جائے … اور کبھی ورثاء پر واجب کردی ہیں … جب گواہ میت کے مال میں سے کوئی چیز خرید لینے کا دعویٰ کریں۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ جب انہیں اس بات کا علم ہوجائے گا تو وہ وصیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے۔ یا کم از کم اس بات کا ہی خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے۔ اس صورت میں وہ اپنی قسموں پر اقتصار نہیں کریں گے یعنی انہیں فیصلہ کن نہیں سمجھیں گے۔ نیز ان کی قسمیں اس چیز پر دوسروں کا حق مارنے کے الزام سے انہیں نہیں بچا سکیں گی، جو انہوں نے چھپا رکھی تھی اور اس کی خریداری کا دعویٰ کیا تھا، جب وارث اس چیز پر اپنے حق کی قسم کھالیں گے تو اس پر ان کا حق ثابت ہوجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) یہ قانون ان نصرانیوں کے مثلا واقعہ کو اس کی نوعیت کے ساتھ ظاہر کرنے کے لیے بہت ہی مناسب ذریعہ ہے یا وہ نصرانی اس بات سے ڈر کر قسمیں کھانے سے رک جائیں کہ ہم سے قسمیں لینے کے بعد پھر مسلمان ورثہ سے قسمیں لی جائیں گے تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا، لہٰذا امانت کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جن باتوں کا اللہ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے ان میں پورے طریقہ سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ گناہگار جھوٹوں اور کافروں کو اپنے دین کی طرف رہنمائی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یَّاْتُوْا بالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجْہِہَآ) (اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌم بَعْدَ اَیْمَانِہِمْ ط) کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اگر ہم نے جھوٹی قسم کھا بھی لی ‘ اور پھر اگر دوسرا فریق بھی قسم کھا گیا ‘ تو ہمارا منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ اس کی ہمت نہیں کریں گے۔ (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا ط) (وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ) اسی طرح کا معاملہ سورة النور (آیات ٦ تا ٩) میں بھی مذکور ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہو تو وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو اس ایک شخص کی گواہی چار گواہوں کے برابر ہوجائے گی۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی بتایا ہے ‘ کہ اگر بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ‘ مجھ پر تہمت لگا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر اس کا الزام درست ہو ‘ تو شوہر کی گواہی ساقط ہوجائے گی۔ اس طرح دونوں طرف سے اللہ تعالیٰ نے معاملے کو متوازن کیا ہے۔ اب آخری دو رکوع اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مکالمے کا نقشہ کھینچا گیا ہے ‘ جو قیامت کے دن ہوگا۔ اور اس کے پس منظر میں گویا ایک پوری داستان ہے ‘ جو ایک نئی شان سے سامنے آئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:108) ادنی۔ زیادہ نزدیک ۔ زیادہ کم۔ جب یہ اکبر کے مقابلہ میں ہو تو اصغر کے معنی دیتا ہے اور جب خبر کے مقابلہ میں ہو تو ارزل کے معنی دیتا ہے اور جب اقصی (دور) کے مقابلہ میں ہو تو نزدیک کے معنی دیتا ہے۔ یہ دان اور دنی کا اسم تفضیل ہے۔ پہلی صورت (دان سے) اقرب (نزدیک) اور دوسری صورت میں ارزل کے معنی میں آتا ہے۔ یاتوا۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ اصل میں یاتون تھا۔ ان کے عمل سے نون گرگیا۔ یاتواب وہ لائیں۔ ان یاتوا بالشھادۃ کہ وہ گواہی دیں۔ علی وجھھا۔ کما حقہ۔ جیسا کہ چاہیے۔ ٹھیک ٹھیک۔ ان ترد ایمان بعد ایمانھم۔ (یا وہ خوف کھائیں کہ) ان کی قسموں کے بعد قسم کو (وارثان میت کی طرف) لوٹایا جائے گا۔ یعنی ان کی قسم پر دوسرے فریق کی قسم لی جائے گی۔ اور ان کی قسم کی تردید ہوجائے گی۔ آیات نمبر 106 ۔ 107 ۔ 108 مطلب یہ ہوگا : ات ایمان والو ! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاوے۔ اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لئے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے وہ صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں۔ یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر مسلموں ہی میں سے وہ گواہ لے لئے جائیں۔ پھر اگر کوئی شک پڑجائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے ۔ اور وہ خدا کی قسم کھاکر کہیں کہ : ” ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ ہمارا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعائیت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا کے واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔ لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے کو گناہ میں مبتلا کیا ہے۔ تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کا حق پچھلے دو گواہوں نے مارنا چاہا تھا۔ اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے “۔ اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے یا کم از کم اس بات کا ہی خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے ۔ اللہ سے ڈرو اور سنو ! اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس آیت میں اظہار کو شہادت فرمایا ہے مدعی اظہار کرکے یا مدعا علیہ جیسے اقرار کو کہہ کردیتے ہیں کہ اس نے اپنی جان پر شہاددت دی (کذافی الموضح ) 9 لہذا جھوٹی قسم نہ کھا و اور وصیت میں کسی وارث کی حق تلفی نہ کرو۔ (شوکانی) آیت کی شان نزول میں مذکور ہے کہ ایک مسلمان (بدیل) اور دو نصرانی تیم داری اور دعی ایک سفر پر گئے بدیل بیمار پڑگیا اور اس نے اپنے سامان کی فہرست بناکر اس میں رکھ دی اور سامان اپنے نصرانی ساتھیوں کے سپرد کردیا کہ میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ ان نصرانیوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک جام (پیالہ) اڑالیا وہ پیالہ پکڑ گیا وارثوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور دعوی کیا اس اس پر یہ آیت نازل ہوئی آخر وراثوں نے قسم کھاکر اس پیالے کی قیمت وصول کرلی ( ملخصا ازا بن کثیر)10

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر احکام مختلفہ کا زکرہوا ہے اور درمیان میں ترغیب ان کے امتثال کی اور ترہیب ان کی مخالفت پر فرمائی گئی اسی کی تاکید کے لیے آیت آئندہ میں قیامت کے ہول وہیبت یاد دلاتے ہیں تاکہ اطاعت کا زیادہ باعث اور مخالف سے زیادہ مانع ہو اور اکثر طرز قرآن مجید کا یہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

173 یہ شہادت کے مذکورہ بالا طریقہ کی طرف اشار ہے۔ یعنی پہلے تو ان سے گواہی لی جائے جن کو میت نے وصی بنایا ہے۔ اگر ان کی خیانت اور کذب بیانی ظاہر ہوجائے تو پھر میت کے وارثوں سے قسم لی جائے۔ ہی طریقہ اصل مقصد حاصل کرنے کے لیے قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس سے یا تو گواہ عذاب آخرت سے ڈر کر صحیح گواہی دیدیں گے یا پھر دنیا میں رسوائی کے ڈر سے سچی گواہی دیں گے کیونکہ انہیں یہ اندیشہ ہوگا کہ ان کی قسمیں ردکردی جائیں گی۔ اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌ بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ ۔ یعنی ان کی قسموں کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد قسم کھانے کا حق وارثوں کو دیا جائے گا۔ یہاں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شرعی قانون کے مطابق قسم منکر دعویٰ کے ذمہ ہوتی ہے لیکن جب پہلے گواہوں کی خیانت ظاہر ہوجائے تو وارثوں پر قسم آتی ہے حالانکہ وہ مدعی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک حیثیت سے وارث بھی منکر ہیں کیونکہ وہ پہلے گواہوں کے اس دعوی کا انکار کر رہے ہیں کہ انہوں نے متوفی کا سارا مال بلا خیانت اس کے وارثوں کے حوالے کردیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 یہ حکم مذکور اس امر کا قریب ترین ذریعہ ہے کہ وہ گواہ یا وصی شہادت کو اس کی اصل حالت اور اس کی صحیح کیفیت پر ادا کیا کریں اور عذاب آخرت کے خوف سے جھوٹی قسمیں نہ کھائیں یا اس بات سے ڈریں کہ ان کی قسموں کے بعد یہ قسمیں میت کے ورثاء پر لوٹائی جائیں گی اور دنیا میں رسوائی ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کے ہر حکم کو توجہ کے ساتھ سنو اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کی رہنمائی نہیں فرماتا اور ایسے لوگوں کی سرپرستی نہیں کرتا جو اطاعت خداوندی کی حدود سے باہر نکل جانے والے ہیں۔