Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 119

سورة المائدة

قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۹﴾

Allah will say, "This is the Day when the truthful will benefit from their truthfulness." For them are gardens [in Paradise] beneath which rivers flow, wherein they will abide forever, Allah being pleased with them, and they with Him. That is the great attainment.

اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے اللہ تعالٰی ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں ، یہ بڑی ( بھاری ) کامیابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Only Truth will be of Benefit on the Day of Resurrection Allah says; قَالَ اللّهُ ... Allah will say: Allah answers His servant and Messenger `Isa, son of Maryam, after he disowns the disbelieving Christians who lied about Allah and His Messenger, and when `Isa refers their end to the will of his Lord. ... هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ... This is a ... Day on which the truthful will profit from their truth. Ad-Dahhak said that Ibn Abbas commented, "This is the Day when Tawhid will benefit those who believed in it." ... لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ... Theirs are Gardens under which rivers flow (in Paradise) -- they shall abide therein forever. and they will never be removed from it. ... رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ... Allah is pleased with them and they with Him. وَرِضْوَنٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ But the greatest bliss is the good pleasure of Allah. (9:72) We will mention the Hadiths about this Ayah (9:72) later on. Allah's statement, ... ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ That is the great success. means, this is the great success, other than which there is no greater success. Allah said in another Ayat, لِمِثْلِ هَـذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَـمِلُونَ For the like of this let the workers work. (37:61) and, وَفِى ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَـفِسُونَ And for this let (all) those strive who want to strive. (83:26) Allah's statement, لِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ   Show more

موحدین کے لیے خوش خبریاں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی ، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے ، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہو گا ، فی الواقع رب کی رضامندی زبر دست چیز ہے ، ابن ابی ح... اتم کی حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا ، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے ، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا ، پھر فرماتا ہے یہ ایسی بےمثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ، جیسے اور جگہ ہے اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیے اور آیت میں ہے رغبت کرنے والے اس کی رغبت کرلیں ، پھر فرماتا ہے سب کا خالق ، سب کا مالک ، سب پر قادر ، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے ، اس جیسا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے ، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے ، نہ باپ ، نہ اولاد نہ بیوی ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ کوئی اس کے سوا رب ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ۔ سب سے آخری سورت یہی سورہ مائدہ اتری ہے ۔ ( الحمد اللہ سورہ مائدہ کی تفسیر ختم ہوئی )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

119۔ 1 حضرت ابن عباس (رض) نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں، وہ دن ایسا ہوگا کہ صرف توحید ہی موحدین کو نفع پہنچائے گی، یعنی مشرکین کی معافی اور مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٠] سب سے سچی بات کلمہ توحید ہے :۔ اللہ تعالیٰ جواب فرمائیں گے آج عدل و انصاف کا دن ہے آج تو سچ اور سچی بات ہی کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور سب سے سچی بات کلمہ توحید ہے یعنی جن لوگوں نے کسی کو اللہ کا شریک نہ سمجھا ہو پھر زندگی بھر راست بازی کے ساتھ اس پر قائم رہے ہوں۔ انہی کی نجات ہوسکتی ہے۔ انہیں ہی...  جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اور طرح طرح کے انعامات سے نوازا جائے گا۔ ایسے لوگوں سے اللہ راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ اور چونکہ مقام رضائے الٰہی جنت ہی ہے۔ یہ انہیں بہرحال حاصل ہوجائے گی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَال اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ۭ: سب سے بڑا ظلم اور جھوٹ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور کفر کرنا ہے اور سب سے بڑا سچ اور انصاف اللہ تعالیٰ کی توحید اور ایمان ہے، یعنی اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔ یعنی مشرکین کی معافی اور بخشش ... کی کوئی صورت نہ ہوگی، البتہ توحید والوں کو ان کی توحید ضرور نفع پہنچائے گی، خواہ کتنے گناہ گار ہوں۔ چناچہ ابوذر (رض) بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح تک اس آیت کو نماز میں پڑھتے رہے : (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ المائدۃ : ١١٨ ] ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صبح کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ اس آیت کو ساری رات پڑھتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رکوع اور سجدے میں بھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس آیت کو بار بار پڑھ کر میں نے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی التجا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے میری التجا قبول کرلی ہے، میری امت میں سے جو شخص بغیر شرک کی حالت میں مرے گا اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی۔ “ [ أحمد : ٥؍١٤٩، ح : ٢١٣٨٦ ] ” الصّٰدِقِيْن “ کے لیے مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٧٧) ، سورة زمر (٣٣) اور سورة حجرات (١٥) ۔ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْم : اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Linkage of Verses The first two sections (Ruku`) appearing earlier describe some of the happenings on the day of Qiyamah such as the reckoning, the ques¬tions and their answers. Mentioned now is the outcome of the probe and reckoning of that fateful day. Commentary Notes 1. Verse 119 opens with the words: قَالَ اللَّـهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ (Allah said, |"This is a...  day the truth of the truthful shall bring benefit to them). Generally, what is according to what has happened is called truth while that which is not according to what has hap¬pened is referred to as false or a lie. But, according to the -Qur&an and Sunnah, sidq (truth) and kidhb کِذب (lie) are general, that is, they refer to both words and deeds. As such, given here is a Hadith in which counter-factual deed has been called kidhb مَن تَحَلَّی بِمَا لَم یُعطَ کَانَ کَلَابِسِ ثَوبَی زُورِ [ that is, whoever adorns himself (or herself) with what has not been given to him (or her) (that is, claims a quality or deed not in him or her) then, it is as if he has put on two garbs of a lie – [ Mishkat ]. There is another Hadith in which one who makes Salah with care and concern, whether in public or in private, has been called a true servant of Allah: اِن ال (علیہ السلام) عبدَ اِذا صَلَّی فِی السِّرِّ فَاَحسَنَ قَالَ اللہ تَعَالٰی ھٰزَا عَبدی A person who performs Salah openly, then, does it well; and when performs it in private, then, does it well, then, Allah Ta&ala says: ` This is My servant - in truth. - Mishkat. 2. About the statement: رضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ (Allah is pleased with them, and they are pleased with Him - 119), it appears in Ha¬dith that, after having blessed true believers with Jannah (Paradise), Allah Ta` ala will say: The real blessing is that I am pleased with you and now I shall never be displeased with you. 3. The words appearing after that are: ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (That is the great achievement). Indeed, so it is. When Allah Jalla Sha&nuhu, the Master, the Creator is pleased with you, what else could it be? فَلِلَّہِ الحَمدُ اَوَّلَہ وَ اٰخِرَہ All praises are for Allah from the beginning to the end.  Show more

ربط آیات اوپر دونوں رکوع میں قیامت کے دن اعمال و احوال کا حساب و کتاب اور سوال و جواب کا ذکر ہے، اب آگے اس تفتیش و محاسبہ کا نتیجہ ذکر کیا جاتا ہے۔ خلاصہ تفسیر (ان تمام مکالمات مذکورہ کے بعد) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ یہ (قیامت کا دن) وہ دن ہے کہ جو لوگ (دنیا میں باعتبار عقائد و اعمال اور ... اقوال کے) سچے تھے (کہ وہ سچا ہونا اب ظاہر ہو رہا ہے، جن میں انبیاء جن سے خطاب ہو رہا ہے اور مومنین جن کے ایمان کی انبیاء و ملائکہ سب شہادت دیں گے، سب داخل ہیں، اور اس میں اشارہ تصدیق رسل و تصدیق عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھی ان مخاطبات میں ہوگیا، غرض یہ سب حضرات جو دنیا میں سچے تھے) ان کا سچا ہونا (آج) ان کے کام آوے گا (اور وہ کام آنا یہ ہے کہ) ان کو (جنت کے) باغ (رہنے کو) ملیں گے جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے (اور یہ نعمتیں ان کو کیوں نہ ملیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور خوش ہیں (اور جو شخص راضی ومرضی ہو اس کو ایسی ہی نعمتیں ملتی ہیں) یہ (جو کچھ مذکور ہوا) بڑی بھاری کامیابی ہے (کہ دنیا کی کوئی کامیابی اس کے برابر نہیں ہوسکتی) ۔ ربط آیات اب سورت ختم ہونے کو ہے۔ پوری سورت میں کچھ اصولی اور فروعی احکام بیان ہوئے ہیں، اس لئے آخر میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے، اس لئے اسے یہ احکام دینے کا حق ہے۔ اور بندوں کو یہ احکام پوری طرح ماننے چاہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں وہ نافرمانی کی صورت میں سزا اور فرماں برداری کی صورت میں انعام دینے پر قادر ہیں۔ چناچہ فرمایا گیا اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی، اور ان چیزوں کی جو ان (آسمانوں اور زمین) میں موجود ہیں، اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ معارف و مسائل فائدہ : قَال اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ ، عام طور پر واقع کے مطابق قول کو صدق اور خلاف واقع کو کذب سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق و کذب عام ہے یعنی قول اور عمل دونوں کو شامل ہے، چناچہ اس حدیث میں خلاف واقع عمل کو کذب کہا گیا ہے، من تحلی بما لم یعط کان کلابس ثوبی زور۔ (مشکوۃ) ، ” یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو ایسے زیور سے آراستہ کرے جو اس کو نہیں دیا گیا، یعنی کسی ایسی صفت یا عمل کا دعویٰ کرے جو اس میں نہیں ہے تو گویا اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہنے۔ ایک دوسری حدیث میں علانیہ اور تنہائی میں اچھی طرح نماز پڑھنے والے کو سچا بندہ کہا گیا ہے، ارشاد ہے : ان العبد اذا صلی فی العلانیہ الخ۔ (ترجمہ) ” یعنی جو آدمی علانیہ اچھی طرح نماز پڑہتا ہے اور وہ تنہائی میں بھی اسی طرح ادا کرتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرا سچ مچ بندہ ہے “۔ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ، یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ جنت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بڑی نعمت یہ ہے کہ میں تم سے راضی ہوا اب کبھی تم پر ناراض نہ ہوں گا۔ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ یعنی یہی بڑی کامیابی ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی کہ مالک و خالق جل جلالہ راضی ہیں۔ فللّٰہ الحمد اولہ واخرہ،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اللہُ ہٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُہُمْ۝ ٠ۭ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝ ٠ۭ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝ ١١٩ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالبار... ي تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔ الجَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٩) اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ وہ دن ہے کہ مومنوں کا ان کا ایمان اور مبلغوں کو ان کی تبلیغ اور وعدوں میں سچے رہنے والوں کو ان کی سچائی کام آئے گی، ان حضرات کے لیے ایسے باغات ہوں گے جہاں درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد پانی اور پاکیزہ شراب کی نہریں بہتی ہوں گی، وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے، نہ...  وہاں ان کو موت آئے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے، وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ہیں اور یہ اس قدر ثواب و انعامات اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہیں۔ یہ خلود فی الجنت (جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا) اور رضوان بہت بڑی کامیابی ہے کہ جنت مل گئی اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ ہوگئے ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) یہ ہے باہمی رضا مندی کا آخری مقام ‘ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی دنیا میں جو لوگ اپنے ایمان و خلوص میں سچے تھے ان کا یہ صدق وخلوص آج (قیا مت کے دن ان کے کام آئے گا۔ ( قرطبی)2 اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی کوئی وقعت نہیں رکھتی !

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 119 تا 120 لغات القرآن : ینفع (نفع دے گا) ۔ الصدقین (سچ بولنے والے) ۔ (رض) (اللہ راضی ہوگیا) ۔ الفوز العظیم (بڑی کامیابی) ۔ تشریح : جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اشارے ہی اشارے میں اپنی امت کیلئے سفارش کی تھی اسی طرح اللہ نے بھی اشارے ہی اشارے میں جواب دے دیا کہ جنت صرف اہل صدق کے لئے...  ہے۔ اہل کذب کیلئے نہیں ۔ اس کے لئے ہے جو اللہ کو اللہ مانتے ہیں۔ ان کئ لئے نہیں جو غیر اللہ کو بھی اللہ مانتے ہیں جنت ان کے لئے ہے جو توحید والے ہیں۔ ان کے لئے نہیں جو تثلیث والے ہیں۔ ” اللہ ان سے راضی ہوا چونکہ وہ اللہ سے راضی رہے “ ۔ اس چھوٹے سے جملہ کے اندر معانی اور مطالب کے سات سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کے متعلق بھی یہی آیت سورة البینہ میں آئی ہے۔ آسمانوں اور زمین ۔ سورة بقرہ کی آیت 29 میں سات آسمانوں کا ذکر ہے۔ قرآن میں ہر جگہ آسمان کا ذکر جمع میں ہے اور زمین کا ذکر واحد میں۔ ” سموات “ بلند اور ارفع اشیاء کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کے نقطہ نظر سے جس مقام پر وہ ہے جس دنیا میں وہ ہے، جہاں وہ اپنی صلاحیتیں استعمال کرسکتا ہے، جہاں وہ تہذیب و تمدن بنا رہا ہے۔ وہی زمین ہے۔ بقیہ سب آسمان ہیں۔ جہاں اس کی پہنچ ہے وہ زمین۔ جہاں اس کی پہنچ نہیں ہے وہ آسمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے سورة مائدہ کی تمام آیات کا ترجمہ اور مختصر تفسیر و تشریح ملاحظہ فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین) واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عیسیٰ (علیہ السلام) کی معذرت اور فریاد کے باوجود اللہ تعالیٰ مشرکوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فریاد قبول نہ کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج کے دن سچے شخص کو اس کی سچائی کا فائدہ پہنچے گا۔ اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی ہے اے عیسیٰ جو کچھ تم نے کہا سچ کہ... ا کہ واقعی تو اور تیری والدہ نے لوگوں کو شرک کی دعوت نہیں دی تھی لہٰذا تجھے مطمئن رہنا چاہیے آج ہر شخص کو فائدہ پہنچے گا جو سچ پر قائم رہا اور سچ کی دعوت دیتا رہا۔ ان آیات کے سیاق وسباق سے یہ حقیقت بالکل واضح اور نمایاں ہوتی ہے۔ یہاں صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے کیونکہ توحید کے بغیر دنیا کی کوئی سچائی قیامت کے دن انسان کی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ توحید کے مقابلہ میں شرک ہے اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا سورة النساء، آیت : ١١٦ میں فیصلہ ہے کہ اس نے شرک کو ہرگز معاف نہیں کرنا جبکہ دوسرے جس کو چاہے گا اس کے دوسرے گناہ معاف کر دے گا۔ جہاں تک توحید کے علاوہ دوسرے اعمال کا تعلق ہے نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا دنیا میں فائدہ پہنچے گا لیکن شرک کی وجہ سے قیامت کے دن اس کے سب اعمال غارت ہوجائیں گے۔ اس کے مقابلے میں عقیدۂ توحید پر قائم رہنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کے لیے ایسی جنت ہے جس کے نیچے نہریں اور چشمے جاری ہوں گے۔ اس میں صادقین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخلہ نصیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگا اور یہ اپنے رب پر خوش و خرم ہوں گے ان کے لیے عظیم کامیابی ہے۔ (عَنْ عمرو بن العاص (رض) قال أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابُسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہُ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُّغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون الاسلام یھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج ] ” حضرت عمر و بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اے اللہ کے رسول اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عمرو ! کیا ہوا ؟ میں نے عرض کی کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کون سی شرط ہے ؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تجھے معلوم نہیں اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید اور صالح اعمال والے ہی سچے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رضا بہت بڑی نعمت ہے۔ ٣۔ جنت کا حصول بہت بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی نعمت ہے : ١۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضامندی بڑی بات ہے۔ (التوبۃ : ٧٢) ٢۔ آج کے دن سچائی فائدہ دے گی۔ ان کے لیے جنت ہے۔ اللہ ان سے راضی ہوا۔ وہ اللہ پر راضی ہوگئے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ : ١١٩) ٣۔ صحابہ کرام (رض) اللہ پر راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگیا۔ (المجادلۃ : ٢٢) ٤۔ اللہ کی رضا بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ١٠٠) ٥۔ ایمان دار، اعمال صالح کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگا اور وہ اللہ پر راضیہوں گے۔ (البینۃ : ٧ تا ٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٩۔ ” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے “ یہ اللہ کی بات ہے اور جھوٹوں کی اس شرمندگی پر یہ خوب تصرہ ہے ۔ انہوں نے یہ افتراء باندھا اور یہ افتراء بھی اولوا لعزم رسولوں میں ایک معزز رسول پر باندھا ۔ اور مسئلہ الوہیت اور بندگی میں یہ افتراء باندھا جس کی اساس پر یہ پوری ک... ائنات قائم ہے اور جس کی اساس پر دنیا میں سچائی قائم ہے اور تمام مخلوقات قائم ہے ۔ ” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کیلئے ان کی سچائی مفید ہوگی ۔ “ اس عظیم منظر اور شاہی دربار کے سوال و جواب کے آخر میں یہ رب العالمین کا فیصلہ ہے ۔ تمام جہان کے لوگوں کی موجودگی میں اس منظر کے مکالے کے یہ آخری الفاظ ہیں اور کس قدر فیصلہ کن الفاظ ہیں اور اس کے بعد پھر سچوں کے انجام کی ایک جھلکی بھی دکھائی دیتی ہے ۔ (آیت) ” لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (119) ” ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ‘ یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے ‘ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ “ درجوں کے بعد بلند درجے ‘ پھر ان میں دائمی زندگی اور پھر اللہ کی رضا مندی یقینا یہ بڑی کامیابی ۔ “ ہم نے یہ منظر دیکھا اور یہ منظر قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب میں پیش کیا ۔ اس منظر کا آخری مکالمہ بھی ہم نے سنا ۔ ہم نے گویا اس منظر دیکھا اپنی آنکھوں کے ساتھ اور سنا اپنے کانوں کے ساتھ۔ قرآن کریم کے انداز تصویر کشی کے مطابق بات کا طریقہ یہ نہیں اختیار کیا جاتا ہے کہ ایسا ہوگا بلکہ عملا منظر پیش کردیا جاتا ہے ۔ انسان کو اس منظر موعودہ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ۔ قرآن کریم محض خشک عبارت ہی پیش نہیں کرتا جسے صرف پڑھا جائے بلکہ وہ متحرک اور مجسم اور شخص مناظر پیش کرتا ہے جس میں انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور مکالمے ہوتے ہوئے اس طرح نظر آتے ہیں جس طرح اسکرین پر ۔ ہماری سوچ اور ہمارے تصور کے مطابق تو یہ ایک منظر ہوگا جو واقع ہوگا ‘ البتہ اللہ کے علم کے مطابق تو وہ وہ چکا اس لئے کہ اللہ کا علم زمان ومکان کے حدود وقیود سے آزاد ہے ۔ زمان ومکان کا تصور تو انسان کے محدود علم کے لئے ہے ۔ ہمارا علم محدود اور فانی ہے ۔ اس سبق کے آخر میں اور اس عظیم افتراء کے بیان کے خاتمے پر جس سے بڑا افتراء کسی رسول کے کسی پیروکار نے نہیں باندھا ۔ حضرت مسیح کے پیروکاروں کی اس عظیم غلط فہمی کے بیان کے آخر میں جس میں انہوں نے اس افتراء سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور ان افتراء پر دازی کرنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ۔ اس کے بارے میں اس سوال و جواب اور اس سوال و جواب کے لئے قائم کئے گئے اس عظیم دربار کے خاتمے پر اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے افتراؤں سے پاک ہے اور زمین وآسمانوں پر صرف اسی کی حکومت اور اس کی حکومت بےحد وبے قید ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن سچائی نفع دیگی (قَال اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی جو حضرات صادق فی الا ایمان صادق فی الاعمال، صادق فی الاخبار تھے جن میں حضرات انبیاء (علیہ السلام) اور ان میں سے ہر ایک کی امت ... اجابت ہوگی۔ ان کا سچ ان کو نفع دے گا۔ جس کی وجہ سے وہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوں گے۔ (لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا) (ان کے لئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی، ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے) (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ) (اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے) (ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) (یہ بڑی کامیابی ہے) خالق مالک بھی راضی اور ہمیشہ ہمیشہ باغوں میں رہنا اور ان نعمتوں کی وجہ سے دل سے خوش اور مست اور مگن ہوں گے۔ واقعی اس سے بڑی کیا کامیابی ہوگی حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائیں گے کہ اے جنت والو ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں اور تعمیل ارشاد کے لئے موجود ہیں اور خیر تمام تر آپ ہی کے قبضہ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم راضی ہو ؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب ! ہم کیوں کر راضی نہ ہوں۔ حالانکہ آپ نے ہمیں وہ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کیا میں تمہیں اس سب سے افضل چیز عطا نہ کروں ؟ وہ عرض کریں گے اے رب ! اس سے افضل کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں تم پر اپنی رضا مندی نازل کرتا ہوں۔ سو اس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ (رواہ البخاری ص ١٢١ ج ٢) فائد : آیت بالا میں صدق یعنی سچائی کی تعریف فرمائی۔ درحقیقت سچائی بہت بڑی نعمت ہے اور اسی پر نجات اور رفع درجات کا مدار ہے۔ ایمان میں سچائی نہ ہو تو منافقت ہوتی ہے۔ اعمال میں سچائی نہ ہو تو ریاکاری آجاتی ہے اوراقوال میں سچائی نہ ہو تو جھوٹ صادر ہوتا رہتا ہے۔ مومن کو ہر حال اور ہر قال میں سچائی اختیا کرنا لازمی ہے۔ اللہ سے جو وعدے ہیں وہ بھی پورے کئے جائیں۔ ایسے حضرات کی مدح کرتے ہوئے فرمایا (رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ) (سورۂ احزاب آیت نمبر ٢٣) (کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا جو عہد انہوں نے اللہ سے کیا) مخلوق سے جو وعدہ ہو اس کو بھی پورا کیا جائے، ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ تم میرے لئے اپنی طرف سے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ۔ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوجاؤں۔ (١) سچ بولو جب بات کرو (٢) پورا کرو جب وعدہ کرو (٣) ادائیگی کرو جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے۔ (٤) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (٥) اپنی نظروں کو پست رکھو (٦) اور اپنے ہاتھوں کو (ظلم و زیادتی کرنے سے) روکے رکھو (مشکوۃ المصابیح ج ٢ ص ١١٤١٥ زاحمد و بیہقی فی شعب الایمان) تاجروں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : التاجر الصدوق الامین مع النّبیین والصدیقین والشھداء (سچائی اختیار کرنے والا امانتدار، تاجر، نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا) (مشکوۃ المصابیح ج ١ ص ١١٢٤٣ زترمذی ودارمی ودار قطنی (  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

185 یہ ایمان والوں، توحید کو ماننے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

119 اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی نفع دے گی اور ان کا سچ ان کے کام آئے گا ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یہ صادقین ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش یہ جنت میں داخل ہ... ونا اور ایک کا دور سے سے راضی ہوجانا بہت بڑی کامیابی ہے۔  Show more