The Linkage of Verses The first two sections (Ruku`) appearing earlier describe some of the happenings on the day of Qiyamah such as the reckoning, the ques¬tions and their answers. Mentioned now is the outcome of the probe and reckoning of that fateful day. Commentary Notes 1. Verse 119 opens with the words: قَالَ اللَّـهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ (Allah said, |"This is a... day the truth of the truthful shall bring benefit to them). Generally, what is according to what has happened is called truth while that which is not according to what has hap¬pened is referred to as false or a lie. But, according to the -Qur&an and Sunnah, sidq (truth) and kidhb کِذب (lie) are general, that is, they refer to both words and deeds. As such, given here is a Hadith in which counter-factual deed has been called kidhb مَن تَحَلَّی بِمَا لَم یُعطَ کَانَ کَلَابِسِ ثَوبَی زُورِ [ that is, whoever adorns himself (or herself) with what has not been given to him (or her) (that is, claims a quality or deed not in him or her) then, it is as if he has put on two garbs of a lie – [ Mishkat ]. There is another Hadith in which one who makes Salah with care and concern, whether in public or in private, has been called a true servant of Allah: اِن ال (علیہ السلام) عبدَ اِذا صَلَّی فِی السِّرِّ فَاَحسَنَ قَالَ اللہ تَعَالٰی ھٰزَا عَبدی A person who performs Salah openly, then, does it well; and when performs it in private, then, does it well, then, Allah Ta&ala says: ` This is My servant - in truth. - Mishkat. 2. About the statement: رضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (Allah is pleased with them, and they are pleased with Him - 119), it appears in Ha¬dith that, after having blessed true believers with Jannah (Paradise), Allah Ta` ala will say: The real blessing is that I am pleased with you and now I shall never be displeased with you. 3. The words appearing after that are: ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (That is the great achievement). Indeed, so it is. When Allah Jalla Sha&nuhu, the Master, the Creator is pleased with you, what else could it be? فَلِلَّہِ الحَمدُ اَوَّلَہ وَ اٰخِرَہ All praises are for Allah from the beginning to the end. Show more
ربط آیات اوپر دونوں رکوع میں قیامت کے دن اعمال و احوال کا حساب و کتاب اور سوال و جواب کا ذکر ہے، اب آگے اس تفتیش و محاسبہ کا نتیجہ ذکر کیا جاتا ہے۔ خلاصہ تفسیر (ان تمام مکالمات مذکورہ کے بعد) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ یہ (قیامت کا دن) وہ دن ہے کہ جو لوگ (دنیا میں باعتبار عقائد و اعمال اور ... اقوال کے) سچے تھے (کہ وہ سچا ہونا اب ظاہر ہو رہا ہے، جن میں انبیاء جن سے خطاب ہو رہا ہے اور مومنین جن کے ایمان کی انبیاء و ملائکہ سب شہادت دیں گے، سب داخل ہیں، اور اس میں اشارہ تصدیق رسل و تصدیق عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھی ان مخاطبات میں ہوگیا، غرض یہ سب حضرات جو دنیا میں سچے تھے) ان کا سچا ہونا (آج) ان کے کام آوے گا (اور وہ کام آنا یہ ہے کہ) ان کو (جنت کے) باغ (رہنے کو) ملیں گے جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے (اور یہ نعمتیں ان کو کیوں نہ ملیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور خوش ہیں (اور جو شخص راضی ومرضی ہو اس کو ایسی ہی نعمتیں ملتی ہیں) یہ (جو کچھ مذکور ہوا) بڑی بھاری کامیابی ہے (کہ دنیا کی کوئی کامیابی اس کے برابر نہیں ہوسکتی) ۔ ربط آیات اب سورت ختم ہونے کو ہے۔ پوری سورت میں کچھ اصولی اور فروعی احکام بیان ہوئے ہیں، اس لئے آخر میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے، اس لئے اسے یہ احکام دینے کا حق ہے۔ اور بندوں کو یہ احکام پوری طرح ماننے چاہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں وہ نافرمانی کی صورت میں سزا اور فرماں برداری کی صورت میں انعام دینے پر قادر ہیں۔ چناچہ فرمایا گیا اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی، اور ان چیزوں کی جو ان (آسمانوں اور زمین) میں موجود ہیں، اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ معارف و مسائل فائدہ : قَال اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ ، عام طور پر واقع کے مطابق قول کو صدق اور خلاف واقع کو کذب سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق و کذب عام ہے یعنی قول اور عمل دونوں کو شامل ہے، چناچہ اس حدیث میں خلاف واقع عمل کو کذب کہا گیا ہے، من تحلی بما لم یعط کان کلابس ثوبی زور۔ (مشکوۃ) ، ” یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو ایسے زیور سے آراستہ کرے جو اس کو نہیں دیا گیا، یعنی کسی ایسی صفت یا عمل کا دعویٰ کرے جو اس میں نہیں ہے تو گویا اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہنے۔ ایک دوسری حدیث میں علانیہ اور تنہائی میں اچھی طرح نماز پڑھنے والے کو سچا بندہ کہا گیا ہے، ارشاد ہے : ان العبد اذا صلی فی العلانیہ الخ۔ (ترجمہ) ” یعنی جو آدمی علانیہ اچھی طرح نماز پڑہتا ہے اور وہ تنہائی میں بھی اسی طرح ادا کرتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرا سچ مچ بندہ ہے “۔ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ، یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ جنت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بڑی نعمت یہ ہے کہ میں تم سے راضی ہوا اب کبھی تم پر ناراض نہ ہوں گا۔ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ یعنی یہی بڑی کامیابی ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی کہ مالک و خالق جل جلالہ راضی ہیں۔ فللّٰہ الحمد اولہ واخرہ، Show more