Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 74

سورة المائدة

اَفَلَا یَتُوۡبُوۡنَ اِلَی اللّٰہِ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۷۴﴾

So will they not repent to Allah and seek His forgiveness? And Allah is Forgiving and Merciful.

یہ لوگ کیوں اللہ تعالٰی کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تعالٰی تو بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Will they not repent to Allah and ask His Forgiveness For Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. This demonstrates Allah's generosity, kindness and mercy for His creatures, even though they committed this grave sin and invented such a lie and false allegation. Despite all of this, Allah calls them to repent so that He will forgive them, for Allah forgives those who sincerely repent to Him. `Isa is Allah's Servant and His Mother is a Truthful Believer Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ ۔۔ : یہ بظاہر سوال ہے مگر اصل میں امر ( حکم دینے) کی ایک صورت ہے۔ (کبیر) یعنی ان کا یہ جرم انتہائی سنگین اور صریحاً شرک کی حد تک پہنچا ہوا ہے، تاہم اگر توبہ کرلیں تو ان کا یہ قصور معاف ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَہٗ۝ ٠ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٧٤ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 مر کا لفظ الا ستفہام ( کبیر) یعنی ان کا یہ جرم انتہائی سنگین اور صریحا شرک کی حدتک پہنچا ہوا ہے تاہم اگر توبہ کرلیں تو ان کا یہ قصور معاف ہوسکتا ہے ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اوپر الورہیت مسحیہ کا ابطال مضمون عام سے بیان فرمایا تھا آگے ایک خاص دلیل سے فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” أَفَلاَ یَتُوبُونَ إِلَی اللّہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(74) ” پھر کیا یہ اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے ؟ اللہ بہت درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ اور یہ اس لئے کہا گیا کہ توبہ کا دروازہ بندنہ ہو اور ہر کسی کو وقت ختم ہونے سے پہلے واپسی کا موقع ہو ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا حقیقی مقام کیا ہے ؟ تو مضبوط منطقی انداز میں بتایا جاتا ہے کہ مسیح کون ہیں اس امید سے کہ شاید انکی فطرت سلیمہ مقام مسیح کے ادارک میں انکی مدد کرے ۔ اور مسیح کی حقیقت بتانے کے بعد اللہ تعالیٰ تعجب خیز انداز میں کہتے ہیں کہ اس کے باوجود یہ لوگ روگردانی کرتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَہٗ ) (کیا یہ اپنے عقائد باطلہ کو چھوڑ کر اللہ کے حضور میں توبہ نہیں کرتے اور اس سے مغفرت نہیں چاہتے) یعنی انہیں کفریہ عقائد پر برابر اصرار ہے ان عقائد کو چھوڑیں اور اللہ کے حضور میں توبہ کرلیں اور مغفرت طلب کریں اگر ایسا کریں گے تو اللہ مغفرت فرما دے گا اللہ غفور رحیم ہے کافر و مشرک توبہ کرے اور ایمان قبول کرے تو جو اللہ کے یہاں معتبر ہے تو اس کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

133 یہ مشرکین نصاریٰ کو مشرکانہ عقائد و اعمال سے توبہ کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی تہدید آمیز ترغیب ہے۔ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ یہ توبہ قبول کرنے اور معافی دینے کا وعدہ ہے۔ یعنی اگر وہ شرک و کفر سے سچی توبہ کرلیں اور اپنے کیے کی اللہ سے معافی مانگیں تو وہ اس کو معاف کرنے والا اور مہربان پائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 بلاشبہ وہ لوگ کفر کے مرتکب ہوئے جنہوں نے یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ تو یہی مسیح مریم کے بیٹے ہیں اور مسیح ابن مریم عین خدا ہے حالانکہ مسیح (علیہ السلام) تو خود بنی اسرائیل سے کہہ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے بیشک جو شخص اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں کسی دوسرے کو شریک کرے گا تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہوگا اور ایسے مشرکوں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ بلاشبہ وہ لوگ بھی کافر ہوچکے جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں کا تیسرا ہے اور تین معبود میں سے ایک وہ بھی ہے حالانکہ بجز ایک معبود برحق کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ ان مشرکانہ اور کافرانہ اقوال سے باز نہ آئیں گے تو یہ سمجھ رکھیں کہ جو لوگ ان میں سے کفر پر قائم رہیں گے ان کا یقینا درد ناک عذاب ہوگا کیا یہ لوگ ان تمام باتوں کو سن کر پھر بھی اپنے عقائد باطلہ سے توبہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع اور اپنے عقائد شرکیہ اور اعمال کفریہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بخشش طلب نہیں کرتے اور معافی خواہ نہیں ہوتے حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش کرنے والا اور بڑی مہربانی کرنیوالا ہے۔ (تیسیر) ان آیتوں میں نصاریٰ کی مختلف جماعتوں کے عقائد باطلہ کا رد فرمایا ہے بعض فرقے ان میں اس بات کے قائل ہوئے جیسے یعقوبیہ اور ملکانیہ کہ حضرت مریم نے جو بچہ جنا وہی الہ تھا یعنی حضرت عیسیٰ میں اللہ تعالیٰ حلول کر گیا تھا اور حضرت مسیح جن کو کہا جاتا ہے وہ عین خدا ہے اور بعض فرقوں کا عقیدہ یہ تھا جیسے مرقوسیہ اور نسطور یہ کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم یہ بھی دونوں معبود ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا لوہیت کے خواص میں اس کے شریک ہیں اور الوہیت تینوں میں مشترک ہے اور جب ان تینوں میں مشترک ہے تو اللہ تعالیٰ ان تینوں میں سے ایک ہے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ نہ الہ ہیں اور نہ الوہیت میں کس طرح ذات باری کے شریک ہیں نہ مستقل الہ ہیں اس عقیدحے کو وما من الہ الا الہ واحد کہہ کر رد فرمایا۔ ہماری اس تقریر سے معیت یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہونا اور الوہیت میں شریک ہنے کا فرق سمجھ میں آگیا ہوگا اسی لئے با اعتبار علم اللہ تعالیٰ کی معیت جیسا کہ سورة مجادلہ میں فرمایا۔ مایکون من نجوی ثلاثۃ الاھور ابعھم ولاخمسۃ الاھوساد سھم یعنی کوئی تین آدمی کہیں سرگوشی نہیں کرتے مگر چوتھا ان کا خدا ہوتا ہے اور کہیں پانچ آدمی بیٹھ کر سرگوشی نہیں کرتے مگر چھٹا ان کا خدا ہوتا ہے اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا غار ثور میں یہ فرمانا ما ظنک باثنین اللہ ثالثھا یعنی اے ابوبکر ان دو شخصوں کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہو یہ معیت خداوندی اور چیز ہے اور خواص الوہیت میں شرکت یہ اور چیز ہے پہلا عقیدہ ایمان اور دوسرا کفر ہے عیسائیوں کے بعض فرقے اس اشتراک کی توجیہہ اس طرح کرتے ہیں کہ یہ تینوں اقانیم ہیں، باپ ، بیٹا اور روح القدس یعنی روح حیات اور یہ تینوں مل کر ایک معبود ہیں اور یہ تینوں علیحدہ علیحدہ بھی معبود ہیں جس طرح آفتاب آفتاب کی ٹکیا اور شعاع اور حرارت سب کے مجموعہ کا نام ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی تینوں اقانیم ک مجموعہ کا نام ہے۔ ذات اور کلمہ اور حیات ان تینوں کے مجموعہ کا نام الہ ہے ۔ کلمہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس طرح مل گیا جس طرح دودھ میں پانی مل جاتا ہے۔ پس باپ الہ اور کلمتہ اللہ یعنی بیٹا الہ اور روح یعنی حیات الہ اور ان تینوں کا مجموعہ الہ نصاریٰ کے ان عقائد باطلہ کا تذکرہ فرمایا درمیان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول بھی ذکر کیا تاکہ یہ بات معلوم ہو سکے کہ نصاریٰ کا یہ عقیدہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم کے بھی خلاف ہے اللہ تعالیٰ حلول سے بھی پاک ہے اور اس سے بھی پاک و بالاتر ہے کہ اس کی الوہیت میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ اگر باز نہ آئیں گے اور اپنے اقوال باطلہ پر قائم رہیں گے تو اس کا فرانہ قول کی وجہ سے ان پر درد ناک عذاب واقع ہوگا ۔ پھر تیسری آیت میں ان کو توبہ اور استغفار کی جانب متوجہ فرمایا کیا ان عقائد کفریہ اور شرکیہ پر جمے رہنا کوئی دانشمندی اور سمجھدار ی کی بات ہے ، یا جن عقائد کا باطل ہونا دلیل عقلی اور نقلی سے ظاہر ہے ان سے توبہ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا ضروری ہے۔ انسان کے لئے یہی مناسب ہے کہ کسی بات کی غلطی معلوم ہوجائے تو فوراً اس سے رجوع کرلے۔ اسی لئے فرمایا کیا اب بھی اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہو کر اس سے معافی نہیں چاہتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے اگر یہ ایسا کریں اور سچائی کے ساتھ اس سے معافی چاہیں اور بخشش مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دے گا اور ان کو بخشدے گا وہ بڑا بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نصاریٰ میں دو قول ہیں بعضے کہتے ہیں اللہ ہی تھا جو صورت مسیح میں آیا بعضے کہتے ہیں تین حصے ہوگیا۔ ایک اللہ رہا اور ایک روح القدس اور ایک مسیح یہ دونوں باتیں صریح کفر ہیں کاملوں سے حق میں یہی کہئے جو آگے فرمایا۔ (موضح القرآن) اب آگے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کی صحیح حقیقت بیان فرماتے ہیں ات کہ یہ بات صاف ہوجائے کہ حضرت مسیح اور حضرت مریم نہ تو معبود ہیں اور نہ الوہیت باری تعالیٰ میں کسی حیثیت سے شریک ہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور صرف اس کے پیغمبر ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)