Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 76

سورة المائدة

قُلۡ اَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَکُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا ؕ وَ اللّٰہُ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۷۶﴾

Say, "Do you worship besides Allah that which holds for you no [power of] harm or benefit while it is Allah who is the Hearing, the Knowing?"

آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے ۔ اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of Shirk (Polytheism) and Exaggeration in the Religion Allah admonishes those who take up rivals with Him and worship the idols, monuments and false deities. Allah states that such false deities do not deserve any degree of Divinity. Allah said, قُلْ ... Say, O Muhammad, to those from among the Children of Adam, such as the Christians, who worship other than...  Allah, ... أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا ... How do you worship besides Allah something which has no power either to harm or to benefit you! meaning, which cannot prevent harm for you nor bring about your benefit. ... وَاللّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ But it is Allah Who is the All-Hearer, All-Knower. He hears what His servants say and has knowledge of all things. Therefore, how did you worship inanimate objects that do not hear, see or know anything - having no power to bring harm or benefit to themselves let alone others - instead of worshipping Allah. Allah then said,   Show more

معبودان باطل کی جو اللہ کے سوا ہیں عبادت کرنے سے ممانعت کی جاتی ہے کہ ان تمام لوگوں سے کہہ تو دو کہ جو تم سے ضرر کو دفع کرنے کی اور نفع کے پہنچانے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے ، آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کے سننے والے تمام چیزوں سے باخبر اللہ سے ہٹ کر بےسمع و بصر ، بےضرر و ... بےنفع و بےقدر اور بےقدرت چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے؟ اے اہل کتاب اتباع حق کی حدود سے آگے نہ بڑھو ، جس کی توقیر کرنے کا جتنا حکم ہو اتنی ہی اس کی توقیر کرو ۔ انسانوں کو جنہیں اللہ نے نبوت دی ہے نبوت کے درجے سے معبود تک نہ پہنچاؤ ۔ جیسے کہ تم جناب مسیح کے بارے میں غلطی کر رہے ہو اور اس کی اور کوئی وجہ نہیں بجز اس کے کہ تم اپنے پیروں مرشدوں استادوں اور اماموں کے پیچھے لگ گئے ہو وہ تو خود ہی گمراہ ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں ۔ استقامت اور عدل کے راستے کو چھوڑے ہوئے انہیں زمانہ گزر گیا ۔ ضلالت اور بدعتوں میں مبتلا ہوئے عرصہ ہو گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص ان میں بڑا پابند دین حق تھا ایک زمانہ کے بعد شیطان نے اسے بہکا دیا کہ جو اگلے کر گئے وہی تم بھی کر رہے ہو اس میں کیا رکھا ہے؟ اس کی وجہ سے نہ تو لوگوں میں تمہاری قدر ہوگی نہ شہرت تمہیں چاہئے کہ کوئی نئی بات ایجاد کرو اسے لوگوں میں پھیلاؤ پھر دیکھو کہ کیسی شہرت ہوتی ہے؟ اور کس طرح جگہ بہ جگہ تمہارا ذکر ہونے لگتا ہے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اس کی بدعتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور زمانہ اس کی تقلید کرنے لگا ۔ اب تو اسے بڑی ندامت ہوئی سلطنت و ملک چھوڑ دیا اور تنہائی میں اللہ کی عبادتوں میں مشغول ہو گیا لیکن اللہ کی طرف سے اسے جواب ملا کہ میری خطا ہی صرف کی ہوتی تو میں معاف کر دیتا لیکن تو نے عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں گمراہ کر کے غلط راہ پر لگا دیا ۔ جس راہ پر چلتے چلتے وہ مر گئے ان کا بوجھ تجھ پر سے کیسے ٹلے گا ؟ میں تو تیری توبہ قبول نہیں فرماؤں گا پس ایسوں ہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لئے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] اس آیت میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی الوہیت کی تردید میں چوتھی دلیل بیان کی گئی ہے یعنی وہ دونوں اپنے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ یہود نے انہیں ایذائیں اور دکھ پہنچائے وہ از خود ان کی مدافعت بھی نہ کرسکتے تھے۔ یہود نے سیدہ مریم پر زنا کی تہمت لگائی تو اللہ تعالیٰ نے...  ان کی بریت بیان فرمائی اور ان کی معجزانہ پیدائش کو واضح طور پر بیان کیا لیکن یہود پھر بھی باز نہ آئے۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی بھر ان کے درپے آزار رہے حتیٰ کہ حکومت سے ساز باز کر کے انہیں سولی پر چڑھوا دیا۔ لیکن یہ دونوں نہ اپنے آپ کی مدافعت کرسکے نہ یہود کا کچھ بگاڑ سکے پھر کیا وہ اللہ یا الٰہ یا الوہیت میں شریک قرار دیئے جاسکتے ہیں ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ ۔۔ : یہ نصاریٰ کے عقیدے کی تردید پر دوسری دلیل ہے، مطلب یہ ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ان میں الوہیت ( معبود ہونے) کا کوئی وصف بھی نہیں ہے، ان کا دوسروں کو نفع پہنچانا یا نقصان سے بچانا تو کجا وہ تو خود اپنے سے دشمنوں کے ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر ... دعا کرتے رہے کہ اے اللہ ! مجھ سے مصیبت کا یہ وقت ٹال دے۔ پھر اس کے بعد اگر اس سمیع وعلیم کو چھوڑ کر عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا معبود بناؤ تو اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوگی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝ ٠ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٧٦ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِل... َّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمادیجیے کہ کیا ان بتوں کو پوجتے ہو جو دنیا وآخرت میں نقصان سے بچانے اور نفع حاصل کرنے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں جو کچھ تم کہتے ہو، اس کو وہ ذات سننے والی اور تمہارے عذاب کو جاننے والی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52: حضرت مسیح (علیہ السلام) اگرچہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے، لیکن کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کی ذاتی صلاحیت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے پہنچا سکتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(76 ۔ 77) ۔ اوپر ذکر تھا کہ نصاریٰ میں بعض لوگ مسیح بن مریم کو خدا کہتے تھے اور بعض خدا کا شریک ٹھیراتے تھے ان ہی لوگوں کے سمجھانے کے لئے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو مخاطب ٹھیرا کر فرماتا ہے کہ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ سوا اللہ تعالیٰ کے جن کو تم اپنا معبود ٹھیراتے ہو نہ ان...  کو تمہارے برے بھلے کا کچھ اختیار ہے نہ تمہارے حاضر و غائب سب کی التجا سن لینے کی ان میں کچھ قدرت ہے نہ ہر ایک کی دلی التجا کا انہیں کچھ حال معلوم ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے کہ وہ ہر ایک کی التجا سنتا ہے ہر ایک کے دلی مقصد کو خوب جانتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ بنی اسرائیل بڑی ذلت و خواری سے فرعون کے بس میں تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بہبودی کا ارادہ کیا تو فرعون نے کے پھندے سے ان کو نکال کر نبوت بادشاہت سب کچھ ان کو دے دیا۔ پھر جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اس قادر مطلق نے اسی ذالت و خواری کا دن انہیں پھر دکھا دیا۔ آدمی کے غور کرنے کیلئے ایسی بےگنتی مثالیں اس کی قدرت کی دنیا میں اب بھی موجود ہیں۔ ان لوگوں کا تو یہ حال کہ یہ مسیح بن مریم کو خدا یا خدا کا شریک کہیں اور خود مسیح بن مریم کا یہ حال کہ انہوں نے اسے میرے معبود اے میرے معبود کہہ کہہ کر اپنے آخری وقت پر اپنی طرح طرح کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کی جس کا ذکر انجیل متی کے ستائیسویں باب میں ہے۔ مسیح بن مریم تو اپنے بندے ہونے اور اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی ہونے کی اس آخری اقرار پر دنیا سے اٹھ گئے۔ لیکن اس پر بھی یہود نے ان کے گھٹانے میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ ان کو اللہ کا رسول بھی نہیں کہتے۔ نصاری نے ان کے بڑھانے میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ ان کو خدایا خدا کا شریک ٹھیرایا۔ یہ سب باتیں ان کے بڑوں کی تراشی ہوئی ہیں جو خود بھی بےراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی بےراہ کیا حال کے لوگ بھی اگر ان بےراہ بڑوں کی پیروی میں عمر بھر لگے رہیں گے اور پھر عقبیٰ میں اپنے بہبودی کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھیں گے تو یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے سے شداد بن اوس (رض) کی معتبر سند کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے ١ ؎۔ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص عمر بھر اپنی خواہش نفسانی کا پیرورہا اور پھر اللہ تعالیٰ کی ذات سے اس نے عقبیٰ کی بہبودی کی توقع رکھی وہ شخص بڑا نادان ہے ٢ ؎۔ یہ حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 76 تا 77 لغات القرآن : السمیع (اللہ کی صفت۔ بہت سننے والا) ۔ لاتغلوا (حد سے نہ نکلو۔ غلو نہ کرو) ۔ ضلوا (وہ بھٹک گئے) ۔ اضلوا کثیرا (بہت سوں کو بھٹکا دیا) ۔ تشریح : ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ذرا ان نادانوں سے پوچھئے کیا تم اسے معبود مان رہے ہو جو اپنی ذات تک...  پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ وہ بھلا تمہیں کیا نقصان اور کیا نفع پہنچا سکتا ہے۔ اے اہل کتاب ! تم میں جو بنی اسرائیل ہیں انہوں نے پیغمبروں کو اتنا گھٹایا کہ سب کو ناحق تکلیفیں دیں اور چند کو جان سے مار ڈالا۔ اور جو نصاریٰ ہیں انہوں نے اپنے پیغمبر کو اتنا بڑھایا کہ لے جا کر الوہیت میں شریک کردیا۔ گھٹانا اور بڑھانا دونوں صورتیں غلو فی الدین ہیں۔ اور ہر غلو جھوٹ ہے۔ سراسر جھوٹ۔ فرمایا گیا کہ اے اہل کتاب ! اپنے بد عقیدہ آباواجداد کی اندھی پیروی مت کرو۔ ان آبا و اجداد نے اس قسم کے عقیدے کیوں گھڑ لئے ہیں ۔ صرف اسلئے کہ ان کی دنیاوی خواہشات اس کا تقاضا کرتی تھیں۔ یہ لوگ دنیاوی خواہشات کے بندے بن کر رہ گئے تھے۔ اب تم آنکھ بند کرکے انکے جھوٹے مبالغہ آمیز عقیدوں کو مت اپناؤ اور اعتدال کی سچی راہ یعنی سواء السبیل کو اختیار کرو۔ تبلیغ کتنی مسلسل صبر آزما محنت چاہتی ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ صرف سورة مائدہ میں آیت نمبر 12 سے آیت نمبر 86 تک مسلسل 72 آیات میں خطاب اہل کتاب سے ہے جس میں بنی اسرائیل بھی شامل ہیں اور نصاریٰ بھی۔ تفہیم ، ترغیب، تہدید ہر پہلو بار بار سامنے لایا گیا ہے۔ اور ہر بار نئے انداز میں۔ اب بھی اگر کوئی نہ مانے تو اس کی بدنصیبی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یا تو یہ نصاری مذکورین عیسیٰ کی پرستش بھی کرتے ہوں گے یا یہ کہ عبادت میں سب سے بڑا درجہ اعتقاد الوہیت کا ہے جب وہ معتقد الوہیت عیسویہ ہوئے تو یقینا ان کی عبادت کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدۂ تثلیث کی تردید کرنے کے بعد اہل کتاب اور ان کے حوالے سے تمام لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ عبادت کا معنٰی ہے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی غلامی اختی... ار کرنا ہے، انسان بڑا کمزور اور عاجز واقع ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر انعام کرتے ہوئے اجازت ہی نہیں دی بلکہ حکم دیا ہے کہ اے انسان مجھے اپنی حاجات کے لیے پکارا کر۔ میں تیری دستگیری اور دادرسی بھی کروں گا اور یہ پکار میری بارگاہ میں تیری عبادت بھی سمجھی جائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ میرے سوا کسی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا نہ سمجھنا۔ بیشک کوئی نبی ہو یا ولی ٗ حاکم ہو یا غنی ٗ کوئی بھی ہو تجھے میرے اذن کے بغیر نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پہلی بات عیسائیوں کو سمجھائی گئی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم [ اللہ کی مخلوق ہیں اگر وہ نفع و نقصان کے مالک ہوتے تو حضرت مریم عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جنم دیتے ہوئے یہ نہ کہتی کہ کاش میں اس سے پہلے بےنام ونشان ہوچکی ہوتی سورة مریم : آیت ٢٣ اسی طرح اگر عیسیٰ (علیہ السلام) حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے تو انہیں تختہ دار پر چڑھانے کی کوشش اور سازش نہ کی جاتی۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَّقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُ وسًا جُہَّالًا فَسُءِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے علم نہیں چھینے گا بلکہ علم کو علماء کے ساتھ قبض کرلے گا۔ یہاں تک کہ زمین پر کوئی عالم نہیں بچے گا۔ لوگ جاہلوں کو اپنے عالم بنا لیں گے ان سے سوال ہوگا تو وہ بغیر علم کے فتوٰی جاری کریں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان کا مالک نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ٤۔ اہل کتاب دین میں غلو کرتے ہیں۔ ٥۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ (الانبیاء : ٦٦) ٣۔ اے نبی آپ اعلان فرمادیں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہچاسکتے۔ (الانبیاء : ٦٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (76) ” ان سے کہو تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لئے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے ۔...  یہاں قرآن کریم نے لفظ ” ما “ استعمال کیا ہے ۔ حالانکہ یہاں مسیح کے لئے لفظ من استعمال کی جانا چاہئے تھا ‘ تاکہ اس میں وہ تمام مخلوقات آجائیں جن چیزوں کی پوجا کی گئی ۔ ان میں ذوی العقول بھی شامل ہیں ۔ اور لفظ ” ما “ اس عام چیز کی اصل ماہیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ان معبود اشیاء کی اصل ماہیت مخلوق ہے لہذا ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) روح القدس ‘ حضرت مریم صدیقہ (علیہ السلام) سب کے سب شامل ہوں گے اس لئے کہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے یہ سب مخلوق ہیں ۔ چناچہ اس انداز تعبیر میں بھی ایک خاص اشاریت پائی جاتی ہے ۔ اور نتیجہ یہی نکلے گا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی عبادت کا مستحق نہ رہے گا ‘ جبکہ کوئی مخلوق نفع ونقصان کی مالک بھی نہ ہوگی ۔ (آیت) ” ھو السمیع العلیم “۔ (٥ : ٧٦) (وہ سننے والا اور جاننے والا ہے) یعنی وجہ ہے کہ وہ نفع ونقصان پہنچا سکتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی پکاروں کو سنتا ہے ۔ وہ بندوں کی عبادت کو دیکھتا ہے ۔ وہ ان کے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ ان کی اس پکارو عبادت کے پیچھے جو جذبہ ہے اس کا بھی اسے علم ہے اور اللہ کے سوا جس قدر اور مخلوق ہے وہ نہ سنتی ہے ‘ نہ جانتی ہے اور نہ قبولیت کی طاقت رکھتی ہے ۔ اب اس بحث کو اس جامع دعوت کے ساتھ ختم کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اہل کتاب کے سامنے یہ تجویز رکھیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو شخص نفع و ضرر کا مالک نہ ہو اس کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ اس کے بعد فرمایا (قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا) (آپ فرما دیجئے ! کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے لئے ضرر اور نفع کا مالک نہیں) یہ نصاریٰ کو خطاب ہے لیکن الفاظ کا ع... موم تمام مشرکین کو شامل ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا ان کی والدہ ہوں یا ان کے علاوہ مخلوق میں سے کوئی بھی شخصیت ہو نبی ہو یا ولی ہو کوئی بھی کسی کے لیے نفع نقصان کا مالک نہیں۔ نفع ضرر اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ اور قدرت میں ہے جب تمام انبیاء عظام (علیہ السلام) اور اولیاء کرام اور دیگر تمام انسان و جنات اور فرشتے بھی نفع اور ضرر کے مالک نہیں، تو بت نفع و ضرر کے کیسے مالک ہو نگے ؟ جو ضرر اور نفع کا مالک ہے اس کو چھوڑ کر غیروں کی عبادت کرنا سراسر کفر ہے اور خلاف عقل بھی ہے۔ سورة یونس میں فرمایا (وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ) (اور مت پکار اس کو جو تجھے نہ نفع دے نہ ضرر دے سو اگر تو ایسا کرے تو اس وقت تو ظالموں میں ہوجائے گا) پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) (اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے) وہ ہر روز کی اور آہستہ والی آواز کو سنتا ہے۔ سب کے اعمال کو جانتا ہے ہر ایک کے احوال سے باخبر ہے، وہ سب کو اعمال کے مطابق جزا سزا دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

136 یہ چوتھی بات ہے جو بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ کے تحت داخل ہے۔ تَعْبُدُوْنَ میں خطاب نصاریٰ سے ہے اور مِنْ دُوْنِ اللہِ سے حضرت مسیح اور ان کی والدہ مراد ہے۔ والخطاب للنصاریٰ نہاھم عن عبادۃ عیسیٰ ۔۔۔ (بحر ج 3 ص 538) والمراد بما لا یملک عیسیٰ او ھو وامہ علیہما الصلوہ والسلام (روح ج 6 ص 209) یہ ن... صاری کے عقیدہ الوہیت مسیح و مریم کے بطلان پر ایک اور دلیل ہے۔ مطلب یہ کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو غائبانہ پکارتے ہو وہ تو تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ وہ عالم الغیب ہیں کہ تمہارا حال جان لیں اور تمہاری پکار سن لیں۔ یہ صفتیں صرف اللہ ہی میں ہے ہیں۔ وَاللہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ اس میں واؤ تعلیلیہ ہے اور یہ ماقبل کی علت ہے یعنی ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا تو اللہ ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ۔ اس میں ھُوَ ضمیر فصل اور خبر کے معرف باللام سے حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ ای واللہ ھو السمیع لکل شیء لا عیسیٰ وامہ العلیم بکل شیء ای لا عیسیٰ وامہ قالہ الشیخ قدس سرہ۔ فائدہ : عام مفسرین نے اگرچہ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ میں ما کو عموم پر محمول کیا ہے اور اس سے تمام احکام مراد لیے ہیں۔ لیکن مذکورہ چار امور کو انہوں نے مستقل احکام قرار دیا ہے اور ما انزل کے تحت داخل نہیں کیا۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک ما عموم کے لیے ہے۔ جو تمام احکام کو شامل ہے اور مذکورہ چار باتیں مَا اُنْزِلَ کے تحت داخل ہیں۔ یعنی یہ چاروں ان امور میں داخل ہوتے ہیں جن کاتبلیغ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے۔ شیعہ کہتے ہیں اس آیت میں مَا اُنْزِلَ سے حضرت علی کی خلافت کا اعلان مراد ہے چناچہ اس پر وہ ایک روایت بھی پیش کرتے ہیں غدیر خم کے مقام پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ یعنی جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔ مولی سے وہ والی اور خلیفہ مراد لیتے ہیں۔ یہ استدلال کئی وجوہ سے درست نہیں ہے۔ 1 ۔ یہ روایت درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کے اکثر طرق ضعیف اور شاذ ہیں اور بعض طرق موضوع و مردود ہیں۔ جیسا کہ علامہ سید محمود آلوسی نے روح المعانی ج 6 ص 194 تا 198 میں اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ 2 ۔ لفظ مَوْلیٰ لغت عرب میں والی اور حاکم کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ مولیٰ کے معنی آقا، غلام، مددگار، دوست وغیرہ کے آتے ہیں۔ چناچہ علامہ محمد طاہر فرماتے ہیں۔ واسم الموالی یقع علی الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والجار وابن العم والحلیف والعقید و الصحر والعبد والمعتَق والمنعم علیہ الخ (مجمع بحار الانوار ص 464 ج 3) ۔ ان معانی میں والی یا حاکم کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے حضرت علی (رض) کی خلافت مراد لینا سراسر غلط ہے۔ )  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi