Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 26

سورة ق

الَّذِیۡ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَاَلۡقِیٰہُ فِی الۡعَذَابِ الشَّدِیۡدِ ﴿۲۶﴾

Who made [as equal] with Allah another deity; then throw him into the severe punishment."

جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا اخَرَ ... who set up another god with Allah. meaning, he associated others with Allah and worshipped others besides Him, ... فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ Then both of you cast him in the severe torment. Imam Ahmad recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Prophet said, يَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ يَتَكَلَّمُ يَقُولُ وُكِّلْتُ الْيَوْمَ بِثَلَثَةٍ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ وَمَنْ جَعَلَ مَعَ اللهِ إِلهًا اخَرَ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ فَتَنْطَوِي عَلَيْهِمْ فَتَقْذِفُهُمْ فِي غَمَرَاتِ جَهَنَّم A neck from the Fire will appear and will speak saying, "Today, I have been entrusted with three: Every obstinate tyrant, everyone who ascribed another god with Allah, and he who took a life without right." The neck will then close in on them and throw them in the midst of Jahannam." Man and Devil dispute before Allah Allah's saying;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 اللہ تعالیٰ اس فرد عمل کی روشنی میں انصاف اور فیصلہ فرمائے گا القیا سے الشدید تک اللہ کا قول ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یہ الٰہ انسان کا اپنا نفس اور خواہشات نفس بھی ہوسکتی ہیں۔ اور جن برائیوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں اکثر ایسی ہیں جو خواہش نفس کے پیچھے لگنے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر برائی ایسی ہے جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔ بالخصوص یہ آخری برائی تو ایسی ہے جس کے متعلق صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ دوسرے گناہ تو جسے چاہے بخش دے گا مگر مشرک کے لئے کبھی مغفرت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے جہنم سے کبھی نجات حاصل ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ جَعَلَ مَعَ اللہِ اِلٰـــہًا اٰخَرَ فَاَلْقِيٰہُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيْدِ۝ ٢٦ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { نِ الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ } ” جس نے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی بنا لیا تھا۔ “ { فَاَلْقِیٰــہُ فِی الْْعَذَابِ الشَّدِیْدِ ۔ } ” تو جھونک دو اس کو بڑے سخت عذاب میں۔ “ اس انسان کا شیطان یہ سمجھ رہا ہوگا کہ اس کی اپنی حیثیت ” سرکاری کارندے “ کی ہے جو مجرم کو سزا کے لیے لے کر آیا ہے ‘ لیکن دونوں کو جہنم رسید کرنے کا حکم سن کر وہ فوراً اپنی صفائی میں چلانا شروع کر دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 Allah, in these verses, has enumerated the qualities that make a man worthy of Hell: (1) Denial of the Truth, (2) ingratitude to Allah, (3) enmity for the Truth and the followers of the Truth, (4) to become a hindrance in the way of goodness, (5) failure to fulfill the rights of AIIah and the people from one's wealth, (6) to transgress the bounds in one's affairs, (7) to commit injustices and excesses against others, (8) to doubt the truths of religion, (9) to create doubts in the hearts of the people, and (10) to hold another as an associate in the Godhead of Allah.

سورة قٓ حاشیہ نمبر :33 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات گِن کر بتا دی ہیں جو انسان کو جہنم کا مستحق بنانے والی ہیں ، ( 1 ) انکار حق ، ( 2 ) خدا کی ناشکری ، ( 3 ) حق اور اہل حق سے عناد ، ( 4 ) بھلائی کے راستے میں سدِّ راہ بننا ، ( 5 ) اپنے مال سے خدا اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا ، ( 6 ) اپنے معاملات میں حدود سے تجاوز کرنا ، ( 7 ) لوگوں پر ظلم اور زیادتیاں کرنا ، ( 8 ) دین کی صداقتوں پر شک کرنا ، ( 9 ) دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالنا ، اور ( 10 ) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدائی میں شریک ٹھہرانا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:26) فالقیہ : ہ ضمیر واحد مذکر غائب الذی کی طرف راجع ہے۔ عنید : متاع للخیر، معتد، مریب۔ اور شرک سب کل کفار کی تشریح میں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” الذی جعل۔ الایۃ “۔ مسئلہ توحید کا ذکر ہے علی سبیل الترقی بنسبت سورة سابقہ یعنی جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو معبود اور کارساز بنایا اور غیر اللہ سے متصرف و مختار جان کر حاجات میں مصائب میں پکارا اسے سخت ترین عذاب میں پھینک دو ۔ ” قال قرینہ۔ الایۃ “ یہاں قرین سے شیطان مراد ہے یہ ایک کلام مقدر کا جواب ہے۔ کافر معذرت کرے گا کہ بارے الٰہا ! میرا کوئی قصور نہیں، مجھے تو شیطان نے گمراہ کیا ہے تو شیطان (قرین) جواب دے گا ہمارے پروردگار ! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا، بلکہ وہ خود گمراہ تھا اور راہ ہدایت سے کوسوں دور تھا (مدارک، روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود تجویز کیا ہو سو ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو ۔ کفار برانا سپاس اور ناشکرا۔ عنید سرکش ضدی، متاع الخیر بھلائی سے روکنے والا مال میں ممسک اور بخیل معتدی حد سے تجاوز کرنے والا۔ ھریب شک کرنے والا، شبہے میں ڈالنے والا، شبہات پیدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو معبود تجویز کرنے والا۔ یہ حکم ہوگا کہ اس قسم کے مجرم کو جہنم میں ڈال دو ۔ یہ شاید ان ہی دو فرشتوں کو حکم دیا جائے گا یا اور دو فرشتے ہوں گے جن کو حکم دیا جائے گا دو فرشتوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ عام طور سے مجرم کو دو آدمی بادشاہ اور قاضی کے روبرو پیش کیا کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ حکم مالک کو دیا جائے جو دوزخ کا داروغہ ہے اور اس کی عظمت کی وجہ سے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال عام مفسرین کا قول یہی ہے کہ یہ فرشتے وہی سائق اور شہید ہیں۔