Surat uz Zaariyaat
Surah: 51
Verse: 10
سورة الذاريات
قُتِلَ الۡخَرّٰصُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾
Destroyed are the falsifiers
بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے ۔
قُتِلَ الۡخَرّٰصُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾
Destroyed are the falsifiers
بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے ۔
Cursed be Al-Kharrasun, Mujahid said; "The liars. This is similar to what is mentioned in Surah `Abasa: قُتِلَ الاِنسَـنُ مَأ أَكْفَرَهُ Be cursed man! How ungrateful he is! (80:17) Al-Kharrasun are those who claim that they will never be brought back to life, doubting the coming of Resurrection." Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas; "Cursed be the doubters." Mu`adh said similarly, may Allah be pleased with him. During one of his speeches he said, "Destroyed be the doubters." Qatadah said, "Al-Kharrasun are the people of doubt and suspicion." Allah said; الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ
[٥] آخرت سے انکار بلادلیل ہے اور محض وہم و قیاس ہے :۔ یعنی جو لوگ عقیدہ آخرت کے منکر ہیں ان کے پاس کوئی علمی بنیاد نہیں۔ آخرت کا علم نہ انسان کو مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے اور نہ محسوسات اور ادراکات سے۔ اس کے متعلق علمی بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ہونے اور نہ ہونے کے یعنی دونوں طرح کے امکانات موجود ہیں۔ آخرت کے قائم ہونے کے متعلق تو بہت سے دلائل بھی موجود ہیں۔ سب پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی یہی تعلیم رہی ہے پھر کائنات کا نظام بھی اس پر قوی دلیل ہے تو کیوں نہ اس احتمال کو تسلیم کیا جائے جس کی تائید میں بیشمار دلائل مل جاتے ہیں۔ اور اس کے نہ ہونے کے لیے اگر کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ محض ان کا وہم و گمان ہے۔
قتل الخرصون :” خرص یخرص خرصاً “ (ن) اندازہ لگانا، اٹکل لگانا، جیسا کہ فرمایا :(ان ھو الا یخرصون) (الزخرف : ٢٠)” وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔ “ (خراص “ مبالغے کا فیغہ ہے، بہت اٹکل لگانے والا۔ کفار کے پاس آسمانی ہدایت کی روشنی نہیں اس لئے وہ علم اور یقین سے محروم ہیں ان کا سارا دار و مدار ظن وتخمین اور وہم پر گمان پر ہے ۔ چناچہ شرک کی بنیاد سراسر گمان اور اندازوں کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں، اسلئے فرمایا، اٹکل لگانے والے مارے گئے۔
قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ (Death upon those who make conjectures - 51:10). The expression kharrasun is the plural of kharras which means one who estimates or say things by conjecture. In this context the word refers to those stubborn and obstinate infidels who, without any reason or evidence, say discordant things about the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Thus it would not be out of turn to interpret kharrasun as kadhdhabun, meaning &the great liars& as they are condemned, denounced, cursed and imprecated (Mazhari) in this statement. After the mention of infidels, several verses that follow describe the qualities of the righteous people and the pleasant consequences of their righteousness.
(آیت) قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ ، خراص کے لفظی معنی اندازہ لگانے والے اور ظن و تخمینہ سے بات کرنے والے کے ہیں مراد اس سے وہ قول مختلف والے کفار و منکرین ہیں جو بغیر کسی دلیل اور وجہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں متضاد باتیں کہتے ہیں، اس لئے یہاں خراصون کا ترجمہ کذابون سے بھی کردیا جائے تو بعید نہیں ان کے لئے اس جملے میں بد دعا ہے جو درحقیقت لعنت کے معنے میں ہے (مظہری) کفار کے ذکر کے بعد مومنین متقین کا ذکر کئی آیتوں میں آیا ہے۔
قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ ١٠ ۙ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] خرص الخَرْص : حرز الثّمرة، والخَرْص : المحروز، کالنّقض للمنقوض، وقیل : الخَرْص الکذب في قوله تعالی: إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الزخرف/ 20] ، قيل : معناه يکذبون . وقوله تعالی: قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] ، قيل : لعن الکذّابون، وحقیقة ذلك : أنّ كلّ قول مقول عن ظنّ وتخمین يقال : خَرْصٌ ، سواء کان مطابقا للشیء أو مخالفا له، من حيث إنّ صاحبه لم يقله عن علم ولا غلبة ظنّ ولا سماع، بل اعتمد فيه علی الظّنّ والتّخمین، کفعل الخارص في خرصه، وكلّ من قال قولا علی هذا النحو قد يسمّى کاذبا۔ وإن کان قوله مطابقا للمقول المخبر عنه۔ كما حكي عن المنافقین في قوله عزّ وجلّ : إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1] . ( خ ر ص ) الخرض پھلوں کا اندازہ کرنا اور اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہا جاتا ہے یہ بمعنی مخروص ہے ۔ جیسے نقض بمعنی منقوض بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب آجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑار ہے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں ۔ کے معنی بقول بعض یہ ہیں کہ جھولوں پر خدا کی لعنت ہو ، اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ انداز غلط ہو یا صحیح ۔ کیونکہ تخمینہ کرنے والا نہ تو علم یا غلبہ ظن سے بات کرتا ہے اور نہ سماع کی بنا پر کہتا ہے ۔ بلکہ اس کا اعتماد محض گمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تخمینہ کرنیوالا پھلوں کا تخمینہ کرتا ہے اور اس قسم کی بات کہنے والے کو بھی جھوٹا کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ واقع کے مطابق ہی کیوں نہ بات کرے جیسا کہ منافقین کے بارے میں فرمایا :۔ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ( ازراہ انفاق ) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں ۔ اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق ( دل سے نہ اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں ۔
(١٠۔ ١١) اور ولید بن مغیرہ، ابو جہل، ابی بن خلف، امیہ بن خلف، نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج ہے کہ انہوں نے لوگوں کو والے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر رسول اکرم اور قرآن کریم کی تصدیق سے ہٹایا۔ جھوٹ بولنے والے یعنی بنی مخزوم ولید بن صغیرہ اور اس کے ساتھی غارت اور ملعون ہوجائیں گے جو کہ جہالت میں آخرت سے اندھے اور رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
آیت ١٠{ قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ ۔ } ” ہلاک ہوجائیں یہ اٹکلیں دوڑانے والے۔ “
8 Here the Qur'an is warning man of an important truth. To judge or make an estimate on the basis of conjecture and speculation in the ordinary matters of worldly life may be useful to some extent, although it would be no substitute for knowledge, but it would be disastrous to make estimates and give judgments merely according to one's own conjectures and speculations in a question of such fundamental nature and importance as whether we are, or are not, responsible and accountable to anyone for the deeds and actions of our lifetime, and if we arc, to whom we are accountable, when and what shall be the accountability, and what will be the consequences of our success and failure in that accountability. This is not a question on which man may form an estimate merely according to his conjecture and speculation and then stake his entire life capital on the gamble. For if the conjecture proves to be wrong, it would mean that the man has doomed himself to utter ruin. Furthermore, this question is not at all included among those questions about which one may form a right opinion by the exercise of analogy and conjecture, For conjecture and analogy can work only in those matters which are perceptible for man, whereas this is a question which does not come under perception in any way, Therefore, it is not at all possible that a conjectural and analogical judgment about it may be right and correct. As for the question: What is the right way for man to form an opinion about the matters which are no perceptible and incomprehensible in nature? this has been answered at many places in the Qur'an, and from this Surah also the same answer becomes obvious, and it is this: (1) Man himself cannot reach the reality directly; (2) Allah gives the knowledge of the reality through His Prophets; and (3) man can ascertain the truth of that knowledge in this way: he should study deeply the countless signs that are found in the earth and heavens and in his own self, then consider seriously and impartially whether those signs testify to the reality that the Prophet bas presented, or to the different ideologies that the other people have presented in this regard. This is the only method of scientific investigation about God and the Hereafter that has been taught in the Qur'an. Doomed would be the one who discarded this method and followed his own analogies and conjectures. .
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :8 ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہا ہے ۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا ، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے ، اگرچہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا ، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں ، اور ہیں تو کس کے سامنے ، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہو گی ، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے ، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کر لے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایہ حیات لگا دے ۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کر لیا ۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن و تخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کر سکتا ہو ۔ کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں ، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کائی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا ۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے ۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے ، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے ، اور خود اس سورہ سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ ( 1 ) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ، ( 2 ) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے ، اور ( 3 ) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کر سکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بے شمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بے لاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے ، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے ۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا ۔
(51:10) قتل الخراصون۔ خراصون : اٹکل دوڑانے والے۔ جھوٹ بکنے والے، خرص (باب نصر) مصدر سے : مبالغہ کا صیغہ جمع مذکر ہے خواص واحد۔ الخرص۔ پھلوں کا اندازہ لگانا۔ اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہتے ہیں جو بمعنی مخروص ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب بھی آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ ان ہم الا یخرصون (43؛2) (یہ تو صرف اٹکلیں دوڑاتے ہیں) میں بعض نے کہا ہے کہ یخرصون بمعنی یکذبون ہے یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے معنی۔ اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں “ اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو، یا جھوٹے ہلاک ہوجائیں “ آئے ہیں۔ (کفار کے لئے بددعا ہے) ۔
ف 8 مراد ہیں جھوٹے لوگ جو کسی قابل اعتماد ذریعہ علم کے بغیر محض جو اٹل پچو بات ذہن میں آتی ہے زبان سے ادا کردیتی ہیں جیسا کہ کفار مکہ آنحضرت کو مجنون، کذاب شاعر اور ساحر وغیرہ کہا کرتے تھے
1۔ یعنی جو قیامت کا انکار کرتے ہیں بلا اس کے کہ ان کے پاس کوئی اس کی دلیل ہو۔
قتل ........ تسعجلون خرص کے معنی ظن ، گمان ، اندازے کے ہیں ، یعنی ایسی سوچ جو کسی گہرے اور یقینی معیار پر مبنی نہ ہو اور جس کا کوئی صغری کبری نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ بددعا فرماتا ہے کہ وہ قتل ہوں اور اللہ کی طرف سے بددعا کے معنی ہیں ” بس قتل ہوئے۔ “ قتل الخرصون (٥١ : ٠١) ” مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے “ اور ان کی ذرا مزید وضاحت کی جاتی ہے۔
پھر فرمایا ﴿ قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَۙ٠٠١٠﴾ غارت ہوجائیں اٹکل پچو باتیں کرنے والے (یعنی جھوٹے لوگ) جو قرآن کو جھٹلاتے ہیں دلائل سامنے ہوتے ہوئے ان میں غور نہیں کرتے اپنی جاہلانہ اٹکل کو سامنے رکھ کر تکذیب کرتے ہیں۔
5:۔ ” قتل الخراصون۔ تا۔ تستعجلون “ یہ منکرین قیامت کے لیے تخویف اخروی ہے۔ قتل، لعن الخراصون۔ جھوٹے اور ظن وتخمین سے حکم لگانے والے۔ غمرۃ جہالت و غفلت، یفتنون، آگ میں جلائے جائیں گے (مظہری، روح، مدارک) قیامت کو محض ظن وتخمین سے جھٹلانے والے جو جہالت و غفلت میں بےہوش و بیخبر پڑے ہیں ملعون اور خدا کی رحمت سے محروم ہیں۔ اور محض استہزاء و انکار کی غرض سے سوال کرتے ہیں کہ جزاء وسزا کا دن کب آئیگا۔ یوم کا عامل مقدر ہے۔ قی ھو کائن یعنی الجزاء (بحر) ۔ یعنی جزا وسزا لا محالہ اس دن ہونے والی ہے جس دن وہ آگ میں جلائے جائیں گے اور ان سے کہا جائیگا آج اپنے کیے کی سزا چکھو یہ وہی عذاب ہے جس کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔ ” ذوقوا “ سے پہلے یقال لہم محذوف ہے۔