Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 44

سورة الذاريات

فَعَتَوۡا عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہِمۡ فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿۴۴﴾

But they were insolent toward the command of their Lord, so the thunderbolt seized them while they were looking on.

لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر انہیں ان کے دیکھتے دیکھتے ( تیزو تند ) کڑاکے نے ہلاک کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And in Thamud, when they were told: "Enjoy yourselves for a while!" But they insolently defied the command of their Lord, so the Sa`iqah overtook them while they were looking. Thamud were given a respite for three days, during which they await the torment. In the early morning of the fourth day, the torment overtook them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ (زلزلہ) تھا جیسا کہ (فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ 78؀) 7 ۔ الاعراف :78) میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] گرنے والی بجلی کا عذاب :۔ صاعقۃ آسمان سے گرنے والی بجلی کو کہتے ہیں اور وہ جس چیز پر گرتی ہے اسے جلا کر خاکستر بنا دیتی ہے۔ قوم ثمود کا قصہ بھی پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکا ہے۔ ان پر جو عذاب نازل ہوا اس کے لیے کہیں صیحہ (زبردست چیخ، کڑک، دھماکہ) کا لفظ آیا ہے اور کہیں رجفۃ (زلزلہ) کا۔ گویا ان پر زمین سے عذاب آیا تھا اور آسمان سے بھی اور ہر مقام پر کسی ایک پہلو کا ذکر کردیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝ ٤٤ عتو العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها [ الطلاق/ 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا [ مریم/ 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي . ( ع ت و ) عتا ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ صعق الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة : الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه : 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] . 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] . 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها . ( ص ع ق ) الصاعقۃ اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے اول بمعنی موت اور ہلاکت جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔ دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔ أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک ) جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤{ فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ } ” تو انہوں نے سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے “ { فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔ } ” تو ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک چنگھاڑ نے انہیں آپکڑا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 Different words have been used for this torment at different places in the Qur'an. Somewhere it has been called rajfah (a frightful and shocking calamity), somewhere saihah (a crashing and thundering disaster), somewhere taghiyah (a most severe affliction) and here it has been described as sa'iqah (a calamity that strikes like a thunderbolt). Probably this torment had occurred as an earthquake which was also accompanied by a terrible noise.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :41 قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس عذاب کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ کہیں اسے رَجْفہ ( دہلا دینے والی اور ہلا مارنے والی آفت ) کہا گیا ہے ۔ کہیں اس کو صیحہ ( دھماکے اور کڑکے ) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کہیں اس کے لیے طاغیہ ( انتہائی شدید آفت ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اور یہاں اسی کو صاعقہ کہا گیا ہے جس کے معنی بجلی کی طرح اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کے بھی ہیں اور سخت کڑک کے بھی ۔ غالباً یہ عذاب ایک ایسے زلزلے کی شکل میں آیا تھا جس کے ساتھ خوفناک آواز بھی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:44) فعتوا۔ ف تفعیل کے لئے ہے عتوا ماضی جمع مذکر غائب عتو (باب نصر) مصدر بمعنی اطاعت سے اکڑنا۔ تکبر کرنا۔ اور حد سے بڑھ جانا۔ مگر انہوں نے تکبر اور غرور کے ساتھ (اپنے رب کے حکم کی تعمیل سے) سرتابی کی۔ فاخذتھم : ف عطف سببی کا ہے۔ اخذت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل کا مرجع الصعقۃ ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ پس صاعقہ نے ان کو آلیا۔ الصعقۃ : امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ الصاعقۃ اور الصادقۃ دونوں کے تقریباایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ہولناک دھماکہ، لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں ۔ بعض ایک لغت نے کہا ہے صاعقہ تین قسم پر ہے :۔ اول : بمعنی موت اور ہلاکت، جیسے فرمایا : فصعق من فی السموت ومن فی الارض (39:68) تو جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب مرجائیں گے : یا فاخذتھم الصعقۃ (51:44) سو ان کو موت نے آپکڑا۔ دوم : بمعنی عذاب جیسے فرمایا کہ فقل انذرتکم ص (علیہ السلام) قۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (41:13) میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ (عذاب) آیا تھا۔ سوم : بمعنی آگ اور بجلی کی کڑک، جیسے فرمایا :۔ ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء (13:13) اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقۃ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو فضاء میں سخت آواز کے ہیں۔ پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار میں سے ہیں۔ وہم ینظرون۔ جملہ حالیہ ہے درآں حالیکہ وہ دیکھ رہے تھے۔ یعنی دیکھ رہے تھے اور اس کی مدافعت میں کچھ نہ کر رہے تھے۔ تفسیر کبیر رازی میں ہے کہ :۔ بمعنی تسلیمہم وعدم قدرتھم علی الدفع کما یقول القائل للمضروب یضربک فلان وانت تنظر : اس کا مطلب ہے کہ ہتھیار ڈال دینا اور مدافعت کی قدرت نہ رکھنا۔ جیسا کہ کوئی مضروب سے کہے کہ وہ تمہیں پیٹ رہا ہے اور تم کھڑے دیکھ رہے ہو ؟ یعنی مدافعت میں کچھ بھی نہیں کر رہے) مضروب کی بےبسی کی انتہاء ہے۔ اسی معنی میں قرآن مجید میں اور جگہ فرمایا فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون (2:55)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) پس ان لوگوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی پھر ان کو ایک عذاب اور کڑاکے نے آپکڑا دراں حالیکہ وہ دیکھ رہے تھے۔ یعنی سرکشی کرتے رہے اور ان کو دیکھتے ہی دیکھتے ان کو ایک نعرہ تند نے آپکڑا۔ صاعقہ مہلک عذاب کو بھی کہتے ہیں۔ یہ جو اوپر کی آیت میں مہلت دی گئی تھی یہ شاید وہی تین دن ہوں گے جن کا ذکر سورة ہود میں گزرا ہے۔ کما قال عبداللہ بن عباس (رض) یا عام طور پر کہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آجائو ورنہ ہلاک کردیئے جائو گے زندگی دن پورے کرلو بہرحال ان کی آنکھوں دیکھتے ان کو عذاب نے آلیا اور پھر حالت یہ ہوگئی۔