Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 56

سورة الذاريات

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾

And I did not create the jinn and mankind except to worship Me.

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And I created not the Jinn and mankind except that they should worship Me. meaning, `I, Allah, only created them so that I order them to worship Me, not that I need them.' Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on the Ayah, إِلاَّ لِيَعْبُدُون (...except that they should worship Me). meaning, "So that they worship Me, willingly or unwillingly." Allah the Exalted said, مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5 6 ۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] عبادت کا وسیع مفہوم :۔ ساری کائنات میں جن اور انسان ہی تکالیف شرعیہ کی مکلف مخلوق ہے۔ ان کو میں نے دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ میں ہی ان کا خالق ہوں۔ اب اگر یہ مجھے اپنا خالق تسلیم کرنے کے باوجود بندگی دوسروں کی کرنے لگیں تو ان کی حماقت کی کوئی حد ہے ؟ اور دوسرے جب وہ خالق ہی نہیں تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بندگی کے مستحق یا معبود بن بیٹھیں۔ واضح رہے کہ عبادت کا مفہوم محض ارکان اسلام کی بجا آوری نہیں ہے جیسا کہ عوام میں مشہور ہوچکا ہے۔ بلکہ غلام ہر وقت اپنے مالک کا غلام ہے۔ اگر مالک نے کچھ کاموں پر اس کی ڈیوٹی لگا دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مالک اسے کوئی دوسرا کام کرنے کو کہہ نہیں سکتا۔ یا ملازم ڈیوٹی کے طے شدہ کام کے علاوہ دوسرے کام سے انکار کا حق رکھتا ہے۔ لہذا بندہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا بندہ ہے اور اسے ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما خلقت الجن و الانس الالیعبدون : اس آیت میں بتایا کہ نصیحت کیا کرنی ہے اور کون سی بات یاد دلانی ہے۔ فرمایا انہیں یاد دلاؤ کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (٢) عبادت کا معنی بندگی ہے۔ غلام کو عربی میں عبد اور فاسری میں بندہ کہتے ہیں۔ عبادت وہ تعلق ہے جو غلام کا اپنے مالک یا عبد کا اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے۔ (٣) کائنات کی ہر چیز رب تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے، سکیک ی مجال نہیں کہ ذرہ برابر سرتابیک ر سکے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ” کن “ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس ارادے کو ارادہ کونیہ اور اس حکم کو تکوینی حکم کہتے ہیں، فرمایا :(انما امرہ اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون) (یٰسین : ٨٢)” اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ (٤) اکثر معاملات میں انسان اور جن بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ کونیہ اور تکوینی کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح دوسری تمام چیزیں، ان کی پیدائش، عمر، رزق، صحت، مرض اور ان کے اعضا کے افعال اور صلاحیتوں میں ان کی مرضی کا کچھ دخل نہیں۔ البتہ دونوں کو امتحان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک اختیار عطا فرمایا ہے اور زندگی گزارنے کے لئے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کچھ احکام دیئے ہیں کہ میں تمہارا رب ہوں اور تم میرے بندے ہو، میں تمہارا مالک ہوں اور تم میرے غلام ہو، لہٰذا تم نے میری غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حکم شرعی اور اس ارادے کو ارادہ شرعیہ کہتے ہیں۔ انسان اس حکم کی تعمیل اور اس ارادے کو پورا بھی کرسکتا ہے اور اسے اس حکم کی نافرمانیا ور اس رادے کو پورا نہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اسی اختیار پر اس سے باز پرس ہوگی اور وہ ثواب یا عذاب کا مستحق بنے گا، فرمایا :(الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) (الملک : ٢)” وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد دہانی کے لئے پیغمبر بھیجے اور فرمایا :(وما خلقت الجن والانس الالیعبدون)” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کا یم گر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔ “ یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔ (٥) بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر بازار اور عدلات میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عہد۔ ہاں، اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھاناپ ینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کئے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔ (٦) رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سیپ ہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لئے عبداللہ بن عباس (رض) نے سورة بقرہ کی آیت (٢١) :(یایھا الناس اعبدوا ربکم) کی تفسیر فرمائی :” ای و خدوا ربکم “ ” یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ “ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

[ 60] The Purpose of Jinn&s and Mankind&s creation وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (And I did not create the Jinns and the human beings except that they should worship Me.|"...51:56). This apparently may raise two questions: [ 1] If Allah has created a creature for a particular task, and it is His will that it should perform that task, rationally it is impossible for it to deviate from that task, because doing anything contrary to the will of Allah is inconceivable. [ 2] The purpose of jinn&s and man&s creation has been restricted to the worship of Allah whereas there are many other underlying reasons and benefits in their creation. Scholars have made different approaches to solve these problems. Some say that this verse pertains to the believers only, that is, only believing jinn and believing mankind are created for worship and for no other task. It is obvious that the believers are more or less steadfast to worship. This is the view of Dahhak, Sufyan Thawri and others. According to one version of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، the word mu&minin does occur in the verse thus: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ مِنَ المُؤمِنِینَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ And I have not created the believing jinn and mankind except that they should worship Me&. This version supports the view that the verse is only in connection with the believers. Another answer to the question, given by Moulana Ashraf ` Ali Thanawi (رح) is that: Allah has commanded all to worship, but at the same time He has equipped them with free will. Some of them exercised their God-given free will correctly and chose to worship Him, but others used their God-given free will incorrectly and deviated from worshipping Him. This is what Sayyidna Ali (رض) has said, as quoted by Baghawi. Tafsir Mazhari gives a plain and simple explication of this verse: Allah has equipped every jinn and man with the innate capacity to worship. Some use the capacity rightly and succeed, while others employ it wrongly in sinning and fulfilling their base emotions, and thus destroy it. The Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: کُلُّ مَولُودِ یُّولَدُ عَلَی الفِطرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَو یُمَجِّسَانِہٖ |"Every child is born according to the fitrah but his parents [ cause him to deviate from the unadulterated propensity ] and turn him into a Jew or a Christian or a Magian.|" According to the majority of the scholars, fitrah here refers to the religion of Islam. Just as this Tradition tells us that every man is born with the natural capacity for Islam and true faith, but his parents adulterate and destroy that capacity, and put him on to the ways of disbelief, in the same way the phrase &except that they should worship Me& could mean that every member of jinn and mankind has the natural, inborn capacity to worship. Allah, the Pure and Exalted, knows best. Answer to the second question is that bringing any creation into being for the purpose of worship does not necessarily imply that they are unfit for other functions of life.

خلاصہ تفسیر اور میں نے جن اور انسان کو ( دراصل) اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ( اور تبعاً و تکمیلاً للعبادة جن وانس کی پیدائش پر دوسرے منافع کا مرتب ہونا اس کے منافی نہیں اور اسی طرح بعض جن و انس سے عبادت کا صادر نہ ہونا بھی اس مضمون کے منافی نہیں، کیونکہ حاصل اس لیعبدون کا ارادہ تشریعیہ ہے یعنی ان کو عبادت کا حکم دینا نہ کہ ارادہ تکوینیہ یعنی عبادت پر مجبور کرنا اور تخصیص جن و انس کی اس لئے ہے کہ عبادت سے مراد عبادت بالاختیار و ابتلاء ہے اور ملائکہ میں اگرچہ عبادت ہے ابتلاء نہیں اور دوسری مخلوقات حیوانات و نباتات وغیرہ میں اختیار نہیں، حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ مجھ کو مطلوب شرعی ان سے عبادت کرانا ہے باقی) میں ان سے (مخلوق کی) رزق رسانی کی درخواست نہیں کرنا اور نہ یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلایا کریں اللہ خود ہی سب کو رزق پہنچانے والا ہے ( تو ہم کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ ہم مخلوقات کی روزی رسانی ان کے متعلق کرتے اور وہ) قوت والا نہایت قوت والا ہے ( کہ اس میں عجز و ضعف اور کسی قسم کی احتیاج کا عقلی احتمال بھی نہیں تو ان سے کھانا مانگنے کا کوئی امکان ہی نہیں، یہ ترغیب ہوگئی، آگے ترہیب ہے کہ جب عبادت کا وجوب ثابت ہوگیا اور عبادت کا اہم رکن ایمان ہے تو اگر یہ لوگ اب بھی شرک و کفر پر مصر رہیں گے) تو (سن رکھیں کہ) ان ظالموں کی (سزا کی) بھی باری (علم الٰہی میں مقرر ہے) جیسے ان کے (گزشتہ) ہم مشربوں کی باری (مقرر) تھی (یعنی ہر مجرم ظالم کے لئے اللہ کے علم میں خاص خاص وقت مقرر ہے، اس طرح نوبت بہ نوبت ہر مجرم کی باری آتی ہے تو وہ عذاب میں پکڑا جاتا ہے، کبھی دنیا و آخرت دونوں میں اور کبھی صرف آخرت میں) سو مجھ سے (عذاب) جلدی طلب نہ کریں ( جیسا کہ ان کی عادت ہے، کہ وعیدیں سن کر تکذیب کے طور پر استعجال کرنے لگتے ہیں) غرض ( جب وہ باری کے دن آویں گے جن میں سب سے اشد یوم موعود یعنی قیامت ہے تو) ان کافروں کے لئے اس دن کے آنے سے بڑی خرابی ہوگی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (چنانچہ خود سورت بھی اسی وعدے سے شروع ہوتی ہے اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ، اور اس سے سورت کے آغاز و انجام کا حسن ظاہر ہے ) معارف و مسائل جن و انس کی تخلیق کا مقصد : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ، یعنی ہم نے جنات اور انسان کو عبادت کے سوا کسی کام کے لئے نہیں پیدا کیا، اس میں دو اشکال ظاہر نظر میں پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا اور اس کا ارادہ یہی ہے کہ یہ مخلوق اس کام کو کرے تو عقلی طور پر یہ ناممکن و محال ہوگا کہ پھر وہ مخلوق اس کام سے انحراف کرسکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت کے خلاف کوئی کام محال ہے، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس آیت میں انسان اور جن کی تخلیق کو صرف عبادت میں منحصر کردیا گیا ہے، حالانکہ ان کی پیدائش میں علاوہ عبادت کے دوسرے فوائد اور حکمتیں بھی موجود ہیں۔ پہلے اشکال کے جواب میں بعض حضرات مفسرین نے اس مضمون کو صرف مومنین کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، یعنی ہم نے مومن جنات اور مومن انسانوں کو بجز عبادت کے اور کسی کام کے لئے نہیں بنایا اور مومنین ظاہر ہے کہ عبادت کے کم و بیش پابند ہوتے ہیں، یہ قول ضحاک اور سفیان وغیرہ کا ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک قرات آیت مذکورہ میں لفظ مومنین مذکور بھی ہے اور قرات اس طرح ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ مِنَ المُومِنِینَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ اس قرات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ مضمون صرف مومنین کے حق میں آیا ہے اور خلاصہ تفسیر میں اس اشکال کو رفع کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس آیت میں ارادہ الٰہی سے مراد ارادہ تکوینی نہیں ہے جس کے خلاف کا وقوع محال ہوتا ہے بلکہ ارادہ تشریعی ہے، یعنی یہ کہ ہم نے ان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم ان کو عبادت کے لئے مامور کریں، امر الٰہی چونکہ انسانی اختیار کے ساتھ مشروط رکھا گیا ہے، اس کے خلاف کا وقوع محال نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے تو حکم عبادت کا سب کو دیا ہے مگر ساتھ ہی اختیار بھی دیا ہے اس لئے کسی نے اپنے خداداد اختیار کو صحیح خرچ کیا، عبادت میں لگ گیا، کسی نے اس اختیار کو غلط استعمال کیا، عبادت سے منحرف ہوگیا، یہ قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے اور زیادہ بہتر اور بےغبار توجیہ وہ ہے جو تفسیر مظہری میں کی گئی ہے کہ مراد آیت کی یہ ہے کہ ہم نے ان کی تخلیق اس انداز پر کی ہے کہ ان میں استعداد اور صلاحیت عبادت کرنے کی ہو، چناچہ ہر جن و انس کی فطرت میں یہ استعداد قدرتی موجود ہے، پھر کوئی اس استعداد کو صحیح مصرف میں خرچ کر کے کامیاب ہوتا ہے، کوئی اس استعداد کو اپنے معاصی اور شہوات میں ضائع کردیتا ہے اور اس مضمون کی مثال وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ او یمجسانہ (یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو (اس فطرت سے ہٹا کر کوئی) یہودی بنا دیتا ہے کوئی مجوسی، فطرت پر پیدا ہونے سے مراد اکثر علماء کے نزدیک دین اسلام پر پیدا ہونا ہے، تو جس طرح اس حدیث میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر انسان میں فطری اور خلقی طور پر اسلام و ایمان کی استعداد و صلاحیت رکھی جاتی ہے، پھر کبھی اس کے ماں باپ اس صلاحیت کو ضائع کر کے کفر کے طریقوں پر ڈالتے ہیں، اسی طرح اس آیت میں (اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ) کا یہ مفہوم ہوسکتا ہے کہ جن و انس کے ہر فرد میں اللہ تعالیٰ نے استعداد اور صلاحیت عبادت کی رکھی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔ اور دوسرے اشکال کا جواب خلاصہ تفسیر میں یہ آچکا ہے کہ کسی مخلوق کو عبادت کے لئے پیدا کرنا اس سے دوسرے منافع اور فوائد کی نفی نہیں کرتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝ ٥٦ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور میں نے جن و انسان کو دراصل اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری اطاعت کیا کریں یہ حکم صرف اہل اطاعت کے لیے خاص ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر ان کو صرف عبادت ہی کے لیے پیدا کیا جاتا تو آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتے (تو مطلب یہ ہے) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے جن و انس دراصل اس لیے پیدا کیے ہیں کہ انہیں اپنی عبادت کا حکم دے اور اپنا مکلف بنائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کو اس بات کا حکم دے کہ وہ توحید الہی کے قائل ہوں گے اور صرف اسی کی عبادت کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ } ” اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔ “ شیخ سعدی (رح) نے اس مفہوم کی ترجمانی اس طرح کی ہے : ؎ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بےبندگی شرمندگی ! یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں تخلیق انسانی کی غایت بیان کی گئی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے عام طور پر ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس تخلیق کا سبب کیا ہے ؟ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے جس کے جواب میں ہر زمانے کے فلاسفر اور حکماء نے اپنی اپنی آراء دی ہیں ۔ یہ ان تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ایک عام شخص کے لیے تخلیق کائنات کے سبب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ضروری نہیں اور اس لاعلمی کی وجہ سے اسے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی نہیں ۔ البتہ اپنی تخلیق کی غرض وغایت کے بارے میں جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ اگر انسان کو اپنی غایت تخلیق ہی کا علم نہیں ہوگا تو گویا اس کی ساری زندگی رائیگاں جائے گی۔ چناچہ اس آیت میں بنی نوع انسان کو ان کی غایت تخلیق واضح طور پر بتادی گئی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ” بندگی “ کے لیے پیدا کیا ہے۔ بندگی یا عبادت کے بارے میں قبل ازیں بھی میں نے کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ اس کے تین حصے ہیں : اوّلاً ہمہ تن اطاعت ‘ ثانیاً اطاعت کی روح یعنی اللہ تعالیٰ کی غایت درجے کی محبت۔ عبادت اصلاً ان دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے (اَلْعِبَادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ : غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ ) ۔ جبکہ تیسری چیز مراسم ِعبودیت ہے ‘ جس کی حیثیت عبادت کے ظاہر یا جسم کی ہے۔ مثلاً اللہ کے سامنے عاجزی کی حالت (قنوت) میں کھڑے ہونا (قیام) ‘ رکوع ‘ سجدہ ‘ حمدیہ کلمات ادا کرنا ‘ نماز وغیرہ مراسم عبودیت ہیں اور ان کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر ہم عبادت کی اس تعریف (اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت) کی روشنی میں آج اپنی حالت کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت واضح ہوگی کہ ہم میں سے جو لوگ اپنے زعم میں شب و روز پابندی کے ساتھ اللہ کی عبادت پر کمر بستہ ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ فیصد تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اس کا واضح تر مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا غالب حصہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت سے نکلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس پر کافرانہ نظام کا غلبہ ہے اور اس نظام کے تحت رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت ممکن ہی نہیں ۔ ان حالات میں ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا عبادت کے تقاضوں سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے خواہش مند حضرات اس موضوع پر میری کتب اور تقاریر سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں پر مختصراً یہ سمجھ لیں کہ مادی وعلمی لحاظ سے انسان جس قدر چاہے ترقی کرلے اگر وہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا بندگی کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر رہا تو انسانی سطح پر اس کی ساری زندگی بیکار اور رائیگاں ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے ان اشعار میں انسان کی اسی ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے : ؎ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب ِتاریک سحر کر نہ سکا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 That is, "I have not created them for the service of others but for My own service. They should serve Me, for I am their Creator. When no one else has created them, no one else has the right that they should serve him; and how can it be admissible for them that they should serve others instead of Me, their Creator?" Here, the question arises that Allah Almighty is not the Creator only of the jinn and men but of the entire Universe and of every thing in it. Then, why has it been said only about the jinn and men that He has not created them for the service of others but of Himself ? whereas every single creature is there to serve Allah. The answer is: On the earth only the jinn and men have been granted the freedom that they may serve Allah within their sphere of choice if they so like; otherwise they can turn away from Allah's service as well as serve others beside Hun. The rest of the creatures in the world do not have this kind of freedom. They do not havc any choice whatever that they may not worship and serve AIIah, or may serve any other. Therefore, only about the jinn and men it has been said here that by turning away from the obedience and servitude of their Creator within the bounds of their option and choice and by serving others than the Creator, they are fighting their own nature. They should know that they have not been created for the service of any other but the Creator, and for them the right way is that they should not abuse the freedom granted them, but within the bounds of this freedom also they should serve God voluntarily just as every particle of their body is serving Him involuntarily in the sphere where they have not been granted any freedom, The word `ibadat (service, worship) in this verse has not been used in the sense of only prayer, fasting and other kinds of such worship so that one may understand that the jinn and men have been created only for performing the Prayer, observing the Fast and for praising and glorifying AIIah. Although this sense also is included in it, this is not its complete sense. Its complete sense is that the jinn and men have not been created for the worship, obedience and carrying out of the orders of any other but Allah. They are not there to bow to any other, to carry out the orders of any other, to live in fear of any other, to follow the religion enjoined by any other, to look upon any other as the maker and destroyer of ones destiny, and to supplicate any other than Allah for help. (For further explanation, see E.N. 63 of Surah Saba, E.N. 2 of Az-Zumar, E.N. 30 of A1 Jathiyah). Another thing that incidentally becomes quilt obvious from this verse is that the jinn arc a separate and independent creation from men. This brings out the error of the thinking of those people, who assert that sonic people from among mankind have been called the jinn in the Qur'an. This same thing is also confirmed and testified by the following verses of the Qur'an: AI-An'am :100, 128, AI-A`raf, 38, 179, Hud: 119, AI-Hijr: 27 to 33, Bani Isra`il: 88, AI-Kahf: S0, As-Sajdah: 13, Saba: 41, Suad: 75, 76, Ha Mim As-Sajdah: 25, AI-Ahqaf: 18, Ar-Rahman: 15, 39, 56. (For a complete discussion of this question, see E. N . 21 of AI-Anbiya', E.N.'s 23, 45 of An-Naml, E.N. 24 of Saba).

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :53 یعنی میں نے ان کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ میری بندگی تو ان کو اس لیے کرنی چاہیے کہ میں ان کا خالق ہوں ۔ دوسرے کسی نے جب ان کو پیدا نہیں کیا ہے تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اس کی بندگی کریں ، اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ان کا خالق تو ہوں میں اور یہ بندگی کرتے پھریں دوسروں کی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف جنوں اور انسانوں ہی کا خالق تو نہیں ہے ۔ بلکہ سارے جہان اور اس کی ہر چیز کا خالق ہے ، پھر یہاں صرف جنوں اور انسانوں ہی کے متعلق کیوں فرمایا گیا کہ میں نے ان کو اپنے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ حالانکہ مخلوقات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی کی بندگی کے لیے ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر صرف جن اور انسان ایسی مخلوق ہیں جن کو یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں ، ورنہ وہ بندگی سے منہ بھی کوڑ سکتے ہیں ، اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی بھی کر سکتے ہیں ۔ دوسری جتنی مخلوقات بھی اس دنیا میں ہیں وہ اس نوعیت کی کوئی آزادی نہیں رکھتیں ۔ ان کے لیے سرے سے کوئی دائرہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس میں اللہ کی بندگی نہ کریں یا کسی اور کی بندگی کر سکیں ۔ اس لیے یہاں صرف جنوں اور انسانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے حدود میں اپنے خالق کی اطاعت و عبودیت سے منہ موڑ کر ، اور خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے خود اپنی فطرت سے لڑ رہے ہیں ، ان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ خالق کے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں اور ان کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ جو آزادی انہیں بخشی گئی ہے اسے غلط استعمال نہ کریں بلکہ اس آزادی کے حدود میں بھی خود اپنی مرضی سے اسی طرح خدا کی بندگی کریں جس طرح ان کے جسم کا رونگٹا رونگٹا ان کی زندگی کے غیر اختیاری حدود میں اس کی بندگی کر رہا ہے ۔ عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہ مفہوم بھی اگرچہ اس میں شامل ہے ، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے ۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش ، اطاعت ، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا ، کسی اور کے احکام بجا لانا ، کسی اور سے تقویٰ کرنا ، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا ، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا ، اور کسی دوسری ہستی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 63 ۔ الزمر ، حاشیہ 2 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 30 ۔ ایک اور بات جو ضمنی طور پر اس آیت سے صاف ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جن انسانوں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو قرآن میں جن کہا گیا ہے ۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی ناقابل انکار شہادت بہم پہنچاتی ہیں ( الانعام ، 100 ، 128 ۔ الاعراف 38 ، 179 ، ہود ، 119 ، الحجر ، 27 تا 33 ۔ بنی اسرائیل ، 88 ۔ الکہف ، 50 ۔ السجدہ ، 13 ۔ سبا ، 41 ۔ صٓ ، 75 ، 76 ۔ حٰم السجدہ ، 25 ۔ الاحقاف ، 18 ۔ الرحمٰن ، 15 ، 39 ، 56 ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ، سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 21 ۔ النمل ، حاشیہ 23 ، 45 ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 24 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٦٠۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ ملت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر ماں باپ اگر برے ہوئے تو ان کی صحبت سے وہ بچہ بگڑ جاتا ہے۔ مسلم ٢ ؎ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب تک بچہ بولنا سیکھتا ہے اس وقت تک اس کی حالت ملت اسلام پر ہونے کی قائم رہتی ہے۔ معنی اس حدیث کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً انسان کو جس طرح آنکھیں دیکھنے کے لئے اور کان سننے کے لئے دیئے ہیں اسی طرح ہر انسان کے دل میں حق بات کے قبول کرنے کی ایک صلاحیت رکھی ہے۔ اسی صلاحیت پر ہر بچہ ہوتا ہے اب جو لوگ علم ازلی الٰہی میں نیک قرار پا چکے ہیں وہ اس صلاحیت کے سبب سے نیک راستہ سے لگ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ علم الٰہی میں بدقرار پا چکے ہیں وہ اس صلاحیت کو کام میں نہیں لاتے اللہ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور طرح طرح کی نافرمانی کرتے ہیں اور اسی حال میں بغیر توبہ کے مرجاتے ہیں وہ علم الٰہی کے موافق اخیر کو دوزخی قرارپائیں گے۔ علم الٰہی کا نتیجہ کسی شخص کو دنیا میں معلوم نہیں اس لئے شریعت میں ہر شخص کو نیک کام کرنے اور برے کام سے بچنے کی تاکید ہے اب جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا وہ مواخذہ کے قابل ہے کیونکہ دنیا کے پیدا کئے جانے سے پہلے علم الٰہی میں یہی ٹھہرا تھا کہ دنیا کے پیدا کئے جانے کی صورت میں جب بعض لوگوں کو نیک و بد کا اختیار دے کر دنیا میں پیدا کیا جائے گا تو یہ لوگ باوجود اللہ کے رسولوں کی فہمایش کے بدی سے باز نہ آئیں گے اور آخر کو جہنم میں جائیں گے۔ اب جبکہ دنیا میں آنے کے بعد بعض لوگوں نے علم الٰہی کے نتیجہ کے موافق اعمال کئے تو اس نتیجہ کے موافق سزا بھی ان کو بھگتنی چاہئے۔ حاصل یہ کہ علم الٰہی اور تقدیر الٰہی میں بغیر برائی کرنے کے کسی کے ذمہ کوئی برائی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ برائی کے ظہور میں آنے سے پہلے مثلاً یہ بات علم الٰہی میں تھی کہ فرعون اور ابوجہل کو آزادی دے کر دنیا میں پیدا کیا جائے گا تو یہ شریر النفس ایسی ایسی برائیاں کریں گے اور ان برائیوں کی سزا میں ان کا ٹھکانا اخیر کو دوزخ ہوگا۔ علم الٰہی کا یہی نتیجہ لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے اسی کا نام تقدیر الٰہی ہے دنیا میں نیک و بد عمل کی آزادی ہر ایک کو اس لئے دی گئی ہے کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کی جگہ ہے۔ اگر اسی آزادی میں کچھ مجبور کا دخل ہوتا تو پھر امتحان باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ اسی واسطے قیامت کی علامت کے ظاہر ہوجانے کے بعد ایک مجبوری کا وقت جب آجائے گا تو اس وقت کا ایمان اس وقت کی توبہ کچھ قبول نہیں ہے۔ ١ ؎ اس حدیث اور آیت وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مطلب ایک ہے اس لئے یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنی عبادت کے ساتھ اپنی رزاقی کا ذکر جو فرمایا اس کی تفسیر ترمذی ٢ ؎ ابن ماجہ صحیح ابن جان مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص خالص دل سے میری عبادت میں لگا رہے گا میں اس کو روزی رزق سے تنگ حال نہ رکھوں گا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ٣ ؎ اس مضمون کی ایک حدیث قدسی ابی امامہ کی روایت سے مستدرک ٤ ؎ حاکم میں ہے اس کو بھی حاکم نے صحیح کہا ہے۔ عرب میں لوگوں کے پاس غلام بہت تھے وہ لوگ اپنے غلاموں کو یا تو کسی کمائی کے کام میں لگا کر اس آمدنی کو اپنے خرچ میں لاتے تھے یا ان غلاموں سے اپنے گھر کے کام کاج میں مدد لیتے تھے اسی واسطے فرمایا کہ ان دونوں باتوں میں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کوئی بات نہیں چاہتا۔ وہ خود تمام عالم کا رازق ہے کسی کی کمائی کی اسے کیا پروا ہے۔ اسی طرح وہ ایسا صاحب قوت ہے کہ کسی کی مدد کا وہ اپنے کام میں محتاج نہیں۔ صحیح مسلم ٥ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا اے شخص میں نے تجھ سے دنیا میں کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھ کو پانی نہیں دیا۔ میں بیمار پڑا تو میری خیریت پوچھنے کو نہیں آیا۔ وہ شخص کہے گا یا اللہ تو بھوک پیاس بیماری ‘ ان سب باتوں سے پاک ہے میں کس طرح تجھ کو کھانا پانی دیتا اور کیونکر تیری خیریت پوچھنے آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ اس اپنے بندے کو سمجھائے گا کہ دنیا میں میرا فلانا بندہ بھوکا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ اگر تو اس کو کھانا دیتا تو وہ کھانا گویا مجھ کو پہنچتا اور آج اس کا اجر تجھ کو پہنچ جاتا۔ پھر اسی طرح پیاسے اور بیمار کر ذکر فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات تو سب ضرورتوں سے بےپرواہ ہے لیکن اس نے اپنی مخلوق ضرورتوں کے رفع کرنے کو وہ مرتبہ دیا ہے جس کا ذکر اس صحیح حدیث میں ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس مرتبے کے حاصل کرنے کی جہاں تک ہو سکے کوشش کرے آخر سورة میں اہل مکہ کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ لوگ عذاب کی جلدی گھڑی گھڑی کیا کرتے ہیں۔ پچھلی امتوں کے عذاب کا حال ان کو سنا دیا گیا اگر ان امتوں کی طرح یہ لوگ بھی نافرمانی سے باز نہ آئے تو ایک دن وہی خرابی ان کے نصیب میں ہے فقط وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ ذنوب بڑے ڈول کو کہتے ہیں عرب کے ملک میں پانی کی قلت ہے اس واسطے قبیلہ کے کنویں میں سے ایک بڑا ڈول بھرا جاتا تھا اور وہ پانی آپس میں حسب حصہ رسد بانٹ لیتے تھے اسی سبب سے پھر رفتہ رفتہ ذنوب حصہ کے معنی میں بولا جانے لگا۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب اللہ اعلم بما کانوا عاملین ص ٩٧٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ الخ ص ٣٣٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب بیان الزمن الذی لایقبل فیہ الایمان ص ٨٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص ٤٤٠ فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص ٢٠٢ ج ٤۔ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص ٤٤٠ فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص ٢٠٢ ج ٤۔ ص ٢٠٣) (٤ ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص ٤٤٠ فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص ٢٠٢ ج ٤۔ ص ٢٠١۔ ) (٥ ؎ صحیح مسلم باب فضل عیادۃ المریض ص ٣١٨ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:56) وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون اصل میں یعبدوننی تھا نون وقایہ ی متکلم ضمیر مفعول ۔ کہ وہ میری عبادت کریں۔ واؤ عاطفہ ما نافیہ، الا حرف استثناء لام تعلیل کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اس سے معلوم ہوا کہ جن وا انس کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ان کو عبادت وطاعت کا مکلف بنایا جائے تاکہ فرمانبردار کو ثواب اور نافرمان کو سزا دی جائے پھر جو لوگ اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور پیغمبروں کی شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتے، وہ اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اصل چیزتوحید کی راہ اختیار کرنا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لفظ آیا ہے اس سے مراد توحید ہے۔ امام ابن تیمیمہ فرماتے ہیں کہ عبادت ایک جامع لفظ ہے اور بہت وسیع فمہوم کا حامل ہے یعنی ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو خواہ اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے) اسے عبادت کہا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ” حتی کہ انسان جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے وہ بھی موجب اجر ہے۔ (فتح البیان وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 56 تا 60 ما ارید میں نہیں چاہتا۔ یطعمون وہ کھلاتے ہیں۔ ذنوب پانی کا ڈول۔ تشریح : آیت نمبر 56 تا 60 انسانوں کی طرح جنات بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور ہر ایک مخلوق کا دائرہ عمل اپنا اپنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن جنات اور مومن انسانوں کی پیدئاش کا بنیادی مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت و بندگی کریں اور سا کے ساتھ کسی کو سکی طرح شریک نہ کریں۔ عبادت یہ ہے کہ اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اللہ اور بندوں کے تمام حقوق کو احسن طریقے سے پورا کیا کریں۔ نہ حقوق اللہ میں کمی کریں نہ حقوق العباد ہیں۔ اللہ کا بندوں پر حق ہے کہ وہ ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے تمام احکامات کی پابندی کریں، اس کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی کو نہ جھکائیں، کسی دوسرے کے لئے بھوکے نہ رہیں، اس کے سوا کسی اور کے نام کی نذر و نیاز نہ کریں۔ نفع اور نقصان کا مالک صرف اللہ کو سمجھیں اس کے سوا کسی کو نفع نقصان کا مالک نہ سمجھیں۔ اللہ کے سوا کسی سے مدد طلب نہ کری۔ دعا کے لئے صرف اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اسی بےنیاز ذات کو ساری کائنات کا خلاق ومالک سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ بندوں کے حقوق یہ ہیں کہ ایک دوسرے پر جتنے حقوق ہیں ان کو احسن طریقے پر بجا لائیں، اولاد پر والدین کے حقوق ہیں اسیر طح والدین پر اپنی اولاد کو بہترین تربیت کے ذریعہ ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا اور معاشرہ کا بہترین فرد بنانا بیوی بھائی بہن رشتہ دار اور غریبوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ نے جو ان کے حقوق مقرر کئے ہیں ان کو ادا کرنا۔ اگرچہ حقوق انسان کی تو ایک طویل فہرست ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے بندوں کے تمام حقوق ادا کرنا عبادت و بندگی ہے۔ کسی کے حق میں کمی نہ کرنا یہی کمال بندگی ہے۔ جنات اور انسانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے یہ سب کچھ تمہیں عطا کیا ہے جو تمہارے فائدے کے لئے ہے۔ اللہ تو ہر چیز سے بےنیاز ہے ساری مخلوق بھی اس کی بندگی چھوڑ دے تو اس کی کائنات میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر اللہ ہی ان سے رخ پھیر لے تو وہ ہر سعادت سے محروم ہو کر رہ جائیں گے۔ فرمایا کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر گناہ گار اور خطا کار کو سزا دے کر رہتا ہے۔ جب اللہ کی نافرمانیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو پھر ظالم قوم پر اللہ کا عذاب آ کر رہتا ہے۔ یہ اس کا ایسا قانون ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار کے لئے کسی عذاب کی جلدی نہ کیجیے کیونکہ ظالموں کے لئے اللہ نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے اور جب وہ دن آجائے گا تو یہ اپنے برے انجام سے نہ بچ سکیں گے اور وہ دن کفار و منکرین کے لئے بڑا ہیبت ناک ہوگا۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ مجھ کو مطلوب شرعی ان سے عبادت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما خلقت ........ المتین (٨٥) (١٥ : ٦٥ تا ٨٥) ” میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست “۔ یہ چھوٹی سی آیت دراصل ایک عظیم حقیقت پر مشتمل ہے۔ یہ اس کائنات کی وہ عظیم حقیقت ہے کہ جہاں انسان کی زندگی اس پر عمل کرنے کے سوا درست نہیں ہوسکتی۔ خواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ہو یا عالمی زندگی اور ہر دور میں یہ حقیقت اپنی جگہ سچی رہی ہے اور رہے گی۔ یہ عظیم حقیقت عالم انسانیت کے نہایت اہم گوشے اور خفیہ معانی پر کھلتی ہے اور یہ معانی اور گوشے وہ ہیں جن پر پوری اجتماعی زندگی قائم ہے۔ اس کا پہلا پہلو یہ ہے کہ جن وانس کے وجود کا خاص مقصد ہی یہ ہے اللہ کی بندگی کی جائے۔ اس مقصد کے لئے اللہ نے چند فرائض مقرر فرمائے ہیں جس نے یہ فرائض ادا کئے گویا اس نے مقصد زندگی پالیا اور جس کسی نے ان فرائض میں کوتاہی کی یا ان سے منہ موڑا تو اس نے گویا مقصد زندگی ہی گم کردیا اور وہ شخص ہے مقصد اور بےکار ہوگیا اور اس کی زندگی بےمعنی ہوگئی اور اس کی کوئی قدروقیمت نہ رہی کیونکہ صرف اسی مقصد کے ذریعے ہی زندگی بامعنی ہوسکتی ہے۔ یہ شخص اس ناموس فطرت سے نکل آیا جس کے لئے اسے اللہ نے پیدا کیا تھا اور یہ گویا بالکل ضائع ہوگیا جس طرح ہر وہ چیز جو اپنا فرض ¾ منصبی ادا کرنا چھوڑ دے وہ بےکار ہوجاتی ہے کیونکہ مقصد زندگی ہی درحقیقت کسی شخص کے بقاء کا ضامن ہوتا ہے۔ مقصد وجود پورا نہ کرنے والی چیز اگر زندہ رہے یا موجود بھی وہ ردی ہوجاتی ہے۔ یہ مقصد زندگی جو جن وانس کو ناموس فطرت سے مربوط کرتا ہے وہ کیا ہے ؟ یہ عبادت اللہ کی بندگی یعنی ایک بندہ ہوگا اور ایک اس کا رب ہوگا۔ بندہ بندگی کرے گا اور اس کا رب معبود ہوگا اور بندے کی پوری زندگی کو اس مقصد کے مطابق استوار ہونا ضروری ہے۔ گویا عبد نے معبود کی مکمل بندگی کرنی ہے۔ یہاں آکر پھر اس عظیم حقیقت کا دوسرا پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ بندگی سے مراد پوری زندگی میں بندگی ہے اور بندگی سے مراد صرف مراسم عبودیت یا پرستش کے طریقے نہیں ہیں بلکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے کیونکہ جن اور انسان اپنی پوری زندگی رات اور دن صرف عبادت میں نہیں گزارتے۔ اللہ نے لوگوں کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ رات اور دن بندگی اور پرستش کریں بلکہ اللہ نے ان کو مختلف قسم کی زندگی گزارنے کا مکلف بنایا ہے۔ جنوں کی سرگرمیوں کا تو ہمیں علم نہیں ہے لیکن انسانوں کی سرگرمیوں کا ہمیں علم ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کی سکیم بتائی ہے۔ واذقال ........ خلیفة۔” جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں انہیں میں خلیفہ بنانے والا ہوں “ لہٰذا زمین میں فریضہ خلافت ادا کرنا بھی انسان کی ذمہ داری ہے اور خلافت کی ذمہ داری میں مختلف قسم کی سرگرمیاں شامل ہیں یعنی زمین کی قوتوں میں تصرف کرنا ، اس کے اندر پوشیدہ ذخائر کو تلاش کرکے انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کرنا ، زمین کے اوپر انسانی زندگی کو ترقی دینا ، اس طرح خلافت کی ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوں وہ اللہ کی شریعت قائم کرلیں اور جس طرح کائنات میں اللہ کی مرضی چلتی ہے اسی طرح انسان کی اختیاری زندگی میں بھی اللہ کی مرضی کو نافذ کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فعل عبادت جو انسان کا مقصد زندگی ہے وہ زیادہ وسیع اور جامع مفہوم رکھتا ہے اور اس سے مراد صرف مراسم عبودیت نہیں ہیں اور زمین پر اللہ کی خلافت کے فرائض سرانجام دینا بھی عبادت میں شامل ہے لہٰذا اسلامی عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ١۔ پہلا یہ کہ اللہ کی بندگی کا مفہوم ذہن میں پوری طرح بیٹھ جائے۔ یہ شعوری اقرار کہ ایک بندہ ہے جو بندگی کرتا ہے اور ایک رب ہے جس کی بندگی کی جاتی ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک طرف سے بندگی اور غلامی ہے اور دوسری جانب آقا و خالق ہے۔ ادھر عبدادھر معبود ہے۔ رب واحد ہے اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں اور اس کے سوا جس قدر مخلوق ہے وہ سب کے سب عابد اور غلام ہیں۔ ٢۔ دوسرا پہلو اس حقیقت عظمیٰ کا یہ ہے کہ انسان اپنی ہر قلبی حرکت اور توجہ اور اپنی جسمانی حرکت اور اس کا رخ زندگی کے ہر موڑ میں اللہ کی طرف پھیر دے۔ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اللہ کے سوا ہر شعور کو اپنے دل سے نکال دے اور اللہ کی بندگی کے سوا ہر حرکت اپنی زندگی سے خارج کردے۔ ان دو پہلوؤں سے عبادت کا مفہوم پوری طرح وجود میں آتا ہے اور ہر عمل ایک عبادت بن جاتا ہے اور بندگی کے مراسم اس طرح بن جاتے ہیں جس طرح کوئی اس زمین کی تعمیروترقی میں مصروف ہو اور پھر زمین کی تعمیروترقی کا کام جہاد فی سبیل اللہ بن جائے گا اور جہاد فی سبیل اللہ یوں ہوتا ہے جس طرح ایک انسان مشکلات میں صبر کرے۔ (یعنی زندگی کی ہر حرکت اور ہر کام عبادت بن جاتا ہے۔ ) اور یہ تمام کام وہ مقصد پورا کررہے ہوں گے جس کے لئے اللہ نے جن وانس کو پیدا کیا ہے اور جس مقصد کو پوری کائنات پورا کررہی ہے۔ جب یہ نظریہ اور عقیدہ کسی ذہن میں بیٹھ جائے تو یہ یقین کرلیتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ اس لئے یہاں آیا ہے کہ زندگی کے اس مختصر حصے میں وہ اس فریضہ کو ادا کرے۔ اللہ کی بندگی ، اللہ کی پرستش اور بس اس کے سوا اس کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اسے اس بات پر اطمینان ہو۔ وہ اپنے عمل اور اپنے حالات پر مطمئن ہو کہ اللہ اس سے راضی ہے۔ رہی افرادی جزا تو وہ اللہ کا ایک فضل وکرم ہوگا۔ اگر ایک شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ در حقیقت وہ اللہ کی طرف دوڑ گیا ہے۔ اس نے اس زمین کی گراوٹوں ، اس کی رکاوٹوں اور اس کی تمام دامن گیریوں کو عبور کرکے اور ہر چیز سے اپنے آپ کو چھڑا کر اللہ کی طرف فرار اختیار کرلیا ہے۔ وہ اس آزادی کے ذریعے زمین کی تمام پابندیوں سے آزاد ہوگیا اور اللہ کے لئے وقف ہوگیا اور وہ اس کائنات کے اصل مقام پر پہنچ گیا یعنی اللہ کی بندگی کے مقام پر جس کے لئے اللہ نے اسے پیدا کیا تھا۔ اب یہ اپنے صحیح مقام پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنا مقصد وجود پورا کردیا۔ لہٰذا عبادت الٰہی کے تقاضوں میں سے یہ تقاضا بھی ہے کہ انسان اس زمین کے اوپر فرائض خلافت ارض بھی پورے کرے۔ یہاں اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ اس زمین کے ثمرات سے آخری حد تک استفادہ کرے لیکن اس حال میں کہ وہ ان سے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ رہا ہو اور اس کا دل اس زمین کی دھوکہ دینے والی اور پرکشش چیزوں سے آزاد وبے نیاز ہو۔ یوں کہ اس دنیا کے ثمرات اور لذات وہ صرف اپنی ذات کے لئے نہ سمیٹ رہا ہو بلکہ اسے فریضہ حیات کے طور پر عبادت کے طور پر اور فرار الی اللہ کے طور پر کررہا ہو اور بقدر ضرورت کررہا ہو۔ اس تصور اور اس عظیم حقیقت کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ انسان اعمال کے نتائج پر نظر نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ یہ اعمال کس نیت سے کررہا ہے۔ نتائج چاہے جو ہوں انسان نتائج کا ذمہ دار نہیں ہے۔ وہ تو صرف امتثال امر اور عبادت کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کا اجر اس کے اعمال کے نتائج نہیں بلکہ اس کا اجر یہ ہے کہ وہ بندگی کررہا ہے یا نہیں کررہا۔ اس حقیقت عظمیٰ کو پالینے کے بعد فرائض ، واجبات اور اعمال کے بارے میں انسان کا نقطہ نظر یکلخت بدل جاتا ہے۔ وہ ہر کام میں یہ دیکھتا ہے کہ وہ فریضہ عبادت پورا کررہا ہے یا نہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس نے عبادت کرلی تو اس کا کام ختم ہوگیا۔ اب نتائج چاہے جو ہوں سو ہوں کیونکہ کاموں کے نتائج اس کے فرائض میں داخل نہیں ہوتے نہ اس کی طاقت میں یہ بات ہے کہ وہ نتائج پیدا کرسکے کیونکہ نتائج تو اللہ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق نکلنے ہیں۔ وہ اس کی جدوجہد اس کی نیت اس کا عمل تو تقدیر الٰہی کا ظہور ہوتے ہیں۔ جب انسان اس معنی میں جدوجہد کرے اور نتائج سے ہاتھ جھاڑ لے اور یہ شعور پالے کہ اس نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے اور یہ کہ اس کی جز اللہ پر ہے کیونکہ اس کا کام تو یہ تھا کہ اللہ کے حکم کو مانو۔ لہٰذا اب اس دنیا کے حوالے سے اس کی کوئی آرزو ہی نہیں رہتی۔ وہ اس دنیا میں کسی مقصد کے لئے کسی سے کوئی پر خاش نہیں رکھتا اور نہ اس دنیا کی اغراض میں سے کسی غرض کے لئے اس کے دل میں کوئی چاہت ہوتی ہے۔ اس نے اپنی طاقت کے مطابق جدوجہد کرلی۔ اس دنیا میں اپنی ذمہ داریاں ادا کردیں اور اپنے حصے کے فرائض پورے کردیئے اور اس دنیا کے نتائج اور اغراض سے بھی اپنے ہاتھ جھاڑ لئے اور اپنی جدوجہد کے ثمرات کے حصول کی آرزو بھی دل سے نکال دی کیونکہ جب اس نے بندگی کردی تو اس کا ثمرا سے حاصل ہوگیا۔ رہے ذاتی مفادات تو یہ اس کا مقصد ہی نہ تھا۔ قرآن کریم اس قسم کے احساسات کو غذا دیتا ہے۔ ایسے تصورات کو تقویت دیتا ہے۔ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ رزق کا غم مت کرو ، رزق کی ذمہ دار اللہ پر ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری لی ہوتی ہے۔ اللہ خود بھی کسی رزق اور طعام کا محتاج نہیں ہے۔ اس نے یہ انتظامات بندوں کے لئے تو کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو محتاجوں اور غریبوں پر انفاق کے جو احکام دیتا ہے وہ بھی خود ان کے مفاد میں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ بڑا رزق دینے والا ہے کسی سے رزق کا طالب نہیں یہ پانچ آیات ہیں پہلی آیت میں نہایت واضح طور پر ارشاد فرما دیا کہ ہم نے جنات کو اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں جنہیں عقل اور فہم سے نوازا ہے ان میں فرشتے بھی ہیں اور جنات و انسان بھی ہیں، انسان اور جنات کا اختیار اور اقتدار بھی بہت زیادہ ہے۔ ان دونوں قوموں کے لیے فرمایا کہ ہم نے انہیں صرف اپنی دعبادت کے لیے پیدا کیا ہے، لیکن ان میں عبادت کرنے والے کم ہیں شر اور شرارت اور سرکشی والے زیادہ ہیں حالانکہ انہی کا سب سے زیادہ فرمانبردار عبادت گزار ہونا لازم ہے ایک طرف تو انہیں متوجہ فرما دیا کہ تم صرف میری عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور دوسری طرف نافرمانی کی سزا بھی بتادی سورة ہود میں فرمایا ﴿لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ٠٠١٣﴾ انسانوں اور جنات پر لازم ہے کہ خالق جل مجدہ کی عبادت اختیار کریں۔ فسق اور کفر سے بچیں اور اپنے کو دوزخ میں جانے والا نہ بنائیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” وما خلقت “ یہ ماقبل کی علت ہے یعنی ان کو پند و نصیحت کرنا اور دعوت توحید دینا اس لیے ہے کہ ان کو اور ان کے علاوہ جنوں کو میں نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے تاکہ وہ میری اطاعت کریں اور میری عبادت بجا لائیں اور میری عبادت اور پکار میں کسی کو شریک نہ بنائیں۔ ان کی ٹخلیق میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہی تھا۔ ” ما ارید منہم “ ان کے پیدا کرنے سے میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں تحصیل رزق اور کسب معاش میں ان سے تعاون حاصل کروں جس طرح دنیوی آقاؤں کا دستور ہے میں تو رزق و معیشت سے بےنیاز ہوں (کشاف، بحر) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ میں نے ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا تاکہ وہ اپنی اور میری دوسری مخلوق کے رزق و معاش کا انتظام کریں بلکہ ان کو میں نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور مخلوق کی روزی کا کفیل میں آپ ہوں اس صورت میں یطعمون میں حذف مضاف ہوگا۔ ای یطعموا عبیدی (ابن کثیر، خازن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کیا کریں اور نہیں پیدا کیا میں نے جن وانس کو مگر اس لئے کہ پوجیں مجھ کو۔ مراد عبادت سے تشریعی عبادت ہے جو بالاختیار ہو اور ابتلائو امتحان کے طور پر ہو ملائکہ میں ابتلا نہیں اور دوسری مخلوقات میں اختیار نہیں یہ تشریعی عبادت جو بالاختیار کی جائے جن وانس کے ساتھ خاص ہے اسی لئے ان کی تخصیص فرمائی اور یہی عبادت ان سے مطلوب ہے۔