Surat ut Toor

Surah: 52

Verse: 34

سورة الطور

فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾

Then let them produce a statement like it, if they should be truthful.

اچھا اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی ایک ( ہی ) بات یہ ( بھی ) تو لے آئیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Let them then produce a recitation like unto it if they are truthful. meaning, if they are truthful in their statement that Muhammad has forged this Qur'an and brought it of his own, then let them produce something similar to what he has brought forth, as in this Qur'an! And even if they combine their strength to that of the people of the earth, Jinns and mankind alike, they will never produce something like the Qur'an, or ten Surahs like it, or even one Surah!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کردیں جو نظم، اعجاز، حسن بیان، حقائق کے مسائل میں اس کا مقابلہ کرسکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة ئبقرہ کی آیت نمبر ٢٩ کا حاشیہ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فلیاتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صدقین :) یعنی اگر یہ اسے رسول کا اپنے پاس سے گھڑا ہوا انسانی کلام سمجھتے ہیں تو وہ بھی اس جیسی ایک بات ہی بنا کرلے آئیں، اگر سچے ہیں۔ آخر وہ بھی اہل زبان ہیں، انہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز ہے، پھر انہیں یہ بھی پیش کش ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ساری کائنات کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک بات بنا کرلے آئیں۔ قرآن مجید کے ان مقامات پر بھی نظر ڈال لیں، سورة بقرہ (٢٣) ، یونس (٣٨) ، ہود (١٣) اور بنی اسرائیل (٨٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝ ٣٤ ۭ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو یہ لوگ بھی رسول اکرم پر جو قرآن کریم نازل ہوا ہے اسی طرح کا قرآن بنا لائیں اگر یہ اپنے اس دعوے اور قول میں سچے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤{ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ ۔ } ” تو وہ لے آئیں اس جیسی کوئی ایک بات اگر وہ سچے ہیں۔ “ یہ وہ چیلنج ہے جو قرآن نے بار بار انہیں دیا کہ اگر تم واقعتا یہ سمجھتے ہو کہ یہ کلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا بنایا ہوا ہے تو ایسا ہی کلام تم بھی اس کے مقابلے میں بنا کرلے آئو۔ آخر تمہارے درمیان بڑے بڑے خطبائ ‘ ادباء اور شعراء موجود ہیں ‘ ان سب کو اکٹھا کرو اور کوشش کر کے دیکھ لو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, `Not only is the Qur'an not the word of Muhammad (upon whom be Allah's peace and bessings) but the truth' is that it is not human at all; it is beyond the power of man to compose and produce it. If you think it is human, you are challenged to produce the like of it, which should also be human. " This challenge had been given not only to the Quraish but to all the disbelievers of the world first of all in this verse. Then it was repeated thrice in Makkah and then finally in Madinah. (Please see Yunus: 38, Hud: 13, Bani Isra'il: 88, Al-Baqarah: 23). But no one could dare meet this challenge of the Qur'an at that time, nor has any one else had so far the ability to compose and produce a man-made work like the Qur'an. Some people because of lack of understanding the real nature of this challenge, say that not to speak of the Qur'an, no one has the power to write prose or compose poetry in the style of another person. Homer, Rumi, Shakespeare, Goethe, Ghalib, ' Tagore, Iqbal, all are unique in their styles: it lies in no one's power to produce poetry like theirs by imitation. Those who give this answer to the challenge of the Qur'an are, in fact, involved in the misunderstanding that the meaning of `Iet them then produce a discourse like it", is a challenge to man to compose and write a book like the Qur'an, in the style of the Qur'an; whereas it dces not imply any resemblance in literary style but it implies this: Bring a book of the same sublimity and quality and rank, not only in Arabic but in any language of the world, that may be regarded as a match for the Qur'an in respect of the characteristics for which the Our'an is a miracle. The following are in brief some of the main characteristics because of which the Qur'an has been a miracle before as it is a miracle today: (1) The Qur'an is the highest and most perfect model of the literature of the language in which it was revealed. No word and no sentence in the entire Book is sub-standard. Whatever theme has been presented in it, has been presented in the most appropriate words and in the most suitable style. One and the same theme has been presented over and over again but every time in a new style avoiding the defect of repetition everywhere. The entire Book, from the beginning to the end, is set in the choicest words, like chiseled and polished gems, that cannot be replaced. The discourses are so impressive that no one who knows the language, even if he is a disbeliever, can help being moved to ecstasies on hearing them. Even after 1,400 years this Book is still the model of Arabic literature and no other Arabic book can approach it in literary excellence not to speak of equaling it, Not only this: this Book has so controlled the Arabic language that even after the passage of 14 centuries the standard of this language's beauty and eloquence is the same that had been set by it; whereas in such long periods languages change out of recognition. No other language of the world has remained in the same state in so far as its spelling and diction, idiom, rules of language and usages are concerned. But it is only the power of the Qur'an that has held the Arabic language in place each idiom of it is still in use in Arabic literature; its literature is still the standard literature of Arabic; and in writing and speech still the same language is regarded as good Arabic that had been used in the Qur'an 1,400 years ago. Is there any man-made book in any language of the world that bears the same characteristics? (2) This is the one single Book in the world, which has so extensively and so universally influenced mankind's thoughts, morals, civilization and way of life as has no precedent in history. In the first instance, its impact changed one nation; then that nation rose and changed a major part of the world. No other Book has proved to be so revolutionary. This Book has not remained confined to writing on paper but in-the practical world its each word has formed and molded ideas and thoughts and built up a lasting civilization. Its influence has continued being operative for 1,400 years and its circle of influence and impact is still expanding every day. (3) The theme that this Book discusses is the most extensive theme which comprehends the whole Universe, from eternity to eternity. It deals with the reality of the Universe, its beginning and end, its system and law. It tells as to who is the Creator and Controller and Disposer of this Universe, what are His attributes, what are His powers, and what is that essence and basis on which He has established this entir e system of the world. It specifies man's position and his place which he cannot change. It tells what is the right and correct way of thought and action for man in view of this place and position, which corresponds to the reality, and what are the wrong ways which clash with the reality. Then to prove why the right way is right and the wrong ways wrong, it presents countless arguments from various phenomena of the earth and heavens, from different aspects of the system of the Universe, from man's own self and existence and from man's own history. Besides, it also tells how and for what reasons man adopts the wrong ways, by what means he can find out the right Way, which has always been one and shall remain one, and how he has been guided to it in every age. It does not merely point to the Right Way but presents a plan of the complete system of life for following that way, which contains a detailed and systematic code concerning beliefs, morals, purification of self, worship, social life, civilization, economy, politics, justice, law and every other espect of human life. Furthermore, it also tells in full detail what are the results of following this Right Way and of adopting the wrong ways in this world and what consequences of this will appear in the Next World after the present system of the world has come to an end. It depicts fully the coming to an end of the present world and of the establishment of the New World; it gives every detail of the process of change; it portrays the Next World and describes fully how man will find a totally new life there, how his deeds from worldly life will be subjected to accountability, what things he will be questioned about, how his complete record, which lie will not be able to deny or dispute, will be placed before him, what strong evidence will be produced in proof thereof, why the culprits will be punished and the righteous rewarded, what rewards will be bestowed on the righteous and in what forms will the culprits suffer the evil consequences of their misdeeds. The way this vast theme has been dealt with in this Book is not of the nature of some conclusions that its Author might have reached from some syllogistic premises but its nature is that its Author has the direct knowledge of the Reality. He sees everything happening from eternity to eternity. All the realities are manifest for Him and the entire Universe is like an open book before Him. He sees the entire life of mankind, from its origin to its end, even beyond the present life into the second life simultaneously, and He is guiding man not on the basis of conjecture and speculation but on the basis of knowledge. Not a single truth that He presents as knowledge has been proved to be wrong so far. The concept of the Universe and Man that He presents fully explains all the phenomena and events and can become the basis of research in every branch of knowledge. His Word contains the answers to all the ultimate problems of philosophy and natural and social sciences, and they are so coherent and consistent logically that a perfect, consistent and comprehensive system of thought can be built on their basis. Then from the practical aspect the guidance that He has given to man about various spheres of life is not only highly rational and pure but countless men have been living according to it in actual fact in different parts of the earth for 1,400 years and have found it by experience to be the only valid way. Is there any manmade book of this unique quality present in the world, or has ever been, which may be produced to match this Book ? (4) This Book was not composed and written all at once and presenud before the world, but a reformatory movement was started with some basic and initial instructions and then for 23 years as the movement passed through different stages of its development its parts were presenud by the tongue of the leader, sometimes as lengthy discourses and sometimes as brief sentences, as the conditions and requirements of the occasion demanded. Then, when the Mission was brought to completion, these parts that had been issued at different times were compiled in the form of a compleu Book which has been known by the name of the "Qur'an" . The leader of the movement states that these discourses and sentences are not his original work but were sent down to him by the Lob of all Creation. If a person asserts that they arc the original work of the leader himself, he should produce a precedent from history to prove his contention. He should show whether it is possible that the speeches made and the instructions given by a man at different times while leading a powerful collective movement for years continuously by himself in different capacities, sometimes as a preacher and teacher of morals, sometimes as a leader of an oppressed class, sometimes as the ruler of a state, sometimes as the commander of a fighting army, sometimes as a victor. sometime as a law-giver and legislator, could form a compleu and consistent and comprehensive system of thought and action, which should be free from every contradiction and inconsistency, which should appear to be dominated by the same central idea and pattern of thought, which should show that the leader has been building up a universal system of belief and action on the basis of the same foundation of his message with which he had started his work, and which should be a system each clement and part of which is in perfect harmony and consistency with the other parts, Then the one who reads this collection of the discourses with a discerning eye cannot help realizing that the founder of the movement at the outset had a full plan of the movement in view till the last stage, and it never happened that a new idea might have struck him at some later stage, which was unknown to him before, or which he had to change later. If ever there has been a man of this caliber, his name should be made known to the world. (5) The leader who had been made to give these discourses and speak these sentences did not suddenly emerge from a hidden place to present these before the people nor would disappear after he had done so. He had lived his life in full view of society before he started his movement as well as continued to live in the same society after that till his last breath. The people were well aware of the language and style of his conversation and speech. Hadith still presents a major part of it and by going through it the people who know Arabic can easily find out even today what was the leader's own style of speech and conversation. His contemporaries who spoke his language felt then and those who know Arabic feel today that the language and the style of this Book is very different from the language and style of that leader. So much so that whenever in the midst of a sermon delivered by the leader there occurs a sentence or two of this Book, the distinction between the two becomes all too obvious. The question is: Has a man in the world ever had the power, or can he have the capability, that he should go on conversing in two absolutely different styles consistently for years at a stretch and it should never become known that the two separate styles arc, in fact, of one and the same person? It is possible that one may succeed in such affectation temporarily but it is not " at all possible that for twenty-three years continuously a person should have a different diction and style when he recites the Revelations from Allah and a wholly different diction and style when he speaks in his personal capacity. (6) The leader while leading and guiding the movement met with different sorts of conditions. Sometimes he became the target of ridicule, humiliation and severe persecution of his fellow-countrymen and the people of his own tribe and clan; sometimes his companions were so harshly treated that they were compelled to emigrate from the country; sometimes the enemies plotted against his life; sometimes he himself had to leave his home and city; sometimes he had to pass through extreme poverty and starvation; sometimes he had to fight wars successively in which he suffered defeats as well as won victories; sometimes he overcame the enemies and the same enemies who had persecuted him, came before him humbled: sometimes he achieved such power which few people in the world have been able to achieve. Under all such conditions a person's feelings obviously cannot remain the same. When on these different occasions the leader spoke in his personal capacity, his words, and speeches carried the clear impression of his personal feelings. which naturally arise in the heart of a man on such occasions. But the discourses that were heard from him as Allah's Revelations in these different conditions, are wholly devoid of human feelings. At no place can even an acute observer and critic point out the play of human feelings in them. The vast and comprehensive knowledge that is contained in this Book, is not possessed even by any of the distinguished learned people of this 20th century, not to speak of the people of Arabia and Rome and Greece and Iran of those days. The condition today is that after a man has spent his whole life-time studying a branch of philosophy or a natural or social science, he comes to know what ultimate problems of his field of study are, but when he studies the Qur'an seriously he comes to know that this Book contains a clear answer to those problems. This thing is not confined to any one branch of knowledge but holds good in respect of all those sciences which have anything to do with the Universe and Man. How can one believe that 1,400. years ago an un-lettered man in the Arabian desert possessed such deep insight into every branch of knowledge, and he had thought over every basic problem and thought out an absolute and final answer to it? Although there are several other aspects also of the Qur'an's being a miracle, if a man ponders over these few aspects only he will realize that the Qur'an's being a miracle is far more evident today than it was at the time when it was revealed and if Allah so wills, it will go on becoming more and more evident and manifest as time passes till the Day of Resurrection.

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :27 یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے انسانی کلام ہی نہیں ہے اور یہ بات انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسا کلام تصنیف کر سکے ۔ اگر تم اسے انسانی کلام کہتے ہو تو اس پائے کا کوئی کلام لا کر دکھاؤ جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو ۔ یہ چیلنج نہ صرف قریش کو ، بلکہ تمام دنیا کے منکرین کو سب سے پہلے اس آیت میں دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تین مرتبہ مکہ معظمہ میں اور پھر آخری بار مدینہ منورہ میں اسے دہرایا گیا ( ملاحظہ ہو یونس ، آیت 38 ۔ ہود ، 13 ، بنی اسرائیل ، 88 ۔ البقرہ ، 23 ) ۔ مگر کوئی اس کا جواب دینے کی نہ اس وقت ہمت کر سکا نہ اس کے بعد آج تک کسی کی یہ جرأت ہوئی کہ قرآن کے مقابلہ میں کسی انسانی تصنیف کو لے آئے ۔ بعض لوگ اس چیلنج کی حقیقی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ایک قرآن ہی کیا ، کسی شخص کے اسٹائل میں بھی دوسرا کوئی شخص نثر یا نظم لکھنے پر قادر نہیں ہوتا ۔ ہومر ، رومی ، شکسپیئر ، گوئٹے ، غالب ، ٹیگور ، اقبال ، سب ہی اس لحاظ سے بے مثل ہیں کہ ان کی نقل اتار کر انہی جیسا کلام بنا لانا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ قرآن کے چیلنج کا یہ جواب دینے والے دراصل اس غلط فہمی میں ہیں کہ فَلْیَأَتوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہ کا مطلب قرآن کے اسٹائل میں اس جیسی کوئی کتاب لکھ دینا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد سٹائل میں مماثلت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس پائے اور اس شان اور اس مرتبے کی کوئی کتاب لے آؤ جو صرف عربی ہی میں نہیں ، دنیا کی کسی زبان میں ان خصوصیات کے لحاظ سے قرآن پہلے بھی معجزہ تھا اور آج بھی معجزہ ہے ۔ ( 1 ) ۔ جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے ۔ جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے موزوں ترین الفاظ اور مناسب ترین انداز بیان میں ادا کیا گیا ہے ۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا ہے اور ہر مرتبہ پیرایہ بیان نیا ہے جس سے تکرار کی بد نمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی ۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں ۔ کلام اتنا مؤثر ہے کہ کوئی زبان داں آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتا ، حتیٰ کہ منکر اور مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ۔ 14 سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار ، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدر و قیمت میں نہیں پہنچتی ۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ 14 صدیاں گزر جانے پر بھی اس زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا ، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املاء ، انشاء ، محاورے ، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو ۔ لیکن یہ قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا ۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے ۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے ۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے ، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو 14 سو برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی ۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اس شان کی ہے ؟ ( 2 ) ۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار ، اخلاق ، تہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت ، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے کہ دنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا ۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو ۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور ایک مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے ، 14 سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے ، اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جا رہے ہیں ۔ ( 3 ) ۔ جس موضوع سے یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ ایک وسیع ترین موضوع ہے جس کا دائرہ ازل سے ابد تک پوری کائنات پر حاوی ہے ۔ وہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر کلام کرتی ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق اور ناظم و مدبر کون ہے ، کیا اس کی صفات ہیں ، کیا اس کے اختیارات ہیں ، اور وہ حقیقت نفس الامری کیا ہے جس پر اس نے یہ پورا نظام عالم قائم کیا ہے ۔ وہ اس جہان میں انسان کی حیثیت اور اس کا مقام ٹھیک ٹھیک مشخّص کر کے بتاتی ہے کہ یہ اس کا فطری مقام اور یہ اس کی پیدائشی حیثیت ہے جسے بدل دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مقام اور اس حیثیت کے لحاظ سے انسان کے لیے فکر و عمل کا صحیح راستہ کیا ہے جو حقیقت سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور غلط راستے کیا ہیں جو حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں ۔ صحیح راستے کے صحیح ہونے اور غلط راستوں کے غلط ہونے پر وہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز سے ، نظام کائنات کے ایک ایک گوشے سے ، انسان کے اپنے نفس اور اس کے وجود سے اور انسان کی اپنی تاریخ سے بے شمار دلائل پیش کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان غلط راستوں پر کیسے اور کن اسباب سے پڑتا رہا ہے ، اور صحیح راستہ جو ہمیشہ سے ایک ہی تھا اور ایک ہی رہے گا ، کس ذریعہ سے اس کو معلوم ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر زمانے میں اس کو بتایا جاتا رہا ہے ۔ وہ صحیح راستے کی صرف نشان دہی کر کے نہیں رہ جاتی بلکہ اس راستے پر چلنے کے لیے ایک پورے نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد ، اخلاق ، تزکیہ نفس ، عبادات ، معاشرت ، تہذیب ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، عدالت قانون ، غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے ۔ مزید براں وہ پوری تفصیل کے ساتھ بتاتی ہے کہ اس صحیح راستے کی پیروی کرنے اور ان غلط راستوں پر چلنے کے کیا نتائج اس دنیا میں ہیں اور کیا نتائج دنیا کا موجودہ نظام ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے عالم میں رونما ہونے والے ہیں ۔ وہ اس دنیا کے ختم ہونے اور دوسرا عالم برپا ہونے کی نہایت مفصل کیفیت بیان کرتی ہے ، اس تغیر کے تمام مراحل ایک ایک کر کے بتاتی ہے ، دوسرے عالم کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے ، اور پھر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ وہاں انسان کیسے ایک دوسری زندگی پائے گا ، کس طرح اس کی دنیوی زندگی کے اعمال کا محاسبہ ہو گا ، کن امور کی اس سے باز پرس ہو گی ، کیسی ناقابل انکار صورت میں اس کا پورا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا ، کیسی زبردست شہادتیں اس کے ثبوت میں پیش کی جائیں گی ، جزا اور سزا پانے والے کیوں جزا اور سزا پائیں گے ، جزا پانے والوں کو کیسے انعامات ملیں گے اور سزا پانے والے کس کس شکل میں اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گے ۔ اس وسیع مضمون پر جو کلام اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اس حیثیت سے نہیں ہے کہ اس کا مصنف کچھ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر چند قیاسات کی ایک عمارت تعمیر کر رہا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس کا مصنف حقیقت کا براہ راست علم رکھتا ہے ، اس کی نگاہ ازل سے ابد تک سب کچھ دیکھ رہی ہے ، تمام حقائق اس پر عیاں ہیں ، کائنات پوری کی پوری اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ، نوع انسانی کے آغاز سے اس کے خاتمہ تک ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے بعد اس کی دوسری زندگی تک بھی وہ اس کو بیک نظر دیکھ رہا ہے ، اور قیاس و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر انسان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ جو تصور کائنات و انسان وہ پیش کرتا ہے وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے اور ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل ، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے ۔ پھر عملی حیثیت سے جو رہنمائی اس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق انسان کو دی ہے وہ صرف انتہائی معقول اور انتہائی پاکیزہ ہی نہیں ہے بلکہ 14 سو سال سے روئے زمین کے مختلف گوشوں میں بے شمار انسان بالفعل اس کی پیروی کر رہے ہیں اور تجربے سے اس کو بہترین ثابت کیا ہے ۔ کیا اس شان کی کوئی انسانی تصنیف دنیا میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہے جسے اس کتاب کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو؟ ( 4 ) ۔ یہ کتاب پوری کی پوری بیک وقت لکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر دی گئی تھی بلکہ چند ابتدا ابتدائی ہدایات کے ساتھ ایک تحریک اصلاح کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کے بعد 23 سال تک وہ تحریک جن جن مرحلوں سے گزرتی رہی ان کے حالات اور ان کی ضروریات کے مطابق اس کے اجزاء اس تحریک کے رہنما کی زبان سے کبھی طویل خطبوں اور کبھی مختصر جملوں کی شکل میں ادا ہوتے رہے ۔ پھر اس مشن کی تکمیل پر مختلف اوقات میں صادر ہونے والے یہ اجزاء اس مکمل کتاب کی صورت میں مرتب ہو کر دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے جسے قرآن کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ تحریک کے رہنما کا بیان ہے کہ یہ خطبے اور جملے اس کے طبعزاد نہیں ہیں بلکہ خداوند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں خود اس رہنما کے طبعزاد قرار دیتا ہے تو وہ دنیا کی پوری تاریخ سے کوئی نظیر ایسی پیش کرے کہ کسی انسان نے سالہا سال تک مسلسل ایک زبردست اجتماعی تحریک کی بطور خود رہنمائی کرتے ہوئے کبھی ایک واعظ اور معلم اخلاق کی حیثیت سے ، کبھی ایک مظلوم جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ، کبھی ایک مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے ، کبھی ایک برسر جنگ فوج کے قائد کی حیثیت سے ، کبھی ایک فاتح کی حیثیت سے ، کبھی ایک شارع اور مقنن کی حیثیت سے ، غراض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سی مختلف حیثیت سے حیثیتوں سے جو مختلف تقریریں کی ہوں یا باتیں کہی ہوں وہ جمع ہو کر ایک مکمل ، مربوط اور جامع نظام فکر و عمل بنا دیں ، ان میں کہیں کوئی تناقص اور تضاد نہ پایا جائے ، ان میں ابتدا سے انتہا تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ہی مرکزی تخیل اور سلسلہ فکر کار فرما نظر آئے ، اس نے اول روز سے اپنی دعوت کی جو بنیاد بیان کی ہو آخری دن تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ایسا ہمہ گیر نظام بناتا چلا جائے جس کا ہر جز دوسرے اجزاء سے کامل مطابقت رکھتا ہے ، اور اس مجموعہ کو پڑھنے والا کوئی صاحب بصیرت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ تحریک کا آغاز کرتے وقت اس کے متحرک کے سامنے آخری مرحلے تک کو پورا نقشہ موجود تھا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بیچ کے کسی مقام پر اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آیا ہو جو پہلے اس پر منکشف نہ تھا یا جسے بعد میں اس کو بدلنا پڑا ۔ اس شان کا کوئی انسان اگر کبھی گزرا ہو جس نے اپنے ذہن کی خلاقی کا یہ کمال دکھایا ہو تو اس کی نشان دہی کی جائے ۔ ( 5 ) ۔ جس رہنما کی زبان پر یہ خطبے اور جملے جاری ہوئے تھے وہ یکایک کسی گوشے سے نکل کر صرف ان کو سنانے کے لیے نہیں آ جاتا تھا اور انہیں سنانے کے بعد کہیں چلا نہیں جاتا تھا ۔ وہ اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر چکا تھا اور اس کے بعد بھی وہ زندگی کی آخری ساعت تک ہر وقت اسی معاشرے میں رہتا تھا ۔ اس کی گفتگو اور تقریروں کی زبان اور طرز بیان سے لوگ بخوبی آشنا تھے ۔ احادیث میں ان کا ایک بڑا حصہ اب بھی محفوظ ہے جسے بعد کے عربی داں لوگ پڑھ کر خود بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اس رہنما کا اپنا طرز کلام کیا تھا ۔ اس کے ہم زبان لوگ اس وقت بھی صاف محسوس کرتے تھے اور آج بھی عربی زبان کے جاننے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کتاب کی زبان اور اس کا اسٹائل اس رہنما کی زبان اور اس کے اسٹائل سے بہت مختلف ہے ، حتّیٰ کہ جہاں اس کے کسی خطبے کے بیچ میں اس کتاب کی کوئی عبارت آ جاتی ہے وہاں دونوں کی زبان کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سالہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل دراصل ایک ہی شخص کے ہیں ؟ عارضی اور وقتی طور پر اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا تو ممکن ہے ۔ لیکن مسلسل 23 سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص جب خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر کلام کرے تو اس کی زبان اور اسٹائل کچھ ہو ، اور جب خود اپنی طرف سے گفتگو یا تقریر کرے تو اس کی زبان اور اس کا اسٹائل بالکل ہی کچھ اور ہو ۔ ( 6 ) ۔ وہ رہنما اس تحریک کی قیادت کے دوران میں مختلف حالات سے دو چار ہوتا رہا ۔ کبھی برسوں وہ اپنے ہم وطنوں اور اپنے قبیلے والوں کی تضحیک ، توہین اور سخت ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا یہ کبھی اس کے ساتھیوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئے ۔ کبھی دشمنوں نے اس کے قتل کی سازشیں کیں ۔ کبھی خود اسے اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی ۔ کبھی اس کو انتہائی حسرت اور فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ کبھی اسے پیہم لڑائیوں سے سابقہ پیش آیا جن میں شکست اور فتح ، دونوں ہی ہوتی رہیں ۔ کبھی وہ دشمنوں پر غالب آیا اور وہی دشمن جنہوں نے اس پر ظلم توڑے تھے ، اس کے سامنے سرنگوں نظر آئے ۔ کبھی اسے وہ اقتدار نصیب ہوا جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ ان تمام حالات میں انسان کے جذبات ظاہر ہے کہ یکساں نہیں رہ سکتے ۔ اس رہنما نے ان مختلف مواقع پر خود اپنی ذاتی حیثیت میں جب کبھی کلام کیا ، اس میں ان جذبات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو ایسے مواقع پر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر ان مختلف حالات میں جو کلام اس کی زبان سے سنا گیا وہ انسانی جذبات سے بالکل خالی ہے ۔ کسی ایک مقام پر بھی کوئی بڑے سے بڑا نقاد انگلی رکھ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ یہاں انسانی جذبات کار فرما نظر آتے ہیں ۔ ( 7 ) ۔ جو وسیع اور جامع علم اس کتاب میں پایا جاتا ہے وہ اس زمانے کے اہل عرب اور اہل روم و یونان و ایران تو درکنار اس بیسویں صدی کے اکابر اہل علم میں سے بھی کسی کے پاس نہیں ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتا چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں ، اور پھر جب وہ غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان مسائل کا ایک واضح جواب موجود ہے ۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ۔ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ 14 سو برس پہلے ریگستان عرب میں ایک اُمی کو علم کے ہر گوشے پر اتنی وسیع نظر حاصل تھی اور اس نے ہر بنیادی مسئلے پو غور و خوض کر کے اس کا ایک صاف اور قطعی جواب سوچ لیا تھا ؟ اعجاز قرآن کے اگرچہ اور بھی متعدد وجوہ ہیں ، لیکن صرف ان چند وجوہ ہی پر اگر آدمی غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا معجزہ ہونا جتنا نزول قرآن کے زمانے میں واضح تھا اس سے بدرجہا زیادہ آج واضح ہے اور انشاءاللہ قیامت تک یہ واضح تر ہوتا چلا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یہ چیلنج قرآن کریم نے کئی مقامات پر دیا ہے کہ اگر تم قرآن کریم کو گھڑا ہوا کلام کہتے ہو، تو تم لوگوں میں بڑے بڑے ادیب، شاعر اور فصیح و بلیغ لوگ موجود ہیں، وہ سب مل کر قرآن کریم جیسا کلام بنا کرلے آئیں۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ : 23، سورۃ یونس : 38، سورۃ ہود : 13 اور سورۃ بنی اسرائیل : 88) لیکن اس کھلے چیلنج کو قبول کرنے کے لیے ان میں سے کوئی آگے نہیں بڑھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(52:34) فلیاتوا بحدیث مثلہ جملہ جواب شرط ہے شرط سے قبل لایا گیا ہے ف جواب شرط کے لئے ہے۔ یاتوا مضارع جمع مذکر غائب اثیان (باب ضرب) مصدر۔ پس وہ لے آئیں۔ بحدیث مثلہ اس جیسا کلام ، ہ کا مرجع قرآن ہے۔ ان کانوا صدقین : صدقین ، صدق سے اسم فاعل جمع مذکر، بحالت نصب بوجہ خبر کان۔ سچے۔ سچ بولنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی اگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تصنیف کیا ہوا کلام ہے تو اپنی اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس جیسا کلام تصنیف کر کے لے آئیں۔ حالانکہ ان میں بڑے بڑے ادیب شاعر اور فلسفی موجود ہیں جنہیں اپنی زبان دانی اور فلسفیانہ موشگافیوں پر ناز ہے ؟ ’ مشرکین مکہ کو یہ چیلنج اس سے پہلے کئی مکئی سورتوں میں بھی دیا جا چکا ہے، لیکن کسی موقع پر انہیں اس کا جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ قرآن کے خدائی کلام ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلیاتوا ........ صدقین (٢٥ : ٤٣) ” اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا کلام بنالائیں “ قرآن کریم میں اس چیلنج کو بار بار دہرایا گیا ہے اور منکر اس کو قبول کرنے سے عاجز رہے ہیں بلکہ نہایت بےبس رہے ہیں اور اسی طرح قیامت تک لوگ اس سے عاجز رہیں گے۔ قرآن کریم میں ایک راز ہے جو شخص بھی اس کی آیات کو پہلی بار پڑھتا ہے وہ ان کے اندر ہر خصوصیت پاتا ہے۔ چاہے اس کو اس کے اعجاز کی وجوہات معلم ہوں یا نہ ہوں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کی عبارت میں ایک خاص قوت ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معانی اور تعبیرات کے علاوہ بھی قرآن کریم میں ایک خاص چیز ہے ۔ قرآن مجید کو سنتے ہی اس کی یہ خصوصیت ذہن پر اثر کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے واضح طور پر پاتے ہیں اور بعض اسے ذرا اجمال اور غموض کے ساتھ لیکن ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت کیا ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے ؟ اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔ یا یہ اثر قرآن کے معانی کا ہے یا قرآن مجید کی صورتوں ومناظر کا ہے یا یہ اثر کلامی ہے کہ انہی لغات سے بنائے ہوئے دوسرے کلاموں اور قرآن میں یہ فرق ہے یا یہ سب امور مجتمع طور پر اعجاز فراہم کرتے ہیں یا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو ان سے بھی ماوراء ہے۔ یہ ایک راز ہے جو ہر قرآنی آیت میں پوشیدہ ہے جو بھی قرآنی آیات پڑھتا ہے وہ یہ راز محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد ہر کوئی اپنے ظن کے مطابق اس کے اسرار و رموز تلاش کرتا ہے اور یہ تدبر اور غور وفکر سے معلوم ہوتے ہیں اور پورے قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً یہ اعجاز اس کامل اور صحیح تصور کے اعتبار سے بھی ہے جو قرآن عقل وخرد کو دیتا ہے۔ وجود انسانی کی حقیقت کا تصور اس کائنات میں وجود کا تصور اور اس حقیقت ” اولی “ کا تصور جس سے تمام حقائق پھوٹتے ہیں یعنی اللہ کا تصور۔ پھر اس کے طریقے اور اسلوب میں بھی اعجاز ہے جس کے مطابق قرآن مجید انسان کے تصورات کی تعمیر کرتا ہے۔ قرآن کریم انسان کو فطری انداز سے خطاب کرتا ہے اور اس کا انداز تخاطب بھی مخصوص ہے۔ تمام زبانوں کے انسانی اسالیب کلام میں یہ انداز نہیں ہے۔ قرآن کریم انسانی دل اور عقل وخرد کو ہر پہلو سے پھیرتا ہے۔ اس کے اندر صالح افکار ہر جانب سے داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ انسان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتا ہے جس طرح ایک پوری طرح خبردار ذات کسی کے ساتھ کرتی ہے۔ قرآن کریم جو ہدایت دیتا ہے ان ہدایات کے اندر ایک زبردست جامعیت ہے۔ توازن ہے اور مکمل ہم آہنگی ہے اور یہ پورا کلام ایک ہی سطح اور ایک ہی معیار کا ہے۔ انسانی کلاموں میں یہ بات ہرگز نہیں پائی جاتی۔ انسانی کلام ایک حال پر نہیں ہوتے ایک سطح پر نہیں ٹھہرتے اور ہر پہلو سے معیار کو قائم نہیں رکھ سکتے اور توازن قائم کرنا تو ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاملے میں کوئی زیادتی نہ ہو کوئی نقص نہ ہو۔ کوئی افراد وتفریط نہ ہو اور مکمل ہم آہنگی ہو اور کلام میں کسی جگہ تعارض یا تضاد نہ ہو نہ اصول میں نہ فروع میں۔ یہ ظاہری امور جن کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خفیہ معجزانہ اثر جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اس بات کے دلائل ہیں کہ یہ معجزانہ کلام ہے اور یہ چیزیں مل کر قرآن کو صفت اعجاز دیتی ہیں۔ قرآن کی صفت اعجاز وہ چیز ہے جس میں کوئی شخص اب کلام نہیں کرسکتا جس کے حواس بحال ہوں جو محترم ہو جو حقیقت پسند ہو اور جو قرآن کا مطالعہ قوت ، گہرائی اور وضاحت سے کرتا ہو اور قرآن مجید کا مطالعہ قلب سلیم کے ساتھ کرتا ہو۔ فلیاتوا ........ صدقین (٢٥ : ٤٣) ” اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اس شان کا ایک کلام بنا لائیں۔ “ دوسرا سوال خود ان کے وجود کی حقیقت کے بارے میں ہے۔ خود ان کے اپنے وجود کی حقیقت تو ایک حقیقت ہے جس سے وہ انکار نہیں کرسکتے کہ وہ ہیں اور قرآن کے بغیر بھی اگر وہ عقلمند ہیں تو وہ اس کی کوئی تفسیر کریں گے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ایک خالق ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اس کی تعبیر ہم اللہ سے کرتے ہیں۔ وہ بذاتہ موجود ہے اور یہ انسان مخلوق ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اچھا اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اس قرآن کی مثل کوئی کلام لے آئیں۔ یعنی اگر ایسا معجزہ اور اعجاز نماکلام بشر ککا ہوسکتا ہے جس کی بنا پر انہوں نے بنانے کا الزام گھڑا ہے تو یہ بھی آخر بشر ہیں پھر ی ایسا کلام بنالائیں اگر یہ اس بات میں سچے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنا لیا ہے تو یہ یکوں نہیں بنا لاتے یہاں تک رسالت کی بحث تھی اور منکرین رسالت کا رد تھا آگے توحید کے مضامین مذکور ہیں۔