Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 10
سورة النجم
فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾
And he revealed to His Servant what he revealed.
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچا ئی ۔
فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾
And he revealed to His Servant what he revealed.
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچا ئی ۔
So he revealed to His servant whatever He revealed. means, Jibril conveyed to Allah's servant Muhammad whatever he conveyed. Or, the meaning here could be: Allah revealed to His servant Muhammad whatever He revealed through Jibril. Both meanings are correct. Sa`id bin Jubayr said about Allah's statement, فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (So He revealed to His servant whatever He revealed. "Allah revealed to him, أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً Did He not find you an orphan. (93:6), and, وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ And have We not raised high your fame, (94:4)" Someone else said, "Allah revealed to the Prophet that the Prophets will not enter Paradise until he enters it first, and the nations will not enter it until his Ummah enters it first." Did the Prophet see His Lord during the Night of Isra Allah said next, مَا كَذَبَ الْفُوَادُ مَا رَأَى
[٦] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سیدنا جبرئیل کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ( فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ۚ ) 53 ۔ النجم :9) سے یہ مراد ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل کو (ان کی اصلی شکل میں) دیکھا ان کے چھ سو بازو (پر) تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور یہ وحی غالباً سورة مدثر کی وہی آیات ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر جبرئیل کے واسطہ سے کی تھی۔
(١) فاوحی الی عبدہ ما اوحی : ” فاوحی “ (پھر اس نے وحی کی) کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے (جبریل (علیہ السلام) کے واسطے سے) اپنے بندے کی طرف وحی کی اور ” فاوحی کی ضمیر جبریل علیہ السم ک طرف بھی جاسکتی ہے، مگر اس صورت میں ” عبدہ “ میں ضمیر غائب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہوگی، کیونکہ ” عبدہ “ سے مراد ” اللہ کے بندے “ کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا ، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نہیں آسمان و زمین کا جو شخص اللہ کا بندہ ہے، جبریل یا کسی اور کا کوئی بندہ نہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ” پھر جبریل نے اس اللہ کے بندے کی طرف وحی کی ۔ “ (٢) ” ما اوحی “ (جو وحی کی) کو مبہم رکھ کر اس کی عظمت شان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورة طہ کی آیت (٧٨) (فغشیھم من الیم ماغشیھم) کی تفسیر۔ اس سے پچھلی آیت کے آخری فائدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی میں ” یایھا المدثر “ سے ” والرجز فاھجر “ تک آیات بھی تھیں۔
فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (Thus He [ Allah ] revealed to His slave what He revealed... 53:10) The subject pronoun understood in the past perfect verb awha (He revealed) refers to Allah, and so does the pronoun in ` abdihi (His slave), and the verse means: Allah revealed to His servant Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whatever He revealed through the medium of Jibra&il (علیہ السلام) by attaching him so intimately to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . An Academic Problem and its Solution Here an apparent problem arises which at best can be described as academic, because it does not relate to a real situation. According to an overwhelming consensus of the Mufassirin and Muhaddithin, all the pronouns in the above verses refer to Jibra&il (علیہ السلام) . Likewise, all the pronouns in the sentences from fastawa to فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ fa kana qaba qawsaini aw adna refer to him. The forthcoming verses, according to consensus of the commentators, also speak of Jibra&il (علیہ السلام) . Therefore, referring the intervening pronouns of awha and ` abdihi is contrary to the context and causes intishar-ud-dama&ir (inconsistency of the pronouns). Our honourable mentor Maulana Sayyid Muhammad Anwar Shah Kashmiri (رح) has responded to this problem thus: There is neither any contextual confusion here, nor any pronominal ambiguity. In point of fact, early part of Surah An-Najm in verse [ 4] it was mentioned إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (It is not but revelation revealed [ to him ]...4) &. Now in verse [ 10] أَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (So He [ Allah ] revealed to His servant whatever He revealed.) the same theme is continued, reinforced and consolidated in this way: Obviously, the One who sends down revelation is Allah Ta’ ala and none else. However, there is a medium through whom the revelation is delivered to the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Verse [ 4] may be treated as a preamble to the theme of revelation. Verses [ 5-9] describe the strong qualities and other characteristics of the medium of revelation Jibra&il Ali. Verse [ 10] is thus the complement or epilogue to the preamble. In this verse there cannot be intishar-ud-dama&ir because the antecedents of the pronouns in verse 10 cannot possibly be anyone but Allah. Thus the antecedent of these pronouns was determined from the very outset. In the phrase maawha &whatever He revealed& is obscure or vague. Ma [ whatever ] is sometimes used to denote honour, surprise, magnificence, grandeur, splendor, opulence or for emphasis. Here it is employed to indicate &the majestic or glorious status of revelation&. It is learnt from a Hadith recorded in chapter [ 1] of the Sahih of Bukhari, that the revelation which was sent down at this time was the initial verses of Surah Al-Muddaththir [ Chapter 74]. Allah knows best! Thus marked by thematic and structural coherence, the Qur&an confirms that it is an absolutely true and veritable words of Allah. This may be compared to the Muhaddithins& study of Hadith. In order to verify the authenticity of the Traditions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) they trace in full the chains of authorities from themselves [ that is, the last of the authorities ] to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In these verses Allah sets up the chain of authorities: [ 1] Allah is the Muhi, that is, He is the Ultimate Source from where the revelation originates; and [ 2] Jibra&il (علیہ السلام) is the transmitting authority between Allah and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The above verses describe Jibra&il (علیہ السلام) as magnificent in status and mighty in power: This confirms his honesty and integrity as the transmitting authority.
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى، اوحی کی ضمیر فاعل حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور عبدہ کی ضمیر بھی، معنی یہ ہیں کہ جبرئیل امین کو معلم کی حیثیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالکل قریب بھیج کر حق تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل فرمائی۔ ایک علمی اشکال اور اس کا جواب : یہاں جو ظاہری شکل میں ایک علمی اشکال یہ محسوس ہوتا ہے کہ اوپر کی آیات میں ضمیریں جمہور مفسرین و محدثین نے جبرئیل امین کی طرف راجع کی ہیں، فَاسْتَوٰى سے لے کر فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى تک سب ضمیریں جبرئیل ہی کی طرف راجع ہیں اور اگلی آیات میں بھی بقول جمہور مفسرین جبرئیل (علیہ السلام) ہی کا ذکر ہے، تو صرف اس آیت میں اوحی اور عبدہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کرنا نظم و نسق عبارت کے خلاف اور انتشار ضمائر کا موجب ہے۔ اس کا جواب استاد محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ نے یہ دیا ہے کہ نہ یہاں نظم کلام میں کوئی اختلال ہے نہ انتشار ضمائر بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سورة نجم کی شروع آیت میں اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰی کا ذکر فرما کر جس مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اسی کا نہایت منضبط بیان اس طرح کیا گیا کہ وحی بھیجنے والا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں، مگر اس وحی کو پہنچانے میں ایک واسطہ جبرئیل کا تھا، چند آیات میں اس واسطہ کی توثیق پوری طرح کرنے کے بعد پھر اَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى فرمایا، تو یہ ابتدائی کلام کا تکملہ ہے اور اس میں انتشار ضمیر اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اوحی اور عبدہ کی ضمیر میں اس کے سوا کوئی احتمال ہی نہیں وہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو، اس لئے یہ مرجع پہلے سے متعین ہے اور ما اوحیٰ یعنی |" جو کچھ وحی فرمانا تھا |" اس کو مبہم رکھ کر اس کی عظمت شان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، صحیح بخاری باب بدا الوحی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو وحی کی گئی وہ سورة مدثر کی ابتدائی آیات ہیں، واللہ اعلم۔ اس پورے نظم کلام سے قرآن کریم کی حقانیت اور اس کا ٹھیک کلام حق ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح حضرات محدثین احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سند اپنے سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مکمل بیان کرتے ہیں، ان آیات میں حق تعالیٰ نے قرآن کی سند اس طرح بیان فرما دی کہ موحی یعنی وحی کرنے والا خود حق تعالیٰ ہے اور معلم و مبلغ جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان واسطہ سند ہیں وہ جبرئیل امین ہیں، آیات مذکورہ میں جبرئیل کی جلالت شان اور شدید القویٰ ہونا گویا اس واسطہ سند کی تعدیل ہے۔
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى ١٠ ۭ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبریل امین رسول اکرم پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانی تھی یا یہ مطلب ہے کہ جبریل امین پر جو کچھ وحی نازل ہوئی تھی وہ انہوں نے رسول اکرم پر نازل فرمائی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے محمد پر جو کچھ وحی نازل فرمانی تھی سو فرمائی۔
آیت ١٠{ فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی ۔ } ” پھر اس نے وحی کی اللہ کے بندے کی طرف جو وحی کی ۔ “ ” اَوْحٰی “ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا : ” پس اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔ “ جس وحی کا یہ ذکر ہے وہ ” وحی رسالت “ تھی ‘ جبکہ پہلی وحی جو سورة العلق کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی ” وحی نبوت “ تھی ۔ اس وحی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور ہوا : { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ } ان پانچ آیات میں نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی حکم دیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی ماہ تک کوئی وحی نہیں آئی ۔ اس عارضی وقفے کو ” فترتِ وحی “ کا دور کہا جاتا ہے۔ پھر ایک دن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غارِ حرا سے واپس آ رہے تھے تو وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر آیات زیر مطالعہ میں ہو رہا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل ملکی شکل میں افق پر دیکھا۔ اس منظر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوفزدہ ہوگئے اور اسی گھبراہٹ کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر پہنچے۔ گھر پہنچتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) کو کمبل اوڑھانے کا فرمایا۔ اس کیفیت میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمبل اوڑھے لیٹے تھے تو یہ وحی نازل ہوئی ‘ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسالت کی ذمہ داری سونپ دی گئی : { یٰٓــاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ } (المدثر) ” اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ! اب کھڑے ہو جائو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی (کا اعلان) کرو ! “ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت کا نقطہ آغاز تو ” انذار “ ہے مگر دنیا میں اس کا ہدف ” تکبیر رب “ ہے۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ‘ اس کی بڑائی منوائیں اور اس کی بڑائی کو نافذ کریں۔
9 The sentence fa auha ila `abd-i -hi ma auha of the Text can have two translations: (1) "He revealed to His (Allah's) servant whatever he revealed"; and (2) "He (Allah) revealed to His own servant whatever He revealed. " According to the first translation, the meaning would be: Gabriel revealed to the servant of Allah whatever he had to reveal"; according to the second: "Allah revealed through Gabriel to His servant whatever He had to reveal. " The commentators have given both these meanings; the first meaning, however, fits in better with the context, .and the same has been reported from Hadrat Hasan Basri and lbn Zaid. Here, the question may be asked: "How can the pronoun of abd-i-hi turn to Allah instead of to the subject of auha, whereas Allah has nowhere been mentioned from the beginning of the Surah to this place ?" The answer is that wherever it becomes apparent from the context that the antecedent of a pronoun refers to a particular person, the pronoun turns to him automatically whether it has been mentioned before or not. There are several instances of this available in the Qur'an itself. In Surah AI-Qadr: l, AIIah says: "We have sent it down in the Night of Glory." There is no mention of the Qur'an in this sentence, but the context explicitly shows that the antecedent of the pronoun is the Qur'an. At another place Allah says: °If Allah were to seize the people because of their misdeeds, He would not leave any creature (unpunished) on its back. " In this sentence there is no mention of the earth anywhere, but the context clearly shows that "its back" implies "the earth's back". In Surah Ya Sin: 69, it has been said: "We have not taught him poetry, nor does poetry behove him." Here, there is no mention of the Holy Prophet, neither before this sentence nor after it, yet the context is explicit that the antecedent of the pronouns is the Holy Prophet himself. In Surah Ar-Rahman: 26, it has been said: "Whatever exists on it shall perish." There is no mention of the earth either before or after it, but the style clearly shows that the pronoun of 'alaika turns to it. In Surah AI-Waqi'ah: 35, it has been said: "We shall have created them especially." There is no noun or pronoun before or after it to which the pronoun of hunna may be referring. It is apparent from the context that it signifies the women of Paradise. Thus, as auha ila `abd-i hi cannot at all mean that Gabriel revealed to his servant, the meaning necessarily would be that "Gabriel revealed w the servant of AIlah", or that "Allah revealed to His own servant through Gabriel. "
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :9 اصل الفاظ ہیں فَاَوْحٰٓی اِلیٰ عَبْدِہ مَا اَوْحیٰ ۔ اس فقرے کے دو ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ اس نے وحی کی اس کے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی ۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی ۔ پہلا ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جبریل نے وحی کی اللہ کے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی ۔ اور دوسرا ترجمہ کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے وحی کی جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی ۔ مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں ۔ مگر سیاق و سباق کے ساتھ زیادہ مناسبت پہلا مفہوم ہی رکھتا ہے اور وہی حضرت حسن بصری اور ابن زید سے منقول ہے ۔ اس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ عبدہ کی ضمیر اوحیٰ کے فاعل کی طرف پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے پھر سکتی ہے جبکہ آغاز سورۃ سے یہاں تک اللہ کا نام سرے سے آیا ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں ضمیر کا مرجع کسی خاص شخص کی طرف سیاق کلام سے صاف ظاہر ہو رہا ہو وہاں ضمیر آپ سے آپ اسی کی طرف پھرتی ہے خواہ اس کا ذکر پہلے نہ آیا ہو ۔ اس کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ یہاں قرآن کا سرے سے کہیں ذکر نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ ۔ اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑنے لگے تو اس کی پیٹھ پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے ۔ یہاں آ گے پیچھے زمین کا ذکر کہیں نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی پیٹھ سے مراد زمیں کی پیٹھ ہے ۔ سورہ یٰس میں فرمایا گیا ہے وَمَآ عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ۔ ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے ۔ ۔ یہاں پہلے یا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے مگر سیاق کلام بتا رہا ہے کہ ضمیروں کے مرجع آپ ہی ہیں ۔ سورہ رحمٰن میں فرمایا کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ ، وہ سب کچھ جو اس پر ہے فانی ہے ۔ آ گے پیچھے کوئی ذکر زمین کا نہیں ہے ۔ مگر عبارت کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ علیہا کی ضمیر اسی کی طرف پھرتی ہے ۔ سورہ واقعہ میں ارشاد ہوا اِنَّآ اَنْشَأْنَاھُنَّ اِنْشَآءً ، ہم نے ان کو خاص طور پر پیدا کیا ہو گا ۔ آس پاس کوئی چیز نہیں جس کی طرف ھُنَّ کی ضمیر پھرتی نظر آتی ہو ۔ یہ فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراد خواتین جنت ہیں ۔ پس چونکہ اَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہ کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہو سکتا کہ جبریل نے اپنے بندے پر وحی کی ، اس لیے لازماً اس کے معنی یہی لیے جائیں گے کہ جبریل نے اللہ کے بندے پر وحی کی ، یا پھر یہ کہ اللہ نے جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر وحی کی ۔
(53:10) فاوحی الی عبدی ما اوحی : ف عاطفہ اوحی ماضی واحد مذکر غائب ضمیر فاعل یہاں بھی جبریل کی طرف راجع ہے۔ پس اس نے وحی کی۔ الی عبدہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی جبرائیل امین نے اللہ تعالیٰ کے بندے کی طرف وحی کی ما اوحی جو وحی کی : (ما موصولہ ہے جو اس نے وحی کی) ۔ بعض نے پہلے اوحی کا فاعل جبرئیل اور دوسرے اوحی کا فاعل اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے اس وقت آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ جبریل نے اللہ تعالیٰ کے بندے کو وحی کی جو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل پر وحی کی۔
6:۔ ” فاوحی “ اوحی کا فاعل جبریل (علیہ السلام) ہے۔ ” عبدہ “ کی ضمیر مجرور ذات باری تعالیٰ سے کنایہ ہے (فاوحی) جبریل (علیہ السلام) (الی عبدہ) الی عبداللہ (مدارک ج 4 ص 148) ۔ جبریل نے اللہ کے عظیم الشان اور جلیل القدر بندے کو وحی پہنچائی۔ وحی کا ابہام تفخیم وتعظیم کے لیے (روح، قرطبی) ۔ ” ماکذب الفؤاد۔ الایۃ “ آپ نے اپنی آنکھوں سے جس چیز کا مشاہدہ کی آپ کے دل نے اسے پہچان لیا کہ یہ جبریل امین ہے آپ کے دل نے یہ نہیں کہا کہ میں نے اس کو پہچانا نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ آپ نے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں پورے یقین اور وثوق سے دیکھا ہے۔ اور اس بارے میں آپ کے دل میں کوئی شک و شبہ واقع نہیں ہوا۔ یعنی انہ راہ بعینہ وعرفہ بقلبہ ولم یشک فی ان ماراہ حق (مدارک) ۔ ” افتمارونہ۔ الایۃ “ اس میں خطاب مشرکین سے ہے جو کہتے تھے کہ یہ سب خواب و خیال ہے بیدار میں اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ ” تمارونہ “ مراء، سے ہے ای تجادلونہ (روح) ۔ یعنی جس چیز کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہیں کیا اس چیز کے بارے میں تم اس سے جھگڑتے اور بحث کرتے ہو ؟ کوئی مشکوک اور مشتبہ بات ہوتی تو بحث وجدال کی کوئی گنجائش بھی تھی لیکن یہ ایک مشاہدہ تھا جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تھا۔
(10) پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر وحی نازل فرمائی جو کچھ بھی نازل فرمائی۔ جیسا کہ اوپر فرمایا تھا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصلی شکل میں نظر آئے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی اور بےہوشی ہوئی تو وہ انسان شکل کے ساتھ متشکل ہوکر حضور کے قریب آئے اور جھک کر آپ کو اٹھایا جس کو قرآن نے فتدلی فرمایا قرب کو محاورے کے طور پر فرمایا وہ کمان یا اس سے بھی کم فاصلہ تھا عرب کا قاعدہ تھا کہ جب وہ شخص باہمی یکانگت اور اتحاد کا عہد کرتے تھے تو وہ کمانوں کو باہم ملا کر آدمی مل کر ایک تیر پھینکتے تھے اور اس کو دوستی اور اتحاد کا عہد کہا کرتے تھے۔ اسی اتحاد اور یگانگت کی طرف شاید اشارہ ہو۔ بہرحال جب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو اٹھایا اور پیشانی سے خاک کو صاف کیا تو اس وقت حضرت جبرئیل کی وساطت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی بھیجی وہ وحی مخفی ہے اس وحی میں شاید آپ کی امت کے لئے کوئی بشارت تھی۔ بعض لوگوں نے کہا اس وحی کا مضمون یہ تھا کہ جنت میں اس وقت تک کوئی نبی داخل نہ ہوگا جب تک آپ جنت میں داخل نہ ہوجائیں اور تمام انبیاء کی امم پر دخول جنت اس وقت تک حرام کردیا گیا ہے جب تک آپ کی امت جنت میں نہ داخل ہوجائے، بعض نے کچھ اور فرمایا ہے۔ بہرحال کوئی حقیقی بات اس وحی کے متعلق نہیں کہی جاسکتی آگے اپنے پیغمبر کی تصدیق فرماتے ہیں۔