Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 12

سورة النجم

اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾

So will you dispute with him over what he saw?

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو ( پیغمبر ) دیکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The heart lied not in what he saw. Will you then dispute with him about what he saw? Muslim recorded from Ibn Abbas about, مَا كَذَبَ الْفُوَادُ مَا رَأَى (The heart lied not in what he saw), and, وَلَقَدْ رَاهُ نَزْلَةً أُخْرَى (And indeed he saw him at a second descent). "He saw Allah twice in his heart." Simak reported a similar from Ikrimah from Ibn Abbas. Abu Salih... , As-Suddi and several others said similarly that the Prophet saw Allah twice in his heart. Masruq said, "I went to A'ishah and asked her, `Did Muhammad see his Lord?' She said, `You said something that caused my hair to rise!' I said, `Behold!' and recited this Ayah, لَقَدْ رَأَى مِنْ ايَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى (Indeed he saw of the greatest signs of his Lord). She said, `Where did your mind wander? It was Jibril. Whoever says to you that Muhammad saw his Lord, or hid any part of what he was commanded (i.e., Allah's Message), or knew any of the five things which only Allah knows, إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ Verily, Allah, with Him is the knowledge of the Hour, He sends down the rain... (31:34), Then he invents a great lie against Allah! The Prophet only saw Jibril twice, in his original shape, once near Sidrat Al-Muntaha and another time in Ajyad (in Makkah) while Jibril had six hundred wings that covered the horizon."' Muslim recorded that Abu Dharr said, "I asked the Messenger of Allah , `Have you seen your Lord' He said, نُورٌ أَنَّى أَرَاه How can I see Him since there was a light?" In another narration, the Prophet said, رَأَيْتُ نُورًا I only saw a light. Allah's statement, وَلَقَدْ رَاهُ نَزْلَةً أُخْرَى   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] اس کے مخاطب قریش مکہ ہیں اور انہیں کہا یہ جارہا ہے کہ تم اپنے رفیق ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود سچا اور راست باز انسان تسلیم کرتے ہو۔ اور وہ اپنے ذاتی اور عینی مشاہدہ کی بنا پر تم سے ایک بات کہتا ہے جو اسے دن کی روشنی میں اور عالم بیداری میں پیش آئی۔ پھر تم اس کی بات کا انکار کرتے۔ ا... ور اس سے جھگڑا کرتے ہو تو آخر تمہارے پاس اس کو جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کے لیے کیا دلیل ہے ؟ واضح رہے کہ اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف تھا کہ آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت جبریل کو دیکھا تھا یا اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا تو اس کے متعلق صحابہ کی اکثریت کا یہ قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو دیکھا تھا۔ لے دے کے ایک سیدنا ابن عباس (رض) ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا مگر وہ بھی اس بات کی پابندی لگاتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل یا دل کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ کیا رسول اللہ نے جبرئیل کو دیکھا تھا یا اللہ کو ؟ مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا : && امی ! کیا محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ؟ && انہوں نے جواب دیا : && تیری اس بات پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تین باتیں کیا تو سمجھ نہیں سکتا جو شخص تجھ سے وہ بیان کرے وہ جھوٹا ہے۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا اس نے جھوٹ بولا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھیـ۔ ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣۔ ) 6 ۔ الانعام :103) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی سے کچھ چھپا رکھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دو بار دیکھا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعبص کی ابن عباس (رض) سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس (رض) نے کہا :&& ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجئے) کعبص کہنے لگے کہ && اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور موسیٰ (علیہ السلام) میں تقسیم کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دو بار کلام کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بار اللہ کو دیکھا && مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیدہ عائشہ (رض) کے پاس جاکر پوچھا کہ &&: کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ && انہوں نے جواب دیا کہ : && تم نے ایسی بات کہی جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے && میں نے کہا :&& ذرا سوچ لیجئے && پھر میں نے یہ آیت پڑھی۔ ( لَقَد & رَایٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) سیدہ عائشہ (رض) مجھے کہنے لگیں : تیری عقل کہاں گئی وہ تو جبریل تھے جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا یا وہ پانچ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) میں بتائیں۔ اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محلہ) جیاد میں، اس کے چھ سو پر تھے اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) سیدنا ابن عباس (رض) نے یہ آیت پڑھی ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ؀) 53 ۔ النجم :11) اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل (کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔ (حوالہ ایضاً ) ٣۔ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : && کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ && تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : && وہ تو نور ہے میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں && (حوالہ ایضاً ) اور میرے خیال کے مطابق سیدنا ابن عباس (رض) کی اس پابندی کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں جس بات کی صراحت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) افتمرونہ :” تم اورن “ ماری یماری مراء و مماراۃ “ (مفاعلہ) سے فعل مضارع معلوم جمع مذکر حاضر ہے، جھگڑا کرنا۔ یہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی شیطان نہیں بلکہ جبریل فرشتہ آتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں، اس کی اصل صورت میں بھی میں نے اسے...  دیکھا ہے تو انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور جھگڑنے لگے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنے صاحب کو خود صادق و امین تسلیم کرتے ہو، جب وہ تم سے کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل فرشتہ آتا ہے اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو تم اس سے جھگڑنے لگتے ہو، آخر تمہاریپ اس اسے جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کی کیا دلیل ہے ؟۔ اذا لم تر الھلال فسلم لاناس راوہ بالابصار ” جب تمہیں چاند نظر نہیں آیا تو ان لوگوں کیب ات مان لو جنہوں نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ “ (٢) علی مایری : واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” افتم اور نہ علی ما رای “” پھر کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا “ بلکہ فرمایا :(افتمرونہ علی مایری)” پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے “ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات کو وہ جھٹلاتے تھے وہ یہ تھی کہ میں جبریل فرشتے کو دیکھتا ہوں جب وہ میرے پاس آتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی دفعہ جب جبریل علیہ السام غار حرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ائٓے تو اگرچہ اصل صورت میں نہ تھے، مگر بعد میں جب وہ اپنی اصل صورت میں اس شان سے سامنے آئے کہ زمین سی آسمان تک اور دائیں سے بائیں تک پورا افق ان سے بھرا ہوا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً پہچان گئے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (٦ تا ٩) کے آخری فائدہ میں مذکور حدیث ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جبریل (علیہ السلام) کے آنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پہچان لیتے تھے، خواہ کسی حالت میں آئیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰي مَا يَرٰى۝ ١٢ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي وال... تسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود/ 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة/ 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت/ 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب . ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ۔ } ” تو کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس چیز پر جسے وہ دیکھتا ہے ! “ اس بارے میں جو تفصیل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کر رہے ہیں تم لوگ اس میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو۔ لیکن وہ تو یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور وہ تم سے آنکھوں دیکھا واقع... ہ ہی بیان کر رہے ہیں۔ بقول اقبال : ع ” قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید “ کہ قلندر جو بھی بیان کرتا ہے اپنا مشاہدہ ہی بیان کرتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:12) افتمرونہ علی مایری۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے ف عاطفہ ہے کلام کی تقدیر یوں ہے۔ اتکذبونہ فتمارونہ : تمارون مضارع جمع مذکر حاضر مماراۃ مفاعلۃ مصدر سے : (م ر ی مادہ) ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کیا تم اس کو جھٹلاتے ہو اور اس سے جھگڑا کرتے ہو۔ یع... نی جس چیز کو وہ دیکھنے کا دعوی کر رہے ہیں تمہیں اس کا انکار یا تکذیب نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی جھگڑنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اور جگہ ہے فلا تمار فیہم الا مراء ظاھرا (18:22) تم ان کے معاملہ میں مت جھگڑنا۔ مت گفتگو کرنا۔ تمارون : مراء سے مشتق ہے مراء کا معنی جھگڑا کرنا۔ مری الناقۃ دودھ نکالنے کے لئے اونٹنی کے تھن سہلانا۔ باہم جھگڑنے والے بھی اپنے مخالف کی دلیلوں کو نکلوانا چاہتے ہیں۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے مراء کا معنی ہوگیا جھگڑا کرنا۔ (تفسیر مظہری) علی ما یری۔ اس چیز کے متعلق جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ ما موصولہ اور یری بمعنی رای العین آنکھوں سے دیکھنا (رازی) ۔ یری صیغہ مضارع کا استعمال ماضی کے استحضار اور حکایت کے لئے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے بیان کیا لیکن کفار اسے ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نبی (علیہ السلام) نے جبریل امین کو دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ہی جنت الماویٰ ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر اللہ تعالیٰ کی انوار و تج... لیات کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ ” اَلْمُنْتَہٰی “ کا معنٰی انتہا ہے جس کا اہل علم نے یہ مفہوم لیا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کی پہنچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے نیچے کی مخلوق کے لیے عالم سفلٰی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس سے اوپر کے لیے سدرۃ المنتہیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس سے اوپر ” اللہ “ کی مخلوق میں سے کوئی نہیں جاسکتا گویا کہ یہاں سے حریم کبریا کا مقام شروح ہوجاتا ہے اور سدرۃ المنتہیٰ جنت الماویٰ کے قریب ہے۔ الماویٰ کے بارے میں اہل تفسیر نے تین باتیں لکھی ہیں۔ ١۔ جنت کا اعلیٰ ترین مقام۔ ٢۔ الماویٰ میں قیامت سے پہلے شہیدوں کی روحوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ٣۔ سدرۃ المنتہیٰ کا ایک منظر : ” حضرت ثابت بنانی (رح) حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس ایک براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا ‘ جس کا قد لمبا اور وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا قدم اس کی حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچا۔ میں نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء (علیہ السلام) باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعتیں ادا کیں۔ میں باہر نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ایک شراب اور ایک دودھ کا برتن پیش کیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا۔ اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : آپ نے فطرت کو پسند فرمایا ہے پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔ اس کے بعد حضرت انس (رض) نے سابق حدیث والا مضمون بیان کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تب حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا انہوں نے میرے لیے خیروبرکت کی دعا کی۔ اسی طرح آپ نے فرمایا : تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) جنہیں حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ پھر ساتویں آسمان کے متعلق بتایا کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے پیٹھ ٹکائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے جایا گیا۔ اس بیری کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے اور اس کے بیر مٹکوں کے برابر تھے۔ جب اللہ کے حکم سے اس درخت کو کسی ڈھانپنے والی چیز نے ڈھانپ لیا، تو اس کی حالت بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی بھی اس درخت کی خوب صورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو وحی بھیجنی تھی اس کا نزول فرمایا اور مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر میری منزل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھی۔ انہوں نے پوچھا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ میں نے بتایا دن رات میں پچاس نمازیں۔ انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں۔ بلا شبہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کو آزما کر دیکھا ہے۔ آپ نے فرماتے کہ میں اپنے رب کی طرف واپس گیا اور درخواست پیش کی۔ یا رب ! میری امت کے لیے کمی کر دے۔ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف پلٹا اور ان کو بتایا کہ پانچ گھٹا دی گئیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی، اپنے رب کی طرف جائیں اور ان سے مزید تخفیف کی فریاد کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح میرا، اپنے پروردگار اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف آنا جانا مسلسل جاری رہا، حتیٰ کہ مجھے حکم ہوا، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ہر دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ ہر نماز کا اجر دس کے برابر ہے۔ اس طرح یہ ثواب میں پچاس نمازیں ہیں۔ جس کسی نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس پر عمل کرلیا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا۔ جس نے برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر عمل کرلیا تو صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ انہیں تمام احوال بتائے تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور ایک دفعہ پھر مزید کمی کی درخواست کریں۔ اس پر آپ نے فرمایا میں اتنی بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ اب مجھے حیا آتی ہے۔ “ (رواہ مسلم : باب فی المعراج) دنیا میں سدرۃ کا معنی بیری ہے : سترہویں صدی عیسوی میں لبنا سے لے کر نیویارک تک ایک درخت سدرہ کے نام پر پایا جاتا تھا۔ حوادث زمانہ کی وجہ سے ١٩٠٣٧ ء سے اس کی نسل تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی نے اپنی کتاب نباتات قرآن میں اس درخت کی اونچائی ایک سو پچاس فٹ اور گولائی چالیس فٹ لکھی ہے اور کتاب میں اس کے پھل کی تصویر دی ہے جسے حدیث کے الفاظ میں ھجر کے مٹکوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس درخت کے جلال اور جمال کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اپنے دور میں یہ درخت پوری دنیا میں سب سے بڑا اور حسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ بائبل میں اس کا تذکرہ ( REZE) کے نام سے کیا جاتا ہے۔ (تفصیل جاننے کے لیے ڈاکٹر اقتدار فاروقی کی نبات القرآن ملاحظہ فرمائیں۔ ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ دیکھا ہے : جبرائیل امین (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں اور ہر نبی کے پاس ” اللہ “ کا پیغام لاتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سات سو پر عطا فرمائے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حیات مبارکہ میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کو اس کی اصل حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے پہلی مرتبہ پہلی وحی کے وقت غار حرا کے پاس اور دوسری مرتبہ ” سدرۃ المنتہیٰ “ کے مقام پر دیکھا جس کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ( وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی) (النجم : ١٣ تا ١٥) ” اور ایک مرتبہ پھر اس نے اس کو اترتے دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔ “ (حَدَّثَنَا الشَّیْبَانِیُّ ، قَالَ : سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : (فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی) (النجم : ٩) قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ مَسْعُودٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَی جِبْرِیلَ لَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ ) (رواہ مسلم : باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ ) حضرت شیبانی (رض) کہتے ہیں میں نے زر بن حبیش (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا (فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی) انہوں نے مجھے بتلایا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان کے سات سو پر تھے۔ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو اس کی اصلی حالت میں دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ ٢۔ سدرہ بیری کے درخت کی مانند کوئی درخت ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَفَتُمٰرُوْنَهٗ۠ عَلٰى مَا يَرٰى ٠٠١٢﴾ (کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی دیکھی ہوئی چیز میں جھگڑا کرتے ہو) انہوں نے جو دیکھا ہے صحیح دیکھا۔ اس میں کسی انکار اور مجادلہ کا موقع نہیں۔ قال فی معالم التنزیل قرأ حمزہ والکسائی و یعقوب افتمرونہ بفتح التاء بلا الف ای افتجحدونہ تقول ال... عرب مریت الرجل حقہ اذا جحدتہ وقرالاخرون افتمارونہ بالالف وضم التاء علی معنی افتجادلونہ علی مایری۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) پس تم کیا پیغمبر کی دیکھی ہوئی چیز میں اس سے جھگڑتے ہو۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فرشتہ کا جس طرح مشاہدہ کیا اور معائنہ کیا دلنی اور دماغ نے اسی طرح سمجھا دل نے جھوٹ نہیں کہا اور دماغ نے اس کے سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی تو اب ایسی بات جس کو ان کی آنکھوں نے دیکھا اور دل و دماغ ... نے سمجھا تم اس چیز میں اے منکرو اس پیغمبر سے جھگڑا کرتے ہو۔ ایسا جھگڑا کٹ حجتی اور حماقت نہیں تو اور کیا ہے تمہاری گفتگو اور مجادلہ بیکار اور تمہاری ایک عامیانہ حرکت ہے۔  Show more