Surat un Najam
Surah: 53
Verse: 20
سورة النجم
وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۰﴾
And Manat, the third - the other one?
اور منات تیسرے پچھلے کو ۔
وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۰﴾
And Manat, the third - the other one?
اور منات تیسرے پچھلے کو ۔
Have you then considered Al-Lat, and Al-`Uzza. And Manat, the other third,
20۔ 1 یہ مشرکین کی توبیخ کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ تو شان ہے جو مذکور ہوئی کہ جبرائیل (علیہ السلام) جیسے عظیم فرشتوں کا وہ خالق ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے اس کے رسول ہیں، جنہیں اس نے آسمان پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ بھی کرایا اور وحی بھی ان پر نازل فرماتا ہے۔ کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو، ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں ؟ اس ضمن میں عرب کے تین مشہور بتوں کے نام بطور مثال لیے۔ لات، بعض کے نزدیک یہ لفظ اللہ سے ماخوذ ہے، بعض کے نزدیک لات یلیت سے ہے، جس کے معنی موڑنے کے ہیں، پجاری اپنی گردنیں اس کی طرف موڑتے اور اس کا طواف کرتے تھے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا۔ بعض کہتے ہیں، کہ لات میں تا مشدد ہے لت یلت سے اسم فاعل (ستو گھولنے والا) یہ ایک نیک آدمی تھا، حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، جب یہ مرگیا تو لوگوں نے اس کی قبر کو عبادت گاہ بنالیا، پھر اس کے مجسمے اور بت بن گئے۔ یہ طائف میں بنو ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا۔ عزی کہتے ہیں یہ اللہ کے صفاتی نام عزیز سے ماخوذ ہے، اور یہ أعز کی تانیث ہے بمعنی عزیزت بعض کہتے ہیں کہ یہ غطفان میں ایک درخت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ شیطاننی (بھوتنی) تھی جو بعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سنگ ابیض تھا جس کو پوجتے تھے۔ یہ قریش اور بنو کنانہ کا خاص معبود تھا۔ منوت، منی یمنی سے ہے جس کے معنی صب (بہانے) کے ہیں۔ اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے لوگ کثرت سے اس کے پاس جانور ذبح کرتے اور انکا خون بہاتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا (فتح القدیر) یہ قدید کے بالمقابل مشلل جگہ میں تھا، بنوخزاعہ کا یہ خاص بت تھا۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس بت کا طواف بھی کرتے تھے۔ (ایسر التفاسیر وابن کثیر) ان کے علاوہ مختلف اطراف میں اور بھی بہت سے بت اور بت خانے پھیلے ہوئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد اور دیگر مواقع پر ان بتوں اور دیگر تمام بتوں کا خاتمہ فرما دیا ان پر جو قبے اور عمارتیں بنی ہوئی تھیں، وہ مسمار کروا دیں، ان درختوں کو کٹوا دیا، جن کی تعظیم کی جاتی تھی اور وہ تمام آثار و مظاہر مٹا ڈالے گئے جو بت پرستی کی یادگار تھے، اس کام کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد، حضرت علی، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، جہاں جہاں یہ بت تھے، بھیجا اور انہوں نے جاکر ان سب کو ڈھا کر سرزمین عرب سے شرک کا نام مٹا دیا۔ (ابن کثیر)
[١٢] مشرکین مکہ کی کئی دیویاں لات & عزیٰ اور منات :۔ اب ایسے لا محدود عظمت و جلال والے پروردگار کے مقابلہ میں ذرا ان دیویوں کا ذکر بھی سن لو جن کی اہل عرب پوجا کرتے ہیں۔ لات (الہ کا مؤنث) کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے معتقد تھے۔ عزیٰ (عزیز سے مونث) بمعنی عزت والی یا عزت عطا کرنے والی۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان یا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراص کے مقام پر واقع تھا۔ منات کا استھان یا آستانہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ، اوس اور خزرج اس کے معتقد تھے۔ اس کا باقاعدہ حج اور طواف کیا جاتا۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے منات کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کردی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے && حج && کی نیت کرلیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے۔
وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰى ٢٠ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰى ٢١ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) ذَّكَرُ ( مذکر) والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔ أنث الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء/ 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة . ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر : ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء/ 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم/ 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال : ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب : - فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط . - ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات . - ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً [ مریم/ 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف/ 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ . ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔{ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى } ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ { إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا } ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ { يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا } ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ { وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا } ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔
آیت ٢٠{ وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی ۔ } ” اور جو تیسری ایک اور (دیوی) منات ہے ؟ “ یعنی کبھی تم لوگوں نے اپنی ان تین دیویوں کی حقیقت کے بارے میں بھی سوچا ہے ؟
15 That is, "You regard the teachings being givcn to you by Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) as erroneous and falsehood, whereas he is being given this knowledge by Allah, and Allah has made him see with his own eyes the verities to which he is testifying before you. Now consider it for yourself as to how irrational are the beliefs that you are following persistently and'' as to whom you arc causing loss by opposing and resisting the person who is guiding you to the Right Way. In this connection, especially the three goddesses that were worshipped generally by the people of Makkah, Ta'if and other parts of Hejaz have been taken as an example. About them, they have been asked: Have you ever considered rationally whether they could have even the slightest role in the affairs of the Godhead of the earth and heavens? Or could they bear any relationship whatever with the Lord of the Universe? The shrine of Lat was in Ta'if and the Bani Thaqif were so devoted to it that when Abraha was advancing to Makkah with his army of elephants to destroy the Ka'bah, the people only in order to save the temple of their deity had provided the wicked man with guides to lead him w Makkah so that he should spare Lat, whereas like all the Arabs the people of Thaqif also believed that the Ka'bah is Allah's House. Scholars have disputed the meaning of Lat. According to Ibn Jarir Tabari, it is the feminine gender of AIlah, i.e. originally this word was allahatun which became al-Lat. According to Zamakhshari, it is derived from hva yalvi, . which means to turn to or bow to somebody. As the polytheists turned to it for worship and bowed to it and circumambulated it, it began to be called Lat. Ibn 'Abbas _reads it as left (with a stress on t) and holds it is derived from latt yalittu, which means to churn and mix together. He and Mujahid state that this, in fact, was a man, who lived on a rock near Ta'if, and used to entertain the pilgrims to Makkah with barley drinks and food. When he died the people built a shrine to him on the same rock and began to worship him. But this explanation of Lat, in spite of having been reported on the authority of scholars like Ibn 'Abbas and Mujahid, is not acceptable for two reasons. First, that in the Qur'an it has been called Lat and not Latt; second, that the Qur'an describes all the three as goddesses, and according to this tradition Lat was a man, not a woman. 'Uzza is derived from 'izzat, and it means the one (female) enjoying veneration and respect. This was the special goddess of the Quraish and her shrine was situated at Hurad in the valley of Nakhlah, between Makkah and Ta'if. (For the location of Nakhlah, see E.N. 33 of Surah AL-Ahqaf). The people of Bani Shaiban, who were the allies of the Bani Hashim, were its attendants. The Quraish and the people of other tribes paid visits to it and presented offerings and made sacrifices to it. As for the Ka`bah sacrificial animals were driven to it also and it was held in the highest esteem. Ibn Hisham relates that when Abu Uhaihah was on the point of death, Abu Lahab paid him a visit and found him weeping. Abu Lahab asked, °Why do you weep, Abu Uhaihah ? Are you afraid of death ?-and death is the destiny of everybody !" He said, `By God, I do not weep because of the fear of death, but I am grieved to think as to how 'Uzza will be worshipped after me. " Abu Lahab said, "It was neither worshipped for your sake in your lifetime, nor will it be given up after you have left the world." Abu Uhaihah said, 'Now I am satisfied that there are people who will take my place after me." The shrine of Manat was situated at Qudaid by. the Red Sea between Makkah and Madinah, and the people of Khuza`ah and Aus and Khazraj were in particular its great devotees. People visited it as pilgrims, circumambulated it and made offerings and sacrifices before it. In the Hajj months as soon as the pilgrims became free from their visit to the Ka`bah and the religious services at Mina and 'Arafat, they would start raising cries of °Labbaik, labbaik"even there for the purpose of visiting Manat, and the people who intended to go on this second "hajj" did not run between the Safa and the Marwah.
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :15 مطلب یہ ہے کہ جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو دے رہے ہیں اس کو تو تم لوگ گمراہی اور بد راہی قرار دیتے ہو ، حالانکہ یہ علم ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے اور اللہ ان کو آنکھوں سے وہ حقائق دکھا چکا ہے جن کی شہادت وہ تمہارے سامنے دے رہے ہیں ۔ اب ذرا تم خود دیکھو کہ جن عقائد کی پیروی پر تم اصرار کیے چلے جا رہے ہو وہ کس قدر غیر معقول ہیں ، اور ان کے مقابلے میں جو شخص تمہیں سیدھا راستہ بتا رہا ہے اس کی مخالفت کر کے آخر تم کس کا نقصان کر رہے ہو ۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان تین دیویوں کو بطور مثال لیا گیا ہے جن کو مکہ ، طائف ، مدینہ ، اور نواحی حجاز کے لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے ۔ ان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ کبھی تم نے عقل سے کام لے کر سوچا بھی کہ زمین و آسمان کی خدائی کے معاملات میں ان کا کوئی ادنیٰ سا دخل بھی ہو سکتا ہے ؟ یا خداوند عالم سے واقعی ان کا کوئی رشتہ ہو سکتا ہے ؟ لات کا استھان طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے اس حد تک معتقد تھے کہ جب ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو توڑنے کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنے جا رہا تھا اس وقت ان لوگوں نے محض اپنے اس معبود کے آستانے کو بچانے کی خاطر اس ظالم کو مکے کا راستہ بتانے کے لیے بَدْرَقے فراہم کیے تا کہ وہ لات کو ہاتھ نہ لگائے ۔ حالانکہ تمام اہل عرب کی طرح ثقیف کے لوگ بھی یہ مانتے تھے کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے ۔ لات کے معنی میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن جریر طبری کی تحقیق یہ ہے کہ یہ اللہ کی تانیث ہے ، یعنی اصل میں یہ لفظ اللّٰلہۃٌ تھا جسے اللّٰات کر دیا گیا ۔ زَمخشری کے نزدیک یہ لَویٰ یَلْوی سے مشتق ہے ، جس کے معنی مڑنے اور کسی کی طرف جھکنے کے ہیں ۔ چونکہ مشرکین عبادت کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کے آ گے جھکتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے اس کو لات کہا جانے لگا ۔ ابن عباس اس کو لات بتشدید تاء پڑھتے ہیں اور اسے لَت یلتُّ سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی متھنے اور لتھیڑنے کے ہیں ۔ ان کا اور مجاہد کا بیان ہے کہ یہ دراصل ایک شخص تھا جو طائف کے قریب ایک چٹان پر رہتا تھا اور حج کے لیے جانے والوں کو سَتُّو پلاتا اور کھانے کھلاتا تھا ۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اسی چٹان پر اس کا استھان بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے ۔ مگر لات کی یہ تشریح ابن عباس اور مجاہد جیسے بزرگوں سے مروی ہونے کے باوجود دو وجوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن میں اسے لات کہا گیا ہے نہ کہ لاتّ ۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید ان تینوں کو دیویاں بتا رہا ہے ، اور اس روایت کی رو سے لات مرد تھا نہ کہ عورت ۔ عزیٰ عزت سے ہے اور اس کے معنی عزت والی کے ہیں ۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا ( نخلہ کی جائے وقوع کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحقاف ، حاشیہ 23 ) ۔ بنی ہاشم کے حلیف قبیلہ بنی شیبان کے لوگ اس کے مجاور تھے ۔ قریش اور دوسرے قبائل کے لوگ اس کی زیارت کرتے اور اس پر نذریں چڑھاتے اور اس کے لیے قربانیاں کرتے تھے ۔ کعبہ کی طرح اس کی طرف بھی بدی کے جانور لے جائے جاتے اور تمام بتوں سے بڑھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی ۔ ابن ہشام کی روایت ہے کہ ابو اُحیحہ جب مرنے لگا تو ابولہب اس کی عیادت کے لیے گیا ۔ دیکھا کہ وہ رو رہا ہے ۔ ابولہب نے کہا کیوں روتے ہو ابو اُحیحہ؟ کیا موت سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ وہ سب ہی کو آنی ہے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم میں موت سے ڈر کر نہیں روتا ، بلکہ مجھے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ میرے بعد عزیٰ کی پوجا کیسے ہو گی ۔ ابو لہب بولا ۔ اس کی پوجا نہ تمہاری زندگی میں تمہاری خاطر ہوتی تھی اور نہ تمہارے بعد اسے چھوڑا جائے گا ۔ ابو اُحیحہ نے کہا اب مجھے اطمینان ہو گیا کہ میرے بعد کوئی میری جگہ سنبھالنے والا ہے ۔ مَناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر تھا اور خاص طور پر خزاعہ اور اوس اور خزرج کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے ۔ اس کا حج اور طواف کیا جاتا اور اس پر نذر کی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں ۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہو جاتے تو وہیں سے مناۃ کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کر دی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے حج کی نیت کر لیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے ۔
10: لات، عزّیٰ اور منات تینوں بتوں کے نام ہیں جو عرب کے مختلف قبائل نے مختلف جگہوں پر بنا رکھے تھے، اور اُن کو خدا مان کر اُن کی عبادت کی جاتی تھی، قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ اُن کی حقیقت بے جان پتھروں کے سوا کیا ہے؟ پھر اُن کو خدا ماننا کتنی بڑی جہالت کی بات ہے۔
ف 10 یعنی ان کی پوجا کرنے سے کیا فائدہ ؟ یہ تمہیں کسی طرح کا نفع و نقصان پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ تین بت بہت مشہور تھے اور کعبہ کی طرح لوگ ان کا طواف کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر فرمایا۔ ” لات “ طائف میں تھا بنو ثقیف اس کے معتقد تھے۔ عزی قریش کی دیوی تھی۔ اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں تھا اور مناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان قدید کے قریب مثلل کے مقام پر تھا۔ خزاعہ اوس اور خرزج اس کے معتقد تھے۔
1۔ عرب میں بت تو بہت تھے مگر تخصیص ان تین کی بوجہ اشہر و اکبر ہونے کے ہے تو اوروں کی الوہیت کا بطلان بدرجہ اولی ہوگیا۔
(20) اور تیسرے ایک اور منات کے حال پر غور کیا ہے۔ یعنی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی اور آپ کا جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھنا تم کو معلوم ہوگیا اور تم کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کی توحید کا حال معلوم ہوگیا اب بتائو کہ تم نے ان بتوں کے حال پر بھی غور کیا جن کے نام تم نے لات اور عزلی اور تیسرے ایک اور کا نام منات رکھ چھوڑا ہے ان میں کیا قدرت ہے اور ان کی کیا حقیقت ہے اور کیا یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جائے۔ لات، عزیٰ اور منات قریش کے مشہور بت ہیں، لات کی ثقیف کے لوگ پوجا کیا کرتے تھے عزیٰ کو غطفان پوجتے تھے منات ایک پہاڑ کا ٹکڑا تھا جس کو خزاعہ پوجتے تھے حضرت حق تعالیٰ نے منات کے ساتھ اخریٰ فرماکر اس کی بےقدری اور اس کے گھٹیا ہونے پر اشارہ فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ نام ہیں بتوں کے کافر کہتے تھے یہ بیٹیاں ہیں اللہ کے ان کی ماں جنوں کی بیٹیاں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے خیال میں فرشتوں کے یہ فرضی نام رکھ لئے ہوں کیونکہ عام طور سے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ ک بیٹیاں کہتے تھے اسی بات کا آگے رد فرماتے ہیں۔