Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 34

سورة النجم

وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی ﴿۳۴﴾

And gave a little and [then] refrained?

اور بہت کم دیا اور ہاتھ روک لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And gave a little, then stopped, Ibn Abbas said, "Gave a little, then stopped giving." Similar was said by Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ikrimah, Qatadah and several others. Ikrimah and Sa`id said: "Like the case of a people who dig a well, during the course of which they find a rock preventing them from completing their work. So they say, `We are finished' and they abandon the work." Allah's statement, أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى

منافق و کافر کا نفسیاتی تجزیہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اللہ کی فرمانبرداری سے منہ موڑ لیں سچ نہ کہیں نہ نماز ادا کریں بلکہ جھٹلائیں اعراض کریں راہ اللہ بہت ہی کم خرچ کریں دل کو نصیحت قبول کرنے والا نہ بنائیں کبھی کچھ کہنا مان لیا پھر رسیاں کاٹ کر الگ ہو گئے عرب اکدیٰ اس وقت کہتے ہیں مثلًا کچھ لوگ کنواں کھود رہے ہوں درمیان میں کوئی سخت چٹان آجائے اور وہ دستبردار ہو جائیں فرماتا ہے کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس سے اس نے جان لیا کہ اگر میں راہ للہ اپنا زر و مال دوں گا تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گا ؟ یعنی دراصل یوں نہیں بلکہ یہ صدقے نیکی اور بھلائی سے ازروئے بخل ، طمع ، خود غرضی ، نامردی و بےدلی کے رک رہا ہے ، حدیث میں ہے اے بلال خرچ کر اور عرش والے سے فقیر بنا دینے کا ڈر نہ رکھ خود قرآن میں ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39؀ ) 34- سبأ:39 ) تم جو کچھ خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ دے گا اور وہی بہترین رازق ہے ۔ وفی کے معنی ایک تو یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں حکم کیا گیا تھا وہ سب انہوں نے پہنچا دیا دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جو حکم ملا اسے بجا لائے ۔ ٹھیک یہ ہے کہ یہ دونوں ہی معنی درست ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ١٢٤؀ ) 2- البقرة:124 ) ، ابراہیم کو جب کبھی جس کسی آزمائش کے ساتھ اس کے رب نے آزمایا آپ نے کامیابی کے ساتھ اس میں نمبر ملا لئے یعنی ہر حکم کو بجا لائے ہر منع سے رکے رہے رب کی رسالت پوری طرح پہنچا دی پس اللہ نے انہیں امام بنا کر دوسروں کا ان کا تابعدار بنا دیا جیسے ارشاد ہوا ہے آیت ( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین ) پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرک نہ تھا ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ہر روز وہ دن نکلتے ہی چار رکعت ادا کیا کرتے تھے یہی ان کی وفا داری تھی ترمذی میں ایک حدیث قدسی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم کے لئے لفظ وفی اس لئے فرمایا کہ وہ ہر صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17؀ ) 30- الروم:17 ) یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ختم کی ۔ پھر صغیرہ یا کبیرہ کیا تو اس کا وبال خود اس پر ہے اس کا یہ بوجھ کوئی اور نہ اٹھائے گا ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۭ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ 18؀ ) 35- فاطر:18 ) ، اگر کوئی بوجھل اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گا تو اس میں سے کچھ نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ وہ قرابتدار ہو ان صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ انسان کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے حاصل کیا یعنی جس طرح اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا دوسروں کی بداعمالیوں میں یہ بھی نہیں پکڑا جائے گا اور اسی طرح دوسرے کی نیکی بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ حضرت امام شافعی اور ان کے متعبین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کا پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لئے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے نہ کسب یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کا جواز بیان کیا نہ اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی نہ انہیں اس پر آمادہ کیا نہ تو کسی صریح فرمان کے ذریعہ سے نہ کسی اشارے کنائیے سے ٹھیک اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ میت کے لئے بھیجا ہو اگر یہ نیکی ہوتی اور مطابق شرع عمل ہوتا تو ہم سے بہت زیادہ سبقت نیکیوں کی طرف کرنے والے صحابہ کرام تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نیکیوں کے کام قرآن حدیث کے صاف فرمان صحیح ثابت ہوتے ہیں کسی قسم کے رائے اور قیاس کا ان میں کوئی دخل نہیں ہاں دعا اور صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اس پر اجماع ہے اور شارع علیہ السلام کے الفاظ سے ثابت ہے جو حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے پر اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے یا وہ صدقہ جو اس کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے ، اس کا یہ مطلب ہے کہ درحقیقت یہ تینوں چیزیں بھی خود میت کی سعی اس کی کوشش اور اس کا عمل ہیں ، یعنی کسی اور کے عمل کا اجر اسے نہیں پہنچ رہا ، صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر انسان کا کھانا وہ ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہو اس کی اپنی کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اسی کی کمائی اور اسی کی حاصل کردہ چیز ہے پس ثابت ہوا کہ نیک اولاد جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرتی ہے وہ دراصل اسی کا عمل ہے اسی طرح صدقہ جاریہ مثلاً وقف وغیرہ کہ وہ بھی اسی کے عمل کا اثر ہے اور اسی کا کیا ہوا وقف ہے ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12۝ۧ ) 36-يس:12 ) ، یعنی ہم مردوں کا زندہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات نیک کا ثواب انہیں پہنچتا رہتا ہے ، رہا وہ علم جسے اس نے لوگوں میں پھیلایا اور اس کے انتقال کے بعد بھی لوگ اس پر عامل اور کاربند رہے وہ بھی اصل اسی کی سعی اور اسی کا عمل ہے جو اس کے تابعداری کریں ان سب کے برابر اجر کے اسے اجر ملتا ہے درآنحالیکہ ان کے اجر گھٹتے نہیں پھر فرماتا ہے اس کی کوشش قیامت کے دن جانچی جائے گی اس دن اس کا عمل دیکھا جائے گا جیسے فرمایا ( وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؀ۚ ) 9- التوبہ:105 ) ، یعنی کہدے کہ تم عمل کئے جاؤ گے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے خبردار کرے گا یعنی ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا دے گا یہاں بھی فرمایا پھر اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی تھوڑا سا دیکر ہاتھ روک لیا۔ یا تھوڑی سی اطاعت کی اور پیچھ ہٹ گیا، یعنی کوئی کام شروع کرے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو آیات ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔ ابو جہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی سرداران قریش کا رئیس تھا اور اس کے سمجھ دار ہونے میں کچھ شک نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اسے کہنے لگا : جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ اگر تمہیں عذاب ہوا تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا اتنا مال دے دو ۔ چناچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آگیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط اسے ادا بھی کردی لیکن بعد میں اس نے کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ (and gave a little, and stopped? ...53:34) The word akda is derived from kudyah which refers to a hard or stony piece of ground or clod that appears in the course of digging a well or a trench. As a result, the digger cannot dig any further. Thus the meaning of the verse is that at first he gave a little, then he stopped giving. In view of the incident narrated under the heading of |"Background of Revelation|", the meaning is quite clear. [ For the person in that incident paid a little amount and then stopped payment.] Apart from this meaning, Sayyidna Mujahid, Said Ibn Jubair, ` Ikrimah, Qatadah and others interpret this word to imply that a person spent a little in Allah&s way, then stopped it; or at first he was somewhat inclined towards Allah&s obedience, and he obeyed Him for a while, and then gave it up [ vide Ibn Kathir ].

وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى، اکدی، کُدیَہ سے مشتق ہے، کدیہ اس سخت پتھر کو کہا جاتا ہے جو کوئی کنواں یا بنیاد کھودتے ہوئے زمین میں نکل آوے اور کھدائی کے لئے رکاوٹ بن جاوے، اس لئے اکدی کے معنی یہ ہوئے کہ پہلے کچھ دیا پھر دینے سے رک گیا، آیت کے شان نزول میں جو ایک واقعہ اوپر بیان ہوچکا ہے اس کے مطابق تو معنی ظاہر ہیں اور اس سے قطع نظر کی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کیا پھر چھوڑ دیا، یا شروع میں کچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف مائل ہوا، کچھ کرنے لگا پھر چھوڑ بیٹھا، اس لفظ کی یہ تفسیر حضرت مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ وغیرہ سے منقول ہے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى۝ ٣٤ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ كدى الكُدْيَةُ : صلابة في الأرض . يقال : حفر فَأَكْدَى: إذا وصل إلى كُدْيَةٍ ، واستعیر ذلک للطالب المخفق، والمعطي المقلّ. قال تعالی: أَعْطى قَلِيلًا وَأَكْدى[ النجم/ 34] . ( ک د ی ) الکدیۃ کر معنی سخت زمین کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ حفر فا کدٰ ی ۔ وہ گڑھا کھودتا ہوا سخت زمین تک جا پہنچا اور مزید کھدائی سے رک گیا اور استعارہ کے طور پر اکدیٰ کا لفظ تھوڑا سادے کر ہاتھ روک لینے اور نا کام ہونے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعْطى قَلِيلًا وَأَكْدى[ النجم/ 34] تھوڑا سا دیا اور پھر ہاتھ روک لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤{ وَاَعْطٰی قَلِیْلًا وَّاَکْدٰی (رض) } ” تھوڑا سا دیا اور پھر سخت ہوگیا۔ “ عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ان آیات میں ولید بن مغیرہ کا تذکرہ ہے۔ مجھے بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ تاریخ میں اس شخص کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر ایمان لانے کے قریب پہنچ چکا تھا ‘ مگر پھر اچانک اسے اپنی چودھراہٹ یاد آگئی۔ حق جوئی کی خواہش پر عصبیت کا جذبہ غالب آگیا اور یوں اس نے اپنی سوچ دوبارہ بدل لی۔ یہاں اس کے اسی رویے کا ذکر ہے۔ سورة المدثر میں اس شخص کا تذکرہ قدرے تفصیل سے آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 The reference is to Walid bin Mughirah who was one of the prominent chiefs of the Quraish. According to Ibn Jarir Tabari, this person had first become inclined to accept the invitation of the Holy Prophet (upon whom be peace), but when a polytheist friend of his came to know of his intention to become a Muslim, he counselled him not to give up his ancestral faith, and asked him that if he was afraid of the punishment of the Hereafter, he should pay him a certain amount of money and he would take the responsibility to suffer the punishment on his behalf. Walid accepted the offer and turned away from Allah's way. Then he paid only a little of the amount that he had promised to pay his polytheist friend and withheld the rest, The allusion to this incident was meant to toll the disbelievers of Makkah what kind of errors and follies they were involved in because of their heedlessness of the Hereafter and their ignorance of the Divine Religion. "

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :34 اشارہ ہے وَلید بن مغیرہ کی طرف جو قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک تھا ۔ ابن جریر طبری کی روایت ہے کہ یہ شخص پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا ۔ مگر جب اس کے ایک مشرک دوست کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہونے کا ارادہ کر رہا ہے تو اس نے کہا کہ تم دین آبائی کو نہ چھوڑو ، اگر تمہیں عذاب آخرت کا خطرہ ہے تو مجھے اتنی رقم دے دو ، میں ذمہ لیتا ہوں کہ تمہارے بدلے وہاں کا عذاب میں بھکت لوں گا ۔ ولید نے یہ بات مان لی اور خدا کی راہ پر آتے آتے اس سے پھر گیا ، مگر جو رقم اس نے اپنے مشرک دوست کو دینی طے کی تھی وہ بھی بس تھوڑی سی دی اور باقی روک لی ۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا تھا کہ آخرت سے بے فکری اور دین کی حقیقت سے بے خبری نے ان کو کیسی جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: ان آیتوں کا پس منظر حافظ ابن جریر وغیرہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک کافر شخص قرآن کریم کی کچھ آیتیں سن کر اسلام لانے کی طرف مائل ہوگیا تھا۔ اس کے ایک دوست نے کہا کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا میں آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ دوست نے کہا کہ اگر تم مجھے کچھ پیسے دو تو میں یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ اگر آخرت میں تمہیں عذاب ہونے لگا تو وہ میں اپنے سر لے کر تمہیں بچا لوں گا۔ چنانچہ اس شخص نے کچھ پیسے دے دئیے۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے مزید پیسے مانگے تو اور دے دئیے، لیکن پھر دینا بند کردیا۔ اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک دستاویز لکھ کر دے دی۔ یہ آیات ان دونوں کی حماقت بتا رہی ہیں کہ اول تو جو شخص یہ کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں آخرت کے عذاب سے بچا لوں گا، کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس پر قادر ہوگا؟ دوسرے اللہ تعالیٰ یہ عام قاعدہ بیان فرما رہے ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بات آج پہلی بار نہیں کہی جا رہی، بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام پر جو صحیفے نازل ہوئے تھے، ان میں بھی لکھ دی گئی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:34) واعطی قلیلا : واؤ عاطفہ ہے۔ اعطی قلیلا معطوف۔ اور اس نے تھوڑا مال دیا۔ یعنی مشرک نے ولید کو کچھ مال دیا۔ اور باقی کے دینے میں بخل کر گیا۔ انکاری ہوگیا۔ اکدی ماضی واحد مذکر غائب اکداء (افعال) مصدر جس کے معنی زمین کے پتھر کی طرح سخت نکلنے کے ہیں۔ اکدا اصل میں کدیۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی زمین کے سخت ہونے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں حفر فاکدی اذا بلغ الیٰ کدیۃ ای صلابۃ فی الارض فلم یمکنہ الحفر۔ جب زمین کھودتے وقت پتھریلی چٹان آجائے اور مزید کھدائی ناممکن ہوجائے تو کہتے ہیں حفرفاکدی۔ اس نے زمین کھودی اور نیچے سے چٹان نکل آئی ۔ یہاں آیت ہذا میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تھوڑا سا مال دے کر باقی کی ادائیگی منقطع کردی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 مجاہد ابن زید اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیتیں ایک شخص ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ وہ مسلمان ہوگیا لیکن مشرکین نے اسے عار دلائی کہ تم نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا۔ اس نے کہا مجھے اللہ کے عذاب کا ڈر ہے۔ عار دلانے والے نے کہا تم مجھے اتنا مال دے دو میں تمہارا عذاب اپنے سر لے لوں گا۔ اس پر وہ شرک کی طرف پلٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ سبب نزول اس آیت کا یہ ہے کہ ایک شخص اسلام لے آیا تھا، کسی نے اس کو ملامت کی، اس نے کہا کہ میں عذاب سے ڈرتا ہوں، وہ بولا تو مجھ کو کچھ دے میں تیری طرف سے عذاب اپنے سر رکھوں گا۔ چناچہ کچھ دیا، اس نے اور مانگا، نہایت کشاکشی سے اس نے اور بھی دیا اور بقیہ کی دستاویز مع گواہوں کے لکھ دی۔ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا، ظاہر ہے کہ جس شخص کی ایسی حالت ہو، آیت سب کو شامل ہے

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور تھوڑا سا دیا……اور بند کردیا اور سخت دل ہوگیا۔ کہتے ہیں ولید بن مغیرہ دین حق کی جانب کچھ مائل ہوچلا تھا مشرکوں نے اس کو سمجھایا کہ تو یہ کیا کرتا ہے اس نے کہا خدا کے عذاب سے ڈر لگتا ہے اس پر ایک معتصب مشرک نے کہا کہ اگر عذاب کی نوبت آئی تو میں ضامن ہوتا ہوں کہ تیرا عذاب میں اوٹ لوں گا بشرطیکہ تو اپنے مال میں سے اتنا اتنا مال مجھے دیدے۔ ولید نے ان کی بات مان لی اسلام سے بھی ہٹ گیا اور مشرک کو جس کا نام عاتیہ تھا مال بھی پورا نہ دیا اور بند کردیا اس کو فرمایا کہ آپ نے اس شخص کی حالت کو بھی ملاحظہ فرمایا جس نے پیٹھ پھیری اور اسلام سے روگردانی کی یعنی اسلام سے ہٹ گیا اور جو تھوڑا سا مائل ہوا تھا اس سے لوگوں کے کہنے سننے میں آکر ہٹ گیا اور پھر جو ضامن بنا تھا یعنی عاتیہ اس کو مال بھی نہ دیا۔ مال دینا بند کردیا یا سخت دل ہوگیا۔ دونوں ہی معنی کئے گئے ہیں اکدیٰ حافر البیر کے محاورے سے لیا گیا ہے یعنی کنواں کھودنے والے نے کنواں کھودنا بند کردیا زمین کی سختی کی وجہ سے۔ بہرحال جو وعدہ کیا تھا اس کے موافق مال ادا نہیں کیا اور سخت دل ہوگیا اور بخیل ہوگیا تھوڑا سا دے دیا اور بند کردیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا پھر سخت ہوگیا اس کا دل۔