Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 39

سورة النجم

وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾

And that there is not for man except that [good] for which he strives

اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that man can have nothing but what he does. So just as no soul shall carry the burden of any other, the soul shall only benefit from the good that one earns for himself. As for the Hadith recorded by Muslim in the Sahih, that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِذَا مَاتَ الاِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلَثٍ مِنْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ أَوْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ مِنْ بَعْدِهِ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِه When a person dies, his deeds will cease except in three cases: - - from a righteous son who invokes Allah for him, or - an ongoing charity after his death, or - knowledge that people benefit from. These three things are, in reality, a result of one's own deeds, efforts and actions. For example, a Hadith states, إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِه Verily, the best type of provision that one consumes is from what he himself has earned, and one's offspring are among what he has earned. The ongoing charity that one leaves behind, like an endowment, for example, are among the traces of his own actions and deeds. Allah the Exalted said, إِنَّا نَحْنُ نُحْىِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَاَ قَدَّمُواْ وَءَاثَارَهُمْ Verily, We give life to the dead, and We record that which they send before (them) and their traces. (36:12) The knowledge that one spreads among people which they are guided by is among his actions and deeds. A Hadith collected in the Sahih states, مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الاَْجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْيًا Whoever invites to guidance, he will earn as much reward as those who follow him, without decreasing anything out of their own rewards. Allah said, وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] قانون جزا وسزا کی دفعات :۔ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جزا و سزا کا قانون پوری طرح بتادیا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس قانون کی خبر نہیں پہنچی۔ اور اس قانون کی دفعات یہ تھیں جو ان دو آیات میں مذکور ہیں (١) جزا و سزا کا قانون ناقابل انتقال ہے۔ نہ تو یہ ممکن ہے زید بکر کے گناہ اپنے ذمہ لے لے اور اس طرح بکر چھوٹ جائے جیسا کہ مشرکوں نے معاہدہ کیا تھا۔ بلکہ ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم کی سزا بھگتنا ہوگی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود زید کی سزا بکر کو دے ڈالے اور زید بچ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی کوئی شکل ممکن نہیں اور (٢) ہر شخص کو اپنے کیے کی جزا و سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی جتنا اس نے خود عمل کیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ تاہم کتاب و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کے سارے اعمال کا تعلق اس کی زندگی تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات انسان کی زندگی کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور ان کی سزا یا جزا اسے بعد میں ملتی رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا & دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && جو آدمی ظلم سے ناحق مارا جاتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ سیدنا آدم کے بیٹے (پہلے قاتل، قابیل) پر ڈالا جاتا ہے اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : && اس کے خون کے گناہ کا ایک حصہ۔ کیونکہ روئے زمین پر ناحق خون کی رسم اس نے قائم کی && (بخاری، کتاب الاعتصام، باب اثم من دعا الی۔۔ سن سنۃ سیئۃ) ٣۔ منذر بن جریر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && جس نے اسلام میں کوئی نیک طرح ڈالی اس کے لیے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بوجھ کچھ کم ہو && (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) ٤۔ جن اعمال کا بدلہ موت کے بعد ملتا رہتا ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے سے عذاب ہوتا ہے۔ اور امام بخاری نے عنوان باب میں یہ صراحت کردی کہ && جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو && (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ اذا کان النوح من سنتہٖ ) یعنی جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو اور اس نے اس سے منع نہ کیا ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے کچھ اچھے یا برے عمل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں اور ان کا اسے ثواب یا عذاب ملتا رہتا ہے۔ اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ٥ـ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے دوران قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : && اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے تو ایسے وقت جب کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ وہ اونٹنی پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && ہاں && (بخاری، کتاب المناسک، باب وجوب الحج) ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : && ہاں کرسکتی ہو۔ بھلا دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرضہ ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی اور اللہ تو ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ (بخاری، کتاب المناسک ابو اب العمرۃ باب الحج والنذور عن المیت) ٧۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کیا کہ میری ماں ناگہاں مرگئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرسکتی تو ضرور صدقہ دیتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے ثواب ملے گا ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && ہاں && اور دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے یہ پوچھا تھا کہ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو مجھے ثواب ملے گا ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && ہاں && (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) ٨ ایصال ثواب کا مسئلہ :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ && میرا باپ مرگیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && ہاں && (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) مذکورہ بالا چار احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے میت کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کے لواحقین نے سرانجام دیئے ہیں۔ انہی احادیث سے مشہور و معروف مسئلہ ایصال ثواب مستنبط کیا جاتا ہے جیسا کہ امام مسلم کے عنوان باب سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : ١۔ یہ چاروں احادیث مال و دولت سے تعلق رکھتی ہیں : ٢۔ جن معاملات کا تعلق فرض یا واجب سے ہو ان کو ادا کرنا میت کے لواحقین پر واجب ہے مثلاً میت کے قرض کی ادائیگی، حج اس پر فرض ہو اور وہ نہ کرسکا ہو تو اس کی ادائیگی، اگر کوئی منت مانی ہو تو اس کی ادائیگی اور روزوں کے یا دوسرے کفارے وغیرہ اور وہ دوسرے کے کرنے سے ادا ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ اور اگر ان معاملات کا تعلق محض نفلی صدقات سے ہو تو میت کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں اور اس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے جیسے میت کو ثواب پہنچانے کے لیے اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ ٤۔ ایسے نفلی صدقات کا ثواب میت کو بھی پہنچتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو بھی یعنی دونوں کو ملتا ہے۔ خ بدعت کی تعریف :۔ واضح رہے کہ علماء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ایصال ثواب صرف مالی اور واجب عبادت میں ہی ہوسکتا ہے۔ بدنی اور نفلی عبادات میں نہیں۔ کیونکہ نیابت صرف مالی معاملات میں ہی ہوسکتی ہے بدنی میں نہیں۔ وہ اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ مثلاً && الف && نے && ب && کا کچھ قرضہ دینا ہے اور && الف && کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص مثلاً && ج && && ب && کو && الف && کا قرض ادا کردیتا ہے تو اس کا قرض ادا ہوگیا لیکن اگر && الف && کو مثلاً بھوک لگی ہے تو اس کی یہ بھوک تب ہی دور ہوسکتی ہے جب وہ خود کھانا کھائے کسی دوسرے کے کھانا کھانے سے && الف && کی بھوک کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ لہذا ایصال ثواب کا تعلق بھی انہی معاملات سے ہوسکتا ہے جن میں نیابت ہوسکتی ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک روزوں کی قضا بھی دی جاسکتی ہے اور کفارہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ گویا یہ بھی حج کی طرح مالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی۔ البتہ نمازوں کی نہ قضا دی جاسکتی ہے نہ ہی ان کا کوئی کفارہ ہے۔ اور یہ ہے بھی خالص بدنی عبادت، رہا ایصال ثواب کا مسئلہ تو اس کا تعلق مالی عبادت یعنی صدقہ اور قربانی وغیرہ تک محدود ہے۔ نمازوں یا نفلی روزوں یا نفلی حج وعمرہ سے ایصال ثواب کا تصور درست نہیں۔ اسی طرح قرآن خوانی کی رسم یا رسم قل یا تیجہ یا پانچواں یا دسواں یا چالیسواں یہ سب رسوم باطل اور بدعت ہیں۔ ان کے جواز میں عموماً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ سب بھلائی کے کام ہیں۔ ان میں یا قرآن خوانی ہوتی ہے یا میت کی طرف سے کچھ صدقہ کیا جاتا ہے۔ لہذا ان کا بھی ثواب میت کو پہنچنا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت کے سارے کام ہی بھلائی کے کام سمجھ کر شروع کیے جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے کوئی کام برا سمجھ کر بدعت نہیں نکالی۔ دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ دور نبوی یا دور صحابہ میں وہ کام ہوا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ کہ کیا اس دور میں یہ کام کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود تھی ؟ پھر جب اس دور میں کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو اور اس کے باوجود صحابہ نے وہ کام نہ کیا ہو اس کو اگر کار ثواب یا دین کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ یقیناً بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور اس کا انجام جہنم ہے۔ خ بدعت کی اقسام :۔ پھر بعض لوگوں نے تو اس بدعت کی بھی وہی پانچ قسمیں بنا ڈالی ہیں جو تکالیف شرعیہ کی ہیں۔ یعنی کچھ بدعتیں واجب ہیں، کچھ مستحب، کچھ مباح کچھ مکروہ اور کچھ حرام اور بعض لوگوں نے صرف دو قسمیں بنائی ہیں۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدعت کی کوئی تقسیم بیان نہیں فرمائی اور علی الاطلاق فرمایا کہ ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے۔ یہ حضرات بدعت حسنہ یا واجب بدعت کی مثال یہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو جمع نہیں کیا تھا بعد میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے جمع کیا اور بدعت مستحب کی مثال تراویح کی نماز باجماعت ہے۔ جو سیدنا عمر نے شروع کرائی تھی اور تراویح کی جماعت دیکھ کر فرمایا تھا کہ نعم البدعۃ ھذہٖ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام دور صحابہ میں اجماع سے طے پا گیا اس پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہی نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے قرآن کو جمع کرنا گمراہی کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ایسی ضرورت کو استصلاح کہتے ہیں بدعت حسنہ یا بدعت واجبہ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور تراویح کی جماعت کی اصل دور نبوی میں ثابت ہے۔ نماز تراویح بھی اور اس کی جماعت بھی آپ نے تین دن کرائی تھی۔ اور سیدنا عمر نے اسے بدعت کا نام دیا تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے تھا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے نہ تھا۔ بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے۔ && مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہ، فَھُوَرَدّ && (مسلم، کتاب الاقضیہ۔ باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور) (یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین کے کام میں کوئی نئی بات نکالی جس کی اصل اس میں موجود نہ تھی وہ مردود ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد مبارک میں اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شریک کیا۔ لہذا بدعت کا اطلاق اس کام پر ہوگا جس کا وجود دور صحابہ میں نہ ملتا ہو اور اس کام کے کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور اسے دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔ بعض اہل بدعت یہ مغالطہ بھی دیتے ہیں کہ دو رنبوی یا دور صحابہ میں مسجدوں میں نہ کلاک لگائے جاتے تھے نہ قالین یا میٹ یا بلب یا ٹیوبیں یا صفیں بچھائی جاتی تھیں اور یہ کام دین کا اور ثواب کا کام سمجھ کر کیے جاتے ہیں تو کیا یہ بدعت ہوں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا تعلق ایجادات سے ہے شریعت سے نہیں اور یہ چیزیں اس دور میں موجود ہی نہ تھیں۔ اور بدعت کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز اس دور میں ہوسکتی ہو مگر اس کے باوجود آپ نے یا صحابہ نے نہ کی ہو وہ بدعت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وان لیس للانسان الا ما سعی : یعنی جس طرح کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا جائے گا اسی طرح اسے اجر و ثواب بھی انہی اعمال کا ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں ۔ یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن و حدی سے ثابت ہے کہ آدمی کو دوسروں کے نیک اعمال سے فائدہ پہنچتا ہے ، مثلاً گناہ گاروں کے لیے انبیاء ، فرشتوں اور صالحین کی شفاعت ، مردوں کے لیے زندوں کی دعا دیکھئے (مومن ٨، حشر : ١) اور باپ کے عمل سے اولاد کے درجوں کا بلند ہونا تو قرآن سے ثابت ہے (دیکھئے طور : ٢١) اور میت کی طرف سے صدقہ ، صیام اور حج وغیرہ کا نافع ہونا حدیث سے ثابت ہے ، تو اس آیت کے ساتھ اس کی مطابقت کیسے ہوگی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی شخص کے لیے نافع ہوگا جو ایمان لے آیا ، کافر کو ان میں سے کوئی چیز نفع نہیں دے گی ۔ ایمان کے بعد ان چیزوں کا نافع ہونا اس کی اپنی سعی یعنی ایمان ہی کی برکت اور اسی کا نتیجہ ہے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب سے کہا تھا :(ای علم ! قل لا الہ الا اللہ ، کلمۃ احاج لک بھا عند اللہ) (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قصۃ ابی طالب : ٣٨٨٤)” اے چچا ! تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ لے ، میں اس کلمے کے ساتھ تیری خاطر اللہ تعالیٰ کے پاس جھگڑوں گا “۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا :(یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم) ( الشعرائ : ٨٨، ٨٩) ” جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی و الا دل لے کر آیا “۔ کفر و شرک سے سلامت دلے والے کو وہاں اس کے بیٹے بھی کام آئیں گے جو اس کے بعد اعمال صالحہ کرتے رہے اور اس کے لیے دعا کرتے رہے اور اس کا مال بھی جو صدقہ جاریہ کی صورت میں اس کے نامہ ٔ اعمال میں ثبت ہوتا رہا ۔ بلند درجے والے مومن والدین کے ساتھ ان کی اسی اولاد کو ملایا جائے گا جو ایمان کی نعمت رکھتے ہوں گے ، خواہ کسی بھی درجے کا ہو۔ دیکھئے سورة ٔ طور (٢١) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second injunction is contained in verse [ 39[وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (and that a man does not deserve but [ the reward of ] his own effort,....53:39) The summary of this verse is that just as no person shall carry the burden of sin of any other, so shall he benefit only from the good that he himself has done. It is not the case that a person performs a righteous act instead of someone else, and the latter is absolved of his responsibility. For example, if a person performs the obligatory prayers and fasts on behalf of somebody else, the latter will not be absolved of his religious duties and obligations. He is still liable for them. Likewise, if a person embraces faith on behalf of somebody else, the latter cannot be regarded as a believer. Thus interpreted, no juristic problems arise in connection with this verse. However, some superficial questions do arise regarding Hajj and Zakah. In times of necessity Shari` ah permits to perform Hajj on behalf of somebody else, or pay Zakah on his behalf with his permission. How is this possible? A careful analysis of the two situations does not pose any problem: In the case of Hajj-e-Badal, the sender of a person to perform this type of pilgrimage bears the expenses himself, 2 and thus it is his [ the sender&s ] own act for which he will be rewarded. In the case of Zakah, appointing someone to pay is also the act of the person who made the appointment, and not that of the appointee. Therefore, the two cases are not in conflict with verse [ 39]. (2). It should be kept in mind that this is allowed only when one is unable to perform Hajj due to a physical constraint, and therefore his obligation becomes limited to sending someone else with his own expense. (Muhammad Taqi Usmani) Offering Reward of Good Deeds to others In the foregoing section we have explained that verse [ 39] means that no person can perform an obligatory act, such as faith, prayers and fasts, on behalf of some other person to free him of his religious duties. He will be able to benefit only from the good he himself has done. This, however, does not imply that a person cannot perform supererogatory acts and proffer their reward to someone else. There is ample textual evidence of Shari&ah that a person can supplicate or give charity or do any other good deed and proffer its reward to others. Further, there is an overwhelming consensus of the Ummah on this issue. (Ibn Kathir) However, only Imam Shafi` i (رح) differs on this issue. He says that the reward of recitation of the Qur&an cannot be proffered to anyone else. He takes the above verse in a general sense and argues that the rewards of the purely bodily acts of worship, such as the prayer, fasting and recitation of the Qur&an and so on, cannot be passed on to any other person. According to Imam Abu Hanifah (رح) and majority of the leading jurists, it is permissible. They are that just as it is possible to pray for and proffer the reward of charity to another person, so likewise it is possible to recite the Qur&an and perform other voluntary prayers to pass the reward to another person who will receive it. Qurtubi says, in his Tafsir, a large number of Traditions bear testimony to the fact that a believer will receive the reward of the righteous acts of another person. Tafsir Mazhari has, on this occasion, collected all the relevant Traditions which prove that another person does receive the benefit of اِیصِالِ ثَوَاب Isal-e-Thawab (proffering the reward of good acts). The foregoing verses have elaborated on two issues with reference to the scriptures of Prophets Musa and Ibrahim (علیہما السلام) [ 1] No one will bear the burden of another&s sin and punishment; and [ 2] No one shall be freed of his Shar’ i obligations, unless he himself performs them. These two rules of law were available in the Shari’ ah of all the Prophets. However, they are especially mentioned in relation to Musa and Ibrahim (علیہما السلام) probably because in their days an evil custom had taken deep root that the son used to be killed instead of the father; and father, brother, sister or some other member of the family used to be killed instead of the son. The Shari’ ah of these prophets abolished all the evil customs of the Dark Age.

دوسرا حکم ہے (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى) اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کوئی دوسرے کا عذاب اپنے سر نہیں لے سکتا، اسی طرح کسی کو یہ بھی حق نہیں کہ کسی دوسرے کے عمل کے بدلے خود عمل کرے لے اور وہ اس عمل سے سبکدوش ہوجائے، مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے نماز فرض ادا کر دے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور وہ دوسرا اپنے فرض نماز و روزے سے سبکدوش ہوجائے، یا یہ کہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کرلے اور اس سے اس کو مومن قرار دیا جائے۔ آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال اور شبہ عائد نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ سے زیادہ شبہ حج اور زکوٰة کے مسئلہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرسکتا ہے یا دوسرے کی زکوٰة اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے صحیح نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوٰة ادا کردینے کے لئے مامور کردینا بھی در حقیقت اس شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جز ہے، اس لئے لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى کے منافی نہیں۔ ایصال ثواب کا مسئلہ : جبکہ اوپر یہ معلوم ہوچکا کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان و نماز و روزہ کو ادا کر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے (ابن کثیر) صرف اس مسئلہ میں امام شافعی کا اختلاف ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب کسی دوسرے کو بخشا اور پہنچایا جاسکتا ہے یا نہیں، امام شافعی اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت مذکورہ کا مفہوم عام لے کر اس سے استدلال فرماتے ہیں، جمہور ائمہ اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جس طرح دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے کو پہنچایا جاسکتا ہے اسی طرح تلاوت قرآن اور ہر نفلی عبادت کا ثواب دوسرے شخص کو بخشا جاسکتا ہے اور وہ اس کو ملے گا، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں کہ مومن کو دوسرے شخص کی طرف سے عمل صالح کا ثواب پہنچتا ہے، تفسیر مظہری میں اس جگہ ان احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔ اوپر صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کے حوالے سے جو دو مسئلے بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ ایک شخص کے گناہ کا عذاب کسی دوسرے کو نہیں پہنچے گا اور ایک کے گناہ میں دوسرا کوئی نہ پکڑا جائے گا، دوسرا یہ کہ ہر شخص پر جن اعمال کی شرعی ذمہ داری ہے اس سے سبکدوشی خود اسی کے اپنے عمل سے ہوگی، دوسرے کا عمل اس کو سبکدوش نہ کرے گا۔ یہ دونوں حکم اگرچہ دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی تھے مگر حضرت موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کی خصوصیات شاید اس بناء پر کی گئی کہ ان کے زمانہ میں یہ جاہلانہ رسم جاری ہوگئی تھی کہ باپ کے بدلے میں بیٹے کو اور بیٹے کے بدلے میں باپ کو یا بھائی بہن وغیرہ کو قتل کردیا جاتا تھا، ان دونوں بزرگوں کی شریعتوں نے اس رسم جاہلیت کو مٹایا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝ ٣٩ ۙ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وان لیس للانسان الا ماسعی، اور انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی) یہ بھی مذکورہ بالا آیتوں کے ہم معنی ہے۔ اس آیت سے ایک آزاد اور عاقل بالغ شخص کے تصرفات پر پابندی لگانے کے ابطال کے سلسلے میں انسان کا اپنے غیر پر تصرف کے جواز کے امتناع پر استدلال کیا جاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩۔ ٤٠) اور انسان نے دنیا میں جو نیکی اور برائی کی ہے آخرت میں صرف اس کو اسی کی کمائی ملے گی اور یہ کہ انسان کے اعمال اس کی میزان میں بہت جلدی دیکھے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩{ وَاَنْ لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ۔ } ” اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی ہوگی۔ “ انسان کو جو کچھ کرنا ہوگا اپنی محنت اور کوشش کے بل پر کرنا ہوگا ‘ خواہشوں اور تمنائوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ قبل ازیں آیت ٢٤ میں سوال کیا گیا تھا کہ ” کیا انسان کو وہی کچھ مل جائے گا جس کی وہ تمنا کرے گا ؟ “ یہ آیت گویا مذکورہ سوال کا جواب ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 From this verse also three important principles are derived: (1) That every person will get only the fruit of his own deeds; ,(2) that the fruit of one man's deeds cannot be given to another unless he has a share in that deed, and (3) that none can attain anything without striving for it. Some people wrongly apply these three principles to the economic problems of the world and conclude that no person can become the lawful owner of anything except of his own earned income. But this conclusion clashes with several laws and injunctions given by the Qur'an itself, e.g. the law of inheritance, according to which many individuals inherit a person and are regarded as his lawful heirs, whereas the heritage is not their earned income. As for a suckling for instance, it cannot be proved by any stretch of imagination that its labour had any share in the wealth left by its father. Likewise, there arc the injunctions about the zakat and voluntary charities according to which the wealth of one man is transferred to others only on the basis of their legal and moral entitlement and they become its lawful owners, whereas in the production of this wealth they did not make any contribution at aII. Thus, it is against the intention of the Qur'an to take a verse of it and derive from it such conclusions as clash with the other teachings of the Qur'an itself. Some other people regard these principles as concerning the Hereafter and raise the question whether, according to these principles, the deeds of one man can in some way be also beneficial for the other person, and whether the deeds of a person which he dces for another person, or on his behalf, can be accepted from him, and whether it is also possible that a person may transfer the reward of his act to another. If the answer to these questions be in the negative the sending of spiritual rewards (isal thawab) for the dead and performing Hajj on behalf of another, would be inadmissible; even the prayer of forgiveness for the other person would be meaningless, for this prayer also is not the concerned person's own act and decd. However, this extreme point of view has been adopted by none among the followers of Islam except the Mu`tazilites. Only they take this verse in the meaning that one man's acts and deeds can in no case be beneficial for the other. On the contrary, the followers of the Sunnah are unanimous that the prayer of one man is beneficial for the other because it is confirmed by the Qur'an; however, they differ only in details, and not in principles, as to whether the sending of spiritual rewards for another and doing a good work on behalf of another is beneficial or not. (1) The tern isal thawab means that after a person has performed a good act, he may pray to Allah to grant its rewards to another. In this regard, Imam Malik and Imam Shafe'i have expressed the opinion that the rewards of the pure bodily acts of worship, e.g, the Prayer, the Fasting and recitals of the Qur'an, etc. cannot reach the other person; however, the rewards of one's monetary acts of worship, e.g. charities, or Hajj, which is a combination of the monetary and bodily worships, can reach the other, for the principle is that one man's act should not be beneficial for the other. But since according to authentic Ahadith the rewards of charities can be conveyed and Hajj on behalf of another also can be performed, they admit the permissibility of conveying of rewards to the extent of this kind of the acts of worship only. On the contrary, the Hanafi viewpoint is that a man can send the reward of each of his virtuous acts as a gift to the other, whether it is the Prayer, or the Fast, or the recitation of the Qur'an, or remembrance of Allah, or charity, or Hajj and `Umrah. The argument is that just as a man after carrying out a piece of work can tell the master to pay the wages to such and such other person instead of him, so after performing a good deed also he can pray to Allah to grant its rewards to such and such other person instead of him. In this there is no rational ground for making exception of some kinds of virtues and keeping it restricted to some other kinds of virtues. The same is confirmed by a large number of the traditions: A Tradition, on the unanimous authority of Hadrat 'A'ishah, Hadrat Abu Hurairah, Hadrat Jabir bin 'Abdullah. Hadrat Abu Rafi', Hadrat Abu Talhah Ansari and Hudhaifah bin Usaid al-Ghifari has been reported in Bukhari, Muslim. Musnad Ahmad, Ibn Majah, Tabari (in Awsat, Musradrik and Ibn Abi Shaibah saying that the Holy Prophet (upon whom be peace) got two rams and sacrificed one on behalf of himself and his family and the other on behalf of his, Ummah. Muslim, Bukhari, Musnad Ahmad, Abu Da'ud and Nasa'i have related a Tradition from Hadrat 'A'ishah to the effect that a person said to the Holy Prophet: "My mother has died suddenly. I think if she had a chance to speak, she would have asked me giving away something in charity. Now, if I give away something in charity on her behalf, will she get a reward for it ?" The Holy Prophet replied: "Yes, she will. " In Musnad Ahmad there is a Tradition from Hadrat 'Abdullah bin 'Amr bin 'As to the effect. that his grandfather, `As bin Wail, had vowed in the preIslamic days of ignorance to sacrifice 100 camels. His uncle, Hisham bin 'As, sacrificed fifty camels of his own share. Hadrat 'Amr bin 'As, asked the Holy Prophet as to what he should do. The Holy Prophet replied: "If your father had affirmed faith in the Oneness of God, you may observe fasts on his behalf. or give something in charity: this would be beneficial for him." A Tradition has been reported in Musnad Ahmad, Abu Da'ud, Nasa'i and Ibn Majah, on the authority of Hadrat Hasan Basri, to the effect that Hadrat Sa'd bin 'Ubadah asked the Holy Prophet: "My mother has died. Should I give something in charity on her behalf?" The Holy Prophet replied in the affirmative. Several other traditions bearing on the same subject also have been related in Bukhari, Muslim, Musnad Ahmad, Nasa'i, Tirmidhi, Abu Da'ud, Ibn Majah, etc. on the authority of Hadrat 'A'ishah, Hadrat Abu Hurairah and Hadrat Ibn 'Abbas, According to which the Holy Prophet permitted giving away of something in charity on behalf of the deceased person describing it as beneficial for him. According to Daraqutni a person said to the Holy Prophet: ''I have been serving my parents while they were alive; what should I do now when they are dead?" The Holy Prophet replied; "This would also be their service if you offered the Prayer on their behalf along with your own Prayers, and observed the Fast on their behalf along with your own Fast." Another tradition in Daraqutni has been related from Hadrat `Ali according to which the Holy Prophet said: "If a person passing by the graveyard recites "Qul huwallah-u ahad" eleven times and gives away its reward for the dead, all the dead ones will be granted their due shares of the rewards. " This large number of the traditions which support one another explicitly state that the transfer of the spiritual rewards is not only possible but rewards of aII kinds of acts of worship and virtuous deeds can be sent and conveyed and in it there is no specification of any particular kind of acts and deeds. In this connection, however, four things should be understood well: First, that the reward of that act only can be transferred, which may have been performed purely for the sake of Allah and according to the Shari'ah injunctions; otherwise obviously an act which is performed for the sake of another than Ailah, or in contravention of the Shari 'ah injunctions, cannot even entitle its doer himself to any reward, nothing to say of its transfer to another person. Secondly, the gift of the rewards will certainly reach those righteous persons who are staying as guests with AIIah, but no rewards are expected to reach those culprits who are placed in confinement there. The gift can reach the guests of AIlah but the criminals of Allah cannot be expected to receive it. If a person sends his rewards to him because of a misunderstanding, it will not go waste but instead of reaching the culprit it will return to the actual worker himself just like the money-order which returns to the sender in case it does not reach the one to whom it has been sent. Thirdly, the transfer of the reward is possible but not the transfer of punishment. That is, it is possible that one may do a good deed and may willingly transfer its reward to the other and it reaches him, but it is not possible that one may commit a sin and transfer its punishment to the other and it reaches him, The fourth thing is that a virtuous act s beneficial in two ways: First, on account of its those results which accrue to the soul and morality of the doer himself because of which he becomes worthy of a reward in the sight of Allah; second, on account of the reward which Allah grants him as a gift and favour. The transfer of the spiritual reward does not concern the first but only the second. This can be understood by an example. A person tries to attain proficiency in the art of wrestling by constant practice. The strength and skill thus gained is in any way specially meant for his own self; it cannot be transferred to another. Similarly, if he is attached to a royal court, and there is a stipend fixed for him as a wrestler, he alone will receive it and no one else. However, in respect of the prizes and gifts that his patron may like to grant him as an appreciation for his creditable performance, he may request that they may be given to his coach, or parents, or some other benefactor, on his behalf. The same is the case with the virtuous deeds: their spiritual benefits are not transferable and their rewards also cannot be transferred to another, but as for their rewards and gifts he can pray to AIIah that these may be granted to a near and dear one, or a benefactor of his. That is why it is termed as isal thawab (conveying of spiritual rewards) and not as isal jaza' (conveying of material reward). (2) Another form of a person's work being beneficial for another is that one should either do a virtuous deed on the desire or beckoning of another, or without his desire or beckoning, on his behalf, which, in fact, was obligatory for him to carry out, but which he was unable to carry out himself. In this regard, the Hanafi jurists say that the acts of worship are of three kinds: purely physical, e.g. the Prayer; purely monetary, e.g. the zakat; and the compound acts of bodily and monetary worship, e.g. Hajj. As for the first kind, nobody can act as an agent of another. As for the second kind, one can act as an agent of the other, e.g. the husband can pay the zakat due on the ornaments of the wife. As for the third kind, one can act as an agent of the other only in case the actual person on whose behalf the act is being performed, is permanently, and not just temporarily, unfit to carry out his obligation himself. For example, Hajj can be performed on behalf of another only in case the person concerned . is unable to go for Hajj himself nor-may have the hope that he would ever be able to perform it himself. The Malikis and the Shafe is also concur on, this, However, Imam Malik lays down the condition that if the father has willed that his son should perform Hajj after him, on his behalf, the son can perform Hajj on his father's behalf, otherwise not, But the traditions in this regard are very explicit. Whether the father has expressed the desire, or made a will or not, the son can perform Hajj on his behalf. Ibn 'Abbas has related that a woman _from the tribe of Khath'am said to the Holy Prophet: "The command for Hajj has reached my father at a time when he has become very old: he cannot even sit on the camel's back. " The Holy Prophet replied: "You then may perform Hajj on his behalf. " (Bukhari, Muslim, Ahmad, Tirmidi, Nasa'i). A tradition bearing on the same subject has also been related by Hadrat 'AIi. (Ahmad, Tirmidhi). Hadrat 'Abdullah bin Zabair has made mention of a tnan of the same tribe of Khath'am, who also put a similar question to the Holy Prophet concerning his aged father. The Holy Prophet asked: 'Are you his eldest son ?" He answered in the affirmative. Thereupon the Holy Prophet said "If your father had left behind a debt and you paid it off, would it stand paid on his behalf?" He replied that it would. The Holy Prophet said: "Then you should likewise perform Hajj also on his behalf." (Ahmad, Nasa'i). Ibn 'Abbas relates that a woman from the tribe of Juhainah came to the Holy Prophet and said: "My mother had vowed to perform Hajj but she died before performing her vow. Now, can I perform Hajj on her behalf ?" The Holy Prophet replied: "If your mother had left behind a debt, would you not have paid it? Likewise, you should also discharge the vow made to Allah, and Allah has a greater right that the vows made to Him be performed." (Bukhari, Nasa'i). Bukhari and Musnad Ahmad contain another tradition to the effect that a man came and put the same question to the Holy Prophet concerning his sister as has been mentioned above, and the Holy Prophet gave him also the same answer. These traditions provide a clear proof that so far as the compound acts of bodily and monetary worships are concerned, one can act on behalf of another. As for the purely bodily acts of worship, there are some Ahadith which prove the permissibility of acting on behalf of another in this kind of worship as well. For example, Ibn 'Abbas has related that a woman from the tribe of Juhainah asked the Holy Prophet: 'My mother had vowed to observe the Fast and she died without performing her vow. Now, can I observe the Fast on her behalf?" The Holy Prophet replied: "Observe the Fast on her behalf." (Bukhari, Muslim, Ahmad, Abu Da'ud). And Hadrat Buraidah's tradition that a woman asked concerning her mother: "She had one month's (according to another tradition two months') Fasts to observe; can I observe those Fasts on her behalf?" The Holy Prophet said that she could." (Muslim, Ahmad, Tirmidhi, Abu Da'ud). And Hadrat 'A'ishah's tradition that the Holy Prophet said: °If a person dies and he had some Fasts to observe, his guardian should observe those Fasts on his behalf." (Bukhari, Muslim, Ahmad). In the tradition related by Bazzar the Holy Prophet's words are to the effect: "If his guardian may so like, he may observe those Fasts on his behalf). " On the basis of these very traditions the Ashab al- Hadith and Imam Auza'i and the Zahiris have formed the view that one is permitted to perform bodily acts of worship also on behalf of the other. But Imam Abu Hanifah, Imam Malik, Shafe'i and Imam Zaid bin 'Ali have given the ruling that a fast cannot be observed on behalf of a dead person, and Imam Ahmad, Imam Laith and Ishaq bin Rahawaih opine that this can be done only in case the deceased person might have so vowed but might not have been able to perform his vow. Those who oppose this give the argument that the reporters of the Ahadith, which prove its permissibility, have themselves given their rulings against it. Ibn 'Abbas's ruling has been related by Nasa'i, thus: "No one should offer a Prayer or observe a Fast on behalf of another." And Hadrat 'A'ishah's ruling, according to 'Abdur Razzaq, is: "Do not observe the Fast on behalf of your dead ones; feed (the needy) instead." The same has been related from Hadrat 'Abdullah bin 'Umar also by 'Abdur Razzaq that the Fast should not be observed on behalf of the deceased person. This shows that in the beginning it was permissible to perform acts of bodily worship on behalf of others, but the practice that became established in the end was that it was not permissible to do so; otherwise it was not possible that those who have reported these Ahadith from the Holy Prophet, should have themselves given rulings against them. In this connection, it should be understood well that fulfilment of an obligation on behalf of another can be beneficial only to those people who have themselves been keen and desirous of fulfilling their obligations and might have been unable to do so being rendered helpless by circumstances. But a person who deliberately shirked going for Hajj although he had the necessary means for it and had no feeling whatever of this obligation in his heart either, cannot be benefited even if several Hajj be performed on his behalf afterwards. This would be analogous to the case of a person who deliberately avoided paying his debts and had no intention to pay them till the last. Afterwards even if every penny is paid off on his behalf, he would remain a debtor in the sight of AIIah. The payment of the debts by another can relieve only such a person who in his lifetime was desirous of paying off his debts but was unable to do so due to straitened circumstances.

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :38 اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا ۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پا سکتا الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو ۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا ۔ ان تین اصولوں کو بعض لوگ دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی ( Earned Income ) کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہو سکتا ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید ہی کے دیے ہوئے متعدد قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے ۔ مثلاً قانون وراثت ، جس کی رو سے ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں درآں حال یہ کہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی ، بلکہ ایک شیر خوار بچے کے متعلق تو کسی کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا ۔ اسی طرح احکام زکوٰۃ و صدقات ، جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں ، حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہوں ، قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہے ۔ بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لیے کسی صورت میں بھی نافع ہو سکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لیے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کر سکے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہو جاتے ہیں ، بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار بھی بے معنی ہو جاتی ہے ، کیونکہ یہ دعا بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جائے ۔ مگر یہ انتہائی نقطہ نظر معتزلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی نے اختیار نہیں کیا ہے ۔ صرف وہ اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لیے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہو سکتی ۔ بخلاف اس کے اہل سنت ایک شخص کے لیے دوسرے کی دعا کے نافع ہونے کو تو بالاتفاق مانتے ہیں کیونکہ وہ قرآن سے ثابت ہے ، البتہ ایصال ثواب اور نیابۃً دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں بلکہ صرف تفصیلات میں اختلاف ہے ۔ ( 1 ) ۔ ایصال ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کوئی نیک عمل کر کے اللہ سے دعا کرے کہ اس کا اجر و ثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے ۔ اس مسئلے میں امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات ، مثلاً نماز ، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا ، البتہ مالی عبادات ، مثلاً صدقہ ، یا مالی و بدنی مرکب عبادات ، مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے ، کیونکہ اصل یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے نافع نہ ہو ، مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جا سکتا ہے اور حج بدل بھی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں ۔ بخلاف اس کے حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر سکتا ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن یا ذکر یا صدقہ یا حج و عمرہ ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دی جائے ، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر سکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کر دیا جائے ۔ اس میں بعض اقسام کی نیکیوں کو مستثنیٰ کرنے اور بعض دوسری اقسام کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ۔ یہی بات بکثرت احادیث سے بھی ثابت ہے : بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن ماجہ ، طبرانی ( فی الاوسط ) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ ، حضرت ابو ہریرہ حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو رافع ، حضرت ابو طلحہ انصاری ، اور حذیفہ بن اُسید الغفاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ۔ مسلم ، بخاری ، مسند احمد ، ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کو موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں ۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں ۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی ۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیے ۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں کیا کروں ۔ حضور نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کر لیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو ، وہ ان کے لیے نافع ہو گا ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات بھی حضرت عائشہ ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت بن عباس سے بخاری ، مسلم مسند احمد ، نسائی ترمذی ، ابوداؤد او ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لیے نافع بتایا ہے ۔ دار قطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں ، ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں؟ فرمایا یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھ ۔ ایک دوسری روایت دار قطنی میں حضرت علی سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کر دیا جائے گا ۔ یہ کثیر روایات جو ایک دوسری کی تائید کر رہی ہیں ، اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے ، بلکہ ہر طرح کی عبادت اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہو سکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے ۔ مگر اس سلسلے میں چار باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ ایصال اسی عمل کے ثواب کا ہو سکتا ہے جو خالصۃً اللہ کے لیے اور قواعد شریعت کے مطابق کیا گیا ہو ، ورنہ ظاہر ہے کہ غیر اللہ کے لیے یا شریعت کے خلاف جو عمل کیا جائے اس پر خود عمل کرنے والے ہی کو کسی قسم کا ثواب نہیں مل سکتا ، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں صالحین کی حیثیت سے مہمان ہیں ان کو تو ثواب کا ہدیہ یقیناً پہنچے گا مگر جو وہاں مجرم کی حیثیت سے حوالات میں بند ہیں انہیں کوئی ثواب پہنچنا متوقع نہیں ہے ۔ اللہ کے مہمانوں کو ہدیہ تو پہنچ سکتا ہے ، مگر امید نہیں کہ اللہ کے مجرم کو تحفہ پہنچ سکے ۔ اس کے لیے اگر کوئی شخص کسی غلط فہمی کی بنا پر ایصال ثواب کرے گا تو اس کا ثواب ضائع نہ ہو گا بلکہ مجرم کو پہنچنے کے بجائے اصل عامل ہی کی طرف پلٹ آئے گا ۔ جیسے منی آرڈر اگر مرسل الیہ کو نہ پہنچے تو مرسل کو واپس مل جاتا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں ہے ۔ یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لیے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے ، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخشے اور وہ اسے پہنچ جائے ۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ نیک عمل کے دو فائدے ہیں ۔ ایک اس کے وہ نتائج جو عمل کرنے والے کی اپنی روح اور اس کے اخلاق پر مترتب ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں بھی جزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ دوسرے اس کا وہ اجر جو اللہ تعالیٰ بطور انعام اسے دیتا ہے ۔ ایصال ثواب کا تعلق پہلی چیز سے نہیں ہے بلکہ صرف دوسری چیز سے ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ورزش کر کے کشتی کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے جو طاقت اور مہارت اس میں پیدا ہوتی ہے وہ بہرحال اس کی ذات ہی کے لیے مخصوص ہے ۔ دوسرے کی طرف وہ منتقل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح اگر وہ کسی دربار کا ملازم ہے اور پہلوان کی حیثیت سے اس کے لیے ایک تنخواہ مقرر ہے تو وہ بھی اسی کو ملے گی ، کسی اور کو نہ دے دی جائے گی ۔ البتہ جو انعامات اس کی کارکردگی پر خوش ہو کر اس کا سرپرست اسے دے اس کے حق میں وہ درخواست کر سکتا ہے کہ وہ اس کے استاد ، یا ماں باپ ، یا دوسرے محسنوں کو اس کی طرف سے دے دیے جائیں ۔ ایسا ہی معاملہ اعمال حسنہ کا ہے کہ ان کے روحانی فوائد قابل انتقال نہیں ہیں ، اور ان کی جزا بھی کسی کو منتقل نہیں ہو سکتی ، مگر ان کے اجر و ثواب کے متعلق وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکتا ہے کہ وہ اس کے کسی عزیز قریب یا اس کے کسی محسن کو عطا کر دیا جائے ۔ اسی لیے اس کو ایصال جزا نہیں بلکہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے ۔ ( 2 ) ۔ ایک شخص کی سعی کے کسی اور شخص کے لیے نافع ہونے کی دوسری شکل یہ ہے کہ آدمی یا تو دوسرے کی خواہش اور ایماء کی بنا پر اس کے لیے کوئی نیک عمل کرے ، یا اس کی خواہش اور ایماء کے بغیر اس کی طرف سے کوئی ایسا عمل کرے جو دراصل واجب تو اس کے ذمہ تھا مگر وہ خود اسے ادا نہ کر سکا ۔ اس کے بارے میں فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ عبادات کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک خالص بدنی ، جیسے نماز ۔ دوسری خالص مالی ، جیسے زکوٰۃ ۔ اور تیسری مالی و بدنی مرکب ، جیسے حج ۔ ان میں سے پہلی قسم میں نیابت نہیں چل سکتی ، مثلاً ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص نیابۃً نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ دوسری قسم میں نیابت ہو سکتی ہے ، مثلاً بیوی کے زیورات کی زکوٰۃ شوہر دے سکتا ہے ۔ تیسری قسم میں نیابت صرف اس حالت میں ہو سکتی ہے جبکہ اصل شخص جس کی طرف سے کوئی فعل کیا جا رہا ہے ، اپنا فریضہ خود ادا کرنے سے عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر عاجز ہو ، مثلاً حج بدل ایسے شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جو خود حج کے لیے جانے پر قادر نہ ہو اور نہ یہ امید ہو کہ وہ کبھی اس کے قابل ہو سکے گا ۔ مالکہ اور شافیہ بھی اس کے قائل ہیں ۔ البتہ امام مالک حج بدل کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر باپ نے وصیت کی ہو کہ اس کا بیٹا اس کے بعد اس کی طرف سے حج کرے تو وہ حج بدل کر سکتا ہے ورنہ نہیں ۔ مگر احادیث اس معاملہ میں بالکل صاف ہیں کہ باپ کا ایما یا وصیت ہو یا نہ ہو ، بیٹا اس کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے ۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ قبیلہ خُثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضہ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے ، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتا ۔ آپ نے فرمایا فحُجّی عنہ ، تو اس کی طرف سے تو حج کر لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، نسائی ، ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت حضرت علی نے بھی بیان کی ہے ( احمد ، ترمذی ) ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر قبیلہ خثعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے بھی اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا ۔ حضور نے پوچھا کیا تو اس کا سب سے بڑا لڑکا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا : ارایت لو کان علیٰ ابیک دین فقضیتہ عنہ اکان یجزی ذٰلک عنہ؟ تیرا کیا خیال ہے ، اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کر دے تو وہ اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا: فَاحْجُجْ عنہ ۔ بس اسی طرح تو اس کی طرف سے حج بھی کر لے ۔ ( احمد ۔ نسائی ) ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مر گئی ، اب کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہ کر سکتی تھی؟ اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو ، اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد پورے کیے جائیں ( بخاری ۔ نسائی ) ۔ بخاری اور مسند احمد میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ایک مرد نے آ کر اپنی بہن کے بارے میں وہی سوال کیا جو اوپر مذکور ہوا ہے اور حضور نے اس کو بھی یہی جواب دیا ۔ ان روایات سے مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے ۔ رہیں خالص بدنی عبادات تو بعض احادیث ایسی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں بھی نیابت کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً ابن عباس کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور سے پوچھا میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کیے بغیر مر گئی ، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور نے فرمایا اس کی طرف سے روزہ رکھ لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ، نسائی ۔ ابوداؤد ) ۔ اور حضرت بریدہ کی یہ روایت کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے ( یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے ) کے روزے تھے ، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی ( مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ) ۔ اور حضرت عائشہ کی روایت کہ حضور نے فرمایا من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ ، جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اسکا ولی وہ روزے رکھ لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ۔ بزار کی روایت میں حضور کے الفاظ یہ ہیں کہ فلیصم عنہ ولیہ ان شاء ۔ یعنی اس کا ولی اگر چاہے تو اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لے ) ۔ انہی احادیث کی بنا پر اصحاب الحدیث اور امام اَوزاعی اور ظاہریہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جا سکتا ہے جبکہ مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکا ہو ۔ مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ لا یصل احد عن احدٍ ولا یصم احد عن احد ، کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے ۔ اور حضرت عائشہ کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ لا تصوموا عن موتٰکم و اطعموا عنہم ، اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ کھانا کھلاؤ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہ رکھا جائے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی ، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ احادیث نقل کی ہیں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیتے ۔ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃً کسی فریضہ کی ادائیگی صرف ان ہی لوگوں کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جو خود ادائے فرض کے خواہش مند ہوں اور معذوری کی وجہ سے قاصر رہ گئے ہوں ۔ لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا ، اس کے لیے خواہ کتنے ہی حج بدل کیے جائیں ، وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہو سکتے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار کھایا اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا ۔ اس کی طرف سے خواہ بعد میں پائی پائی ادا کر دی جائے ، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے والا ہی شمار ہو گا ۔ دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہش مند ہو اور کسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: یعنی انسان کو صرف اپنے عمل کے ثواب کا حق پہنچتا ہے، کسی اور کے عمل کا ثواب لینے کا حق نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کو اس کے استحقاق کے بغیر کسی اور عمل کا ثواب عطا فرمادیں تو یہ ان کی رحمت ہے جس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے وہ ثواب مردے کو پہنچاتے ہیں، کیونکہ عام طور سے کوئی شخص دوسرے کو اسی وقت ایصال ثواب کرتا ہے جب اس نے اس کے ساتھ کوئی نیکی کی ہو یا اور نیک اعمال کئے ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:39) وان لیس للانسان الا ماسعی۔ اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیہا (41:46) جو نیک کام کرے گا تو اپنے لئے اور جو برے کام کریگا تو ان کا ضرر اسی کو ہوگا بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ للانسان میں لام بمعنی علی ہے یعنی انسان کے لئے صرف اسی کا برا عمل ضرر رساں ہوگا۔ اس مطلب پر یہ آیت سابقہ آیت کی تفسیر ہوجائیگی اور عطف تفسیری ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگ جس قیامت کا انکار کرتے ہیں اس دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ہر انسان اپنے کیے کا صلہ پائے گا۔ صُحُفِ ابراہیم، صُحُفِ موسیٰ اور قرآن مجید کی یہی تعلیم ہے کہ ہر انسان نے اپنا اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس لیے ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے دنیا میں کمایا ہوگا اور ہر کوئی عنقریب اپنا کیا ہوا دیکھ لے گا اور ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ سب کا انجام اس کے رب کے پاس ہے جس رب کے پاس انسان کا انجام ہے وہی انسان کو ہنساتا اور رولاتا ہے اور وہی انسان کو مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ان آیات میں تین مضامین کا اختصار پیش کیا گیا ہے۔ ١۔ ہر انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا اور اس کی کوشش کا پورا پورا جائزہ لیا جائے گا اور پھر اس کو برائی کی سزا اور نیکی کی جزا دی جائے گی۔ جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔ ” جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ “ (الزلزال : ٧، ٨) ٢۔ قرآن مجید نے انسان کو یہ حقیقت بار باربتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! بالآخر تو نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے کیونکہ وہی موت وحیات کا مالک ہے اور اسی کے اختیار میں انسان کو ہنسانا اور رلانا ہے۔ قیامت کا اشارہ فرما کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اپنے اعمال پر خوش ہو کر مسکرائیں گے اور کچھ لوگ اپنا اعمال نامہ دیکھ کر زارو قطار روئیں گے۔ (الانشقاق : ٩، ١١) (دنیا میں بھی ” اللہ “ ہی انسان کو ہنستا اور رولاتا ہے۔ ) ” پھر جس کے پلڑے باری ہوں گے وہ عیش کی زندگی میں ہوگا۔ اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔ “ (القارعہ : ٦ تا ٩) ” اس دن کچھ چہرے دھمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس دن خاک پڑی اور سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ یہ کافر اور فاجر لوگ ہوں گے۔ “ (عبس : ٣٨ تا ٤٢) ٣۔ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ انسان کی موت اور زندگی کا فیصلہ رِ حم مادر میں ہی کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی موت کا وقت اور مقام مقرر کردیا ہے۔ اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو انسان کی زندگی میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر کرسکے۔ ” ہر امت کے لیے ایک وقت ہے، جب اس کا وقت آجاتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ “ (یونس : ٤٩) ” قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرنے والا ہے۔ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ اس کو موت کس سر زمین میں آئے گی۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ “ (لقمان : ٣٤) مسائل ١۔ انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا۔ ٢۔ ہر انسان کے اعمال کا پوری طرح جائزہ لیا جائے گا۔ ٣۔ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا پور ابدلہ دیا جائے گا۔ ٤۔” اللہ “ ہی انسان کو ہنسانے اور رلانے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی موت وحیات کا اختیار رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام اختیارات کا مالک ” اللہ “ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک میں بااختیار بنایا۔ (یوسف : ٥٦) ٢۔ ” اللہ “ بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے حکومت عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (الملک : ١) ٤۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (الجاثیہ : ٢٧) ٥۔ ہر چیز اللہ سبحانہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( یٰسٓ: ٨٣) ٦۔ ہر قسم کی خیر ” اللہ “ کے ہاتھ میں ہے۔ ( آل عمران : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان ............ ما سعی (٣٥ : ٩٣) ” اور یہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے سعی کی “ یعنی انسان کے حساب میں وہی لکھا جائے گا جو اس نے کیا۔ اس کے اعمال کے ساتھ دوسروں کے اعمال نہ لکھے جائیں گے نہ اس کے اعمال سے کمی کرکے کسی دوسرے کی کمی پوری کی جائے گی اور یہ دنیاوی زندگی فرصت عمل ہے تاکہ وہ عمل کرے اور جدوجہد کرے۔ جب مر گیا تو اس کی فرصت عمل ختم ہوجائے گی اور اس کے اعمال کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ ہاں صرف وہ اعمال رہ جائیں گے جن کے بارے میں حدیث میں نص دارد ہے۔ اذامات ............ ینتفع بہ ” جب انسان مرجائے تو اس کا عمل ختم ہوجات ہے ۔ ماسوائے تین شعبوں کے اس کا صالح بیٹا ہو اور وہ اس کے لئے اس کے بعد دعا کرتا ہو۔ یا اس نے کوئی صدقہ جاریہ کیا ہو یا اس نے کوئی علمی کام کیا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں “ (مسلم) یہ تینوں شعبے دراصل اس شخص کے اعمال جاریہ ہیں۔ اس حدیث سے امام شافعی اور آپ کے متبعین یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ قرات قرآن کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا کیونکہ یہ قرات ان کے عمل اور کسب سے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں امت کو کوئی ہدایت نہیں فرمائی نہ اس کی تاکید فرمائی نہ کسی نص میں یا اشارے میں اس کی ہدایت فرمائی۔ صحابہ کرام میں سے بھی کسی صحابی سے یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قرآن پڑھ پڑھا کر ایصال ثواب کیا ہے۔ اگر ایسا ہوسکتا ہے تو وہ کس طرح اس سے پیچھے رہ سکتے تھے۔ پھر عبادات اور ایصال ثواب کے مسائل ایسے ہیں جن میں قرآن وسنت کے نصوص پر اکتفا کرنا چاہئے۔ ایسے معاملات میں رائے اور قیاس کی گنجائش نہیں ہے۔ رہی دعا و صدقہ تو اس پر اجماع ہے کہ اس کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے۔ (ابن کثیر)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ جو فرمایا ہے ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩ ی﴾ (کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی) اس پر جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ پھر ایصال ثواب کا کوئی فائدہ نہ رہا کیونکہ ٩ جو شخص عمل کرتا ہے آیت کریمہ کی رو سے اس کا ثواب صرف اسی کو پہنچنا چاہے نہ کہ کسی دوسرے شخص کو۔ اس اشاول کو حل کرنے کے لے بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں جو ﴿ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ فرمایا ہے اس سے ایمان مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ہی ایمان کا ثواب ملے گا اس بات کو سامنے رکھ کر ایصال ثواب کا اشکال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کا ایمان ایسے شخص کو فائدہ نہیں دے سکتا جو کافر ہو اور کافر کو ایصال کرنے سے بھی ثواب نہیں پہنچتا۔ ذریت کو جو آباء کے ایمان کا ثواب پہنچے گا (جس کا سورة طور میں ذکر ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کی توجیہ میں آرہا ہے) اس میں ﴿ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ ﴾ کے ساتھ بایمان بھی مذکورہ ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کا مفہوم عام نہیں ہے بلکہ عام مخصوص میں البعض ہے کیونکہ احادیث شریفہ میں حج بدل کرنے کا ذکر ہے اور حج بدل دوسرے شخص کا عمل ہے پھر بھی اس کا حج ادا ہوجاوے گا جس کی طرف سے حج ادا کا بدل ہے اور بعض احادیث میں (جو سند کے اعتبار سے صحح ہں) دوسرے کی طرف سے صدقہ کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص ذکر یا تلاوت کا ثواب پہنچائے جبکہ ذکر و تلاوت محض اللہ کی رضا کے لیے ہو کسی طرح کا پڑھنے والے کو مالی لالچ نہ ہو تو اس میں ائمہ کرام علہم ذالرحمہ کا اختلاف ہے حضرت حنفہ اور حنابلہ کے نزدیک بدنی عبادات کا ثواب بھی پہنچتا ہے اور حضرت شوافع اور مالکیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا، جن حضرات کے نزدیک ثواب پہنچتا ہے وہ حج بدل اور صدقات پر قیاس کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت ابوہریرہ (رض) کا ارشاد بھی مروی ہے : فقد روی ابوداوٗد بسندہ عن ابی ھریرة (رض) قال من یضمن لی منکم ان یضمن لی فی مسجد العشار رکعتین او اربعا ویقول ھذا لابی ہریرہ سمعت خلیلی ابا القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول ان اللہ یبعث من مسجد العشار یوم القیامة شھداء لا یقوم مع شھداء بدر غیر ھم قال ابوداوٗد ھذا المسجد ممایلی النھرـ (ای القرات صفحہ ٢٣٦ ج ٢) قال فی الدر المختار الاصل ان کل من اتی بعبادة مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ لظاھر الادلة واما قولہ تعالیٰ (وان لیس للانسان الاماسعی) ای الا اذا وھبہ لہ (انتھی) قال الشامی فی ردالمحتار (قولہ لہ جعلی ثوابھا لغیرہ) خلافا للمعتزلة فی کل العبادات والمالک والشافعی فی العبادات البدنیة المحضة کالصلوٰة والتلاوة فلا یقولان بوصولھا بخلاف غیرھا کالصدقة والحج، ولیس الخلاف فی ان لہ ذلک اولا کما ھو ظاھر اللفظ بل فی انہ یجعل بالجعل اولا بل یلغو جعلہ افادہ فی الفتح ای الخلاف فی وصول الثواب وعدمہ (قولہ لغیرہ) ای من الاحیاء والاموات (بحر عن البدائع) (صفحہ ٢٣٦: ج ٢) وقد اطال الکلام فی ذلک الحافظ ابن تیمیة فی فتاواہ (صفحہ ٣٠٦ الی صفحہ ٣٢٤: ج ٢٤) وقال یصل الی المیت قرأة اھلہ تسبیحھم وتکبیر ھم وسائر ذکر ھم للہ تعالیٰ واجاب عن استدلال المانعین وصول الثواب بآیة سورة النجم ثم اطال الکلام فی ذلک صاحبہ ابن القیم فی کتاب الروح (من صفحہ ١٥٦ الی صفحہ ١٩٢) والیک ماذکر فی فتاوی الحافظ ابن تیمیة فی آخر البحث، وسئل ھل القرأة تصل الی المیت من الولد اولا ؟ علی مذھب الشافعی ـ فاجاب : اماوصول ثواب العبادات البدنیة : کالقرأة، والصلاة، والصوم ـ فھذھب احمد، وابی حنیفة، وطائفة من اصحاب مالک، والشافعی، الی انھا تصل، وذھب اکثر اصحاب مالک، والشافعی، الی انھالاتصل، واللّٰہ اعلم وسئل : عن قرأة اھل المیت تصل الیہ ؟ والتسبیح والتحمید، والتھلیل والتکبیر، اذا اھداہ الی المیت یصل الیہ ثوابھا ام لا ؟ فاجاب : یصل الی المیت قراة اھلہ، وتسبیحھم، وتکبیر ھم، وسائر ذکر ھم اللہ، اذا اھدوہ الی المیت، وصل الیہ، واللہ اعلم (صفحہ ٣٢٤: ج ٢٤) وقال ابن القیم فی آخر البحث (صفحہ ١٩٢) وسرا المسالة ان الثواب ملک للعامل فاذا تبرع بہ واھداہ الی اخیہ المسلم او صلہ اللہ الیہ، فما الذی خص من ھذا ثواب قرأة القرآن وحجر علی العبدان یوصلہ الی اخیہ وھذا عمل الناس حتی المنکرین فی سائر الاعصار والامصار من غیر نکیر من العلماء حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ آیت کریمہ کا عموم منسوخ ہے کیونکہ دوسری آیت میں ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ﴾ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آباء کے ایمان کا ان کی ذریت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ والئی خراساں نے حضرت حسن بن الفضل سے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ فرمایا ہے اور دوسری طرف ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩﴾ فرمایا ہے دونوں میں تطبقک کی کیاٰ صورت ہے حضرت حسن بن الفضل نے فرمایا کہ سورة نجم کی آیت میں عدل الٰہی کا تذکرہ ہے کہ جو بھی کوئی اچھا عمل کرے اسے بقدر عمل ضروری اجر ملے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس کا استحقاق ہے اس کے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا اور ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ میں فصل کا بیان ہے وہ جسے جتنا چاہے زیادہ سے زیادہ دیدے اسے اختیار ہے۔ والئی خراساں کو یہ جواب پسند آیا اور حضرت حسن بن الفضل کا سر چوم لیا صاحب روح المعانی نے بھی اس جواب کو پسند کیا پھر فرمایا ہے کہ حضرت ابن عطہا سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ٠٠٣٩﴾ صرف گناہ کے ساتھ مخصوص ہے نیکی کا ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب بڑھا چڑھا کردیا جائے گا جس کی تفصیلات حدیثوں میں آئی ہیں اور قرآن مجید میں جو ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ اعمال صالحہ سے متعلق ہے جو شخص گناہ کرے گا اسکا گناہ اتنا ہی لکھا جائے گا جتنا اس نے کام کیا ہے اور اسی پر مواخذہ ہوگا گناہ بڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ صاحب معالم التنزیل نے حضرت عرنمہ (رض) سے ایک جواب یوں نقل کا ہے سورة النجم کی آیت حضرت ابراہمہ اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں ہے کون ہے یہ مضمون بھی ان حضرات کے صفحوں میں ہے ان کی قوموں کو صرف اپنے ہی كئے ہوئے عمل کا فائدہ پہنچتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی فرمایا کہ کوئی دوسرا مسلمان ثواب پہنچانا چاہے تو وہ بھی اسے پہنچ جائے گا۔ لیکن اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لئے اور اپنے والدین کے لیئے اور مومنین کے لیے جو ان کے گھر میں داخل ہوں مغفرت کی دعا کی جسا کہ سورة نوح کی آخری آیت میں مذکور ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے لیئے اور اپنی قوم کے لیے مغفرت کی دعا کی جو سورة اعراف رکوع ١٨ میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت سابقہ میں ایک دوسرے کے لیے دعاء قبول ہوتی تھی (ہاں اگر دعائے مغفرت کو مستثنیٰ کیا جائے تو یہ دوسری بات ہے) ۔ یہ جو حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے اور تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے (١) صدقہ جاریہ (٢) وہ علم جس سے نفع حاصل کا جاتا ہو (٣) وہ صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہو۔ (اور بعض روایات میں سات چیزوں کا ذکر ہے) ان کا ثواب پہنچنے سے کوئی اشکال نہیں ہوتا کیونکہ یہ مرنے والے کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں، اولاد صالح جو دعاء کرتی ہے اس میں والد کا بڑا دخل ہے کیوں نہ ہو اسی کی کوششوں سے اولاد نیک بنی اور دعاء کرنے کے لائق ہوئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی اس نے سعی کی اور کمایا۔