Surat un Najam

Surah: 53

Verse: 56

سورة النجم

ہٰذَا نَذِیۡرٌ مِّنَ النُّذُرِ الۡاُوۡلٰی ﴿۵۶﴾

This [Prophet] is a warner like the former warners.

یہ ( نبی ) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Warning and Exhortation, the Order to prostrate and to be humble Allah said, هَذَا نَذِيرٌ ... This is a warner, (in reference to Muhammad), ... مِّنَ النُّذُرِ الاُْولَى from the warners of old. means, just like the warners of old, he was sent as a Messenger as they were sent as Messengers. Allah the Exalted said, قُلْ مَا كُنتُ بِدْعاً مِّنَ الرُّسُلِ Say: "I am not a new thing among the Messengers." (46:9) Allah said; أَزِفَتْ الاْزِفَةُ

نذیر کا مفہوم نذیر کہتے کسے ہیں یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ Ḍ۝ ) 46- الأحقاف:9 ) یعنی میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آ گئی ۔ نہ تو اسے کوئی دفع کر سکے نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے ۔ نذیر عربی میں اسے کہتے ہیں مثلا ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ 46؀ ) 34- سبأ:46 ) میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں حدیث میں ہے تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔ یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آجائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آرہی ہے فوراً تدارک کر لو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہو گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آچکی مسند احمد کی حدیث میں ہے لوگو گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کر لی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے اور حدیث میں ہے میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لئے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لئے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتا دیا کہ خبردار ہو جاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں ۔ اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں ۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق اور ہنسی کرنے لگتے ہیں چاہیے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ( سمد ) گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے ( سامدون ) کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں حضرت علی اور حسن فرماتے ہیں غفلت کرنے والے ۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع ، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں نے مشرکوں نے اور جن و انس نے سورۃ النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا مسند احمد میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھی پس آپ نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ کے پاس تھے راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہ کیا یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورہ مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی کوئی نئی بات نہیں کہتا۔ تمہیں اپنے برے انجام سے بچ جانے کی طرف بلاتا ہے۔ سابقہ تمام انبیاء بھی اپنی قوموں کو یہی کچھ کہتے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ہٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی : یعنی یہ رسول بھی ان ہلاک کی جانے والی قوموں کو ڈرانے والے پہلے رسولوں کی جماعت کا ایک فرد ہے ، جو تمہیں ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس کا آنا کوئی انوکھی بات نہیں جو تمہاری سمجھ میں نہ آرہی ہو، جیسا کہ فرمایا :” قل ما کنت بدعا من الرسل “ (الاحقاف : ٩) ” کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

هَـٰذَا نَذِيرٌ‌ مِّنَ النُّذُرِ‌ الْأُولَىٰ (This [ Holy Prophet ] is a warner from the (genus of the) previous warners...53:56). Hadha is a demonstrative pronoun and points either to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or to the Qur&an. With reference to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it means that in the past, many Prophets were sent to their respective nations, and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is sent to all mankind, and he is not a new thing among the Messengers (علیہم السلام) . He is well-established in the straight path. With reference to the Qur&an, it means that he has come with a book of guidance which, if complied with, assures them of success in this world and in the Hereafter. The opponents should fear the Divine punishment.

ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى، ہذا کا اشارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کی طرف ہے کہ یہ بھی پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں جو صراط مستقیم اور دین و دنیا کی فلاح پر مشتمل ہدایات لے کر آئے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى۝ ٥٦ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦{ ہٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی ۔ } ” یہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک خبردار کرنے والے ہیں ‘ پہلے خبردار کرنے والوں (کے زمرے) میں سے۔ “ نذیر کے معنی ہیں : ڈرانے والا ‘ آگاہ کرنے والا ‘ خبردار (warn) کرنے والا ‘ اور النُّذُر اسی کی جمع ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 The words in the original are: Hadha nadhir-un-min-an-nudhur-il-ula. The commentators have expressed three points of view in the explanation of this sentence. First, that nadhir here implies the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace); second, that it implies the Qur'an; third, that it implies the fate of the peoples already destroyed, which has been referred to in the foregoing verses. In view of the context, we arc of the opinion that this last commentary is preferable.

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :49 اصل الفاظ ہیں ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلیٰ ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے تین اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ نذیر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اس سے مراد قرآن ہے ۔ تیسرے یہ کہ اس سے مراد پچھلی ہلاک شدہ قوموں کا انجام ہے جس کا مال اوپر کی آیات میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ سیاق کلام کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ تیسری تفسیر قابل ترجیح ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٦٢۔ مشرکین مکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول اور صحف ابراہیمی کو وحی آسمانی اور اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا پابند جانتے تھے اس لئے فرمایا کہ جب تم لوگ انسان کا اللہ کا رسول ہونا اور اس پر اللہ کے کلام کا نازل ہونا مانتے ہو تو پھر نبی آخر الزمان کے رسول اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں تم لوگوں کو تعجب کس بات کا ہے۔ اللہ کے انتظام میں ہر چیز کی دنیا میں عمر مقرر ہے اس لئے دنیا کی جو عمر مقرر کی گئی ہے وہ اب ختم ہونے کو ہے اور اس کے ختم پر قیامت آنے والی ہے جس طرح اس وقت دنیا کے کاروبار میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں اس طرح لگے رہیں گے کہ ایک دفعہ ہی دنیا کے اجڑنے کا صور پھونک دیا جائے گا۔ عقبہ بن عامر کی حدیث معتبرسند سے طبرانی ٢ ؎ میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خریدو فروخت کے لئے کپڑے کے جو تھان بازار میں دکان دار کھول کر پھیلائے گا اس کو لپیٹنا اور دودھ والے جانوروں کا دودھ دوھ کر اس کا پینا اور آب نوشی اور آپ پاشی کے ذریعوں کی مرمت کرکے ان کے پانی کا برتنا نصیب نہ ہوگا کہ آن واحد میں قیامت قائم ہوجائے گی۔ قیمت کی سختیاں جب سر پر آجائیں گی تو سوا اللہ تعالیٰ کے ان کو کوئی ٹال نہ سکے گا مشرک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ اس دن اس کی کوئی سختی نہ ٹالی جائے گی۔ ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر اہل مکہ نے گھر گھر جو بٹ پرستی کا شرک پھیلا رکھا ہے اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نبی آخر الزمان کو آخری شریعت دے کر بھیجا ہے مگر ازلی کم بختوں کی کم بختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ کی شریعت کو ہنسی کھیل میں اڑاتے ہیں پھر جو لوگ راہ راست پر آگئے تھے ان کو فرمایا کہ ان ازلی کم بختوں کو بتوں کے آگے سر جھکانے دو تم خالص دل سے اللہ کے آگے سر جھکاؤ بدنی مالی ہر طرح کی عبادت میں نیت کا خالص رکھنا نہ چھوڑو صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود (رض) اور عبد اللہ بن عباس کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم پڑھی اور اس کے آخر پر سجدہ کیا۔ اور اس وقت جو مسلمان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے سب نے سجدہ کیا فقط قریش میں کے ایک عمر رسیدہ شخص نے بجائے سجدہ کے اپنی ہتھیلی پر ذرا سی مٹی لے کر اس مٹی پر اپنی پیشانی ٹکص لی۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ یہ شخص حالت کفر میں مارا گیا۔ بخاری ٢ ؎ کی عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ سجدہ کی سورتوں میں و النجم پہلی سورت ہے اور جس شخص نے سجدہ نہیں کیا وہ امیہ بن خلف تھا۔ صحیحین ٣ ؎ میں زبد بن ثابت سے روایت ہے کہ میں نے سورة النجم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سنائی اور آپ نے سورة کے آخر پر سجدہ نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورة میں سجدہ کا جو حکم ہے وہ سجدہ تلاوت کا حکم ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ بخاری کی ٤ ؎ عبد اللہ بن عباس کی روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین مکہ کے سجدہ کرنے کا جو ذکر ہے اس کا تفصیلی قصہ سورة حج میں گزر چکا ہے۔ ٥ ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت سورة النجم مکہ میں نازل ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة کو مشرکین کے رو برو پڑھا اور اس آیت تک پہنچنے جس میں لاۃ غزی اور مناۃ بتوں کا نام ہے تو شیطان نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت کے سکتہ کے وقت کچھ کلمے ایسے پڑھ دیئے جن سے ان بتوں کی تعریف اور ان کی شفاعت کا ذکر نکلتا تھا مشرکین مکہ نے جب اپنے بتوں کی تعریف سنی تو اس سے خوش ہو کر آخر سورة پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس کے بعد فوراً حضرت جبرئیل اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئے اور انہوں نے شیطان کی اس شرارت کا حال کھول دیا۔ شیطان کی یہ شرارت ایسی تھی جیسے اس نے جنگ احد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہید ہوجانے کی خبر لوگوں کے کان میں پھونک دی تھی۔ محی الدین ابن عربی ‘ قاضی عیاض اور بعض علماء نے اگرچہ اس قصہ کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے مگر اس قصے کو کئی سندوں سے معتبر راویوں نے مرسل طور پر روایت کیا ہے بغیر صحابی کے ذکر کے تابعی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں اس مرسل روایت کے تین طریقہ صحیح کی شرط پر ہیں جس سبب سے ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہو کر اس قصہ کو بےاصل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ (٢ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی النفح فی الصور الخ ص ٧٢٧ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص ٧٢١ ج ٢ و صحیح مسلم باب سجود التلاوۃ ص ٢١٥ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص ٧٢١ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم۔ باب سجود التلاوۃ ص ٢١٥ ج ١‘ و صحیح بخاری باب من قرأ السجدۃ ولم یسجد ص ١٤٦ ج ١۔ ) (٤ ؎ دیکھئے صفحہ گزشتہ ) (٥ ؎ تفسیر ہذا جلد ٤ ص ٨٤)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(53:56) ھذا۔ اس کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال ہیں :۔ (1) ھذا کا مشار الیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ واصحاب وسلم ہیں۔ اس صورت میں آیت کا معنی ہوگا۔ کہ پیغمبر اسلام بھی پہلے ڈرانے والوں کی طرح ہیں۔ (2) قرآن کریم، یعنی یہ قرآن کریم بھی پہلی آسمانی کتابوں کی طرح ڈرانے والا ہے۔ (3) یہ واقعات جو تمہیں سنائے گئے ہیں ایک تنبیہ ہیں پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ۔ نذیر : صفت مشبہ مرفوع ، نکرہ ، واحد، ڈرانے والا۔ اس کی جمع نذر النذر الاولی میں اولی (بمعنی پہلی، اگلی، اول کا مؤنث) کو بصیغہ مؤنث لانے کی وجہ یہ ہے کہ النذر سے مراد جماعت ہے۔ علماء کی اکثریت نے اس کے وہ معنی لئے ہیں جو کہ (3) میں مذکور ہیں۔ جلالین میں ہے من النذر الاولی ای من جنسھم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” یہ (تباہی جس کا ذکر کیا گیا) پہلے آنے والی تنبیہوں میں سے ایک تنبیہ ہے۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی اور قیامت کی حولناکیوں کا ذکر کرنے کا مقصد لوگوں میں قیامت کی جواب دہی کا احساس پیدا کرنا ہے لیکن قیامت کے منکر اور اس سے لاپرواہی کرنے والے اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے اس سورت کے آخر میں انہیں پھر حکم دیا کہ قیامت سے غفلت اختیار کرنے کی بجائے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاؤ اور اس کی بندگی اختیار کرو یہی تمہاری نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے پہلی اقوام کے واقعات بیان فرما کر لوگوں کو دنیا کے انجام اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا ہے۔ قیامت کے بارے میں فرمایا کہ قیامت قریب ہی آن پہنچی ہے اور قیامت کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ کیا تم قیامت کی آمد اور اللہ کے فرمان پر تعجب کرتے ہو ؟ اور اپنے کیے پر رونے کی بجائے ہنستے ہو اور دنیا کی وجہ سے تم قیامت کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ چاہیے تو یہ کہ تم اللہ کے حضور جھک جاؤ اور اس کی بندگی اختیار کرو۔ اس سورت کی ابتدائی آیات میں ستارے کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ قربت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ مشرک محض اپنے گمان کی بنیاد پر لات، عزّیٰ اور منات کی عبادت کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو ہر قسم کے شرک سے منع کیا گیا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات صرف ” اللہ “ کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی مضمون کو سورة کے اختتام پر یوں بیان کیا جارہا ہے کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو ” اللہ “ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے اعمال پر رونے کی بجائے قیامت کا ذکر سن کر ہنستے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے کردار پر رونا چاہیے۔ قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگ ادھر ادھر جھکنے کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے سامنے جھکیں اور اس کی عبادت کریں۔ یاد رہے کہ انسان کی تخلیق اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبادت کرے۔ عبادت سے مراد وہ تمام عبادات ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ عبادت سجدہ کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں وہ صرف اور صرف ایک ” اللہ “ کے لیے ہونی چاہیے۔ قرآن مجید کی تاثیرکا ایک عجب واقعہ : امام بخاری (رض) نے اپنی کتاب بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں لکھا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن بیت اللہ میں کھڑے ہو کر سورة نجم کی تلاوت کی۔ اس وقت بیت اللہ میں مکہ کے بڑے بڑے سردار بھی موجود تھے۔ کفار بیت اللہ کے بابرکت ماحول میں بڑے انہماک سے سورة نجم کی تلاوت سن رہے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سورة نجم کے آخری الفاظ تلاوت کیے اور اللہ کے حضور سجدہ کیا تو یہ منظر اس قدر مسحور کُن اور پرجلال تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کفار بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ صرف ایک بوڑھا جس کا نام امیہ بن خلف تھا اس نے زمین پر سجدہ کرنے کی بجائے سے کنکریاں اٹھا کر اپنی پیشانی کے ساتھ لگائیں اور کہا کہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح اپنی امت کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٢۔ قیامت قریب آپہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٣۔ بےدین لوگ قیامت پر یقین کرنے کی بجائے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ٤۔ برے لوگوں کو قیامت کا مذاق اڑانے کی بجائے اپنے اعمال پر رونا چاہیے۔ ٥۔ لوگوں کو غفلت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم : ١۔ آپ کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ : ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ نوح، ہود، صالح اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھذا نذیر ............ کاشفة (٨٥) (٣٥ : ٦٥ تا ٨٥) ” یہ تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبہیات میں سے۔ آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں۔ “ یہ رسول جس کی رسالت اور جس کے ڈراوے میں تم شک کرتے ہو۔ یہ انہیں رسولوں میں سے ہے جنہوں نے اسی طرح اپنی اقوام کو ڈرایا اور یہ سخت مصیبت اور کھڑ کھڑا دینے والی گھڑی ہے یا وہ اس دنیا ہی کا کوئی عذاب ہے اور جس کو ٹالنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اللہ ٹال دے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت قریب آگئی اس بات سے تعجب کرتے ہو اور تکبر میں مبتلا ہو، اللہ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو هٰذَا کا اشارہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن عظیم کی طرف ہے مطلب یہ ہے کہ اوپر جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا جسے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں یہ پرانے ڈرانے والوں میں سے ہی ایک ڈرانے والا ہے یعنی قرآن میں جو ڈرانے والے مضامین ہی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے پہلے بھی حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) آتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر کتابیں نازل فرمائی ہیں پرانی اقوام نے بھی تکذیب کی ہے اور انہیں ڈرایا گیا ہے جب انہیں ڈرایا گیا تو ایمان نہ لائے پھر اس کی سزا میں ہلاک ہوئے اب جو قرآن کریم کے مخاطب ہیں انہیں بھی اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔ قال القرطبی فان اطعتموہ افلحتم والاحل بکم بمکذبی الرسل السابقة۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہلے ڈرانے والوں کی طرح ایک ڈرانے والا ہے۔ یعنی جس طرح سابقہ پیغمبر ڈرانے والے ہوئے ہیں انہی کی جنس میں سے یہ بھی ایک ڈرانے والے ہیں ان پر ایمان لانے میں دیر نہ کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی آخری آواز اور آخری پیغام ہے بس اب قیامت آنے والی ہے ایمان لانے کی جلدی کرو۔