Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 0

سورة القمر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

واقدی کی روایت سے پہلے گذر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الضحیٰ اور عید الفطر کی نماز میں سورہ ق اور سورہ اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے اسی طرح بڑی بڑی محفلوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ کیونکہ اس میں وعدے وعید کا ، ابتداء آفرینش اور دوبارہ زندگی کا ساتھ ہی توحید اور اثبات رسالت وغیرہ اہم مقاصد اسلامیہ کا ذکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْقَمَر نام : پہلی ہی آیت کے فقرہ وَانْشَقَّ الْقَمَر سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ القمر آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس میں شقّ القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے جس سے اس کا زمانہ نزول متعین ہو جاتا ہے ۔ محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا ۔ موضوع اور مضمون : اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی ۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے ، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے ، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا ۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی دور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا ۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے ۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے ۔ وہ درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں ۔ بکھر سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں ۔ اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے ۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہو گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس وقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا ، دیکھو اور گواہ رہو ۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دیا اور اپنے انکار پر جمے رہے ۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورہ میں انہیں ملامت کی گئی ہے ۔ کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں ، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں ، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں ۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہو جائے گی اور قبروں سے نکل کر یہ داورِ محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے ۔ اس کے بعد ان کے سامنے قوم نوح ، عاد ، قوم لوط اور آل فرعون کا حال مختصر الفاظ میں بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تنبیہات کو جھٹلا کر یہ قومیں کس درد ناک عذاب سے دو چار ہوئیں ، اور ایک ایک قوم کا قصہ بیان کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ قرآن نصیحت کا آسان ذریعہ ہے جس سے اگر کوئی قوم سبق لے کر راہ راست پر آ جائے تو ان عذابوں کی نوبت نہیں آسکتی جو ان قوموں پر نازل ہوئے ۔ اب آخر یہ کیا حماقت ہے کہ اس آسان ذریعہ سے نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی اسی پر اصرار کرے کہ عذاب دیکھے بغیر نہ مانے گا ۔ اس طرح پچھلی قوموں کی تاریخ سے عبرتناک مثالیں دینے کے بعد کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جس طرز عمل پر دوسری قومیں سزا پا چکی ہیں وہی طرز عمل اگر تم اختیار کرو تو آخر تم کیوں نہ سزا پاؤ گے ؟ کیا تمہارے کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ تمہارے ساتھ دوسروں سے مختلف معاملہ کیا جائے ؟ یا کوئی خاص معافی نامہ تمہارے پاس لکھا ہوا آگیا ہے کہ جس جرم پر دوسرے پکڑے گئے ہیں وہی تم کرو گے تو تمہیں نہ پکڑا جائے گا ؟ اور اگر تم اپنی جمیعت پر پھولے ہوئے ہو تو عنقریب تمہاری یہ جمیعت شکست کھا کر بھاگتی نظر آئے گی ، اور اس سے زیادہ سخت معاملہ تمہارے ساتھ قیامت کے روز ہو گا ۔ آخر میں کفار کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت لانے کے لیے کسی بڑی تیاری کی حاجت نہیں ہے ۔ اس کا بس ایک حکم ہوتے ہی پلک جھپکاتے وہ برپا ہو جائے گی ۔ مگر ہر چیز کی طرح نظام عالم اور نوع انسانی کی بھی ایک تقدیر ہے ۔ اس تقدیر کے لحاظ سے جو وقت اس کام کے لیے مقرر ہے اسی وقت پر وہ ہوگا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب کوئی چیلنج کرے اس کو قائل کرنے کے لیے قیامت لا کھڑی کی جائے ۔ اس کو آتے نہ دیکھ کر تم سرکشی اختیار کرو گے تو اپنی شامت اعمال کا نتیجہ بھگتو گے ۔ تمہارا کچّا چٹھا خدا کے ہاں تیار ہو رہا ہے جس میں تمہاری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ثبت ہونے سے رہ نہیں گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ القمر یہ سورت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ دکھلایا، اسی لئے اس کا نام سورۂ قمر ہے، حضرت عائشہ (رض) سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی، اس وقت میں بچی تھی، اور کھیلاکرتی تھی، سورت کا موضوع دوسری مکی سورتوں کی طرح کفار عرب کو توحید رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے، اور اسی ضمن میں عاد وثمود، حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں اور فرعون کے دردناک انجام کا مختصرلیکن بہت بلیغ انداز میں تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور بار بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو بہت آسان بنادیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi