Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 24

سورة القمر

فَقَالُوۡۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ﴿۲۴﴾

And said, "Is it one human being among us that we should follow? Indeed, we would then be in error and madness.

اور کہنے لگے کیا ہمیں میں سے ایک شخص کی ہم فرمانبرداری کرنے لگیں ؟ تب تو ہم یقیناً غلطی اور دیوانگی میں پڑے ہوئے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they said: "A man, alone among us -- shall we follow him Truly, then we should be in error and distress!" They said, `We would have earned failure and loss if we all submitted to a man from among us.' They were amazed that the Reminder was sent to him alone among them, and therefore, accused him of being a liar,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی ایک بشر کو رسول مان لینا، ان کے نزدیک گمراہی اور دیوانگی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

۔ ئَ اُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْم بَیْنِنَا ۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ ص (٨) کی تفسیر ۔ ٢۔ بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ :” اشر “ اشر یاشر ” اشرا “ (ض) سے اسم فاعل ہے ، متکبر، اکڑنے والا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗٓ۝ ٠ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝ ٢٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّــتَّبِعُہٗٓ لا } ” انہوں نے کہا : کیا ہم اپنے میں سے ہی ایک بشر کی پیروی کریں ؟ “ { اِنَّــآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ۔ } ” پھر تو یقیناہم پڑجائیں گے گمراہی میں اور آگ میں۔ “ اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت اور پیروی کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم نے اپنے آپ کو خود ہی گمراہی میں اور آگ کے گڑھے میں ڈال دیا۔ سُعُر جمع ہے سَعِیْر کی اور سَعِیْرکے معنی آگ کے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہوئے وہ لوگ گویا حضرت صالح (علیہ السلام) ہی کے الفاظ میں آپ (علیہ السلام) کو جواب دے رہے تھے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) ان سے کہتے تھے کہ تم لوگ اگر میری بات نہیں مانو گے تو آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنو گے ۔ جواب میں وہ کہتے تھے کہ تم ہماری ہی طرح کے ایک انسان ہو ۔ اگر ہم تمہیں اپنا پیشوا مان کر تمہارے پیچھے چل پڑیں تو یہ گمراہی کا راستہ ہوگا اور ہمارے لیے اسی دنیا میں خود کو آگ میں جھونک دینے کے مترادف ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 In other words, there were three reasons for their refusal to obey and follow the Prophet Salih: (1) "He is a human being and not a super-human person so that we may regard him as superior to ourselves. " (2) "He is a member of our own nation: he is in no way superior to us." (3) `He is a single man, one from among ourselves. He is not a prominent chief with a large following, or an army of soldiers. Or a host of attendants so that we may acknowledge his superiority." They wanted that a Prophet should either be a superman, or if he be a common man, he should not have been born in their own land and nation, but should have descended from above, or sent from another land, and if nothing else, he should at least have been a rich man, whose extraordinary splendour should make the people believe why AIIah had selected him alone for the leadership of the nation. This same was the error of ignorance in which the disbelievers of Makkah were involved. They also refused to acknowledge the Prophet Muhammad (UpOn Whom be Allah's peace and blessings) as a Prophet on the ground that he was a man who moved about in the streets like the common men, had been born among them only . the other day and now was claiming that God had appointed him as a Prophet.

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :17 بالفاظ دیگر ، حضرت صالح کی پیروی سے ان کا انکار تین وجوہ سے تھا ۔ ایک یہ کہ وہ بشر ہیں ، انسانیت سے بالاتر نہیں ہیں کہ ہم انکی بڑائی مان لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ ہماری اپنی ہی قوم کے ایک فرد ہیں ۔ ہم پر ان کی فضیلت کی کوئی وجہ نہیں ۔ تیسرے یہ کہ اکیلے ہیں ، ہمارے عام آدمیوں میں سے ایک آدمی ہیں ، کوئی بڑے سردار نہیں ہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا جتھا ہو ، لاؤ لشکر ہو ، خَدَم و حشم ہوں ، اور اس بنا پر ہم ان کی بڑائی تسلیم کرلیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ نبی یا تو کوئی فوق البشر ہستی ہو ، یا اگر وہ انسان ہی ہو تو ہمارے اپنے ملک اور قوم میں پیدا نہ ہوا ہو ، بلکہ کہیں اوپر سے اتر کر آئے یا باہر سے بھیجا جائے ، اور اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم اسے کوئی رئیس ہونا چاہیے جس کی غیر معمولی شان و شوکت کی وجہ سے یہ مان لیا جائے کہ رہنمائی کے لیے خدا کی نظر انتخاب اس پر پڑی ہے ۔ یہی وہ جہالت تھی جس میں کفار مکہ مبتلا تھے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ماننے سے ان کا انکار بھی اسی بنیاد پر تھا کہ آپ بشر ہیں عام آدمیوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ، کل ہمارے ہی درمیان پیدا ہوئے اور آج یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:24) فقالوا : پس انہوں نے کہا۔ ابشرا منا واحدا نتبعہ۔ ا استفہامیہ ہے۔ بشرا۔ بشر، انسان، آدمی منصوب بوجہ فعل مضمر۔ جو اس کی وضاحت کرتا ہے (ای نتبعہ) منا جار مجرور مل کر بشرا کی صفت ہے، واحدا اس کی صفت ثانی ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے : انتبع بشرا منا واحدا۔ نتبعہ۔ مضارع جمع متکلم اتباع (افتعال) مصدر۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب مفعول ۔ ہم اس کی پیروی کریں ، ہم اس کا اتباع کریں ترجمہ یوں ہوگا :۔ کیا ایک ایسا انسان جو ہم میں سے ہے (اور) اکیلا ہے۔ ہم اس کی پیروی کریں۔ استفہام انکاری ہے وجوہ انکاریہ ہیں :۔ (1) بشر ہونا۔ یعنی انسان ہونا ان کے نزدیک اتباع کے مناسب نہ تھا۔ (بشرا کو نکرہ مزید تحقیر کے لئے لایا گیا ہے) (2) پھر بشر کا ہم میں سے ہی ہونا۔ جس کے پاس ہم پر فوقیت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (3) اس کا اکیلا ہونا اور اس کے ساتھ جماعت کثیرہ کا نہ ہونا۔ ان کے نزدیک یہ بھی اس کی کسر شان کا باعث تھا۔ انا اذا لفی ضلل وسعر : ای ان نتبعہ انا اذا لفی ضلل وسعر اگر ہم نے اس کا اتباع کرلیا۔ تب تو ہم گمراہی اور دیوانگی میں پڑجائیں گے۔ ضلل۔ گمراہی۔ بھٹکنا۔ راہ سے دور جا پڑنا۔ کھوجانا۔ سعر۔ حق سے دوری (وہب) جنون (فرائ) عرب ناقۃ مسعورۃ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو بےمہار خود بخود سرگرداں ادھر ادھر چکر کاٹ رہی ہو۔ قتادہ نے کہا کہ سعر کا معنی ہے دکھ ، دشواری۔ عذاب۔ سعر مفرد بھی ہوسکتا ہے اور سعیر کی جمع بھی۔ اصل میں سعر کے معنی آگ بھڑکانے کے ہیں۔ جب انسان کے دماغ میں گرمی اٹھتی ہے تو وہ پاگل ہوجاتا ہے۔ سحر کا استعمال سودا۔ اور جنون کے معنوں میں اسی اعتبار سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی حضرت صالح کے بارے میں کہنے لگے کہ ایک تو یہ بشر ہیں فرشتہ یا کوئی دوسری فوق البشر ہستی نہیں ہیں اور دوسرے یہ ہماری اپنی ہی قوم کے ایک فرد ہیں اور تیسرے وہ اکیلے ہیں۔ کوئی لائو لشکر ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم انہیں اپنا سردار مان کر ان کی پیروی اختیار کریں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ابشر ........ وسحر (45:4 ٢) ” ایک اکیلا آدمی جو ہم میں سے ہے اس کے پیچھے چلیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم بہک گئے ہیں اور ہماری عقل ماری گئی ہے یا ہم جہنم رسید ہوگئے۔ “ اگر ہم سے یہ منکر فعل واقع ہوگیا۔ جب عقل ماری جاتی ہے تو انسان ہدایت کو ضلالت سمجھتا اور سمجھتا ہے کہ وہ گویا بہت زیادہ تعداد والی جہنموں میں داخل ہوگا۔ (سعر جمع سعیر ہے) حالانکہ دعوت قبول کرکے وہ ایمان کے سایہ میں آجاتا لیکن سمجھتا ہے کہ اگر ایمان لایا تو جہنموں میں داخل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جس رسول کو اللہ نے ان کی رہنمائی کے لئے بھیجا تھا اس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹا اور لالچی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) سو کہنے لگے کہ کیا اپنی ہی جنس کے ایک ایسے آدمی کی پیروی کرنے لگیں جو اکیلا اور تن تنہا ہے اگر ایسا کریں گے تو اس وقت ہم بڑی گمراہی اور دیوانگی میں پڑجائیں گے۔ یعنی یہ بھی ہم میں سے اور ہم ہی جیسا بشر ہے پھر اکیلا ہے یعنی ظاہری دولت وامارت اور جاہ وحشم بھی نہیں نہ فرشتہ نہ ذی اثر بشر پھر اگر ایسے شخص کی ہم پیروی کرنے لگیں اور اس کا کہنا ماننے لگیں تو ہم بڑی گمراہی غلطی بلکہ دیوانگی اور جنون میں مبتلا ہوجائیں گے اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا۔