Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 46

سورة القمر

بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَ السَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَ اَمَرُّ ﴿۴۶﴾

But the Hour is their appointment [for due punishment], and the Hour is more disastrous and more bitter.

بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their multitude will be put to flight and they will show their backs. Nay, but the Hour is their appointed time and that Hour will be more grievous and more bitter." Al-Bukhari also recorded that Yusuf bin Mahak said, "I was with the Mother of the faithful, A'ishah, when she said, `When I was still a young playful girl in Makkah, this Ayah was revealed to Muhammad, بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ Nay, but the Hour is their appointed time and that Hour will be more grievous and more bitter." This is the abridged narration that Al-Bukhari collected, but he also collected a longer narration of it in the Book of the Virtues of the Qur'an. Muslim did not collect this Hadith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی دنیا میں جو یہ قتل کئے گئے، قیدی بنائے گئے وغیرہ، یہ ان کی آخری سزا نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت سزائیں ان کو قیامت والے دن دی جائیں گی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] مسلمانوں سے انتقام لینے والی جماعت کو یہ سزا تو دنیا میں ملی اور اصل سزا تو قیامت کو ملنے والی ہے جو اس سزا سے دہشت ناک بھی زیادہ ہوگی اور دردناک بھی زیادہ ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ ۔۔۔۔:” اھیۃ “ بڑی مصیبت کو کہتے ہیں اور ” ادھی “ زیادہ بڑی مصیبت ۔ ” مر ‘( میم کے ضمہ کے ساتھ ) تلخ ، کڑوا ۔ ” مر یمر مرارۃ “ (ن) کڑوا ہونا ۔ ” امر “ اس سے اسم تفصیل ہے ، زیادہ تلخ ، یعنی دنیا میں ہونے والی شکست بھی اگرچہ بڑی مصیبت اور بہت تلخ ہے کہ اس میں ق تل ، گرفتاری ، غلامی ، ذلت و رسوائی اور کئی طرح کی سزائیں ہیں ، مگر اصل سزا کا وعدہ تو قیامت کے دن ہے اور قیامت دنیا کی مصیبتوں سے کہیں زیادہ بڑی مصیبت اور بہت زیادہ تلخ ہے ، کیونکہ دنیا کی مصیبت اور تلخی آخر کار ختم ہونے والی ہے ، مگر آخرت کی سزا کبھی ختم ہونے والی نہیں ، پھر وہاں کی آگ دنیا کی آگ سے ستر (٧٠) گنا زیادہ سخت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰى وَاَمَرُّ۝ ٤٦ بل بَلْ كلمة للتدارک، وهو ضربان : - ضرب يناقض ما بعده ما قبله، لکن ربما يقصد به لتصحیح الحکم الذي بعده وإبطال ما قبله، وربما يقصد تصحیح الذي قبله وإبطال الثاني، فممّا قصد به تصحیح الثاني وإبطال الأول قوله تعالی: إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] ، أي : ليس الأمر کما قالوا بل جهلوا، فنبّه بقوله : رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ علی جهلهم، وعلی هذا قوله في قصة إبراهيم قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] وممّا قصد به تصحیح الأول وإبطال الثاني قوله تعالی: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . أي : ليس إعطاؤهم المال من الإکرام ولا منعهم من الإهانة، لکن جهلوا ذلک لوضعهم المال في غير موضعه، وعلی ذلک قوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] ، فإنّه دلّ بقوله : وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] ، أي : ليس امتناعهم من الإيمان بالقرآن أن لا مجد للقرآن، ولکن لجهلهم، ونبّه بقوله : بَلْ عَجِبُوا علی جهلهم، لأنّ التعجب من الشیء يقتضي الجهل بسببه، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] ، كأنه قيل : ليس هاهنا ما يقتضي أن يغرّهم به تعالی، ولکن تكذيبهم هو الذي حملهم علی ما ارتکبوه . - والضرب الثاني من «بل» : هو أن يكون مبيّنا للحکم الأول وزائدا عليه بما بعد «بل» ، نحو قوله تعالی: بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، فإنّه نبّه أنهم يقولون : أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ ، يزيدون علی ذلك أنّ الذي أتى به مفتری افتراه، بل يزيدون فيدّعون أنه كذّاب، فإنّ الشاعر في القرآن عبارة عن الکاذب بالطبع، وعلی هذا قوله تعالی: لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] ، أي : لو يعلمون ما هو زائد عن الأول وأعظم منه، وهو أن تأتيهم بغتة، و جمیع ما في القرآن من لفظ «بل» لا يخرج من أحد هذين الوجهين وإن دقّ الکلام في بعضه . بل ( حرف ) بل حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں ( 1) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے & اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصیحح اور بابعدار کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے ۔ چناچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا ۔ إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] جب اس کو بیماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہنا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جود اعمال بد کر رہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ تو بل کا معنی یہ ہیں کہ آیات الہی کو اساطیر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جہالت ہے پھر ران علی قلوبھم کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : ۔ قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] جب ابراہیم آئے تو ) توبت پرستوں نے کہا کہ ابرہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے ( ابراہیم نے کہا ) نہیں بلکہ یہ ان کے اس بڑے ربت نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو ،۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصیحح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا : ۔ فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . مگر انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشا ہے تو کہتا ہے کہ ( آہا ) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرح آزماتا ہے کہ روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ ( ہائے ) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے ( بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت : ۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے کہ تم حق پر ہو ( مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں میں کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکرہ یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] قرآن مجید کی قسم ( کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے یعنی ان کا قرآن پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے بل عجبوا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جب اس کا سبب معلوم نہ ہو ۔ نیز فرمایا : ۔ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کہ دیا ( وہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور ( تیرے اعضاء کو ) ٹھیک کیا ۔ اور ( تیرے قامت کو ) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا ۔ مگر ہیبات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو ۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلا رہے ہیں ۔ (2 ) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ ( ظالم ) کہنے لگے کہ ( در قرآن ) پریشان ) باتیں ہیں جو ) خواب ) میں دیکھ لی ) ہیں ( نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ( نہیں ) بلکہ یہ ( شعر ہے ) جو اس شاعر کا نتیجہ طبع ) ہے ۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ والاد انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کیا پھر اس پر اضافہ کرکے اسے افترا بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق ( نعوذ باللہ ) کذاب ہونے کا واعا کرنے لگے کیونکہ قران کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] اے کا ش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے ( دوزخ کی ) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی ۔ قرآن میں جتنی جگہ بھی بل آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے اگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں اور ان کے پیچیدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہدیا ہے کہ قرآن میں بل صرف معنی ثانی کیلئے استعمال ہوا ہے ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ ادهي : داھیۃ ہے افعل التفضیل کا صیغہ ہے بہت بڑی بلا۔ یا آفت بہت سخت مصیبت۔ جس کو کس طرح بھی دفع کرنا ممکن نہ ہو امر : بہت تلخ۔ بہت کڑوا۔ مرارۃ سے جس کے معنی کڑوا اور تلخ کے ہیں افعل التفضیل کا صیغہ

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بلکہ بڑا عذاب قیامت میں ہوگا ان کا اصل وعدہ عذاب وہی ہے اور قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے اس کا عذاب بدر کے عذاب سے بہت ہی سخت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرُّ ۔ } ” بلکہ ان کے اصل وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت ہے اور بہت زیادہ کڑوی ہے۔ “ عربی میں کڑوی چیز کو مُـرٌّ کہتے ہیں اور اَمَرُّ کے معنی ہیں بہت ہی زیادہ کڑوی ۔ سیاقِ مضمون میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش میں پے درپے شکست مشرکین عرب کا مقدر ہے۔ عنقریب (٩ ہجری میں) ان پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب جزیرہ نمائے عرب کی سرزمین ان پر تنگ ہوجائے گی۔ اس وقت ان کے پاس اسلام قبول کرنے یا حدود عرب سے باہر چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ایک مضبوط جمعیت اور اعلیٰ پائے کی جنگی صلاحیت کے باوجود ان کی یہ ہزیمتیں ‘ نقصانِ مال و جان اور ذلت و رسوائی اللہ کے عذاب ہی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ لیکن یہ تو چھوٹے چھوٹے عذاب ہیں اور دنیا کی زندگی کی حد تک عارضی نوعیت کی تکالیف ہیں۔ جبکہ انہیں بہت بڑے اور دائمی عذاب کا سامنا تو آخرت میں کرنا پڑے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:46) بل حرف اضراب ہے۔ بل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حکم ما قبل کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا جائے۔ یہی صورت یہاں مراد ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ :۔ ان کفار کی ہزیمت اور پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلنا ہی ان کی ناکامی اور بےآبروئی کے لئے کافی نہیں بلکہ اصل عذاب تو قیامت کے دن آنے والا ہے۔ جس کا وقت مقرر ہے اسے آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ ای لیس ھذا تمام عقوبتھم بل الساعۃ موعد عذابھم و ھذا من طلائعۃ (روح المعانی) اس (عذاب) سے ان کی سزا تمام نہیں ہوئی بلکہ قیامت ان کے عذاب کے وعدہ کا وقت ہے یہ موجودہ (عذاب) تو محض اس کا پیش خیمہ ہے۔ والساعۃ واؤ عاطفہ۔ الساعۃ روز قیامت۔ یا عذابھا (جلالین) اس دن کا عذاب۔ اس ہی : داھیۃ ہے افعل التفضیل کا صیغہ ہے بہت بڑی بلا۔ یا آفت بہت سخت مصیبت۔ جس کو کس طرح بھی دفع کرنا ممکن نہ ہو امر : بہت تلخ۔ بہت کڑوا۔ مرارۃ سے جس کے معنی کڑوا اور تلخ کے ہیں افعل التفضیل کا صیغہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جس کے سامنے دنیا کی آفتوں اور تکلیفوں کی کوئی حقیت نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کو دنیا میں عذاب دینے کے ساتھ آخرت میں بھی عذاب دیا جائے گا۔ اہل مکہ کو جو انتباہ کیا گیا ہے وہ حرف بہ حرف پورا ہوا اور ان کی جمعیت اور قوت کو تہس نہس کردیا گیا۔ اس کے باوجود فرمایا کہ انہیں اصل سزا قیامت کے دن دی جائے گی جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ دن بذات خود بڑا سخت اور خوفناک ہوگا۔ یقیناً مجرم کھلی گمراہی اور پاگل پن میں مبتلا ہیں۔ اس دن ان کو ان کے چہروں کے بل جہنم کی آگ میں دھکیلا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اب جہنم کی دہکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھو۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اس لیے مقرر کیا ہے تاکہ نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی پوری پوری جزا دے۔ مجرموں کے لیے اس لیے جہنم تیار کی گئی ہے تاکہ انہیں ٹھیک ٹھیک سزادی جائے۔ دنیا میں ایک قاتل اور ظالم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ہوسکتی ہے۔ پھانسی لگنے والا شخص ایک ہی مقتول کے بدلے میں پھانسی کی سزا پاتا ہے۔ اگر وہ کئی مقتولوں کا قاتل ہے تو اس کی سزا اسے نہیں ملتی۔ قیامت کے دن مجرم کو ٹھیک ٹھیک سزادینے کے لیے دو کام کیے جائیں گے۔ ایک سزا یہ ہوگی کہ کافر اور مشرک کو جہنم میں موت نہیں آئے گی اور دوسرا کام یہ کیا جائے گا کہ اس کے جسم کی کھال باربار بدلی جائے گی۔ تاکہ وہ اپنے جرائم کی ٹھیک ٹھیک سزا پائے۔ اس سزا کے ساتھ فرشتے جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب اپنی نافرمانیوں کا مزہ چکھو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًاغَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) (النساء : ٥٦) ” جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یقیناً ہم انہیں آگ میں ڈالیں گے۔ جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتی کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کا دن بڑا سخت اور خوفناک ہوگا۔ ٢۔ مجرم اپنے جرائم میں اندھا ہوجاتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کو ان کے چہروں کے بل جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ ٥۔ جہنم کے فرشتے جہنمیوں کو جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں مختلف قسم کی سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ جہنم میں جہنمی کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٤ ٥ تا ٥٥) ٤۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٥۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٦۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل الساعة موعدھم ............ وامر (45: ٦ 4) ” بلکہ ان سے نمٹنے کے لئے اصل وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور وہ بڑی آفت اور زیادہ تلخ ساعت ہے۔ “ اس عذاب سے جو انہوں نے دیکھا ہے یا اس زمین کی زندگی میں دیکھیں گے یا ان تمام عذابوں سے زیادہ تلخ جو اس سورت میں بیان ہوئے ہیں مثلاً طوفانا نوح ، باد صرصر ، سخت آواز اور پتھروں کی بارش والی ہوا اور فرعون کی زبردست غرقابی۔ اب تفصیلاً بتایا جاتا ہے کہ قیامت کا عذاب کس طرح سخت شدید اور تلخ ہوگا اور تفصیلات قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں بتائی جاتی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یوم قیامت کی سخت مصیبت اور مجرمین کی بدحالی : اس کے بعد ارشاد فرمایا ﴿ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ ٠٠٤٦﴾ (بلکہ قیامت ان کا وعدہ ہے اور قیامت بہت سخت مصیبت کی چیز ہے اور بہت کڑوی ہے) دنیا میں یہ لوگ شکست کھائیں گے ذلت اٹھائیں گے مقتول ہوں گے موت کی سختی جھیلیں گے پھر برزخ کی مصیبت گزار کر قیامت کے دن کی مصیبت میں مبتلا ہوں گے وہ مصیبت بہت ہی زیادہ سخت ہوگی اور بہت ہی زیادہ کڑوی ہوگی جیسے بہت سخت کڑوی چیز کا چکھنا اور نگلنا بہت دشوار ہوتا ہے اسی طرح قیامت کی مصیبت کو سمجھ لو۔ اس سے قیامت کی مصیبت کا تھوڑا سا اندازہ ہوجائے گا۔ قال صاحب الروح واشد مرارة فی الذوق وھواستعارہ لصعوب تھا علی النفس ـ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” بل الساعۃ۔ الایۃ “ یہ تو معمولی عذاب ہوگا اور یہ ان کے کرتوتوں کی پوری سزا نہیں، ان کی پوری سزا کا دن تو قیامت کا دن ہے جس کی دہشت وہیبت اور جس کے عذاب کی شدت سب سے زیادہ ہوگی اور جس کا عذاب ہر عذاب اور سزا سے زیادہ تلخ اور سب سے بڑھ کر المناک ہوگا۔ ” ان المجرمین۔ الایۃ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن تمام مجرمین ہلاکت اور بھڑکتی آگ میں ہوں گے یا دنیا میں خسارے اور جنون میں ہیں۔ قرآن ایسی روشن کتاب سے ہدایت حاصل نہ کرنا سراسر جنون اور خسارہ ہے۔ ” فی ضلال وسعر “ فی ھلاک و نیران (مدارک ج 4 ص 106) ۔ وقال ابن عباس (رض) : فی خسران وجنون (روح ج 27 ص 93) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) صرف یہ ہی نہیں ان کے اصل وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی ہی سخت اور بڑی ہی تلخ ہے۔ یعنی یہ یوں کہتے ہیں کہ ہماری جمعیت اور ہمارا باہمی میل اور ہمارا بندھن دشمن سے خوب بدلا لینے والا ہے۔ یعنی ہمیں کون نقصان پہنچانے والا ہے اور ہماری مغلوبیت کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ہمارا باہمی بندھن بہت مضبوط ہے اور ہم میں دشمن سے بدلہ لینے کی طاقت ہے اس لئے ہم غالب رہیں گے اور مغلوب نہیں ہوسکتے۔ حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا یہ جماعت اور یہ جمعیت تو دنیا ہی میں پارہ پارہ ہوجائیگی اور یہ جماعت شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر اور پیٹھ دے کر بھاگے گی یہ تو دنیا ہی میں ہوگا جیسا کہ غزوہ بدر اور غزوہ احزاب میں یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی بلکہ ان کی اصل وعدہ گاہ تو قیامت ہے یعنی عذاب اکبر کا وقت تو وہ ہے اور وہ قیامت بڑی سخت آفت اور بڑی کڑوی چیز ہے۔