Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 7

سورة القمر

خُشَّعًا اَبۡصَارُہُمۡ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ کَاَنَّہُمۡ جَرَادٌ مُّنۡتَشِرٌ ۙ﴿۷﴾

Their eyes humbled, they will emerge from the graves as if they were locusts spreading,

یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہوں گے کہ گویا وہ پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ ... with humbled eyes, their eyes will be covered with disgrace, ... يَخْرُجُونَ مِنَ الاَْجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ they will come forth from (their) graves as if they were locusts spread abroad. They will gather towards the area of Reckoning in such haste and crowds, in response to the caller, as if they were crowds of locusts spreading all about. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی قبروں سے نکل کر وہ اس طرح پھیلیں گے اور موقف حساب کی طرف اس طرح نہایت تیزی سے جائیں گے، گویا ٹڈی دل ہے جو آنا فانا میں کشادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] قبروں سے مراد صرف وہ قبریں نہیں جہاں انہیں دفن کیا گیا تھا۔ ان قبروں کے تو نام و نشان تک باقی نہ رہ جائیں گے۔ بلکہ یہاں قبروں سے مراد وہ مقام ہیں۔ جہاں کسی انسان کے جسم کے ذرات خاک میں ملے ہوئے ہوں گے۔ اور قبروں سے نکلنے کے بعد ان کی نگاہیں سہمی ہونے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں ایک قیامت کے ہولناک مناظر دوسرے ان کی دنیا کی زندگی کی کرتوتیں۔ اسی سہمی ہوئی حالت میں وہ ٹڈی دل کی طرح اس طرف دوڑنا شروع کردیں گے جدھر سے انہیں پکارا جارہا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خُشَّعًا اَبْصَارُہُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ ۔۔۔” خشعا “ ” خاشع “ کی جمع ہے ، جیسے ” راکع “ کی جمع ” رکع “ ہے ۔ یعنی ذلت کی وجہ سے ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی ۔ ( دیکھئے شوریٰ : ٤٥)” الاجداث “ جدث ، ( دال کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے ۔ قبرر ” جراد “ اسلم جمع ہے، اس کا واحد ” جرادۃ “ ہے ، ٹڈیاں جو بیشمار تعداد میں زمین سے نکلتی ہیں اور ہر طرف پھیل جاتی ہیں ۔ ” منتشر “ پھیلی ہوئی ۔ قبروں سے نکلنے والوں کی حالت کو یہاں پھیلی ہوئی ٹڈیوں کے ساتھ اور سورة ٔ قارعہ میں ” گا لفراش المبثوت ‘ ‘ بکھرے ہوئے پروانوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ دونوں ہی جب نکلتے ہیں تو بیشمار تعداد میں ایک دو سے کے گرد اڑتے ، گھومتے اور آپس میں ٹکراتے ہوئے تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں ، پروانے آگ کی طرف اور ٹڈیاں اس طرح جدھر ان کا رخ ہوجائے۔ اس طرح قبروں سے نکلنے والے تیزی کے ساتھ صور کی آواز کی طرف بیشمار پھیلی ہوئی ٹڈیوں کی طرح گرتے پڑتے ، چکر کھاتے ، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے بےاختیار دوڑتے چلے جا رہے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خُشَّعًا اَبْصَارُہُمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّہُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ۝ ٧ ۙ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر ) بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جدث قال تعالی: يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] ، جمع الجَدَث، يقال : جدث وجدف وفي سورة يس : فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] . ( ج د ث ) جدث ۔ قرج اجداث قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] اس دن یہ قبر سے نکل کر ( اس طرح ) دوڑیں گے ۔ اور سورة یسن میں ہے : ۔ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کیطرف دوڑیں گے ۔ اور قبروں کو جدف بھی کہا جاتا ہے ۔ جَرَاد الجَرَاد معروف، قال تعالی: فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ، وقال : كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] ، فيجوز أن يجعل أصلا فيشتق من فعله : جَرَدَ الأرض، ويصح أن يقال : إنما سمّي ذلک لجرده الأرض من النبات، يقال : أرض مَجْرُودَة، أي : أكل ما عليها حتی تجرّدت . وفرس أَجْرَد : منحسر الشعر، وثوب جَرْدٌ: خلق، وذلک لزوال وبره وقوّته، وتَجَرَّدَ عن الثوب، وجَرَّدْتُهُ عنه، وامرأة حسنة المتجرد . وروي : «جرّدوا القرآن» أي : لا تلبسوه شيئا آخر ينافيه، وانْجَرَدَ بنا السیر وجَرِدَ الإنسان : شري جلده من أكل الجراد . ( ج ر د ) الجراد ۔ ٹڈی اس کا واحد جرادۃ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں ۔۔۔ بھیجیں ۔ كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] الغرض جراد کے معنی ٹڈی کے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اصل ہو اور اس سے جرد الارض مشتق ہو ۔ جس کے معنی میں ٹڈی زمین پر سے گھاس چٹ کرگئی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جراد خود جردے مشتق ہو جس کے معنی ننگا کرنے کے میں اور چونکہ ٹڈی زمین کی روئیدگی کو کھا کر اسے ننگا اور صاف کردیتی ہے اس لئے ٹڈی کو جراد کہا گیا ہے اور ارض مجرودۃ اس زمین کو کہا جاتا ہے جس کی نباتات کو ٹڈیوں نے کھا کر صاف کردیا ہو۔ فرس اجرد بےبال یا چھوٹے بالوں والا گھوڑا ثوب جرد پرانا کپڑا ۔ کیونکہ اس کی روئیں جھڑجاتی ہے اور کمزور ہوجاتا ہے ۔ تجرد عن الثوب ننگا ہونا ۔ کپڑے اتار دینا جردہ ( عن الثیاب ) ننگا کرنا ۔ امرءۃ حسنہ المتجود یعنی خوب صورت بدن است وقت برمنگی ایک روایت میں ہے (61) جرد والقرآن قرآن کو علیحدہ رکھو یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز خلط ملط نہ کرو ۔ انجرد بنا السیر ۔ دراز گروید سفر ۔ جرد الانسان خراج بر آروپوست انسان از خوردن ملخ یعنی ملخ کے کاٹنے سے جسم پر پتی اچھلنا ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { خُشَّعًا اَبْصَارُہُمْ } ” (اس وقت) ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوں گی۔ “ { یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ کَاَنَّـہُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ ۔ } ” یہ اپنی قبروں سے ایسے نکل کر آئیں گے جیسے ٹڈی ّدَل پھیلا ہوا ہو۔ “ ظاہر ہے ہزاروں سال سے انسان اس زمین میں دفن ہو رہے ہیں اور قیامت تک ان کی تعدادکتنی ہوجائے گی ‘ ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ چناچہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری فوت ہونے والے انسان تک سب کے سب زمین سے نکل کر ایک ہی سمت دوڑے چلے جا رہے ہوں گے تو وہ ٹڈی دل کی طرح نظر آئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 "Graves" do not signify only those pits in the earth in which a person might have been properly buried, but he would rise up from wherever he had died, or from wherever his dust lay, on the call of the Caller to the plain of Resurrection. 8 Literally: "Their looks will be downcast. "This can have several meanings: (1) That they will appear tenor-stricken; (2) that they will be reflecting disgrace and humiliation, for as soon as they arise out of their graves they would realize that it was indeed the same second life which they had been denying, for which they had made no preparation, and in which they would have to present themselves before their God as culprits; and (3) that with awe-struck looks they would be watching the dreadful scenes before them, from which they would not be able to avert their eyes.

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں خُشَّعاً اَبصَارُھُمْ ، یعنی ان کی نگاہیں خشوع کی حالت میں ہوں گی ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان پر خوف زدگی طاری ہو گی ۔ دوسرے یہ کہ ذلت اور ندامت ان سے جھلک رہی ہو گی کیونکہ قبروں سے نکلتے ہی انہیں محسوس ہو جائے گا کہ یہ وہی دوسری زندگی ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے ، جس کے لیے کوئی تیاری کر کے ہم نہیں آئے ہیں ، جس میں اب مجرم کی حیثیت سے ہمیں اپنے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ گھبرائے ہوئے اس ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہوں گے جو ان کے سامنے ہو گا ، اس سے نظر ہٹانے کا انہیں ہوش نہ ہو گا ۔ سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :8 قبروں سے مراد وہی قبریں نہیں ہیں جن میں کسی شخص کو زمین کھود کر باقاعدہ دفن کیا گیا ہو ۔ بلکہ جس جگہ بھی کوئی شخص مرا تھا ، یا جہاں بھی اس کی خاک پڑی ہوئی تھی ، وہیں سے وہ محشر کی طرف پکارنے والے کی ایک آواز پر اٹھ کھڑا ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:7) خشعا : عاجزی کرنے والے۔ خشوع کرنے والے۔ خاشع کی جمع جو خشوع (باب فتح) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ یہ یخرجون میں ضمیر ہم کا حال ہے۔ اس لئے منصوب ہے۔ یخرجون : مضارع جمع مذکر غائب خروج (باب نصر) مصدر سے۔ سب نکل کھڑے ہوں گے۔ سب نکل آئیں گے۔ اجداث : جمع ہے جدث کی۔ بمعنی قبریں۔ کانھم : کان حرف مشابہ بفعل ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کان کا اسم ۔ گویا وہ سب۔ جراد منتشر موصوف وصفت جراد ٹڈیاں۔ اسم جنس۔ جرادۃ اس کا واحد ہے بمعنی ٹڈی ۔ منتشر پراگندہ ۔ بکھیرنے والا۔ بکھرنے والا۔ انتشار (افتعال) مصدر سے اسم فاعل واحد مذکر۔ بکھڑی ہوئی ٹڈیاں۔ گویا کہ وہ ٹڈیوں کے دل ہیں جو بکھر رہے ہیں۔ سورة القارعہ میں ارشاد ہے :۔ یوم یکون الناس کالفراش المبثوث (101:4) جس دن لوگ پروانوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے۔ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے صور پھونکنے پر مردوہ کا زندہ ہوکر بعجلت قبروں سے باہر نکل آنے اور موج در موج اور قطار در قطار اس جم غفیر کا میدان محشر کی طرف لبرعت دوڑ پڑنے کو فراش المبثوث اور جراد امنتشر سے تشبیہ دی گئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) یہ قبروں سے اس حال میں نکلیں گے کہ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ یعنی جب ان کی حالت یہ ہے کہ ان کو کوئی خوف دلانے والی بات نفع نہیں پہنچاسکتی تو آپ ان کا خیال چھوڑ دیجئے اور ان کی طرف التفات نہ کیجئے کیونکہ جس دن سے آپ ان کو ڈراتی ہیں وہ دن آئے گا تو ان کو خود ہی معلوم ہوجائے گا وہ دن ایسا ہوگا جس دن ایک بلانے والا فرشتہ ان کو بلائے گا یعنی نفخہ صور ہوگا اور یہ قبروں سے نکلیں گے جیسے بکھری ہوئی ٹڈیاں ہوتی ہیں آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور وہ چیزجس کے طرف وہ فرشتہ بلائے گا وہ چیز ناخوش اور ان دیکھی ہوگی حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حساب کو۔ اور چونکہ قبروں سے نکلنے کے بعد مختلف حالات سے دو چار ہونا پڑے گا اس لئے کبھی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی کبھی آنکھیں پھٹی ہوئی ہوں گی اور اوپر کی جانب ٹکٹکی لگی ہوئی ہوگی، یہاں قبروں سے اٹھنے کی حالت مذکور ہے پراگندہ ٹڈیوں سے تشبیہہ فرمائی جیسے ٹڈیاں ادھر ادھر اڑتی پھرتی ہیں اسی طرح قبروں سے نکلنے والے ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہونگے۔