Surat ul Qamar

Surah: 54

Verse: 8

سورة القمر

مُّہۡطِعِیۡنَ اِلَی الدَّاعِ ؕ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَسِرٌ ﴿۸﴾

Racing ahead toward the Caller. The disbelievers will say, "This is a difficult Day."

پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہونگے اور کافر کہیں گے کہ یہ دن تو بہت سخت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مُّهْطِعِينَ ... Hastening, (meaing hurriedly), ... إِلَى الدَّاعِ ... towards the caller. without being able to hesitate or slow down, ... يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَذَا يَوْمٌ عَسِرٌ The disbelievers will say: "This is a hard Day.", meaing, `this is a hard, terrible, horrifying and distressful Day,' فَذَلِكَ يَوْمَيِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكَـفِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ Truly, that Day will be a Hard Day -- far from easy for the disbelievers. (74:9-10)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] قیامت کی ہولناکیوں اور دہشت ناک مناظر دیکھ کر انہیں یہی فکر لاحق ہوگی کہ دیکھئے آج ان پر کیا گزرتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مُّہْطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ ط ۔۔۔۔” اھطع یھطع “ ( افعال) کسی چیز کی طرف ٹکٹکی باندھے یا گردن اٹھائے ہوئے تیزی سے دوڑنا ( دیکھئے ابراہیم : ٤٣) ” عسر “ ” عسر “ سے صفر مشبہ ہے ، بہت مشکل۔ ٢۔ مفسر ابن عاشور نے فرمایا :” یوم یدع الداع “ سے ” یوم عسر “ تک اس دن کی ہولناکی سات طرح سے ظاہر ہو رہی ہے ١۔ یدع الداع اسرافیل (علیہ السلام) کا بلانا ہی اتنا ہولناک ہے جو بیان میں نہیں آسکتا ۔ ٢۔ ” الی شئی “ میں ” شئی “ پر تنوین تنکیر سے پیدا ہونے والی تعظیم اور ابہام اس ہول میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ٣۔ ” نکر “ ٤” خشعاً ابصارھم “۔ ٥۔ ” جراد منتشر “ کے ساتھ تشبیہ۔ ٦۔ ” مھطعین الی الداع “۔ ٧۔ اور ان کا کہنا ” ھذا یوم عسر “ کہ یہ بڑا مشکل دن ہے “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ (rushing quickly towards the caller....54:8). The word muhti` in literally denotes walking quickly with one&s head raised above. This, together with the two preceding verses, gives a graphic picture of the Day of Gathering or Reckoning. The people will hasten hurriedly in the direction of the voice of the Caller towards the mahshar (area of Reckoning). The words: |"With their eyes humbled, |"in preceding verse (7) are in no conflict with the present verse, because there will be many different occasions in mahshar. On some of these occasions, the eyes of all the people will be cast down.

مُّهْطِعِيْنَ اِلَى الدَّاعِ ، مہطعین کے لفظی معنی سر اٹھا ہونے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ بلانے والے کی آواز کی سمت میں دیکھتے ہوئے محشر کی طرف دوڑیں گے اور اس سے پہلی آیت میں جو خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ آیا ہے جس کے معنی ہیں نگاہ اور سر جھکانے کے، ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ محشر کے مواقف مختلف ہوں گے، کسی موقف میں ایسا بھی ہوگا کہ سب کے سر جھکے ہوئے ہوں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُّہْطِعِيْنَ اِلَى الدَّاعِ۝ ٠ ۭ يَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ۝ ٨ هطع هَطَعَ الرجل ببصره : إذا صوّبه، وبعیر مُهْطِعٌ:إذا صوّب عنقه . قال تعالی: مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم/ 43] ، مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر/ 8] . ( ھ ط ع ) ھطع الرجل ببصرہ کے معنی ہیں اس نے نظر جماکر دیکھا اور گردن اٹھا کر چلنے والے اونٹ کو بعیر مھطع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ لا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ [إبراهيم/ 43] ( اور لوگ ) سر اٹھائے ہوئے ( میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی ۔ مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ [ القمر/ 8] اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عسر العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح/ 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة/ 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق/ 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان/ 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر/ 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ. ( ع س ر ) العسر کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح/ 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة/ 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق/ 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان/ 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر/ 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { مُّہْطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ } ” دوڑتے ہوئے آئیں گے پکارنے والے کی طرف۔ “ { یَـقُوْلُ الْـکٰفِرُوْنَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ۔ } ” کافر کہیں گے کہ یہ تو بڑا سخت دن ہے ۔ “ ہر شخص کو اپنی قبر سے اٹھتے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ اس کے ساتھ کیسا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ جیسا کہ سورة القیامہ میں فرمایا گیا : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۔ } کہ ہر انسان اپنے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ ” من آنم کہ من دانم ! “ چناچہ کفار و مشرکین اپنی قبروں سے نکلتے ہی روزحشر کی سختیوں کے بارے میں چیخ و پکار شروع کردیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(54:8) مھطعین اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ مھطع واحد۔ اھطاع (افعال) مصدر ۔ سر جھکائے تیزی سے دوڑنے والے۔ مھطع عاجزی اور ذلت کی وجہ سے نظر نہ اٹھانے والا۔ بلانے والے کی طرف خاموشی سے چلا جانے والا۔ مھطعینبوجہ عمل یخرجونسے حال ہونے کے منصوب ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الی ربھم ینسلون (36:51) اور جس وقت صور پھونکا جائے گا یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ فائدہ : یقول الکفرون : الایۃ قبروں سے زندہ ہوکر میدان محشر میں آنے کا حکم سب کے لئے ہوگا۔ لیکن کفار اپنے گناہوں کی وجہ سے سخت عذاب میں ہوں گے ۔ اور جب وہ داعی محشر کی پکار پر دوڑ رہے ہوں گے تو ماحول کی سختی سے عاجز ہوکر پکاریں گے : ھذا یوم عسر یہ تو بڑا ہی سخت دن ہے۔ یوم عسر موصوف و صفت۔ عسر صفت مشبہ کا صیغہ ہے (باب ضرب، نصر) مصدر۔ دشوار، سخت، مشکل۔ آیت نمبر 9 سے چل کر (ولقد جاء ہم من الانباء آیت 4 متذکرہ الصدر) کی تفصیل میں اقوال سابقہ کی پانچ ایسی اقوام کا حال بیان ہوا ہے جو اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک اور برباد ہوگئیں ان میں سے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور فرعونیوں کی بربادی کا ذکر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) ان کی حالت یہ ہوگی کہ اس بلانے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے کافر اس دن کہیں گے یہ دن بڑا ہی سخت ہے۔ یعنی بلانے والے کی آواز پر بھاگتے ہوں گے دین حق کے منکریوں کہتے ہوں گے یہ دن بڑا ہی سخت اور دشوار دن ہے جب اس دن کی مشکلات سامنے آئیں گی تب یہ کہیں گے آگے گزشتہ اقوام کے چند واقعات بیان فرمائے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔