Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 13

سورة الرحمن

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۳﴾

So which of the favors of your Lord would you deny?

پس ( اے انسانو اور جنو! ) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then which of the blessings of your Lord will you both deny? meaning, "O mankind and Jinn, which of the favors that Allah has given to you do you deny" Mujahid and others said this, and it is apparent when one reads what comes after it. Meaning the favors that are obvious to you while you are surrounded by them, you cannot deny or reject them. So we say, just as the believers among...  the Jinns said, "O Allah! None of Your favors do we deny. All praise is due to You." Ibn Abbas used to say, "Nay, our Lord!" meaning, "None of Your favors do we deny."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پر مسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے ؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں ؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا...  تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں ؟ (فتح القدیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] آلاء کا لغوی مفہوم :۔ آلاَءِ (اِلٰی کی جمع بمعنی نعمت بھی اور قدرت یا نشان عظمت بھی) اور آلاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضرورت مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ (فقہ اللغۃ) اور یہ لفظ بالعموم جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ کیو... نکہ ایسی نعمت ایک تو ہے نہیں لہذا ہمیشہ آلاء آتا ہے۔ اور یہ آیت اس سورة میں اکتیس مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ کہیں آلاء کا لفظ عظیم الشان نعمتوں کے معنوں میں اور کہیں قدرت کی نشانیوں کے معنوں میں اور کہیں بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀) 55 ۔ الرحمن :13) پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ ) (اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ :” الائ “” الی “ کی جمع ہے جو اصل میں ” الی “ ہے ، جیسے ” معی “ ( انتڑی) کی جمع ” امعائ “ ہے۔ اس کا ایک معنی نعمت ہے۔ طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے :” فبای نعمۃ اللہ تکذبان “ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کس کس ن... عمت کو جھٹلاؤ گے ؟ “ اور ایک معنی قدرت ہے ، چناچہ طبریٰ ہی نے ابن زید کی تفسیر نقل فرمائی ہے ، انہوں نے فرمایا :” الا لا القدرۃ ، فبای قدرۃ اللہ تکذبان “ یعنی ” تم دونوں اللہ کی کس کس قدرت کو جھٹلاؤ گے “۔ ٢۔ مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا، نعمتوں کے بیان اور ان کی یاد دہانی کے لیے یہ آیت یہاں اکتیس (٣١) مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے کسی پر احسان کیے ہوں اور وہ ان احسانوں کو نہ مانتا ہو تو اسے کہتا ہے ، کیا تو فقیر نہیں تھا ؟ میں نے تجھے مال دیا ، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے ؟ کیا تو ننگا نہیں تھا ؟ میں نے تمہیں لباس پہنچایا ، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے۔۔۔۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے آٹھ مرتبہ یہ آیت ان آیات کے بعد دہرائی جن میں اس کی مخلوق کے عجائب اور ان کی ابتداء و انتہاء کا ذکر ہے ، پھر جہنم کے دروازوں کی تعداد کے مطابق سات مرتبہ ان آیات کے بعد دہرائی ہے جن میں آگ اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے۔ پھر جنت کے دروازوں کی تعداد کے مطابق آٹھ مرتبہ دو جنتوں کے وصف میں اسے دہرایا ہے۔ پھر ان دو جنتوں کے علاوہ دوسری دو جنتوں کے وصف میں آٹھ مرتبہ دہرایا ہے۔ تو جو شخص پہلی آٹھ چیزوں کا عقیدہ یقین رکھے گا اور ان کے تقاضے پر عمل کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ان آٹھ نعمتوں کا مستحق ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اسے پہلی ساتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ ( ملخصا ً ) ٣۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سورت کی کئی آیات میں جہنم اور عذاب کا بھی ذکر ہے ، تو ان کے بعد ” فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ “ کہنے میں کون سی نعمت یاد دلائی جا رہی ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ” الائ “ کا معنی قدرت بھی ہے ، جیسا کہ اوپر گزرا ۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات اور جہنم و عذاب کے بیان کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی قدرت کو جھٹلاؤ گے ؟ اور ایک جواب یہ ہے کہ عذاب آنے سے پہلے اس کے متعلق خبردار کردینا بہت بڑی نعمت ہے ، کیونکہ اس سے بندہ اس سے بچنے کی جدوجہد کرسکتا ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mankind and Jinn are surrounded by Divine Bounties فَبِأَيِّ آلَاءِ رَ‌بِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (So, [ 0 mankind and Jinn,] which of the bounties of your Lord will you deny?...55:13). The word آلَاءِ &al a& is the plural and it means &benefits, benefaction, favour, boon, blessing or bounty&. The address is to the two species of Jinn and men referred to in verse 33 below and many oth... er verses of Surah Ar-Rahman where Jinn are specifically mentioned.  Show more

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ، لفظ آلاء جمع ہے نعمتوں کے معنے میں اور مخاطب اس کا انسان اور جن ہیں، جس کا قرینہ سورة رحمن کی متعدد آیتوں میں جنات کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝ ١٣ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔...  جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ آلاء ( نعمت) فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف/ 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] : إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة اور آیت کریمہ :۔ { فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ } ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ { وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) } ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے آلائ جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ ( بحوالہ انوار البیان) رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ } ” تو تم دونوں (گروہ) اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے ؟ “ عام طور پر اٰلَآئِ کا ترجمہ ” نعمتیں “ کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس لفظ میں نعمتوں کے ساتھ ساتھ قدرتوں کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ اس سورت میں بھی اس لفظ سے کہیں اللہ...  کی نعمتیں مراد ہیں اور کہیں اس کی قدرتیں۔ تُکَذِّبٰنِ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت میں جنوں اور انسانوں سے مسلسل ایک ساتھ خطاب ہو رہا ہے ۔ آگے چل کر آیت ٣٣ میں یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے خطاب سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ (١)   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 The word alaa' in the refrain as repeated over and over again in the subsequent verses has been translated differently at different places. Therefore, it would be useful to understand at the outset how vast this word is in meaning and what different shades of meaning it contains. The lexicographers and commentators generally have explained alaa' to mean "blessings" and "bounties". The translato... rs also have given this same meaning of this word, and the same has been reported from Ibn 'Abbas, Qatadah and Hasan Basri. The major argument that supports this meaning is the Holy Prophet's own statement that the jinn on hearing this verse being recited would respond to it, saying La bi-shai in-min-ni maatika Rabba-na nukadhdhib: "O our Lord, we do not deny any of Your blessings." Therefore, we do not subscribe to the view of some present-day scholars, who say that alaa' is never used in the meaning of the blessing. Another meaning of this word is power and wonders of power, or excellent manifestations of power. Ibn Jarir Tabari has reported that Ibn Zaid took the words fa-bi-ayyi alaa i Rabbi kuma in the meaning of fa bi-ayyi qudrat-Allah. Ibn Jarir himself has taken alaa' in the meaning of power and might in his commentary of vv. 37-38. Imam Razi also has made this observation in his commentary of vv.14-16: "These verses do not describe the blessings but the powers of AIIah, and in the commentary of vv. 22-23, this; "These describe the wonders of power and not the blessings." Its third meaning is virtue, praiseworthy qualities, and prefections. Though this meaning has not been mentioned by the lexicographers and commentators, this word has often been used in this meaning in Arabic poetry. ( Examples omitted). Thus, we have taken this word in its vastest meaning and translated it suitably keeping in view the context in which it occurs. However, at some places the word alaa ' may have several senses in one and the same place, but due to limitations of translation we have had to adopt only one meaning. For example, in this verse after making mention of the creation of the earth and of making the best arrangements for the supply of provisions to the creatures, it has been said: 'Which of the alaa' of your Lord will you deny?" Here, alaa' has not been used in the meaning of the blessings only but also in the meaning of the manifestations of AIIah Almighty's power and His praiseworthy attributes. It is a wonder of His might that He fashioned this earth in such a marvellous manner that countless species of creatures live here and an endless variety of fruits and grain are grown on it. And it is due to His praiseworthy qualities that He not only created these creatures but also made arrangements for their sustenance and the supply of provisions for them; and the arrangements also so perfect that their food is not only nutritious but also pleasing to the taste and sight. In this connection, reference has been made to only one excellence of AIlah Almighty's workmanship for the sake of example, viz., the creation of the date-palm fruit in sheaths. Keeping this one example in view one may consider what excellences of art have been devised and shown in the packing of banana, pomegranates, orange, coconut and other fruits, and how each of the different sorts of the grains and pulses which we so thoughtlessly cook and eat, are produced hotly packed and covered in ears and pods and clusters. 13 "Denying" implies the several attitudes that the people adopt in respect of AIlah Almighty's blessings and manifestations of His might and His praiseworthy attributes. For example, some people do not at all admit that the Creator of aII things is Allah Almighty. They think that aII this is a mere byproduct of the matter, or an accidental happening, which is un-related with any wisdom and skill and workmanship. This is open denial. Some other people do admit that the Creator of these things is Allah, but regard others beside Him also as associates in Godhead: they render thanks to others for His blessings: they adore others although they eat His provisions. This is another form of denial. Obviously, it would be the height of ingratitude if a person while admitting that a certain person had done him a favour rendered thanks to another, who had not in fact dent him that favour, for this act of his would be an express proof that he regarded the other person as his benefactor whom he was rendering the thanks. There are still others. who acknowledge Allah alone as the Creator of all things and the Bestower of all blessings, but do not admit that they should obey the Commands of their Creator and Sustainer and follow His injunctions. This is another form of ingratitude and denial of the blessings, for the person who behaves so denies the right of the Bestower of the blessing although he acknowledges the blessing itself. Some other people neither disavow the blessing nor deny the right of the Bestower of the blessing, but in practice there is no appreciable difference between their conduct and the conduct of a denier. This is not verbal denial but denial in practice.  Show more

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :12 اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ میں ادا کیا ہے ۔ اس لیے آغاز ہی میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں معنی کی کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں ۔ آلاء کے معن... ی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کیے ہیں ۔ تمام مترجمین نے بھی یہی اس لفظ کا ترجمہ کیا ہے ۔ اور یہی معنی ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری سے منقول ہیں ۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لا بشیء من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے ۔ لہذا زمانۂ حال کے بعض محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ آلاء نعمتوں کے معنی میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا ۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ۔ ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37 ۔ 38 کی تفسیر میں آلاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے ۔ امام رازی نے بھی آیات 14 ۔ 15 ۔ 16 کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ ان آیات بیان نعمت کے لیے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لیے ہیں ۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں خوبیاں ، اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے ، مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ نابغہ کہتا ہے : ھم الملوک وابناء الملوک لھم فضل علی الناس فی الالاء والنعم وہ بادشاہ اور شاہزادے ہیں ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں ور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے : الحزم والعزم کانا من طبائعہ ما کل اٰلائہ یا قوم احصیھا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگوں میں اس کی ساری خوبیاں شمار نہیں کر رہا ہوں ۔ فضالہ بن زید المعدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور: وتحمد اٰلاء البخیل المدرھم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے اجدع ہمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے : ورضیت اٰلاء الکمیت فمن یبع فرسا فلیس جوادنا بمباع مجھے کُمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے بیچے ، ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے ۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے ، اپنے ممدوح ولید بن ادھم کے اقتدار کا مرثیہ کہتا ہے : اذا ما امرؤ اثنی بالاء میت فلا یبعد اللہ الولید بن ادھما جب بھی کوئی شخص کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کرے تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادھم اس موقع پر فراموش ہو ۔ فما کان مفراحا اذا الخیر مسہ ولا کان منانا اذا ھوا نعما اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ تھا اور کسی پر احسان کرتا تو جتاتا نہ تھا طرفہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے : کامل یجمع اٰلاء الفتیٰ نبہ سید سادات خضم ”وہ کامل اور جوانمردی کے اوصاف کا جامع ہے ۔ شریف ہے ، سرداروں کا سردار ، دریا دل “ ان شواہد و نظائر کو نگاہ میں رکھ کر ہم نے لفظ آلاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے اسکے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دیے ہیں ۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ آلاء کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور ترجمے کی مجبوریوں سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں ، کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کر سکے ۔ مثلاً اس آیت میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق رسانی کے بہترین انتظامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کے کن کن آلاء کو جھٹلاؤ گے ۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے معنی ہی میں نہیں ہے ، بلکہ اللہ جل شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے ۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرۂ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بے شمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا ، اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نری غذائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت کام و دہن اور ذوق فطرت کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ اس ایک مال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھیے کہ کیلے ، انار ، سنترے ، ناریل اور دوسرے پھلوں کے پیکنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گیے ہیں ، اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور جوب ، جو ہم بے فکر کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کر کے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :13 جھٹلانے سے مراد وہ متعدد رویے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کے کرشموں اور اس کی صفات حمیدہ کے معاملہ میں لوگ اختیار کرتے ہیں ، مثلاً : بعض لوگ سرے سے یہی نہیں مانتے کہ ان ساری چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض مادے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے ، یا ایک حادثہ ہے جس میں کسی حکمت اور صناعی کا کوئی دخل نہیں ۔ یہ کھلی کھلی تکذیب ہے ۔ بعض دوسرے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے مگر اس کے ساتھ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں ، اس کی نعمتوں کا شکریہ دوسروں کو ادا کرتے ہیں ، اور اس کا رزق کھا کر دوسروں کے گن گاتے ہیں ۔ یہ تکذیب کی ایک اور شکل ہے ۔ ایک آدمی جب تسلیم کرے کہ آپ نے اس پر فلاں احسان کیا ہے اور پھر اسی وقت آپ کے سامنے کسی ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنے لگے جس نے در حقیقت اس پر وہ احسان نہیں کیا ہے تو آپ خود کہہ دیں گے کہ اس نے بدترین احسان فراموشی کا ارتکاب کیا ہے ، کیونکہ اس کی یہ حرکت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ آپ کو نہیں بلکہ اس شخص کو اپنا محسن مان رہا ہے جس کا وہ شکریہ ادا کر رہا ہے ۔ کچھ اور لوگ ہیں جو ساری چیزوں کا خالق اور تمام نعمتوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں ، مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں اپنے خالق و پروردگار کے احکام کی اطاعت اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنی چاہئے ۔ یہ احسان فراموشی اور انکار نعمت کی ایک اور صورت ہے ، کیونکہ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ نعمت کو ماننے کے باوجود نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتا ہے ۔ کچھ اور لوگ زبان سے نہ نعمت کا انکار کرتے ہیں نہ نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتے ہیں ، مگر عملاً ان کی زندگی اور ایک منکر و مکذب کی زندگی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا ۔ یہ تکذیب بالقول نہیں بلکہ تکذیب بالفعل ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:13) فبای الاء ربکما تکذبان : ف سببیہ ہے اور ای استفہامیہ ہے۔ اور استفہام کا مقصد ہے۔ (1) الاء کو مؤکدہ کرنا۔ (2) تکذیب الاء کو رد کرنا۔ کیونکہ الاء لا ذکر نعمتوں کے اقرار اور منعم کے شکر کا مقتضی ہے اور نعمتوں کی تکذیب کی نفی کر رہا ہے۔ اسی طرح ناشکری پر وعید (اور شکرپر) وعدہ نعمتوں کے اقرار و...  شکر کا موجب ہے۔ حاکم نے بوساطت محمد بن منکدر حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ :۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے سامنے سورة الرحمن آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ : ۔ میں تم لوگوں کو خاموش دیکھ رہا ہوں۔ ایسا کیوں ہے ؟ تم سے بہتر تو جن تھے جب اور جتنی بار میں نے ان کے سامنے فبای الاء ربکما تکذبن پڑھی ہر بار انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرسکتے تیرے ہی لئے ہر طرح کی حمر ہے (ولا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد تفسیر مظہری) الائ : جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں (لسان العرب) ۔ امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے (مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ المنجد میں الا لی الالی الالی (جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ علامہ مودودی نے الاء پر تفصیلی بحث کی ہے جسے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے سے ہوتا ہی نہیں۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ (وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔ الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یا قوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو ! میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع (مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے وہ اپنے ممدوح ولدی بن ادہم کے اقتدار کا مرثیہ لکھتا ہے :۔ اذا ما امرؤ اثنی بالاء میت : فلا یبعد اللہ الولید بن ادھما فم کان فراجا اذا الخیر مسہ : ولا کان منانا اذھو انعما ترجمہ : جب بھی کوئی شخص مرنے والے کی خوبیان بیان کرے، تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادہم اس موقع پر فراموش ہو۔ اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ سماتا تھا۔ اور کسی پر احسان کرتا تھا تو جتلاتا نہ تھا۔ طرقہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے :۔ کامل یجعم الاء الفتی : نبہ سید سادات خضم وہ کامل اور جو ان مردی کے اوصاف کا جامع ہے۔ شریف ہے سرداروں کا سردار دریا دل۔ ان شواہد و نظائر کی روشنی میں ہم نے لفظ الاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع محل کے مطابق اس کے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دئیے ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ لاء کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں اور ترجمے کی مجبوری سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ وہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کرسکے۔ مثلاً اس آیت 13 میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق رسانی کے بہترین انعامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن الاء کو جھٹلاؤ گے۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے ہی معنی میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرہ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بیشمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نرمی غزائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت کام و دہن اور ذوق نظر کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھئے کہ کیلے، انار، سنترے، ناریل اور دوسرے پھلوں کی پیلنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گئے ہیں۔ اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور حبوب جو ہم بےفکری کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں َ ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کرکے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے۔ (تفہیم القرآن) تکذبن : مضارع تثنیہ مذکر حاضر۔ تکذیب (تفعیل) مصدر۔ تم دونوں جھٹلاتے ہو۔ یا ۔ تم دونوں جھٹلاؤ گے۔ یہاں مخاطب جن و انس ہیں اس لئے تثنیہ کا صیغہ لایا گیا ہے بعض کے نزدیک خطاب انسان سے ہے اور واحد کی بجائے تثنیہ کا صیغہ تاکید کے لئے لایا گیا ہے اس کی مثال قرآن مجید میں اور جگہ ملتی ہے۔ مثلاً : القیافی جھنم کل کفار عنید (50:24) ہر سرکش ناشکرے کو دوزخ میں ڈال دو ۔ یہاں تثنیہ کا صیغہ تائید کے فائدہ کے لئے آیا ہے۔ فائدہ : یہ آیت اس سورت میں 31 بار دہرائی گئی ہے ۔ تفسیر حقانی میں اس کی وضاحت میں تحریر ہے۔ شعرائے عرب بلکہ عجم چند اشعار مختلف المضامین کے بعد ایک بند بطور مسدس یا مخمس کے ایک اشتراک خاص ملحوظ رکھ کر مکرر لایا کرتے ہیں، جس سے اس مضمون کی خوبی دوبالا ہوجاتی ہے اور سامع کی طبیعت جو کسی قدر غافل ہوجاتی ہے اس پر ایک کوڑا سا تنبیہ کرنے کے لئے پڑجاتا ہے۔ اسی طرح اس سورت میں وہ بند فبای الاء ربکما تکذبن ہے جو ہر ایک ضان بخش مضمون کے بعد مکرر آکر مطالب میں جان ڈال دیتا ہے ۔ اس بات کا لفظ انہیں کو زیادہ آتا ہے جو کہ مذاق سخن سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں۔ عبارت کا دلکش ہونا بھی اثر کلام میں بڑی تاکید کرتا ہے۔ (تفسیر حقانی) اس طرح سورة القمر میں جملہ ولقد یسرنا القران للذکر فہل من مدکر۔ چار دفعہ اور سورة المرسلت میں جملہ ویل یومئذ للمکذبین دس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ ایک کا انکار کرو گے تو دوسری سامنے آجائے گی اور دوسری کا انکار کرو گے تو تیسری آخر کہاں تک انکار کرتے جائو گے ؟ یہ آیت اس سورة میں اکیس بار آئی ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس عن کر لا بشئی من نعمک ربنا نکدب ولک الحمد کہنا مستحب ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ آیت تفریعیہ اس سورت میں اکتیس جگہ آئی ہے اور ہر جگہ الاء کا مصداق جدا ہے، اس لئے یہ تکرار محض نہیں، محض لفظی تشارک ہے اور تکرار ظاہری کیو جہ سے اس میں افادہ تاکید بھی ہے اور اس قسم کا تکرار جو کہ قند مکرر سے شیریں تر ہے عرب کے کلام منثور و منظوم میں بکثرت بلا نکیر مستعمل ہے۔ تکذبان میں خطاب جن...  و انس کو ہونا ان دلائل سے ہے، قولہ تعالیٰ خلق الانسان و خلق الجان، قولہ تعالیٰ ایہ الثقلان، قولہ تعالیٰ انس قبلھم ولا جان۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فبای ............ تکذبن (55: ٣١) (پس اے جن وانس اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) یہ سوال شہادت قائم کرنے کے لئے ہے۔ ورنہ کوئی جن اور انسان فی الواقع اللہ کی نعمتوں کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ جن وانس پر اللہ نے اپنے احسانات اور انعامات اس کائنات کے حوالے سے تو گنوادیئے ، اب خود اپنی ذات کے حوالے سے ... کچھ حقائق۔ ذرا اپنی ذات ہی پر غور کرو :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 6:۔ ” فبای اٰلآء۔ الایۃ “ یہ اس سورت میں بار بار آئی ہے اور اس میں جنوں اور انسانوں سے خطاب ہے، ہر نعمت کے ذکر کے بعد اس آیت کو دہرا کر جن و انس کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اور تم کونسی نعمت کا انکار کرسکتے ہو کہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ہر نعمت اسی کی طرف...  سے ہے لہذا وہی برکات دہندہ ہے اور اس کے نام میں برکت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة الرحمن صحابہ کو پڑھ کر سنائی تو وہ خاموش رہے۔ آپ نے فرمایا تم سے جنوں ہی نے اچھا جواب دیا جب میں ان پر یہ سورت پڑھی اور جب میں ” فبای اٰلاء ربکما تکذبان “ پر پہنچتا تو وہ ہر بار جواب دیتے ’ لا بشیئ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد “ اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرتے تمام صفتیں تیرے ہی لیے ہیں۔ اس کے بعد صحابہ (رض) بھی اسی طرح جواب دینے لگے (ابن کثیر، روح) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) سو تم جن وانس اپنے پروردگار کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے اور تکذیب کرو گے۔ اول انسان کی ذات پر جو احسان تھے ان کو فرمایا پھر باہمی معاملات کے سلسلے میں عدل و انصاف کا ذکر فرمایا پھر عالم علوی کیا حسانات بتائے پھر عالم سفلی یعنی زمین کے بعض احسانات ظاہر فرمائے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اے گروہ جن ... وانس تم اپنے پروردگار کی نعمتوں کو اور اس کے احسانات کو کہاں تک جھٹلائو گے بھوسے والا اناج غلے جن کو روند کر چھلکا اتارتے ہیں پھول خوشبودار جن کی ہزارہا قسمیں اور ان میں ہزار ہا منافع ہیں یہ فبای الآء شاید اکتیس مرتبے اس سورت میں آیا ہے اور چونکہ ہر جگہ نعمت کی حیثیت جداگانہ ہے اور مصداق الگ ہے اس لئے ہر نعمت کے بعد فرمایا ہے کہ تم اے جنات و انسان ہماری کس کس نعمت کو جھٹلائو گے اور کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔  Show more