Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 17

سورة الرحمن

رَبُّ الۡمَشۡرِقَیۡنِ وَ رَبُّ الۡمَغۡرِبَیۡنِ ﴿ۚ۱۷﴾

[He is] Lord of the two sunrises and Lord of the two sunsets.

وہ رب ہے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(He is) the Lord of the two easts and the Lord of the two wests. meaning the sunrise of summer and winter and the sunset of summer and winter. Allah said in another Ayah, فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَـرِقِ وَالْمَغَـرِبِ So, I swear by the Lord of all the points of sunrise and sunset in the east and the west. (70:40), referring to the different places from which the sun rises and then sets on people every day. Allah said in another Ayah, رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلً The Lord of the east and the west; none has the right to be worshipped but He. So take Him alone as a trustee. (73:9), referring to the different places of sunrise and sunset and the benefits that this variation brings to the created, mankind and Jinns, فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 ایک گرمی کا مشرق اور ایک سردی کا مشرق اسی طرح مغرب ہے۔ اس لئے دونوں کو دوگنا ذکر کیا ہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کا مختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لئے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یہاں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر فرمایا اس لیے کہ اس سورة میں مسلسل دو دو چیزوں کا ذکر چل رہا ہے جبکہ سورة معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں فرمایا کہ وہ بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔ دو مشرقوں سے مراد ایک تو وہ مقام ہے جب سورج موسم گرما کے سب سے بڑے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ مقام ہے جہاں سے سورج، موسم کے سب سے چھوٹے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور ان دونوں مقاموں کے درمیان سب مشرق ہی مشرق ہیں۔ ہر روز طلوع آفتاب کے مقام کا ایک نیا زاویہ ہوتا ہے اور یہی حال مغربوں کا ہے۔ اسی تبدیلی سے موسم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف موسموں میں مختلف فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور ان مشرقوں اور مغربوں کے پیچھے ایک بڑا حیرت انگیز اور پیچیدہ نظام قائم ہے جس کی بنا پر یہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور ان کا ذکر پہلے کئی مقامات پر کیا جاچکا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ : سورج ہمیشہ مشرقی سمت کے درمیان سے طلوع نہیں ہوتا ، بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سر کیا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف اور ہر روز سورج کے طلوع ہونے کی جگہ ایک ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے سال بھر میں سورج کے ٣٦٥ مشرق ہوتے ہیں ، یہی حال اسکے مغربوں کا ہے۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ صافات (٥) میں اپنی صفت ” رب المشارق “ اور سورة ٔ معارج (٤٠) میں ” برب المشرق والمغرب “ بیان فرمائی ہے ۔ یہاں سردی اور گرمی کے آخری دو مقامات کے اعتبار سے ” رب المشرقین و رب المغربین ‘ ‘ فرمایا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ صفافات (٥)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah is the Lord of the Two Points of Sunrise and the Two Points of Sunset رَ‌بُّ الْمَشْرِ‌قَيْنِ وَرَ‌بُّ الْمَغْرِ‌بَيْنِ (He is the Lord of both points of sunrise and both points of sunset...55:17) The sun rises at different cardinal points in the east in winter and in summer: Thus we have the two easts [ mashriqain ]. Similarly, the sun sets at different cardinal points in the west in winter and summer: Thus we have two wests [ maghribain ].

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ، سردی اور گرمی میں آفتاب کا مطلع بدلتا ہے، اس لئے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے نکلنے کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں دوسری، انہی دونوں جگہوں کو آیت میں مشرقین سے تعبیر فرمایا ہے، اسی طرح اس کے بالمقابل مغربین فرمایا کہ سردی میں غروب آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی میں دوسری۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ۝ ١٧ ۚ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔ غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) وہ گرمی اور سردی کے دونوں شمرق اور ایسے ہی دونوں مغرب کا مالک ہے۔ دونوں مشرق کی ایک سو اسی منزلیں ہیں اسی طرح دونوں مغرب کی اور اتنی ہی چاند کی منزلیں ہیں اور کہا گیا ہے کہ دونوں مشرق اور دونوں مغرب کی ایک سو ستتر منزلیں ہیں پورے سال میں سورج دو دن تک ایک منزل سے طلوع ہوتا ہے اور اسی طرح ایک منزل میں غروب ہوتا ہے، سو اے جن انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ۔ } ” وہ ربّ ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا۔ “ یہاں پر رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ تثنیہ کے اس صیغہ کی مناسبت سے آیا ہے جو پوری سورت میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں { رَبُّ الْمَشْرِقِِ وَ الْمَغْرِبِ } (المُزَّمل : ٩) اور { رَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ } (المعارج : ٤٠) کی تراکیب بھی آئی ہیں۔ بہرحال واحد ‘ تثنیہ اور جمع کے یہ تینوں صیغے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ واحد کے صیغے میں مشرق اور مغرب تو معروف عام ہیں۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے تصور کو یوں سمجھیں کہ ایک وقت میں سورج جہاں سے طلوع ہو رہا ہے گلوب کی دوسری طرف وہیں پر وہ غروب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس نقطے پر سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے دوسری طرف اسی جگہ سے طلوع ہوتابھی دکھائی دیتا ہے۔ گویا سورج طلوع ہونے کا ہر نقطہ مقام غروب بھی ہے اور اسی طرح ہر مقام غروب گویا مقام طلوع بھی ہے۔ اس لحاظ سے گویا مشرق بھی دو ہیں اور مغرب بھی دو ۔ پھر کسی ایک مقام سے بظاہر نظر آنے والے مشرق و مغرب کے درمیان زمین پر ہر ہر نقطہ گلوب میں کسی کے لیے مقام طلوع ہے اور کسی کے لیے مقام غروب ۔ اس طرح گویا بہت سے مشرق ہیں اور بہت سے مغرب۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 'Both the Easts and both the Wests" may mean the two points of sunrise and the two points of sunset on the shortest day of winter and the longest day of summer as well as the easts and the wests of the two hemispheres of the earth. On the shortest day of winter the sun rises and sets making a small acute angle: on the contrary, on the longest day of summer-it rises and sets making a wide obtuse angle. Between them its points of rising and setting go on shifting every day, for which at another place in the Qur'an (AI-Ma'arij: 40) the words Rabbul-mashariq wal-magharib have been used. Likewise, at the time the sun rises in one hemisphere of the earth, it sets in the other hemisphere, thus producing two easts and two wests of the earth. There arc several meanings of calling AIIah Lord of both the Easts and both the Wests. Firstly, that it is by His Command that the system of the rising and setting of the sun and their changing pattern during the year is fimctioning. Second, that AIIah alone is the Master and Ruler of the earth and the sun; had they their own separate lords, this regular system of the rising and setting of the sun on the earth could not have functioned and continued to function permanently. Third, that the Master and Sustainer of both the Easts and both the Wests is One Allah alone; to Him belong the creations living between them. He alone is nourishing them, and it is for their sustenance that He has established this wise system of the rising and setting of the sun on the earth.

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :17 دو مشرقوں اور دو مغربوں سے مراد جاڑے کے چھوٹے سے چھوٹے دن اور گرمی کے بڑے سے بڑے دن کے مشرق و مغرب بھی ہو سکتے ہیں ، اور زمین کے دونوں نصف کروں کے مشرق و مغرب بھی ۔ جاڑے کے سب سے چھوٹے دن میں سورج ایک نہایت تنگ زاویہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس گرمی کے سب سے بڑے دن میں وہ انتہائی وسیع زاویہ بناتے ہوئے نکلتا اور ڈوبتا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان ہر روز اس کا مطلع اور مغرب مختلف ہوتا رہتا ہے جس کے لیے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں رَبُّ الْمشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ ( المعارج ۔ 40 ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح زمین کے ایک نصف کرے میں جس وقت سورج طلوع ہوتا ہے اسی وقت دوسرے نصف کرے میں وہ غروب ہوتا ہے ۔ یوں بھی زمین کے دو مشرق اور دو مغرب بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہنے کے کئی معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی کے حکم سے سورج کے طلوع و غروب اور سال کے دوران میں ان کے مسلسل بدلتے رہنے کا یہ نظام قائم ہے ۔ دوسرے یہ کہ زمین اور سورج کا مالک و فرمانروا وہی ہے ، ورنہ ان دونوں کے رب الگ الگ ہوتے تو زمین پر سورج کے طلوع و غروب کا یہ باقاعدہ نظام کیسے قائم ہو سکتا تھا اور دائماً کیسے قائم رہ سکتا تھا ۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار وہی ہے ، ان کے درمیان رہنے والی مخلوقات اسی کی ملک ہیں ، وہی ان کو پال رہا ہے ، اور اسی پرورش کے لیے اس نے زمین پر سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کا یہ حکیمانہ نظام قائم کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: مشرق در اصل افق کے اس حصے کا نام ہے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور مغرب اس حصے کا جہاں سورج غروب ہوتا ہے، چونکہ سردی اور گرمی کے موسموں میں مشرق اور مغرب کے یہ حصے بدل جاتے ہیں، اس لیے ان کو دو مشرقوں اور دو مغربوں سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:17) رب المشرقین ورب المغربین : یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھو رب المشرقین ورب المغربین۔ وہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا پروردگار ہے۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ :۔ جاڑے میں آفتاب اور جگہ سے اور گرمیوں میں اور جگہ سے طلوع ہوتا ہے اس ظاہر فرق کے لحاظ سے مشرقین یعنی دو مشرق کہتے ہیں۔ اسی طرح دونوں موسموں میں غروب بھی دو جگہ ہوتا ہے اس لئے مغربین یعنی دو مغرب کہے جاتے ہیں۔ ورنہ ہر روز آفتاب کا طلوع و غروب اور جگہ سے ہوتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں دوسری جگہ آیا ہے رب المشرق والمغرب (70:40) مشرقوں اور مغربوں کا رب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 دونوں پور بوں (مشرقوں) اور پچھموں (مغریوں) سے مراد موسم سرما اور موسم گرما کے مشرق اور مغرب ہیں۔ موسم سرما میں سورج چھوٹا سا دائرہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے اور موسم گرما میں بڑا دائرہ بنا کر۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مراد اس سے سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا افق ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے انسان اور جن کو پیدا کیا ہے وہی مشرقین اور مغربین کا مالک ہے۔ سورة الصّافات کی آیت ٥ میں مشرق کے لیے مشارق کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ بیشک سورج مشرق سے نکل کر مغرب کی جانب غروب ہوتا ہے لیکن سورج ہمیشہ ایک ہی مقام سے نہ طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب ہوتا ہے بلکہ ہر روز اپنی جگہ بدلتا ہے جسے موجودہ سائنسدان اور فلکیات کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں اس لیے یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ عربی میں یہ الفاظ فاصلے کی طوالت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرما کر شمال اور جنوب کی جوانب کو بھی مشرقین اور مغربین میں شامل کیا گیا ہے۔ مشرقین اور مغربین کا ذکر فرماکریہ ثابت کیا ہے کہ ان کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا کرنے والا صرف ایک رب ہے۔ جس سورج کی وجہ سے یہ سمتیں مشرق اور مغرب کہلاتی ہیں اس سورج کو بھی اسی رب نے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک رب کے سوا کوئی اور پیدا کرنے والا نہیں اس لیے اس کا فرمان ہے کہ اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ جس طرح اس نے دو مغرب اور دو مشرق بنائے ہیں اسی طرح اس نے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک پانی میٹھا ہے اور دوسرا کڑوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا پانی آپس میں نہیں ملتا کیونکہ ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا گیا ہے۔ کڑوے پانی کے اپنے فوائد ہیں اور میٹھا پانی اپنے فوائد اور تاثیر رکھتا ہے۔ اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے سائنسدان اس کی یہ توجیح کرتے ہیں کہ کڑوا پانی ہلکا ہوتا ہے اور میٹھا پانی بھاری ہوتا ہے۔ دونوں کے اجزاء الگ الگ ہیں جس وجہ سے وہ آپس میں تحلیل نہیں ہوتے۔ حالانکہ سمندر میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں میٹھا اور کڑوا پانی آپس میں خلط ملط ہوجاتا ہے۔ سمندر ایک ہونے کے باوجود ان کے پانی کا الگ الگ رہنا اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں سے ایک عظیم قدرت ہے۔ بےدین سائنسدان غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون میٹھا اور کڑوا پانی پیدا کرنے والا ہے ؟ یہ اس کی قدرت نہیں تو کیا ہے ؟ لیکن اس کے باوجود جنوں اور انسانوں میں بیشمار افراد ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس قد رت کو جاننے کے باوجود اس کی ذات اور فرمان کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروے گے۔ حدیث میں مشرق اور مغرب کا ذکر : ” حضرت ابوہریرہ (رض) تذکرہ کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی تکبیر اور قراءت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ کی ذات پر فدا ہوں آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان خاموشی کے ساتھ کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یہ پڑھا کرتا ہوں۔ ” الٰہی میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری فرما دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری قائم کی ہے۔ الٰہی ! میرے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ الٰہی میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھوڈالیے۔ (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ بَعْدَ التَّکْبِیرِ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے دو مشرق اور دو مغرب بنائے ہیں۔ ٢۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے درمیان ایک رب کے سوا کسی کی دائمی اور عالمگیر بادشاہی نہیں ہے۔ ٣۔ بےشمارجن اور انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہی دو سمندر بنائے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کڑوے اور میٹھے سمندروں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے۔ ٦۔ کڑوے اور میٹھے پانی کے اپنے اپنے فوائد ہیں جن سے لوگ مستفید ہوتے ہیں اس کے باوجود بیشمار جن اور انسان اپنے رب کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا رب ہے۔ (الرحمن : ١٧) ٢۔ مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ : ١٤٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرق اور مغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : ٩) ٤۔ بیشک تمہارا ایک الٰہ ہے جو آسمان و زمین، جو کچھ ان کے درمیان ہے اور مشارق کا رب ہے۔ (الصّافات : ٤، ٥) ٥۔ میں قسم اٹھاتا ہوں مشارق اور مغارب کے رب کی کہ وہ ہر چیز پر قاد رہے۔ (المعارج : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ اشارہ انسان کو اللہ کے شعور کے فیض میں غرق کردیتا ہے جس طرف بھی کوئی توجہ کرے جس طرف بھی التفات کرے اور جس قدر بھی ہمارا مشاہدہ اس کائنات میں دور تک جاتا ہے جہاں بھی نام جائیں وہاں مشرق ہیں اور مغرب ہیں۔ اللہ کی ربوبیت ہے۔ اس کی مشیت ہے اور اس کا اقتدار اعلیٰ ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ تیرا نور ہے۔ تیری ہدایت ہے۔ مشرکین اور مغربین یعنی ” مشرق اور مغرب “ ان سے مراد سورج کے طلوع اور غرورب ہونے کے مقامات بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ شمس وقمر کی حیثیت انعام الٰہی پہلے آچکی ہے اور اس سے مراد سورج کے مختلف مقامات طلوع اور غروب بھی ہوسکتے ہیں یعنی جو گرمیوں اور سردیوں میں چلتے رہتے ہیں۔ یہ اشارہ قلب ونظر پر جس طرح سایہ فگن ہے وہ قابل التفات ہے۔ مشرق ومغرب کی طرف متوجہ ہونا ، ان مظاہر طلوع اور غروب سے اللہ کی شان پانا ، یہ سوچنا کہ دست قدرت ان افلاک کو کس طرح گھما رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نور ربی ان آفاق میں جگہ جگہ موجود ہے۔ مشرق ومغرب کے اس تدبر اور تامل کے بعد قلب ونظر جو سبق ، جو عبرت لے کر لوٹیں گے جو شعور لے کر آئیں گے اس کے فیوض سے ہمارے جسم وروح بھر جائیں گے۔ مشرقین کی ربوبیت اور مغربین کی ربوبیت ، اللہ کے احسانات میں سے ایک اہم احسان ہے۔ مشرقین اور مغربین اللہ کی نشانیاں بھی ہیں اور نعمتیں بھی ہیں کیونکہ طلوع و غروب ہی سے زمین پر انسانوں اور جنوں کی زندگی ممکن ہے۔ اگر طلوع و غروب نہ ہوں اور یہ نظام خلل پذیر ہوجائے تو انسان اور جنات کا زندہ رہنا محال ہوجائے۔ اس لئے کہا گیا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ مشرقین اور مغربین کا رب ہے، میٹھے اور نمکین دریا اسی نے جاری فرمائے ان سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں، اسی کے حکم سے کشتیاں چلتی ہیں ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر بیان فرمائے ہیں اور اس کی نعمتیں ذکر کی ہیں اول تو یہ فرمایا کہ وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا رب ہے، اسی نے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کو پیدا فرمایا اور چاند اور سورج کو مقرر فرمایا جو اپنی مقررہ رفتار پر چلتے ہیں مشرقین سے طلوع ہوتے ہیں اور مغربین میں چھپ جاتے ہیں ان کے طلوع اور غروب سے رات اور دن کا ظہور ہوتا ہے اور دن میں دن کے کام اور رات میں رات کے کام انجام پذیر ہوتے ہیں، رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں انسانوں اور جنات کے بڑے منافع ہیں، اس لیے اخیر میں فرمایا کہ اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ دو مشرق اور دو مغرب سے کیا مراد ہے اس بارے میں صاحب روح المعانی نے علمائے تفسیر کے چند اقوال لکھے ہیں حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عکرمہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ مشرقین سے گرمی اور سردی کے دونوں مشرق اور مغربین سے سردی اور گرمی کے دونوں مغرب مراد ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) کا ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ مشرقین سے مشرق الفجر اور مشرق الشفق مراد ہیں اور مغربین سے مغرب الشمس اور مغرب الشفق مراد ہیں۔ اس کے بعد سمندروں کا تذکرہ فرمایا کہ دونوں سمندروں کو اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا جو آپس میں ملتے ہیں یعنی نظروں کے سامنے ملے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب ہے جس کیوجہ سے یہ دونوں اپنی جگہ چھوڑ کر دوسرے کی جگہ نہیں لیتے ان دونوں سمندروں میں ایک میٹھا ہے اور ایک نمکین ہے، دونوں سمندروں سے لوگ فوائد حاصل کرتے ہیں ان فوائد کا شکر لازم ہے جنات اور انسان دونوں فریق شکر ادا کریں۔ پھر فرمایا کہ ان دونوں سمندروں سے لوء لوء اور مرجان نکلتے ہیں ان دونوں کے منافع بھی ظاہر ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے والوں پر شکر لازم ہے۔ لو لو اور مرجان میں کیا فرق ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ لو لو سے چھوٹے موتی اور مرجان سے بڑے موتی مراد ہیں اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مرجان سے سرخ رنگ کے مونگے مراد ہیں اور لو لو چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے موتیوں کو شامل ہے۔ (ذكر صاحب الروح) وہ سمندر جو آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتے ان میں ایک میٹھا سمندر اور دوسرا نمکین ہے اس بارے میں سورة الفرقان کے تیسرے رکوع میں لکھا جا چکا ہے وہاں دیکھ لیں۔ بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ لولو اور مرجان تو شور یعنی نمکین پانی والے سمندر سے نکلتے ہیں پھر ﴿ مِنْهُمَا ﴾ تثنیہ کی ضمیر کیوں لائی گئی ؟ اس کے متعدد جواب دیئے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک جواب یہ ہے کہ ﴿ مِنْهُمَا ﴾ کا مطلب من مجمو عہما ہے اور دونوں کے مجموعہ میں بحرملیح بھی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ موتی نکالنے والے عموماً دریائے شور ہی سے نکالتے ہیں (میٹھے سمندر سے نکالنے کی طرف توجہ نہیں کرتے شاید اس وجہ سے کہ اس میں زیادہ مال نہیں ملتا) بہرحال اللہ تعالیٰ کا کلام صحیح ہے بندوں کا علم ہی کتنا ہے جس پر بھروسہ کرکے خالق جل مجدہ پر اعتراض کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” رب المشرقین و رب المغربین “ یہ توحید کی پانچویں عقلی دلیل ہے دو مشرق اور دو مغرب سے، موسم سرما اور موسم گرما کے مشرق و مغرب مراد ہیں۔ سوج کو سال بھر کے دوران میں مختلف جگہوں سے نکالنا اور مختلف جگہوں میں غروب کرنا یہ بھی اللہ ہی کا کام ہے نیز اس سے چونکہ موسم بدلتے ہیں اس لیے یہ مشرق و مغرب کی تبدیلی میں انسانوں کے لیے بیشمار منافع ہیں اور یہ تبدیلی بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ساری برکتیں اور نعمتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا حقیقی مالک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جاڑے گرمی کی دو مشرقیں اسی طرح دو مغربیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سورج ہر روز نئے خط پر طلوع اور غروب ہوتا ہے اس لئے رب المشرقین ورب المغربین بلکہ رب المشارق والمغارب بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ سورة معارج میں انشاء اللہ آجائے گا۔