Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 44

سورة الرحمن

یَطُوۡفُوۡنَ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَ حَمِیۡمٍ اٰنٍ ﴿ۚ۴۴﴾

They will go around between it and scalding water, heated [to the utmost degree].

اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They will go between it and Hamim An! meaning, they will sometimes be punished with fire and they will sometimes be given Hamim which is a drink like molten copper tearing their intestines and internal organs, إِذِ الاٌّغْلَـلُ فِى أَعْنَـقِهِمْ والسَّلَـسِلُ يُسْحَبُونَ فِى الْحَمِيمِ ثُمَّ فِى النَّارِ يُسْجَرُونَ When the iron collars will be rounded over their necks, and the chains, they shall be dragged along, in the Hamim, then they will be burned in the Fire. (40:71-72) Allah said, انٍ (An), meaning hot, due to the fierce and intense heat that is impossible to bear. Ibn Abbas said; يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ انٍ (They will go between it and Hamim An!), "That has reached the ultimate temperature and boiling fiercely." Similar was said by Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Ath-Thawri and As-Suddi. Qatadah also commented, "Its boiling started when Allah created the heavens and the earth!" Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi said, "The (disobedient) servant will be seized by the forehead and stirred in that boiling water until his flesh melts and only the bones and the eyes in his head remain. This is the meaning of Allah's statement, فِى الْحَمِيمِ ثُمَّ فِى النَّارِ يُسْجَرُونَ In the Hamim, then they will be burned in the Fire. (40:72) And Al-Hamim Al-An means hot." There is another report from Al-Qurazi; حَمِيمٍ انٍ (Hamim An) that it means "prepared. " This is also the view of Ibn Zayd. And saying that it means "prepared" does not contradict the first report from Al-Qurazi which says that it means hot, for Allah said: تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ They will be given to drink from a spring, Aniyah. (88:5) which means severe unbearable heat, and His saying; غَيْرَ نَـظِرِينَ إِنَـهُ not to wait for it to be prepared, (33:53) which means properly cooking and preparing it. So His saying; حَمِيمٍ انٍ (Hamim An), Hamim, that is very hot. Surely, punishing the disobedient criminals as well as favoring those who had Taqwa, is from Allah's grace, mercy, justice, compassion and kindness for His creatures. His warnings against His torment and punishment, such as mentioned in these Ayat, should encourage all creatures to abandon the Shirk and disobedience they engage in, and this is why Allah reminded them of this favor; فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی کبھی انہیں دکھتی ہوئی آگ کا عذاب دیا جائے گا اور کبھی کھولتے ہوئے گرم پانی، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ دے گا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] شدت حرارت کی وجہ سے اہل دوزخ کو بار بار پیاس لگے گی اور وہ گرم پانی کے چشموں کی طرف دوڑیں گے جو گرمی کی وجہ سے کھول رہے ہیں۔ انہیں کھولتا پانی پلا کر واپس لایا جائے گا۔ تو پھر جلدی ہی انہیں پیاس پھر ستانے لگے گی۔ پھر وہ انہیں چشموں کی طرف دوڑیں گے اور یہ عمل لگا تار جاری رہے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ :” ان “ ” انی یانی انی “ (ض) سے اسم فاعل ہے ، جیسا کہ ” قاض “ ہے ، انتہائی گرم ، کھولنے والا ۔ سورة ٔ غاشیہ میں ہے :(تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ ) ( الغاشیہ : ٥)” و ہ ایک کھولتے ہوئے چشمے سے پلائے جائیں گے ۔ “ (” انی “ کھانے کا پک کر تیا ر ہونا ، جیسے فرمایا :( غیر نظرین انہٗ ) الاحزاب : ٥٣)” اس حال میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرنے والے نہ ہوں “۔” یطوفون “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٦٦ تا ٦٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَطُوْفُوْنَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ۝ ٤٤ ۚ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔ آنا ( ساعت) وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ : يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران/ 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه/ 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء «2» أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن/ 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية/ 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید/ 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال «3» : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع . ( ا ن ی ) انی ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا } ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) { غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ } ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے { حَمِيمٍ آنٍ } ( سورة الرحمن 44) مین عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ } ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں { وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ } ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤۔ ٤٥) اور وہ لوگ دوزخ کے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کے درمیان دورہ کرتے ہوں گے۔ سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤{ یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ ۔ } ” اب وہ چکر لگاتے رہیں گے اس (آگ) کے اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان۔ “ آگ کی تپش سے گھبرا کر پانی کی طرف لپکیں گے اور جب کھولتے ہوئے پانی کا مزہ چکھیں گے تو پھر واپس بھاگیں گے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 That is, "In Hell they will feel oppressed with thirst again and again. and will rush towards the springs of water, but will find only boiling water, which will not satisfy their thirst, and they will thus continue to wander to and fro between Hell and the springs for ever and ever.

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :38 یعنی جہنم میں بار بار پیاس کے مارے ان کا برا حال ہوگا ، بھاگ بھاگ کر پانی کے چشموں کی طرف جائیں گے ، مگر وہاں کھولتا ہوا پانی ملے گا جس کے پینے سے کوئی پیاس نہ بجھے گی ۔ اس طرح جہنم اور ان چشموں کے درمیان گردش کرنے ہی میں ان کی عمریں بیت جائیں گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:44) یطوفون : یہ آیت حال ہے المجرمون سے (آیت 43 سے) جمع مذکر غائب مضارع معروف طوف (باب نصر) مصدر۔ وہ طواف کریں گے۔ وہ گھومیں گے وہ چکر لگائیں گے۔ بینھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث جہنم کے لئے ہے۔ وحمیم ان واؤ عاطفہ۔ حمیم ان موصوف و صفت۔ نہایت گرم پانی۔ گہرے دوست کو بھی ” حمیم “ کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی اپنے دوست کی حمایت میں گرم ہوجاتا ہے۔ مگر سخت گرم پانی کے لحاظ سے اس کی جمع حمائم اور دوسرے معنی کے لحاظ سے احمائ۔ دوست کے معنی میں حمیم قرآن مجید میں آیا ہے ولایسئل حمیم حمیما (70:10) اور کوئی دوست کسی دوست کا پرساں حال نہ ہوگا۔ ان صفت ہے حمیم کی اسم فاعل کا صیغہ انی سے جس کے معنی سخت کھولنے اور پکنے کے ہیں َ اور جگہ قرآن مجید میں ہے تسقی من عین انیۃ (88:5) ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ینی دوزخ میں جلائے جائیں گے۔ پیاس لگے گی تو کھولتے ہوئے پانی کی طر لے جائے جائیں گے۔ پھر وہاں سے دوزخ کی طرف لائے جائیں گے۔ اس طرح دوزخ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یطوفون ................ حمیم ان (55:44) ” اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔ “ اب یہ مجرم جہنم اور انتہائی کھولتے گرم پانی کے درمیان گردش کررہے ہیں دیکھ لو ان کو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) یہ گناہ گار آپ میں سخت کھولتے ہوئے گرم پانی میں دورہ کرتے ہوں گے اور پھرتے پھیریں گے۔ یعنی کبھی آگ میں کبھی گرم پانی میں کبھی آگ میں جل رہے ہیں اور کبھی سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا یا گرم پانی پلایا جائے گا۔