Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 30
سورة الواقعة
وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ ﴿ۙ۳۰﴾
And shade extended
اور لمبے لمبے سایوں ۔
وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ ﴿ۙ۳۰﴾
And shade extended
اور لمبے لمبے سایوں ۔
And in shade Mamdud (extended).) Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِايَةَ عَامٍ لاَ يَقْطَعُهَا اقْرَوُوا إِنْ شِيْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ In Paradise, there is a tree that a rider can travel for a hundred years under its shade but would not be able to pass it. Recite if you will: (And in shade extended). Muslim also collected this Hadith. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِايَةَ عَامٍ اقْرَوُوا إِنْ شِيْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ There is a tree in Paradise the shade of which a rider would take one hundred years to pass. Recite if you will: (And in shade extended). Muslim, Al-Bukhari and Abdur-Razzaq collected this Hadith. Allah said, وَمَاء مَّسْكُوبٍ
3 0 1جیسے ایک حدیث میں ہے ' کہ جنت کے ایک درخت کے سائے تلے ایک گھوڑا سوار سو سال تک چلتا رہے گا، تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا ' ( صحیح بخاری)
[١٦] اس کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا : جنت میں ایک اتنا بڑا درخت (طوبیٰ ) ہے جس کے سایہ میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ تم چاہو تو آیت پڑھ لو (وًظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ) (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ)
وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ : ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان فی الجنۃ شجرۃ یسیرا الراکب فی ظلھا مائۃ عام لا یقطعھا واقرء وان شئتم :(وظلل ممدود) ( بخاری ، التفسیر باب قولہ :( وظلل ممدود): ٤٨٨١) ” جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال چلتا رہے گا ۔ چاہو تو یہ آیت پڑھو لو :( وظلل ممدود) ” اور ایسے سائے میں جو خوب پھیلا ہوا ہے “۔ ” ممدود “ میں سائے کا جگہ کے لحاظ سے پھیلاؤ بھی شامل ہے اور زمانے کے لحاظ سے بھی ، جیسا کہ فرمایا :( اکلھا دائم وظلھا) (الرعد : ٣٥) ” اس کا پھل دائمی ہے اور اس کا سایہ بھی “۔
وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ (and a shade, spread all over...56:30). The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said, as recorded in Sahihain, that in Paradise there is a tree so large that a rider may travel for a hundred years under its shade, but would not be able to pass it.
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ٣٠ ۙ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔
(56:30) وظلل ممدود : واؤ عاطفہ، ظلل سایہ (موصوف) ممدود اسم مفعول واحد مذکر (باب نصر) مد مصدر سے (صفت) ظل کا عطف بھی سدر پر ہے (اور وہاں) لمبے لمبے سائے ہوں گے۔
ف 8 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال چلے گا لیکن اسے طے نہ کر پائے گا۔ ” اگر تم چاہو تو آیت “ و ظل ممدود پڑھ لو۔ “ (شو کانی)
وظل ................ مسکوب (٦ 5: ١٣) ” اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں اور ہر دم رواں پانی۔ “ بدوں لوگوں کے لئے یہ اہم سہولیات ہیں۔ ایک دیہاتی کے خواہشات کی دوڑ یہی تھی۔