Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 32

سورة الواقعة

وَّ فَاکِہَۃٍ کَثِیۡرَۃٍ ﴿ۙ۳۲﴾

And fruit, abundant [and varied],

اور بکثرت پھلوں میں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَّا مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّ فَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ :” بہت زیادہ “ میں پھلوں کی قسموں کا بہت زیادہ ہونا بھی شامل ہے اور مقدار میں بہت زیادہ ہونا بھی ۔ اس کثرت کا مقصد اصحاب الیمین کی ضیافت اور عزت افزائی ہے ، آگے ان کی مرضی ہے ، جتنا چاہیں جب چاہیں کھائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَ‌ةٍ (and a lot of fruits...56:32). The word Kathirah [ abounding ] has two senses: [ 1] there will be plenty of fruits; and [ 2] there will be an uncountable variety and kinds of fruits.

وَّفَاكِهَةٍ كَثِيْرَةٍ ، کثیرة کے معنی میں یہ بھی داخل ہیں کہ پھلوں کی تعداد بہت ہوگی اور یہ بھی کہ ان کے اقسام و اجناس بیشمار ہوں گے، لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّلَا مَمْنُوْعَةٍ ، مقطوعہ سے مراد جو فصل ختم ہونے پر ختم ہوجاویں جیسے دنیا کے عام پھلوں کا یہی حال ہے کوئی گرمی میں ہوتا ہے، موسم ختم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے، کوئی سردی یا برسات میں ہوتا ہے اور موسم کے ختم پر اس کا نام و نشان نہیں رہتا، جنت کا ہر پھل دائمی ہر وقت ہر موسم میں موجود رہے گا ممنوعہ سے مراد بھی یہ ہے کہ دنیا میں جس طرح درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کے نگراں ان کو توڑنے سے منع کرتے ہیں جنت کے پھل اس سے بھی آزاد ہوں گے، ان کو توڑنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝ ٣٢ ۙ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢{ وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ ۔ } ” اور کثرت کے ساتھ میوے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 The word !a maqtu ah of the Text means: This fruit will neither be seasonal that its supply may fail when the season is over, nor its production will cease as it happens in a garden after its fruits has been picked. But in Paradise every kind of fruit will remain available in abundance in every season and will continue to be produced and supplied no matter how much of it is consumed. And la mamnu'ah means that there will be no prohibition or hindrance in obtaining fruit as it is in the gardens of the world, nor will it be out of reach because of thorns or height.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:32) وفاکہۃ کثیرۃ : واؤ عاطفہ، فاکھۃ کثیرۃ موصوف وصفت، بکثرت پھل۔ اس کا عطف بھی وسدر پر ہے (اور وہاں) پھل بکچرت ہوں گے ۔ پھلوں کی بہتات ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وفاکھة ............ ممنوعة (٦ 5: ٣٣) ” اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بےروک ٹوک پھل۔ “ ان کو مجمل چھوڑ دیا گیا اور سابقہ انواع کی طرح متعین نہیں کیا گیا۔ جو اہل بادیہ کے ہاں مرغوب تھیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَّ فَاكِهَةٍ كَثِيْرَةٍۙ٠٠٣٢ لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍۙ٠٠٣٣﴾ اور اصحاب الیمین خوب زیادہ فوا کہ یعنی میووں میں ہوں گے یہ میوے ہمیشہ رہیں گے کبھی بھی ختم نہ ہوں گے اور کبھی بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ جب چاہیں گے کھائیں گے، جتنا چاہیں گے کھائیں گے حدیث شریف میں ہے کہ جنتی آدمی جب بھی جنت میں کوئی پھل توڑے گا اس کی جگہ دوسرا پھل لگ جائے گا۔ (مجمع الزوائد صفحہ ٤١٤: ج ١٠)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” وفاکہۃ “ تمام انواع و قسام کے میوے بکثرت ہوں گے۔ ” مقطوعۃ “ ہمیشہ دستیاب ہوں گے اور کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوں گے۔ ” ولا ممنوعۃ “ جب چاہیں گے کسی بھی وقت کوئی ممانعت اور پابندی نہیں ہوگی۔ ” وفرش مرفوعۃ “ اور نہایت عالیشان اور پر تکلیف فروش اور بچھونے ہوں گے۔ امام ابو عبیدہ کے نزدیک فرش سے مراد عورتیں (حوریں) ہیں کیونکہ عرف میں عورت کو فراش کہا جاتا ہے اور مرفوعۃ سے قدر و منزلت کی بلندی مراد ہے۔ ” انا انشاناھن “ اس پر قرینہ ہے۔ (روح) حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں یہاں مضاف مقدر ہے ای ذوات فرش اور مراد حوریں ہیں۔ ” انا انشاناھن “ اس پر شاہد ہے۔ ” انشاناھن “ ہم نے حوروں کو از سر نو پیدا کیا ہے۔ اس طرح حوریں ایک جدید مخلوق ہوں گی جنہیں ولادت کے بغیر اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا۔ فالمعنی انا ابتداناھن ابتداء جدیدا من غیر ولادۃ ولا خلق اول (روح ج 27 ص 142) ۔ اس سے بعض زائغین کے خیال کا بطلان واضح ہوگیا جو کہتے ہیں کہ مشرکین کی بلوغ سے پہلے مرنے والی لڑکیوں کو حوریں بنایا جائے گا۔ ابکارا، کنواری ہوں گی۔ عرب، عروب کی جمع ہے یعنی وہ اپنے شوہروں سے بہت محبت کریں گی۔ اتراب، ترب کی جمع ہے یعنی ہم عصر۔ اصحاب الیمین کیلئے ہم از سر نو جنت میں حوریں پیدا کریں گے جو کنواری اور شوہروں کو اپنے حسن و جمال اور حسن اخلاق کی وجہ سے نہایت محبوب ہوں گی اور عمر میں ان کے برابر ہوں گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اور بکثرت میوے ہوں گے۔