Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 63

سورة الواقعة

اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾

And have you seen that [seed] which you sow?

اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Oneness demonstrated by causing the Plants to grow, sending down the Rain and creating the Fire that Mankind needs Allah the Exalted said, أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ Do you not see what you sow? in reference to tilling the earth and planting seeds inside it,

آگ اور پانی کا خالق کون؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم جو کھیتیاں بوتے ہو زمین کھود کر بیج ڈالتے ہو پھر ان بیجوں کو اگانا بھی کیا تمہارے بس میں ہے؟ نہیں نہیں بلکہ انہیں اگانا انہیں پھل پھول دینا ہمارا کام ہے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زراعت نہ کہا کرو بلکہ حرثت کہا کرو یعنی یوں کہو میں نے بویا یوں نہ کہو کہ میں نے اگایا ۔ حضرت ابو ہریرہ نے یہ حدیث سنا کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ امام حجر مدری ان آیتوں کے ایسے سوال کے موقعوں کو جب پڑھتے تو کہتے ( بل انت یا ربی ) ہم نے نہیں بلکہ اے ہمارے رب تو نے ہی ۔ پھر فرماتا ہے کہ پیدا کرنے کے بعد بھی ہماری مہربانی ہے کہ ہم اسے بڑھائیں اور پکائیں ورنہ ہمیں قدرت ہے کہ سکھا دیں اور مضبوط نہ ہونے دیں برباد کر دیں اور بےنشان دنیا بنا دیں ۔ اور تم ہاتھ ملتے اور باتیں بناتے ہی رہ جاؤ ۔ کہ ہائے ہم پر آفت آگئی ہائے ہماری تو اصل بھی ماری گئی بڑا نقصان ہوگیا نفع ایک طرف پونجی بھی غارت ہوگئی غم و رنج سے نہ جانیں کیا کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگ جاؤ ۔ کبھی کہو کاش کہ اب کی مرتبہ بوتے ہی نہیں کاش کہ یوں کرتے ووں کرتے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس وقت تم اپنے گناہوں پر نادم ہو جاؤ ( تفکہ ) کا لفظ اپنے میں دونوں معنی رکھتا ہے نفع کے اور غم کے مزن بادل کو کہتے ہیں ۔ پھر اپنی پانی جیسی اعلیٰ نعمت کا ذکر کرتا ہے کہ دیکھو اسکا برسانا بھی میرے قبضہ میں ہے کوئی ہے جو اس بادل سے اتار لائے ؟ اور جب اتر آیا پھر بھی اس میں مٹھاس ، کڑواہٹ پیدا کرنے پر مجھے قدرت ہے ۔ یہ میٹھا پانی بیٹھے بٹھائے میں تمہیں دوں جس سے تم نہاؤ دھوؤ کپڑے صاف کرو کھیتیوں اور باغوں کو سیراب کرو جانوروں کو پلاؤ پھر کیا تمہیں یہی چاہیئے کہ میرا شکر بھی ادا نہ کرو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پی کر فرمایا کرتے دعا ( الحمد اللہ اللذی سقاناہ عذبا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا ) ۔ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میٹھا اور عمدہ پانی اپنی رحمت سے لایا اور ہمارے گناہوں کے باعث اسے کھاری اور کڑوا نہ بنا دیا ۔ عرب میں دو درخت ہوتے ہیں مرخ اور عفار ان کی سبز شاخیں جب ایک دوسری سے رگڑی جائیں تو آگ نکلتی ہے اس نعمت کو یاد دلا کر فرماتا ہے کہ یہ آگ جس سے تم پکاتے رہتے ہو اور سینکڑوں فائدے حاصل کر رہے ہو بتاؤ کہ اصل یعنی درخت اس کے پیدا کرنے والے تم ہو یا میں ؟ اس آگ کو ہم نے تذکرہ بنایا ہے یعنی اسے دیکھ کر جہنم کی آگ کو یاد کرو اور اس سے بچنے کی راہ لو ۔ حضرت قتادہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری یہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی بہت کچھ ہے آپ نے فرمایا ہاں پھر یہ سترواں حصہ بھی دو مرتبہ پانی سے بجھایا گیا ہے ، اب یہ اس قابل ہوا کہ تم اس سے نفع اٹھا سکو اور اس کے قریب جا سکو ۔ یہ مرسل حدیث مسند میں مروی ہے اور باکل صحیح ہے ۔ مقوین مراد مسافر ہیں ، بعض نے کہا ہے جنگل میں رہنے سہنے والے لوگ مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے ہر بھوکا مراد ہے ۔ غرض دراصل ہر وہ شخص مراد ہے جسے آگ کی ضرورت ہو اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کا محتاج ہو ، ہر امیر فقیر شہری دیہاتی مسافر مقیم کو اس کی حاجت ہوتی ہے ، پکانے کے لئے اپنے ساتھ لے جا سکے اور ضرورت کے وقت اپنا کام نکال سکے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزوں میں تمام مسلمانوں کا برابر کا حصہ ہے آگ گھاس اور پانی ۔ ابن ماجہ میں ہے یہ تینوں چیزیں روکنے کا کسی کو حق نہیں ۔ ایک روایت میں ان کی قیمت کا ذکر بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے تم سب کو چاہیئے کہ اس بہت بڑی قدرتوں کے مالک اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے رہو جس نے آگ جیسی جلا دینے والی چیز کو تمہارے لئے نفع دینے والی بنا دیا ۔ جس نے پانی کو کھاری اور کڑوا نہ کر دیا کہ تم پیاس کے مارے تکلیف اٹھاؤ بلکہ اسے میٹھا صاف شفاف اور مزیدار بنایا ، دنیا میں رب کی ان نعمتوں سے فائدے اٹھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ تو پھر آخرت میں بھی فائدے ہی فائدے ہیں دنیا میں یہ آگ اس نے تمہارے فائدہ کے لئے بنائی ہے اور ساتھ ہی اس لئے کہ آخرت کی آگ کا بھی اندازہ تم کر سکو اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ۔۔۔۔۔: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور قیامت کی زبردست دلیل بیان ہوئی ہے ، یعنی یہ بتاؤ کہ وہ کھیت جس کا بیج تم زمین میں دفن کر کے آجاتے ہو ، کیا اسے زمین سے تم نکالتے اور بڑھاتے ہو، حتیٰ کہ وہ کھانے کے قابل ہوجاتا ہے ، جس پر تمہاری زندگی کا دارومدار ہے ، یا اسے اگانے والے ہم ہیں ؟ اس کا جواب اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا کہ اے ہمارے رب ! یہ تیری ہی کام ہے، یہ ہمارے بس کی بات نہیں ۔ تو ہر عقل مند کہے گا کہ جس نے اس بیج سے جو زمین کی تہہ میں گل سڑ چکا تھا ، اناج سے بھرے ہوئے یہ خوشے اگا دیئے ، وہ تمہیں بھی مرنے کے بعد زندہ کرنے پر قادر ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بجا دہرائی ہے۔ دیکھئے سورة ٔ اعراف (٥٧) ، روم ( ٥٠) اور حم السجدہ (٣٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

was lost in the secondary or extrinsic causes and lost sight of his Real Creator and Master, the Primary or Intrinsic Cause of his creation. This unawareness was unveiled in a particular way. In a similar style, the reality of his source of nourishment is explicated. Allah poses the question to man: &Indeed you till the land and plant the seeds but who causes them to sprout and grow - you or Allah?& When considered carefully, we will come up with the answer that the farmer or tiller has a very limited role to play. He ploughs the land and fertilizes the soil with manure, and thus softens it so that if the seed germinates, it will not be hampered by the hard ground. All of man&s efforts move around this point. Once the plant sprouts, he takes care of it in that direction. But man is not the primary cause of the shoots pushing forth from the seed nor can he claim that he made the plant or tree. Therefore, we go back to the fundamental question: Who caused the seed lying under heaps and heaps of sand to germinate and come out to the surface of the earth so beautifully, comprising untold benefits? There can be only one answer to this question: The All-Encompassing Power and the Most Wonderful creation of the Master Creator of the universe. Next to food, water is the most important thing upon which human life depends for its sustenance. Here too the Qur&an, in its inimitable style, poses the question: &Have you considered the water you drink? Did you send it down from the clouds, or did We send it?& The answer is obvious: &Allah&. Fire plays a most important part in the life of man. Much of his physical comfort depends upon it. [ It is a thing of great utility. In this mechanistic age life is inconceivable without the use of fire. No industry, trade or travel is possible without it.] The Qur&an again, in its unique and unparalleled style, poses the question: &Have you considered the fire you kindle? Did you make its timber to grow, or did We make it?& Here too the answer is obvious: &Allah&. Of course, in both instances the Qur&anic answers are elaborate.

اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ، تخلیق انسانی کے معاملے میں انسان کی غفلت اور اسباب طبعیہ کے پردہ میں الجھ کر اصل خالق ومالک سے بیخبر ہونے کا پردہ چاک کرنے کے بعد اس کی غذا جو اس کی زندگی کا مدار ہے اس کی حقیقت اسی انداز سے ظاہر فرمائی کہ سوال کیا کہ تم جو کچھ زمین میں بیج بوتے ہو ذرا غور تو کرو کہ اس بیج میں سے درخت پیدا کرنے میں تمہارے عمل کا کیا اور کتنا دخل ہے، غور کرو گے تو جواب اس کے سوا نہ ملے گا کہ کاشتکار کا دخل اس میں اس سے زیادہ نہیں کہ اس نے زمین کو ہل چلا کر پھر کھاد ڈال کر نرم کردیا کہ جو ضعیف کونپل اس دانہ سے پیدا ہو کر اوپر آنا چاہئے اس کی راہ میں زمین کی سختی رکاوٹ نہ بنے بیج بونے والے انسان کی ساری کوشش اسی ایک نقطہ کے گرد دائر ہے اور جب درخت نمودار ہوجائے تو اس کی حفاظت پر یہ کوشش لگ جاتی ہے، لیکن ایک دانہ کے اندر سے درخت نکال لانا نہ اس کے بس کا ہے، نہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے یہ درخت بنایا ہے، تو پھر وہی سوال آتا ہے کہ منوں مٹی کے چھیر میں پڑے ہوئے دانے کے اندر سے یہ خوبصورت اور ہزاروں فوائد پر مشتمل درخت کس نے بنایا ؟ تو جواب اس کے سوا کیا ہے کہ وہی مالک و خالق کائنات کی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ اس کی بنانے والی ہے۔ اس کے بعد اسی طرح پانی جس کو پی کر انسان زندہ رہتا ہے، آگ جس پر اپنا کھانا پکاتا ہے اور اپنی صنعتوں کو اس سے چلاتا ہے ان سب کی تخلیق پر ایسے ہی سوال و جواب کا ذکر فرمایا، اور آخر میں سب کا خلاصہ یہ بیان فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ۝ ٦٣ ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وتصوّر منه معنی العمارة التي تحصل عنه في قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] ، وقد ذکرت في ( مکارم الشریعة) كون الدنیا مَحْرَثا للناس، وکونهم حُرَّاثاً فيها وكيفية حرثهم «1» . وروي : «أصدق الأسماء الحارث» «2» وذلک لتصوّر معنی الکسب منه، وروي : «احرث في دنیاک لآخرتک» «3» ، وتصوّر معنی التهيّج من حرث الأرض، فقیل : حَرَثْت النّار، ولما تهيّج به النار محرث، ويقال : احرث القرآن، أي : أكثر تلاوته، وحَرَثَ ناقته : إذا استعملها، وقال معاوية «4» للأنصار : ما فعلت نواضحکم ؟ قالوا : حرثناها يوم بدر . وقال عزّ وجلّ : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے ۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا کو خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا ۔ اور ہم اپنی کتاب مکارم الشریعہ میں دنیا کے کھیتی اور لوگوں کے کسان ہونے اور اس میں بیج بونے کی کیفیت تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (72) اصدق الاسماء الحارث کہ سب سے سچا نام حارث ہے کیونکہ اس میں کسب کے معنی پائے جاتے ہیں ایک دوسری روایت میں ہے (75) اثرث فی دنیاک لآخرتک کہ اس دنیا میں آخرت کے لئے کاشت کرلو ۔ حرث الارض ( زمین کرنا ) سے تھییج بھڑکانا کے معنی کے پیش نظر حرثت النار کہا جاتا ہے میں نے آگ بھڑکائی اور جس لکڑی سے آگ کریدی جاتی ہے اسے محرث کہا جاتا ہے ۔ کسی کا قول ہے ۔ احرث القرآن یعنی قرآن کی خوب تحقیق سے کام لو ۔ حرث ناقتہ اونٹنی کو کام اور محنت سے دبلا کردیا ۔ حضرت معاویہ نے انصار سے دریافت کیا کہ تمہارے پانی کھیچنے والے اونٹ کیا ہوئے تو انہوں نے جواب دیا :۔ حرثنا ھا یوم بدر کہ ہم نے بدر کے دن انہیں دبلا کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛ نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ ۔ میں استعارۃ عورتوں کو حرث کہا ہے کہ جس طرح زمین کی کاشت پر افراد ا انسبائی بقا کا مدار ہے اس طرح نوع انسان اور اس کی نسل کا بقا عورت پر ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣۔ ٦٧) اچھا یہ بتاؤ کہ تم جو بیج بوتے ہو اس کو تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں اگر ہم چاہیں تو اس کھیتی کو سرسبز ہونے کے بعد پھر اس کو خشک کردیں پھر تم اس کے خشک ہونے اور اس کی ہلاکت سے حیران ہو کر رہ جاؤ اور کہنے لگو کہ ہماری کھیتیاں تباہ ہو کر رہ گئیں ہم تباہ ہوگئے، بلکہ ہم تو اس کے منافع سے بالکل ہی محروم رہ گئے یا یہ کہ آپس میں لڑنے لگو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣{ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ } ” کیا تم نے کبھی غور کیا کہ یہ بیج جو تم بوتے ہو ؟ “ تم لوگ تو بیج کو مٹی میں دبا کر آجاتے ہو ۔ اس کے بعد تم کیا جانو کہ وہ بیج کس کس مرحلے سے گزرتا ہے ‘ کس طرح اس کی جڑیں نکل کر زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور کس طرح اس کی کو نپلیں زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٣۔ ٧٤۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اپنے رزاق ہونے کا ذکر فرمایا ہے حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ انسان کے رزق کا دار مدار زمین کی پیداوار پر اور زمین کی پیداوار کا دار مدار مینہ کے برسنے پر ہے اور یہ سب کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ کھیتی کرنے والے لوگ زمین میں بیج ڈال کر ایسے بےبس ہوجاتے ہیں کہ ایک سال بھی بیج ڈالنے کے بعد مینہ نہ برسے یا برسے تو سمندر کا سا کڑوا پانی بیج کا جلا دینے والا برسے تو بجائے ڈھیر کے ڈھیر اناج کے ایک دانہ بھی پیدا نہ ہو۔ اور پانی پینے تک کو لوگ ترس جائیں اور بیج کے نقصان پر طرح طرح کے افسوس و حسرت کی باتیں منہ سے نکالنے لگیں۔ اسی طرح رزق انسان کے منہ تک پہنچنے کے سامانوں میں ایک بڑا سامان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو دنیا میں پیدا کیا جس سے اناج طرح طرح سے پکا کر کھایا جاتا ہے اگر بالفرض ایک سال زمین کی پیداوار حسب دلخواہ ہو لیکن اس سال تمام روئے زمین کی آگ بجھ جائے تو جانروں کی طرح کوئی انسان بھی کچا اناج کھا کر تندرست نہ رہ سکے اوپر کی آیتوں کے اور ان آیتوں کے نازل فرمانے سے مشرکوں کو یوں قائل کرنا مقصود ہے کہ اپنے خالق اپنے رزاق کی تعظیم اور عبادت میں یہ لوگ غیروں کو جو شریک ٹھہراتے ہیں تو ان غیروں کو یہ رتبہ ان لوگوں نے آخر کس استحقاق سے دیا ہے کچھ بتائیں تو سہی۔ آخر کو اپنے رسول کو فرمایا کہ یہ کم عقل لوگ بتوں کی پوجا میں لگے رہیں تو تم ان کی کچھ پرواہ نہ کرو اور ہر وقت اللہ کی عبادت میں لگے رہو وقت مقررہ آنے پر ان کا کیا خود ان کے آگے آجائے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی ابوموسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے زیادہ بردبار کون ہوگا کہ مشرک لوگ شرک کرتے ہیں اور وہ رزق پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو جو اپنی رزاقی صفت ان آیتوں میں جتلائی ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ اس ملک میں جس طرح بانس کا پیڑ ہے کہ وہ دو بانسوں کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے اسی طرح عرب میں بھی بعض درخت ہیں کہ ان کی دو لکڑیوں کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے ہری چیز میں سے آگ کا نکلنا یہ بھی اللہ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے اسی طرح کی آگ سے جنگل میں مسافروں کے بہت کام نکلتے ہیں اس لئے مسافروں کا ذکر فرمایا۔ دنیا کی آگ کو جہنم کی آگ کی یاد دہی اس واسطے فرمایا کہ آدمی جب دنیا کی آگ کی بھی برداشت نہیں کرسکتا تو جو آگ اس سے انہتر درجہ بڑھ کر تیز ہے اس سے بچنے کی تدبیر سے غافل نہ رہنا چاہئے۔ (١ ؎ صحیح بخارب باب الصبر والاذیٰ ص ٩٠١ ج ٢ و صحیح مسلم باب فی الکفار ص ٣٧٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:23) افرائیتم ملاحظہ ہو آیت 58 متذکرۃ الصدر۔ و آیت (2:44) بھلا دیکھو تو ۔ بھلا تم نے (غور) سے دیکھا ہے۔ ما تحرثون : ما موصولہ تحرثون جمع مذکر حاضر۔ حرث (باب نصر) مصدر بمعنی بونا۔ صلہ۔ جو تم بولتے ہو۔ حرث کھیتی، حاصل مصدر۔ فائدہ : آیت 57 سے لے کر آیت 74 تک دلائل حشر و توحید بیان فرمائے ہیں۔ آیت 57 سے 62 تک انسان کی پیدائش کے متعلق بیان ہے۔ فرمایا : انسان کی تخلیق و تصویر میں مطلقاً خدا تعالیٰ ہی کو قدرت ہے۔ پھر فرمایا : وہ اگر نشاۃ اولیٰ پر قادر ہے تو نشاۃ ثانیہ اس ہی کے ہاتھ میں ہے آیت 63 سے لے کر 67 تک کھیتی اور نباتات کے اگانے اور اس کو پھول و پھل سے بار آور کرنے کے متعلق ہے۔ آیت 68 سے 70 تک پانی کے متعلق آیت 71 سے 74 تک آگ کے متعلق بیان کرکے فرمایا فسبح باسم ربک العظیم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ ہی انسان کو پیدا کرتا اور موت دیتا ہے اور وہی بیج سے کھیتی پیدا کرتا ہے۔ بیج اور کھیتی کا حوالہ دے کر انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق اور موت کا حوالہ دے کر سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی اسے موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ اب بیج اور کھیتی کی مثال دے کر انسان کو اپنے خالق ہونے اور قیامت کے دن زندہ کرنے کا ثبوت دیا ہے۔ ارشاد ہوا جو بھی تم بوتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا اس سے فصل تم اگاتے ہو یا ہم اسے اگانے والے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو بیج کو زمین میں ہی ناکارہ کردیں، اگر ہم چاہیں تو لہلہاتے ہوئے باغوں اور ہر بھری کھیتیوں کو خاکستر کردیں اور تم مختلف قسم کے تبصرے کرتے رہ جاؤ اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاؤ کہ ہم پر تاوان پڑگیا ہے، بلکہ کہو کہ ہمارے نصیب ہی پھوٹ گئے ہیں۔ بیج اور کھیتی کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اپنے خالق اور رازق ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ایک زمیندار کو اپنی فصل پر صرف اتنا ہی اختیار ہے کہ وہ زمین بنانے اور ہموار کرنے کے بعد اس میں بیج ڈالے یا اس میں پودے لگائے۔ اس کے بعد بیج کو اگانا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہی بیج کو اس کی فطرت کے مطابق زمین میں نَم، حرارت اور ہوا پہنچاتا ہے۔ ان تین عناصر کے علاوہ بھی ایسے اسباب ہیں جن تک کسی زرعی سائنسدان کی اب تک رسائی نہیں اور نہ ہی بیج اگانے میں کسی کا کوئی عمل دخل ہے۔ صرف ایک ” رب “ کی ذات ہے جو بیج کو اگاتی ہے جس سے انسان اور ہر جاندار فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ چاہے تو بیج کو زمین میں بےکار کردے اور یہ بھی اسے اختیا رہے کہ وہ سرسبز کھیتی اور اور لہلہاتے ہوئے پودوں کو بھس بنا کر رکھ دے۔ ایس صورت میں کھیتی کا مالک مختلف قسم کی توجیہات اور باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ میں نے محنت کی اور بیج کے اخراجات برداشت کیے مگر یہ تو میرے لیے بوجھ اور چٹی ثابت ہوئے ہیں۔ بالآخر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میرے نصیب ہی سڑ گئے ہیں اور میں محروم ہوگیا ہوں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو خالق، رازق اور مالک ثابت کرنے کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ زمین میں کروڑوں نہیں بلکہ لاتعداد بیج اگتے ہیں اور کچھ اگنے کے بعد گل سڑ جاتے ہیں اور کچھ فصل کے طور پر تیار ہوتے ہیں جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ یہی انسان کا حال ہے کچھ ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ میں مرجاتے ہیں کچھ بچپن میں فوت ہوجاتے ہیں کچھ جوانی میں چل بستے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس قدر بوڑھے اور کمزور ہوجاتے ہیں جنہیں اپنے آپ کا ہوش نہیں ہوتا۔ مسائل ١۔ انسان زمین میں بیج بوتا ہے مگر اسے اگانے والا صرف ” اللہ ہے۔ ٢۔ ” اللہ “ چاہے تو بیج کو زمین میں ختم کردے اور چاہے تو لہلہاتے ہوئے کھیتیوں کو بھس بنادے۔ ٣۔ کھیتی تباہ ہونے کی صورت میں اس کا مالک پریشان ہونے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی کھیتی اور باغات پیدا کرنے والا ہے : ١۔ ” اللہ “ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ ” اللہ “ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے ہیں۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ ” اللہ “ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ ” اللہ “ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام : ١٠٠) ٦۔ ” اللہ “ ہی نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٧۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو ؟ ( الانعام : ٩٥) ٨۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٩۔ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین میں سے نباتات پیدا فرمائے۔ (البقرۃ : ٦١) ١٠۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ١١۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٢۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افرءیتم ............................ محرومون (٧٦) (٦ 5:4 ٦ تا ” کبھی تم نے سوچا ، یہ بیج جو تم بوتے ہو ، ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ؟ ہم چاہیں تو ان کھیتوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑگئی بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ “ یہ زرعی پودے ان کے سامنے اگتے ہیں اور اپنی فصل دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں ان کا کردار کیا ہے۔ یہ لوگ ہل چلا کر اس میں دانے یا بیچ ڈال دیتے ہیں۔ جسے اللہ نے پیدا کیا۔ اس کے بعد ان کا کردار ختم ہوجاتا ہے اور دست قدرت ان پر عمل پیرا ہوتی ہے اور معجزانہ انداز میں یہ پودا تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ یہ بیج یا یہ دانہ اپنی نوع کو دہرانے کا عمل شروع کرتا ہے اور یہ اپنی راہ اس طرح طے کرتا ہے کہ گویا یہ عقلمند اور خبردار چیز ہے اور اپنی راہ پر سیدھا سیدھا گامزن ہے اور مراحل طے کر رہا ہے۔ انسان تو اپنے کام میں غلطی کرسکتا ہے لیکن یہ بیج کوئی غلطی نہیں کرتا۔ یہ اس طریق کار کے مطابق کام کرتا ہے جو اللہ نے اس کے لئے وضع کیا ہے۔ وہ کبھی اپنے مقررہ ہدف کو خطا نہیں کرتا کیونکہ اسے دست قدرت چلارہی ہوتی ہے اور یہ ایک عجیب سفر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے کہ اگر روز وشب ہمارے سامنے دہرایا نہ جاتا تو عقل اس کی تصدیق نہ کرتی اور جہان اس کا تصور نہ کرسکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کون سی عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ گندم کے اس چھوٹے سے دانہ میں ڈالی پتے اور دانے سب کچھ موجود ہیں یا کھجور کی گٹھلی میں اس قدر بلند درخت موجود ہے۔ اگر یہ چیزیں ہمارے سامنے رات دن دہرائی نہ جاتیں تو عقل انہیں تسلیم نہ کرتی اور کوئی خیال ان چیزوں کی طرف کاتا ہی نہیں لیکن چونکہ سب لوگوں کے سامنے یہ قصہ دہرایا جاتا ہے اور یہ سفر صبح وشام طے ہوتا رہتا ہے اس لئے لوگ اسے مانتے ہیں اور کون ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ ماسوائے دانہ بونے کے اس کا اس عمل میں کوئی اور کردار ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہم نے فصل اگائی اور ہم نے اتنی پروڈکشن دی حالانکہ ان سب امور میں ان کا کردار بہت ہی محدود ہے۔ رہا وہ پورا عمل جو بیج یا دانہ طے کرتا ہے اور وہ معجزہ کہ ایک چھوٹے سے بیج کے قلب سے ایک عظیم درخت وجود میں آتا ہے تو یہ تو سب کچھ خالق کی صفت ہے۔ اگر ایسا اللہ نہ چاہتا تو کوئی دانہ یہ معجزہ نہ دکھاتا۔ یہ قصہ یوں سرے تک نہ پہنچتا اور اگر اللہ چاہتا تو قبل اس کے کہ دانہ دے اسے بھس بنا دیتا ۔ یہ تو اللہ کی مشیت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس پر عبرتناک تبصرے کرتے۔ انالمغرمون (ہم پر تو چٹی چڑھ گئی) نقصان ہوگیا بلکہ یہ کہیں بل نحن محرومون (بلکہ ہم تو محروم اور بدنصیب ہیں) لیکن یہ اللہ کا فضل کہ وہ ان کو پھل دیتا ہے اور یہ دانے دورہ مکمل کرتے ہیں۔ انسانی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ انسانی خلیہ بھی یہی کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی قدرت انسان پیدا کرتی ہے۔ کیا مشکل ہے کہ دوبارہ اللہ اسی زمین سے انسان کو برآمد نہیں کرسکتا ........ آخرت کی دوبارہ پیدائش میں آخر کیا چیز تمہیں انوکھی لگتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کھیتی اگانے کی نعمت : ﴿اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَؕ٠٠٦٣﴾ (الایات الخمس) (ان آیات میں کھیتی کا تذکرہ فرمایا جو عام انسانوں کی زندگی کا ذریعہ ہے، ارشاد فرمایا کہ تم جو کھیتی کرتے ہو یعنی ہل یا ٹریکٹر چلا کر زمین کو نرم کرتے ہو پھر اس میں بیج ڈالتے ہو اس کے بارے میں یہ بتاؤ کہ بیج ڈالنے کے بعد کھیتی کو کون اگاتا ہے ؟ تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں ؟ یعنی تم تو بیج ڈال کر فارغ ہوجاتے ہو، اب کھیتی کا اگانا ہمارا کام ہے، اگائیں یا نہ اگائیں ہمیں اختیار ہے پھر اگر کھیتی نکل بھی آئی تو اس میں دانے نکلنے تک اس کا بڑھنا ضروری نہیں پہلے بھی ہلاک ہوسکتی ہے اور اگر کھیتی پوری ہوگئی بالیں نکل آئیں تو ضروری نہیں کہ تم اس سے نفع حاصل کرسکو ہم چاہیں تو اس سب کا چورا کردیں، پھر تم تعجب کرتے ہوئے رہ جاؤ ہائے ہائے یہ کیا ہوا، اس مرتبہ تو ہم پر تاوان ہی پڑ کر رہ گیا بلکہ ہم بالکل ہی محروم کردیئے گئے یعنی بیج بھی خرچ ہوا محنت بھی اکارت گئی اور غلہ بھی کچھ نہ ملا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” افرایتم ما تحرثون “۔ یہ دوسری عقلی دلیل ہے اب یہ بتاؤ یہ جو تم زمین میں ہل چلا کر بیج ڈال دیتے ہو کیا ان دانوں سے سر سبز و شاداب اور لہلہاتے کھیت تم خود ہی پیدا کرلیتے ہو یا ہم پیدا کرتے ہیں ؟ اگر تمہارے اختیار میں ہو تو تم کوئی موسم نہ دیکھو اور ہر وقت ہی ہر چیز اگاتے رہو۔ مشرکین کو اس کا بھی اقرر تھا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اگاتا ہے اور وہی کھیتوں اور باغوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ ” لونشاء۔ الایۃ “ اگر ہم چاہیں تو لہلہاتے کھیتوں کو ناگہانی آفتوں سے چورہ کر کے رکھدیں تو تم باتیں ہی بناتے رہ جاؤ کہ ہم تو مارے گئے، بلکہ سال بھر کی روزی سے بھی محروم ہوگئے۔ التف کہ التکلم فیما لایعنیک (قرطبی ج 17 ص 219) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) بھلا دیکھو تو جو بیج اور تخم بوتے اور زمین میں ڈالتے ہو۔