Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 70

سورة الواقعة

لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰہُ اُجَاجًا فَلَوۡ لَا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۰﴾

If We willed, We could make it bitter, so why are you not grateful?

اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کر دیں پھرتم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَوْ نَشَاء جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا ... (If We willed, We verily could make it salty;) meaning salty, sour, undrinkable and unfit for growing plants, ... فَلَوْلاَ تَشْكُرُونَ why then do you not give thanks? `why do you not appreciate the favor Allah does for you by sending down the rain fresh, ready to consume,' هُوَ الَّذِى أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَأءً لَّكُم مَّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ يُنبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالاَعْنَـبَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَتِ إِنَّ فِى ذَلِكَ لايَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ From it you drink and from it (grows) the vegetation on which you send your cattle to pasture. With it He causes to grow for you the crops, the olives, the date palms, the grapes, and every kind of fruit. Verily, in this is indeed an evident proof and a manifest sign for people who give thought. (16:10-11) Allah said, أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

701یعنی اس احسان پر ہماری اطاعت کرکے ہمارا عملی شکر ادا کیوں نہیں کرتے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] آبی بخارات تو کھاری پانی کے ہوں اور بارش کا پانی خوشگوار :۔ یہ ایک اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کرکے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں سخت کھاری اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے۔ مگر جو بارش برستی ہے اس میں کھاری پن نام کو نہیں ہوتا۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دواؤں کا ہم اسی طرح عرق کشید کرتے ہیں۔ ان میں ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ اور بو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے اور بو بھی۔ لیکن سمندر کا کھاری پن آبی بخارات میں منتقل نہیں ہوتا اور یہ اللہ کی خاص رحمت ہے ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا تھا۔ نہ ہی ایسے پانی سے پیداوار اگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝ ٧٠ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ أج قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] : شدید الملوحة والحرارة، من قولهم : أجيج النار وأَجَّتُهَا، وقد أجّت، وائتجّ النهار . ويأجوج ومأجوج منه، شبّهوا بالنار المضطرمة والمیاه المتموّجة لکثرة اضطرابهم «2» . وأجّ الظّليم : إذا عدا، أجيجاً تشبيهاً بأجيج النار .( ا ج ج ) الاجاج ۔ کے معنی سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں قرآن میں ہے :۔ { هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ } [ الفرقان : 53] ایک کا پانی نہایت شیریں اور دوسرے کا سخت گرم ہے ۔ یہ ( اجاج ) اجیح النار ( شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت ) واجل تھا وقد اجت ۔ میں نے آگ بھڑکائی چناچہ وہ بھڑک اٹھی ( وغیرہ محاورات ) سے مشتق ہے ۔ ائتج النھار ۔ دن گرم ہوگیا ۔ اسی ( اج) سے يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (18 ۔ 94) (21 ۔ 94) ہے ان کے کثرت اضطراب کی وجہ سے مشتعل آگ یا موجزن اور متلاطم پانی کے ساتھ تشبیہ دے کر یاجوج ماجوج کہا گیا ہے ۔ اج الظلیم اجیحا ۔ شتر مرغ نہایت سرعت رفتار سے چلا ۔ یہ محاورہ اشتعال نار کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠{ لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰـہُ اُجَاجًا } ” اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کردیں “ { فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ } ” تو تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 In this sentence an important manifestation of Allah's power and wisdom has been pointed out. Among the wonderful properties that Allah has created in water one property also is that no matter what different substances are dissolved in water, when it changes into vapour under the effect of heat, it leaves behind aII adulterations and evaporates only with its original and actual component elements. Had it not possessed this property the dissolved substances also would have evaporated along with the water vapours. In this case the vapours that arise from the oceans would have contained the sea salt, which would have made the soil saline and uncultivable wherever it rained. Then, neither could man have survived by drinking that water, nor could it help grow any vegetation. Now, can a man possessed of any common sense claim that this wise property in water has come about by itself under some blind and deaf law of nature? This characteristic by virtue of which sweet, pure water is distilled from saltish seas and falls as rain, and then serves as a source of water-supply and irrigation in the form of rivers, canals, springs and wells, provides a clear proof of the fact that the Providence has endowed water with this property thoughtfully and deliberately for the purpose that it may become a means of sustenance for His creatures. The creatures that could be sustained by salt water were created by Him in the sea and there they flourish and multiply. But the creatures that He created on the land and in the air, stood in need of sweet water for their sustenance and before making arrangement of the rainfall for its supply He created this property in water that at evaporation it should rise clear and free of everything dissolved in it. 31 In other words, "Why do you commit this ingratitude in that some of you regard the rainfall as a favour of the gods, and some others think that the rising of the clouds from the sea and their raining as water is a natural cycle that is working by itself, and still others, while acknowledging it as a mercy and blessing of God, do not admit that God has any such right on them that they should bow to Him alone? How is it that while you derive so much benefit from this great blessing of Allah, in return you commit sins of disbelief and polytheism and disobedience of Him?"

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :30 اس فقرے میں اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھے ہیں ، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہو جائیں ، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے ، اور صرف اپنے اصل آبی اجزاء کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے ۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں ۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنا دیتی ۔ نہ انسان اس پانی کو پی سکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہو گئی ہے؟ یہ خاصیت ، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہو کر بارش کی شکل میں رہتا ہے اور پھر دریاؤں ، نہروں ، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے ، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بلا ارادہ اس مقصد کے لیے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے ۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پا سکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے ۔ مگر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لیے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لیے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گرمی سے بھاپ بنتے وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہو گئی ہو ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :31 بالفاظ دیگر کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتا ہے ، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کر برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جا رہا ہے ، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:70) لو نشاء جملہ شرطیہ ہے۔ جعلنہ اجاجا جواب شرط۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب المزن کی طرف راجع ہے۔ اجاجا مفعول ثانی جعلنا کا سخت گرم اور سخت کھاری پانی ۔ اج ج مادہ۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج (25:53) ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا۔ اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ یہ اجاج : اجیج النار (شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت) واج تھا وقد اجت (میں نے آگ بھڑکائی اور ہو بھڑک اٹھی) وغیرہ محاورات سے ماخوذ ہے۔ فلولا : فہلا پھر کیوں نہیں ۔ ف سببیہ ہے ۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 57 متذکرہ الصدر۔ تشکرون : مضارع جمع مذکر حاضر۔ شکر (باب نصر) مصدر سے۔ تم شکر کرتے ہو۔ تم احسان مانتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مسند ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت جب پانی نوش فرماتے تو یہ دعا پڑھتے ” الحمد للہ الذی شقانا عذبنا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحاً اجاجاً بذنوبنا حمد ہے اس اللہ کے لئے جس نے اپنی رحمت سے ہمیں شیریں اور خوشگوار پانی پلایا اور اسے ہمارے گناہوں کی وجہ سے کھاری اور تلخ نہیں بنایا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لو نشائ ................ اجاجا (٦ 5: ٠٧) ” اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں “ بس ہوا کو یہ حکم دیتا ہے کہ بادلوں میں پانی کے ساتھ نمکیات بھی لاؤ۔ پھر وہ نہ آدمیوں کے کام آتے نہ فصلوں کے۔ کوئی پروڈکشن نہ دے۔ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ قرآن کے ابتدائی مخاطین کے لئے پانی صرف بادلوں سے آتا تھا۔ براہ راست ، یہ ان کے لئے زندگی کا بڑا مواد تھا۔ وہ اس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اور اس کے متعلق بات سے ان کے دل کانپ اٹھتے تھے۔ بارش کے بارے میں ان کے قصائد واشعار نے ان کے اس شعور کو لازوال بنادیا ہے لیکن انسان کی تمام تر مادی ترقیات نے پانی کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ وہ جس قدر علمی تحقیقات اور تجزیہ کرنے میں اس کی قدروقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور سائنس دان محسوس کرتے ہیں کہ حیات اور اس کی نشوونما میں پانی کا بڑا کردار ہے۔ لہٰذا پانی اہم ہے چرواہے کے لئے بھی اور ایک عظیم جدید صنعت کار کے لئے بھی اور ایک سائنس دان کے نزدیک بھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(70) اگر ہم چاہیں تو اس بارش کے پانی کو کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں بجا لاتے۔