Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 15

سورة الحديد

فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۵﴾

So today no ransom will be taken from you or from those who disbelieved. Your refuge is the Fire. It is most worthy of you, and wretched is the destination.

الغرض آج تم سے نہ فدیہ ( اور نہ بدلہ ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے تم ( سب ) کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری رفیق ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَالْيَوْمَ لاَا يُوْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ... So, this Day no ransom shall be taken from you, nor of those who disbelieved. Allah's statement, مَأْوَاكُمُ النَّارُ (Your abode is the Fire). means, the Fire is your final destination and to it will be your return for residence, ... هِيَ مَوْلاَكُمْ وَبِيْسَ الْمَصِيرُ That is your protector, and worst indeed is that destination. meaning, it is the worthy shelter for you rather than any other residence, because of your disbelief and doubt, and how evil is the Fire for Final Destination.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151مولیٰ اسے کہتے ہیں جو کسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمے دار بنے گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی، بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی، یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دوچار کرے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] جو اللہ کو سرپرست نہ بنائے اس کی سرپرست جہنم ہے :۔ یہ غالباً مومنوں کی منافقوں سے گفتگو کا آخری حصہ ہے کہ جس مال و متاع کی خاطر دنیا میں تم نے منافقت کا رویہ اختیار کیا تھا۔ آج اگر وہ مال و متاع تمہیں مل بھی جائے تو وہ تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ وہ مال و دولت سارے کا سارا دے کر بھی تم عذاب جہنم سے بچ نہیں سکتے۔ نہ ہم تمہیں اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ ضمناً اس آیت سے دو اور باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ بدترین انجام کے لحاظ سے منافق اور کافر میں کوئی فرق نہیں۔ منافق بھی حقیقتاً کافر ہی ہوتے ہیں۔ اور دوسری یہ کہ جو شخص اللہ کو سرپرست نہ بنائے جہنم از خود اس کی سرپرست بن جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ ۔۔۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کفار و منافقین کا ٹھکانہ ایک ہی ہوگا ، جو آگ ہے ۔ وہاں وہ مال نہ منافقین کے کام آئے گا جس کی وجہ سے وہ نفاق کا شکار رہے ، نہ کفار کے کہ اس کے ساتھ فدیہ دے کر عذاب سے چھوٹ جائیں اور نہ ہی آگ کے سوا ان کا کوئی یار و مددگار ہوگا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٩١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ۝ ٠ ۭ ہِىَ مَوْلٰىكُمْ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ١٥ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” تو آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ہی کافروں سے۔ “ ان الفاظ میں گویا واضح کردیا گیا کہ دنیا میں تمہارا شمار بیشک مسلمانوں میں ہوتا رہا تھا لیکن یہاں تمہارا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔ دنیا میں تو منافق خود کو مسلمان ہی کہتا ہے اور قانوناً بھی وہ مسلمان ہی شمار ہوتا ہے ‘ لیکن اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے اور وہ صرف ایک زبانی عقیدہ (dogma) لیے پھرتا ہے ۔ ظاہر ہے جب دل میں ایمان ہی نہیں تو اس کے نیک اعمال بھی ریاکاری اور دکھاوے پر مبنی ہیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کو ان کے نیک اعمال کا بھی بالکل کوئی اجر نہیں ملے گا۔ بہرحال میدانِ محشر میں یہ لوگ نور سے محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔ { مَاْوٰٹکُمُ النَّارُ ھِیَ مَوْلٰـٹکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” تمہارا ٹھکانہ آگ ہے ‘ وہی تمہاری غم خوار ہے ‘ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ “ ” مَاْوٰی “ سے مراد ہے پناہ گاہ ‘ جس کی طرف انسان کسی خطرے سے بچنے کے لیے دوڑتا اور لپکتا ہے۔ یہاں طنزاً فرمایا کہ اب تمہاری پناہ گاہ اور ٹھکانہ یہی آگ ہے۔ اسی طرح یہاں ” مَوْلٰی “ کا لفظ بھی طنزاً استعمال ہوا ہے۔ مَوْلٰی کا مطلب ہے ہمدرد ‘ مونس و غم خوار ‘ غم گسار ‘ مددگار ‘ دوست ‘ پشت پناہ ‘ دمساز ‘ ساتھی وغیرہ۔ چناچہ فرمایا کہ اب یہی آگ تمہاری ہمدرد ‘ غم گسار اور خبرگیری کرنے والی ہے ‘ دکھ درد کہنا ہے تو اس سے کہو ‘ نالہ و شیون ہے تو اسی سے کرو ! مزید فرمایا کہ وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ ” مَصِیْر “ کا مطلب ہے لوٹنے کی جگہ ‘ وہ جگہ جہاں انسان بانجامِ کار پہنچا دیا جائے۔۔۔۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 This clearly shows that in the Hereafter the hypocrites will be doomed to the same fate as the disbelievers. 27 The words hiya maula kum (Hell is your maula) can have two meanings: (1) "That Hell is the only proper place for you"; and (2) "that you never took Allah as your maula (friend, patron) so that He may look after you; now Hell only is your maula; therefore, Hell now will look after you "

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :26 یہاں اس امر کی تصریح ہے کہ آخرت میں منافق کا انجام وہی ہو گا جو کافر کا ہو گا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :27 اصل الفاظ ہیں ھِیَ مَوْلَاکُمْ ، دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہی تمہارے لیے موزوں جگہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو تو تم نے اپنا مولیٰ بنایا نہیں کہ وہ تمہاری خبر گیری کرے ، اب تو دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ، وہی تمہاری خوب خبر گیری کرے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:15) فالیوم : ف ترتیب کے لئے ہے۔ الیوم آج کے دن۔ منکم میں کم ضمیر جمع مذکر حاضر منافقین کے لئے ہے۔ فدیۃ : بدل ۔ عوض۔ یعنی اے منافقوا ! آج کے دن نہ تم سے معاوضہ لیا جائے گا۔ ولا من الذین کفروا۔ اور نہ ان سے فدیہ لیا جائے گا جنہوں نے (علی الاعلان) کفر کیا۔ یعنی جو چٹے ننگے کافر تھے یعنی جنہوں نے منافقوں کی طرح مسلمان ہونے کا زبانی دعوی بھی نہیں کیا تھا۔ وماوکم النار : واؤ عاطفہ، ماوی ٹھکانہ۔ رہنے کی جگہ۔ اوی یاوی اوی (باب ضرب) مصدر سے۔ ماوی اسم ظرف مکان ہے۔ ماوکم مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا ٹھکانہ۔ یہاں کم سے مراد منافقین اور صریحا کافر ہیں کیونکہ دونوں کے لئے بخشش اور مغفرت نہیں ہے۔ النار آگ یعنی دوزخ۔ ہی مولکم۔ ہی النار۔ مولی ساتھی۔ رفیق اس کی جمع موالی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (اب) یہی آگ یا یہی دوزخ تمہاری رفیق ہوگی۔ یہ طعن جت طور پر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ وان یستغیثوا یغاثوا بماء کما المہل یشوی الوجوہ (18:29) اور اگر (یہ ظالم) فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا۔ اور (جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا۔ وبئس المصیر : اور وہ واقعی بڑا ٹھکانہ ہے۔ بئس برا ہے۔ فعل ذم ہے اس کی گردان نہیں آتی۔ مصیر یہ صار یصیر (باب ضرب) کا مصدر بھی ہے اور اسم ظرف مکان بھی۔ لوٹنا۔ لوٹنے کی جگہ۔ قرار گاہ۔ ٹھکانا۔ اور وہ (النار) واقعی برا ٹھکانہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 اللہ کے باب میں شیطان کا انسان کو دھوکا دیتا کئی ہیں۔ “ پل صراط پر کافر نہ چلیں گے۔ وہ پہلے ہی دوزخ میں پڑیں گے مگر جو امت ہے کسی نبی کے سچے یا کچے۔ جب اندھیرا گھیر یگا ایمان والوں کے ساتھ روشنی ہوگی۔ منافق ان کی روشنی میں چلنے لگے وہ شتاب نکل گئے یہ رہے پیچھے پکارت یکہ ہم کو بھی روشنی دو کسی نے کہا کہ پیچھے سے روشنی لائو، وہ پیچھے ہٹے ان کے بیج دیوار کھڑی ہوگئی۔ یعنی روشنی دنیا میں کمائی جاتی ہے وہ جگہ پیچھے آئے۔ (کذا فی الموضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فالیوم ........................ المصیر (٧٥ : ٥١) ” لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے۔ “ یہ شاید دربار مقتدر اعلیٰ سے اعلان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جواب ہوگا۔ اس منظر کی فنی ہم آہنگی کو دیکھا جائے تو اس کے لئے نور کے انتخاب میں ایک خاص حکمت ہے۔ کیونکہ یہ بات منافقین اور منافقات کے گروہ کے بارے میں ہے اور منافقین اور منافقات کے گروہ کا اصل کردار ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے باطن کو چھپاتے ہیں اور ان کے ضمیروں میں جو بات چھپی ہوتی ہے اس کے مقابلے میں کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ وہ نفاق کی کاروائیاں ہمیشہ اندھیروں میں کرتے ہیں۔ اندھیرا چھپاتا ہے اور روشنی دکھاتی ہے۔ گویا دو کردار بھی متضاد ہیں ایمان اور نفاق اور دورنگ بھی متضاد ہیں نور اور ظلمت۔ اور ان دونوں چیزوں سے منظر نہایت خوب بنتا ہے۔ ایمان کو روشن دکھایا گیا ہے اور نفاق کو تاریک۔ مومن نور میں سفر کررہے ہیں اور منافق اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ معانی کو منظر کی روشنیوں کے ذریعہ بھی ظاہر کیا گیا۔ “ (مشاہدے القیامہ) کون ہے جو اس دن نور کا طلب گار نہ ہوگا اور اس کا مشتاق نہ ہوگا۔ کون ہے جو اس کے بعد بھی انفاق فی سبیل اللہ سے گریز کرے گا۔ اس قدر موثر دلائل ، مفادات اور اچھے انجام کے باوجود .... یہ ہے قرآن کا انداز تعلیم وتربیت ، قرآن نہایت تسلسل اور مستقل مزاجی سے مومنین کی تربیت کررہا ہے۔ اور ایک ماہر کی طرح اور علیم وخبیر استاد کی طرح بڑی حکمت سے ہدایات اور سبق طلبہ کے ذہن میں یوں اتارتا ہے کہ وہ فورات عمل کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا سیشن آتا ہے اس میں بھی مسلسل پکار ہے اور اسی انداز میں اور اسی طرز پر جماعت مسلمہ کو عمل پر ابھارا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” فالیوم “ اس لیے آج تم کسی صوت جہنم سے نہیں بچ سکتے۔ آج تم سے اور کافروں سے کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول نہیں کیا جائیگا اور نہ تمہارا کوئی حامی اور مددگار ہی تمہیں تمہیں عذاب سے بچا سکے گا آج لا محالہ تمہیں جہنم میں جانا ہے، وہی تمہار دائمی ٹھکانہ ہے اور آج جہنم ہی تمہاری حامی اور مددگار ہے اور وہی تمہاری جائے پناہ ہے جو نہایت ہی بدترین ٹھکانا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) غرض آج نہ تو تم منافقوں سے کوئی معاوضہ اور فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلے کفر اور انکار کا ارتکاب کیا اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم اور آگ ہے وہی تمہارے لائق اور تمہاری رفیق ہے اور وہ پھرجانے اور بازگشت کی بری جگہ ہے۔ یعنی اول تو یہاں فدیہ دینے ہی کو کچھ نہیں اور بفرض محال کچھ ہو بھی تو آج معاوضے اور فدیہ کا سوال ہی نہیں نہ منافقوں سے اور نہ کافروں سے آج ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے وہی تمہارے رہنے کی جگہ ہے اور وہی تمہارے لائق اور تمہاری رفیق ہے اور وہ لوٹ کر جانے کی بری جگہ ہے۔