Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 17

سورة الحديد

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷﴾

Know that Allah gives life to the earth after its lifelessness. We have made clear to you the signs; perhaps you will understand.

یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ، ہم نے تو تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کر دیں تاکہ تم سمجھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Know that Allah gives life to the earth after its death! Indeed We have made clear the Ayat to you, if you but understand. This Ayah indicates that He brings subtleness to hearts after they have become hard, guides the confused after they were led astray, and relieves hardships after they have intensified. And just as Allah brings life back to the dead and dry earth by sending the needed abundant rain, He also guides the hardened hearts with the proofs and evidences of the Qur'an. The light (of faith) would have access to the hearts once again, after they were closed and, as a consequence, no guidance was able to reach them. All praise is due to Him Who guides whomever He wills after they were misguided, Who misguides those who were led aright before. Surely, it is He Who does what He wills and He is the All-Wise, the Most Just in all that He does, the Most Subtle, the Most Aware, the Most High, the Proud.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] مومن اور منافق پر وحی کے اثر کا تقابل :۔ زمین پر بارش ہو تو وہ گلزار بن جاتی ہے اور کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ مگر بنجر زمین اس بارش کا بھی الٹا اثر لیتی ہے۔ وہاں شور پیدا ہوجاتا ہے یا خاردار جھاڑیاں اور فضول قسم کی نباتات اگ آتی ہے۔ یہی حال منافقوں کا ہے۔ انسان کا دل زمین ہے اور وحی الٰہی باران رحمت۔ اس سے سلیم الطبع لوگوں کے ایمان کی کھیتیاں تو لہلہانے لگتی ہیں مگر منافقوں کے دلوں میں یہی آیات الٰہی مزید شکوک و شبہات کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ اپنی ناپاک سازشوں میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِعْلَمُوْٓا :” جان لو “ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے ، بلکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا :(وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ ج ) (البقرہ : ٢٣٥)” اور جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے ، پس اس سے ڈرو “۔ مقصد یہ ہے کہ یہ بات پوری توجہ سے سنو ، اس پر غور کرو اور ہر وقت اسے پیش نظر رکھو۔ ٢۔ اَنَّ اللہ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط ۔۔۔۔: اس میں اللہ کی طرف رجوع کی اور گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کی ترغیب اور اپنی رحمت و مغفرت کی امید دلائی ہے ، یعنی اگر تمہاری کوتاہیوں کی وجہ سے دلوں میں سختی پیدا ہوچکی ہے اور ان میں آیات الٰہی سننے سے نرمی پیدا نہیں ہوتی تو اب بھی موقع ہے کہ اس کی تلافی کرلو ، پھر جب تم پلٹ آؤ گے تو وہ اللہ جو زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے ، وہ تمہارے مردوں دلوں کو بھی زندگی بخش دے گا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝ ١٧ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے خشک اور بنجر ہوجانے کے بعد پانی برسا کر زندہ کردیتا ہے اسی طرح وہ مردوں کو بھی زندہ کرے گا ہم نے مردوں کے زندہ کرنے پر تم سے دلائل بیان کردیے ہیں تاکہ تم مرنے کے بعد جی اٹھنے کی تصدیق کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } ” جان لو کہ اللہ زندہ کردیتا ہے زمین کو اس کے مرنے کے بعد ۔ “ تم اکثر دیکھتے ہو کہ بےآب وگیاہ بنجر زمین پر جب بارش برستی ہے تو اس کے ذرے ذرے میں زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر تم لوگ بھی خلوص نیت کے ساتھ توبہ کر لوگے اور اللہ کے حضور جھک جائو گے تو وہ اپنی نظر رحمت سے تمہارے دلوں کی زمین کو بھی ازسر نو زندگی بخش دے گا اور اسے پھر سے ایمان کی فصل کے قابل بنا دے گا۔ { قَدْ بَیَّنَّا لَـکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ } ” ہم نے تو تمہارے لیے اپنی آیات خوب واضح کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔ “ لہٰذا تم عقل سے کام لیتے ہوئے اس مثال سے سبق سیکھو ! تم خوب سمجھتے ہو کہ فصلیں کب برباد ہوتی ہیں اور زمینیں کیونکر بنجر بنتی ہیں ‘ تمہیں بنجر زمینوں کو پھر سے سرسبز و شاداب بنانے کا نسخہ بھی معلوم ہے۔ یہی نسخہ ذرا اپنے دل کی زمین پر بھی آزمائو اور اس زمین کو بھی پھر سے آباد کرنے پر کمر ہمت باندھو۔ توکل علی اللہ کا سرمایہ اکٹھا کرو ‘ انفاق فی سبیل اللہ کے ہل چلا کر حب مال کے جھاڑ جھنکاڑ سے جان چھڑائو ‘ پھر اللہ کی اطاعت و محبت کے بیج بو کر اس کے ذکر کے پانی سے مسلسل آبیاری کرتے چلے جائو اور دل میں یقین رکھو کہ اللہ مردہ زمینوں کو پھر سے زندہ کردیا کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 The point contained here should be well understood, At several places in the Qur'an the Prophethood and the revelation of the Book have been compared to the rainfall, for the effects produced by them on humanity are precisely like those produced by rain on the soil. Just as the dead earth swells and blooms as soon -as it receives a shower of rain, so it is with the dead humanity in a country where a Prophet is raised through Allah's mercy and Revelation begins to be sent down to him. It starts revealing those virtues which lay hidden and suppressed for ages; it starts manifesting from within itself excellent morals and good deeds and virtues of every kind. Allusion has been made to this truth here so as to open the eyes of the Muslims of the weak faith and to make them ponder their state. The way humanity was being reformed by the blessed rainfall of the Prophethood and Revelation and the way it was being richly and generously blessed in every way was not a remote story for them. They were observing it themselves in the pious and righteous society of the Companions and experiencing it day and night around them. Polytheism with alI its evils was present before them while the virtues and good things emanating from Islam also were blooming and flourishing before their eyes. Therefore, they did not need to be told any details. An allusion was enough to the effect, "The signs of how Allah grants life to the dead earth through the rainfall of His mercy have been shown to you; now you should use your common sense and consider it for yourself as to what benefit you arc deriving from this blessing. "

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :30 یہاں جس مناسبت سے یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبوت اور کتاب کے نزول کو بارش کی برکات سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انسانیت پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زمین پر بارش کے ہوا کرتے ہیں ۔ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین باران رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہی لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح جس ملک میں اللہ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتاب کا نزول شروع ہوتا ہے وہاں مری ہوئی انسانیت یکایک جی اٹھتی ہے ۔ اس کے وہ جوہر کھلنے لگتے ہیں جنہیں زمانہ پائے دراز سے جاہلیت نے پیوند خاک کر رکھا تھا ۔ اس کے اندر سے اخلاق فاضلہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیرات و حسنات کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف جس کی طرف جس غرض کے لیے یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ اپنی حالت پر غور کریں ۔ نبوت اور وحی کے باران رحمت سے انسانیت جس شان سے از سر نو زندہ ہو رہی تھی اور جس طرح اس کا دامن برکات سے مالا مال ہو رہا تھا وہ ان کے لیے کوئی دور کی داستان نہ تھی ۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے صحابہ کرام کے پاکیزہ معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ رات دن اس کا تجربہ ان کو ہو رہا تھا ۔ جاہلیت بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی ، اور اسلام سے پیدا ہونے والے محاسن بھی ان کے مقابلے میں اپنی پوری بہار دکھا رہے تھے ۔ اس لیے ان کو تفصیل کے ساتھ یہ باتیں بتانے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ بس یہ اشارہ کر دینا کافی تھا کہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ، اس کی نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی گئی ہیں ، اب تم خود عقل سے کام لے کر اپنی حالت پر غور کر لو کہ اس نعمت سے تم کیا فائدہ اٹھا رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی جن مسلمانوں سے اب تک کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، اور وہ اپنے ایمان کے تمام تقاضے پورے نہیں کرسکے، انہیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ پڑی ہوئی زمین کو زندگی بخشتا ہے، اسی طرح وہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما کر انہیں بھی نئی زندگی بخش دیتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:17) اعلموا۔ امر ، جمع مذکر حاضر۔ علم (باب سمع) مصدر۔ تم جان لو۔ آیت کا ترجمہ ہے :۔ جان لو کہ اللہ ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ یہ تمثیلاً ارشاد فرمایا کہ :۔ جس طرح اللہ کے حکم سے ایک بےآب وگیاہ اور بنجر زمین ابر رحمت سے گل و گلزار میں تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح اس کا ذکر اور اس کی کتاب پر عمل ابر کا سا کرکے سخت سے سخت تر قلوب کو خشوع و خضوع کا گہوارہ بنا دیتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے اسی طرح محشر میں مردہ مخلوقات کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ قد بینا : قد تحقیق کے معنی میں آیا ہے ۔ بینا ماضی جمع متکلم تبیین (تفعیل) مصدر۔ بیان کرنا۔ کھول کر بیان کر نا۔ تحقیق ہم نے بیان کردیا ہے۔ لعلکم : لعل حروف مشبہ بالفعل۔ کم اس کا اسم ۔ شاید تم۔ امید ہے کہ تم۔ تعقلون : مضارع جمع مذکر حاضر۔ عقل (باب ضرب) مصدر۔ تم سمجھتے ہو۔ لعلکم تعقلون : امید ہے کہ تم سمجھ جاؤ گے۔ شاید تم سمجھ لو۔ (یعنی ہم نے یہ آیات جو اس مذکورہ بالا جملہ میں کھول کر بیان کیں۔ تاکہ تم ان کو سمجھ سکو۔ ان پر عمل کرو۔ اور نتیجۃ سعادت دارین حاصل کرسکو)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 لہٰذا وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکے۔ اس سے مقصود عام مسلمانوں کو توبہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس طرح توبہ کرنے پر اپنی رحمت سے قلب مردہ کو زندہ اور درست کردیتا ہے، پس مایوس نہ ہونا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اعلموا ................ موتھا (٧٥ : ٧١) ” خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے “ اور قرآن کے اندر وہ چیز ہے جو دلوں کو موت کے بعد پھر زندہ کرتی ہے۔ اس کے اندر وہ مواد موجود ہے جو غذا دیتا ہے ، جو سیراب کرتا ہے اور جو گرماتا ہے۔ قدبینا ................ تعقلون (٧٥ : ٧١) ” ہم نے نشانیاں تم کو صاف دکھا دی ہیں ، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔ “ اس زندہ کردینے والی چٹکی کے بعد ، اور اس بالواسطہ عناب کے بعد ، اور اس ڈراوے کے بعد دوبارہ انفاق فی سبیل اللہ پر ابھارا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ١ؕ ﴾ اس میں زمین کی مثال دے کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قلوب قاسیہ یعنی سخت دلوں کو زندہ فرما دیتا ہے جبکہ وہ ذکر و تلاوت میں لگ جائیں جیسا کہ مردہ زمین کو بارش بھیج کر ہرا بھرا کردیتا ہے۔ ﴿ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ٠٠١٧﴾ (ہم نے تمہارے لیے آیات بیان کیں تاکہ تم سمجھو)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” اعلمو ان اللہ “ یہ ترغیب انفاق کے تیسرے طریق سے متعلق ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے بدلے کئی گنا واپس دینے کی ایک تمثیل ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ اور خشک زمین پر مینہ برسا کر اسے تازگی اور زندگی عطاء فرماتا اور اس میں بوئے ہوئے دانہ سے کوئی سو گنا دانے حاصل ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال میں اضافہ فرماتا ہے۔ یہ آیتیں اور یہ مضامین ہم اس لیے کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ تم ان کو سمجھو اور ان پر عمل کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اس بات کو جان لو اور اس بات کا یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مرنے یعنی خشک ہوجانے کے بعد زندہ کردیتا ہے ہم نے تم سے اپنے دلائل واضح طور پر بیان کردیئے ہیں تاکہ تم سمجھو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عرب کے لوگ جاہل تھے جیسے مردہ زمین اب ان کو جلایا اور ان میں سب کمال پیدا کردیئے۔ یعنی حالت کفر کو مری ہوئی زمین سے تشبیہہ دی ایمان لانا اور گناہوں سے توبہ کرنا ایسا ہے جیسے خشک زمین پر بارش ہوگئی اس لئے اگر توبہ کرتے رہو گے تو نیکیوں کی کھیتی خشک نہ ہوگی یہ سوچنے سمجھنے کی بات ہے۔