Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 18

سورة الحديد

اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾

Indeed, the men who practice charity and the women who practice charity and [they who] have loaned Allah a goodly loan - it will be multiplied for them, and they will have a noble reward.

بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں ۔ ان کے لئے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لئے پسندیدہ اجر و ثواب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reward for the Charitable, the True Believers and the Martyrs; and the Destination of the Disbelievers Allah the Exalted says إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا ... Verily, those who give Sadaqat, men and women, Allah the Exalted describes the reward that He will award to those who spend from their wealth, whether male or female, on the needy, the poor and the meek, ... اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ... and lend Allah handsome loan, meaning, they give in charity with a good heart seeking the pleasure of Allah. They do not seek worldly rewards or appreciation from those to whom they give in charity. Allah's statement, ... يُضَاعَفُ لَهُمْ ... it shall be increased manifold, indicating that He will multiply the good deeds from tenfold, up to seven hundredfold and even more than that, ... وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ and theirs shall be an honorable good reward. theirs will be a generous, handsome reward, a good dwelling to return to and an honorable final destination. Allah's statement,

صدقہ و خیرات کرنے والوں کے لئے اجر و ثواب فقیر مسکین محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی مرضی کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے اللہ کی راہ میں صدقہ دیتے ہیں ان کے بدلے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرمائے گا ۔ دس دس گنے اور اس سے بھی زیادہ سات سات سو تک بلکہ اس سے بھی سوا ان کے ثواب بےحساب ہیں ان کے اجر بہت بڑے ہیں ۔ اللہ رسول پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق و شہید ہیں ، ان دونوں اوصاف کے مستحق صرف با ایمان لوگ ہیں ، بعض حضرات نے الشہداء کو الگ جملہ مانا ہے ، غرض تین قسمیں ہوئیں مصدقین صدیقین شہداء جیسے اور روایت میں ہے اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گذار انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہے جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ ہیں ، پس صدیق و شہید میں یہاں بھی فرق کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو قسم کے لوگ ہیں ، صدیق کا درجہ شہید سے یقینا بڑا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جنتی لوگ اپنے سے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو ، لوگوں نے کہا یہ درجے تو صرف انبیاء کے ہوں گے آپ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی ( بخاری مسلم ) ایک غریب حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید اور صدیق دونوں وصف اس آیت میں اسی مومن کے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے مومن شہید ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ حضرت عمرو بن میمون کا قول ہے یہ دونوں ان دونوں انگلیوں کی طرح قیامت کے دن آئیں گے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہوں گی جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی پھریں گی اور رات کو قندیلوں میں سہارا لیں گی ان کے رب نے ان کی طرف ایک بار دیکھا اور پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ کہ تو ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ ہم پھر تیری راہ میں جہاد کریں اور شہادت حاصل کریں اللہ نے جواب دیا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی لوٹ کر پھر دنیا میں نہیں جائے گا پھر فرماتا ہے کہ انہیں اجر و نور ملے گا جو نور ان کے سامنے رہے گا اور ان کے اعمال کے مطابق ہو گا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے شہیدوں کی چار قسمیں ہیں ۔ 1- وہ پکے ایمان والا مومن جو دشمن اللہ سے بھڑ گیا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس کا وہ درجہ ہے کہ اہل محشر اس طرح سر اٹھا اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا سر اس قدر بلند کیا کہ ٹوپی نیچے گر گئی اور اس حدیث کے راوی حضرت عمر نے بھی اسے بیان کرنے کے وقت اتنا ہی اپنا سر بلند کیا کہ آپ کی ٹوپی بھی زمین پر جا پڑی ۔ 2 دوسرا وہ ایمان دار نکلا جہاد میں لیکن دل میں جرات کم ہے کہ یکایک ایک تیر آ لگا اور روح پرواز کر گئی ہی دوسرے درجہ کا شہید جنتی ہے ۔ 3 تیسرا وہ جس کے بھلے برے اعمال تھے لیکن رب نے اسے پسند فرما لیا اور میدان جہاد میں کفار کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی تیسرے درجے میں ہیں ۔ چوتھا وہ جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جہاد میں نکلا اور اللہ نے شہادت نصیب فرما کر اپنے پاس بلوا لیا ۔ ان نیک لوگوں کا انجام بیان کر کے اب بد لوگوں کا نتیجہ بیان کیا کہ یہ جہنمی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یعنی ایک کے بدلے میں کم ازکم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ اور یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت و ضرورت اور مکان کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ 182یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جنکو کبھی زوال اور فنا نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] اس آیت میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب میں تاکید مزید کے طور پر اسی سورة کی آیت نمبر ١١ کے مضمون کو دہرایا گیا ہے۔ تشریح آیت مذکورہ کے تحت دیکھ لی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ :” المصدقین “ اصل میں باب تفعل سے ” المتصدقین “ ہے ، تاء کو صاد سے بدل کر صاد میں ادغام ک دیا ۔ صاد کی تشدید سے صدقے میں مبالغے اور کثرت کا اظہار مقصود ہے ، یعنی بہت صدقہ کرنے والے مرد اور بہت صدقہ کرنے والی عورتیں ۔” المزمل “ اور ” المدثر “ میں بھی ایسے ہی ہے۔ ٢۔ وَاَقْرَضُوا اللہ قَرْضًا حَسَنًا ۔۔۔۔۔: یہاں ایک سوال ہے کہ ” اقرضو اللہ “ فعل کا ” المصدقین “ اسم فاعل پر عطف کس طرح ڈالا گیا ہے ؟ اس کے جوابات میں سے ایک جواب یہ ہے کہ ” المضدقین “ دراصل ” الذین تصدقوا “ کے معنی میں ہے ، اس لیے ” اقرضوا “ کا عطف ” تصدقوا “ پر جو ” متصدقین “ کے ضمن میں موجود ہے۔ ” متصدقین “ کو اسم فاعل کی صورت میں دوام کے اظہار کے لیے لایا گیا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے اسی سورت کی آیت (١١) کی تفسیر دیکھئے۔ البتہ یہاں ” المضدقین “ کے لفظ میں صدقے کی کثرت اور اس پر دوام کی بات اس سے زائد ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا يُّضٰعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ كَرِيْمٌ۝ ١٨ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر : 293- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر، فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن . ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بلاشبہ سچے ایمان دار مرد اور سچی ایمان دار عورتیں یا یہ کہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں یہ اللہ تعالیٰ کو خلوص اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے قرض دے رہے ہیں وہ صدقہ اللہ تعالیٰ ان سے قبول فرمائے گا اور ان کی نیکیوں کو سات سے لے کر ستر تک اور سات سو تک غرض کہ جہاں تک اللہ کو منظور ہوگا بڑھا دیا جائے گا اور پھر اس کے ساتھ ان کے لیے جنت میں پسندیدہ اجر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨{ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ ۔ } ” یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو قرض دیں اللہ کو قرض حسنہ ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔ “ سورة البقرۃ کے رکوع ٣٥ اور ٣٦ کے مطالعہ کے دوران بھی یہ نکتہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو مدیں ہیں۔۔۔۔ یعنی ایک صدقہ اور دوسری انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے لیے قرض حسنہ۔ چناچہ وہ مال جو اللہ کی رضا کے لیے غربائ ‘ مساکین ‘ بیوائوں ‘ یتیموں ‘ بیماروں ‘ مسافروں ‘ مقروضوں ‘ محتاجوں اور ضرورت مند انسانوں کی مدد اور حاجت روائی کے لیے خرچ کیا جائے وہ صدقہ ہے۔ اسی مفہوم میں سورة التوبہ کی آیت ٦٠ میں زکوٰۃ کو بھی ” صدقہ “ قرار دیا گیا ہے ۔ کیونکہ زکوٰۃ بنیادی طور پر غرباء و مساکین اور محتاجوں کے لیے ہے۔ اس میں اللہ کے لیے (فی سبیل اللہ) صرف ایک مد رکھی گئی ہے۔ اس حوالے سے دوسری اصطلاح ” انفاق فی سبیل اللہ “ یا اللہ کے لیے قرض حسنہ کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح کی بات ہو رہی ہے ‘ ورنہ عرفِ عام میں تو صدقہ بھی فی سبیل اللہ ہی ہے ‘ کیونکہ وہ بھی اللہ کے لیے اور اس کی رضاجوئی کے لیے ہی دیا جاتا ہے۔ بہرحال ایک باقاعدہ اصطلاح کے اعتبار سے انفاق فی سبیل اللہ ایسا انفاق ہے جو اللہ کے دین کے لیے ‘ دین کی نشرو اشاعت کے لیے اور اس کے غلبہ و اقامت کی جدوجہد کے لیے کیا جائے اور یہی وہ انفاق ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ۔ اللہ کی مشیت سے مردہ زمین کے زندہ ہوجانے کے ذکرکے بعد یہاں صدقہ اور اللہ کے لیے قرض حسنہ کی ترغیب میں گویا دل کی مردہ زمین کو پھر سے ایمان کی فصل کے لائق بنانے کی ترکیب پنہاں ہے ۔ یعنی اگر تم نے دل کی مردہ زمین کو زندہ کرنا ہے تو اس میں انفاقِ مال کا ہل چلائو اور اس میں سے ُ حب ِدنیا کی جڑوں کو کھود کھود کر نکال باہر کرو۔ یقین رکھو کہ جیسے جیسے تم اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے جائو گے ‘ ویسے ویسے تمہارے دل کی زمین میں ایمان کی فصل جڑیں پکڑتی چلی جائے گی۔ دنیا کی محبت کو میں عام طور پر گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں۔ جس طرح گاڑی کو بریک لگی ہو تو وہ حرکت میں نہیں آسکتی ‘ اسی طرح اگر دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیوست ہوچکی ہے تو اس میں اللہ کے راستے پر گامزن ہونے کی امنگ پیدا نہیں ہوسکتی۔ چناچہ دل کی گاڑی کو رضائے الٰہی کی شاہراہ پر رواں دواں کرنے کے لیے اس کی بریک سے پائوں اٹھانا بہت ضروری ہے۔ یعنی اس کے لیے مال کی محبت کو دل سے نکالنا ناگزیر ہے ۔ اور اس محبت کو دل سے نکالنے کی ترکیب یہی ہے کہ اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 Sadagah, as an Islamic term, is the charity given sincerely and with a pure intention only with a view to seek Allah's good pleasure without making any show of it, and without the intention of doing any favour to the recipient. The donor should give it only because he has a true feeling of the service of his Lord. The word is derived from sidq; therefore, sadaqat(sincerity) is of its essence. No charity and no expending of the wealth can be a sadaqah unless it springs from a sincere and pure motive of spending only for the sake of Allah.

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :31 صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی برے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے ، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو ، کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی صرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بےکھوٹ جذبہ موجود نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:18) ان المصدقین والم صدقات ان حرف مشبہ بالفعل المصدقین اسم ان۔ واؤ عاطفہ المصدقت معطوف جس کا عطف المصدقین پر ہے۔ یضعف خبر ان۔ المصدقین اسم فاعل جمع مذکر منصوب المصدق واحد تصدق (تفعل) مصدر۔ اصل میں المصدقین تھا۔ تاء کو صاد سے بدل کر ص کو ص میں ادغام کیا۔ خیرات دینے والے۔ المصدقت اسم فاعل جمع مؤنث منصوب (اسم ان) المصدقۃ واحد۔ تصدق (تفعل) مصدر۔ یہ بھی اصل میں متصدقت تھا۔ تا کو ص میں بدل کر ص کو ص میں مدغم کیا۔ خیرات دینے والیاں۔ یضعف مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ مضاعفۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ دوگنا کیا جائے گا۔ لہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب۔ المصدقین والمصدقت کی طرف راجع ہے ترجمہ یوں ہوگا :۔ بیشک خیرات کردینے والے مرد اور خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو خوشدلی سے قرض دیا۔ ان کو دو چند دیا جائے گا۔ ولہم اجر کریم واؤ عاطفہ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور ان کو عمدہ اجر ملے گا۔ اجر کریم موصوف وصفت (نیز ملاحظہ ہو آیت 11 متذکرہ بالا)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔ سورۃ الحدید کی آیت ٧ سے لے کر ١٨ تک سات مرتبہ انفاق اور قرض کے نام پر صدقہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں وہ مرد ہوں یا عورتیں جو بھی ایمان اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں انہیں دوگنا واپس کرنے کے ساتھ اجر کریم سے نوازا جائے گا۔ قرض حسنہ سے مرادایسا قرض ہے جس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔ 1 ۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ 2 ۔ رزق حلال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کیے ہوئے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔ 3 ۔ صدقہ کرنے والا کا اللہ اور اس کے رسول پر خالص ایمان ہونا چاہیے۔ 4 ۔ جسے صدقہ دیا جائے نہ اس پر احسان جتلایا جائے اور نہ اسے تکلیف دی جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا) (پ ١٨۔ رکوع ٣) وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ۔۔ ) (رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو۔ “ اے ایمان والو ! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ “ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ : ٢٦١) ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں ” اللہ “ انہیں دوگنا عنایت کرے گا۔ ٢۔ صدقہ کرنے والا ” اللہ “ کو قرض دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اجر کریم سے ہمکنار فرمائے گا۔ ٣۔ قرض حسنہ وہ ہے جس میں احسان جتلانا اور تکلیف دینا شامل نہ ہو۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے والوں کا مقام اور انجام : ١۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ : ٢٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٤۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٥۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٦۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ٧۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں صدقہ لینے والوں پر اپنی برتری نہیں جتلاتے اور اس سودے میں یہ لوگ فریق ہی نہیں ہوتے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے بلند اور برتر شعور اور کیا ہوسکتی ہے کہ صدقہ دینے والا یہ سمجھے کہ وہ غنی اور حمید ذات کو قرض دے رہا ہے۔ اور وہ اس کائنات کے مالک کے ساتھ سودا کررہا ہے۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ خرچ کررہا ہے وہ دوگنا تگنا ہوکر ملے گا۔ اور کئی گنا لوٹانے کے بعد اجر کریم بھی دیا جائے گا۔ صدیقین کا مقام بہت ہی بلند مقام ہے احادیث نبوی میں اس کی خوب تشریح کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ مقام بہت بلند ہے لیکن اس کے حصول کے مواقع ہر کسی کے لئے کھلے ہیں ، یہ چند افراد یا کسی طبقے تک محدود نہیں ہے ، جو بھی اللہ اور رسول پر صحیح ایمان پدا کرے اور اس مقام بلند کا طلب گار ہو وہ اسے پاسکتا ہے ، اللہ کے فضل پر کوئی حد بندی نہیں ہے۔ والذین .................... الصدیقون (٧٥ : ٩١) ” اور جو لوگ اللہ اور رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق ہیں۔ “ یہ اس دن کی خاصیت اور امتیازی بات ہے کہ یہ سب انسانوں کے لئے ایک کھلا راستہ ہے۔ یہ ایک بلند افق ہے جس کی طرف سب کی نظریں لگی رہنی چاہیں۔ یہاں کسی کا ٹھیکہ نہیں ہے اور نہ یہ مقامات کچھ مخصوص لوگوں کو ملتے ہیں۔ اسلام میں یہ شخص عمل کرکے اعلیٰ درجات تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جس میں کسی ایسے طبقے کی گنجائش نہیں ہے۔ جسے کوئی پیدائشی برتری حاصل ہو۔ امام مالک اپنی کتاب موطا میں روایت کرتے ہیں صفوان ابن سلیم سے ، انہوں نے عطا ابن یسار سے ، انہوں نے ابو سعید خدری سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت دیکھیں گے کہ بلند بالا خانوں والوں کو ، یہ اونچے ہوں گے ، جیسا کہ تم روشن ستارے کو دور مشرقی اور مغربی افق میں دیکھتے ہو ، اس لئے کہ بلندی درجات میں بہت فرق ہوگا۔ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا رسول خدا یہ انبیاء کے منازل ہوں گے جن تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکے گا۔ تو فرمایا ہاں ” خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ کچھ لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور جنہوں نے مرسلین کی تصدیق کی “.... یہ ہے ایمان کی چٹکی اور اللہ کے دین پر فدا ہونے کا مقام ؟ وہ بعد میں آتا ہے۔ والشھدائ ................ ونورھم (٧٥ : ٩١) ” اور شہدا ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے “۔ شہدا کی بات تو قرآن میں بار بار آتی ہے۔ احادیث نبوی بھی ان کے بارے میں متواتر ہیں۔ یہ اس دین کے چوکیدار ہوتے ہیں اور کوئی دین چوکیداری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور کسی جگہ جہاد کے بغیر دین کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ جہاد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عقیدہ محفوظ ہو ، دعوت اسلامی کے لئے راہ آزاد ہو ، اہل دین اور اہل شریعت کو فساد سے محفوظ رکھا جائے ، یہی وجہ ہے کہ صرف شہداء فی سبیل اللہ ہی اس اونچے مقام کے شہداء ہیں ، وہ رب کے قریب ہوں گے۔ اور وہ رب کے پاس ہوں گے۔ عندربھم ان کا اعزاز ہے۔ ” صحیحین میں روایت ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت میں ہوتی ہیں اور وہ جہاں چاہتی ہیں چگتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان طاقوں میں آکر ٹھہرتے ہیں۔ اللہ ان پر ظاہر ہوگا اور فرمائے گا تم کیا چاہتے ہو ، وہ کہیں گے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے اور ہم پھر تیری راہ میں جنگ کریں جس طرح پہلی مرتبہ جنگ کی۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔ “ اور شیخین اور دوسروں نے انس (رض) سے روایت کی ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” جو کوئی جنت میں داخل ہوجائے وہ دنیا کی طرف لوٹنا پسند نہ کرے گا اگرچہ یہاں اس کے لئے بہت کچھ ہو ، ماسوائے شہید کے ، وہ یہ چاہے گا کہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے اور دسیویں مرتبہ اللہ کی راہ میں قتل ہوتا رہے کیونکہ وہ شہیدوں کی عزت دیکھ چکا ہوگا۔ “ یہ باتیں سن کر دور اول کے مسلمانوں کے لئے جان کی کوئی اہمیت نہ رہتی تھی۔ وہ مسلمانجن کو مقام شہادت کا پتہ لگ جاتا تھا۔ امام مالک نے یحییٰ ابن سعید سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ جہاد کے لئے لوگوں کو آمادہ فرما رہے تھے۔ اور آپ جنت کا ذکر فرما رہے تھے۔ انصار کا ایک آدمی سن رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں کھجوروں کے کچھ دانے تھے جنہیں وہ کھارہا تھا۔ تو اس نے کہا ” میں تو دنیا کا لالچی ہوں گا ، اگر میں بیٹھ گیا اور یہ کھجوریں کھاتا رہا یہاں تک کہ میں ان سے فارغ ہوجاؤں۔ اس نے یہ کھجوریں پھینک دیں اور تلوار اٹھائی اور کفار پر حملہ کردیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا۔ اس شخص کے نام کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عبیرابن الحمام (رض) تھا۔ “ جب صدیقوں کا یہ مقام ہے اور شہدا کا یہ مقام ہے تو کافرین اور مکذبین کا مقام بھی بتادیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صدقہ کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اجر کریم کا وعدہ اور شہداء کی فضیلت یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں صدقہ کرنے والے مردوں اور عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے لیے مال خرچ کرتے ہیں یہ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا (ثواب کی امید رکھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اللہ کے رضا کے لیے مال خرچ کیا) ان کا بدلہ ان کو بڑھا چڑھا کردیا جائے گا اور ان کو اجر کریم یعنی بہت پسندیدہ اجر دیا جائے گا یہ مضمون اسی سورت کے پہلے رکوع کے ختم پر گزر چکا ہے۔ قال صاحب الروح : وقرء ابن کثیر و ابوبکر بتخفیف الصاد من التصدیق لامن الصدقة وعطف ” اقرضوا “ علی معنی الفعل من المصدقین علی ما اختارہ ابو علی والزمخشری لان ال بمعنی الذین واسم الفاعل بمعنی الفعل فکانہ قیل ان الذین تصدقوا او صدقوا علی القراء تین (واقرضوا) وتعقبہ ابو حیان وغیرہ بان فیہ الفصل بین اجزاء الصلة اذ ” ال “ معطوف علی الصلة باجبنی وھو المتصدقات، و ذلک لا یجوزہ۔ قلت تعقب ابی حیان لا یصح لان الوارد فی کتاب اللہ تعالیٰ یرد جمیع القواعد التی انھا النحاة مع ان المصدقات لیس باجبنی اذا النساء دخلت فی المتصدقین کما فی مواضع من کتاب اللہ تعالیٰ جاء بصیغة التذکیر وھو یعم الصنفین ولو لم یذکرھن لکان الکلام مربوطًا بلا ریب، فاختصصن بالذکر لاظھار ان منزلتھن فی التصدق مثل الرجال اذا نفقن باخلاصھن ومثل ھذا الوصل لیس بفصل ـ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” ان المصدقین “ یہ ترغیب فی الانفاق ہے۔ المصدقین اور المصدقات میں الف لام اسم موصول ہے۔ بالترتیب بمعنی ” الذین “ اور ” اللاتی “ اور دونوں اسم فاعل بمعنی ماضی ہیں یعنی تصدقوا اور تصدوق بقرینہ معطوف ” اقرضوا “ اسم موصول ہمیشہ جملہ پر داخل ہوتا ہے اور یہاں اسم فاعل پر اس کا داخل ہونا بظاہر خلاف قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قاعدہ ان اسماء موصولہ کے لیے ہے جو صورۃ و معنیً بمعنی فعل ماضی ہے بقرینہ معطوف ” اقرضوا “ اب اصل عبارت یوں ہوگی۔ ان الذین اصدقوا واقرضوا اللہ الخ۔ (کشاف، روح، مدارک) ۔ جو مرد اور عورتیں اللہ کی راہ میں خرچ کر رہی ہیں وہ گویا خدا کو قرض دے رہی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا کئی گنا معاوضہ عطاء فرمائے گا اور آخرت کا اجر وثواب اس کے علاوہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش دلی اور خلوص کے ساتھ قرض دیا ان کے لئے اس صدقہ کے ثواب کو بڑھا دیا جائے گا اور دو چند کردیا جائیگا اور ان لوگوں کو باعزت اور پسندیدہ ثواب ملے گا۔ آیت کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے صدقہ بڑھادیا جائے گا یعنی صدقہ کا ثواب بڑھادیاجائے گا۔