Surat ul Hadeed

Surah: 57

Verse: 19

سورة الحديد

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾  18

And those who have believed in Allah and His messengers - those are [in the ranks of] the supporters of truth and the martyrs, with their Lord. For them is their reward and their light. But those who have disbelieved and denied Our verses - those are the companions of Hellfire.

اللہ اور اس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے ، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ امَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَيِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ... And those who believe in Allah and His Messengers -- they are the Siddiqun. This completes His description of those who have faith in Him and in His Messengers, by describing them as Siddiqun, true believers. Al-Awfi reported from Ibn Abbas about وَالَّذِينَ امَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَيِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ (And those who believe in Allah and His Messengers -- they are the Siddiqun) that its meaning does not continue to the next Ayah, وَالشُّهَدَاء عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ (and the martyrs (are) with their Lord. They shall have their reward and their light). Abu Ad-Duha (stopped after he) recited, أُوْلَيِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ (they are the Siddiqun), then initiated recitation: وَالشُّهَدَاء عِندَ رَبِّهِمْ (and the martyrs (are) with their Lord). Masruq, Ad-Dahhak, Muqatil bin Hayyan and others said similarly. Al-A`mash narrated from Abu Ad-Duha from Masruq from Abdullah bin Mas`ud commented on Allah's statement, وْلَيِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاء عِندَ رَبِّهِمْ (they are the Siddiqun, and the martyrs with their Lord), "They are of three categories," meaning - there are those who spend in charity, - the Siddiqun and - the martyrs. Allah the Exalted said, وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـيِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّـلِحِينَ And whoso obey Allah and the Messenger, then they will be in the company of those on whom Allah has bestowed His grace, of the Prophets, the Siddiqin, the martyrs, and the righteous. (4:69) Therefore, Allah made a distinction between the Siddiqin and the martyrs, indicating that they are of two distinct categories, so there is no doubt that Siddiq is a better status than the martyr. Imam Malik bin Anas recorded in his Muwatta' that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا تَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الاُْفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُم The people of Paradise will look at the dwellers of the lofty mansions as one looks at a brilliant star far away in the east or in the west on the horizon, because of their superiority over one another. On that the people said, "O Allah's Messenger! Are these lofty mansions for the Prophets whom none else can reach" The Prophet replied, بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ رِجَالٌ امَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِين No! By Him in Whose Hand is my soul! these are for men who believe in Allah and believe in the Messengers. Al-Bukhari and Muslim also collected this Hadith. Allah's statement, ... وَالشُّهَدَاء عِندَ رَبِّهِمْ ... and the martyrs with their Lord. means that they will be in the gardens of Paradise, as recorded in the Sahih: إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَعَةً فَقَالَ مَاذَا تُرِيدُونَ فَقَالُوا نُحِبُّ أَنْ تَرُدَّنَا إِلَى الدَّارِ الدُّنْيَا فَنُقَاتِلَ فِيكَ فَنُقْتَلَ كَمَا قُتِلْنَا أَوَّلَ مَرَّةٍ فَقَالَ إِنِّي قَدْ قَضَيْتُ أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لاَ يَرْجِعُون The souls of the martyrs live in the bodies of green birds, who fly wherever they wish in Paradise and then return to their nests in chandeliers. Once your Lord cast a glance at them and said, `Do you want anything" They said, "We wish that You return us to the life of the world, so that we may fight in Your cause and be killed as we were killed the first time." Allah said, "I have decreed that they shall not be returned to it again." Allah's statement, ... لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ... They shall have their reward and their light, means that Allah will grant them a generous reward and a tremendous light that will precede before them. In this, the believers vary regarding the level of reward they receive, according to their good actions in the life of this world. Imam Ahmad recorded that Umar bin Al-Khattab said that he heard the Messenger of Allah say, الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ رَجُلٌ مُوْمِنٌ جَيِّدُ الاِْيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ فَقُتِلَ فَذَاكَ الَّذِي يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهِ هكَذَا There are four ranks of martyrs. - The first is a man who believes and who is true in faith, who meets the enemy (in battle), fulfills his duty to Allah and is killed. This is the type that the people will look up to (his level in Paradise), like this. The Prophet raised his head until his cap fell off his head, and the same happened to Umar. The Prophet continued, وَالثَّانِي مُوْمِنٌ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ ظَهْرُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ جَاءَهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ وَالثَّالِثُ رَجُلٌ مُوْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَاخَرَ سَيِّيًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ حَتْى قُتِلَ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعُ رَجُلٌ مُوْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ إِسْرَافًا كَثِيرًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللهَ حَتْى قُتِلَ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَة - The second is a believer who meets the enemy and is struck by a stray arrow which causes him to die. This believer is in the second grade. - The third is a believer who has combined good deeds with evil deeds; he meets the enemy and is truthful to his duty to Allah until he is killed. This is the third category. - And the fourth is a believer who has committed sins excessively, so he meets the enemy and is truthful to his duty to Allah, and is killed. This is the fourth category. `Ali bin Al-Madini also reported this Hadith and said, "This Egyptian chain is Salih useful." At-Tirmidhi said, "Hasan Gharib." Allah's statement, ... وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِأيَاتِنَا أُوْلَيِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ But those who disbelieve and deny Our Ayat -- they shall be the dwellers of the blazing Fire. mentions the destination and the condition of the miserable ones, after Allah mentioned the destination and rewards of the happy ones.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] صدیق کے دو مفہوم :۔ یعنی جو لوگ سچے دل اور خلوص نیت سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صدیق بن جاتے ہیں اور اللہ کے ہاں صدیق ہی شمار ہوتے ہیں۔ صدیق کے معنی و مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کا رسول کہتا ہے بلاتامل اس کی تصدیق کردیتے ہیں دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے قول اور وعدوں کے پابند اور اپنے اعمال و افعال میں راست رو اور راست باز ہوتے ہیں۔ جھوٹ، ہیرا پھیری، مکروفریب، جانبداری، بدعہدی اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے انہیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ [٣٣] صدیق کی گواہی کے دو مفہوم :۔ ایسے ہی صدیق لوگ قیامت کے دن دوسرے لوگوں پر گواہ بنیں گے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے قول اور عمل سے نمونہ بن کر سب لوگوں پر واضح کردیا کہ اللہ اور اس کے رسول پر صحیح طور پر ایمان لانے کے یہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں یہ گواہی دیں گے کہ ہم نے فلاں فلاں شخص کو دعوت حق دی تھی اور اس کے رد عمل کے طور پر انہوں نے ایسے ایسے جواب دیئے تھے اور ہمارے خلاف فلاں فلاں مظالم ڈھائے تھے۔ بعض مفسرین اس آیت میں واو عاطفہ قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک یہ دو الگ الگ اور مستقل جملے ہیں۔ پہلا جملہ صِدِّیْقُوْنَ پر ختم ہوجاتا ہے اور والشُّھَدَاءُ سے دوسرا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ شہداء سے مراد راہ حق میں شہید ہوجانے والے لیتے ہیں۔ میرے خیال میں پہلا مفہوم ربط مضمون سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ [٣٤] نور سے مراد وہی اعمال صالحہ کی روشنی ہے جس کی تشریح اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ کے تحت کردی گئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِ اللہ ِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ۔۔۔۔:” الصدیقون “ اور ’ ’ الشھدائ “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ نساء کی آیت (٦٩) کی تفسیر۔ اس آیت پر بھی ایک سوال ہے کہ صدیقین اور شہداء تو ایمان کے بلند درجے پر فائز لوگ ہوتے ہیں ، جب کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والے سب لوگوں کو صدیقین اور شہداء کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانے والوں سے مراد یہاں اس ایمان میں کامل لوگ ہیں ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ آیت (٧) (امنوا باللہ ورسولہ) میں ایمان والوں کو ایمان کامل لانے کا حکم ہے ، یعنی اللہ اور اس کے رسولوں پر کامل ایمان رکھنے والے ہی صدیقین اور شہداء ہیں ۔” اولیک ھم الصدیقون “ میں حصر کا مفہوم ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیقین اور شہداء کے لیے جو درجے ہیں وہ ہر مدعی ایمان کو حاصل نہیں ہوجائیں گے ، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں پر سچا اور پکا ایمان لائیں گے ۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ کمال ایمان کے کئی مراتب ہیں ، جیسا کہ صدیقیت و شہادت کے کئی مراتب ہیں ، اگرچہ سب پر صدیق یا شہید کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جابر بن عتبک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( الشھادۃ سبع سوی القتل فی سبیل اللہ المطعون شھید ، والغریق شھید ، وصاحب ذات الجنب شھید ، والمبطون شھید ، وصاحب الحریق شھید ، والذی یموت تحت الھدم شھید ، والمراۃ تموت بجمع شھیدۃ) (مستدرک حاکم ، ١، ٣٥٢، ح : ١٣٠٠، وصححہ الالبانی فی صحیح الجامع : ٣٧٣٩)” اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں ، طاعون سے مرنے والا شہید ہے اور غرق ہونے والا شہید ہے اور ذات الجنب والا شہید ہے اور پیٹ کی تکلیف سے مرنے والا شہید ہے اور آگ سے مرنے والا شہید ہے اور گرنے والی دیوار وغیرہ کے نیچے آکر مرنے والا شہید ہے اور ولایت کے وقت مرنے والی عورت شہید ہے۔ “ ظاہر ہے کہ حدیث میں مذکور سب لوگ شہید ہیں ، مگر اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کا د رجہ سب سے بلند ہے۔ ٢۔ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ ط : یعنی صدیقیت یا شہادت کے مراتب کے مطابق اجر اور نور اہل ایمان ہی کا حصہ ہے ، کفار یا منافقین کا نہیں۔ ٣۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَآ ۔۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ جہنم میں ہمیشہ وہی لوگ رہیں گے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا اور ان کی تکذیب کی ، کیونکہ ” اصحب الجحیم “ ( بھڑکتی آگ کے ساتھ اور اس میں رہنے والے) وہی ہیں ، گناہ گار مومن جہنم میں گئے بھی تو ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے ، اس لیے وہ ” اصحب الجحیم “ نہیں ہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Is every Believer a &Siddiq& and a &Shahid&? |" وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَ‌بِّهِمْ |"And those who believed in Allah and His messengers, it is they who are the siddiqs [ the most righteous ] and the shuhada& (martyrs) in the sight of your Lord. ...57:19) This verse indicates that every &believer& is a &Siddiq& and a &Shahid&. On the basis of this verse Qatadah and &Amr Ibn Maimun maintain that anyone who believes in Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is a &Siddiq& and a &Shahid&. Ibn Jarir reports that Sayyidna Bara& Ibn ` Azib (رض) narrates that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: مَؤمِنُوا اُمَّتِی شُھَدَآُء |"The believers of my Ummah are all Shahids (martyrs).|" In support of this, he recited the current verse. Ibn Abi Hatim reports that Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrates that one day some of the Companions (رض) had gathered around him, and he stated کُلُّکُم صِدِّیقُ وَّ شَھِیدُ Each one of you is a &Siddiq& and a &Shahid&. This startled them and they exclaimed: |"What are you saying, Abu Hurairah?|" He replied: |"If you do not believe me, then read the present verse [ 19] وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ. However, another verse of the Qur&an seems to be against this concept. It is the verse [ 4:69]: فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ (And those who obey Allah and the Messenger are with those whom Allah has blessed, namely, the Prophets, the Siddiqin, the Shuhada& and the righteous...) This indicates that not every believer is a &Siddiq& and a &Shahid& because in addition to the Prophets, the general body of Muslims comprise three categories of believers who are specially mentioned: [ 1] the Siddiqin; [ 2] the Shuhada ; and [ 3] the righteous. It would appear that the three categories are distinctly different. Otherwise, there would have been no need to mention them separately. Therefore, some scholars believe that the &Siddiqin& and the &Shuhada& in fact constitute the highest and most sublime categories bearing the supreme attributes. Here all believers are referred to as &Siddiq& and &Shahid& in the sense that every believer is in some degree included in the group of &Siddiqin& and &Shuhada&. Ruh-ul-Ma’ ani states that it is appropriate to believe that the verse under comment refers to people who have perfect faith and perform deeds of righteousness. Otherwise, people who are believers but indulge in deeds that are not in keeping with the dictates of their faith can hardly be called &Siddiq& or &Shahid&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: اَللَّعَّانُونَ لَا یَکُونُونَ شُھَدَاَء (The cursers cannot be &Shuhada|".|" This Tradition supports the notion. Sayyidna ` Umar Al-Faruq (رض) once said to the people: |"What is the matter with you? You see someone defaming people, you neither stop him nor do you raise your eyebrows about it! They replied: &We are afraid of his violent tongue. If we tell him something, he will also attack our honour.& Sayyidna ` Umar (رض) made a rejoinder &if that is the case, then you cannot be &Shuhada|"&. Ibn Athir cited this narration and said: &This means that such coward people will not be among the &Shuhada& who will bear witness against the communities of the previous Prophets.& [ Ruh-ul-Ma’ ani ]. Mazhari states that the word الَّذِينَ آمَنُوا &believers& in verse [ 19] refers only to the Companions (رض) of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who reposed their faith in Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، saw him and had the pleasure of his company. As such, the restrictive phrase, هُمُ الصِّدِّيقُونَ &it is they who are the Siddiqs..& in Verse [ 19] indicate that the status of Siddiq is limited or restricted to the noble Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Mujaddid Alf Thani states that all the noble Companions (رض) had a share in the noble qualities of prophet-hood. Any Companion who saw him in a state of faith even for a short time is absorbed and drowned in such qualities of perfection. Allah, the Pure and Exalted, knows best!

کیا ہر مومن صدیق و شہید ہے ؟ (آیت) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ڰ وَالشُّهَدَا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ صدیق و شہید ہر مومن کو کہا جاسکتا ہے اور حضرت قتادہ اور عمرو بن میمون نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہ صدیق و شہید ہے۔ ابن جریر نے حضرت براء بن عازب سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومنوا امتی شھدآء، یعنی میری امت کے سب مومن شہید ہیں اور اس کی دلیل میں آپ نے آیت مذکورہ تلاوت فرمائی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک روز ان کے پاس کچھ حضرات صحابہ جمع تھے، انہوں نے فرمایا کلکم صدیق و شھید، یعنی تم میں سے ہر ایک صدیق بھی ہے شہید بھی، لوگوں نے تعجب سے کہا کہ ابوہریرہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟.... تو حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ میری بات کا یقین نہیں آتا تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو :۔ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ڰ وَالشُّهَدَا۔ لیکن قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے بظاہر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ صدیق و شہید ہر مومن نہیں بلکہ مومنین میں سے ایک اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کو صدیق و شہید کہا جاتا ہے، آیت یہ ہے :۔ (آیت) فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھد آء والصالحین، کیونکہ اس آیت میں انبیاء کے ساتھ عام مومنین میں تین طبقے خصوصیت سے ذکر کئے گئے ہیں، صدیقین، شہداء اور صالحین اور ظاہر اس سے یہ ہے کہ ان تینوں کے مفہوم اور مصداق میں فرق ہے، ورنہ تینوں کو الگ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی، اسی لئے بعض حضرات نے فرمایا کہ صدیقین و شہداء تو دراصل مومنین کے مخصوص اعلیٰ طبقات کے لوگ ہیں، جو بڑی صفات عالیہ کے حامل ہیں، یہاں سب مومنین کو صدیق و شہید فرمانے کا حاصل یہ ہے کہ ہر مومن بھی ایک حیثیت سے صدیقین و شہداء کے حکم میں ہے اور ان کے زمرہ میں لاحق سمجھا جائے گا۔ اور روح المعانی میں ہے کہ مناسب یہ ہے کہ اس آیت میں الذین امنوا سے مراد وہ مومن لئے جاویں جو ایمان کامل رکھتے ہیں اور اطاعات کے پابند ہیں، ورنہ وہ مومن جو شہوات اور غفلت میں منہمک ہو اس کو صدیق و شہید نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللعانون لایکونون شھدآء، یعنی لوگوں پر لعنت کرنے والے شہداء میں شامل نہ ہوں گے اور حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا کہ ” تمہیں کیا ہوگیا کہ تم دیکھتے ہو کہ کوئی آدمی لوگوں کی عزت و آبرو کو مجروح کرتا ہے اور تم اس کو نہ روکتے ہو، نہ کوئی برا مانتے ہو، ان حضرات نے عرض کیا کہ ہم اس کی بدزبانی سے ڈرتے ہیں کہ ہم کچھ بولیں گے تو وہ ہماری بھی عزت و آبرو پر حملہ کرے گا، حضرت فاروق اعظم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو تم لوگ شہداء نہیں ہو سکتے “ ابن اثیر نے یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بتلایا کہ ایسی مداہنت کرنے والے ان شہداء میں شامل نہیں ہوں گے جو قیامت کے روز انبیاء سابقین کی امتوں کے مقابلہ میں شہادت دیں گے (روح المعانی ) تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت میں الذین امنوا سے مراد صرف وہ حضرات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایمان لائے اور آپ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ اور آیت میں لفظ ہم الصدیقون جو کلمہ حصر ہے یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدیقیت صحابہ کرام میں منحصر ہے، حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا کہ صحابہ کرام سب کے سب کمالات نبوت کے حامل تھے، جس شخص نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایمان کے ساتھ دیکھ لیا، وہ کمالات نبوت میں مستغرق ہوگیا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۝ ٠ ۤ ۖ وَالشُّہَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۭ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝ ١٩ ۧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

آیا ہر مومن شہیدہوتا ہے ؟ قول باری ہے (والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھدآء عند ربھم، اور جو لوگ اللہ اور رسولوں پر (پورا) ایمان رکھتے ہیں وہی اپنے پروردگار کے ہاں صدیق اور شہید ہیں) ۔ اس آیت کی بنا پر حضرت براء بن عازب (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ ” ہر مومن شہید ہے۔ “ اس صورت میں قول باری (والشھدآء ) ان مومنین کی صفت ہے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت عبداللہ (رض) اور مجاہد کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مسروق، ابو الضحیٰ اور ضحاک کا قول ہے کہ یہاں سے کلام کی ابتداء ہوئی ہے اور اس کی خبر یہ قول باری ہے (لھم اجرھم و نورھم ان کے لئے ان کا (خاص) اجر ہوگا اور ان کا (خاص) نور ہوگا) ۔ جو شخص کسی عبادت کو شروع کرلے اس پر اس کا اتمام واجب ہوجاتا ہے

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تمام امتوں میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں اور شہید ہیں ان کے لیے ان کا اجر خاص اور پل صراط پر نور ہوگا اور کہا گیا ہے کہ والشھداء یہ مستقل کلام ہے پہلی آیت سے اس کا تعلق نہیں مطلب یہ کہ جو لوگ اپنی قوم کے خلاف انبیاء کرام کی موافقت میں گواہی دیں گے یا یہ کہ اس سے انبیاء کرام مراد ہیں جو اپنی قوم کی تبلیغ رسالت کے بارے میں گواہی دیں گے یا یہ کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ان کو انبیاء کرام کی طرح ثواب ملے گا اور پل صراط پر چلنے کے لیے نور عطا کیا جائے گا اور جو لوگ کافر ہوئے اور کتاب و رسول کو انہوں نے جھٹلایا یہی جہنمی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَآئُ عِنْدَ رَبِّھِمْ } ” اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر وہی ہیں صدیق اور شہداء اپنے رب کے پاس۔ “ یعنی وہ لوگ جو صدقات کے ذریعے اور اللہ کو قرض حسنہ دے کر اپنے دلوں سے مال کی محبت اور اس کی نجاست کو دھو ڈالتے ہیں ‘ وہ جب ایمانِ حقیقی سے سرشار ہوتے ہیں تو اب ان کے لیے مقام صدیقیت اور مرتبہ ٔ شہادت تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ سے اگر دل کی گاڑی کی بریک کھل گئی اور یہ گاڑی ایمانِ حقیقی کے راستے پر رواں دواں ہوگئی تو پھر اہل ایمان میں سے ہر کوئی اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق اس راستے کی منازل طے کرنے کے قابل ہوجائے گا ۔ سیاقِ مضمون کے اعتبار سے اس آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم نے انفاقِ مال کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت سے اپنے دل کو آباد کرلیا تو ایمانِ حقیقی تمہارے دلوں میں راسخ ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے بعد تم اپنی اپنی کوششوں اور اپنی اپنی طبائع کے مطابق ترقی کرتے چلے جائو گے۔ ترقی کے اس راستے میں تم میں سے بعض لوگ شہادت کے مقام پر بھی فائز ہوسکتے ہیں اور بعض صدیقیت کا مرتبہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ وہی اعلیٰ مراتب ہیں جن کا ذکر سورة النساء کی اس آیت میں ہوا ہے : { وَمَنْ یُّطِـعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ۔ } ” اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہوگی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین ‘ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے ! “ چنانچہ تم ہمت کرو ‘ اپنے اپنے دل کی گاڑی کی بریک کھولو ‘ ایمان کا ایکسلریٹر (accelerator) دبائو اور اللہ کے راستے پر نکل پڑو۔ اس ایکسلریٹر کو تم جتنا بڑھاتے چلے جائو گے اسی نسبت سے تمہاری منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ (انسانی مزاج اور طبائع کے اعتبار سے مقام صدیقیت اور مقام شہادت کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو سورة مریم کی آیت ٤١ کی تشریح۔ ) { لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْ } ” ان کے لیے ہوگا ان کا اجر اور ان کا نور۔ “ انہیں اللہ کے ہاں سے اجر بھی ملے گا اور نور بھی۔ نور تو میدانِ حشر میں پل صراط سے گزرنے کے لیے ملے گا ‘ جبکہ اجر جنت میں داخلے اور اس میں درجات کی بلندی کے لیے ملے گا۔ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ۔ } ” اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 Here, the believers imply those people of true faith whose attitude and conduct was absolutely different from that of the people of weak faith and the false claimants to Islam, and who were at that time vying with one another in making monetary sacrifices and were struggling with their lives in the cause of the true Faith. 33 Siddiq (most truthful) is the superlative from sidq; however, one should clearly understand that sidq Is not merely a statement conforming to the truth, but a statement which is not only true in itself but its Bayer also upholds it as a truth sincerely. For instance, if a person says that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) is Allah's Messenger, this is by itself precisely according to 'the truth for the Holy Prophet is truly Allah's Messenger, but the person would be true in his statement only if he also believed and upheld him as Allah's Messenger. Therefore, a thing would be sidq if what was said was in conformity with the truth as well as with the Bayer's own conscience. Likewise, sidq also contains the sense of faithfulness, sincerity and practical righteousness. Sadiq-ul-wa d would be the person who kept his promise practically, who never broke it. Sadiq (true friend) would be he who did full justice to friendship in the time of need, and who never proved faithless to any, body in any way. In war, sadiq fil-qital (true soldier) would be the one who fought with all his heart and body and established his valour practically. Thus, sidq in essence implies that one's deed should fully conform to one's word. The one who acts contrary to his word cannot be Sadiq. On that very basis, the one who preaches one thing and acts contrary to it, is regarded as a false preacher. With this meaning of sidq and sadiq in view one can fully appreciate the meaning of the superlative sadiq. It would inevitably imply a righteous person who is free from every impurity, who has never swerved from the truth and piety, who could never be expected to say anything against his conscience. who believed in whatever he believed with full sincerity and remained faithful to it under all circumstances, and who has practically proved that he is a true believer in the full sense of the word. (For further explanation, see E.N. 99 of An-Nisa). 34 The early commentators have differed about the explanation of this verse. Ibn 'Abbas, Masruq, Dahhak, Muqatil bin Hayyan and others say that the previous sentence ended with humsssiddiqun; and wash-shuhada'-u `inda Rabbihim la-hum ajru-hum wa nuru-hum is a separate and independent sentence According to this explanation, the translation of the sentence would be: "Those who have believed in Allah and His Messenger, are indeed the most truthful (as siddiqun); as for the true witnesses (ash-shuhada ), they will have their reward and their light from their Lord. " Contrary to this, Mujahid and several other commentators regard this whole expression as one sentence. According to them the translation would be that which we have given in the text above. The two commentaries differ because the first group has taken the word Shahid in the meaning of the martyr in the way of Allah. and seeing that every believer is not a shahid in this sense, has taken wash-shuhada'-u `inda Rabbi-him as a separate sentence. But the other group takes shahid in the meaning of the witness of the Truth, and not in the sense of the martyr, and in this sense every believer is a shahid. We are of the opinion that this second commentary is preferable and this is "Thus have We made you a community of the 'Golden Mean' so that you may be witnesses in regard to mankind and the Messenger may be a witness in regard to you." (AI-Baqarah; 143). "AIIah had called you "Muslims" before this ant has called you (by the same name) in this (Qur'an) also so that the Messenger may be a witness in regard to you and you may be witnesses in regard to the rest of mankind." (Al-Hajj: 78) In a Hadith, Hadrat Bara' bin 'Azib has related that he heard the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) say: °The believers of my Ummah are shahid (the witnesses); then he recited this very verse of Surah AI-Hadid. " (Ibn Jarir). Ibn Marduyah has related on the authority of Hadrat Abu ad-Darda' the tradition that the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) said: "The one who emigrates from a land in order to save his life and his faith from temptation, is recorded as a Siddiq (most truthful), and when he dies, AIIah takes his soul as a shahid (true witness). Then aftar this, the Holy Prophet recited this very verse. " (For 'the explanation of this meaning of shahadat, see E:N. 144 of AI-Baqarah, E.N 99 of An-Nisa', E.N. 82 of Al-Ahzab). 35 That is, "Each one of them will receive the reward and the light of the measure and degree he deserves. They will all get their own respective rewards and lights, and their shares have already been reserved for them,"

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :32 یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الایمان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا ۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :33 یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا ، اور صدیق نہایت سچا ۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے ضمیر کے ساتھ بھی ۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد ( وعدے کا سچا ) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو ۔ صدیق ( سچا دوست ) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی کا تجربہ نہ ہوا ہو ۔ جنگ میں صادق فی القتال ( سچا سپاہی ) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو ۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو ۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا ۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو ، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو ، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا ۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو ، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی الواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء ، حاشیہ 99 ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :34 اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن عباس ، مسروق ، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا ۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِ رَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ، اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً ۔ ( البقرہ ۔ 143 ) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ ( الحج ۔ 87 ) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی ( تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ۔ حدیث میں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء ، میری امت کے مومن شہید ہیں ، پھر حضور نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی ( ابن جریر ) ۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من فر بدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہ و دینہ کتب عند اللہ صدیقا فاذا مات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ ۔ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سر زمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ، پھر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضور نے یہی آیت پڑھی ( شھادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144 ۔ النساء حاشیہ 99 ۔ جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 82 ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :35 یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا ۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: صدیق کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنے قول وفعل کا سچا ہو اور یہ انبیائے کرام کے بعد پرہیزگاری کا سب سے اونچا درجہ ہے، جیسا کہ سورۂ نساء (٤: ٧٠) میں گزرا ہے، اور شہید کے لفظی معنی تو گواہ کے ہیں، اور قیامت میں امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کے پرہیزگار افراد پچھلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے حق میں گواہی دیں گے جیسا کہ سورۂ بقرۃ (١٤٣) میں گزرا ہے، نیز شہیداُن حضرات کو بھی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی پیش کریں، یہاں یہ بات منافقوں کے مقابلے میں فرمائی جارہی ہے کہ صرف زبان سے ایمان کا دعوی کرکے کوئی شخص صدیق اور شہید کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا ؛ بلکہ وہی لوگ یہ درجہ حاصل کرسکتے ہیں جو دل سے سچا اور پکا ایمان لائے ہوں، یہاں تک کہ اس ایمان کے آثار ان کی عملی زندگی میں پوری طرح ظاہر ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(57:19) والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ہم الصدیقون۔ والشھداء عند ربھم۔ لہم اجرھم ونورھم ۔۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان (کے اعمال) کا صلہ ہوگا۔ اور ان (کے ایمان) کی روشنی ۔ (فتح محمد جالندھری) صدق (باب نصر) سے مصدر ہے جس کے معنی لغت میں سچ کہنے اور سچ کر دکھانے کے ہیں۔ صدیق صدق سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت سچا۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ صدیق وہ ہے جس سے کثرت سے صدق ظاہر ہو اور وہ کبھی جھوٹ نہ بولے بعض نے کہا ہے کہ جس سے سچائی کی عادت ڈالنے کے سبب جھوٹ بن ہی نہ آتا ہو۔ الشھداء شھید کی جمع ہے۔ شھید کے معنی ہیں :۔ (1) موجود، حاضر۔ شاہد۔ نگہبان۔ (2) اللہ کی راہ میں جان دینے والا۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا مودودی رقمطراز ہیں :۔ اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے :۔ ابن عباس (رض) مسروق۔ ضحاک، مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ :۔ اولئک ہم الصدیقون پر ایک جملہ ختم ہوگیا ہے اس کے بعد والشھداء سے ایک الگ مستقل جملہ ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ ہوگا کہ :۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں اور شہداء کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔ نخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں۔ اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہوگا اوپر ہم نے متن میں کیا ہے (مولانا جالندھری کا ترجمہ تقریباً وہی ہے جو مودودی صاحب کا ہے) ۔ دونوں تفسیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا۔ انہوں نے والشھداء عند ربھم کو ایک الگ جملہ قرار دیا ہے۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ (1) وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا (2:143) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ (2) ھو سمکم المسلمین۔ من قبل وفی ھذا لیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونوا شھداء علی الناس (22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ (1) حدیث میں حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے یہ فرماتے سنا : مؤمنوا متی شھداء میری امت کے مومن شہید ہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة الحدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر) (2) ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابو الدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ من فربدینہ من ارض مخافۃ الفتنۃ علی نفسہ ودینہ کتب عند اللہ صدیقا فاذا مات قبضہ اللہ شھیدا۔ ثم تلامذہ الایۃ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کیلئے کسی سرزمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ شہیدوں کی حیثیت سے اس کی روح کو قبض فرماتا ہے۔ یہ بات فرمانے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت مبارکہ پڑھی۔ اولئک اصحب الجحیم : وہی صاحب دوزخ ہیں َ وہی دوزخی ہیں۔ جملہ کی ترکیب حصر پر دلالت کر رہی ہے اور صاحب الجحیم ہونا بتارہا ہے کہ دوزخ سے وہ جدا نہیں ہوں گے اس لئے اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہی ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی انہیں صدیقین اور شہداء کا متربہ نصیب ہوگا۔ حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : میری امت کے اہل ایمان شہید ہیں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر) حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن مرہ جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاض رہو کر عرض کیا ’ د اے اللہ کے رسول اگر میں توحید و رسالت کی شہادت دوں پانچوں نمازیں ادا کرتا رہوں۔ زکوۃ دیتا رہوں، رمضان کے روزے رکھوں اور راتوں کو عبادت کروں تو میں کیا ہوں گا ؟ فرمایا : تم صدیقین اور شہداء میں سے ہوں گے۔ (شوکانی)4 یعنی انہیں صدیقین اور شہداء کا ثواب اور نور ملے گا یا انہیں اپنے ایمان اور عمل کے مطابق ثواب اور نور ملے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی یہ مراتب کمال ایمان کامل ہی کی بدولت نصیب ہوتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ سے اجرِکریم پانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی طور پر ایمان لائیں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ اپنے رب کے ہاں سچے اور سچ کی گواہی دینے والے شمار ہوں گے۔ ان کو اجرِکریم ملنے کے ساتھ ایک روشنی نصیب ہوگی اور جو لوگ کفر کریں اور اپنے رب کے ارشادات کی تکذیب کریں گے وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمان میں ایمان لانے والوں کو صدیق اور شہید کا لقب عطا کرنے کے ساتھ اجر اور نور کی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ صدیق کا معنٰی : صدیق سے مراد ایسا شخص جو ہر حال میں سچ بولنے والا، سچ پر قائم رہنے والا اور سچ کے لیے ہر چیز قربان کردینے والا ہو، امت میں اس مقام پر سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) فائز ہوئے باقی لوگ درجہ بدرجہ اس مقام کے حامل ہوں گے۔ شہید کا معنٰی اور مقام : شہید ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو دل کی سچائی کے ساتھ اسلام میں داخل ہو اور دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہے۔ میدان کارزار میں کٹ مرنے والے کو بھی شہید کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے خون جگر سے حق کی گواہی دیتا ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کے کئی درجے ذکر فرمائے اور کئی قسم کے لوگوں کو شہداء میں شامل فرمایا ہے۔ امام رازی نے سورة آل عمران آیت ١٨ سے استدلال کیا ہے کہ عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بھی شہداء میں شمار ہوں گے۔ ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔ “ (رواہ الترمذی : بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، حدیث صحیح) (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ ) (صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء) ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِےْتَۃَ السَّوْءِ ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَۃِ ، قال ابو عیسیٰ حدیث حسن غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں اپنی طرف سے اجر دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ صدقہ کرنے سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی مشکلات سے نجات ملتی ہے۔ آخرت میں اسے اجرِعظیم کے ساتھ ایک نور عطا کیا جائے گا جس کی روشنی میں چل کر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو ” اللہ “ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کیے وہ ” اللہ “ کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ٢۔ صدیقین اور شہداء کے لیے بہترین اجر ہوگا۔ ٣۔ صدیقین اور شہداء کے لیے محشر کے میدان میں ہر جانب روشنی ہوگی۔ ٤۔ ” اللہ “ کی آیات کا انکار اور ان کی تکذیب کرنے والے جہنم میں داخل ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن صدیقین اور شہداء کا انجام اور مقام : ١۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) (الحشر : ٨) (الاحزاب : ٢٤) (المائدۃ : ١١٩) (الحجرات : ١٥) (البقرۃ : ١٥٤) (آل عمران : ١٦٩) (آل عمران : ١٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین .................... الجحیم (٧٥ : ٩١) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں “۔ کون ہے جو اس اعزاز اور اس مرتبے کو چھوڑ سکتا ہے اور یہ سند کرسکتا ہے کہ وہ جہنم والوں میں سے ہوججائے۔ اب ایک تیسری چٹکی بھری جاتی ہے۔ یہ دعوت ایمان اور دعوت انفاق اور دعوت شہادت کے بعد ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ ان مقامات بلند سے اگر کوئی چیز روک سکتی ہے تو وہ حب الدنیا ہے جبکہ دنیا نہایت حقیر ، نہایت معمولی اور نہایت ہلکی چیز ہے۔ اور اس کے مقابلے میں آخرت بہت قیمتی ہے ۔ ایک بہترین تمثیل !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صدیقین کون ہیں ؟ پھر فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۠﴾ (اور جو لوگ اللہ پر اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے یہ لوگ صدیق ہیں) یعنی بہت زیادہ سچائی اختیار کرنے والے ہیں جو پکی تصدیق ہو جس میں ذرا سا بھی شائبہ شک اور تردد کانہ ہو وہ ایمان حقیقی ہے۔ پھر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قول و فعل میں صدق یعنی سچائی کا دھیان رہے اردو میں تو لفظ سچ اور سچائی عرف عام کے اعتبار سے صرف اقوال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن عربی محاورات میں لفظ صدق اقوال اور افعال دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جھوٹ بھی اقوال اور اعمال دونوں میں مستعمل ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول للہ ! میری ایک سوکن ہے اگر میں جھوٹ موٹ (اسے جلانے کے لیے) یوں کہہ دوں کہ شوہر نے مجھے یہ کچھ دیا ہے اور حقیقت میں نہ دیا ہو تو کیا اس میں کچھ گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ : المتشبع بمالم یعط کلابس ثوبی زور کہ جس شخص نے جھوٹ موٹ یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ چیز دی گئی ہے حالانکہ وہ اسے نہیں دی گئی اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے (یعنی سر سے پاؤں تک وہ جھوٹا ہی جھوٹا ہوگیا) اس حدیث کا مفہوم بہت عام ہے ہر قسم کے جھوٹے دعوے داروں کو شامل ہے دعویٰ قولی ہو یا فعلی، علمی ہو یا عملی ﴿ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ١ؕ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْ ١ؕ﴾ (اور جو شہداء ہیں ان کیلئے ان کا اجر ہے اور ان کا نور ہے) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ جملہ مستانفہ ہو اور اگر ماسبق پر معطوف مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ صدیقین اور شہداء اپنے رب کے پاس یعنی اس کے حکم اور علم میں صدیق اور شہید ہیں اور ان کے لیے اس کا اجر ہے اور ان کا نور ہے۔ (معالم التنزیل صفحہ ٢٩٨: ج ٤) معنی کے اعتبار سے آیت کے عموم الفاظ میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یعنی یہ لوگ صدیق ہیں اور شہداء ہیں۔ روح المعانی میں ابن ابی حاتم سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ایک دن اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ تم سب صدیق ہو اور شہید ہو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ اے ابوہریرہ ! آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ فرمایا کہ آیت کر یہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ ﴾ (آخر تک پڑھ لو) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ سے وہ لوگ مراد لیے جائیں جو کمال ایمان سے متصف ہوں اور یہ اس وقت متحقق ہوگا جب کوئی شخص ایسی طاعات میں لگے جو کمال ایمان والی طاعات ہوں کیونکہ جو شخص مومن ہوتے ہوئے شہوات میں منہمک ہو اور طاعات سے غافل ہو اسے صدیق اور شہید قرار دینا بعید معلوم ہوتا ہے۔ سورة نساء کی آیت کریمہ ﴿وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ٠٠٦٩﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقین اور شہداء اور صالحین بڑے مرتبہ کے لوگ ہیں عام طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کو ان حضرات کے ساتھ ہونے کا شرف ملے گا جو ان کے اچھے رفیق ہوں گے دونوں آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ یوں تو ہر مومن صدیق اور شہید ہے لیکن بہت سے حضرات کو ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے بڑے درجات حاصل ہوں گے اور بہت سے دوسرے اہل ایمان کو بھی ان کی معیت حاصل ہوجانے کے مواقع عطا کیے جائیں گے گودرجات میں فرق مراتب بہت زیادہ ہوگا لیکن باوجود باہمی ملاقاتوں اور زیارتوں کے جن کی تصدیق ایمانی بڑے درجہ کے کمال کی پہنچی ہوئی ہو ان کو خصوصی طور پر صدیق کہا گیا ہے یہ بلند رتبہ کے حضرات ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدیق کا لقب دیا جب اسلام کی دعوت سامنے آئی تو انہوں نے فوراً لبیک کہا اور آخری دن تک نہایت اخلاص کے ساتھ اپنی جان و مال سے آپ کی خدمت میں حاضر رہے حتیٰ کہ ایک مرتبہ جب آپ نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو سارا ہی مال لاکر خدمت عالی میں حاضر کردیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد پہاڑ پر چڑھ گئے، آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر عثمان (رض) بھی تھے۔ پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپ نے اس پر قدم مبارک مار کر فرمایا کہ اے احد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ہے اور ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ( یعنی حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) ۔ (رواہ البخاری) اس میں حضرت ابوبکر (رض) کو صدیق فرمایا اور باقی دو حضرات کے شہید ہونے کی پیشین گوئی فرمائی بڑے درجہ کے مومنین صالحین کو صدیقین کی معیت نصیب ہوگی اس بارے میں بعض خصوصی اعمال کا تذکرہ بھی حدیث شریف میں مذکور ہے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سچا امانت دار تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (رواہ الترمذی فی البیوع) سورة مریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں ﴿ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ٠٠٤١﴾ فرمایا ہے اور سورة المائدہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو صدیقہ بتایا ہے ﴿ وَ اُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ ﴾ معلوم ہوا ہے کہ صدیقیت میں فرق مراتب ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تھے ان پر ایمان لانے والے بھی صدیق تھے (اور ان میں فرق مراتب تھا) اور عامۃ المسلمین بھی صدیق ہیں کیونکہ کمال تصدیق کے بغیر کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ سورة نساء کی آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کے لیے صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہونے کی جو خوشخبری دی ہے اس سے اونچے درجے کے صدیقین اور شہداء اور صالحین مراد ہیں۔ شہداء سے کون حضرات مراد ہیں ؟ یہاں سورة الحدید میں شہداء سے کون لوگ مراد ہیں اس کے بارے میں دو قول ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان سے جہاد اور قتال کے موقع پر شہید ہونے والے مراد ہیں ان کے بڑے اور بلند درجات ہونے کو سبھی جانتے ہیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ شہداء سے بمعنی شاہدین یعنی گواہی دینے والے مراد ہیں قیامت کے دن بہت سی گواہیاں ہوں گی ہر نبی اپنی امت کے بارے میں گواہی دے گا سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت انبیائے کرام کے بارے میں گواہی دیں گے کہ واقعی انہوں نے تبلیغ کی تھی اور امت محمدیہ بھی اس بات کی گواہی دے گی کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے تبلیغ کی اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں ان کی گواہی صحیح ہے اس کی تفصیل سورة بقرہ، سورة نساء اور سورة الحج میں گزر چکی ہے۔ ان گواہیوں کے علاوہ دوسری گواہیاں بھی ہوں گی اور گواہی دینے والوں کو اس فضیلت سے نوازا جائے گا کہ وہ میدان آخرت میں دوسرے لوگوں کے خلاف گواہ بن کر آئیں گے۔ جب اللہ نے اتنی بڑی فضیلت دی ہے کہ قیامت کے دن گواہی دینے والے بنیں گے تو اپنے اس مرتبہ کی لاج رکھیں اور ان چیزوں سے پرہیز کریں جو مقام شہادت سے محروم کرنے کا ذریعہ بنیں۔ حضرت ابو درداء (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ لعنت کی کثرت کرنے والے قیامت کے دن نہ شہداء ہوں گے نہ شفعاء ہوں گے (یعنی ان کو نہ گواہی دینے کا مرتبہ ملے گا نہ گنہگاروں کو بخشوانے کے لیے شفاعت کرنے کا مقام دیا جائے گا) دونوں چیزوں سے محروم رہیں گے۔ (رواہ مسلم صفحہ ٣٢٢: ج ٢) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ صدیق کے لیے لعان ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ (رواہ مسلم صفحہ ٦٢٢: ج ٢) یعنی صدیق کو اپنی زبان محفوظ رکھنی چاہیے تجھ مجھ پر انسانوں پر جانوروں، شاگردوں پر لعنت بھیجتا رہے یہ صدیق کا کام نہیں (بچوں کے بہت سے استاد اس میں مبتلا ہیں) قال البغوی فی معالم التنزیل اختلفوا فی نظم ھذہ الایة منھم من قال : ھی متصلة بما قبلھا والو او واؤ النسق، واراد بالشھداء المومنین المخلصین، وقال الضحاک : ھم الذین سمیناھم۔ وقال مجاھد : كل مومن صدیق وشھید، وتلا ھذہ الایة وقال قوم : تم الکلام عند قولہ : (ھم الصدیقون) ثم ابتدا فقال : والشھداء عند ربھم، والو اؤ واؤ الاستناف، وھو قول ابن عباس ومسروق وجماعة، ثم اختلفوا فیھم فقال قوم ھم الانبیاء الذین یشھدون علی الامم یوم القیامة، یروی ذلک عن ابن عباس وھو قول مقاتل بن حبان۔ وقال مقاتل بن سلیمان : ھم الذین استشھدوا فی سبیل اللہ (لھم اجرھم) بما عملوا من العمل الصالح (ونورھم) علی الصراط۔ آیت کے ختم پر فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ (رح) ٠٠١٩﴾ جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ لوگ دوزخ کے عذاب میں ہوں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔” والذین امنوا “ جو لوگ صدق دل سے اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور ان کے احکام کے آگے سر تسلیم ختم کردیا اور دین حق کی سربلندی اور توحید کی اشاعت کے لیے دل کھول کر مال خرچ کیا، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیقین اور شہداء کے رتبے میں ہوں گے اور آخرت میں ان کو وہی اجر وثواب اور نور عطاء ہوگا جو صدیقین اور شہداء کے لیے ہوگا۔ یرید ان المومنین باللہ ورسولہ ھم عند اللہ بمنزلۃ الصدیقین والشھداء وھم الذین سبقوا الی التصدیق واستشہدوا فی سبیل اللہ (مدارک ج 4 ص 171) ۔ چونکہ ایک شخص صدق دل سے ایمان لا کر، اللہ کی کمال اطاعت بجا لا کر اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کر کے صدیق اور شہید کا مرتبہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا ” ھم الصدیقون والشہداء “ لیکن کوئی شخص ایمان اور عمل صالح میں انتہائی اخلاص کے باوجود نبی نہیں بن سکتا۔ البتہ نبیوں کی معیت حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے سورة نساء رکوع 9 میں فرمایا : ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین۔ الایۃ “ 21:۔ ” والذین کفروا “ یہ کفار کے لیے تخویف اخروی ہے۔ توحید و رسالت اور دیگر ضروریات دین کا انکار کرنے والے اور اللہ کی آیتوں کو جھتلانے والے جہنم کا ایندھن ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں تو یہی لوگ اپنے پروردگار کے ہاں سچے اور گواہی دینے والے ہیں ان لوگوں کے لئے ان کا خاص اجر اور ان کا نور ہوگا اور جن لوگوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی تو یہی لوگ اہل جہنم ہیں۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر کامل ایمان رکھتے ہیں تو یہی لوگ اپنے پروردگار کے پاس سچے یعنی صدیق ہوں گے اور گواہی دینے والے یا شہید ہوں گے ان کو جنت میں ان کے خاص اجر سے نوازا جائے گا ان کے لئے عالم آخرت کی ہر تاریکی کے موقع پر ان کو روشنی اور نور میسر ہوگا۔ شہید کا ترجمہ بعض حضرات نے گواہ کیا ہے تب یہ مطلب ہوگا کہ قیامت کے دن لوگوں پر گواہی دینے والے ہوں گے اور انبیاء کی تائید کرنے والوں میں شامل ہوں گے اور بعض حضرات نے شہید کیا ہے تب یہ مطلب ہوگا کہ کمال ایمان کے باعث یہ صدیق بھی ہوں گے اور شہید بھی۔ جیسا کہ پانچویں پارے میں گزرچکا ہے ہم نے دونوں ہی باتیں ذکر کردی ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیقیت اور شہادت کا مرتبہ انہی کو میسر ہوگا جو کامل ایمان والے ہوں گے رہے کافر اور مکذبین بآبت اللہ اہل جہنم ہوں گے اب آگے دنیا کی بےثباتی کا اظہار ہے۔