Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 0

سورة المجادلة

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة نام : اس سورۃ کا نام المجادَلہ بھی ہے المجادِلہ بھی ۔ یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادِلک سے ماخوذ ہے ۔ چونکہ سورۃ کے آغاز میں ان خاتون کا ذکر آیا ہے جنہوں نے اپنے شوہر کے ظہار کا قضیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر کے بار بار اصرار کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی صورت بتائیں جس سے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اصرار کو لفظ مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے ، اس لیے یہی اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ۔ اس کو اگر مجادَلہ پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے بحث و تکرار اور مُجادِلہ پڑھا جائے تو معنی ہوں گے بحث و تکرار کرنے والی ۔ زمانۂ نزول : کسی روایت میں اس امر کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مجادلہ کا یہ واقعہ کب پیش آیا تھا ۔ مگر ایک علامت اس سورہ کے مضمون میں ایسی ہے جس کی بنا پر یہ بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا زمانہ غزوۂ احزاب ( شوال ۵ ھ ) کے بعد کا ہے ۔ سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے حقیقی بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ اشارہ فرما کر چھوڑ دیا تھا کہ وَمَا جَعلَ اَزْوَاجَکُمُ الّیٰٔ تظٰھِرون منھنّ امّھتکم ( اور اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظِہار کرتے ہو تمہاری مائیں نہیں بنا دیا ہے ) ۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ظِہار کرنا کوئی گناہ یا جرم ہے ، اور یہ بتایا گیا تھا کہ اس فعل کا شرعی حکم کیا ہے ۔ بخلاف اس کے اس سورہ میں ظِہار کا پورا قانون بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفصل احکام اس مجمل ہدایت کے بعد نازل ہوئے ہیں ۔ موضوع اور مباحث : اس سورۃ میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایت دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے ۔ آغاز سورۃ سے آیت ٦ تک ظِہار کے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں ، اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو پوری سختی کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طریقوں پر قائم رہنا اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو توڑنا ، یا ان کی پابندی سے انکار کرنا ، یا ان کے مقابلہ میں خود اپنی مرضی سے کچھ اور قاعدے اور قوانین بنا لینا ، قطعی طور پر ایمان کے منافی حرکت ہے ، جس کی سزا دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں بھی اس پر سخت باز پرس ہونی ہے ۔ آیات ۷ تا ۱۰ میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگرمیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے ، اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی بنا پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سے سلام کرتے تھے جس سے دعا کے بجائے بددعا کا پہلو نکلتا تھا ۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہو ۔ اور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے ، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں بھی تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیئے ۔ آیت ۱۱ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے اور آج بھی پائے جاتے ہیں کہ کسی مجلس میں اگر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے اصحاب اتنی سی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ذرا سمٹ کر بیٹھ جائیں اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کر دیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں ، یا دہلیز میں بیٹھنے پر مجور ہوتے ہیں ، یا واپس چلے جاتے ہیں ، یا یہ دیکھ کر کہ مجلس میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے ، حاضرین کے اوپر سے پھاندتے ہوئے اندر گھستے ہیں ۔ یہ صورتِ حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں اکثر پیش آتی رہتی تھی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ اپنی مجلسوں میں خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا کریں بلکہ بعد کے آنے والوں کو کھلے دل سے جگہ دے دیا کریں ۔ اسی طرح ایک عیب لوگوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں ( خصوصاً کسی اہم شخصیت کے ہاں ) جاتے ہیں تو جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتے کہ ضرورت سے زیادہ اس کا وقت لینا اس کے لیے باعث زحمت ہو گا ۔ اگر وہ کہے کہ حضرت اب تشریف لے جائیے تو برا مانتے ہیں ۔ ان کو چھوڑ کر اٹھ جائے تو بد اخلاقی کی شکایت کرتے ہیں ۔ اشارے کنایے سے ان کو بتائے کہ اب کچھ دوسرے ضروری کاموں کے لیے اس کو وقت ملنا چاہئے تو سنی ان سنی کر جاتے ہیں ۔ لوگوں کے اس طرز عمل سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سابقہ پیش آتا تھا اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کے شوق میں اللہ کے بندے اس بات کا لحاظ نہیں کرتے تھے کہ وہ بہت زیادہ قیمتی کاموں کا نقصان کر رہے ہیں ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ تکلیف دہ عادت چھڑانے کے لیے حکم دیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کے لیے کہا جائے تو اٹھ جایا کرو ۔ ایک اور عیب لوگوں میں یہ بھی تھا کہ ایک ایک آدمی آ کر خواہ مخواہ حضور سے تخلیہ میں بات کرنے کی خواہش کرتا تھا یا مجلس عام میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کے قریب جا کر سرگوشی کے انداز میں آپ سے بات کرے ۔ یہ چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی تکلیف دہ تھی اور دوسرے لوگ جو مجلس میں موجود ہوتے ، ان کو بھی ناگوار ہوتی تھی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو شخص بھی آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اس بری عادت پر متنبہ کیا جائے تاکہ وہ اسے چھوڑ دیں ۔ چنانچہ یہ پابندی بس تھوڑی دیر تک باقی رکھی گئی اور جب لوگوں نے اپنا طرز عمل درست کر لیا تو اسے منسوخ کر دیا گیا ۔ آیت ۱٤ سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے ، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے ۔ ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں ، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں ، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں ، اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے ۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی اور کا لحاظ تو درکنا ، خود اپنے باپ ، بھائی ، اور اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے ۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں ، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں ، اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے ۔ وہی سچے مومن ہیں ۔ ان ہی سے اللہ راضی ہے ۔ فلاح وہی پانے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ المجادلۃ اس سورت میں بنیادی طور پر چار اہم موضوعات کا بیان ہے۔ پہلا موضوع ’’ظہار‘‘ ہے۔ اہلِ عرب میں یہ طریقہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہہ دیتا تھا کہ ’’انت علی کظہر امی‘‘، یعنی تم میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ جاہلیت کے زمانے میں اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا کہنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔ سورت کی اِبتداء میں اسی کے احکام کا بیان ہے جس کی تفصیل ان شا اللہ ان آیتوں کی حواشی میں آنے والی ہے، دوسرا موضوع یہ ہے کہ بعض یہودی اور منافقین آپس میں اس طرح سرگوشیاں کیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے خلاف کوئی سازش کررہے ہیں، نیز بعض صحابہ کرامؓ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے تنہائی میں کوئی مشورہ یا کوئی بات کرنا چاہتے تھے۔ اس سورت میں ان خفیہ باتوں کے اَحکام بیان فرمائے گئے ہیں۔ تیسرا موضوع اُن آداب کا بیان ہے جو مسلمانوں کو اپنی اجتماعی مجلسوں میں ملحوظ رکھنے چاہئیں۔ چوتھا اور آخری موضوع اُن منافقوں کا تذکرہ ہے جو ظاہر میں تو ایمان کا اور مسلمانوں سے دوستی کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن در حقیقت وہ ایمان نہیں لائے تھے، اور درپردہ وہ مسلمانوں کے دُشمنوں کی مدد کرتے رہتے تھے۔ سورت کا نام ’’مجادلہ‘‘ (یعنی بحث کرنا) اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں ایک خاتون کے بحث کرنے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ خاتون کا یہ واقعہ نیچے حاشیہ نمبر : ۱ میں آرہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi