Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 20

سورة المجادلة

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ ﴿۲۰﴾

Indeed, the ones who oppose Allah and His Messenger - those will be among the most humbled.

بیشک اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Opponents of Allah and His Messenger are the Losers; Allah warns, إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَيِكَ فِي الاَذَلِّينَ Those who oppose Allah and His Messenger, they will be among those most humiliated. Allah and His Messenger shall prevail. Allah the Exalted asserts that the rebellious and stubborn disbelievers who defy Him and His Messenger, those who do not embrace the religion and stay away from Truth, are in one area, while the guidance is in another area, ... أُوْلَيِكَ فِي الاَذَلِّين They will be among those most humiliated. they are among the miserable, the cast out, banished from goodness; they are the humiliated ones in this life and the Hereafter. Allah said,

جو حق سے پھرا وہ ذلیل و خوار ہوا اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ حق سے برگشتہ ہیں ہدایت سے دو رہیں اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں احکام شرع کی اطاعت سے الگ ہیں یہ لوگ انتہا درجے کے ذلیل بےوقار اور خستہ حال ہیں ، رحمت رب سے دور اللہ کی مہربانی بھری نظروں سے اوجھل اور دنیا و آخرت میں برباد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو فیصلہ کر چکا ہے بلکہ اپنی پہلی کتاب میں ہی لکھ چکا ہے اور مقدر کر چکا ہے جو تقدیر اور جو تحریر نہ مٹے نہ بدلے نہ اسے ہیر پھیر کرنے کی کسی میں طاقت ، کہ وہ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول اور اس کے مومن بندے دنیا اور آخرت میں غالب رہیں گے ، جیسے اور جگہ ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان دار بندوں کی ضرور ضرور مدد کریں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس دن گواہ قائم ہو جائیں گے اور جس دن گنہگاروں کو کوئی عذر و معذرت فائدہ نہ پہنچائے گی ان پر لعنت برستی ہو گی اور ان کے لئے برا گھر ہو گا یہ لکھنے والا اللہ قوی ہے اور اس کا لکھا ہوا اٹل ہے وہ غالب و قہار ہے ۔ اپنے دشمنوں پر ہر وقت قابو رکھنے والا ہے اس کا یہ اٹل فیصلہ اور طے شدہ امر ہے کہ دونوں جہان میں انجام کے اعتبار سے غلبہ و نصرت مومنوں کا حصہ ہے ۔ پھر فرماتا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے دوست اللہ کے دشمنوں سے محبت رکھیں ، ایک اور جگہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی دوست نہ بنائیں ایسا کرنے والے اللہ کے ہاں کسی گنتی میں نہیں ، ہاں ڈر خوف کے وقت عارضی دفع کے لئے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے اور جگہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئے عارضی دفع کے لئے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے اور جگہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، دادا ، بیٹے ، پوتے ، بچے ، کنبہ ، قبیلہ ، مال دولت ، تجارت حرفت ، گھر بار وغیرہ تمہیں اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ، اس کی راہ میں جہاد کی نسبت زیادہ عزیز اور محبوب ہیں تو تم اللہ کے عنقریب برس پڑنے والے عذاب کا انتظار کرو اس قسم کے فاسقوں کی رہبری بھی اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی ۔ حضرت سعید بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے ، جنگ بدر میں ان کے والد کفر کی حمایت میں مسلمانوں کے مقابلے پر آئے آپ نے انہیں قتل کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری وقت میں جبکہ خلافت کے لئے ایک جماعت کو مقرر کیا کہ یہ لوگ مل کر جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں اس وقت حضرت ابو عبیدہ کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر یہ ہوتے تو میں انہی کو خلیفہ مقرر کرتا اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایک ایک صفت الگ الگ بزرگوں میں تھی ، مثلاً حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے تو اپنے والد کو قتل کیا تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے قتل کا ارادہ کیا تھا اور حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا اور حضرت عمر اور حضرت حمزہ اور حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا تھا واللہ اعلم ۔ اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی داخل ہو سکتا ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری قیدیوں کی نسبت مسلمانوں سے مشورہ کیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو فرمایا کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے تاکہ مسلمانوں کی مالی مشکلات دور ہو جائیں مشرکوں سے جہاد کرنے کے لئے آلات حرب جمع کرلیں اور یہ چھوڑ دیئے جائیں کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دے ، آخر ہیں تو ہمارے ہی کنبے رشتے کے ۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی رائے اس کے بالکل برخلاف پیش کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس مسلمان کا جو رشتہ دار مشرک ہے اس کے حوالے کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ وہ اسے قتل کر دے ہم اللہ تعالیٰ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ان مشرکوں کی کوئی محبت نہیں مجھے فلاں رشتہ دار سونپ دیجئے اور حضرت علی کے حوالے عقیل کر دیجئے اور فلاں صحابی کو فلاں کافر دے دیجئے وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ جو اپنے دل کو دشمنان اللہ کی محب سے خالی کر دے اور مشرک رشتہ داروں سے بھی محبت چھوڑ دے وہ کامل الایمان شخص ہے جس کے دل میں ایمان نے جڑیں جمالی ہیں اور جن کی قسمت میں سعادت لکھی جا چکی ہے اور جن کی نگاہ میں ایمان کی زینت بچ گئی ہے اور ان کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس کی روح سے کی ہے یعنی انہیں قوی بنا دیا ہے اور یہی بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں جائیں گے جہاں سے کبھی نہ نکالے جائیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی یہ اللہ سے خوش ، چونکہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کنبہ والوں کو ناراض کر دیا تھا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان سے راضی ہو گیا اور انہیں اس قدر دیا کہ یہ بھی خوش خوش ہوگئے ۔ اللہ کا لشکر یہی ہے اور کامیاب گروہ بھی یہی ہے ، جو شیطانی لشکر اور ناکام گروہ کے مقابل ہے ، حضرت ابو حازم اعرج نے حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا کہ جاہ دو قسم کی ہے ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری کرتا ہے ، جو حضرات عام لوگوں کی نگاہوں میں نہیں جچتے جن کی عام شہرت نہیں ہوتی جن کی صفت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائی ہے ، کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گمنام متقی نیکو کار ہیں اگر وہ نہ آئیں تو پوچھ گچھ نہ ہو اور آ جائیں تو آؤ بھگت نہ ہو ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں ، ہر سیاہ رنگ اندھیرے والے فتنے سے نکلتے ہیں یہ ہیں وہ اولیاء جنہیں اللہ نے اپنا لشکر فرمایا ہے اور جن کی کامیابی کا اعلان کیا ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) نعیم بن حماد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں فرمایا اے اللہ کسی فاسق فاجر کا کوئی احسان اور سلوک مجھ پر نہ رکھ کیونکہ میں نے تیری نازل کردہ وحی میں پڑھا ہے کہ ایماندار اللہ کے مخالفین کے دوست نہیں ہوتے ، حضرت سفیان فرماتے ہیں علمائے سلف کا خیال ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو بادشاہ سے خلط ملط رکھتے ہوں ( ابو احمد عسکری ) الحمد اللہ سورہ مجادلہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 محادۃ، ایسی شدید مخالفت عناد اور جھگڑے کو کہتے ہیں کہ فریقین کا باہم ملنا نہایت مشکل ہو گویا دونوں دو کناروں پر ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں اسی سے یہ ممانعت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی لیے دربان اور پہرے دار کو بھی حداد کہا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ 20۔ 2 یعنی جس طرح گزشتہ امتوں میں سے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو ذلیل اور تباہ کیا گیا ان کا شمار بھی انہیں اہل ذلت میں ہوگا اور ان کے حصے میں بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللہ وَرَسُوْلَـہٗٓ ۔۔۔۔: یہ حزب الشیطان کے اس خسارے کا بیان ہے جو پچھلی آیت میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ ذلیل ہونے والوں میں سے ہیں ۔ مزید دیکھئے اسی سورت کی آیت (٥، ٦) اور سورة ٔ توبہ کی آیت (٢٣) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ۝ ٢٠ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . والحدید معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ. ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے حدید لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] ، بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ منافقین اور یہودی دین میں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ دوزخ میں ذلیل لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ میں اور محمد فارس و روم اور یہود و منافقین پر غالب رہیں گے بیشک اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کرام کی مدد کرنے میں قوت والا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں غالب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰٓئِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ ۔ } ” یقینا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر ُ تلے بیٹھے ہیں ‘ وہی ذلیل ترین لوگوں میں سے ہوں گے۔ “ ذلت کے ذکر کے لیے اَذَلِّیْن (ذلیل ترین) یہاں ” تفضیل کل “ (superlative degree) کے طور پر آیا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت میں بھی منافقین کے لیے بالکل یہی اسلوب اختیار فرمایا گیا ہے : { اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا ۔ } ” یقینا منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ‘ اور تم نہ پائو گے ان کے لیے کوئی مدد گار۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:20) یحا دون۔ وہ مخالفت کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو آیت 5 متذکرۃ الصدر۔ الاذلین۔ یہ اذل کی جمع ہے ذلۃ سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ زیادہ ذلیل۔ زیادہ کمزور۔ اذلین۔ سب سے زیادہ ذلیل یا بےقدر لوگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین ........................ قوی عزیز (١٢) (٨٥ : ٠٢۔ ١٢) ” یقینا ذلیل ترین مخلوقات میں سے ہیں وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے۔ فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے “۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو سچا ہوکر رہا ہے۔ اور آئندہ بھی سچا ہوکر رہے گا۔ اگرچہ بظاہر اس سچے وعدے کے حالات مخالف نظر آئیں۔ عملاً جو جزیرة العرب میں جو ہوا ، وہ یہی تھا کہ ایمان اور توحید غالب آگئے۔ کفر اور شرک مغلوب ہوئے اور جزیرة العرب میں اسلامی نظریہ حیات غالب ہوگیا۔ اور کفر اور شرک کے ساتھ ایک طویل کشمکش کے بعد اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد پوری انسانیت عقیدہ توحید کے سامنے سرنگوں ہوئی۔ اگرچہ دنیا کے بعض علاقوں میں شرک اور کفر نے ایک عارضی وقت کے لئے غلبہ حاصل کرلیا۔ جس طرح آج ملحد اور بت پرست حکومتوں میں شرکیہ عقائد کا کسی نہ کسی جگہ غلبہ ہے لیکن عقیدہ توحید پوری دنیا میں غالب رہا ہے۔ نیز الحاد اور شرک مسلسل زوال پذیر ہیں۔ اس لئے کہ شرک اپنے مختلف مظاہر کے ساتھ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ دنیا میں باقی رہے۔ اور جدید سائنس نے انسانیت کو عقیدہ توحید پر بہت سے جدید دلائل بھی فراہم کردیئے ہیں لہٰذا ایمان اور توحید مسلسل ترقی میں ہے۔ اور شرکیہ عقائد ونظریات سکڑ رہے ہیں۔ ایک مومن تو اللہ کے وعدے کو ایک حقیقت سمجھتا ہے۔ اگر کسی زمانے میں ایک محدود نسل یا محدود قطعہ زمین اس کے خلاف نظر آئے تو اسے یقین کرنا چاہئے کہ وہ صورت حال عارضی ہے اور بدلنے والی ہے۔ اور یہ عارضی غلبہ کفر بھی کسی حکمت کے تحت ہوگا۔ اور شاید اس لئے کہ اہل ایمان اسے اپنی ایمانی غیرت کے لئے ایک چیلنج سمجھیں اور اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ وہ اللہ کے وعدے کے مطابق مغلوب ہو۔ آج ہمارے دور میں ایمان کے دشمن ، ہر طرف سے اہل ایمان کے خلاف جنگ آزما ہیں اور ہر طرف سے حملہ آور ہیں اور انہوں نے ایمان کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کررکھی ہے۔ ہر طرف سے پکڑ دھکڑ ، سازشیں اور مسلسل اور متنوع سازشیں اسلام اور ایمان کے خلاف ہورہی ہیں۔ اس طرح کہ مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے ، ملک بدر کیا جارہا ہے ، ان کو قسم قسم کی اذیتیں دی جارہی ہیں ، ان کے ذرائع رزق بند کیے جارہے ہیں ، اور ان پر ہر قسم کی ذلت مسلط کررکھی ہیں اس کے باوجود اہل ایمان کے دل ایمان سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کو گرنے سے بچایا جاتا ہے اور وہ غالب اقوام کے اندر پگھل کر ضم نہیں ہوتے۔ اور وہ یہ مشکلات برداشت کرکے بھی ایسے مواقع کے انتظار میں ہیں کہ کفر پر حملہ آور ہوں اور اسے پاش پاش کرکے رکھ دیں۔ ایک طویل عرصے سے مسلمان اس صورت حال سے دو چار ہیں لیکن ان کا ایمان مضبوط ہے اور وہ جدوجہد میں مصروف ہیں تو اس سے نظر آتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول غالب ہوکر رہیں گے اور اس سلسلے میں ان کو کوئی طویل انتظار بھی نہ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا مومن کو اپنے دل میں یہ شک نہیں لانا چاہئے کہ ایمان غالب رہے گا۔ اللہ کا وعدہ ایک حقیقت ہے اور اس نے جلد یا بدیر حقیقت کا روپ اختیار کرنا ہے اور جو لوگ اللہ و رسول اللہ اور اسلام کے دشمن ہیں وہ ذلیل ہوکر رہیں گے اور اللہ اور رسول ہی غالب رہیں گے۔ یہ بات ہوتی ہے اور ہوکر رہے گی۔ لیکن بظاہر حالات ایسے ہوا کرتے ہیں ، جو اس کے خلاف نظر آتے ہیں۔ اور آخر میں وہ اصول جس پر مسلمانوں کو جم کر رہنا چاہئے۔ یہ اصل اصول ہے اور یہ ایمان کے سچے ہونے اور جھوٹے دعوائے ایمان کے لئے ایک ترازو ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” ان الذین یحادون “ یہ ابتدائے سورت کے ساتھ متعلق ہے اور کفار و منافقین کیلئے زجر و تخویف ہے جو خدا تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی ذلیل ترین اور بغوض ترین مخلوق میں شامل ہیں اس لیے شدید ترین عذاب کے مستحق ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) جولوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین اور بےقدر لوگوں میں سے ہیں۔ یعنی قیامت میں نہ ان کی کوئی عزت نہ قدروقیمت ۔