Surat ul Mujadala

Surah: 58

Verse: 9

سورة المجادلة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۹﴾

O you who have believed, when you converse privately, do not converse about sin and aggression and disobedience to the Messenger but converse about righteousness and piety. And fear Allah , to whom you will be gathered.

اے ایمان والو! تم جب سرگوشیاں کرو تو یہ سرگوشی گناہ اور ظلم ( زیادتی ) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو ں بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالاْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ ... O you who believe! When you hold secret counsel, do it not for sin and wrongdoing, and disobedience to the Messenger, meaning, do not hold evil secret counsels like the ignorant disbelieving People of the Scriptures and their allies among the hypocrites, who imitate their ways, ... وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ but do it for Al-Birr and Taqwa; and have Taqwa of Allah unto Whom you shall be gathered. and He will then inform you of all your deeds and statements; He has counted and recorded them and will justly hold you accountable for them. Allah the Exalted said, إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ امَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْيًا إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُوْمِنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔ 9۔ 2 یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] سرگوشی کی تین صورتیں اور ان کا مقام :۔ اس آیت میں عام مسلمانوں سے خطاب ہے جن میں منافقین بھی شامل ہیں۔ سرگوشی، کاناپھوسی اور کھسر پھسر سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ان کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سرگوشی، بدنیتی، برے ارادوں یا کسی ناپاک سازش پر محمول ہو۔ جیسے منافق لوگ مسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شیطان کی انگیخت ہوتی ہے جیسا کہ اگلی آیت میں صراحت سے مذکور ہے۔ اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ سرگوشی بھلائی اور نیکی پر محمول ہو مثلاً دو لڑنے والوں کے درمیان سمجھوتہ کے لیے سرگوشی کی جائے یا جیسے سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے جب اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لیا تھا تو باقی بھائیوں نے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر بات چیت کی تھی۔ ایسی سرگوشی جائز ہی نہیں مستحسن ہے۔ بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہوسکتی ہے۔ تیسرے ایسی سرگوشی جس کا تعلق صرف دو سرگوشی کرنے والوں سے ہی ہو دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ جیسے خود رسول اللہ نے اپنی وفات سے بیشتر سیدہ فاطمہ (رض) سے کی تھی۔ جس سے ایک بار تو وہ رونے لگیں اور دوسری دفعہ ہنس دیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب من ناجی بین الناس۔۔ ) ایسی سرگوشی جائز ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ سرگوشی کرنے کے بعد کچھ آداب ہیں جو درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتے ہیں۔ && سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب کہیں تم صرف تین آدمی ہوں تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کریں۔ اس سے اس کو رنج ہوگا۔ البتہ اگر اور بھی آدمی موجود ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں && (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا کانوا اکثر من ثلثۃ۔۔ ) اور ان آداب کا اصل مدعا یہ ہے کہ کسی شخص کو رنج نہ پہنچے یا وہ کسی بدظنی میں مبتلا نہ ہوجائے۔ یعنی : ١۔ اگر صرف تین آدمی ہیں۔ تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ ہاں اگر تیسرے سے اجازت لے لیں تو پھر وہ سرگوشی کرسکتے ہیں۔ اس طرح اس کی بدظنی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ ٢۔ اگر آدمی تین سے زیادہ ہوں تو دو آدمی کانا پھوسی کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہو کہ آدمی چار ہوں اور تین آدمی ایک کو چھوڑ کر کاناپھوسی میں مشغول ہوجائیں۔ وقس علی ہذا ٣۔ اگر آدمی زیادہ ہوں اور دو آدمی کاناپھوسی کرنے لگیں تو ان میں سے کوئی شخص مجلس میں بیٹھے ہوئے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ کرے اور نہ اسے دیکھے۔ جس سے مشار الیہ کے دل میں خواہ مخواہ بدظنی پیدا ہوجائے۔ سرگوشی سے منافقوں کا مقصد :۔ غرض بدظنی پیدا کرنے اور رنج پہنچانے والی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں اس آیت کی رو سے سب حرام ہیں اور منافقوں کا تو کام ہی یہ ہوتا تھا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے ساتھ اکٹھ ہوتا تو ناپاک قسم کی کھسر پھسر شروع کردیتے تھے۔ مثلاً جہاد پر روانگی کے وقت یہ کھسر پھسر شروع کردیتے کہ && ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب جہاد پر روانہ والے ان مسلمانوں میں کوئی بھی بچ کر واپس نہ آئے گا۔ معلوم نہیں یہ لوگ کون سے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں && وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ ۔۔۔۔۔: جیسا کہ آیت (٧) کے فوائد میں گزرا کہ ” نجویٰ “ کا لفظ عموماًبرے مقاصد کے لیے سرگوشیوں پر استعمال ہوتا ہے جو حرام ہیں ، لیکن بعض اوقات ” نجوی “ ( خفیہ مشورہ) اچھے مقاصد کے لیے بھی ہے، اس کی اجازت ہے ، بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ باعث اجر ہے۔ ( دیکھئے نساء : ١١٤) اس آیت میں ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو گناہ ، زیادتی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی والی سرگوشیوں اور خفیہ مجلسوں سے منع فرمایا ، کیونکہ یہ ایمان کے دعویٰ کے خلاف ہے اور نیکی اور تقویٰ والی سرگوشیوں کی اجازت بلکہ نصیحت فرمائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوگوشی کی ہر ایسی صورت سے منع فرمایا جس سے کسی مسلمان کی دل آزادی ہوتی ہو۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجی رجلان دون الآخر حتیٰ تختلطو ا بالناس ، اجل ان یحزنہ) (بخاری ، استذان ، باب اذا کانوا کثر من ثلاثۃ فلا باس بالمسارۃ المناجاۃ : ٦٢٩٠۔ مسلم : ٢١٨٤)” جب تم تین آدمی ہو تو وہ آدمی تیسرے کے بغیر آپس میں سر گوشی نہ کریں ، یہاں تک کہ تم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جاؤ ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی ۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کوئی دو آدمی آپس میں سر گوشی کرسکتے ہیں ۔ البتہ چار یا پانچ یا زیادہ آدمی ایک شخص کو اکیلے چھوڑ کر الگ سرگوشی کریں تو اس اکیلے کا غمگین اور پریشان ہونا تو لازمی بات ہے ، اس لیے اس حدیث کے مطابق وہ بھی ناجائز ہے۔ تین آدمیوں میں سے دو اگر ایسی زبان میں بات شروع کردیں جو تیسرا نہیں جانتا تو اس حدیث کے مطابق وہ بھی جائز نہیں ۔ ہاں اگر دو آدمی تیسرے سے اجازت لے کر آپس میں سر گوشی کرلیں تو یہ جائز ہے ، جیسا کہ ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناج اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذلک یحزنہ) (مسند احمد : ٢، ١٤٦، ح : ٦٣٣٨۔ مصنف عبد الرزاق ، ح : ١٩٨٠٦، وسندہ صحیح)” جب تم تین آدمی ہو تو وہ دو آدمی تیسرے کے بغیر سرگوشی نہ کریں ، مگر اس کی اجازت کے ساتھ ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Manners of the Secret Conference يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّ‌سُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ (0 those who believe, when you hold secret counsel, do not whisper for sinful act and wrongdoing and disobedience of the Messenger, and do whisper for righteousness and taqwa [ God-fearing ]... 58:9) In this and the preceding verses secret societies of the unbelievers have been condemned, but the condemnation is not unreserved or unqualified. The current verse guides the Muslims to be conscious of the fact that Allah is fully aware of their conversation and all of their conditions. Therefore, all their secret conferences must be held for good purposes. It is the object or motive of a particular conference that determines its nature. Thus in the present verse, as indicated earlier, the believers have been allowed to hold secret conferences only to promote good and righteous causes. Return Good for Evil It was narrated earlier that one of the evil practices of some of the Jews of Madinah was that when they came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they greeted him by invoking curses upon him, thus: اَلسَّام عَلَیکُم As-Samu` alaykum& [ death to you!] instead of saluting him with the usual اَلسَّلَام عَلَیکُم &As-Salamu ` alaykum& [ peace be upon you ]. The word &As-Sam& means &death& instead of &As-Salam& which means &peace&. The latter word was distorted and pronounced with a little twist of the tongue, which sounded like the former word, but the difference between the two words was so subtle that the Companions (رض) could hardly detect the difference. One day, however, Sayyidah Siddiqah &A&ishah (رض) detected that the Jews were invoking curses upon the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by saying &As-Samu ` alaykum& [ death to you!], so she replied: اَلسَّام عَلَیکُم وَ لَعَنَکُمُ اللہُ وَ غَضِبَ عَلَیکُم As-Samu ` alaykum wa la` anakumullah wa ghadiba ` alaykum& [ death to you, and the curse of Allah be on you, and His wrath!]. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prevented her from this and said: |"0 ` A&ishah , Allah does not like rudeness and foul speech.|" Sayyidah Siddiqah ` A&ishah (رض) said: |"0 Messenger of Allah, did you not hear what they said.|" He said to her: |"Did you not hear my answering them back by saying وَعَلَیکُم &wa ` alaykum& [ same to you ]?|" He further said to her &Allah accepts our supplication against them, but not theirs against us&. This event tells us that even in response to the mischievous words of the infidels, the Muslims should always adopt a soft and noble way.

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى، سابقہ آیات میں کفار کو ناجائز سرگوشی پر تنبیہ کی گئی تھی، اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ اپنی سرگوشیوں اور مشوروں میں اس کا دھیان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے سب حالات اور گفتگو کا علم ہے اور اس استحضار کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کے مشورے اور سرگوشی میں کوئی بات فی نفسہ گناہ کی یا دوسروں پر ظلم کرنے کی یا کسی خلاف شرع کام کی نہ ہو، بلکہ جب بھی آپس میں مشورہ کرو نیک کاموں کے لئے کرو۔ کفار کی شرارت پر بھی نرمی اور شریفانہ مدافعت کی ہدایت : سابقہ آیات کے ضمن میں یہودیوں اور منافقوں کی ایک شرارت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ وہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو بجائے السلام علیکم کے السام علیکم کہتے تھے، سام کے معنی موت کے ہیں اور لفظوں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے سبب مسلمانوں کی اس طرف التفات نہ ہوتا تھا، ایک روز ایسا ہی ہوا، صدیقہ عائشہ بھی سن رہی تھیں جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو السام علیکم کہا تو صدیقہ عائشہ نے جواب دیا السام علیکم و لعنکم اللہ و غضب علیکم یعنی ” ہلاکت تم پر ہو اور خدا کی لعنت و غضب “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیقہ کو ایسا کہنے سے روکا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فحش کلام کو پسند نہیں فرماتے، آپ کو سختی و درشتی سے بچنا اور نرمی اختیار کرنا چاہئے، صدیقہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ ان لوگوں نے آپ کو کیا کہا ہے، آپ نے فرمایا کہ ہاں سن بھی لیا اور اس کا معتدل بدلہ بھی لے لیا، کہ میں نے جواب میں کہہ دیا علیکم یعنی ” ہلاکت تم پر ہو “ اور یہ ظاہر ہے کہ ان کی دعا قبول ہوگی نہیں، میری دعا قبول ہوگی، اس لئے ان کی شرارت کا بدلہ ہوگیا (رواہ البخاری، از مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى٠ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝ ٩ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ نجو) سرگوشي) والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ( ن ج و ) النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔ عُدْوَانِ ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء/ 30] ، وقوله تعالی: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ، أي : غير باغ لتناول لذّة، وَلا عادٍأي متجاوز سدّ الجوعة . وقیل : غير باغ علی الإمام ولا عَادٍ في المعصية طریق المخبتین «2» . وقد عَدَا طورَهُ : تجاوزه، وتَعَدَّى إلى غيره، ومنه : التَّعَدِّي في الفعل . وتَعْدِيَةُ الفعلِ في النّحو هو تجاوز معنی الفعل من الفاعل إلى المفعول . وما عَدَا كذا يستعمل في الاستثناء، وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب . اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء/ 30] اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة/ 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشر طی کہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے ۔ میں باغ سے وہ شخص مراد ہے جو لذت اندوزی کے لئے مردار کا گوشت کھانے کی خواہش کرتا ہے اور عاد سے مراد وہ شخص ہے جو قدر کفایت سے تجاوز کرتا ہے بعض نے باغ کے معنی خلیفہ وقت کا باغی اور عاد سے وہ شخص مراد لیا ہے جو عجزو نیاز کرنے والوں کے طریق سے تجاوز کرنے والا ہو اور یہ عدی طور سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اپنے رتبہ سے تجاوز کرنے والا اور اسی سے تعدیتہ فی الفعل ہے اور علم نحو میں فعل کے تعدیتہ سے مراد ہوتا ہے فعل کا اپنے فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچ جانا اور ماعدا کا لفظ استثناء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافربعید کے ناکے پر ۔ میں عدوٹ الدنیا سے مدینہ کی جانب کا کنارہ مراد ہے جو حد قریب سے کچھ دور تھا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو ! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو جھوٹ ظلم اور رسول اکرم کے حکم کی مخالفت کی سرگوشیاں مت کیا کرو جیسا کہ منافقین یہودیوں کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہیں اور فرائض خداوندی کی تعمیل اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان و بھلائی اور معاصی و ظلم کے چھوڑنے کے بارے میں سرگوشی کیا کرو اور مومنین مخلصین کے علاوہ سرگوشی کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس تم سب آخرت میں جمع کیے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ } ” اے اہل ایمان ! اگر تمہیں کوئی سرگوشی کرنی ہو “ { فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ” تو گناہ ‘ زیادتی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی باتوں سے متعلق ہرگز سرگوشی نہ کرو “ اگر تم میں سے چند لوگوں کا علیحدہ بیٹھ کر کوئی گفتگو یا منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہو تو یاد رکھو ‘ تمہاری اس خفیہ بات چیت یا سرگوشی کا موضوع ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے جس سے گناہ ‘ کسی پر زیادتی یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتاہو۔ { وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی } ” ہاں تم نیکی اور تقویٰ کے بارے میں سرگوشی کرسکتے ہو ۔ “ کسی کو علیحدگی میں لے جا کر کوئی اچھا مشورہ دینا ہو ‘ نیکی کے کسی کام کا بتانا ہو ‘ یا صدقہ و خیرات کی تلقین کرنی ہو تو ایسی سرگوشیوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَـیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ } ” اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تمہیں جمع کیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 This shows that najwa (talking secretly together) by itself is not forbidden, but it s being lawful or unlawful depends upon the character of the people who hold secret consultations and upon the circumstances under which such consultations are held, and upon nature of the consultations themselves, If the people whose sincerity, righteousness and purity of character arc well known, arc seen talking secretly together, nobody would have any misgiving that they were planning mischief. On the contrary, the whispering and secret consultations of the people who are notorious for their evil and wicked character, product in every mind. the suspicion that they arc engaged in a new conspiracy. Likewise, if a couple of persons talk for some time together on some matter secretly, it is not objectionable, but if some people have formed themselves into a gang and constantly engaged in a whispering campaign against the Muslim community, this would indeed be a prelude to some mischief. If nothing else, it would at least stir up divisions among the Muslims. Above all, the thing that decides whether najwa (secret counsel) is lawful or unlawful is the nature of the things talked of it. If two men hold a secret counsel in order to bring a dispute the an end, ar to restore a person's right, or to bring a dispute an end, or to restore a person's right, or to promote a good cause, it is no evil, but rather and act of virtue, On the contrary, if the same secret counsel between two men is held with a view to creating mischief, or usurping the rights of . others, or committing a sin, obviously the object itself would be evil and the secret counsel about it evil added w evil. In this connection, the teaching given by the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) of social etiquette is: "When three men are sitting together, no two of them should whisper to each other, for this would cause anguish to the third. " (Bukhari, Muslim, Musnad Ahmad Thirmidhi Adu Da'ud). In another Hadith, the Holy Prophet said: "Two men should not whisper together, without the leave of the third, for this would cause him anguish. " (Muslim). This objectionable sort of whispering also applies to the cast when two of the three men start talking in a language which is not understood by the third, and even more objectionable would be that during their whispering they should look towards the third person or gesticulate in a manner as to suggest that he is the topic of discussion between them.

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :24 اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ ( آپس میں راز کی بات کرنا ) بجائے خود ممنوع نہیں ہے ، بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں ، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے ، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں ۔ جن لوگوں کا اخلاص ، جن کی راست بازی ، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو ، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کرلیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل وتیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے ۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں ۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے ، یا کسی کا حق دلوانا ہے ، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے ، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے ، بلکہ کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے ، یا کسی کا حق مارنا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک برائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ برائی پر برائی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صاحبھما فان ذالک یحزنہٗ ۔ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں ، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا ( بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد ۔ ترمذی ۔ ابو داؤد ) ۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتناجیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ ۔ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر ، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا ( مسلم ) ۔ اسی ناجائز سرگوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو ۔ اور اس سے بھی زیادہ ناجائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(58:9) اذا تناجیتم : اذا شرطیہ ہے یا اسم ظرف زمان ہے۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ تناجی (تفاعل) مصدر۔ تم نے سرگوشی کی۔ یا جب تم سرگوشی کرو۔ فلا تتناجوا : ف جواب شرط کے لئے۔ لا تتناجوا فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ (تو تم) سرگوشی مت کرو۔ کانا پھوسی نہ کرو۔ تناجی (تفاعل) مصدر۔ تتناجوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم سرگوشی کیا کرو۔ یہاں نجوی سے مراد مشورہ ہے۔ یعنی جب رازدارانہ بات کرنا ہی ہو تو نیکی اور پرہیزگاری کے متعلق مشورہ کیا کرو۔ البر : مصدر ہے بمعنی نیکی کرنا۔ بھلائی کرنا۔ نیکوکاری۔ اعتقادی و عملی دونوں قسم کی نیکیاں اس میں شامل ہیں۔ التقوی : پرہیزگاری۔ بچنا۔ تقویٰ اسم ہے اتقی سے۔ لغت میں تو تقوی کے معنی ہیں نفس کو اس چیز سے بچانا اور حفاظت میں رکھنا کہ جس کا خوف ہو۔ لیکن کبھی کبھی خوف کو تقوی سے اور تقوی کو خوف سے بھی موسوم کرلیتے ہیں۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بول کر سبب مراد لے لیتے ہیں۔ اور عرف شرع میں تقوی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کا نام ہے جو گناہ کی طرف لیجائے۔ اتقوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ اتقاء (افتعال) مصدر۔ تم ڈرو۔ تم پرہیزگاری اختیار کرو، اتقوا اللہ تم اللہ سے ڈرو۔ الذی الیہ تحشرون : الذیاسم موصول۔ باقی جملہ اس کا صلہ الیہ الی انتہاء غایت۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے تحشرون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر، حشر (باب نصر) مصدر۔ تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔ تم جمع کئے جاؤ گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 دیکھئے سورة نساء آیت : 114 صحیحین میں حضرت ابن سعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے چاہیے اس لئے کہ اس سے اس تیسرے آدمی کو رنج ہوگا کہ نہ معلوم میرے خلاف کوئی بات کررہے ہیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ بر سے مراد نفع متعدی مقابل عدوان کے اور تقوی مقابل اثم و معصیت الرسول کے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بری سرگوشی سے منع کرنے کے بعد نیکی اور اچھے کاموں پر مشاورت اور سرگوشی کرنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ہر قسم کی سرگوشی کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ اس نے گناہ، ظلم اور رسول کی مخالفت کرنے پر سرگوشی سے منع کرنے کے ساتھ اور نیکی اور تقویٰ کے کام پر مشاورت اور سرگوشی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو ! اللہ سے ڈرتے رہو ! بالآخر تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ جو بری سرگوشی کرتے ہیں حقیقت میں وہ شیطان کی سرگوشی ہوتی ہے۔ شیطان اپنے کارندوں سے یہ کام اس لیے کرواتا ہے تاکہ اس سے ایمان دار لوگ پریشان ہوں، لیکن ایمان داروں کو برے لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں سے غم زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کو تکلیف نہیں دے سکتا کیونکہ دکھ اور سکھ اللہ کے حکم کے تابع ہیں لہٰذا ایمانداروں کو اللہ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے گناہ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی سے منع کرنے کے بعدا یمان داروں کو ہر حال میں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور مومنوں کو تسلی دی ہے کہ نفع اور نقصان، دُکھ اور سکھ ” اللہ “ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں اگر مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے اذن سے پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے لہٰذا نیک بندوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے، یہاں نیکی اور تقویٰ کا بیک وقت حکم دیا گیا ہے اس لیے کہ نیکی اور تقویٰ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ تقویٰ کے بغیر انسان نہ کوئی نیکی کرسکتا اور نہ نیکی کی حفاظت کرسکتا ہے تقویٰ ہی انسان کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے اور اسے نیکی پر اترانے سے بچاتا ہے۔ نجویٰ کا معنٰی ہے بھید، ہم راز اور سرگوشی وغیرہ۔ اصطلاح میں دو آدمیوں کے رازداری سے بات کرنے کو نجویٰ کہتے ہیں۔ توکل کا معنٰی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے خالق ومالک پر کامل اعتماد و یقین رکھے جو اپنے رب پر اعتماد اور یقین کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ مسائل ١۔ برائی کی کانا پھوسی سے منع کیا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو گناہ، زیادتی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے منع کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٤۔ ایمان والوں کو ہمیشہ اللہ سے ڈرنا اور یقین رکھنا چاہیے کہ سب نے اس کے حضور جمع ہونا ہے۔ ٥۔ شیطان اپنے کارندوں کی شرارتوں سے مومنوں کو پریشان کرتا ہے۔ ٦۔ مومنوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کوئی بھی تکلیف اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے : ١۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا عز م کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٢۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (یوسف : ٦٧) ٣۔ مومن اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (المائدۃ : ١١) ٤۔ مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبہ : ٥١) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر بھروسہ کریں کیوں کہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء : ٨١) ٦۔ سب کاموں کا انجام اللہ کی جانب ہے آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ (ھود : ١٢٣) ٧۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ (المائدۃ : ٢٣) ٨۔ صابر لوگ اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں۔ (العنکبوت : ٥٩) ٩۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) (التوبہ : ١٢٩) ١٠۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلہ : ١٠) ١١۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الذین .................... المومنون (٠١) (٨٥ : ٩۔ ٠١) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے۔ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے ، اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ، حالانکہ بےاذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتی ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “ معلوم ہوتا ہے ابتدائی زمانے میں جب کہ لوگوں میں ابھی تک اسلامی جماعت کا صحیح شعور اور احساسات پیدا نہ ہوئے تھے ، بعض مسلمان اجتماعی معاملات میں اپنی قیادت کے ساتھ مشورہ کیے بغیر ہی ، باہم اجتماعی مشورہ شروع کردیتے تھے۔ یہ لوگ ابھی اسلامی تنظیم کی روح سے واقف نہ تھے ، جس کے مطابق سب سے پہلے ہر مشورہ وبصورت تجویز پہلے قیادت کے سامنے آنا چاہئے اور اسلامی قیادت کے علاوہ کوئی نجویٰ نہیں ہونا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے اس دور میں بعض مسلمان اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ، جب ایسے مشورے کرتے تھے تو اس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی تھیں اور اس سے جماعت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی تھی اگر چہ مشورہ کرنے والوں کی ایسی نیت نہ ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں کی طرف سے محض ایسے مسائل اٹھا دینا ہی جماعت کے لئے ایذا کا باعث بن جاتا اور اس سے اجتماعی پالیسی کی نافرمانی ہوجاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کو لقب ایمان سے پکارا جاتا ہے ، جو ان کی جدید اجتماعیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یایھا ................ امنوا (٨٥ : ٩) ” اے لوگ ، جو ایمان لائے ہو “ ایسے مشورے نہ کرو جو گناہوں ، اور حدود سے متجاوز ہوں ، اور جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت لازم آتی ہو۔ اور یہ بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کن امور پر مشورہ کرسکتے ہیں۔ وتنا ................ والتقوٰی (٨٥ : ٩) ” بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتوں پر مشورہ کرو۔ “ نیکی اور تقویٰ کے بارے میں وسائل وتدابیر اختیار کرنے کے لئے بیشک تم مشورے کرو ، البر : یعنی عام بھلائی ، التقوی : بیداری اور اللہ کو حاضروناظر سمجھتے ہوئے ڈرنا۔ اس قسم کا تقویٰ صرف بھلائی ہی سکھاتا ہے۔ پھر صراحت کے ساٹھ ان کو کہا جاتا ہے کہ ، اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ وہ وہاں تمہارے سب کیے پر تم سے حساب لے گا۔ وہ اس پورے ریکارڈ کو تیار کرنے والا اور اس پر گواہ بھی ہوگا۔ چاہے جس قدر بھی تم چھپاؤ اور خفیہ رکھو۔ امام احمد نے روایت کی ہے بہز اور عفان سے ، ان دونوں نے ھمام سے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے صفوان ابن محرز سے ، یہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ، کہ ا کی شخص نے ان سے پوچھا : ” تم نے نجویٰ کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا سنا کہ قیامت میں اس کے بارے میں کیا ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے یہ کہتے سنا کہ : ” اللہ ایک مومن کے قریب ہوگا۔ اس پر اپنے دونوں ہاتھ یوں رکھے گا کہ وہ لوگوں سے چھپ جائے گا۔ اور اس کے گناہوں کا اس سے اقرار لے گا اور کہے گا تمہیں فلاں فلاں گناہ معلوم ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کے پورے گناہ اسے یاد دلادیئے اور اقرار لے لیا ، اور اس شخص نے یہ سوچ لیا کہ اب تو وہ مارا گیا تو اس کے بعد اللہ فرمائے گا اچھا ، دنیا میں تو میں نے ان گناہوں کو چھپا دیا تھا اور آج میں تمہارے لئے ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اس کے بعد اللہ اس کو اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے گا۔ رہے کفار اور منافقین تو ان کے علاوہ پیش ہونے والے گواہ کہیں گے ، اے رب یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا ، لعنت ہے ظالموں پر۔ (بخاری) اس کے بعد مومنین کو نجویٰ ، افواہیں پھیلانے اور خفیہ سازشوں سے منع کیا جاتا ہے۔ جماعت سے الگ خفیہ طور پر کوئی مشورہ نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اہل ایمان اس جماعت کا حصہ ہیں ، ان کی مصلحت اور جماعت کی مصلحت ایک ہے۔ ان کو کسی معاملے میں جماعت سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ اور ان سے کہا جاتا ہے کہ مومنین جب دیکھیں کہ کچھ لوگ الگ کانا پھوسی کررہے ہیں ، اور الگ مشورے ہورہے ہیں تو اس طرح اہل ایمان کو شک ، پریشانی اور حزن وملال ہوگا اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہوگی۔ شیطانی کاوش ہی یہ ہے کہ وہ اس قسم کے نجویٰ کرنے والوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے تا کہ وہ نجویٰ کرکے جماعت مسلمہ کو پریشان کریں حالانکہ وہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انما ........................ المومنون (٨٥ : ٠١) ” کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے ، اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ، حالانکہ بےاذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “ کوئی مومن اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اور نہ کوئی ایسی ہستی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے حالات میں کانا پھوسی نہیں کرنا چاہئے جس کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوں اور مسلمانوں کا باہم اعتماد مجروح ہو اور دلوں کے اندیشے پیدا ہوں۔ اعمق حضرت عبداللہ ابن مسعود حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں :” اگر تم سے کوئی دو تیسرے کے سوا الگ ہو کر مشورہ نہ کرے ، کیونکہ اس بات سے وہ دل گیر ہوگا “ یہ اسلامی جماعت کے بہترین آداب ہیں۔ اور اگر ایسے آداب کو ملحظو رکھا جائے تو شکوک و شبہات کی گنجائش ہی نہ رہے گی۔ ہاں اگر راز رکھنے کی مصلحت درپیش ہو ، یا کسی کی پردہ داری مطلوب ہو ، یا کسی مخصوص شخص کے معاملات میں بات ہورہی ہو یا کسی عمومی بحث میں پردہ داری مطلوب ہو تو پھر بند کمرے میں بات کرنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اور ایسی صورت مشروہ جماعت کے قائدین کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ لیکن کوئی اکٹھ ایسا نہ ہو کہ جسے جماعت اندر جماعت کہا جاسکے یا جو جماعت کے علم کے بغیر ہو ۔ اس قسم کے نجویٰ سے قرآن اور سنت نے منع کیا ہے اور اس قسم کے نجویٰ سے جماعتوں کے اندر افتراق اور ان کی صفوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں اور یہ وہ بیماری ہے جس کو شیطان بڑے اہتمام سے پھیلاتا ہے تاکہ ایمان والوں کے درمیان عدم اطمینان پھیلا دے۔ اور اللہ نے یہاں فیصلہ کردیا ہے کہ وہ جماعت مسلمہ کو کبھی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ مومنین کی جماعت کا نگران ، نگہبان اور چوکیدار اللہ بذات خود ہے اور اللہ ہر نجویٰ میں حاضر وموجود ہوتا ہے۔ اور ایسے مشوروں میں جو سازشیں ہوتی ہیں اللہ ان کو مومنین کے لئے بےضرر بنا دیتا ہے۔ الا باذن اللہ (٨٥ : ٠١) ” اللہ کے اذن کے سوا “۔ جہاں بھی کوئی حتمی اور جزمی وعدہ اور فیصلہ ہو وہاں اس قسم کی استثنا ہوتی ہے ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ خود اپنے فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ جو چاہے کرے ، اگر اللہ چاہے کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ وعلی ................ المومنون (٨٥ : ٠١) ” اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ “ اللہ ہی بچانے والا اور حامی ہے۔ وہی قوی اور عزیز ہے ، وہی علیم وخبیر ہے ، وہی شاہد اور حاضر ہے ، اور اس کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اور اللہ نے یہ وعدہ کرلیا ہے کہ وہ مومنوں کو بچائے گا تو اس کے بعد مومنوں کے لئے کیا شک رہ جاتا ہے اس لئے وہ بےفکر ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اہل ایمان کو ایک دوسرا اجتماعی ادب سکھایا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کو نصیحت کہ یہودیوں کا طریقہ کار استعمال نہ کریں یہود اور منافقین کی بدحالی بتا کر مومنین مخلصین کو نصیحت فرمائی اور ارشاد فرمایا ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ ﴾ (اے ایمان والو ! جب تمہیں خفیہ مشورہ کرنا ہو (آہستہ آہستہ باتیں کرنی ہوں) تو گناہگاری اور زیادتی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو) ۔ ﴿ وَ تَنَاجَوْا بالْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ﴾ (اور نیکی اور تقویٰ کا مشورہ کرو) ۔ ﴿وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْۤ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ٠٠٩ ﴾ (اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم جمع كئے جاؤ گے) یعنی آخرت کے دن میں حاضر ہو گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” یا ایہا الذین امنوا اذا ناجیتم “ یہ اصلاح منافقین کیلئے پہلا قانون ہے اور خطاب منافقین سے ہے اور ایمان سے ایمان باللسان مراد ہے۔ ای امنوا بالسنتہم وھو خطاب للمنافقین (مدارک) ۔ یا مؤمنین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ کفار و منافقین کی طرح نہ ہوں۔ قال اللہ تعالیی مؤدبا عبادہ المؤمنین ان لا یکوانو مثل الکفرۃ و المنافقین (ابن کثیر ج 4 ص 323) ۔ کوئی ایسا پروگرام نہ بناؤ اور ایسا مشورہ نہ کرو جو سراسر گناہ ہو یا جس کا مقصد مسلمانوں پر ظلم وتعدی کرنا یا پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی مخالفت ہو۔ بلکہ ہمیشہ ایسے کاموں کے باہم مشورے کرو جو نیکی اور تقوی کے کام ہوں یعنی احکام شریعت کی تعمیل اور مخالفت شریعت سے اجتناب۔ اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے ہو جس کی عدالت میں تم سب جمع کر کے پیش کیے جاؤ گے۔ (وتاجوا بالبر) باداء الفرائض والطاعت وما یتضمن خیر المؤمین (والتقوی) ای الاحتراز من معصیۃ الرسول (مظہری ج 9 ص 223) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اے ایمان والو جب تم آپس میں سرگوشی اور بھید کی باتیں کرو تو گناہ کی اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں نہ کیا کرو بلکہ بھلائی اور پرہیزگاری کی باتوں پر ہم مشورہ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کے روبرو تم سب جمع کئے جائو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپس میں کوئی خفیہ بات اور خفیہ مشوروہ کرو تو وہ مشورہ گناہ کے لئے یا ظلم کے لئے یارسول کی نافرمانی کے لئے نہ ہوا کرے بلکہ بھلائی اور تقویٰ کے کاموں پر باہمی مشورہ کیا کرو یعنی دوسروں کو نفع پہنچانا مقصود ہو کوئی ظلم یا پیغمبر کی نافرمانی کی بات کے لئے مشورہ نہ ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اسی کی جناب میں سب کو حاضرہونا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سورة نساء میں ہوچکا کہ کان میں کون سی بات کہنی چاہیے۔ سورہ نساء میں گزرا ہے لا خیر فی کثیر من نجوھم اس تسہیل کا مطالعہ کیجئے۔