Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 10

سورة الحشر

وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۱۰﴾  4 الرّبع

And [there is a share for] those who came after them, saying, "Our Lord, forgive us and our brothers who preceded us in faith and put not in our hearts [any] resentment toward those who have believed. Our Lord, indeed You are Kind and Merciful."

اور ( ان کے لئے ) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ ( اور دشمنی ) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who came after them say: "Our Lord! Forgive us and our brethren who have preceded us in faith, and put not in our hearts any hatred against those who have believed. Our Lord! You are indeed full of kindness, Most Merciful. This is the third type of believers whose poor most deserve to receive a part of the Fai'. These three types are the Muhajirin, the Ansar and those who followed their righteous lead with excellence. Allah said in another Ayah, وَالسَّـبِقُونَ الاٌّوَّلُونَ مِنَ الْمُهَـجِرِينَ وَالاَنْصَـرِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ And of the foremost to embrace Islam of the Muhajirin and the Ansar and also those who followed them exactly, Allah is well-pleased with them as they are well-pleased with Him. (9:100) The third type are those who followed the Muhajirin and Ansar in their good works, beautiful attributes and who invoke Allah for them in public and secret. This is why Allah the Exalted said in this honorable Ayah, وَالَّذِينَ جَاوُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ ... And those who came after them say, meaning, the statement that they utter is, ... رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالاِْيمَان وَلاَ تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّ ... Our Lord! Forgive us and our brethren who have preceded us in faith, and put not in our hearts any hatred, meaning, rage or envy, ... لِّلَّذِينَ امَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَوُوفٌ رَّحِيمٌ against those who have believed. Our Lord! You are indeed full of kindness, Most Merciful. Indeed, it is a beautiful way that Imam Malik used this honorable Ayah to declare that the Rafidah who curse the Companions do not have a share in the Fai' money, because they do not have the good quality of those whom Allah has described here that they say, ... رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالاِْيمَان وَلاَ تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّ لِّلَّذِينَ امَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَوُوفٌ رَّحِيمٌ Our Lord! Forgive us and our brethren who have preceded us in faith, and put not in our hearts any hatred against those who have believed. Our Lord! You are indeed full of kindness, Most Merciful. Ibn Abi Hatim recorded that A'ishah said, "They were commanded to invoke Allah to forgive them, but instead, they cursed them!" She then recited this Ayah, وَالَّذِينَ جَاوُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالاِْيمَان ... And those who came after them say: "Our Lord! Forgive us and our brethren who have preceded us in faith, and put not in our hearts any hatred against those who have believed."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ (رض) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقوی آگئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار و مہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے امام مالک (رح) نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولاء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر) ۔ اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسببتموھم سمعت نبیکم یقول : لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں۔ حوالہ مذکور۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اموال فے میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کا حصہ :۔ یعنی اموال فے کے حقداروں میں جن لوگوں کا اللہ نے بطور خاص ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے محتاج مہاجرین کا بھی کا ذکر کیا۔ پھر ایثار کرنے والے مہاجرین کا، اور تیسرے نمبر پر بعد میں آنے والوں کا۔ کیونکہ اموال فے میں جائیداد غیرمنقولہ، زمینیں اور ان کے علاوہ وہ جزیہ و خراج کی رقوم بھی شامل ہیں جو سرکاری سطح پر وصول کی جاتی ہیں۔ چناچہ جب دور فاروقی میں مسلمانوں نے عراق اور شام کو فتح کرلیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہوگیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحات انہیں بطور جاگیر عنایت کئے جائیں اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔ سیدنا عمر نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو وہاں کی مردم شماری کے لیے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں تین تین آدمی آتے تھے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمر کی رائے یہ قائم ہوگئی کہ زمین قومی تحویل میں لے لی جائے اور ان کے مالکوں کو بطور کاشتکار وہیں رہنے دیا جائے اور انہیں غلام نہ بنایا جائے۔ اکابر صحابہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ اموال غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدیوں کی تقسیم پر بھی مصر تھے اور سیدنا بلال (رض) نے تو اس قدر جرح کی کہ سیدنا عمر (رض) نے زچ ہو کر فرمایا : اللھم اکفنی بلالا (اے اللہ ! میری طرف سے بلال کو خود سنبھال) سیدنا عمر (رض) یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر مفتوحہ علاقے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی مدافعت، ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے مصارف کہاں سے آئیں گے اور یہ مصلحت بھی آپ کے پیش نظر تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کردی گئی تو وہ جہاد کی طرف سے غافل اور جاگیرداری میں مشغول ہوجائیں گے۔ لہذا اموال غنیمت تو فوج میں تقسیم کردینے چاہئیں۔ اور زمین بیت المال کی ملکیت قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اتنی کثیر مقدار میں اموال اور زمین اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کی توقع کم ہی نظر آرہی تھی۔ چناچہ سیدنا عمر نے فرمایا && اگر مجھے پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بستی فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں بانٹ دیتا۔ جیسے رسول اللہ نے خیبر کو بانٹ دیا تھا && (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الغنیمۃ لمن شھدالوقعۃ) سیدنا عمر (رض) کا عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لینا :۔ جہاں تک اسلامی مملکت کے استحکام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا تعلق تھا، سیدنا عمر کو اپنی رائے کی اصابت کا مکمل یقین تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی ایسی نص قطعی پیش نہ کرسکتے تھے جس سے وہ مجاہدین، سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) اور سیدنا بلال (رض) کو قائل کرسکیں۔ چونکہ دلائل دونوں طرف موجود تھے۔ لہذا سیدنا عمر (رض) نے فیصلہ کے لیے دس افراد پر مشتمل مجلس مشاورت طلب کی۔ اس مجلس میں پانچ قدماء مہاجرین اور پانچ انصار (اوس و خزرج) شریک ہوئے۔ سیدنا عثمان (رض) اور سیدنا طلحہ (رض) نے سیدنا عمر (رض) کی رائے سے اتفاق کیا۔ کئی دن بحث چلتی رہی مگر کچھ فیصلہ نہ ہوسکا۔ سیدنا عمر اس سلسلہ میں خاصے پریشان رہتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر کو یہی الفاظ (وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ ) سجھا دیئے جو اس بحث کو طے کرنے کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتے تھے اور یہ ایسی دلیل تھی جس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سیدنا عمر نے ایک اجتماع عام بلا کر اس میں اسی جملہ کے حوالہ سے پرزور تقریر فرمائی جس پر سب لوگوں نے یک زبان ہو کر اعتراف کیا کہ آپ کی رائے درست ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ یہ الفاظ تو مدتوں پہلے نازل ہوچکے تھے۔ جنہیں سیدنا عمر سمیت سب صحابہ سینکڑوں مرتبہ پڑھ چکے تھے۔ لیکن ان کے اطلاق (Implication) کا معاملہ ابھی تک سامنے آیا ہی نہ تھا۔ اور جب معاملہ سامنے آگیا تو اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی میں غور کرنے پر سیدنا عمر کو ان الفاظ کا مفہوم اور اس کی وسعت بھی سجھا دی۔ قرآن کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اس کتاب کے عجائب لامتناہی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اس واقعہ سے ضمناً درج ذیل امور پر بھی روشنی پڑتی ہے :۔ نزاع کے وقت امیر کے اختیارات کی تعیین :۔ ١۔ امیر فیصلہ کرتے وقت کثرت رائے کا پابند نہیں ہوتا۔ فیصلہ کی اصل بنیاد اس کا اپنا دلی اطمینان یا انشراح صدر ہے۔ کیونکہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے سیدنا عمر کی رائے کے خلاف تھی۔ ٢۔ امیر اپنی مرضی یا رائے عوام پر ٹھونسنے کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ انہیں شرعی دلیل سے قائل کرنا اور انہیں اپنے اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام کا نظام حکومت استبدادی نہیں بلکہ شورائی ہے اور مشورہ میں مقصود دلیل کی تلاش ہے۔ خواہ وہ ایک آدمی سے مل جائے۔ یہاں کثرت رائے فیصلہ کی بنیاد نہیں ہوتی۔ ٣۔ آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔ [١٤] صحابہ کرام (رض) سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ :۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ صحابہ کرام (رض) سے خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔ بغض عداوت، کینہ یا بیر رکھے اسے سب سے پہلے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرنا چاہئے۔ پھر یہ دعا کرنا چاہئے کہ یا اللہ ہمارا یہ گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں اور اگر ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کچھ کینہ رہ گیا ہے تو اسے بھی نکال دے۔ سچا مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام (رض) کی اس پاکباز جماعت سے محبت رکھے اور انہیں اپنا قائدتسلیم کرے اور امام مالک (رح) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے، مال فے میں اس کے لیے کچھ حصہ نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ : اس کا عطف مہاجرین و انصار پر ہے جن کا ذکر پچھلی دو آیات میں گزرا ۔ یعنی اموال فے مہاجرین و انصار کے فقراء کے لیے ہیں اور ان فقراء کے لیے جو ان کے بعد آئے۔ یہ اموال فے کے مستحقین کی تیسری قسم ہے۔ ان میں تابعین ، تبع تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان شامل ہیں ، اگر ان میں سے وہ صفات موجود ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ ٢۔ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔۔۔۔۔: ان میں سے پہلی صفت جو ” الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ “ سے ظاہر ہے ، یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصا کو مومن مانتے ہوں اور انہی چیزوں پر ایمان رکھتے ہو جن پر ان کا ایمان تھا۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار صحابہ اور ان کے پیروکاروں سے نہ صرف محبت رکھتے ہوں بلکہ دعا بھی کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ان کے بارے میں کوئی کینہ یا دشمنی باقی نہ رہنے دے اور نہ ہی پیدا ہونے دے۔ مفسرابن کثیر (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ امام مالک (رح) تعالیٰ نے اس آیت سے کیا ہی خوب صورت استنباط کیا ہے کہ رافضی جو صحابہ کو گالی دیتا ہو ، اس کا مال فے میں کوئی حصہ نہیں ، کیونکہ اس میں وہ اوصاف نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان ” وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ “ میں ذکر فرمائے ہیں۔ ام المومنین عائشہ (رض) نے اس آیت کے مفہوم کے پیش نظر اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا :( یا ابن اختیی ! امرو ا ان یستغفروا الاصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسبوھم) (مسلم ، التفیر ، باب فی تفسیر آیات منفرقہ، ٢٢، ٣٠) ” اے میرے بھانجے ! ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، لیکن وہ انہیں گالیاں دینے لگے “۔ بعض نے فرمایا : جس کے دل میں کسی صحابی کے متعلق کینہ ہو اور وہ تمام صحابہ کے لیے رحم کی دعا نہ کرتا ہو وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بالترتیب ایمان والوں کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں ، مہاجرین ، انصار اور ان کے وہ پیروکار جن میں وہ اوصاف ہوں جو آیت میں مذکور ہیں ، سو جو شخص ان صفات والے پیروکاروں میں سے نہ ہو وہ مومنوں کی اقسام سے خارج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رافضی لوگوں سے ، جو صحابہ کو گالی دیتے ہیں ، یہود و نصاریٰ ہی اچھے رہے ، کیونکہ یہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ، موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ۔ نصاریٰ سے پوچھا گیا ، تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ۔ رافضیوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے برے لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ۔ ( نعوذ باللہ من ذلک) ۔ ٣۔ رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ : اپنے سے پہلے ایمان والوں کے لیے مغفرت کی دعا اور اپنے سینوں کو ان کے کینے سے پاک رکھنے کی دعا کے آخر میں اللہ تعالیٰ کو اس کے ان دو اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا ، کیونکہ یہ دونوں چیزوں اس کی رافت و رحمت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

All Muslims after the Muhajirin and the Ansar are entitled to fai& وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ |"And [ fai& is also ] for those who came after them ....59:10) This verse lays down that all Muslims until the Last Hour, after the noble Companions from amongst the Muhajirin and Ansar, are entitled to a share in the fai& property. This was the reason why Sayyidna ` Umar Al-Faruq (رض) conquered great territories like ` Iraq, Syria, Egypt and so on, but did not distribute them among the fighters. He retained them as public endowment for next generations, so that the income might accrue to the Islamic public treasury and the Muslims till the Last Hour may benefit from it. When some of the blessed Companions enquired about the distribution of the conquered territories, he referred to this verse and said: Had it not been for the future generations of Muslims, I would have distributed all the conquered territories among the fighters as they were captured, following the example of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When Khaibar was conquered, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) distributed all its lands. If all the lands are distributed among the present Muslim generation, nothing will be left for future generations.|" [ Transmitted by Malik and Qurtubi ]. Love for the Blessed Companions (رض) is a sign that the Ummah is on Truth On this occasion, Allah has put the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) into three different categories: [ 1] Muhajirin; [ 2] Ansar; and [ 3] the general body of the Ummah. The special characteristics of the Muhajirin and the sterling qualities of the Ansars are described in the relevant verses above. As for the merits of the rest of the Ummah, the verse merely mentions one quality of theirs that they recognize the high status of Muhajirin and the Ansar in that they had preceded them in faith and were means of communicating it to us. Further, they pray for forgiveness of all, and also pray that their own hearts be completely cleansed of all bitterness and spite towards true and sincere Muslims. This shows that for the validity and acceptance of faith and Islam of all the coming generations of Muslims, after the blessed Companions, it is a necessary condition that they have love and respect for the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and pray for their brethren in Faith of earlier generations. Where this necessary condition is lacking, such people are not worthy of being called Muslims. Therefore, Sayyidna Mus&ab Ibn Sa&d (رض) says that the Muslims of this Ummah are divided into three categories, of which two categories [ those of Muhajirin and Ansar ] have already been mentioned. The third category remains. If anyone wishes to have a place in the Ummah, he should join the third category by showing love, respect and honour to the blessed Companions. Someone approached Sayyidna Husain (رض) and inquired about Sayyidna ` Uthman (رض) [ who had by then been martyred ], the former asked the inquirer: |"Are you one of the Muhajirin?|" He replied: |"No|". Then he asked him: |"Are you one of the Ansar?|" He replied: |"No.|" He then said: &There remains only the third verse وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ |"And... those who came after them...[ 59:10] |": If you wish to create doubt about Sayyidna ` Uthman (رض) ، then you will have to leave this category as well.& Qurtubi says that this verse is a proof that love of the blessed Companions is obligatory. Sayyidna Imam Malik (رح) says that any person who reviles a Companion or holds a grudge against him, will not have a share in the fai& property of the Muslims. Then he argues, on the basis of this verse, that every Muslim has a share in the fai& property, and anyone who has no share, his faith in Islam is doubtul. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) has stated that Allah has commanded all Muslims to pray for the Companions of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and for their forgiveness, whereas Allah knew that there would be conflicts and civil wars between them. Therefore, it is not permissible for any Muslim to hold evil thoughts about them on account of their conflicts. Sayyidah ` A&shah Siddiqah (رض) says, |"I have heard your Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) say that this community will not perish unless the later generations curse the earlier generations.|" Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) says: |"When you hear anyone reviling a Companion, tell him, &May the curse of Allah be upon the one who is the worst of you&.|" Obviously, no Companion can ever be worse. The one who is cursing would be the worst one. In a word, it is a cause of curse to revile a Companion. ` Amr Ibn Haushab (رح) says: |"I have found the earlier generations of this Ummah uniformly and strongly advise people to describe the merits of the noble Companions (رض) and their good qualities, so that they may develop love for them. Do not ever talk about their conflicts and disagreements, so that people may become bold and show disrespect to them.|" [ All these narratives have been adapted from Qurtubi ].

مہاجرین و انصار کے بعد عام امت کے مسلمان (آیت) وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ الایة، اس آیت کے مفہوم میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار کے بعد پیدا ہونے والے قیامت تک کے مسلمان شامل ہیں اور اس آیت نے ان سب کو مال فئی میں حقدار قرار دیا ہے، یہی سبب تھا کہ حضرت فاروق اعظم نے دنیا کے بڑے ممالک عراق، شام، مصر وغیرہ فتح کئے، تو ان کی زمینوں کو غانمین میں تقسیم نہیں فرمایا بلکہ ان کو اگلی آنے والی نسلوں کے لئے وقف عام رکھا کہ ان کی آمدنی اسلامی بیت المال میں آتی رہے اور اس سے قیامت تک آنے والے مسلمان فائدہ اٹھا سکیں، بعض صحابہ کرام نے جو ان سے مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کا سوال کیا تو انہوں نے اسی آیت کا حوال دے کر فرمایا کہ اگر میرے سامنے آئندہ آنے والی نسلوں کا معاملہ نہ ہوتا تو میں جو ملک فتح کرتا اس کی سب زمینوں کو بھی غانمین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمینوں کو تقسیم فرما دیا تھا، اگر یہ ساری زمینیں موجودہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگئیں تو آنے والے مسلمانوں کے لئے کیا باقی رہے گا (رواہ مالک، قرطبی) امت کے حق پر ہونے کی پہچان صحابہ کرام کی محبت و عظمت ہے : اس مقام میں حق تعالیٰ نے پوری امت محمدیہ کے تین طبقے کئے، مہاجرین، انصار اور باقی تمام امت، مہاجرین و انصار کے خاص اوصاف اور فضائل بھی اس جگہ ذکر فرمائے مگر باقی امت کے فضائل و کمالات اور اوصاف میں سے صرف ایک چیز یہ بتلائی کہ وہ صحابہ کرام کی سبقت ایمانی اور ایمان کے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہونے کو پہچانیں اور سب کے لئے دعائے مغفرت کریں اور اپنے لئے یہ دعا کریں کہ ہمارے دلوں میں کسی مسلمان سے کینہ و نفرت نہ رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے بعد والے جتنے مسلمان ہیں ان کا ایمان و اسلام قبول ہونے اور نجات پانے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ صحابہ کرام کی عظمت و محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہوں اور ان کے لئے دعا کرتے ہوں، جس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی وہ مسلمان کہلانے کے قابل نہیں، اسی لئے حضرت مصعب بن سعد نے فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں ہیں، جن میں سے دو درجے تو گزر چکے یعنی مہاجرین و انصار، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا، یعنی وہ جو صحابہ کرام سے محبت رکھے، ان کی عظمت پہچانے، اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہوجاؤ۔ حضرت حسین سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا ( جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو ؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو ؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔ قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کی محبت ہم پر واجب ہے، حضرت امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص کسی صحابی کو برا کہے یا اس کے متعلق برائی کا اعتقاد رکھے اس کا مسلمانوں کے مال فئی میں کوئی حصہ نہیں، پھر اسی آیت سے استدلال فرمایا اور چونکہ مال فئی میں حصہ ہر مسلمان کا ہے تو جس کا اس میں حصہ نہ رہا اس کا اسلام و ایمان ہی مشکوک ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے ( اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں) حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے ( اور وہ بےادب ہوجاویں) (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٠ ۧ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ غِلُّ :( خيانت) العداوة . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ، وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر/ 10] . وغَلَّ يَغِلُّ : إذا صار ذا غِلٍّ أي : ضغن، وأَغَلَّ ، أي : صار ذا إِغْلَالٍ. أي : خيانة، وغَلَّ يَغُلُّ : إذا خان، وأَغْلَلْتُ فلانا : نسبته إلى الغُلُولِ. قال : وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران/ 161] ، وقرئ : أَنْ يَغُلَ أي : ينسب إلى الخیانة، من أَغْلَلْتُهُ. قال : وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ آل عمران/ 161] ، وروي : «لا إِغْلَالَ ولا إسلال» أي : لا خيانة ولا سرقة . وقوله عليه الصلاة والسلام : «ثلاث لا يَغِلُّ عليهنّ قلب المؤمن» أي : لا يضطغن . وروي : «لا يُغِلُّ» أي : لا يصير ذا خيانة، وأَغَلَّ الجازر والسالخ :إذا ترک في الإهاب من اللّحم شيئا، وهو من الْإِغْلَالِ ، أي : الخیانة، فكأنّه خان في اللّحم وترکه في الجلد الذي يحمله . والغُلَّةُ والغَلِيلُ : ما يتدرّعه الإنسان في داخله من العطش، ومن شدّة الوجد والغیظ . يقال : شفا فلان غَلِيلَهُ ، أي : غيظه . والغَلَّةُ : ما يتناوله الإنسان من دخل أرضه، وقد أَغَلَّتْ ضيعته . والْمُغَلْغَلَةُ : الرّسالة التي تَتَغَلْغَلُ بين القوم الذین تَتَغَلْغَلُ نفوسُهُمْ ، كما قال الشاعر : تَغَلْغَلُ حيث لم يبلغ شراب ... ولا حزن ولم يبلغ سرور اور غل کے معنی ( کینہ وپوشیدہ ) اثمنی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43 اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر/ 10] اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ ( وحسد ) نہ پیدا ہونے دے ۔ غل یغل کسی کے متعلق دل کینہ رکھنا اور الغلول کے معنی ہیں خیانت کرنا اور یہ غل یغل سے ہے جس کے معنی ہیں خیانت کرنا اور اغل ( افعال ) کے معنی خیانت کے ساتھ متصف ہونے کے ہیں اور اغللت فلان کے معنی دوسرے کو خیانت کے ساتھ متہم کر نیکے قرآن میں ہے : ۔ وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران/ 161] اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر ( خدا ) خیانت کریں ۔ ایک قرات میں ایغل ہے جو کہ اغللتہ سے ہے یعنی اسے خیانت کے ساتھ متہم کیا جائے ۔ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ آل عمران/ 161] اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز ( خدا کے روبرو ) حاضر کرنی ہوگی ۔ ایک روایت میں ہے ( 20 ) لااغلال ولااسلال یعنی خیانت اور چوری نہیں ہے اور حدیث میں ہے ( 26 ) ثلاث لایغل علیھن قلب المومین یعنی باتوں پر مومن کا دل کینہ وری سے کام نہیں لیتا ۔ اور ایک روایت میں لایغل ہے یعنی خیانت نہیں کرتا اغل الجازراولسالخ قصاب کا کھال کے ساتھ کچھ گوشت چھوڑدینا یہ اغلال بمعنی خیانت سے ہے گویا قصاب نے گھال کے ساتھ گوشت چھوڑ کر خیانت کی تاکہ وہ گوشت لے جائے ۔ الغلتہ والغلیل پیاس غصہیا محبت کی سوزش شفا فلان غیلیتہ فلان نے اپنا غصہ نکال لیا الغلتہ زمین کی پیدا دار اسی سے اغلت ضیغتہ ہے جس کے معنی ہیں زمین نے پیدا واددی اور مغلغتہ اس پیغام یا خط کو کہا جاتا ہے جو شہر بشہر پہنچایا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 329 ) تغلغل حیث لم یبلغ شراب ولاحزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں پہنچ گئی ہے جہاں شراب اور غم و سرور کا بھی گزر نہیں ہوسکتا ۔ رأف الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] . ( ر ء ف ) الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اسی طرح ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان مہاجرین اولین کے بعد آئے اور وہ اس طرح دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ہجرت کرچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مہاجرین اولین کی طرف سے بغض و حسد نہ ہونے دیجیے۔ کیونکہ ان لوگوں کو اپنے بارے میں اس چیز کا خوف ہوا کہ رسول اکرم نے مہاجرین اولین کو جو کچھ دے دیا تو کہیں اس سے ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کینہ نہ ہوجائے اس لیے ان لوگوں نے یہ دعا فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ } ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے (مالِ فے پر ان کا بھی حق ہے) وہ کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! تو بخش دے ہمیں بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے “ { وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رُئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ } ” اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کدورت نہ پیدا ہونے دے ‘ اے ہمارے رب ‘ بیشک تو نہایت شفیق اور رحم فرمانے والا ہے۔ “ اس آیت میں واضح کردیا گیا ہے کہ مال فے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کے علاوہ بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ مزید برآں اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے کوئی بغض ‘ کینہ یا کدورت نہیں ہونی چاہیے ‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح طرزعمل یہی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں ‘ نہ یہ کہ انہیں سب و شتم کا نشانہ بنائیں۔ یہاں پر پہلا رکوع اختتام پذیر ہوا ۔ اس رکوع میں بنونضیر کے مدینہ سے انخلاء اور ان کی چھوڑی ہوئی املاک (مالِ فے) سے متعلق احکام کا ذکر تھا۔ اب اگلی آیات میں منافقین کا تذکرہ ہے کہ ان لوگوں نے غزوئہ بنونضیر کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 This implies the Ansar. In other words, not only arc the Emigrants entitled to fai but those Muslims also are entitled to receive thair share from it, who were already living in the abode of Islam (Madinah). 18 This is in praise of the Ansar, the Muslims of Madinah. When the Emigrants came from Makkah and other places to their city, they offered their gardens and oases to the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) with the request that he distribute them among their emigrant brethren-in-faith. The Holy Prophet said: "These people do not know gardening: they have come from a region where there are no gardens. Could it not be that you (the Ansar) continue to work in the gardens and oases and make the Emigrants partners in the produce? The Ansar submitted: `We have heard and obeyed'." (Bukhari, Ibn Jarir). Thereupon the Emigrants said: "We have never seen any people so self-sacrificing as the Ansar, for they would work and labour and make us partners in the produce. We think they would thus be entitled to all spiritual rewards. The Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) said: "Nay, as long as you would praise them and pray for their well-being, you also would get your rewards. " (Musnad Ahmad). Then, when the territory of the Bani an-Nadir was taken, the Holy Prophet made this proposal to the Ansar: "Now one way of managing it is that your properties and the gardens and the oases left by the Jews be combined together and then the whole distributed among you and the Emigrants." the second way is that you take back your properties, and the lands vacated by the Jews be distributed among the Emigrants. " The Ansar said: "Sir, you may please distribute these evacuee properties among the Emigrants and may give them of our properties also as you please. " At this Hadrat Abu Bakr cried out: "May Allah reward you, O assembly of the Ansar, with the best of everything!" (Yahya bin Adam. Baladhuri). Thus, with the willing consent of the Ansar the properties left by the Jews were distributed only among the Emigrants, and from among the Ansar only Hadrat Abu Dujanah, Hadrat Sahl bin Hunaif snd (according to some) Hadrat Harith bin as-Simmah were given shares, for they were poor people. (Baladhuri. Ibn Hisham Ruh al-Ma ani. The same self-sacrificing spirit was shown by the Ansar when the territory of Bahrain was annexed to the Islamic State. The Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) wished that the conquered lands of that territory be given to the Ansar, but they submitted: "We would not take any share from it unless a similar share was given to ow emigrant brothers." (Yahya bin Adam). Allah has praised the Ansar for this-very spirit of self-sacrifice. 19 The word used here means "are saved" and not "were safe", for without Allah's help and succour no one can attain to the wealth of the heart (liberal-mindedness) by his own power and effort. This is a blessing of God, which one can attain only by God's bounty and grace The word shuhh is used for stinginess and miserliness in Arabic. But when this word is attributed to the self of matt it becomes synonymous with narrow-mindedness, niggardliness, meanspiritedness and small-heartedness, and not mete stinginess: it is rather the root cause of stinginess itself. Because of this very quality man avoids acknowledging even the good qualities of another, not to speak of recognizing his rights and discharging them. He wants that he alone should gather up everything in the world, and no one else should have anything of it. He never feels content with his own right. but usurps the rights of others, or at least wants to have for himself all that is good in the world and should not leave anything for others. On this very basis one's being saved from this evil has been described in the Qur'an as a guarantee for success. The Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) has counted it among the most evil qualities of man which are the root cause of corruption and mischief. Hadrat Jabir bin `Abdullah has reported that the Holy Prophet said: "Avoid shuhh for it was shuhh which ruined the people before you. It incited them to shed each other's blood and make the sacred and forbidden things of others lawful for themselves. " (Muslim, Musnad Ahmad, Baihaqi, Bukhari in Al-Adab). The tradition of Hadrat 'Abdullah bin 'Umar contains the following words: "It led them to commit wickedness and they committed it; it commanded them to commit sins and they committed sin; it urged them to break off all connections with the kindred and they broke off all connections with them. " (Musnad Ahmad, Abu De ud Nasa i). Hadrat Abu Hurairah has reported that the Holy Prophet said. "Faith and shuhh of the self cannot combine in one and the same heart. " (Ibn Abi Shaibah, Nasa '% Baihaqi in Shu ab al-Iman, Hakim). Hadrat Abu Sa'id Khudri has stated that the Holy Prophet said: "Two of the qualities are such that they cannot combine in a Muslim: stinginess and misbehaviour." (Abu Da'ud. Tirmidhi Bukhari in AI-Adab)- It is as a result of t us very teaching of Islam that, apart from individuals, the Muslim people as a nation are still the most generous and liberal. minded people in the world. There are millions and millions of Muslims living side by side with those non-Muslim people from among whom they sprung who have become proverbial for their narrow-mindedness and miserliness. The clear distinction existing between the two peoples in respect of liberal-mindedness and miserliness cannot be explained in any other way than that it is the moral teaching of Islam that has made the Muslims so large-hearted and liberal-minded.

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :20 یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہ اور رسول اور اقربائے رسول ، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل ، اور مہاجرین اور انصار ، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں ۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق ، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا ۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے ، جن میں حضرت زبیر ، حضرت بلال ، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی ( رضی اللہ عنہم ) جیسے بزرگ شامل تھے ، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ اموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے ، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے ، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے ، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گئے تھے ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا ۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں ۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا ۔ رہا خیبر ، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے ، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کر کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے ( ابو داؤد ، بیہقی ، کتاب الاموال لابی عبید ، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم ، فتوح البلدان للبلاذری ، فتح القدیر لابن ہمام ) ۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم ، اگرچہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں ، غنیمت کا نہیں ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے ، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے ۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے ۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے ۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو ، جیسی مکہ معظمہ کی تھی ، تو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی ، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا ، اس لیے حضرت عمر کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے ۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اقسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ، اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا ( ابوعبید ) ۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلال نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحوھا کما تقسم غنیمۃ العسکر ۔ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ( کتاب الخراج ، ابو یوسف ) دوسری طرف حضرت علی کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوا مادۃً للمسلمین ۔ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے ۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں ۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی ، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا ، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں ۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو ( ابو عبید ص 59 ۔ فتح الباری ، ج 6 ، ص 138 ) ۔ حضرت عمر نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سواد عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا ۔ معلوم ہوا کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے ۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے : تریدون ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ ( ابو عبید ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا برائی ( ابو یوسف ) ۔ ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ فما لمن جاء بعدکم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفاسدوا بینکم فی المیاہ ( ابو عبید ) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا ؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے ۔ لولا اٰخر الناس ما فتحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ( بخاری ، موطّا ، ابو عبید ) ۔ اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا ۔ لا: ھٰذا عین المال ، ولکنی احبسہ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین ۔ ( ابو عبید ) ۔ نہیں ، یہ تو عین المال ( Real estate ) ہے ۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں ، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں ۔ لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں ۔ آخر کار حضرت عمر نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا ۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں : میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے ۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں ، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں ۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے ۔ خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہی ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں ۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو ، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں ۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان ، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں ۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں ، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں ، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں ۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں ، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ ( ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو ۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک ، شام ، الجزیرہ ، کوفہ ، بصرہ ، مصر ، ان سب میں فوجیں رہنی چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟ یہ بحث دو تین دن چلتی رہی ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کیا ، لیکن فیصلہ نہ ہوسکا ۔ آخر کار حضرت عمر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں ، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے ، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے ، ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ، تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے ۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا ۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے ، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے ( کتاب الخراج لابی یوسف ، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص ) ۔ اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے ، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے ، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے ، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے ، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی ۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانونی پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے ۔ اقر اھل السواد فی ارضیھم و ضرب علی رؤسھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق ( ص 57 ) ۔ حضرت عمر نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا ، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا ۔ اذا اقرّ الامام اھل العَنْوۃ فی ارضھم توارثوھا و تبایعوھا ( ص 84 ) ۔ امام ( یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا ) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے ۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے ، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ( ابوعبید ، ص49 ۔ ابویوسف ص 28 ) ۔ حضرت عمر کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی ۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے ۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں ( یعنی مہاجرین و انصار ) ۔ رأیٰ عمران اصل الارض للمسلمین ، عمر کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مالک مسلمان ہیں ( ابو عبید ، ص 74 ) ۔ اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے : وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو ۔ وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا ۔ وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں ۔ وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگر ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا ۔ سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں ۔ سابق حکومتوں کی املاک ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع ، ج7 ، ص 116 ۔ 118 ۔ کتاب الخراج ، یحیٰ بن آدم ، ص 22 ۔ 64 ۔ مغنی المحتاج ، ج 3 ص 93 ۔ حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ، ج 2 ، ص 190 ۔ غانیۃ المنتبہیٰ ، ج 1 ، ص 467 ۔ 471 ) ۔ یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں ، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے ۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت ( فقہاء کی اصطلاح میں امام ) کو اختیار ہے ، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے ، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کے مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے ۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی ۔ ( بدائع الصنائع ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ شرح العنایہ علی الہدایہ ۔ فتح القدیر ) ۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے ( یحیٰ بن آدم ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں ۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی ۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں ، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی ( حاشیہ الدسوقی ) ۔ حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا ، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے ۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگرچہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا ( غایۃ المنتہیٰ ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے ) ۔ شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں ، اور تمام اموال غیر منقولہ ( اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا ( مغنی المحتاج ) ۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے ۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البجلی سے ، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے ، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا ۔ چنانچہ 2 ۔ 3 ۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا ۔ پھر حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مسئول لکنتم علیٰ ما جعل لکم ، واری الناس قد کثروا افادیٰ ان تردہ علیہم ، اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دار اور جوابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا ۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے ، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو ۔ حضرت جریر نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمر نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی ، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے ، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا ، حضرت عمر ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے ، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا ۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے ۔ اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت السواد بینکم اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا ۔ رہی وہ بات جو حضرت علی کی طرف منسوب کی جاتی ہے ، تو اس پر ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :21 اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں ، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے ، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں ، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں ۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے ۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں ۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں کسی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے ۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو ۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے ، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے ۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں ۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی ۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی ، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟ انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں ۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو ، اور وہ یہ ہے کہ لا اجد فی نفسی غلًّا لاحد من المسلمین ، ولا احسدہ علی خیرٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ ۔ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو ، اس سے حسد کرتا ہوں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے ۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے ، یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے ۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے ، اور بغض و نفرت ، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز ۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے ، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے ، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے ۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے ، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی ۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے ۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے ، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں ۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے ۔ اول مہاجرین ، دوسرے انصار ، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان ۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات 11 تا 17 میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے ۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی ، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے ۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان ، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو ، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟ امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں ( احکام القرآن لابن العربی ۔ غایۃ المنتہیٰ ) ۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے ، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں ۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے ۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے ، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو ۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو ، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں کیا ہونا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اس سے ایک تو وہ حضرات مراد ہیں جو مذکور صحابہؓ کے بعد پیدا ہوئے، یا مسلمان ہوئے، ان کو بھی اس مالِ فییٔ سے حصہ دیا جائے گا، دوسرے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مالِ فییٔ کا جو حصہ بیت المال میں محفوظ رہے گا، وہ آنے والے مسلمانوں کی ضروریات میں استعمال ہوگا۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے اسی آیت کی بنا پر عراق کی زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے اُن پر خراج عائد کردیا تھا، تاکہ وہ بیت المال میں جا کر تمام آنے والوں کے کام آئے۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لئے اہلِ علم ’’معاف القرآن‘‘ اور بندے کی کتاب ’’ملکیتِ زمین کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ صحابہ کے ذکر کے بعد یہ تابعین کا ذکر ہے جن لوگوں نے حالت اسلام میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا۔ اور پھر حالت اسلام پر مرتے دم تک قائم رہے وہ صحابہ کہلاتے ہیں اسی طرح جن لوگوں نے صحابہ کو دیکھا وہ تابعین کہلاتے ہیں اور جن لوگوں نے تابعین کو دیکھا وہ اتباع تابعین کہلاتے ہیں۔ ٢٢٠ ہجری تک اتباع تابعین کا زمانہ دینداری کا رہا پھر فرقہ معتزلیوں اور فلسفیوں کا زور ہوگیا اور لوگوں کے اعتقاد اور قول فعل سلف کے موافق نہیں رہے۔ اس لئے اگرچہ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ آیت کی تفسیر فقط تابعیوں تک کے عہد سے کی جائے لیکن صحیح ١ ؎ بخاری وغیرہ میں ابو سعید خدری کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس لشکر اسلام میں صحابہ اور تابعین کے بعد اتباع تابعین میں سے کوئی شخص ہوگا تو اس لشکر کو اللہ تعالیٰ دشمن پر فتح دے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ٢٢٠ تک کے ابتدائی عہد اتباع تابعین میں بھی زمانہ سلف کی سی خیر و برکت باقی تھی۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ حضرت خیر و برکت کون سے لوگوں کے زمانہ میں زیادہ ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے تو خیر و برکت کا وہ زمانہ ہے جس میں میں خود موجود ہوں ‘ پھر اس کے بعد کا دوسرا زمانہ اور پھر تیسرا۔ حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث سے حضرت ابو سعید خدری (رض) کی اوپر کی حدیث کی اور عمران ٣ ؎ بن حصین کی خیر القرون قرنی کی حدیث کی پوری صراحت ہوجاتی ہے کہ یہ سب حدیثیں اتباع تابعین تک کے ابتدائی عہد کو شامل ہیں۔ ہاں اتنی بات ہے کہ صحابہ (رض) کے بعد کے دونوں عہدوں میں نیک باتیں زیادہ تھیں اور بری باتیں کم۔ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کے عہد کی طرح کی خیر و برکت تو صحابہ کے بعد کے دونوں عہدوں میں نہ تھی لیکن پھر بھی ٢٢٠ ہجری کے مابعد کا ساحال تابعیوں کے سالم عہد اور تبع تابعین کے ابتدائی عہد میں نہ تھا۔ دو سو بیس برس کے بعد وہی حالت ہوگئی۔ جو عمران بن حصین کی بخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ امانت میں خیانت کرنا جھوٹی گواہی کا دینا اور اس قسم کی باتیں لوگوں میں پھیل گئیں۔ حاصل یہ ہے کہ آیت کی تفسیر تابعیوں اور ابتدائی عہد کے تبع تابعیوں سے کی جائے تو وہ تفسیر ان صحیح حدیثوں کے موافق ہے۔ صحابہ (رض) کے زمانے میں کچھ ایسی لڑائیاں ہوئیں جن میں طرفین سے ہزارہا صحابہ کے خون سے تلواریں لال ہوگئیں۔ مثلاً فقط ٣٦ ہجری کی حضرت معاویہ (رض) اور حضرت علی (رض) کی صفین کی لڑائی میں ستر ہزار سے زیادہ آدمی کام آئے۔ اب لڑائیوں میں صحابہ جو کام آئے آخر وہ سب تابعین کے بڑے بوڑھے تھے ‘ اس لئے صحیح حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض تابعی لوگ اپنے بڑے بوڑھے کے انتقام کے طور پر اپنے بڑے بوڑھوں کے قاتل صحابہ کو کبھی کبھی کچھ برا بھلا کہہ اٹھتے تھے۔ چناچہ صحیح مسلم میں عروہ بن زبیر (رض) کی روایت سے حضرت عائشہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو صحابہ کے لئے مغفرت کی دعا کا حکم دیا ہے افسوس ہے کہ وہی لوگ صحابہ کو برا کہتے ہیں۔ اس قسم کی اور بھی روایتیں ہیں۔ اللہ کے علم غیب کے آگے تو یہ آئندہ کی سب باتیں عیاں تھیں۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے تابعیوں کے ذکر میں فرمایا کہ قابل تعریف وہی تابعین ہیں جو صحابہ کو اپنا دینی بھائی سمجھ کر اپنی مغفرت کی دعاء میں ان کے لئے بھی مغفرت کی دعا کرتے ہیں پھر فرمایا اپنے بڑوں کی پچھلی حالت یاد کر کے بعض صحابہ کے حق میں خالص دل سے مغفرت دعاء ان کی زبان پر نہ آئے تو ان کو یہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ یا اللہ پہلے لوگوں کی طرف ہمارے دل میں کچھ بیر اور بغض ہو تو اپنی مہربانی اور رحمت سے اس کو ہمارے دل سے نکال دے۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا بڑا ثبوت ہے کیونکہ آئندہ کی جن باتوں کا ذکر اس آیت میں تھا اسی طرح ان باتوں کا ظہور ہوا۔ یہی ثبوت ان صحیح حدیثوں میں بھی ہے جن میں آپ نے آئندہ پیدا ہونے والے لوگوں کو صحابہ کی بد گوئی سے منع فرمایا ہے اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کے مضمون پر غور کرنے سے فرقہ شیعہ کے ان لوگوں عبرت پکڑنی چاہئے جنہوں نے صحابہ کی برائی کو اپنا مذہب قرار دے رکھا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٥١٥ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونہم الخ ص ٣١٠۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب فضائل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٥١٥ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:10) جاء وا : ماضی جمع مذکر غائب وہ آئے۔ مجیء (باب ضرب) مصدر۔ بعدھممضاف مضاف الیہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع مہاجرین و انصار ہیں۔ یعنی مہاجرین و انصار کے بعد۔ ان سے وہ صحابہ کرام مراد ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ تمام مومن بھی مراد ہیں جو صحابہ کے بعد قیامت تک آنے والے ہیں۔ (تفسیر قرطبی) سبقونا : سبقوا ماضی جمع مذکر غائب۔ سبق (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی سبقت لے جانا۔ آگے نکل گئے ۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ وہ ہم سے سبقت لے گئے۔ غلا : کینہ۔ حسد، بغض۔ غل یغل (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ کسی کے متعلق دل میں کینہ رکھنا۔ غلل مادہ۔ اس مادہ سے باب افعال سے اغلال بمعنی خیانت کے ساتھ متصف ہونا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ وما کان لبنی ان یغل (3:161) اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں۔ الغلل۔ کے اصل معنیٰ کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں۔ اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان بہہ رہا ہو۔ لہٰذا غل (طوق) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی کے اعضاء کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کی جمع اغلال آتی ہے۔ اور غل فلان کے معنی ہی اسے طوق سے باندھ دیا گیا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ خذوہ فغلوہ (69:31) اسے پکڑو اور طوق پہنا دو ۔ للذین امنوا۔ ایمان والوں کے لئے۔ ان کے متعلق جو ایمان والے ہیں ۔ مراد اس سے وہ مہاجرین و انصار ہیں جو بعد کے آنے والوں سے پہلے ایمان لائے۔ رء وف رافۃ سے بروزن فعول صفت مشبہ کا صیغہ ہے مہربان۔ شفقت کرنے والا۔ والذین جاء وا من بعدھم ۔۔ اس کا عطف للفقراء المھاجرین پر ہے۔ اس آیت سے بتادیا کہ اموال فئی میں مہاجرین و انصار کے علاوہ یہ لوگ بھی حقدار ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو قیامت تک آئیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ان سے مراد بعد میں ہجرت کر کے آنے والے صحابہ بھی ہیں اور قیامت تک آنے والے وہ مسلمان بھی جو صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں۔ 1 پہلے ایمان لانے والوں میں صحابہ کرام بذریعہ اولی شامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اسلام کا دعویٰ کرنیکے باوجود صحابہ کرام کی پوری جماعت کے لئے مغفرت اور روضان کی دعا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے اس آیت میں دیئے ہوئے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اگر وہ اپنے دل میں ان کی طرف سے کینہ رکھتا ہے تو وہ دراصل شیطان کا پیروی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور امت محمدیہ کے بہترین طبقہ کے خلاف اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے سے پہلے اپنی اس روش سے توبہ نہیں کرتا تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ حرص طبعی و جبلی پر ملامت نہیں، البتہ اس کے مقتضائے نا مشروع پر عمل کرنا مذموم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مال فئی میں بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی حصہ رکھنا چاہیے اور پہلے فوت شدگان کے لیے دعا کرنی چاہئے۔ مالِ فئی میں ان لوگوں کا حصہ بھی شامل ہے جو ہجرت میں پہل کرنے والوں کے بعد ایمان لانے والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق اور محبت ان مومنوں کے ساتھ ہے جو ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ بعد میں مسلمان ہونے والے نہ صرف فوت ہونے والے مومنوں کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ان کے لیے ان الفاظ میں دعا گو ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمارے ان بھائیوں کی بشری کمزوریوں کو معاف فرمادے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسد و کینہ سے محفوظ فرما۔ اے ہمارے رب ! تو بڑا ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ دین اسلام کی یہی تعلیم نہیں کہ مال فئی میں بعد میں آنے والوں کا حصہ ہونا چاہیے، دین کی یہ بھی تعلیم ہے کہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے ان ایمانداروں کے لیے بھی بخشش کی دعا کرنی چاہئے جو پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ان کی خدمات سے ان کے بعد آنے والے مسلمان مستفید ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی موجود مسلمانوں کے لیے بھی دعا ہونی چاہیے۔ کہ اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسدوکینہ سے محفوظ فرما بیشک تو بڑا شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے ‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے ؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے، پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور انہیں پر پکڑتا بھی ہے ؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا ! اب وہ جو چاہے کرے۔ “ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ ) “ فوت شدگان کے بارے میں حضرت نوح اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں : (رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ) (نوح : ٢٨) ” میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے۔ “ (اَللّٰہُمّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَاءِبِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِیمَانِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِسْلاَمِ اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ ) (رواہ ابوداؤد : باب الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ قال البانی ہذا حدیث صحیحٌ) ” اے اللہ ہمارے زندہ اور فوت شدگان اور چھوٹے، مذکر اور مؤنث جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں سب کو معاف فرما۔ اے اللہ ! ہم میں جو بھی زندہ رہے تو اسے ایمان پر قائم و دائم رکھنا اور ہم میں سے جس کو بھی موت آئے اسے اسلام پر موت آئے۔ اے اللہ ! ہمارے اجر کو ضائع مت کرنا اور نہ ہی ہمیں بعد میں کوئی ذلت اٹھانی پڑھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے نیک بندے اپنے رب سے اپنے اور اپنے سے پہلے فوت شدگان کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ ٢۔ ایماندار لوگ دوسرے ایمانداروں کے بارے میں حسد وبغض سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٣۔ ایمانداروں کا عقیدہ ہے کہ ان کا رب بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین .................... رءوف رحیم (٩٥ : ٠١) ” جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “ یہ تیسری تصویر ہے جو نہایت پاکیزہ ، راضی رضا اور سمجھنے والے لوگوں کی تصویر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہاجرین وانصار کے بعد آئے۔ اس آیت کے نزول کے وقت وہ تو مدینہ میں موجود نہ تھے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ازلی علم میں آچکے تھے جو زمان ومکان کے حدود سے وراء ہے اور یہ دنیا میں بعد میں آنے والے تھے۔ اللہ نے پیشگی ان کی صفات بیان کردی کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ سلف صالحین کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور وہ تمام مومنین کے لئے اپنے دل صاف رکھنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ان کے دل صاف ہوں۔ کیونکہ دونوں کے درمیان ایمانی رشتہ موجود ہے۔ وہ دونوں پر اللہ کی رحمت ہوئی ہے کہ ان کو مومن بنایا ہے۔ اور اللہ تو رؤف رحیم ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کا چہرہ کس قدر روشن ہے اور وہ اس کائنات میں کس قدر روشنی بکھیرنے والی امت ہے۔ اس کا رشتہ ایمانی اس قدر مضبوط ہے کہ اس کا آغاز اس کے انجام سے منسلک ہے اور بندھا ہوا ہے۔ اور اس کا آخری حصہ اول حصے سے بندھا ہوا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ضامن ، کفیل ، محب اور رحم کرنے والے ہیں۔ اور بلالحاظ قوم ونسب ، اور بلالحاظ دوری زمان ومکان وہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ امت مسلمہ مسلمانوں کے شعور پر مسلسل چھائی رہی۔ یوں اہل ایمان قیامت تک گزشتہ لوگوں۔ الذین ................ بالایمان (٩٥ : ٠١) کو یاد کرتے رہیں اور اس امت کو مسلمان اس طرح یاد کرتے ہیں جس طرح کوئی اپنے بھائیوں کو یاد کرتا ہے ، نہایت اعزاز ، عزت اور محبت میں ، قدماء نے آنے والوں کا خیال رکھا اور آنے والے اگلوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ سب ایک صف ہیں ، ایک ہی رجمنٹ ہیں ، اور زمانے گزر گئے ہیں۔ ایک ہی جھنڈا ہے۔ ایک ہی ہدف ہے۔ ایک ہی افق ہے۔ اور ان کا ایک ہی رب ہے جو رؤف ورحیم ہے۔ یہ اسی روشن تصویر ہے جس سے آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔ لیکن وہ ایک زندہ حقیقت کی طرح کھڑی ہے۔ اور یہ امت انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ ایک نہایت شریفانہ کریمانہ مثال پوری انسانیت کے لئے۔ ایسی خوبصورت مثال جس حد تک کوئی تصور کرسکتا ہے۔ یہ تصویر اس وقت بہت ہی خوبصورت لگتی ہے جب ہم اپنے دور کی ایک امت کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ کریں۔ ہمارے دور کی یہ امت کارل مارکس کی انجیل ” کیپٹل “ کی اساس پر وجود میں آئی ہے۔ یہ ایک ایسی امت ہے جس کے دلوں میں بغض وعداوت جوش مارتی ہے۔ طبقات ایک دوسرے کے خلاف لڑتے اور کشت وخون کرتے نظر آتے ہیں اس امت کے تصور کے مطابق انسانی تاریخ جنگ اور کشمکش اور نفرت کی تصویر ہے اور پھر اس امت کو تمام اہل دین کے ساتھ نفرت ہے۔ ذرا دوبارہ امت محمدیہ اور امت کارل مارکس کے درمیان تقابل کیجئے۔ امت محمدیہ انسانیت کو اس کے اعلیٰ مراتب تک بلند کرتی ہے ۔ جبکہ یہ دوسری امت انسانیت کو ذلت کی انتہائی پستیوں تک گراتی ہے۔ امت محمدیہ کی تصویر یہ ہے کہ زمان ومکان کی حدود سے ماوراء ، نسل اور وطن کی حد بندیوں سے آزاد نسب اور خاندان کے محدد دائروں سے باہر ، تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا ضامن ، کفیل ، دوست اور واقف کار بناتی ہے اور سب کو ایک اونچے ہدف کی طرف بلند کرتی ہے اور ہدف ہے اللہ کی بندگی .... ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز .... جن کے دل صاف ہیں اور بگلوں پچھلوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہے ایک دوسرے کے ہمدرد ہیں اور ایک دوسرے کے حوالے سے دل صاف ہیں۔ جبکہ دوسری تصویر یہ ہے کہ اس میں لوگ ایک دوسرے کو ذبح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بعض دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں ، ان کا استحصال کرتے ، سازشیں کرتے ہیں اس کے مقابلے میں دوسرے ان سے بغض ، حسد اور نفرت کرتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ عبارت ہے ، اظہار نفرت سے۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں بھی نفرت ہے۔ ان کے نزدیک نماز بھی دراصل ایک جال ہے۔ اور مذہب ایک دھوکہ ہے جس کے ذریعہ مالدار لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اور ان دو تصاویر کو دیکھتے ہوئے اس آیت کو پھر پڑھئے : ربنا اغفرلنا ................ رءوف رحیم (٩٥ : ٠١) ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، اے ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے “۔ یہ ہے قافلہ ایمان اور یہ ہے دعائے اہل ایمان۔ یہ نہایت ہی معزز قافلہ ہے اور یہ نہایت ہی کشادہ آدمی کی دعا ہے۔ اس خوبصورت تصویر کشی اور اسے نہایت ہی بلند مقام پر نور کے فریم میں نصب کرنے کے بعد ، اب مضمون اس موضوع پر آتا ہے جس کے بارے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اب یہاں ایک دوسرے گروہ کی کریمہ تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ ہے گروہ منافقین :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مہاجرین و انصار کے بعد آنے والے مسلمانوں کا بھی اموال فئی میں استحقاق ہے اكثر علماء کے نزدیک یہ بھی المہاجرین پر معطوف ہے اور اس میں بعد میں آنیوالے حضرات کا اموال فئی میں حصہ بتایا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مہاجرین وانصار کے بعد دیگر مسلمان جو قیامت تک آئیں گے ان سب پر مال فئی میں سے خرچ کیا جائے۔ مفسرابن کثیر نے تفسیر ابن جریر سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آیت شریفہ ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ ﴾ کی آخر تک تلاوت کی، پھر فرمایا کہ یہ صدقات ان لوگوں کے لئے ہیں (جن کا آیت میں ذکر ہوا) اس کے بعد آپ نے آیت کریمہ ﴿ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ ﴾ آخر تک تلاوت کی پھر فرمایا کہ اموال غنیمت ان لوگوں کے لئے ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں پھر آپ نے ﴿ مَاۤ اَفَآء اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ ﴾ سے ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ تک تلاوت کی اور یوں فرمایا کہ یہ آیات تمام مسلمین کو شامل ہیں جو بھی کوئی مسلمان ہوگا اموالِ فئی میں اس کا حق ہوگا پھر فرمایا اگر میں زندہ رہ گیا تو ایک بکریاں چرانے والا جو سردحمیر (ایک قبیلہ کا نام جو مدینہ منورہ سے دور رہتا تھا) میں چرا رہا ہوگا اپنے حصہ کو وہیں پالے گا، اس کے حاصل کرنے میں اس کی پیشانی میں پسینہ تک نہ آیا ہوگا۔ (ابن کثیر صفحہ ٣٤٠: ج ٤) مفسر ابن کثیر (رض) نے آیت بالا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ : ھولاء ھم الثالث ممن یستحق فقراء ھم من مال الفیٔ وھم المھاجرون ثم الانصار۔ یعنی اموال فئی کے مستحقین کی یہ آخری قسم ہے تینوں قسموں میں سے ان میں سے جو فقراء ہوں گے مال فئی کے مستحق ہوں ہوا کہ اموال فئی میں روافض کا بالکل حصہ نہیں جو حضرات مہاجرین و انصار کا اتباع تو کیا کرتے ان سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں۔ وسیجیئی من قول الامام مالک انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ تو اموال فئی کے مستحقین کا بیان ہوا آیت کریمہ میں بعد میں آنے والے مومنین کی دو دعاؤں کا بھی تذکرہ فرما دیا ہے۔ پہلی دعاء یہ ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہماری بھی معفرت فرما دے اور جو ہمارے بھائی ہم سے پہلے باایمان گزر گئے ان کی بھی مغفرت فرمادے۔ “ معلوم ہوا کہ اپنے لئے مغفرت کی دعا کرنے کے ساتھ ان مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دعاء مغفرت کرنا چاہئے جو اس دنیا سے گزر گئے دعاء مغفرت سے مغفرت کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور رفع درجات کا بھی۔ دوسری دعاء یہ ہے کہ ” اے اللہ ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی کھوٹ پیدا نہ فرما “ ، لفظ غل جس کا ترجمہ کھوٹ کیا گیا ہے بہت عام ہے کینہ، بعض، حسد، جلن یہ لفظ ان سب باتوں کو شامل ہے اس میں ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ فرمایا ہے یعنی جو بھی اہل ایمان گزر گئے دنیا سے جا چکے اور جو موجود ہیں اور جو آئندہ آئیں گے اللہ تعالیٰ ان سب کی طرف ہمارے دلوں کو صاف اور پاک رکھے کسی سے کینہ نہ ہو اور نہ کسی کی طرف سے دل میں برائی لائی جائے۔ حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کی مذمت حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ آپس کے بگاڑ سے بچو، کیونکہ یہ مونڈ دینے والی چیز ہے۔ (رواہ الترمذی) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پرانی امتوں کا مرض چپکے چپکے تمہاری طرف چل کر آگیا ہے وہ مرض حسد اور بغض ہے یہ مونڈ دینے والی صفت ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیتی ہیں بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہیں۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ہر اس شخص کے بارے میں جس کے دل میں مسلمان بھائی سے دشمنی ہو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمان ہوتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کرلیں۔ (رواہ الترمذی) یہ سب روایات مشکوۃ المصابیح صفحہ ٤٢٨ پر مذکور ہیں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جو فرمایا کہ پرانی امتوں کا مرض تمہارے اندر چل کر آگیا ہے یہ اس زمانہ میں تھوڑا ہی سا تھا۔ لیکن اب تو اسلام کا دعویٰ کرنے والوں میں لڑائیاں بھی ہیں بغض بھی ہے ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہے، مار کاٹ بھی ہے اور قتل و قتال بھی، ان حالات میں سچے دل سے کیا دعاء نکل سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اہل ایمان کی طرف سے کوئی کھوٹ نہ ہو، دلوں میں کھوٹ بھرا ہوا ہے اور اسے نکالنا بھی نہیں چاہتے۔ جب جمع ہوں گے غیبتیں کریں گے، تہمتیں دھریں گے مسلمانوں کے عیب اچھالیں گے ان حالات میں سینہ کیسے صاف رہ سکتا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص میرے صحابہ (رض) سے متعلق کوئی بات مجھے نہ پہنچائے (جس سے دل برا ہو) کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ (اپنے گھر سے) ان کی طرف اس حال میں نکل کر آؤں کہ میرا سینہ باسلامت ہو۔ (رواہ الترمذی عن عبداللہ بن فضل، ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روافض کی گمراہی : اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرات مہاجرین و انصار کے لئے دعا کرنے والوں کے مدح فرمائی لیکن روافض کا یہ حال ہے جو قرآن کریم کو اللہ نازل کی ہوئی کتاب مانتے ہی نہیں بلکہ یوں کہتے ہیں کہ وہ امام مہدی کے پاس ہے جو غار میں چھپے ہوئے ہیں حضرات صحابہ کرام (رض) کے بغض سے ان کے سینے بھرے ہوئے ہیں اپنے ایمان کی تو فکر نہیں اور تین چار کے علاوہ باقی صحابہ کو کافر کہتے ہیں ان کے دلوں میں حضرات صحابہ سے بھی بغض ہے اور ان کے طریقہ پر چلنے والوں سے بھی۔ تفسیر ابن کثیر (ج ٤: ص ٣٣٩) میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کے لئے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا لیکن لوگوں نے انہیں برا کہنا شروع کردیا پھر انہوں نے آیت کریمہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ آخر تک تلاوت فرمائی۔ حضرت عامر شعبی (رض) نے مالک بن مغفل (رح) سے فرمایا کہ ایک بات میں یہود روافض سے بڑھ گئے جب یہودیوں سے پوچھا گیا کہ تم میں سب سے بڑھ کر کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا حضرت موسیٰ کے اصحاب ہم میں سب سے بہتر ہیں اور نصاریٰ سے پوچھا گیا کہ تم میں سب سے بہتر کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری سب سے بہتر ہیں، جب روافض سے پوچھا گیا کہ تمہارے دین میں سب سے برے لوگ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سب سے برے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے استغفار کرنے کا حکم ہے اور وہ انہیں برا کہتے ہیں۔ (معالم التنزیل صفحہ ٣٢١: ج ٤) مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک (رح) نے اس آیت کریمہ سے کیسا اچھا استنباط کیا انہوں نے فرمایا کہ کسی رافضی کا اموال فئی میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ قرآن نے جن لوگوں کو حضرات مہاجرین اور انصار کے بعد اموال فئی کا مستحق بتایا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد دنیا میں آئے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعاء کی روافض دعا کے بجائے ان حضرات کو برا کہتے ہیں لہٰذا انہیں اموال فئی میں کوئی استحقاق نہیں کیونکہ ان میں وہ صفت نہیں ہے جو صفت اللہ تعالیٰ نے مستحقین فئی کی بیان فرمائی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” والذین جاء وا من بعدھم “ یہ بھی ” الفقراء “ پر معطوف ہے۔ مہاجرین و انصٓر (رض) کے بعد جو اہل ایمان مستحق ہوں گے ان کو بھی اس مال سے حصہ دیا جائے لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ مہاجرین وانصار (رض) کے بغض سے ان کے دل پاک ہوں بلکہ ان کی محبت سے لبریز ہوں اور وہ ہمیشہ مہاجرین و انصار کو دعاء خیر سے یاد کریں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام (رض) کے بغض سے دل کو صاف رکھنا اور ان کے ھق میں دعاء کرنا بعد والوں کے لیے لازم ہے۔ یہاں تک کہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں جس شخص کے دل میں کسی بھی صحابی کا بغض ہوگا مال فیئ میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وفی الایۃ حث علی الدعاء للصحابۃ و تصفیۃ القلوب من بغض احد منہم (روح ج 28 ص 54) ۔ وما احسن ما استنبط الامام مالک (رح) من ھذہ الایۃ الکریمۃ ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفیئ نصیب لعدم اتصافہ بما مدح ھؤلاء فی قولہم ربنا اغفرلنا ولاخواننا الخ “ (ابن کثیر ج 4 ص 339) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور وہ لوگ بھی اس مال فئے کے حقدار ہیں جوان انصار و مہاجرین کے بعد آئے اور جو اپنے پروردگار سے یوں دعا کیا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دیجئے جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت کرچکے ہیں اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ بغض اور عداوت کو جگہ نہ دے۔ اے ہمارے پروردگار بیشک تو بڑی شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ آیت سب مسلمانوں کے واسطے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد تابعین ہیں بعض نے کہا تبع تابعین بعض نے ان کے بھی بعد کے لوگ مراد لئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ متاخرین متقدمین کے فضل اور بزرگی کے معترف رہیں اور آپس میں ایک مسلمان سے بیر نہ رکھے متقدمین کو اچھا سمجھیں اور معاصرین سے محبت کریں آیت میں یہ قید ترغیب کے لئے ہے کہ بعد کے لوگوں کو ایسا ہوناچاہیے یہ مطلب نہیں کہ جو ایسا نہ ہو وہ فئے کا حقدار نہیں اور مصرف فئے نہیں حضرت عمر (رض) کا قول مشہور ہے۔ لیس احد الا لہ فی المال حق کہ کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے کہ جس کا اس مال میں حق نہ ہو یہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو مال فئے میں مالکانہ تصرف حاصل تھا وہ آپ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ البتہ مصارف خیر کا ذکر موجود ہے اب زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی حاکم وقت یا امام وقت ہو تو اس کو حاکمانہ تصرف حاصل ہوگا کہ اگر اس کے عہد امامت میں مال فئے حاصل ہو تو وہ ان مصارف خیر میں اس مال کی تقسیم کردے۔ لعل اللہ یحد شا بعد ذلک الزمان امراً وھوالمعین وھو المستعان ۔ اب پھر ان منافقین کا ذکر فرمایا جنہوں نے یہود کو اپنی مدد کا وعدہ دے کر دھوکا دیا تھا اور بنی نضیر کو اپنی مدد کا یقین دلا کر ابھارا تھا۔