Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 15

سورة الحشر

کَمَثَلِ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَرِیۡبًا ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿ۚ۱۵﴾

[Theirs is] like the example of those shortly before them: they tasted the bad consequence of their affair, and they will have a painful punishment.

ان لوگوں کی طرح جو ان سے کچھ ہی پہلے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اور جن کے لئے المناک عذاب ( تیار ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are like their immediate predecessors; they tasted the evil result of their conduct, and for them a painful torment. referring to the Jewish tribe of Bani Qaynuqa`, according to Ibn `Abbas, Qatadah and Muhammad bin Ishaq. The Parable of the Hypocrites and the Jews Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 اس سے بعض نے مشرکین مکہ مراد لیے ہیں جنہیں غزوہ بنی نصیر سے کچھ عرصہ قبل جنگ بدر میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی یعنی یہ بھی مغلوبیت اور ذلت میں مشرکین ہی کی طرح ہیں جن کا زمانہ قریب ہی ہے بعض نے یہود کے دوسرے قبیلے بنو قینقاع کو مراد لیا ہے جنہیں بنو نضیر سے قبل جلا وطن کیا جا چکا تھا جو زمان ومکان دونوں لحاظ سے ان کے قریب تھے۔ ابن کثیر۔ 15۔ 2 یعنی یہ وبال جو انہوں نے چکھا، یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے جو نہایت دردناک ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] تھوڑی مدت پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جس قدر ذلت و خواری سے نکالا گیا وہ یہ یہود بنی نضیر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور اس کی تفصیل پہلے اسی سورة کی آیت ٢ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور کافر تھوڑی مدت پہلے جنگ بدر میں اپنی کرتوتوں کی سزا پاچکے ہیں۔ یہ تو انہیں دنیا میں سزا ملی اور آخرت میں دردناک عذاب تو جوں کا توں باقی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ۔۔۔۔:” کمثل الذین “ سے پہلے مبتداء محذوف ہے : ’ ’ ای مثلھم “ یعنی ان بنو قریظہ کا حال جنہیں منافقین لڑنے پر ابھار رہے ہیں اور اپنی ہر طرح کی مدد کا یقین دلا رہے ہیں ان لوگوں کے حال جیسا ہے جو ان سے پہلے قریب ہی تھے۔ مراد ان سے بنو نضیر ہیں جنہوں نے اپنی بد عہدی کا وبال چکھا ، وہ اپنی تمام تر قلعہ بندیوں ، فوجی تیاریوں ، بہادری کے دعوؤں اور منافقین و مشرکین کی امداد کے وعدوں کے باوجود پہلی چوٹ بھی نہ سہ سکے اور اپنی زمینیں ، باغات اور مکانات مسلمانوں کے لیے چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہو کر جلا وطن ہوگئے اور ان کے لیے آئندہ بھی دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِ‌يبًا (...like those who were before them in near past ....59:15) This refers to the case of Banu Nadir, and Mujahid (رح) says that the phrase الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِ‌يبًا |"those who were before them in near past |" refers to the Quraish of Makkah who sustained an ignominious defeat at Badr. According to Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) it refers to Banu Qainuqa&, a Jewish tribe, who were punished for their mischief and machinations after Badr. Banu Nadir were banished after the battles of Badr and &Uhud, and Banu Qainuqa& had been banished after Badr. At Badr seventy thousand pagan Arabs were killed, and the survivors returned home disgracefully. Since pagans of Makkah and Banu qainuqa&, both of them faced a deterrent punishment after Badr, both can be the purport of the words, who were before them in the past, and of: ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِ‌هِمْ...tasted the evil consequence of their conduct...[ 59:15] |" The Expulsion of Banu Qainuqa& As stated earlier, when the Holy Prophet migrated from Makkah and settled in Madinah, he concluded a peace treaty with the Jewish tribes of Madinah, and of its neighbourhood. One of its conditions stipulated that they would not fight the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Muslims, or assist their enemies. Banu Qainuqa& was a party to this peace agreement and was the first one to break the pledged word, within a few months. On the occasion of the battle of Badr, they connived with the Quraish of Makkah, and some incidents of their connivance came out in the open. On that occasion, the following verse was revealed وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ (And if you apprehend a breach from a people, then, throw [ the treaty ] towards them being right forward...[ 8:58] |". Banu Qainuqa`, through their treachery, had already broken the treaty. Therefore, The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) declared war against them and the banner of jihad was given in the hands of Sayyidna Hamzah (رض) and appointing Sayyidna Abu Lubabah (رض) his deputy in the city of Madinah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself joined the fighting force. Having seeing the Muslim army, the Jews shut themselves up in the fortress. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) laid a siege to it for fifteen days, and the Jews had no choice but to surrender. Eventually, Allah cast terror into their hearts and they realized that fighting would not pay off. So, they opened the gate of the fortress and expressed their willingness to abide by the decision of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) decision was to have the Jewish men executed. But ` Abdullah Ibn &Ubayy, the hypocrite, intervened and pleaded to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to pardon them. In the end, it was decided that they should leave the area and go into exile and their belongings would be the spoils falling to the lot of the Muslims. Accordingly, they left Madinah and proceeded to settle in an area called Adhra` at in Syria. In compliance with the law of spoils, one-fifth was retained for Bait-ul-mal [ public treasury ] and the rest of the spoils was disbursed among the fighters. After the battle of Badr, this was the first one-fifth of the booties that was retained for the public treasury. This incident took place on Monday, 15th Shawwal, in the 2nd year of Hijrah - twenty months after the migration.

معارف و مسائل (آیت) كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيْبًا الخ، یہ بنو نضیر کی مثال کا بیان ہے اور الذین من قبلہم کی تفسیر میں حضرت مجاہد نے فرمایا کہ کفار اہل بدر مراد ہیں اور حضرت ابن عباس نے فرمایا بنو قینقاع (قبیلہ یہود) مراد ہیں اور دونوں کا انجام بد اور مقتول و مغلوب اور ذلیل و خوار ہونا اس وقت واضح ہوچکا تھا کیونکہ بنو نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوہ بدر و احد کے بعد واقع ہوا اور بنو قینقاع کا واقعہ بھی بدر کے بعد پیش آ چکا تھا، بدر میں مشرکین عرب کے ستر سردار مارے گئے اور باقی بڑی ذلت و خواری کے ساتھ واپس ہوئے اور بقول ابن عباس یہ مراد ہیں تو مطلب آیت کا واضح ہے کہ ان کے بارے میں جو آیت میں فرمایا : ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ، یعنی انہوں نے اپنے کرتوت کا بدلہ چکھ لیا، یہ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں آنکھوں کے سامنے آ گیا، اسی طرح اگر الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے مراد یہود ہی کا قبیلہ بنو قینقاع ہو تو ان کا واقعہ بھی ایسا ہی عبرتناک ہے۔ بنوقینقاع کی جلا وطنی : واقعہ یہ تھا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ کے آس پاس جتنے قبائل یہود کے تھے سب کے ساتھ ایک معاہدہ صلح کا ہوگیا تھا جس کی شرائط میں یہ داخل تھا کہ ان سے کوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے کسی مخالف کی امداد نہ کرے گا، ان معاہدہ کرنے والوں میں قبیلہ بنو قینقاع بھی شامل تھا، مگر اس نے چند مہینوں کے بعد ہی عذر و عہد شکنی شروع کردی اور غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کے ساتھ خفیہ سازش و امداد کے کچھ واقعات سامنے آئے، اس وقت یہ آیت قرآن نازل ہوئی (آیت) (واما تخافن من قوم خیانتہ فانبذ الیھم علے ٰ سواء) یعنی ” اگر (معاہدہ اور صلح کے بعد) کسی قوم کی خیانت کا خطرہ لاحق ہو تو آپ ان کا معاہدہ صلح ختم کرسکتے ہیں “ بنو قینقاع اس معاہدہ کو اپنی غداری سے خود توڑ چکے تھے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور علم جہاد حضرت حمزہ کو عطا فرمایا اور مدینہ طیبہ کے شہر پر حضرت ابولبابہ کو اپنا خلیفہ مقرر کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی تشریف لے گئے، یہ لوگ مسلمانوں کا لشکر دیکھ کر اپنے قلعہ میں بند ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا، پندرہ روز تک تو یہ لوگ محصور ہو کر صبر کرتے رہے، بالآخر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور یہ سمجھ گئے کہ مقابلہ سے کام نہ چلے گا اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی ہیں جو آپ ہمارے بارے میں نافذ کریں۔ آپ کا فیصلہ ان کے مردوں کے قتل کا ہونے والا تھا کہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےحد اصرار و الحاح کیا کہ ان کی جاں بخشی کردی جائے، بالآخر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ یہ لوگ بستی خالی کر کے جلاوطن ہوجائیں اور ان کے اموال مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے، اس قرار داد کے مطابق یہ لوگ مدینہ چھوڑ کر ملک شام کے علاقہ اذرعات میں چلے گئے اور ان کے اموال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال عنیمت کے قانون کے مطابق اس طرح تقسیم فرمایا کہ ایک خمس بیت المال کا رکھ کر باقی چار خمس غانمین میں تقسیم کردیئے۔ غروہ بدر کے بعد یہ پہلا خمس تھا جو بیت المال میں داخل ہوا، یہ واقعہ بروز شنبہ 15 شوال سن 2 ھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے بیس ماہ بعد پیش آیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِيْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ۝ ٠ ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ١٥ ۚ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ بال البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال : قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] [ طه/ 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم . ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي . ( ب ی ل ) البال اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه/ 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بد عہدی اور سزا کے اعتبار سے قریظہ والوں کی حالت ایسی ہے جیسی ان سے تقریبا دو سال پہلے والوں کی ہوئی یعنی بنو نضیر کی وہ اپنی بدعہدی کا مزہ چکھ چکے ہیں اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ } ” (ان کا وہی حال ہوگا) جیسے ان لوگوں کا معاملہ ہوا جو ان سے پہلے قریب ہی اپنے کیے کی سزا چکھ چکے ہیں۔ “ اس سے یہودی قبیلہ بنو قینقاع کے لوگ مراد ہیں جنہیں ٢ ہجری میں غزوئہ بدر کے بعد مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تھا ‘ جبکہ بنونضیر کی جلاوطنی ‘ جس کا ذکر ہم اس سورت میں پڑھ رہے ہیں ‘ ٤ ہجری کو عمل میں آئی۔ اسی طرح ٥ ہجری میں غزوئہ احزاب کے بعد یہود مدینہ کا تیسرا اور آخری قبیلہ بنوقریظہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ { وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ } ” اور ان کے لیے بہت ہی دردناک عذاب ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 This refers to the second weakness of the hypocrites. The first weakness was that they were cowardly: they feared the men instead of fearing God and had no higher aim of lift before them like the believers, which might impel them to fight for it even at the cost of life. And their second weakness was that they had no common tic between them except hypocrisy, which might unite them together into a strong band. The only thing that had brought them together was that they were all feeling highly upset at the flourishing leadership and rulership of Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) . who was an outsider in their city, and at the warm reception and help which their own compartriots the Ansar were giving the Emigrants. Because of this jealousy they wanted them to join hands together and in conspiracy with the enemies of Islam of the surrounding areas should somehow put an end to this alien power and authority. But apart from this negative objective there was no positive common aim to unify them. Each of their chiefs had his own separate band: each craved for his own leadership; no one was sincere to the other; but each bore such jealousy and malice for the other that they could neither forget their mutual enmities nor desist from harming the other fatally even while facing those whom they regarded as their common enemy. Thus, at the outset, even before the battle against the Bani an-Nadir took place, Allah analysed the internal state of the hypocrites and informed the Muslims that there was no real danger from their side; therefore, they should not feel alarmed- at the rumours that when they lay siege to the Bani an-Nadir, the leaders of the hypocrites would attack them from the rear with two thousand men, and also bring the Bani Quraizah and the Bani Ghatafan along against them. AII this was empty boasting which would be exposed at the very beginning of the trial.

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :26 اشارہ ہے کفار قریش اور یہود بنی قینقاع کی طرف جو اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کے باوجود انہی کمزوریوں کے باعث مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سرو سامان جماعت سے شکست کھا چکے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اس سے مراد ایک اور قبیلے بنوقینقاع کے یہودی ہیں۔ انہوں نے بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے امن اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا، لیکن پھر خود ہی آپ سے جنگ ٹھان لی جس کے نتیجے میں انہوں نے شکست بھی کھائی، اور ان کو بھی مدینہ منوَّرہ سے جلا وطن کیا گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ٢٤۔ مجاہد ١ ؎ کے قول کے حوالہ سے تفسیر سدی اور تفسیر مقاتل بن حیان میں اس آیت کی تفسر یوں کی ہے کہ پہلے وبال میں پھنسنے والوں سے مراد وہ کفار قریش ہیں جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے مگر امام المفسرین ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس اس تفسیر کے مخالف ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ پہلے وبال میں پھنسنے والوں سے مراد یہود کا قبیلہ بنی قینقاع ہے جن کی جلا وطنی بنی نضیر کی جلا وطنی سے پہلے ہوئی جس کا قصہ حدیث کی کتابوں میں تفصیل سے ہے۔ حاصل اس قصہ کا اسی قدر ہے کہ یہ قبیلہ وہی ہے جس میں کے عبد اللہ بن سلام ہیں۔ اس قبیلہ سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کا معاہدہ تھا پھر ان کی عہد شکنی کے سبب سے بدر کی لڑائی کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کی اور جب یہ لوگ مغلوب ہوگئے تو عبد اللہ بن ابی کی سفارش پر ان کی جان بخشی کی جا کر ان کو جلا وطن کرایا گیا۔ غرض جلا وطن ہونے والوں کی مشابہت اور تمثیل جلا وطن ہونے والوں سے ایک پوری مشابہت اور تمثیل ہے اس واسطے حافظ عماد الدین ابوالفداء ٣ ؎ ابن کثیر نے عبد اللہ بن عباس کی تفسیر کو قوی ٹھہرایا ہے اور اوپر گزر چکا ہے کہ مدینہ کے منافقوں نے پہلے تو بنی ( نضیر کو بہکایا کہ ہم بھی تمہارا ساتھ دیں گے اور جب وقت پڑا تو بنی نضیر کا کچھ ساتھ نہ دیا یہی حال شیطان کا ہے کہ اب تو لوگوں کے دل میں طرح طرح کا وسوسہ ڈال کر ان سے گناہ کراتا ہے جب قیامت کے دن عذاب کا وقت آئے گا تو گناہ گار لوگوں کو خود ہی ملامت کرنے کو مستعد ہوجائے گا جس کا ذکر سورة ابراہیم میں گزر چکا۔ پھر فرمایا بہکانے والے اور بہکنے والے دونوں کا انجام دوزخ ہے۔ غرض منافقوں نے شیطان کی طرح بنی نضیر کو بہکایا تھا۔ اس مناسبت کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں منافقوں کے حال کو شیطان کے حال کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ یہاں مفسروں نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا قصہ جو لکھا ہے ٤ ؎ کہ شیطان نے ستر برس کی عبادت کے بعد اس عابد سے زنا بھی کرایا اور شرک بھی آیا۔ اس قصہ سے یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قصہ آیت کی تفسیر ہے یا شان نزول ہے کیونکہ شیطان تو رات دن یہی کرتا رہتا ہے جو اس نے اس عابد کے ساتھ کیا اور ہزاروں قصہ شیطان کے اس طرح کے مشہور ہیں جس طرح وہ عابد کا قصہ ہے ‘ بلکہ مفسروں کی غرض اس قصہ کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ شیطان رات دن اس طرح فریب کے کام کرتا رہتا ہے ‘ جس طرح فریب اس نے اس عابد کو دیا ہر شخص کو اس کے فریب سے بچنا چاہئے۔ اس واسطے شیطان کے فریب کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ شیطان کے فریب میں آ کر دنیا کی زیست پر عاقبت کو نہ بھولنا چاہئے اور قیامت کو دور نہ گننا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے نیک و بد سب کاموں کی خبر ہے اور اس نیک و بد کی جزا اور سزا کا ایک دن آنے والا ہے اس دن وہی شخص اچھا رہے گا جس نے دنیا میں اس دن کی آفت سے بچنے کا کچھ سامان کرلیا۔ کل جو آنے والا دن ہے اس کو غد کہتے ہیں۔ تمام دنیا کو ایک دن فرض کیا جائے تو اس کے بعد دوسرا دن یہی پچاس ہزار برس کا دن قیامت کا ہوگا۔ اسی واسطے قیامت کو غد کہتے ہیں ولتنظر نفس ما قدمت لغد کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایماندار کو چاہئے کہ اپنے نیک عملوں پر کبھی کبھی نظر ڈال لیا کرے کہ قیامت کے لئے اس نے کیا سامان آگے بھیجا کیونکہ قیامت کے دن جنت کے درجے نیک عملوں کے موافق تقسیم ہوں گے۔ اس لئے اس دن ہر ایک کو نیک عملوں کی بڑی قدر ہوگی چناچہ معتبر ١ ؎ سند سے مسند امام احمد میں محمد بن ابی عمرہ صحابی کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں جو شخص تمام عمر نیک عملوں میں مصروف رہے اس کو بھی قیامت کے دن یہ پچھتاوا رہے گا کہ اس نے اور زیادہ نیک عمل کیوں نہیں کئے۔ اس مضمون کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں نیک عملوں کی ترغیب کے بعد ایمان دار لوگوں کو ان لوگوں کی حالت سے ڈرایا ہے جو دنیا کے مخمصے میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کو بالکل بھول گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ایسا بھلکڑ کردیا ہے کہ کبھی ان کو یہ یاد نہیں آتا کہ وہ کس کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ معتبر سند سے مسند ٢ ؎ امام احمد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم میں ابودرداء کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کے دل سے دنیا کی حرص کم ہوجانے کے لئے ہر روز دو فرشتے آسمان و زمین کے بیچ میں کھڑے ہو کر پکار کر یہ کہا کرتے ہیں کہ جس خوشحالی سے انسان خدا کو بھول جائے اس خوشحالی سے تنگ دستی بہتر ہے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے فانساھم انفسھم کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ایسی خوش حالی ہے جس سے وہ خدا کو بھول گئے ہیں تو وہ خوشحالی اس آیت کے موافق اللہ کی خفگی کے سبب سے ہے اسی واسطے فرشتوں کی اس آواز کا اثر ایسے لوگوں کے دل پر کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ کثرت گناہوں سے ان کے دل پر زنگ چھا جاتا ہے۔ وہ زنگ کسی نصیحت کے اثر کو ان کے دل تک نہیں پہنچنے دیتا۔ چناچہ ابوہریرہ (رض) ١ ؎ کی صحیح حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہوں کے تودہ کے سبب سے آدمی کے دل پر زنگ آجاتا ہے اس گناہ گاری کے سب سے ان لوگوں کو بےحکم فرمایا ہے اب بےحکم لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور فرمانبردار لوگوں کا ٹھکانا جنت ہے۔ اس لئے فرمایا اہل دوزخ اور اہل جنت دونوں برابر نہیں ہیں اہل دوزخ کو طرح طرح کی کلفت ہے اور اہل جنت کو طرح طرح کی راحت ہے۔ آگے مثال کے طور پر فرمایا کہ ان بےحکم لوگوں کے دل پر زنگ ان کر ان کے دل گویا پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے ہیں ورنہ اس قرآن میں تو وہ نصیحتیں ہیں جو پتھر کو بھی موم کردیں۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں جابر بن سمرہ سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پتھر کا ذکر کیا ہے جو اس وقت جب آپ نبی بھی نہیں ہوئے تھے آپ سے سلام علیک کیا کرتا تھا یہ تو پتھر کا حال ہوا اور باوجود انسان ہونے کے قریش کا حال تو معلوم ہے کہ وہ معجزے دیکھ کر بھی آپ کی نبوت میں طرح طرح کے شبہات نکالتے تھے غرض پتھر میں انسان سے زیادہ سمجھ کا پیدا کردینا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں اب آگے فرمایا کہ قرآن میں یہ مثالیں اس لئے بیان کی جاتی ہیں کہ شاید یہ بےحکم لوگ کچھ مثالوں سے ہی سمجھنے کی بات کو کچھ سمجھ جائیں تو ان کی عقبیٰ پاک ہوجائے مکہ کے قحط کے بعد مشرکین مکہ کے دل میں توحید کا مسئلہ کسی قدر جم تو گیا تھا مگر مشرک مکہ سے دفع نہیں ہوتا تھا اس لئے توحید کے مسئلہ میں گویا یہ فرمایا کہ یہ تو ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے بت ان کی مصیبت کے وقت کچھ کام نہ آئے اور جب تک اللہ کے رسول نے رفع قحط کی دعا نہیں کی مکہ کا قحط رفع نہیں ہوا۔ اسی واسطے ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ عبادت کے قابل وہی معبود حقیقی ہے جو اپنے بندوں کا ظاہر و باطن کا حال جانتا ہے اور اپنے اس علم غیب کے موافق دلی زبانی ہر طرح کی التجا ہر ایک کی معلوم کرکے اپنی رحمت سے اس التجا کو پورا کرتا ہے صحیح ٣ ؎ بخاری کی عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے مکہ کے قحط کا قصہ جو سورة دخان میں گزر چکا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب قریش کی سرکشی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت تکلیف پہنچنے لگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے قریش کے حق میں یہ بددعا کی کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں اہل مصر سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اسی طرح کے قحط کی بلا اہل مکہ پر بھی نازل فرمائی جائے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول کی اور مکہ میں سخت قحط پڑا اور جب اہل مکہ اپنی زیست سے تنگ آگئے تو آخر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے ہی وہ قحط رفع ہوا اس قحط کے زمانہ میں اہل مکہ نے ہرچند اپنے بتوں سے مینہ برسانے کی التجا کی مگر بغیر اللہ کے حکم کے کیا ہوسکتا تھا۔ اس قصہ نے اہل مکہ کو بت پرستی سے کسی قدر بدگمان ٹھہرا دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مکی قصہ کے بعد ان مدنی آیتوں میں توحید کے ذکر کے بعد کوئی تفصیلی دلیل بیان نہیں فرمائی۔ الملک کے معنی بادشاہ۔ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کے حکم کو آسمان و زمین میں کوئی ٹال نہیں سکتا۔ القدوس کے معنی ہر عیب سے پاک السلام کے معنی ہر طرح کے نقصان سے سالم۔ المومن کے معنی امن کا پیدا کرنے والا المھیمن کے معنی ہر بھید سے واقف۔ العزیز کے معنی زبردست ‘ الجبار کے معنی صاحب جبروت و عظمت۔ المتکبر کے معنی بےپرواہ۔ آگے فرمایا جب یہ خصلتیں کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتیں تو مخلوق میں سے کسی کو اس کی عبادت میں شریک بھی نہیں کا جاسکتا۔ الخالق کے معنی پیدا کرنے سے پہلے ہر چیز کا اندازہ ٹھہرانے والا۔ الباری کے معنی اس اندازہ کے موافق ہر چیز کا پیدا کرنے والا ‘ المصور کے معنی کالا گورا جس کو جس صورت میں چاہے بنانے والا ‘ اسماء الحسنیٰ کے معنی اچھے معنی والے نام ‘ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ترمذی ٣ ؎ و ابن ماجہ نے اپنی روایت میں ان ناموں کو ذکر بھی کیا ہے یہی مشہور نام ہیں جو چھپے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ ترمذی کی روایت ولید بن مسلم کی ہے اور ابن ماجہ کی روایت موسیٰ بن عقبہ کی اور ان دونوں روایتوں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حاکم نے ولید بن مسلم کی روایت کو صحیح کہا ہے سورة بنی اسرائیل اور سورة حدید میں گزر چکا ہے کہ پہاڑ ‘ پیڑ ان سب بےجان چیزوں کی ایک طرح کی خاص تسبیح ہے جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔ ہاں بغیر مطلب کے اکثر سلف نے اپنے کانوں سے اس تسبیح کی آواز سنی ہے چناچہ صحیح بخاری ٣ ؎ میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جو کھانا ہم لوگ کھایا کرتے تھے اس کی تسبیح کی آواز ہمارے کانوں میں آیا کرتی تھی اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں۔ العزیز الحکیم کے یہ معنی ہیں کہ زبردست وہ ایسا ہے جس کا حکم آسمان و زمین میں کوئی نہیں ٹال سکتا۔ صاحب حکمت وہ ایسا ہے جس نے ہر چیز مناسب حالت میں پیدا کی۔ مسند ٤ ؎ امام احمد اور ترمذی میں معقل بن یسار سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص تین دفعہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم پڑھ کر ھو الذی لا الہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ سے آخر سورة تک تین دفعہ صبح شام پڑھے گا تو اس شبانہ روز میں اگر وہ شخص مرجائے گا تو اس کو شہادت کا درجہ ملے گا۔ اور ستر ہزار فرشتے اس شبانہ روز میں اس شخص کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کی سند کے راویوں کو منفرد بتایا ہے لیکن وہ راوی ثقہ اور صدوق کے مابین میں ہیں اس لئے ان کا منفرد ہونا کچھ مضر نہیں۔ اس سورة کے شان نزول کا جو قصہ صحیحین ١ ؎ کی حضرت علی (رض) کی روایت میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے بعد ایک مشرک عورت جس کا نام سارہ تھا مکہ سے مدینہ آگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ کیا مسلمان ہو کر ہجرت کرکے آئی ہے اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر کیوں آئی ہے اس نے کہا مانگنے کھانے آئی ہوں عرب میں گانے والی اور نوحہ کرنے والی عورتیں ہوا کرتی تھیں یہ عورت اس قوم کی تھی کچھ دنوں یہ عورت مدینہ میں رہی جن دنوں میں یہ عورت پھر مکہ کو واپس جانے لگی ان دنوں مدینہ میں مکہ پر چڑھائی کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اسی اطلاع کے لئے ایک خط حاطب بن ابی بلقہ نے اہل مکہ کے نام لکھ کر اس عورت کو دے دیا حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے اس ماجرے کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردی اتنے میں یہ عورت کچھ دور نکل گئی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور چند صحابہ کو گھوڑوں پر سوار کرکے اس عورت کے پیچھے بھیجا اور ان صحابہ نے راستہ میں اس عورت کو جا پکڑا اور اس سے اس خط کا حال پوچھا پہلے تو اس عورت نے قسمیں کھا کر اس خط کا انکار کیا لیکن جب علی (رض) نے ننگی تلوار کرکے اس کو قتل کرنے کا ڈراوا دیا تو اس نے اپنے سر کے بالوں کی چوٹی میں سے وہ خط نکال کردیا۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٠ ج ٤۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٠ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٠ ج ٤۔ ) (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤١ ج ٤۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ص ٧٥٨ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب باب الترغیب فی الفراغ للعبادۃ الخ ص ٢٠٣ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ویل للمطففین ص ١٩١ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل نسب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ ص ٤٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الدخان ص ٧١٤ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب ان للہ مائۃ اسم الاواحدا ص ١٠٩٩ ج ٢ و صحیح مسلم باب فی اسماء اللہ تعالیٰ الخ ص ٣٤٢ ج ٢۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی ابواب الدعوات ص ٢١٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ص ٥٠٥ ج ١۔ ) (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٤ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الممتحنۃ ص ٧٢٦ ج ٢ و صحیح سلم باب من فضائل حاطب بن بلتعۃ الخ ص ٣٠٢ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الممتحنۃ ص ٧٢٦ ج ٢ و صحیح سلم باب من فضائل حاطب بن بلتعۃ الخ ص ٣٠٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:15) کمثل الذین من قبلہم قریبا : اس سے قبل مبتدا محذوف ہے۔ ای مثلہم : (مثل یھود بنی النضیر فی ترک الایمان ومحاربۃ الرسول صلی اللہ علیہ لوسم ) کمثل الذین ۔۔ وبال امرھم۔ یعنی یہود بنی نضیر کی ترک ایمان اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی کی مثال ویسی ہی ہے جیسے ان سے کچھ ہی پہلے والے لوگوں کی تھی۔ یہ پہلے والے لوگ کون مراد ہیں ؟ مجاہد کا قول ہے کہ :۔ ان سے مراد وہ مشرکین ہیں جو بدر میں مسلمانوں سے لڑے تھے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ :۔ بنو قینقاع کے یہودی مراد ہیں۔ یہ لوگ حضرت عبد اللہ بن سلام کے قبیلہ والے تھے۔ انہوں نے عبد اللہ بن ابی بن سلول یا عبادۃ بن صامت وغیرہ سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ یہ قوم یہود میں سب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے (یعنی پہلے والے لوگوں نے) اپنے کئے کا مزہ چکھ لیا۔ (بنو قینقاع شوال 2 ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد جلاوطن کر دئیے گئے تھے۔ یہ ان کے لئے کا مزا دنیا میں ان کو ملا) ۔ ارشاد ہوتا ہے ولہم عذاب الیم ای فی الاخرۃ آخرت میں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وبال امرھم : امرھم مضاف مضاف الیہ مل کر وبال (مضاف) کا مضاف الیہ وبال مفعول ہے ذاقوا کا۔ لہٰذا منصوب ہے۔ معنی ہے سختی، ناگواری۔ بداعمالی کی سزا۔ امرھم ان کا کردار۔ ان کا فعل، ان کا کام۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یہی مفہوم شاہ صاحب نے اپنے فوائد میں ذکر کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان سے ” یہود بنی فیقاع “ مراد ہوں جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی نفیر سے تھوڑی مدت پہلے مدینہ سے نکال دیا تھا۔ یہ قول قتادہ اور محمد بن اسحاق کا ہے۔ اس یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ ابن کثیر

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مرا دان سے یہود بنی قینقاع ہیں جن کا قصہ یہ ہوا کہ واقعہ بدر کے بعد انہوں نے آپ سے 2 ھ میں نقض عہد کر کے محاربہ کیا، پھر مغلوب و مقہور ہوئے اور قلعہ سے آپ کے فیصلہ پر باہر نکلے۔ اور سب کی مشکیں باندھی گئیں، پھر عبداللہ بن ابی کے الحاح سے ان کی اس شرط پر جان بخشی کی کہ مدینہ سے چلے جائیں، چناچہ وہ اذرعات شام کو نکل گئے اور ان کے اموال میں غنیمت کی طرح عمل ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کمثل ................ عذاب الیم (٩٥ : ٥١) ” یہ انہی لوگوں کے مانند ہیں جو ان سے تھوڑی ہی مدت پہلے اپنے کیے کا مزا چکھ چکے ہیں۔ اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے “۔ واقعہ بنی قینقاع غزوہ بدر سے قبل ہوا تھا۔ ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان عہد تھا۔ جب مسلمان نے بدر میں مشرکین پر غلبہ پالیا تو یہودیوں کو یہ بات بہت ہی بری لگی۔ اور انہوں نے مسلمانوں کی اس عظیم فتح کو دل سے قبول نہ کیا اور جل بھن گئے۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ مدینہ میں مسلمان جس قدر قوت پکڑتے ہیں اس قدر ان کی اہمیت گھٹتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ جو باتیں کرتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی رپورٹیں ملتی رہتی تھیں کہ یہ کسی شرکا ارادہ رکھتے ہیں۔ تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بارہا نصیحت کی اور غداری کے انجام سے ڈرایا۔ تو انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کا بڑا سخت جواب دیا جس کے اندر ایک دھمکی مضمر تھی۔ انہوں نے کہا ” محمد ، تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم تمہاری قوم قریش کی طرح ہیں۔ تم اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تم نے ایک ایسی قوم سے جنگ کی جن کو جنگ کا تجربہ نہ تھا اور تم نے ان کو مار لیا۔ ہم ایسے ہیں کہ اگر خدا کی قسم تم نے ہم سے لڑائی کی تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم کیسے لوگ ہیں “۔ اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک عرب خاتون کچھ سامان لے کر آئی اور اسے فروخت کیا۔ یہ سامان اس نے بازار بنی قینقاع میں فروخت کیا۔ اس کے بعد وہ ایک سنار کے پاس بیٹھ گئی تو انہوں نے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلیا اور کہا کہ وہ چہرہ کھولے ، اس نے انکار کردیا۔ سنار نے شرارت کرکے اس کی چادر کا پچھلا حصہ اس کی پیٹھ کے ساتھ باندھ دیا۔ جب وہ اٹھی تو اس کی شرمگاہ ننگی ہوگئی۔ یہ اس کے ساتھ ہنسے۔ اس نے فریاد کی۔ ایک مسلمان شخص اٹھا اور اس نے سنار کو قتل کردیا۔ تمام یہودی جمع ہوئے اور انہوں نے مسلمان کو قتل کردیا۔ چناچہ مسلمانوں نے مسلمانوں کو پکارا۔ اس پر مسلمانوں کو بہت ہی غصہ آیا۔ چناچہ ان کے اور بنی قینقاع کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیئے کہ آپ جو فیصلہ کریں ، اس پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول ان کی طرفداری میں کھڑا ہوگیا۔ کیونکہ بنی قینقاع اور خزرج کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ منافقین دراصل کفار اہل کتاب کے بھائی تھے۔ بڑی کشمکش کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگئے کہ ان کو قتل کرنے بجائے جلاوطن کردیا جائے اور یہ کہ وہ اپنے ساتھ اموال اور سامان لے جائیں ماسوائے اسلحہ کے۔ اور یہ لوگ شام کو چلے گئے۔ یہ واقعہ تھا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ یہ بنی نضیر بھی بنی قینقاح کی طرح ہیں اور منافقین ان کے بھائی ہیں اور ان کے بھی بھائی تھے۔ منافقین نے اپنے بھائی کافر اہل کتاب کو دھوکہ دیا کہ وہ مقابلہ کریں ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن ان کا یہ انجام ہوا اور انہوں نے کوئی ساتھ بھی نہ دیا۔ یہاں ان کی ایک دائمی تمثیل دی جاتی ہے کہ منافقین جو کچھ کرتے ہیں بعینہ وہی شیطان کرتا ہے اور جو لوگ شیطان کی سنتے ہیں ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود کے قبیلہ بنی قینقاع کی بیہودگی اور جلاوطنی کا تذکرہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ مدینہ منورہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد تھے ایک قبیلہ بنی نضیر جن کی جلاوطنی کا تذکرہ اسی سورت کے شروع میں ہوا ہے، دوسرا قبیلہ بنی قریظہ تھا جن کے مردوں کے قتل كئے جانے اور عورتوں اور بچوں کے غلام بنائے جانے کا تذکرہ سورة احزاب کے تیسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ تیسرا قبیلہ بنی قینقاع تھا جن کی جلاوطنی کا قصہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے تینوں قبیلوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ تھا کہ نہ آپس میں جنگ کریں گے اور نہ آپ کے کسی دشمن کی مدد کریں گے ان تینوں قبیلوں نے غدر کیا اور اس کا انجام بھگت لیا۔ قبیلہ بنو قینقاع پہلا قبیلہ ہے جسے سب سے پہلے مدینہ منورہ سے جلاوطن کیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ غزوہ بدر کے بعد کفار مکہ کو شکست دے کر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو سوق بنی قینقاع میں انہیں جمع کیا، اور فرمایا کہ اے یہودیو ! تم اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوسکتا ہے جو قریش کا ہوا تم اس بات کو جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم اس بات کو اپنی کتاب میں پاتے ہو اور اللہ کا تم سے عہد ہے کہ اس نبی پر ایمان لانا جو تمہارے کتاب میں مذکور ہے۔ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ اے محمد آپ اس دھوکے میں نہ رہیں کہ قریش مکہ کو شکست دینے کے بعد ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے، وہ لوگ تو اناڑی تھے جنگ کرنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے موقع پاکر انہیں شکست دیدی۔ اللہ کی قسم اگر ہم سے جنگ کی تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم، ہم ہیں۔ اسی دور ان ایک یہ واقعہ پیش آگیا کہ ایک عورت ایک یہودی سنار کے پاس دودھ بیچنے آئی یہودیوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی جو یہود بنی قینقاع اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ٹھن جانے کا ذریعہ بن گئی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا پتہ چلا تو پندرہ دن ان کا محاصرہ فرمایا، بالآخر انہوں نے کہا کہ جو آپ فیصلہ فرمائیں وہ ہمیں منظور ہے قریب تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیدیا جاتا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول ضد کرنے لگا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا اور کہنے لگا یہ (بنی قینقاع) سات سو آدمی ہیں میری مدد کرتے رہے ہیں آپ ان کو ایک ہی صبح یا ایک ہی شام میں قتل کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا کہ چلو ان کو تمہاری رائے پر چھوڑ دیا، اس کے بعد مدینہ منورہ سے ان کے جلا وطن کرنے کا فیصلہ کردیا اور اذراعات (علاقہ شام) کی طرف انہیں چلتا کردیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ صفحہ ٣: ج وفتح الباری صفحہ ٣٣٠: ج ٧) اس واقعہ کو معلوم کرنے کے بعد اب آیت بالا کا دوبارہ ترجمہ پڑھیں مطلب یہ ہے کہ قبیلہ بنی نضیر کا وہ ہی حال ہوا جو تھوڑا عرصہ پہلے ہی ان لوگوں کا حال ہوچکا ہے جو ان سے پہلے تھے یعنی قبیلہ بنی قینقاع، ان لوگوں نے بھی عہد توڑا اور اسلام قبول نہ کیا الٹے الٹے جواب دیئے وہ بھی جلاوطن ہوئے اور بنی نضیر بھی نکال دیئے گئے، یہ تو دنیا کی تذلیل تھی آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” کمثل الذین “ یہ یہود اور منافقین کے لیے تمثیل اور تخویف ہے اور یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے اور ” الذین من قبلھم “ سے بنی قینقاع یا مقتولین بدر یا دونوں مراد ہیں (روح) ۔ ان منافقین کا حال اور انجام وہی ہونے والا ہے جو ماضی قریب میں بنی قینقاع اور صنادید قریش کا میدان بدر میں ہوا جو اپنے کفر وعصیان کا مزہ چکھ چکے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) مثال ان یہود بنی نضیر کی مانند ان لوگوں کے ہے اور ان لوگوں کی مثال ان لوگوں کی سی مثال ہے جو ان سے کچھ ہی پہلے ہوئے ہیں جو دنیا میں بھی اپنے کردار اور اپنے اعمال کی سزا کا مزہ چکھ چکے اور ان کو دردناک عذاب ہونے والا ہے۔ شاید بنی قینقاع کی طرف مثال میں اشارہ ہے کہ انہوں نے بھی عذر کیا اور نقض عہد کیا اور لڑائی کی پھر مغلوب ہوکر قلعے میں بندہوگئے اور بالآخر قلعے سے باہر نکلے ان سب کی مشکیں باندھ لی گئیں اور اس شرط پر رہا کئے گئے کہ مدینے سے چلے جائیں۔ چناچہ وہ شام کی جانب چلے گئے اور ان کے اموال میں غنیمت کی طرح تقسیم ہوئی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں اس مثال میں بدر کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نزدیک ہے کہ مکہ والے بدر کے دن سزا پاچکے ہیں وہی ڈول ان کا بھی ہوگا۔ قریباً من قبلھم کی وجہ سے بعض حضرات نے بدر اور بعض حضرات نے بنی قینقاع کے یہود مراد لئے ہیں واقعہ بدر اور واقعہ بنی قینقاع دونوں 2 ھجری کے واقعات میں سے ہیں۔