Surat ul Hashar

Surah: 59

Verse: 6

سورة الحشر

وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۶﴾

And what Allah restored [of property] to His Messenger from them - you did not spur for it [in an expedition] any horses or camels, but Allah gives His messengers power over whom He wills, and Allah is over all things competent.

اور ان کا جو مال اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Fai' and how it is spent Allah the Exalted explains the regulations for Fai', the booty that the Muslims acquire from the disbelievers, without fighting them or using cavalry and camelry in war against them. For instance, the booty collected from Bani An-Nadir was not acquired because of fighting them using horses and camels. The Muslims did not fight Bani An-Nadir in battle, but Allah forced them out of their forts on account of the fear that He placed in their hearts for Allah's Messenger Therefore, it was Fai' that Allah awarded His Messenger, with his discretion to spend it however he sees fit. Indeed, the Prophet spent the Fai' on righteous causes and for the benefit of Muslims in the areas that Allah mentioned in this Ayat, وَمَا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ ... And what Allah gave as booty (Fai') to His Messenger from them. meaning, from Bani An-Nadir, ... فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ ... for this you made no expedition with either cavalry or camelry. refering to using camels, ... وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ But Allah gives power to His Messengers over whomsoever He wills. And Allah is Able to do all things. mean, Allah is powerful and cannot be resisted or opposed; He is the Compeller over all things. Allah the Exalted said,

مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے ۔ فے کس مال کو کہتے ہیں؟ اس کی صفت کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے ۔ فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے ، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گذر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے ، اسے فے کہتے ہیں اور یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا ، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں ، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری روایت میں ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی ، سب اس کے تابع فرمان ۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے ، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے ( سنن و مسند وغیرہ ) ابو داؤد میں حضرت مالک بن اوس سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر ، اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی کا ، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے ، حضرت مالک فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھہرو ، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا ، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا ، پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ ) 59- الحشر:6 ) ، پڑھی اور فرمایا بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی ۔ پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد ابو بکر والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اے عباس تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علی اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر یقیناً راست گو ، نیک کار ، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے ، چنانچہ اس مال کی ولایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی ، آپ کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا ، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا ، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں ، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی ، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے ، حضرت انس کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا ، لیکن یہ سب حضرت ام ایمن کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں ، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں ، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا ، یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورہ انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گذر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ بن بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے ( یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں ) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے ( جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں ) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں؟ آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے ۔ فرمایا ( قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ممانعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل عمل ہیں اب سنو ) خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے ( یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں ) اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو ، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی ، آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے ( حضرت شعیب علیہ السلام ) نے کیا فرمایا تھا ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ 88؀ ) 11-ھود:88 ) یعنی میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں ، مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے ، یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے؟ اور جو قرآن میں موجود ہے ، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا ، آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی ، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ ، نسائی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن میں ، سبز ٹھلیا میں ، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجوریا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت کی ( یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو ، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اموال فے میں مجاہدین کا حصہ کچھ نہیں :۔ اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ خالصتاً رسول اللہ کے لیے مختص ہوتا تھا جسے آپ اپنی ذات، اپنے گھر والوں رشتہ داروں اور دوسروں میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرتے تھے۔ لیکن جو اموال جنگ کئے بغیر ہی دستیاب ہوجائیں جنہیں اموال فے کہا جاتا ہے، وہ سارے کے سارے رسول اللہ کی تحویل میں دیئے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : && سیدنا عمر کہتے ہیں کہ بنی نضیر کے مال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے لڑائی کے بغیر اپنے پیغمبر کو دلا دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ اس قسم کے مال خاص رسول اللہ کے گنے جاتے تھے۔ ایسے اموال سے آپ اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچ نکال لیتے تھے اور باقی مال جہاد کے سامان کی تیاری اور گھوڑوں (وغیرہ) میں خرچ کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ اس آیت میں افاء کا لفظ آیا ہے۔ فَاءَ (مادہ فئی) کا لغوی معنی بہتری یا اچھی حالت کی طرف لوٹنا یا واپس آنا ہے۔ اور افاء کے معنی لوٹا دینا ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے باغی اور نافرمان اپنے اموال کے حقدار نہیں ہوتے اور اللہ نے یہ اموال اپنے نافرمانوں سے چھین کر اپنے فرمانبرداروں کو پلٹا دیئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَمَآ اَفَآئَ اللہ ُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ ۔۔۔۔:” فاء یفیء فیئا “ ( ض) جیسا کہ فرمایا :(حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللہ ِ ) ( الحجرات : ٩) ” یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔ “” افاء یفیی “ ( افعال) لوٹانا ۔ ” فے “ ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے ساتھ حاصل ہوں انہیں غنیمت کہا جاتا ہے ( بعض اوقات غنیمت پر بھی فے کا لفظ بول دیا جاتا ہے) ۔ ان اموال کو ” فے “ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کفار کا قبضہ ناجائز ہے ، جب مسلمان انہیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اموال واپس لیتے ہیں ۔” اوجفتم “ ” وجف یجف وجفا ووجیفا “ ( ض) ” الفرش “ گھوڑے کا دوڑنا۔” او جف یوجف ایجافا “ دواڑانا۔ ” خیل “ گھوڑوں کی جماعت۔ ” رکاب “ سواری کے اونٹوں کے لیے اسم جمع ہے۔ ٢۔” وما افاء اللہ علی رسولہ منھم “ اس جملے کا عطف ” ما قطعتم من لینۃ۔۔۔۔ “ پر ہے اور مقصد غزوۂ بنی نضیر میں مسلمانوں کو عطاء ہونے والی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت کا بیان ہے۔ ٣۔ بنو نضیر اپنی جلا وطنی کے ساتھ جو مکان ، باغات اور زمینیں چھوڑ گئے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کے جو اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واپس لوٹائے ہیں ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، کیونکہ تم نے انہیں گھوڑے یا اونٹ دوڑا کر یعنی جنگ کرکے حاصل نہیں کیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ کسی قابل ذکر لڑائی کے بغیر وہ سب اپنے رسول کو عطاء فرما دیئے ہیں ۔ یاد رہے کہ بنو نضیر کی بستیاں مدینہ سے صرف دومیل کے فاصلے پر تھیں اور مسلمانوں نے پیدل جا کر ہی ان کا محاصرہ کرلیا تھا ، صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہو کر گئے اور انہیں نے اس رعب کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا ، جنگ کیے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے حوالے کردیا۔ ٤۔ وَّلٰـکِنَّ اللہ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط ۔۔۔۔۔۔: یعنی بنو نضیر کے اموال پر قبضہ تمہارے گھوڑے یا اونٹ دوڑانے کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے دشمنوں میں سے جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ، وہ اس کے ڈالے ہوئے رعب کی وجہ سے لڑائی کے بغیر ہی اپنے آپ کو حوالے کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔ ٥۔ یہ پہلے اموال تھے جو جنگ کے بغیر محض محاصرے کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔ انہیں اصطلاح میں ” فے “ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بدر میں لڑائی کے نتیجے میں جو اموال حاصل ہوئے انہیں ” غنیمت “ کہا جاتا ہے۔ ان کی تقسیم کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ انفال میں بیان فرما دیا :(وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ) ( الانفال : ٤١)” اور جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے “۔ یعنی اس میں سے پانچواں حصہ اللہ ، اس کے رسول ، ذوی القربیٰ ، یتامی ٰ ، مساکین اور ابن سبیل کے لیے ہوگا اور باقی چار حصے لڑنے والوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ رہے اموال فے جو بنو نضیر سے حاصل ہوئے ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطاء فرمائے ہیں ۔ یہی معاملہ ان تمام بستیوں کا ہے جو بعد میں جنگ کے بغیر حاصل ہوئیں ، مثلاً بنو قریظہ کی بستیاں اور خیبر کے وہ علاقے جو جنگ کے بغیر فتح ہوئے ، مثلاً فدک وغیرہ ، ان سب کو مکمل طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں دے دیا گیا کہ آپ جس کو جتنا چاہیں دے دیں یا اپنے پاس رکھیں ۔ البتہ مستحقین کی چند اقسام متعین کردی گئیں کہ مال کی تقسیم انہی میں رہنی چاہیے۔ ان مستحقین کا بیان اگلی آیت میں فرمایا۔ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا :(کانت اموال بنی النضیر مما افاء اللہ علی رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل ولا رکاب ، فکانت لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاصۃ ، ینفق علی اھلہ منھا نفقۃ سنتہ ، ثم یجعل ما بقی فی السلاح والکراع ، عدۃ فی سبیل اللہ) (بخاری ، التفسیر ، باب قولہ :( ما افاء اللہ علی رسولہ): ٤٨٨٥)” بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور فے عطاء فرمائے تھے ، جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دواڑئے تھے اور نہ اونٹ ، چناچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص تھے ۔ آپ ان میں سے اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دیتے ، پھر جو باقی ہوتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اسلحے اور گھوڑوں میں صرف کردیتے تھے “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

[ 1] fai& is a term for the properties left over by the non-Muslims and possessed by a Muslim state without fighting. As opposed to this, ghanimah (booty) is a property taken over by fighting. The properties of Bani Nadir were taken over without fighting, hence the word fai&. That is why we did not translate fai& as &booty&. (Muhammad Taqi Usmani)

خلاصہ تفسیر (اوپر جو بیان ہوا وہ تو بنی نضیر کی جانوں کے ساتھ معاملہ تھا) اور ( ان کے اموال کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کا بیان یہ ہے کہ) جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے دلوا دیا سو ( اس میں تم کو کوئی مشقت نہیں پڑی، چنانچہ) تم نے اس پر (یعنی اس کے حاصل کرنے پر) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (مطلب یہ کہ نہ سفر کی مشقت ہوئی، کیونکہ مدینہ سے دو میل پر ہے اور نہ قتال کی اور برائے نام جو مقابلہ کیا گیا وہ غیر معتدبہ تھا کذافی الروح، اس لئے اس مال میں تمہارا استحقاق تقسیم و تملیک کا نہیں، جس طرح مال غنیمت میں ہوتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو (اپنے دشمنوں میں سے) جس پر چاہے (خاص طور پر) مسلط فرما دیتا ہے (یعنی محض رعب سے مغلوب کردیتا ہے، جس میں کسی کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑتی، چناچہ ان رسولوں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اموال بنی نضیر پر اسی طرح مسلط فرما دیا، اس لئے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں بلکہ اس میں مالکانہ تصرف کرنے کا مکمل اختیار آپ کو ہی ہے) اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے (پس وہ جس طرح چاہے دشمنوں کو مغلوب کرے اور جس طرح چاہے اپنے رسول کو اختیار اور تصرف دے اور جیسا اموال بنی نضیر کا یہ حکم ہے اسی طرح) جو کچھ اللہ تعالیٰ (اسی طور پر) اپنے رسول کو دوسری بستیوں کے (کافر) لوگوں سے دلوادے ( جیسا باغ فدک اور ایک جزو خبیر کا اسی طرح ہاتھ آیا) سو ( اس میں بھی تمہارا کوئی استحقاق ملکیت کا نہیں بلکہ) وہ (بھی) اللہ کا حق ہے (یعنی وہ جس طرح چاہے اس میں حکم دے جیسا کہ اور سب چیزوں میں اس کا اسی طرح کا حق ہے اور تخصیص حصر کے لئے نہیں) اور رسول کا (حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مال میں مالکانہ تصرفات اپنی صوابدید سے کرنے کا اختیار دے دیا ہے) اور (آپ کے) قرابت داروں کا (حق ہے) اور یتیموں کا (حق ہے) اور غریبوں کا (حق ہے) اور مسافروں کا (حق ہے یعنی یہ سب حسب صوابدید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مال کی مصرف ہیں اور ان میں بھی انحصار نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کو اپنی رائے سے دینا چاہیں وہ بھی اس میں شامل ہے اور مذکورہ اقسام کا خاص طور پر ذکر شاید اس لے کیا گیا کہ ان کے بارے میں یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جب شرکاء جہاد کا اس مال میں استحقاق نہیں تو یہ اقسام جو شریک جہاد بھی نہیں ان کا بھی حق نہیں ہوگا، مگر آیت میں ان کا ذکر خاص اوصاف یتیم، غریب، مسافر وغیرہ کے ساتھ کر کے اشارہ کردیا کہ یہ لوگ اپنے ان اوصاف کی وجہ سے اس مال کے مصرف باختیار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو سکتے ہیں، جہاد کی شرکت سے اس کا تعلق نہیں، پھر ان اوصاف میں ایک وصف ذوی القربی ٰ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریبی رشتہ داروں کا بھی ہے، ان کو اس مال میں سے اس لئے دیا جاتا تھا کہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار تھے، ہر مشکل کے وقت کام آتے تھے، یہ حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد منقطع ہوگیا، جیسا کہ سورة انفال میں اس کا بیان آ چکا ہے اور یہ حکم مذکور اس لئے مقرر کردیا) تاکہ وہ (مال فئی) تمہارے مالداروں کے قبضہ میں نہ آجائے ( جیسا جاہلیت میں سب غنائم و محاصل جنگ اصحاب اقتدار کھا جاتے تھے اور فقراء بالکل محروم رہ جاتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول کی رائے پر رکھا اور مصارف بھی بتلا دیئے کہ آپ باوجود مالک ہونے کے پھر بھی اہل حاجت و مواقع مصلحت عامہ میں صرف فرما دیں گے) اور (جب یہ معلوم ہوگیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے پر ہونے میں حکمت ہے تو) رسول تم کو جو کچھ دے دیاکریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز (کے لینے) سے تم کو روک دیں تم رک جایا کرو (اور بعموم الفاظ یہی حکم ہے تمام افعال و احکام میں بھی) اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالیٰ (مخالفت کرنے پر) سخت سزا دینے والا ہے (اور یوں تو فئی میں مطلقاً سب مساکین کا حق ہے لیکن) ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً و ظلماً ) جدا کردیئے گئے ( یعنی کفار نے ان کو اس قدر تنگ کیا کہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے اور اس ہجرت سے) وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضا مندی کے طالب ہیں ( کسی دنیوی غرض سے ہجرت نہیں کی) اور وہ (لوگ) اللہ اور اس کے رسول ( کے دین) کی مدد کرتے ہیں ( اور) یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں اور (نیز) ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو دارالاسلام (یعنی مدینہ) میں اور ایمان میں ان (مہاجرین) کے (آنے کے) قبل سے قرار پکڑے ہوئے ہیں (مراد اس سے انصاری حضرات ہیں اور مدینہ میں ان کا پہلے قرار پکڑنا تو ظاہر ہے کہ وہ یہیں کے باشندے تھے اور ایمان میں پہلے قرار پکڑنے کا یہ مطلب نہیں کہ سب انصار کا ایمان سب مہاجرین سے مقدم ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ مہاجرین کے مدینہ میں آنے سے پہلے ہی یہ حضرات مشرف باسلام ہوچکے تھے، خواہ اصل ایمان ان کا بعض مہاجرین کے ایمان سے مؤخر ہی ہو) جو ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو (مال غنیمت وغیرہ میں سے) جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ ( انصار بوجہ محبت کے) اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور (بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں کہ اطعام وغیرہ میں ان کو) اپنے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو (یعنی خود بسا اوقات فاقہ سے بیٹھے رہتے ہیں اور مہاجرین کو کھلا دیتے ہیں) اور (واقعی) جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جاوے ( جیسے یہ لوگ ہیں کہ حرص اور اس کے مقتضا پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رکھا ہے) ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کا (بھی اس مال فئی میں حق ہے) جو (دارالاسلام میں یا ہجرت میں یا دنیا میں) ان (مہاجرین و انصار مذکورین) کے بعد آئے ( یا آویں گے) جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو ( بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں (خواہ نفس ایمان یا ایمان کامل کہ موقوف ہجرت پر تھا) اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے ( یہ دعاء متقدمین کے علاوہ معاصرین کو بھی شامل ہے) اے ہمارے رب آپ بڑے شفیق رحیم ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٦ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ فيأ الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّةوكما قال :إنّما الدّنيا كظلّ زائل والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] . ( ف ی ء ) الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ وجف الوجیف : سرعة السّير، وأوجفت البعیر : أسرعته . قال تعالی: فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر/ 6] وقیل : أدلّ فأمّل، وأوجف فأعجف، أي : حمل الفرس علی الإسراع فهزله بذلک، قال تعالی: قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات/ 8] أي : مضطربة کقولک : طائرة وخافقة، ونحو ذلک من الاستعارات لها . ( و ج ف ) الوجیف کے معنی تیز رفتاری کے ہیں اور اوجفت البعیر کے معنی ہیں میں نے اونٹ کو تیز دوڑایا ( قرآن میں ہے : ۔ فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر/ 6] کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ۔ مثل مشہور ہے ۔ ادل فامل و او جف فاعجف یعنی گھوڑے کو تیز دوڑا کرو بلا کردیا ۔ وجف الشئی کسی چیز کا مضطرب ہون ا۔ قلب واجف مضطرب دل جیسے فرمایا : ۔ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات/ 8] خيل الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل : كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مال غنیمت قول باری ہے (وما آفاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشآء اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فئے دلوایا سو تم نے اس کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہے غلبہ دے دیتا ہے) فئے رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی سے ایلاء میں ہونے والے رجوع کو فی کہا جاتا ہے۔ چناچہ قول باری ہے (فان فائوا ، اگر وہ رجوع کرلیں) جب کوئی چیز کسی کو واپس کردی جائے تو کہا جاتا ہے ” افلوہ علیہ “ اس نے فلاں چیز اسے لوٹا دی۔ اس مقام پر فئے سے مراد اہل شرک کے وہ اموال ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھ آجاتے ہیں اس لئے مال غنیمت ، جزیہ اور خراج وغیرہ سب فئی میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب اہل شرک کے اموال ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ملکیت میں دے دیتا ہے۔ مال غنیمت اگر چہ فئے کی ایک قسم ہے تاہم اس کے اندر ایک خصوصیت ہوتی ہے جس میں فئی کے تحت آنے والے دوسر اموال اس کے ساتھ شریک نہیں ہوتے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ اس مال کو اہل حرب سے بزور شمشیر جنگ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور پھر پانچواں حصہ نکالنے کے بعد غانمین کے درمیان حصوں کی صورت میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ زہری نے مالک بن اوس بن الحدثان سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ” بنو نضیر کے تمام اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فئے کے طور پر دلوائے تھے ان اموال کے لئے مسلمانوں نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ۔ یہ تمام اموال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے اپنے اہل وعیال کو سال بھر کا خرچہ دیتے تھے اور جو کچھ باقی رہ جاتا اس سے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ حاصل کرتے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ فئی کی وہ صورت تھی جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا اس میں کسی کا حق نہیں رکھا گیا تھا، آپ جسے چاہتے دے سکتے تھے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے اپنے اہل وعیال کا سل بھر کا خرچ نکال لیتے اور باقی ماندہ حصے کہ ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کے حصول میں صرف کردیتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طریقہ اس امر پر مبنی تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کردیا تھا وہ یہ کہ اسے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ اونٹ، مسلمانوں نے اسے بزور شمشیر حاصل نہیں کیا تھا بلکہ صلح کی بنیاد پر یہ سی کچھ حاصل ہوا تھا۔ فدک اور عرینہ کے دیہاتوں کا بھی یہی حکم تھا جیسا کہ زہری نے ذکر کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مال غنیمت سے ” صفی “ بھی حاصل ہوتا تھا یعنی وہ چیز جسے آپ مال غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے اپنی ذات کے لئے مخصوص کرلیتے۔ اسی طرح آپ کو خمس میں سے بھی حصہ ملتا تھا۔ اس طرح آپ کو فئی میں سے درج بالا اموال حاصل ہوتے تھے۔ آپ ان سے اپنے اہل وعیال کے اخراجات پورے کرتے اور باقی رہ جانے والے مال کو مسلمانوں کی ضروریات میں صرف کردیتے۔ ان اموال میں کسی کا حق نہیں ہوتا تھا البتہ آپ جسے چاہتے ان میں سے کچھ دے دیتے۔ اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اہل شرک کے جن اموال پر مسلمان بروز شمشیر قبضہ نہ کریں بلکہ صلح کی بناپر ان کے ہاتھ لگیں انہیں بیت المال میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ انہیں جزیہ اور خراج کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔ کیونکہ ایسے مال کی حیثیت وہی ہوگی جو بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کی تھی جس کے حصول کے لئے مسلمانوں کو نہ گھوڑے دوڑانے پڑے تھے اور نہ اونٹ اور یہ تمام اموال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہوگئے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ وَمَـآ اَفَـآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ } ” اور جو مال کہ ہاتھ لگا دیا ہے اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان (بنونضیر) سے “ { فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ } ” تو (اے مسلمانو ! ) تم نے اس پر نہیں دوڑائے گھوڑے اور نہ اونٹ “ { وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُط } ” لیکن مسلط کردیتا ہے اللہ اپنے رسولوں (علیہ السلام) کو جس پر چاہتا ہے۔ “ { وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌ ۔ } ” اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت اور قدرت سے بنونضیر کے حوصلے پست کردیے اور انہوں نے تم لوگوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس مہم میں ان کے خلاف تمہیں جنگ تو لڑنا ہی نہیں پڑی۔ لہٰذا تم پر واضح ہونا چاہیے کہ بنونضیر کی جلاوطنی کے نتیجے میں جو مال تمہارے ہاتھ لگا ہے وہ مال غنیمت نہیں ہے۔ اب اگلی آیت میں اس مال کے مصارف کے بارے میں حکم دیاجا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 The reference is to the fact that the Muslims cut down or burnt many of the palm-trees that stood in the oases around the settlement of the Bani an Nadir in order to facilitate the siege, However, they left those trees standing which did not obstruct the military operations. At this the hypocrites of Madinah and the Bani Quraizah, and the Bani an-Nadir themselves, raised a clamour, saying that, on the one hand, Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) prohibited spreading disorder in the world, but, on the other, fruit trees were being cut down by his command, which amounted to spreading disorder in the world. At this AI-Hashr AIIah ,sent down the Command: 'Whatever trees you cut down, or whatever you left standing, your neither act was unlawful, but it had Allah's permission." The legal injunction that is derived from this verse is that the destruction caused for the sake of military operations does not come under "spreading disorder in the world. " But spreading disorder in the world is that an army under the fit of war hysteria .should intrude into the enemy territory and start destroying the crops, cattle. gardens, houses and everything in its way without any reason. In this matter. the general instruction is the same which Hadrat Abu Bakr Siddiq gave while despatching the Muslim army to Syria: "Do not cut down friut trees; do not destroy crops; do not ravage the settlements." This was precisely in accordance with the Qur'anic teaching, which condemns those who spread chaos; 'When they get power they direct aII their efforts towards spreading corruption in the land, destroying harvests and killing people." (AI-Baqarah: 205). But the specific command in respect of the war exigencies is that if destruction is necessary for military operations against the enemy, it is lawful. Thus, Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud has given this explanation in the commentary of this verse: 'The Muslims had cut down only those trees of the Bani an-Nadir that stood on the battlefield. " (Tafsir Nisaburi). Some of the Muslim jurists have overlooked this aspect of the matter and expressed the opinion that the permissibility of cutting the trees of the Bani an-Nadir was confined only to that particular event. It does not make it generally permissible that whenever war necessitates trees of the enemy be cut down and burnt. Imam Auza'i, Laith and Abu Thaur hold this same opinion. But the majority of the jurists hold the view that for the sake of important military operations it is permissible. However, this is not permissible for the purpose of mere destruction and pillage. One may ask: This verse of the Qur'an could satisfy the Muslims, but how could those who did not accept the Qur'an as Divine Word be satisfied at this reply to their objection that both acts were permissible as they had Allah's permission for it? The answer is: This verse of the Qur'an was sent down to satisfy only the Muslims; it was not sent down to satisfy the disbelievers. Since due to the objection of the Jews and the hypocrites, or due to their own thinking, they had been involved in the misgiving whether they were guilty of spreading disorder in the earth, AIIah gave them the satisfaction that both the acts, cutting down some trees to facilitate the siege and leaving some other trees standing which did not obstruct the siege, were in accordance with Divine Law. The traditionists in their traditions have disputed the point whether the order to cut and burn the trees had been given by the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace himself, or whether the Muslims had done it of their own accord, and then later asked the Holy Prophet about its legal aspect. Hadrat Abdullah bin 'Umar has reported that the Holy Prophet himself had ordered it. (Bukhari, Muslim , Musnad Ahmad, Ibn Jarir). The same also has been reported by Yazid bin. Ruman (Ibn Jarir). On the contrary, Mujahid and Qatadah say that the Muslims had on their own cut down the trees; then a dispute arose among them whether what they had done was permissible or not. Some said it was permissible and some said it was not. At last Allah sent down this verse and approved the act of both. (Ibn Jarir). The same thing is supported by a tradition of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas: 'The Muslims were confused because Some of them had cut the trees and others had not; therefore, they wanted to ask the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) as to who would be rewarded for the act and who would be punished.' (Nasa i). Those of the jurists who have preferred the first tradition give the argument that this was the Holy Prophet's personal judgement, which was later ratified by revelation from AIlah, and this a proof of the fact that in matters where no Divine Command existed, the Holy Prophet used to follow his personal judgement. On the other hand, those jurists who have preferred the second tradition, argue that the two groups of the Muslims had adopted two different views on the basis of their own personal judgements and AIIah ratified both. Therefore, if the learned men arrive at different conclusions by judicious exercise of their personal judgement, then although their opinions might differ, they would all be correct in the Divine Shari ah. 10 That is, "Allah willed that they should be disgraced if you cut down the trees and also if you left them standing." In the first case, they were disgraced when they saw that the trees of the gardens which they had planted with their own hands and which they had owned since ages, were being cut down before their very eyes and they were watching it helplessly. Even an ordinary peasant and gardener cannot tolerate another's misappropriation or intrusion into his field or garden. He would protect his field or garden at the risk of his life if somebody tried to destroy it in his presence. For if he cannot prevent destruction-n of his property, it would be a sign of his extreme humiliation and weakness. But here a whole tribe, which had been living at this place fearlessly and boldly for centuries, was watching helplessly that its neighbours had invaded its gardens and were destroying the trees while it could do nothing. After this even if they stayed on in Madinah they would have lived in disgrace and humility. In the second case, they were disgraced when on leaving Madinah they saw that the lush green gardens which had been in their possession till the previous day were now passing into the possession of the Muslims. Had they the power they would have laid waste the entire gardens by their own hands SO that not a single whole.tree passed into the hands of the Muslims. But in their helplessness they left the city, despaired and grief-stricken, leaving everything intact behind.

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :11 اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا ، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے ، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا ۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ ( جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں ، دراصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں ۔ وہ اگر ان پر قابض و متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے ۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک ، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں ، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے ۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے ( پلٹا کر لائے ہوئے اموال ) قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :12 یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں ، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو ، اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں ، ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے ۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے ۔ اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے ۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں ، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے ، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں ۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ ( تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کارروائی Warlike operations لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں ۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں ۔ یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں ۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں ، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ وغیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں ۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الاَرَضِین والانھار لعُمّالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ۔ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے ( کتاب الخراج لابی یوسف صفحہ 24 ۔ کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59 ۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم ، صفحات 27 ۔ 28 ۔ 148 ) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ( یحیٰ بن آدم ، صفحہ 27 ) ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ( کتاب الخراج ، صفحہ 18 ) ۔ یہی رائے یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے ( صفحہ 27 ) ۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا ، ایک صاحب ، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں ۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے ، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ میں فوج کے ہاتھ آئیں ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْوۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزارھا و تصیر الدار دار الاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ ۔ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے ، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو ، وہ غنیمت ہے ، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دار الاسلام بن گیا ہو ، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے ۔ اس میں خمس نہیں ہے ۔ ( کتاب الاموال ، صفحہ 254 ) ۔ غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں ، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رعب اور ہیبت ہی کی وجہ سے ہوئی ہو ۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسری صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں ۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ وہ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکابٍ کی تعریف میں نہیں آتے ۔ رہے دوسری قسم کے اموال ، تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں ، کیونکہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: ’’فییٔ‘‘ اُس مال کو کہتے ہیں جو کوئی دُشمن ایسی حالت میں چھوڑجائے کہ مسلمانوں کو اس سے باقاعدہ لڑائی کرنی نہ پڑی ہو، بنو نضیر کے یہودیوں کو حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا مال ودولت ساتھ لے جانے کی اجازت دی تھی، اس لئے وہ جو کچھ ساتھ لے جاسکتے تھے، لے گئے ؛ لیکن ان کی جو زمینیں تھیں، ظاہر ہے کہ وہ ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے، اس لئے وہ چھوڑ کر گئے ۔یہ زمینیں مالِ فییٔ کے طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی یہ نعمت یاد دلارہے ہیں کہ یہ مال فیئی اﷲ تعالیٰ نے اُن کو اس طرح عطا فرمادیا کہ مسلمانوں کو باقاعدہ لڑائی کی محنت بھی اُٹھانی نہیں پڑی۔ آیت میں گھوڑوں اور اُونٹوں کو دوڑانے سے مراد لڑائی کی کاروائی ہے۔ اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اس مالِ فییٔ کے مصارف بیان فرمائے ہیں کہ اُسے کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ ٩۔ شروع سورة سے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے بنی نضیر کے جلا وطن ہونے کا ذکر فرما کر اس جلا وطنی کے بعد بغیر لڑائی اور بغیر مقابلہ کے جو مال ہاتھ آیا ان آیتوں میں اس کا یہ حکم فرمایا کہ جس طرح بغیر لڑائی کے بنی نضیر کا مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا اس مال میں اور آگے کو اسی طرح جو مال بغیر لڑائی کے ہاتھ لگے ایسے سب مال میں وہ پانچ حصے نہ ہوں گے جو پانچ حصے لڑائی کے بعد غنیمت کے مال کے سورة انفال میں بیان ہوئے کہ ان پانچ حصوں میں سے چار خمس لشکر اسلام میں تقسیم کئے جائیں گے اور ایک خمس اللہ کے رسول کے اختیار میں رہے گا بلکہ یہ بغیر لڑائی کے ہاتھ آیا ہوا تمام مال اللہ کے رسول کے اختیار میں رہے گا اور اللہ کے رسول اس کو ان موقعوں پر صرف کریں گے جو موقعے اس سورة میں بتائے ہیں۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم وغیرہ میں حضرت عمر سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بنی نضیر کا مال و متاع بغیر لڑائی کے ہاتھ آیا ہوا اللہ کے رسول کے خاص اختیار میں رہنے کا مال تھا غرض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص اختیار کا مال نصف حصہ تو خیبر کا تھا اور بنی نضیر کے اور فدک کے کھجور کے پیڑ تھے ابو داؤود ٢ ؎ وغیرہ میں حضرت عمر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نضیر کے درختوں کی آمد تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالائی ضروری اخراجات کے لئے خاص رکھی تھی اور باغ فدک کی آمد مسافروں کے خرچ کے لئے خاص تھی اور خیبر کی آمد میں ازواج مطہرات کا کھانا پینا ہوتا تھا اور جو کچھ بچتا تھا۔ وہ مہاجر ضرورت مندوں کو خیرات کے طور پر دیا جاتا تھا اس حدیث کی سند پر ابو داؤد اور منذری دونوں نے کچھ اعتراض نہیں کیا۔ اس لئے اس کی سند قابل اعتبار ہے کیونکہ یہ بات قرار پا چکی ہے کہ جس حدیث کی سند پر ابو داؤود اور منذری دونوں سکوت اختیار کریں اس حدیث کی سند قابل اعتبار ہوتی ہے۔ اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں یہی عمل رہا۔ حضرت عثمان (رض) نے اپنی خلافت میں باغ فدک مردان کو دے دیا تھا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں حضرت فاطمہ (رض) نے اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) نے اس مال کی تقسیم کی درخواست پیش کی تھی مگر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے اس تقسیم کو حدیث لا نورث ما ترکنا صدقۃ کے مخالف سمجھ کر جائز نہ رکھا۔ تفصیل اس حدیث کی کتابوں میں ہے اس طرح کے بغیر لڑائی کے ملے ہوئے مال کو فیئ کہتے ہیں جمہور علماء کا مذہب اس طرح کے مال کے باب میں یہی ہے کہ اس مال کا خرچ کرنا امام کی رائے اور مصلحت پر ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا مذہب جمہور کے مخالف ہے۔ تفصیل اس اختلاف کی فقہ کی کتابوں میں ہے فدک ‘ خیبر اور مدینہ کے مابین میں ایک جگہ ہے۔ فتح خیبر کے بعد فدک کے یہود جلا وطن ہوگئے اور بغیر لڑائی کے یہ جگہ فتح ہوگئی۔ صحیح قول یہی ہے کہ آیت ما افآء اللہ علی رسولہ من اہل القری پہلی آیت سے متعلق ہے اور مطلب یہ ہے کہ نبی نضیر کے مال و متاع کی طرح جو مال بغیر لڑائی اور مقابلہ کے ہاتھ آئے اور اس سب کا ایک ہی حکم ہے اللہ کے حصہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ کا حکم اس مال کی تقسیم کا ہے اس کے موافق عمل ہونا چاہئے۔ اب آگے فرمایا کہ یتیم مسکین اور مسافر کا نام اس تقسیم میں اس لئے خاص طور پر جتلا دیا گیا ہے کہ مالدار لوگ موروثی مال کی طرح اس مال کی تقسیم آپس میں نسل بعد نسل نہ ٹھہرا لیں جس سے یتیم مسکین اور مسافر بالکل محروم ہوجائیں پھر فرمایا کہ اس مال میں سے اللہ کے رسول جو تم کو دیں وہ لے لو اور جو نہ دیں اس میں کچھ اصرار نہ کرو۔ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی عین اللہ کی نافرمانی ہے اس لئے اس سے بچتے رہو کہ اس میں عذاب الٰہی کا خوف ہے جو بہت سخت اور انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ اگرچہ اس آیت کا نزول فیئ کے مال کے باب میں ہے لیکن حکم اس کا عام ہے۔ چناچہ صحیح ١ ؎ بخاری کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میری نافرمانی کی وہ جنت میں نہیں جاسکتا۔ اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جو آیت کے حکم کے عام ہونے کی تفسیر ہیں۔ اس تفسیر کی بناء پر سلف نے لکھا ہے کہ صحیح حدیث کے معلوم ہوجانے کے بعد جو شخص اس کے موافق عمل نہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مواخذہ کے قابل قرار پائے گا جس مواخذہ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے بندوں کو ڈرایا ہے۔ فے کے مال کے حق داروں کے بیان میں اطاعت رسول کا ذکر آگیا تھا۔ اب آگے وہی سلسلہ پھر شروع فرمایا ہے کہ اس مال کے حق دار تنگ دست مہاجر اور انصار بھی ہیں۔ مہاجروں کی تعریف فرمائی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کی مدد کے جوش میں اپنا گھر بار اور مال و متاع سب کچھ چھوڑا ہے اور دنیا میں اللہ کے فضل سے رزق ملنے کی اور عقبیٰ میں اللہ کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کی ان کو آرزو ہے۔ ان لوگوں کا ظاہر و باطن یکساں ہے اس لئے یہ سچے ایمان دار ہیں۔ اہل مکہ کی طرح طرح کے کی ایذاء اور مخالفت کے سبب سے حکم الٰہی کے موافق اللہ کے رسول نے جو مکہ اور اہل مکہ کو چھوڑا اس کو ہجرت کہتے ہیں۔ اسی ہجرت کے زمانہ سے ہجری سنہ قرار پایا ہے جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی سکونت کے ارادہ سے مکہ کو چھوڑا اس وقت تو فقط حضرت ابوبکر اور عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کا پروردہ یہ دو ہی صحابی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے پھر رفتہ رفتہ اور بہت سے صحابہ مدینہ آگئے۔ ہجرت کے حکم کی تعمیل میں جن صحابہ (رض) نے اپنا گھر بار چھوڑا ان کو مہاجر کہتے ہیں۔ مشرکین مکہ کی ایذاء سے گھبرا کر کچھ صحابہ حبشہ کو چلے گئے تھے پھر مدینہ کی ہجرت کا حال سن کر وہ بھی مدینہ کو آگئے۔ ان صحابہ کو اصحاب الہجرتین کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے پہلی دفعہ حبشہ کی ہجرت کی اور پھر مدینہ کی۔ فتح مکہ تک ہجرت فرض تھی فتح مکہ کے بعد پھر ہجرت کی تاکید باقی نہیں رہی۔ مہاجرین کے ذکر کے بعد انصار کا ذکر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول اور مہاجرین کے مدینہ میں پہنچنے سے پہلے اپنی بستی کو ایمان دار لوگوں کا ایک ٹھکانہ قرار دیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں تشریف لانے سے پہلے وہاں اسلام کے پھیل جانے کا قصہ یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باہر کے لوگوں کو قرآن شریف کی آیتیں سنا کر اسلام کی ترغیب دلایا کرتے تھے جو موسم حج میں مکہ کو ادھر ادھر سے آتے تھے۔ ایک سال قبیلہ خزرج کے کچھ لوگوں نے قرآن شریف کی آیتیں سنیں ‘ اور مدینہ میں آن کر اپنی قوم میں اس کا ذکر کیا اس خزرج قبیلہ اور مدینہ کے گرد و نواح میں جو یہود رہتے تھے ان کی اکثر لڑائی ہوا کرتی تھی ‘ اس لڑائی میں یہود کو کبھی شکست ہوجاتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کا وقت اب قریب آگیا ہے وہ پیدا ہو کر نبی ہوجائیں گے تو ان کے ساتھ ہم مخالف لوگوں سے دل کھول کر لڑیں گے اور اس شکست کا بدلہ نکالیں گے۔ اب جو قبیلہ خزرج کے عام لوگوں نے اپنی قوم کے مکہ سے آنے والے لوگوں کی زبانی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ذکر سنا تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ہیں جن کا ذکر یہود کیا کرتے تھے۔ اس لئے اب کے سال ان میں کے بارہ شخص حج کو آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منیٰ کے پہاڑ کی گھاٹی کے پاس انہوں نے اسلام کی بیعت کی۔ اسی کو عقبیٰ اولیٰ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مقام منیٰ کے پہاڑ کی گھاٹی کی یہ پہلی بیعت ہے۔ منیٰ میں عقبیٰ وہ جگہ ہے جہاں حج میں شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں اس سال کے بعد پھر اس قبیلے کے بہت سے لوگ حج کو آء اور اس گھاٹی میں اسلام کی بیعت ہوئی اس کو عقبیٰ ثانی کی بیعت کہتے ہیں ‘ اس بیعت میں اسلام کے پھیلانے والے بارہ نقیب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرار دیئے اور اسی بیعت کے بعد اہل مدینہ کا نام انصار قرار پایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے مددگار ہیں پھر فرمایا ان انصار میں یہ نیک خصلتیں ہیں کہ ان کے دل میں مہاجرین کی پوری الفت ہے۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ وہ حق داروں میں سے ایک حق دار کو کوئی چیز زیادہ پہنچ جائے تو یہ دوسرے حق دار کی دل شکنی کا باعث ہوتا ہے لیکن ان انصار کے دل میں مہاجرین کی اس قدر الفت اور محبت ہے کہ مہاجرین کی تنگ دستی کے لحاظ سے اللہ کے رسول اس مال میں سے مہاجرین کو کبھی کچھ زیادہ بھی دیں تو ان انصار کی اس سے کچھ دل شکنی نہیں ہوتی۔ ان انصار کی اعلیٰ درجہ کی سخاوت کی یہ خصلت اللہ کو بہت پسند ہے کہ اپنی ضرورت پر یہ دوسروں کی ضرورت کو مقدم رکھتے ہیں جو کمال عالی ہمتی اور دینداری کی بات ہے صحیح بخاری ١ ؎ صحیح مسلم ترمذی نسائی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان میں اس آیت کی جو شان نزول ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی محل مبارک میں اس مہمان کے کھانے کا کچھ بندوبست نہ ہوسکا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ابو طلحہ انصاری اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ گھر میں فقط بچوں کے تھوڑے سے کھانے کے سوا اور کچھ نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنے بچوں کو بہلا کر تو بھوکا سلا دیا۔ اور چراغ بجھا کر اندھیرے میں وہ بچوں کے حصہ کا کھانا اس طرح مہمان کو کھلایا جس سے مہمان نے جانا کہ ابو طلحہ اور ان کی بی بی اس مہمان کے ساتھ کھا رہے ہیں صبح کو جب ابو طلحہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاری کی تعریف میں یہ آیت نازل فرمائی اس طرح کی عالی درجہ کی سخاوت کے مقابلہ میں بخیلی کا ذکر فرمایا کہ بخیلی کی برائی آدمی کے دل میں خوب جم جائے اور بخیلی سے بچنے میں مراد پانے سے یہ مطلب ہے کہ بخیلی سے بچ کر جو شخص اللہ کے نام پر کچھ خالص نیت سے دے گا تو ایک کے سات سو اور کبھی اس سے بھی زیادہ پائے گا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ہر روز اللہ کی طرف سے دو فرشتے زمین پر اتر کر ‘ ایک ان میں سے سخی کا مال بڑھنے کی دعا کرتا رہتا ہے اور دوسرا بخیل کے مال کے ضائع اور تلف ہونے کی۔ صحیح بخاری ٣ ؎ وغیرہ کی عبد اللہ بن مسعود کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اصل میں انسان کا مال وہی ہے جو اس نے خیر خیرات میں صرف کیا اور جو جوڑ کر رکھا وہ اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہے۔ یہ حدیثیں گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جن مہاجرین نے بیت المقدس اور بیت اللہ دونوں طرف کے قبلہ کی نمازیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ میں پڑھیں وہ مہاجرین اولین کہلاتے ہیں۔ اسی طرح جو انصار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ میں آنے سے پہلے مسلمان ہوگئے وہ انصار اولین کہلاتے ہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب حدیث بنی النضیر الخ ص ٥٧٥ ج ٢ و صحیح مسلم باب حکم الفی ص ٩٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ سنن ابی دائود کتاب الفرائض باب فی صفایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ؟ ؟ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب اقتداء بسنن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ١٠٨١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الحشر ص ٧٢٥ ج ٢ و ترمذی شریف تفسیر سورة الحشر ص ١٨٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ عز و جل فاما من اعطیٰ و اتقیٰ الایۃ ص ١٩٣ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب ماقدم من مالہ فھولہ ص ٩٥٣ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(59:6) وما افاء اللہ علی رسولہ منہم : واؤ عاطفہ۔ ما موصولہ، مبتداء ۔ افاء اللہ علی رسولہ منہم صلہ۔ اس کے بعد اگلا جملہ مبتدا کی خبر ہے۔ افاء ماضی واحد مذکر غائب۔ افاء ۃ (افعال) مصدر۔ اس نے لوٹای۔ اس نے ہاتھ لگوایا۔ اس نے فئی میں عطا کیا۔ ف ی ء مادہ۔ فاء یفیی (باب ضرب) فیئی لوٹنا (کسی چیز کی طرف) (سایہ کا) ہٹ جانا۔ فیئی کے اصول معنی کسی اچھی حالت کی طرف لوٹنا کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے حتی تفیئی الی امر اللہ فان فاءت (49:9) یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے : جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہو وہ بھی فئے کہلاتا ہے۔ علامہ ناصر بن عبد السید المطرزی المغرب میں رقمطراز ہیں :۔ غنیمت وہ مال ہے جو بحالت جنگ کفار سے بروز شمشیر حاصل کیا جائے اس کا پانچواں حصہ نکال کر بقیہ چار حصے غانمین یعنی مجاہدین کا حق ہے۔ اور فی وہ مال ہے جو کفار سے جنگ کے بعد حاصل ہو جیسے خراج۔ یہ عام مسلمانوں کا حق ہے۔ ما افاء سے مراد بنو نصیر کا مال و اسباب مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوفے میں دلوایا۔ یہ مال خالص آپ کی ملکیت تھا۔ اور فے میں اس طرح کی ملکیت آپ ہی کی خصوصیت تھی۔ الفئۃ اسی مادہ سے مشتق ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کی طرف لوٹ کر آئیں۔ منھم میں ھم ضمیر جمع مذکر غائب بنو نصیر کے لئے ہے۔ منھم سے مراد من اموالہم ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ جو مال بنو نضیر کے اموال میں سے اللہ نے اپنے رسول کوفے میں عطا کیا۔ صاحب تفسیر ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ افاء کا لفظ بڑا معنی خیز ہے افاء کا معنی ہے کسی چیز کو لوٹا دینا۔ واپس کردینا۔ سایہ کو بھی فیئی کہتے ہیں کیونکہ یہ بھی پلٹ کر واپس آتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر چیز جس کو اللہ نے پیدا کردیا ہے اس کے حق دار اس کے فرماں بردار بندے ہیں اصل میں ہر چیز انہی کی ملکیت ہے نافرمان لوگ جو بعض چیزوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ یہ ان کا قبضہ مخالفانہ ہے اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان چیزوں کو غاصب لوگوں سے لے کر ان کے اصل حقداروں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں بھی بنی نضیر کے جو املاک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائے گئے ہیں۔ وہ حقیقتاً یہودیوں کے نہ تھے۔ انہوں نے انہیں غصب کیا ہوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے غاضباطہ قبضہ کو ختم کرکے اپنے رسول کریم کو واپس دیدئیے ہیں جو ان کے حقیقی حقدار تھے۔ علامہ آلوسی صاحب تفسیر روح المعانی لکھتے ہیں :۔ فیہ اشعار بانھا کانت حویۃ بان تکون لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وانما وقعت فی ایدیم بغیر حق فارجعھا اللہ تعالیٰ الی مستحقھا۔ (روح المعانی) ۔ علامہ ابوبکر عربی نے احکام القرآن میں بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اور افاء کا کلمہ یہاں استعمال کرنے کی یہی حکمت ذکر کی ہے فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب یہ جملہ تم نے نہ گھوڑے دوڑائے تھے۔ اور اونٹ ما نافیہ۔ اوجفتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ایجاب (افعال) مصدر ۔ وجف مادہ۔ سواری کو دوڑانا اور تیز کرنا۔ علی کے صلہ کے ساتھ۔ کسی کے خلاف سواری کو تیز کرکے حملہ کرنا۔ من خیل یعنی گھوڑے۔ اصل میں خیل گھوڑوں کا نام ہے مجازا سواروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ولارکاب اور نہ ہی اونٹ یا اونٹوں پر سوار ہوکر۔ ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشائ۔ لکن حرف عطف ہے۔ کلام سابق سے پیدا شدہ وہم کو دور کرنے کے لئے بھی آتا ہے لیکن اس صورت میں یہ واؤ عاطفہ کے ساتھ آتا ہے اور حرف عطف نہیں بلکہ حرف استدراک کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس وہم کو دور کرنے کے لئے جو کلام سابق سے پیدا ہوا ہو۔ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے۔ لکن (نون کے سکون کے ساتھ) بھی حرف استدراک ہے لیکن یہ اسم پر عمل نہیں کرنا۔ لکن کی مثال : وما کفر سلیمن ولکن الشیاطین کفروا (2:102) اور (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) نے مطلق کفر کی بات نہیں کہ بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے۔ اور لکن کی مثال :۔ لکن الظلمون الیوم فی ضلل مبین (19:38) مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں۔ یسلط مضارع واحد مذکر غائب تسلیط (تفعیل) مصدر۔ وہ مسلط کرتا ہے۔ وہ قابو یافتہ کردیتا ہے۔ سوال : پیدا ہوتا ہے کہ بنی نضیر کے مال کو مال فیئے کہنا اور یہ فرمانا کہ اس پر تمہارے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑے صحیح نہیں۔ اس لئے کہ بنی نضیر کا کئی روز تک محاصرہ رہا لوگ مرے کھپے بھی۔ آخر وہ جلاوطنی پر راضی ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس مال کو غنیمت کہنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :۔ یہ بنی نضیر مدینے سے صرف دو میل کے فاصلہ پر آبار تھے۔ ان کے خلاف کچھ زیادہ سامان سفر اور تیاری کی ضرورت نہ ہوئی۔ پاپیادہ جاکر محاصرہ کرلیا گیا۔ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ پر سوار تھے۔ یعنی جس طرح جنگوں میں محنتیں اور تکلیفیں اٹھا کر فتح ہوتی ہے اس میں اس قدر تکلیف اٹھانی نہ پڑی گویا کہ مال مفت ہاتھ آگیا اس لئے اس کو مال فے کہا گیا۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی غالب کرتا ہے۔2 مسلمان کافروں سے جو مال لڑکر حاصل کریں۔ اسے غنیمت کہا جاتا ہے جس کے احکام سورة انفال آیت 41 میں گزر چکے ہیں اور جو مال لڑائی کے بغیر حاصل ہوا سے قے کہا جاتا ہے۔ اس میں فوج کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خلاصہ اللہ و رسول اور ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جن کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ بنو نضیر کے اموال چونکہ صلح نامہ کے تحت حاصل ہوئے تھے۔ اس لئے قرآن نے اسے اموال فے قرار دیا۔ ان کو آنحضرت نے مہاجرین میں تقسیم کردیا۔ اس طرح انصار پر سے ان کا بار ہلکا ہوگیا اور کچھ حصہ آنحضرت نے رکھ لیا اس سے جو آمدنی ہوتی اس سے اپنے گھر والوں کے لئے سال بھر کا خرچ نکال لیتے اور جو بچتا اے اللہ کی راہ میں صرف کردیتے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ افائ۔ اس نے لوٹایا۔ اوجفتم۔ تم نے بھگایا۔ تم نے دوڑایا۔ دولۃ۔ مال و دولت۔ نھی۔ منع کردیا۔ تبوئ۔ انہوں نے ٹھکانا بنایا۔ حاجۃ۔ ضرورت۔ یوثرون۔ وہ ترجیح دیتے ہیں۔ خصاصۃ۔ ضروریات زندگی۔ فقر وغربت۔ شح۔ کنجوسی۔ لالچ۔ غلا۔ کینہ۔ بغض۔ تشریح : جنگ میں فتھ کے بعد کفار سے جو مال مجاہدین کے ہاتھ لگتا ہے اگر باقاعدہ جنگ کے ذریعہ حاصل ہو تو اس کو ” مال غنیمت “ اور ” انفال “ کہا جاتا ہے اور بغیر جنگ کے صلح کے ذریعہ مال و دولت ، زمین و جائیداد ہاتھ آتی ہے اس کو ” مال فے “ کہا جاتا ہے۔ مال غنیمت اور مال فے کو کس طرح صرف کیا جائے گا اس کے الگ الگ احکامات ہیں۔ دور جہالت میں عربوں کا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو بھی مال و دولت اور غلام باندیاں ہاتھ لگتی تھیں وہ اس کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں جس نے ان کو اپنے دشمن سے چھینا ہے۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص کو اصولوں پر چلنا سکھایا ہے تاکہ ہر شخص کو عدل و انصاف مل سکے اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔ اسلام کے ان انقلابی اصولوں نے ہر مومن کو ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کرنے والا بنادیا۔ سب سے پہلے تو اہل ایمان کو بتایا گیا کہ اصل چیز اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جان و مال کا ایثار اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ دشمن سے جو مال ملتا ہے وہ ” انفال “ ہے یعنی زائد چیز ہے اس کو اصل نہ سمجھا جائے کیونکہ جب آدمی مال و دولت کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے تو آدمی کی اندرونی کمزوریاں اس کو لالچی، کنجوس، ظالم اور غرور وتکبر کا پیکر بنا دیتی ہیں اس لئے اہل ایمان کے نزدیک اللہ کی راہ میں جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا ہی ان کی ساری دولت ہوا کرتی ہے۔ جنگ سے ہاتھ لگنے والے مال کا اصول یہ مقرر فرما دیا گیا ہے کہ جو بھی مال غنیمت ہاتھ لگے اس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لا کر ڈھیر کردیا جائے چناچہ اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ایک حصہ (خمس) بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا جس کی تقسیم کی پوری ذمہ داری اور اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوتا تھا تاکہ وہ لوگ جو اس جنگ میں شریک نہیں ہیں یا غریب اور ضرورت مند ہیں وہ بھی محروم نہ رہیں اور باقی مالمجاہدین میں تقسیم کردیا جاتا تھا جو غلام اور باندیاں ہاتھ لگتیں ان کو بھی مجاہدین پر تقسیم کردیا جاتا تھا۔ غزوہ ٔ بنو نضیر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور اصول یہ مقرر فرمادیا کہ دشمن سے جو مال و جائیداد بغیر جنگ کے ہاتھ لگے وہ ” مال فے “ ہے جو سب کا سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار سے تقسیم ہوگا۔ آپ اس مال و جائیداد کو اپنی مرضی سے عام لوگوں کی مصلحت اور مدد میں خرچ کریں گے۔ چناچہ جب بنو نضیر کے قلعوں اور گڑھیوں کو مجاہدین نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور بنو نضیر کو اندازہ ہوگیا کہ کوئی دوسرا ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا تو وہ صلح پر آمادہ ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ بنو نضیر کے جتنے لوگ ہے وہ ایک ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں۔ یہودیوں نے جو ان سے ممکن ہوسکا انہوں نے ہر چیز کو اپنے اونٹوں پر لادا اور اپنے قلعے، گڑھیاں، گھر بار اور مال و جائیداد مسلمانوں کے حوالے کرکے خیبر اور ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ سب کچھ اس قدر آسانی سے ہوگیا کہ جس کی کسی کو توقع تک نہ تھی۔ اس وقت فے کے احکامات نازل ہوئے جن پر انصار اور مہاجرین نے دل کی خوشی سے عمل کیا اور ایسے زبردست ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک انسانی تاریخ کا سنہری باب سمجھا اور لکھا جائے گا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اے مومنو ! اللہ نے جو مال اپنے رسول کو ان بستی والوں (بنو نضیر) سے دلوایا ہے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تم نے اس پر نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (یعنی تم نے کوئی خاص جنگی کاروائی نہیں کی) بلکہ اللہ نے اپنے رسول کو جن پر چاہا مسلط کردیا۔ وہ اللہ ہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے لہٰذا جو مال اللہ نے اپنے رسول کو ” فے “ کے طور پر دلوائے ہیں ان میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ساتھ اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ وہ مال (جو معاشرہ کو زندگی دینے کے لئے گھومتے رہنا چاہیے) چند ہاتھوں تک محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول زندگی کے ہر معاملے میں متعین فرما دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ جب وہ کسی کو سزا دینے پر آتا ہے تو سخت اور بھیانک سزا دیا کرتا ہے۔ اللہ نے اس ” مال فے “ میں مہاجر فقراء کی بھرپور مدد کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے میں ان مہاجر فقراء کا بھی حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے ہیں جن کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مکمل رضا و خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرکے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کے ایثار و قربانی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے کے وہ بھی حق دار ہیں جو ان مہاجرین کے آنے سے پہلے (مدینہ منورہ میں) اپنا ٹھکانا رکھتے تھے۔ جنہوں نے اپنے پر خلوص ایثار و قربانی کے ذریعہ ایک ایسا عظیم مقام حاصل کرلیا ہے کہ وہ ان مہاجرین سے اپنے دلوں میں کوئی خلش اور تنگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے فقر و فاقہ کے باوجود اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کرنے کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ واقعہ جو لوگ ” شح نفس “ (کنجوسی، بخل، تنگ دلی اور تنگ نظری سے ) بچ گئے حقیقی فلاح اور کامیابی ان ہی کا مقدر ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ بھی مال فے کے مستحق ہیں جو مہاجرین و انصار بعد میں آئیں گے۔ جن کی زبان پی یہی مخلصانہ دعائیہ کلمات ہوتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دیجئے جو ایمان لانے میں ہم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ الٰہی ! ہمارے دلو میں اہل ایمان کے لئے کسی بھی بغض و عداوت کو جگہ نہ دیجئے گا۔ اے ہمارے پروردگار آپ ہی تو ہر طرح کی شفقتیں کرنے والے مہربان ہیں۔ ٭” مال فے “ کے اس عادلانہ نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والے وہ مہاجرین جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا سرا گھر بار، رشتہ دار اور کاروبار جائیداد کو چھوڑ کر مدینہ منورہ آگئے تھے۔ انصار مدینہ نے ان کا نہ صرف زبردست، پر خلوص اور گرم جوشی سے اسقبال کیا تھا بلکہ اپنے کاروبار، مال و دولت، کھیتی باڑی میں اپنا حصہ دار بنا لیا تھا۔ انصار نے ان کو اپنے گھروں اور بستیوں میں مہمانوں کی طرح نہیں بلکہ بھائیوں کی طرح آباد کیا۔ انصار کے خلوص کی انتہا یہ تھی کہ کئی کئی انصاری صحابی کسی ایک مہاجر کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے تو دوسرا اس سے زیادہ اصرار کرتا تھا یہاں تک کہ بعض مرتبہ قرعہ اندازی سے یہ طے کیا جاتا کہ کون سا مہاجر کس انصاری کے ساتھ رہے گا۔ مہاجرین نے بھی محنت اور مزدوری سے اپنے انصاری بھائیوں کے دلوں میں اور بھی جگہ بنا لی تھی لیکن ان کا حال یہ تھا کہ ان کے پاس نہ تو اپنا ذاتی مکان تھا، نہ جائیداد تھی وہ اپنے انصاری بھائیوں کی جائیداد اور کاروبار میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ جب بنو نضیر کے مال اور جائیداد کی تقسیم کے لئے ” مال فے “ کے احکامات نازل ہوئے تو آپ نے انصار کے سرداروں اور انصار مدینہ کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب انصار مدینہ سے فرمایا کہ بنو نضیر کے مال و جائیداد ہمیں حاصل ہوچکے ہیں اب ان مالوں کو مہاجرین اور انصار میں تقسیم کردیا جائے اور مہاجرین کو اسی طرح آپ کے مکانوں اور جائیدادوں میں محنت مزدوری کے لئے چھوڑد یا جائے ؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا مشورہ ہے ؟ یہ سن کر انصار کے دوسردار حضرت سعد ابن عبادہ (رض) اور حضرت سعد ابن معاذ (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ہی بات فرمائی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری تو یہ رائے ہے کہ یہ سارے مال و جائیداد ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردیے جائیں اور وہ پھر بھی ہمارے گھروں میں بدستور رہیں۔ ان سرداروں کی باتیں سن کر تمام انصار کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بیک آواز کہا کہ ہم اس فیصلے پر راضی اور خوش ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار مدینہ کے اس عظیم جذبے کو سنا تو بےساختہ ان انصار مدینہ کے لئے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ اس فیصلے کے بعد آپ نے صرف دو انصاری صحابہ (رض) حضرت ابو دجانہ (رض) اور حضرت سہل بن حنیف کو اور ایک روایت کے مطابق حضرت حارث ابن الصمہ کو ان کی بےانتہا غربت کی وجہ سے حصہ دیا (ابن ہشام) اور باقی تمام مال کا بڑا حصہ مہاجرین میں تقسیم فرما دیا گیا۔ سورۃ الحشر کی ان آیات ہی میں چند بہت ہی بنیادی باتیں ارشاد فرمادی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے : (1) دین اسلام نے معیشت کے ایسے منصفانہ اصول مقرر فرمائے ہیں جن میں دولت کی تقسیم میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے کے چند مال داروں اور دولت مندوں میں ساری دولت گھومتی نہ رہے جس سے غریب اور امیر کے دو ایسے طبقے پیدا ہوجائیں جس میں غریب تو اپنی محنت مزدوری کے باوجود اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لئے راحت کے ہر سامان سے محروم ہر کو روٹی کے دو ٹکڑوں کے لئے ترس جائے اور اس پر زندگی ایک ایسا بوجھ بن جائے جس میں اسے سانس لینا دشوار ہوجائے لیکن دوسری طرف کچھ مال دار معاشرہ کے اس طرح ٹھیکیدار اور اجارہ دار بن جائیں کہ ریاست، سیاست، صحافت، معاشرت، معیشت، تہذیب و تمدن اور مال و دولت کے تمام ذرائع ان کے غلام بن کر رہ جائیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ان کی اجارہ داری سے خالی نہ رہے۔ امیر ہر روز امیر تر بنتا چلا جائے اور غریب ہر روز غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے۔ چونکہ دین اسلام کے اصولوں میں جبر اور زبردستی نہیں ہے اس لئے اس نے ایسے طریقے متعین کردئیے ہیں کہ دولت مندوں کی دولت کا بہائو غریبوں کی طرف اور شہر میں رہنے والے صاحب حیثیت لوگوں کی دولت دیہاتوں کی طرف بہنے لگے چناچہ زکوٰۃ و صدقات کو عبادت کا درجہ دیا گیا اور نفلی صدقات کی جگہ جگہ رغبت دلائی گئی۔ قرض داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کو سہولتیں دینے کا حکم دیا گیا۔ سود کے لین دین کو قطعی حرام قرار دیا گیا ۔ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی گئی۔ مختلف غلطیوں کی معافی کے لئے کفارہ لازم کیا گیا۔ میراث کی تقسیم اور وصیت کے احکامات دئیے گئے تاکہ مرنے والے کا مال اور اس کی دولت و جائیداد زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے۔ بخل، کنجوسی، تنگ دلی اور تنگ نظری کی مذمت اور سخاوت و فیاضی کو اخلاق کا اعلیٰ ترین مقام عطا کیا گیا۔ جائزطریقے پر مانگے والوں، مسافروں، نادانوں اور محروم رہ جانے والوں کے ساتھ اس طرح حس سلوک کا حکم دیا گیا کہ مال دار مجبوروں کو بھیک سمجھ کر نہ دے بلکہ اس کو ان کا ایک حق سمجھ کر ادا کرے۔ حکومت کے پاس بیت المال میں خمس اور فے کی جو بھی رقم جمع ہوجائے اس کو معاشرہ کے غریب اور بدحال لوگوں کی خوش حالی پر صرف کیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیشمار احادیث میں بخل اور کنجوسی کو قابل ملامت اور فیاضی و سخاوت اور معاشرہ کے غریبوں کے لئے فرض شناسی کی عادت کو بہت پسند کیا گیا۔ جو لوگ تنگ دل، تنگ نظر، کم ظرف، دل کے چھوٹے اور زر پرست ہوتے ہیں ان کو معاشرہ کا ایک ایسا کینسر قرار دیا گیا جو آہستہ آہستہ پورے انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت جابربند عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا شح (بحل، کنجوس اور کوتاہ نظری) سے بچو کیونکہ اس عادت نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کیا ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے خون بہانے ایک دوسرے کی حرمت کو حلال جاننے پر اکسایا۔ ان کو ظلم و زیادتی پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ انہوں نے ظلم و ستم کئے۔ فسق و فجور اور قطع رحمی میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے (صلہ رحمی کے بجائے) قطع رحمی کی۔ (مسلم ۔ بہیقی) ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ ایمان اور شح (بخل، کنجوسی اور زرپرستی) ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (نسائی۔ بیہقی) ۔ (2) ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد یہی سارے اختیارات جو مال غنیمت اور مال فے سے متعلق ہیں اور آپ کو پوری طرح حاصل تھے اس کے انتظامی اختیارات خلفاء راشدین اور ان کے بعد آنے والے خلفاء کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اب جب بھی ایسے حالات پیش آئیں اور مال فے حاصل ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء اپنے اختیارات کو استعمال کریں گے۔ وہ چاہیں تو مال فے کو تمام مسلمانوں کے مفاد میں روک لیں، بیت المال میں جمع رکھیں، کسی کو کچھ دیں یا نہ دیں، عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود جن کاموں سے متعلق ہے اس میں خرچ کردیں اور جیسے حکم دیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ مال غنیمت کے خمس اور مال فے کے سورة انفال اور سورة حشر میں پانچ مصرف بیان کئے گئے ہیں۔ رسول، رشتہ دار، یتیم، مسکین اور مسافر۔ خمس میں بھی یہی مصارف ہیں اور مال فے کے بھی۔ بس یہاں یہ فرما دیا گیا کہ مال فے کی تقسیم کا پورا حق صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ تو ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت نہیں تھی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولادوں کی طرف منتقل ہوجاتی۔ اسی نسبت سے ذوی القربی یعنی رشتہ داروں کا حق تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ البتہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں میں جو ضرورت مند ہیں ان کی ضروریات کو اور لوگوں سے پہلے پورا کیا جانا چاہیے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں پر زکوٰۃ و صدقات لینا حرام ہے۔ (3) ۔ ان آیات میں تیسرا اصول یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ” رسول تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رک جائو “۔ اگرچہ یہ آیت ” مال فے “ کے بیان میں آئی ہے لیکن اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے فرماتے ہیں لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز اور جس کام کے کرنے کا حکم دیدیں اس کو اسی طرح کیا جائے اور جس سے رکنے کا اشارہ کریں اس سے رک جانا ہی سب سے بڑی سعادت ہے۔ چنانچہ ذخیرہ احادیث کا اگر دیکھا جائے تو اس میں سیکڑوں، ہزاروں ایسی حدیثیں ملیں گی جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو احکامت عطا فرمائے ہیں جن کی تعمیل کرنا اصل دین ہے۔ دراصل جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کو اہمیت نہ دیتا ہو اور وہ ذخیرہ احادیث جس پر امت کے علماء محدثین، مفسرین اور فقہاء نے بےمثال محنتیں کرکے ہم تک پہنچایا ہے اس کا انکار اور اس کو عجمی سازش قرار دینے والا روح اسلام کا انکار کرنے والا، خود دشمنان اسلام کی سازشوں کا شکار ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ جو مال اہل حرب سے بلا قتال حاصل ہو وہ فئے ہے۔ 7۔ مطلب یہ کہ نہ سفر کی مشقت ہوئی، کیونکہ مدینہ سے دو میل پر ہے، اور نہ قتال کی اور برائے نام جو مقابلہ کیا گیا وہ غیر معتد بہ تھا اس لئے اس میں تمہارا استحقاق تقسیم و تملیک کا نہیں جس طرح غنیمت کے چار خمس میں ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنو نضیر کے چھوڑے ہوئے مال کے بارے میں حکم۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر پر مسلمانوں کا اس طرح دبدبہ اور رعب طاری کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے حملہ کیے بغیر ہی اپنے گھر بار اور پورا علاقہ خالی کردیا۔ اس طرح مسلمان ان کے گھروں اور زمینوں پر قابض ہوگئے۔ جب بنو نضیر اپنی جائیدادیں چھوڑ کر نکل گئے تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اس مال کی کس طرح تقسیم کی جائے بالخصوص جب منافقین نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی مال غنیمت سے حصہ دیا جائے۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ یہ مال غنیمت نہیں بلکہ اسکی حیثیت مال فئی کی ہے کیونکہ اس پر مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ یعنی مسلمانوں کے حملہ کی وجہ سے یہودیوں نے اپنا گھربار نہیں چھوڑا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول کا دبدبہ طاری کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے اپنے رسول کو غالب کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مال بستی والوں سے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ اللہ، اس کے رسول، اور اس کے رشتہ دار، یتامیٰ ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ تقسیم کا مقصد یہ ہے کہ دولت دولت مندوں کے ہاتھوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ جو چیز رسول تمہیں عطا فرمائے اسے لے لوجس سے تمہیں منع کرے اس سے رک جاؤ اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس فرمان میں یہودیوں کے چھوڑے ہوئے مال کو مال فئی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد دشمن کا وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے حاصل ہو۔ (فئی کا معنٰی لوٹنا، واپس آنا، ہٹ جانا، رجوع کرنا ہے۔ ) اس ارشاد میں تین بنیادی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 ۔ جنگ کیے بغیر جو مال حاصل ہو اس کی تقسیم درج ذیل اصول کی بنیاد پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا حصہ : اس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ یہ مال بیت اللہ پر خرچ ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول کا حصہ : اللہ کے رسول کے زمانے میں اس مال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے۔ اسی بنا پر خیبر کے موقع پر آپ کے حصہ میں جو باغ آیا اس کی آمدنی آپ کے بعد امہات المومنین پر خرچ کی جاتی تھی اس کی تفصیل حدیث کی کتب میں موجود ہے۔ ” حضرت مالک بن اوس بن حدثان (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جس سال حضرت عمر (رض) نے حج کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خیبر، فدک اور بنو نضیرتین باغ تھے جو بنو نضیر کا باغ تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو لیے رکھا ہوا تھا جن کو اسلام میں مشکلات اور تکالیف آتیں تھیں اور جو فدک کا باغ تھا اس کی آمدنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسافروں پر خرچ کرتے تھے جبکہ خیبر کے باغ کی آمدنی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا دو حصے مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے اس ایک حصے میں سے جو رقم بچ جاتی وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقراء اور مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔ “ (رواہ ابوداؤد : بَابٌ فِی صَفَایَا رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْأَمْوَالِ ، قال البانی ھذا حدیث حسن) مستحق قریبی رشتہ داروں کا حصہ : رسول کے مستحق قریبی رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے۔ مالِ فئی سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ 2 ۔ دولت کا معاشرے میں گردش کرنا ضروری ہے، دولت کا لفظی معنٰی گھوم گھوم کر آنا ہے۔ عام طور پر دولت کا لفظ جن چیزوں پر بولا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ دولت کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اسے سود کی بجائے تجارت میں استعمال کرنا چاہیے، سودی نظام میں دولت کا بہاؤ سرمایہ دار کی طرف رہتا ہے اور تجارت میں مال مختلف ہاتھوں میں گھومتا ہے جس سے بیک وقت سرمایہ دار اور دوسرے لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 3 ۔ تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو رسول تمہیں دے اسے پکڑلو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اسی اصول پر سارے دین کا انحصار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو حکم اور ہدایت دی ہے وہ رسول کے ذریعے دی ہے، اس لیے حکم ہے کہ جو رسول دے اسے پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء : ٨٠) رسول کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس کی محبت کا واحد ذریعہ ہے۔ (آل عمران : ٣١) اس کے بغیر نہ امت متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی اللہ کے ہاں کسی کی نیکی قبول ہوگی، اس لیے اس اصول میں کسی قسم کے ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو اس کے خلاف کرے گا اسے شدید عذاب دیا جائے گا۔ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ ) (شرح السنۃ : باب رد البدع والاہواہ) ” تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔ “ مسائل ١۔ جنگ کے دوران بلامقابلہ ہاتھ آنے والے مال کو مال فئی کہتے ہیں۔ ٢۔ فئی کا مال غنیمت کے اصول پر تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ وہ مملکت کی ملکیت ہوتا ہے۔ ٣۔ فئی کا مال اہل بیت، غرباء، یتامیٰ اور مساکین پر خرچ ہونا چاہیے۔ ٤۔ اسلامی حکومت میں ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے دولت لوگوں کے درمیان گردش کرتی رہے۔ ٥۔ اللہ کے رسول نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انسان کو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ : ٤١) ٢۔ اے عقل مندو ” اللہ “ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اے عقل مند و ! اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ : ١٠٠) (الاحزاب : ٧٠) (النساء : ١) (الاحزاب : ٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما افاء اللہ .................................... رحیم (٠١) (٩٥ : ٦ تا ٠١) ” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (نیز وہ مال) ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “ ان آیات میں فے کا حکم بیان ہوا یا فے جیسے دوسرے اموال کا۔ نیز ان آیات میں امت مسلمہ اور اسلامی سوسائٹی کی ایک نہایت ہی اہم صفت اور اس کی دائمی حالت کو بیان کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کی امتیازی صفت رہی ہے اور امت کی پوری تاریخ میں اس کی امتیازی شان رہی ہے۔ یہ امت کی وہ خصوصیت رہی ہے جس کو اس نے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے۔ کسی دور میں بھی خدا کے فضل سے امت سے یہ صفت جدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ صفت امت مسلمہ کی کسی نسل ، کسی قوم ، کسی شخص مسلم سے ایک طویل اسلامی تاریخ میں کبھی جدا نہیں ہوئی ہے۔ پھر اس دنیا میں جن جن علاقوں میں مسلمان ہیں ان میں سے کسی علاقے میں بھی مسلمانوں سے یہ صفت الگ نہیں ہوئی ہے اور یہ وہ عظیم حقیقت ہے اور اس پر گہرا غور کرنا چاہیے۔ وما آفاء ........................ شیء قدیر (٩٥ : ٦) ” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اوجفتم (٩٥ : ٦) ایجاف سے ہے۔ ایجاف کے معنی ہیں گھوڑے کو تیزی سے دوڑانا۔ رکاب کے معنی اونٹ کے ہیں۔ مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ بنو نضیر نے اپنے پیچھے جو مال چھوڑے ہیں انہوں نے اس پر گھوڑے نہیں دوڑائے اور نہ اونٹوں پر تیز سفر کرکے انہوں نے اسے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا ان اموال کا حکم مال غنیمت کا نہیں ہے۔ مال غنیمت میں تو مجاہدین کا ٥/٤ حصہ ہوتا ہے اور ٥/١ حصہ اللہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہوتا ہے۔ جب کہ جنگ بدر کے اموال عنائم کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کیا۔ اس فے کا حکم یہ ہے کہ یہ سب کا سب اللہ رسول اللہ ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کا ہے۔ اور اس میں تصرف حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریں گے اور آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ، ان سے مراد رسول اللہ کے قرابت دار ہیں۔ اس لئے کہ صدقات ان کے لئے جائز نہ تھے اور زکوٰة میں ان کا حصہ نہ تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی دولت نہ تھی جسے ورثاء پالیتے اور ان میں فقراء بھی تھے ، جن کی کوئی آمدن نہ تھی۔ اس لئے ان کے لئے عنائم کے خمس میں حصہ رکھا گیا تھا جیسا کہ فے اور فے کی قسم کے اموال میں ان کا حصہ رکھا گیا تھا۔ رہے دوسرے لوگ تو ان کے احکام معروف ومعلوم ہیں اور یہ فنڈز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصرف خاص میں تھے۔ یہ تو تھا فے کا حکم جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان آیات میں اس حکم اور ان حالات پر اکتفا نہیں کیا گیا جن میں یہ حکم جاری ہوا بلکہ یہاں ایک دوسری حقیقت کا بھی اظہار کردیا گیا ہے۔ ولکن اللہ .................... من یشاء (٩٥ : ٦) ” بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا کرتا ہے “۔ لہٰذا یہ اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہے۔ جس کا ظہور ہوگیا۔ واللہ ........................ قدیر (٩٥ : ٦) ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ یوں رسولوں کا معاملہ تقدیر الٰہی کا اظہار قرار پاتا ہے اور اللہ کی تقدیر کے چکروں میں رسولوں کا مقام بھی متعین کیا جاتا ہے کہ رسولوں کا ظہور اور غلبہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہوتی۔ دست قدرت یہ کام کرتا ہے۔ اگرچہ رسول بشر ہیں لیکن وہ اللہ کے ساتھ براہ راست مربوط ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنے نظام قضاوقدر کا ظہور کرتا ہے اور رسول جو کام کرتے ہیں وہ اذن الٰہی سے کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ مقدر ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق حرکت بھی نہیں کرتے۔ وہ کوئی کام اپنی مرضی یا اپنے مفادات سے نہیں کرتے۔ وہ جنگ ، جہاد یا امن ، مصالحت یا مخاصمت صرف اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اور وہ اللہ کی تقدیر کا ظہور ہوتا ہے اور اللہ کی تقدیر ان کے تصرفات اور ان کی حرکات سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ کا فعل ہوتا ہے اور اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اموال فئی کے مستحقین کا بیان لفظ افاء یفی باب افعال سے ماضی کا صیغہ ہے فاء لوٹا۔ فاء لوٹایا، چونکہ کافروں کا مال مسلمانوں کو مل جاتا ہے ان کی املاک ختم ہوجاتی ہیں اور مسلمانوں کی ملک میں آجاتی ہیں۔ اس لیے جو مال جنگ کیے بغیر بطور صلح مل جائے اس کو فئی کہتے ہیں اور جو مال جنگ کر کے ملے اس مال کو غنیمت کہتے ہیں۔ مال غنیمت کے مصارف دسویں پارے کے شروع میں بیان فرما دیئے گئے ہیں اور مال فئی کے مصارف یہاں بیان فرمائے ہیں۔ بنی نضیر کے مال بطور صلح مل گئے اور اس میں کوئی جنگ لڑنی نہیں پڑی تھی لہٰذا ان اموال میں کسی کو کسی حصہ کا استحقاق نہیں تھا۔ بعض صحابہ (رض) کے دلوں میں یہ بات آئی کہ ہمیں ان اموال میں سے حصہ دیا جائے، اس وسوسہ کو دفع فرما دیا اور فرمایا ﴿ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ ﴾ (کہ تم نے ان میں اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے) یعنی تمہیں ان میں کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑی اور کوئی جنگ نہیں لڑنی پڑی۔ ﴿ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ١ؕ﴾ (اور لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط فرما دے) یعنی پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو جس پر چاہا مسلط فرما دیا اور اب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی نضیر پر مسلط فرما دیا لہٰذا ان اموال کا اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی ہے۔ ﴿ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ٠٠٦﴾ (اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے) چونکہ بنی نضیر کے اموال قتال کے بغیر حاصل ہوئے تھے اس لیے انہیں اموال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” وما افاء “ یہ مبتداء ہے اور ” ما افاء اللہ “ بعد عہد کی وجہ سے اعادہ ہے اور درمیان میں ” فما اوجفتم “ سے فئ کی تشریح کی گئی ہے اور ” فللہ ولرسول الخ “ اس کی خبر ہے۔ یہاں سے لے کر ” انک رؤوف رحیم “ تک مال فئ کی تقسیم کا دستور بیان کیا گیا ہے۔ بنی نضیر کے اموال چونکہ بطور فیئ حاصل ہوئے اس لیے ان کی تقسیم کار کا دو تور بیان فرمایا۔ مال فئ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قتادل و جہاد کے بغیر کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ جیسا کہ یہود بنی نضیر نے مسلمانوں کے حملے سے مرعوب ہو کر صلح کرلی اور اپنے اموال بلا قتال مسلمانوں کے حوالے کردئیے اس کا زکر ” وما افاء اللہ علی رسولہ منہم “ میں ہے یہود بنی نضیر کے علاوہ اور کئی بستیوں کے یہودیوں نے بھی اسی طرح صلح کر کے اپنے اموال مسلمانوں کے حوالے کردئیے تھے۔ مثلاً اہل فدک، عرینہ اور بنی قریظہ وغیرہ۔ اس کا ذکر ” ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری ‘ میں ہے دستور تقسیم سب کا ایک ہے (ومن اھل القری) قال ابن عباسھی قریظۃ والنضیر وھما بالمدینۃ، وفدک وھی علی ثلاثۃ ایام من المدینۃ و خیبر وقری عینۃ و ینبع (قرطبی ج 18 ص 12) ۔ بنی نضیر، اہل فدک، اہل عرینہ وغیرہ کے جو اموال اللہ نے بطور فیئ اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو دئیے ہیں تم نے ان پر اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور وہ قتال کے بغیر ہی حاصل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی قادر و توانا ہے وہ جس پر چاہتا ہے اپنے پیغمبروں کو مسلط فرما دیتا ہے۔ جس طرح اس نے محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہودیوں کی ان بستیوں پر مسلط فرما کر ان کی ساری دولت آپ کے قدموں پر ڈال دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور جو مال اللہ تعالیٰ نے بطور نے اپنے رسول کو یہود سے دلوادیا اور جو ہاتھ لگایا اس میں تمہارا کوئی حق نہیں کیونکہ اس پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ دوڑائے بلکہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنے رسولوں کو مسلط کردیتا ہے اور غالب فرمادیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہرچیز پر پوری طرح قادر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہی فرق رکھا غنیمت میں اور فئے میں جو مال لڑائی سے ہاتھ لگا وہ غنیمت ہے اس میں پانچواں حصہ اللہ کی نیاز اور چار حصے لشکر کو بانٹتے اور جو بغیر جنگ ہاتھ لگا وہ سارا خزانوں میں مسلمانوں کے ہے جو کام ضرور ہوا اس پر خرچ ہو۔ خلاصہ : یہ کہ جو مال اہل حرب سے بلا قتال ہاتھ لگے وہ فئے ہے اور جو مال لڑکر حاصل ہو یعنی جنگ ہو اور کفار کی شکست کے بعد ہاتھ لگے اور دارالحرب پر عنوۃ قبضہ ہو وہ غنیمت ہے غنیمت کا مال کس طرح تقسیم ہو اور اس کا کیا حکم ہے وہ سورة انفال میں گزر چکا ہے۔ وہ یہی کہ تمام مال غنیمت میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ نکال کر باقی مجاہدین پر تقسیم کردیاجاتا ہے اور فئے کا حکم یہ ہے کہ مال نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تاحیات ملک میں ہوتا تھا اور آپ کی وفات کے بعد ملک ختم اور اموال موقوفہ شمار ہوتے تھے ان میں ورثہ جاری نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مال مہاجرین اور بعض انصار کو تقسیم کیا یہ وہ انصار تھے جو بہت ہی مفلوک الحال تھے باقی اپنے اہل و عیال کو سال بھر کا نفقہ عطا فرماتے تھے اس کے بعد جو کچھ بچتا وہ جہاد اور اسلحہ وغیرہ کی تیاری میں خرچ فرماتے۔ کافر کا ل اور اث مال بھی نے میں شمار کیا جاتا تھا اور اس مرتد کا مال جو حالت ارتداد میں مارا جائے جزیہ کا بھی فئے میں شمار ہے اور بھی کئی قسم کے اموال ہیں جن کو فقہانے فئے میں شامل کیا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ امام وقت اپنی حاجت کے موافق اپنی ضرورت کے مقدار نکال کر باقی مصالح مسلمین پر خرچ کردے یہود کی اکثر بستیاں اسی طرح قبضے میں آئیں اس لئے ان کے اموال کو مال فئے کہتے ہیں۔ جیسے بنی نضیر باغ فدک اور خیبرکا بعض حصہ امام اعظم (رح) کے نزدیک مال فئے میں پانچواں حصہ نکالنا شرط نہیں ہے بہرحال مال غنیمت میں سے خمس نکال کر مجاہدین کو دیاجاتا ہے اور مال فئے امام وقت کی صواب دید کے موافق خرچ ہوتا ہے ۔ اس خرچ میں اس کا ذاتی خرچ اور اس کے اہل و عیال کا خرچ اور مہمانوں وغیرہ کا خرچ بھی شامل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حق متصرف مالکانہ تھا اور آپ کے بعد یہ تصرف حاکمانہ ہے مالکانہ نہیں مزید تفصیل مذکور ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔