Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 1

سورة الأنعام

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱﴾

[All] praise is [due] to Allah , who created the heavens and the earth and made the darkness and the light. Then those who disbelieve equate [others] with their Lord.

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ ( غیر اللہ کو ) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All Praise is Due to Allah for His Glorious Ability and Great Power Allah praises Himself; الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ... All praise be to Allah, Who created the heavens and the earth, and originated the darkness and the light, Allah praises and glorifies His Most Honorable Self for creating the heavens and earth, as a dwelling for His servants, and for making the darkness and the light to benefit them in the night and the day. In this Ayah, Allah describes darkness in the plural, Zulumat (where Zulmah is singular for darkness), while describing the light in the singular, An-Nur, because An-Nur is more honored. In other Ayat, Allah said, ظِلَـلُهُ عَنِ الْيَمِينِ To the right and to the lefts. (16:48) Near the end of this Surah, Allah also said; وَأَنَّ هَـذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ And verily, this is my straight path, so follow it, and follow no (other) ways, for they will separate you away from His way. (6:153) Allah said next, ... ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِم يَعْدِلُونَ Yet those who disbelieve hold others as equal with their Lord. meaning, in spite of all this, some of Allah's servants disbelieve in Him and hold others as partners and rivals with Him. Some of Allah's servants claimed a wife and a son for Allah, hallowed be He far above what they attribute to Him. Allah's statement,

اللہ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے ، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے ، جیسے فرمان ربانی آیت ( عن الیمیں و الشمائل ) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت ( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:153 ) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا ، اللہ ہی قابل حمد ہے ، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے ، اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا ، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش ، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ ، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قضی اجلا سے مراد مدت دنیا ہے اور اجل مسمی سے مراد عمر انسان ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ) 6 ۔ الانعام:60 ) سے ہو ، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت ( ثم قضی اجلا ) سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے ، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور اجل مسمی سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عندہ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ) 7 ۔ الاعراف:187 ) یعنی قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے ، سورہ نازعات میں بھی فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے ، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے ، نعوذ باللہ اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے ، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی ، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ) 43 ۔ الزخرف:84 ) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے ، یعنی آسمانوں میں جو ہیں ، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ، اب اس آیت کا اور جملہ آیت ( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:3 ) خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ، جانتا ہے ۔ پس یعلم متعلق ہو گا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت ( وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون ) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت ( وھو اللہ فی السموات ) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت ( وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم ) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ 2 یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] دلائل توحید :۔ یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی نے اس کائنات کو پیدا کیا اسی نے سورج اور چاند بنائے اور رات دن پیدا کیے اور کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے۔ سورج، چاند، ستارے سب اسی کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور خود ہمیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ خ پہلی دلیل :۔ اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کر کے یہ فرما رہے ہیں کہ وہ ذات جو اتنی بڑی کائنات کا نظام نہایت حسن و خوبی سے چلا رہی ہے کیا وہ تمہاری ضروریات پوری نہیں کرسکتی اور تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتی۔ جو تم لات و عزیٰ ، منات اور ہبل جیسے معبودوں کو پکارتے ہو، ان کا اس بھری کائنات میں کوئی عمل دخل ہے ؟ انسان کا حق تو یہ تھا کہ وہ اسی خالق کے آگے سجدہ ریز ہوتا، اسی سے دعائیں مانگتا جس نے اسے پیدا کیا اور زمین کو پیدا کر کے اس کی تمام ضروریات زندگی اس سے منسلک کردی ہیں۔ پھر آخر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی ضرورت تمہیں کیوں پیش آئی جو اللہ کا حق ان دیوی دیوتاؤں کو دیتے ہو اور انہیں اپنے پروردگار کا ہمسر قرار دیتے ہو ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : اس آیت میں اکیلے اللہ تعالیٰ کے تمام خوبیوں کا مالک اور معبود ہونے کی دلیل بیان کی گئی ہے اور کفار کے شرک پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے یہاں دو قسم کی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک زمین و آسمان کا جو جوہر ہیں، یعنی اپنا الگ وجود رکھتے ہیں اور دوسرے اندھیروں اور اجالے کا جو عرض ہیں، یعنی دوسری چیزوں کے ذریعے سے قائم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی جوہر یا عرض ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کیا ہو۔ اندھیروں اور اجالے سے یہی رات اور دن مراد ہیں، یا پھر ایمان کا نور اور کفر کے اندھیرے۔ (قرطبی) ” النُّوْرَ “ کو واحد اور ” الظُّلُمٰتِ “ کو جمع بیان کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کا نور ایک ہی ہے، جبکہ کفر کی گمراہیاں بیشمار ہیں۔ سیدھا راستہ ایک ہے اور غلط راستوں کا شمار ہی نہیں۔ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ : یعنی جب ہر چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور یہ مشرکین اسے اپنا رب ( پالنے والا) بھی تسلیم کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ عبادت بھی اسی کی کرتے، مگر یہ پھر بھی دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں، ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، ان کے نام کی نذریں چڑھاتے اور منتیں مانتے ہیں اور مشکلات میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں۔ کس قدر بےعقلی ہے کہ پیدا اللہ تعالیٰ کرے، روزی بھی وہی دے، پھر مانگا غیر سے جائے اور اسے اپنے رب کے برابر ٹھہرایا جائے۔ دیکھیے سورة لقمان (١٠، ١١) اور سورة عنکبوت (٦١ تا ٦٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said that one of the dis¬tinctions of Surah Al-An&am is that the whole of it, except some &Ayat, was revealed at one time in Makkah with the complement of seventy thousand angels following it with recitation of the name of Allah. Ear¬ly Tafsir authorities Mujahid, al-Kalbi, Qatadah and others have said more or less the same thing. Abu Ishaq Al-Asfra&ini has said that this Surah consists of all princi¬ples and subsidiaries of Tauhid (Oneness of Allah). This Surah has been prefaced with الْحَمْدُ لِلَّـهِ (Al-Hamdulillah) whereby people have been told that all praises belong to Allah. The purpose is to educate and help people get the right perspective - that Allah needs no praise from anyone, whether or not anyone praises Him, He is, in terms of His own intrinsic perfection, by Himself, the Praised One. By bringing in the sentence which follows immediately, which mentions the creation of the heavens and the earth and the darkness and the light, given there is the very proof of His being the Praised One. Isn&t it that the Being which holds such Power and Wisdom would have to be the One deserv¬ing of all praise? In this verse, ` samawat& (heavens) has been mentioned in the plural while &ard (earth), in the singular - though, in another verse (65:12), earth has been identified as being seven like the heavens. Perhaps, it is indicative of the mutual distinction the seven heavens have in terms of their form and attributes while the seven earths are like each other, therefore, they were taken as one in number. (Mazhari) Similarly, by mentioning ` zulumat& (darkness, or layers of darkness) in the plural, and &nur& (light) in the singular, the indication given may be that nur or light signifies the correct way and the straight path - and that is just one, while zulumat, or many layers of darkness, signi¬fies the path of error - and their number runs in thousands. (Mazharl & al-Bahr al-Muhit) Also noticeable here is that the origination of the heavens and the earth has been expressed through the word, &khalaqa& (created) while that of darkness and light with the word, ja‘ala& (made). The hint im¬plied is that darkness and light are not independent and self-existent like the heavens and the earth, instead, they are contingents and attributes. And zulumat (darkness) has been given precedence over nur (light) perhaps because zulumat is basic to this world while nur is asso¬ciated with particulars - when they are there, there is light; and when they are not there, there is darkness. By pointing out to the reality of Tauhid (Oneness of Allah) and its open proof in this verse the purpose is to warn all those peoples who do not simply believe in Tauhid, or have forsaken the reality of Tauhid despite professing it. The Magians (Majus) believe in two creators, Yazdan and Ahriman (or Ahraman). Yazdan, according to them, is the creator of good and Ahriman, the creator of evil. They also identify these as (the principles of) light and darkness. The polytheists in India take an incredibly high number of gods as partners in the divinity of God. The Arya Samajists, despite acknowl¬edging Tauhid, take spirit and matter to be infinitely pre-existent, and independent of the power and creation of God, whereby they have moved way away from the reality of Tauhid. Similarly, the Christians who, despite professing the creed of Tauhid, started taking Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) and his blessed mother as partners in the divinity of God - and then, in order to prop their belief in one God, they to rely on the irrational theory of Unity in Trinity. As for the disbelievers and polytheists of Arabia, they demonstrated such philanthropy in dishing out Godhood that, according to them, every piece of rock on a hill could be good enough to become an object of worship for the whole human-kind! Thus, the wonderful human being whom Allah had made to be the noblest of His creation, someone whom the whole universe was to serve, went so astray from the right path that he took - not just the moon, the sun, the stars, but the fire, water, trees and rocks too - even crawling insects as objects of prostration and worship, providers of needs and resolvers of problems. By saying in this verse of the Holy Qur&an that Allah Ta` ala is the Creator of the heavens and the earth and He is the Maker of darkness and light, all such false notions have been refuted - when He is the sole Creator and Maker of everything, ascribing partners to His Divinity makes no sense.

خلاصہ تفسیر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا، اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (عبادت میں دوسروں کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (بواسطہ آدم (علیہ السلام) کے) مٹی سے بنایا پھر (تمہارے مرنے کا) ایک وقت معین کیا، اور دوسرا وقت معین (دو بارہ زندہ ہو کر اٹھنے کا) خاص اللہ ہی کے نزدیک (معلوم) ہے، پھر بھی تم (میں سے بعض) شک رکھتے ہو (کہ قیامت کو محال سمجھتے ہو حالانکہ جس نے اوّل حیات بخشی دوبارہ دینا اس کو کیا مشکل ہے) اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی (یعنی اور سب معبود باطل ہیں) وہ تمہارے پوشیدہ حالات کو بھی اور تمہارے ظاہر حالات کو بھی (یکساں) جانتے ہیں اور (بالخصوص تم جو کچھ ظاہرا یا باطناً ) عمل کرتے ہو (جس پر جزاء و سزاء کا مدار ہے) اس کو جانتے ہیں، اور ان (کفار) کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آئی، مگر وہ اس سے اعراض ہی کیا کرتے ہیں، سو (چونکہ یہ ان کی عادت بنی ہوئی ہے) انہوں نے اس سچی کتاب (قرآن) کو جھوٹا بتلایا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچی سو (ان کی یہ تکذیب خالی نہ جائے گی بلکہ) جلد ہی ان کو خبر مل جاوے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزاء کیا کرتے تھے (مراد اس سے عذاب ہے جس کی خبر قرآن میں سن کر ہنستے تھے، اور اس کی خبر ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جب عذاب نازل ہوگا تو اس خبر کی تصدیق آنکھوں سے دیکھ لیں گے) معارف و مسائل حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ سورة انعام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ پوری سورت بجز چند آیات کے بیک وقت مکہ میں اس طرح نازل ہوئی ہے کہ ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے تھے، ائمہ تفسیر میں سے مجاہد رحمة اللہ علیہ، کلبی رحمة اللہ علیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہ وغیرہ کا بھی تقریباً یہی قول ہے۔ ابو اسحاق اسفرائنی نے فرمایا کہ یہ سورت توحید کے تمام اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ اس سورة کو کلمہ الحمدللہ سے شروع کیا گیا، جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور مراد اس خبر سے لوگوں کو حمد کی تعلیم دینا ہے، اور تعلیم کے اس طرز خاص میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی کی حمدوتعریف کا محتاج نہیں، کوئی حمد کرے یا نہ کرے وہ اپنے ذاتی کمال کے اعتبار سے خود بخودمحمود ہے، اس جملہ کے بعد آسمان و زمین اور اندھیرے، اجالے کے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر اس کے محمود ہونے کی دلیل بھی بتلادی کہ جو ذات اس عظیم قدرت و حکمت کی حامل ہے وہی حمدو تعریف کی مستحق ہو سکتی ہے۔ اس آیت میں سموات کو جمع اور ارض کو مفرد ذکر فرمایا ہے، اگرچہ دوسری آیت میں آسمان کی طرح زمین کے بھی سات ہونے کا ذکر موجود ہے، شاید اس میں اس طرف اشارہ ہو کہ سات آسمان اپنی ہیئت و صورت اور دوسری صفات کے اعتبار سے باہم بہت امتیاز رکھتے ہیں، اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کی ہم شکل اور مثل ہیں، اس لئے ان کو مثل ایک عدد کے قرار دیا گیا (مظہری) ۔ اسی طرح ظلمت کو جمع اور نور کو مفرد ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ نور تعبیر ہے صحیح راہ اور صراط مستقیم سے اور وہ ایک ہی ہے، اور ظلمٰت تعبیر ہے غلط راستہ کی، اور وہ ہزاروں ہیں (مظہری و بحر محیط) یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آسمانوں اور زمین کے بنانے کو لفظ خلق سے تعبیر کیا گیا ہے اور اندھیرے اجالے کے بنانے کو لفظ جعل سے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اندھیرا اور اجالا، آسمان و زمین کی طرح مستقل قائم بالذات چیزیں نہیں، بلکہ عوارض اور صفات میں سے ہیں، اور ظلمٰت کو نور پر مقدم شاید اس لئے ذکر فرمایا گیا کہ اس جہان میں اصل ظلمٰت ہے، اور نور خاص خاص چیزوں سے وابستہ ہے، جب وہ سامنے ہوتی ہیں روشنی پیدا ہوتی ہے، جب نہیں ہوتیں تو اندھیرا رہتا ہے۔ مقصود اس آیت کا توحید کی حقیقت اور اس کی واضح دلیل کو بیان فرما کر دنیا کی ان تمام قوموں کو تنبیہ کرنا ہے یا تو سرے سے توحید کی قائل نہیں، یا قائل ہونے کے باوجود توحید کی حقیقت کو چھوڑ بیٹھی ہیں۔ مجوس دنیا کے دو خالق مانتے ہیں یزدان اور اہرمن، یزدان کو خالق خیر اور اہرمن کو خلق شرقرار دیتے ہیں، اور انہی دونوں کو نور و ظلمت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مشرک تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدا کا شریک بتاتے ہیں، آریہ سماج توحید کے قائل ہونے کے باوجود روح و مادّہ کو قدیم اور خدا تعالیٰ کو قدرت و خلقت سے آزاد قرار دے کر توحید کی حقیقت سے ہٹ گئے، اسی طرح نصاریٰ توحید کے قائل ہونے کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم بنانے لگے، اور پھر عقیدہ توحید کو تھامنے کے لئے ان کو ایک تین اور تین ایک کا غیر معقول نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور عرب کے مشرکین نے تو خدائی کی تقسیم میں یہاں تک سخاوت دکھلائی کہ ہر پہاڑ کا ہر پتھر ان کے نزدیک نوع انسانی کا معبود بن سکتا تھا۔ غرض انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے مخدومِ کائنات اور اشرف المخلوقات بنایا تھا یہ جب راہ سے بھٹکا تو اس نے نہ صرف چاند، سورج، اور ستاروں کو بلکہ آگ، پانی اور درخت، پتھر یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں کو اپنا مسجود و معبود اور حاجت روا، مشکل کشا بنا لیا۔ قرآن کریم نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین کا خالق اور اندھیرے اجالے کا بنانے والا بتلا کر ان سب غلط خیالات کی تردید کردی، کہ نور و ظلمت اور آسمان و زمین اور ان میں پیدا ہونے والی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور بنائی ہوئی ہیں، تو پھر ان کو کیسے خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم کیا جاسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ۝ ٠ۥۭ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ يَعْدِلُوْنَ۝ ١ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) ہر قسم کے شکر اور خدائی اس ذات کے لیے ہے جس نے تمام آسمانوں کو اتوار اور پیر صرف دو دنوں میں اور اسی طرح تمام زمینوں کو منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیا ہے اور کفر و ایمان یا رات اور دن کو پیدا کیا، اس کے باوجود یہ کفار مکہ بتوں کو عبادت میں اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ط) یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورة اَلْحَمْدُ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن کا آغاز (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) سے ہوا ہے ‘ پھر ساتویں پارے میں سورة الانعام (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ج) سے شروع ہو رہی ہے ‘ اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورة الکہف کا آغاز (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ ) سے ہو رہا ہے ‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں (سورۂ سبا اور سورة فاطر) (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔ دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے افعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے ‘ لیکن اندھیرا اور اجالا اس طرح کی مادّی چیزیں نہیں ہیں (بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں ‘ کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے) ۔ اس لیے ان کے لیے الگ فعل جَعَلَاستعمال ہوا ہے کہ اس نے ٹھہرا دیے ‘ بنا دیے ‘ نمایاں کردیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔ (ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ ) یعنی یَعْدِلُوْنَ بِہٖ شُرَکَاءَ ھُمْکہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں ‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔ شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے ‘ بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے ‘ چناچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے ع ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ! یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔ شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورة النساء (آیت ٤٨ اور ١١٦) میں پڑھ چکے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج) اللہ تعالیٰ اسے ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا ‘ بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا ‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہوجائے تو یہ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوا میم (وہ سورتیں جن کا آغاز حٰآ سے ہوتا ہے) میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورة الفرقان سے سورة الاحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ جس میں سورة یٰسٓ‘ سورة فاطر ‘ سورة سبا ‘ سورة صٓ اور حوا میم بھی شامل ہیں۔ سورة یٰسٓاس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہرحال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ (یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جو اسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں) بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. Remember that, although polytheists, the Arabs to whom these verses are addressed did acknowledge God as the Creator of the heavens and the earth, Who causes day to alternate with night, and Who has brought into existence the sun and the moon. None of them attributed any of these acts to either al-LAt, al-Hubal, al-'UzzA or any other deities. Why, then,'should they prostrate themselves before others beside the Creator? Why should they offer their prayers and supplicatiom to any but God? (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 1, n.2, and Surah 2, n.163) The actual word that has been used in the original text for 'darkness' is in the plural. The contrast with the singular 'light' is significant: whereas light is one, there can be innumerable degrees of darkness, which is the absence of light.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :1 یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے ۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اور دیوی یا دیوتا کے ہیں ۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو ، نذریں اور نیازیں چڑھاتے ہو ، دعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو ۔ ( ملاحضہ ہو سورہ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱٦۳ ) روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغہ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدم نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں ۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق یہ سورة مکی ہے ٢ ؎۔ مستدرک حاکم میں جابر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ سورة اتری تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبحان اللہ کہا اور یہ فرمایا کہ آسمان سے زمین تک ستر ہزار فرشتے اس سورة کے نازل ہونے کے وقت اس کے ساتھ تھے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٣ ؎۔ اس سورة میں توحید نبوت اور حشر کے ضروری احکام کی عظمت اور شیطان کی مداخلت ان احکام میں نہ ہونے کے لئے یہ ستر ہزار فرشتوں کی جماعت اس سورة کے ساتھ آئی۔ جو سورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے لفظوں سے شروع کی ہیں جیسے یہ سورة جیسے { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } ان سے یہ مطلب ہے کہ لوگ ان لفظوں سے اللہ کی تعریف کیا کریں۔ اگرچہ اللہ کی مخلوقات بےگنتی ہے لیکن اس سورة میں انسان کی ہدایت کے بہت سے احکام ہیں اور آسمان و زمین کے عجائبات پر غور کرنے سے انسان کے دل میں اللہ کی قدرت کی بڑی عظمت پیدا ہوسکتی ہے جس کے سبب سے پھر اللہ کے احکام کے موافق ہدایت پانے کا موقع بھی اس کو مل سکتا ہے اس واسطے یہاں اور مخلوقات میں سے فقط آسمان و زمین کا ذکر فرمایا سورة بنی اسرائیل میں معراج کی حدیثیں آویں گی جن میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کی راہ کے فاصلہ کا اور اسی قدر ہر ایک آسمان کی موٹائی کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ آسمانوں کی طرح زمین بھی سات ہیں اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے۔ خیر یہ باتیں تو علم دین کے جاننے پر منحصر ہیں لیکن آسمان و زمین کی اتنی حالت تو سب کے آنکھوں کے سامنے ہے کہ وقت مقررہ پر ایک سال بھی آسمان سے مینہ نہ برسے یا مینہ تو برسے مگر اللہ کے حکم سے زمین کی پیدوار پر کچھ آفت آجاوے تو انسان کی ساری آسائش خاک میں مل جاوے۔ یہ بھی آسمان کی حالت کا ایک نتیجہ ہے کہ آسمان کی گردش سے رات کا اندھیرا دن کا اجالا پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کی راحت صحت طرح طرح کے کاروبار سب کچھ قائم ہے اہل مکہ نے سو رات کے اندہیرے کے کفر و شرک و جہالت کا اندہیرا بھی پھیلا رکھا تھا اس واسطے اندھیرے کے لفظ کو جمع کر کے فرمایا مطلب یہ ہے کہ رات کے اندہیرے کے ساتھ جس طرح اللہ تعالیٰ نے دن کا اجالا پیدا کیا ہے اسی طرح کفر و شرک کے مٹانے کے لئے نور ایمانی پیدا کیا ہے جس کی قسمت میں ہے وہ اس کفر و شرک کے اندہیرے سے نکل کر ایمان کی روشنی پاسکتا ہے آخر کو فرمایا کہ جب یہ سارا کارخانہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر یہ منکر شریعت لوگ دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھہرا کر اللہ کی تعظیم و عبادت میں جو ان دوسروں کو شریک کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اپنی نادانی سے اللہ کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے ان لوگوں کی زیست اور صحت کے کارخانے حسب دستور قائم رکھے ہیں ١ ؎ ان لوگوں کی نادانی کی سزا کے طور پر ان کارخانوں میں کچھ ردوبدل نہیں فرمایا یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ انسان کو اور اس کی راحت کے ہر طرح کے سامان کو تو بغیر کسی کی شراکت کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا لیکن بعض نادان لوگ بلا استحقاق دوسروں کو اس کی تعظیم اور عبادت میں شریک کرتے ہیں اور اس پر بھی وہ اپنی بردباری سے ان لوگوں کے راحت کے سامان میں کچھ خلل نہیں ڈالتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:1) ثم حرف عطف ہے۔ لیکن کوئی دوسرا حرف عطف اس کے قائمقام نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ معنی عطف پر دلالت کے ساتھ ساتھ کفار کی نادانی اور ان کے عقیدہ کی قبحت کو بھی عیال کر رہا ہے ثم دالۃ علی قبح فعل الکافرین (قرطبی) ۔ یعدلون۔ مضارع جمع مذکر غائب عدل مصدر۔ (باب ضرب) ۔ یعنی وہ الوہیت میں اپنے معبودان باطل کو خدا تعالیٰ کا ہمسر اور اس کے برابر بنائے ہوئے ہیں ۔ (وہ عدل و انصاف کرتے ہیں یہاں یہ معنی مراد نہیں) یہاں بربھم یعدلون کو وہم بہ مشرکون (16:100) کے ہم معنی لیا گیا ہے۔ بعض نے اس کو عدول سے مشتق لیا ہے اور بدبھم میں ب بمعنی عن مراد لیا ہے یعنی عن ہم قوم یعدلون (27:60) بلکہ یہ لوگ راستہ سے الگ ہو رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس سے مقصود و جود صانع پر دلیل قائم کرنا ہے (رازی) اللہ تعالیٰ نے یہاں دونوں قسم کی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ایک زمین و آسمان جو جوہر ہیں اور دوسرے اند ھیرا اور اجالا جو اعراض ہیں یعنی دوسری چیزوں کے ذریعہ قائم ہیں مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی جو ہر عرض نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کیا ہو اندھیرے اور اجالے سے یہی رات اور سن مراد ہیں یا پھر نور ایمان اور ظلمات کفر (کذافی القرطبی)6 یعنی جن ہر چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور مشرکین اسے اپنا رب (پالنے والا) تسلیم بھی کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ عبادت بھی اسی کی کرتے مگر یہ دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں انکے نام کی نذریں چڑھاتے او منتیں مانتے ہیں اومشکلات میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں بلا شبہ ان کے اس اعتقاد اور عمل میں نہایت ہی تضاد ہے۔ ) (قرطبی، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 1 ۔ آیات 1 تا 10 ۔ اسرار و معارف : توحید کے عقلی دلائل : انسانی علوم کی حدود زمینوں اور فضا کی مختلف تبدیلیوں تک محدود ہیں وہ بادلوں کی سیر کرے یا ستاروں پہ کمندیں ڈالے بہرحال آسمان ایک ایسی بلندی ہے جس کو عبور نہیں کرسکتا تختہ زمین ایسی کتاب ہے جس کے عجائبات کو پڑھ کر تمام نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا ہر آنے والا دور اپنے جلو میں کوئی نئی تحقیق لاتا ہے نیا قانون یا اصول دریافت ہوتا ہے پھر اس کے مطابق دنیا کی اشیا سے انسان استفادہ کرتے ہیں مگر یہ ساری تگ وتاز سینہ خاک آلود پر ہے فضا میں ہے پھر روشنی اور اندھیرے اپنے اثرات پیدا کرتے رہتے ہیں بعض اشیاء اندھیرے کی کاوش اور بعض روشنی کی محنت کا پھل ہوتی ہیں قطرہ سیپ کی تاریکی میں چھپ جائے تو موتی بن جاتا ہے اور زمین کی تہہ میں دبے ہوئے دانے کو سورج کی شعاع نمو عطا کرتی ہے نیز دھوپ پھلوں کو پکاتی ہے تو ٹھنڈی چاندنی مٹھاس بھر دیتی ہے غرض یہ جہانِ رنگ و بو مٹی ، اندھیروں اور اجالوں کا کرشمہ ہے جس کی حدود آسمان کے اندر ہیں اب سوچئے کہ وہ ذات کسی قدر عظیم اور لائق حمد و ستائش ہے ہے جو نہ صرف زمین کی خالق ہے اس کی تمام خصوصیات کے ساتھ بلکہ اندھیرے اجالے بھی اسی کے پیدا کردہ ہیں پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مخلوق میں کوئی کمال یا عجیب بات دیکھ کر یہ کفار وہاں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور وہ عظمت جو صف اس ذات کا حق ہے جو ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والی ہے اسے دوسروں پر ناحق تقسیم کرنا چاہتے ہیں حلان کہ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں کہاں خالق کل کی عظمتیں اور کہاں مخلوق بیچاری ہر آن ہر گھڑی محتاج کتنی خوبصورت دعوت ہے کہ اگر ذرا فکر کرنا نصیب ہو تو آدمی کبھی مخلوق کو خالق کے برابر نہ جانے۔ یہ تو ایک بہت بڑا جہان تھا اسے عالم کبیر کہیے اور عالم صغیر کی بات کرتے ہیں خود تمہارے جسم کے اندر ایک جہان آباد ہے ہاں یہ جسم جسے اللہ نے مٹی سے بنایا مٹی کو نطفے کا نطفے کو بدن کا روپ دیا اور مسلسل مٹی کی تہیں مختلف غذاؤں کی شکل میں اس پر چڑھاتا چلا گیا کہ ایک خوبصورت تنومند جوان بن گیا اب اس میں کس قدر عجائبات ہیں عالم کبیر کی طرح اس کے اپنے عجائبات ہیں ہاتھوں کے کمالات دیکھیں پاؤں کے رگوں اور نسوں کا کام دیکھیں پٹھھوں کا مطالعہ کریں قلب و جگر کا فعل دیکھیں معدے کی ہر آن پکتی ہوئی بھٹی کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی پہ غور کریں زبان کی قوت گویائی کا اندازہ کرلیں کیا سب کچھ حیرت انگیز نہیں ہے تو کیا تم ان میں سے ہر عجیب بات اور عضو کی حرکت پہ اسے معبود ماننے لگو گے اگر ایسا کرو گے تو موت تمہارا یہ وہم نکال دے گی جب آنکھیں بےنور ہاتھ پاؤں بےحس زبان خاموش دل بےآواز اور معدہ کام چھوڑ چکا ہوگا اور یہ تماشہ ہر آن تمہارے گرد ہوتا ہے جس طرح اس عالم صغیر پر موت منڈلاتی رہتی ہے اور ہر انسان ایک نہ ایک دن اس کا شکار ہوجاتا ہے ایسے ہی ایک دن عالم کبیر پر بھی مقرر ہے جس کا وقت اللہ ہی کے علم میں ہے جو اس کا خالق ہے لہذا نہ انسان پرستش کے لائق ہے اور نہ اللہ کے سوا کوئی بھی دوسری ہستی اس کی اکیلی ذات تمام خوبیوں کی سزاوار ہے جو ازلی ہے ابدی ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی جسے کبھی زوال نہیں پھر یہ سب کچھ جب نگاہوں کے روبرو ہے تو اے کفار تمہیں کسی بھی شبہ میں پڑنا زیب نہیں دیتا کہ اللہ نے تمہیں انسانی عقل و خرد سے اور انسانی کمالات سے نوازا ہے اور تم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہو کہ آسمانوں اور زمینوں میں اسی کا حکم جاری ہے اگر کسی بھی دوسری ہستی میں مجال دم زدن ہوتی تو کبھی تو اس نظام میں خلل آتا کہیں کوئی گڑبڑ ہوتی ہر حکومت میں اور ہر سلطنت میں انسانوں کے باغی انسان ہوتے ہیں ا سلیے کاروبار حکومت کو متاثر کرتے رہتے ہیں مگر اس سے بغاوت بھی کرنے والے اس کی برابر نہیں کرسکتے کہ اس کی مخلوق ہیں وہ خالق ہے اس لیے اس کا نظام حکومت کسی کے ماننے یا انکار کرنے سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کا علم اتنا کامل ہے کہ خود انسان کو اگلے لمحے کی خبر نہیں انسان ایک دوسرے سے چھپا کر بات کرتے ہیں مگر وہ سب کچھ ذاتی طور پر جانتا ہے کوئی چھپ کر کرے یا کھلے بندوں ہر عمل سے اس کی ذات واقف ہے۔ استعداد قلبی : کفر ایک ایسا زنگ ہے جو دلوں کو بیکار کردیتا ہے اور اس کا ایک درجہ ایسا بھی ہے کہ پھر دلوں میں قبول حق کی استعداد ہی نہیں رہتی اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ نہ صرف قرآن کے ساتھ ان کا رویہ بےرخی کا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جب اللہ کی طرف سے کوئی بات پہنچی تو انہوں نے مان کر نہیں دی اور اب قرآن حکیم یا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی انکار ہی کر رہے ہے ہیں حالانکہ آپ کی حیات مبارکہ خاندان بچپن ، لڑکپن جوانی سبھی کچھ تو ان کے سامنے ہے کہ مثالی ہے اور اس کافرانہ اور سنگدل اور فاسق و فاجر معاشرے میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبل بعثت بھی پاکباز تھے کہ مشرکین مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صادق اور امین کہتے تھے ایسا آدمی بھلا جس نے عمر بھر کسی انسان پر جھوٹ نہ بولا ہو وہ یکایک اپنے رب پر جھوٹ بولنے لگا یہ تو محال عقلی ہے اور علمی دلیل یہ ہے کہ چالیس برس تک آپ نے نہ کوئی مدرسہ دیکھا نہ خانقاہ نہ کسی پادری کے شاگرد بنے نہ راہب و جادوگر کے حتی کہ نام مبارک لکھنا نہیں جانتے تھے چالیس برس کے بعد اعلان فرمایا کہ لوگو میرے پاس اللہ کی طرف سے پیغام آیا ہے اور چونکہ اللہ کا کلام ہے لہذا جہاں ہدایت و راہنمائی میں افضل و برتر ہے وہاں علمی و ادبی لحاظ سے بھی بےمثل ہونا ضروری ہے اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی انسان ہو بڑے بڑے ادیب شعراء اور صاحبان فن تم میں موجود ہیں ، ہے کوئی اکیلا یا سب مل کر یا ان معبودان باطلہ کو بھی ملا کر صرف ایک جملہ لکھ دو جو علمی وادبی اعتبار سے بھی اس کے پایہ کا ہو اور باوجود کہ انکار پر جان لڑائے بیٹھے تھے نہ کرسکے اور نہ آج تک کرسکے ہیں اور نہ آئندہ کرسکیں گے اس کے باوجود قبول نہیں کیا بلکہ جب نہ بن پڑا تو مذاق اڑانے لگے فمایا کفار کو ان کے ان کرتوتوں کی پاداش میں بہت جلد عذاب الہی گھیر لے گا اور قرآن کی پیشگوئی پوری ہوئی دنیا میں بھی مشرکین کو ذلت آمیز شکستیں ہوئیں پھر مکہ بھی اور پورا عرب ہاتھ سے نکل گیا اور اسلامی ریاست بن گیا یہود بےبہبود بھی ذلیل و رسوا ہوئے کچھ قتل ہوئے کچھ وطن بدر کیے گئے اور بہت جلدی دنیا کا ھساب چکا دیا گیا آخرت بھی کچھ دور نہیں وہاں بھی کفر کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ ہر گناہ اپنے منطقی انجام کو پاتا ہے : یہ تاجر لوگ ہیں اور سفر کرنا ان کا پیشہ ہے زندگی کا حصہ ہے کیا انہوں نے اقوام عالم کی تباہی کے آثار نہیں دیکھے جو اس کے راستوں میں عبرت کا سامان بن کر دعوت نظارہ دیتے ہیں کیا یہ نہیں سوچتے کہ ان سے پہلے کس قدر اقوام اپنے انجام بد سے دوچار ہوچکی ہیں کبھی وہ بھی زمین پر آباد تھے اور تم سے زیادہ شان و شوکت رکھتے تھے طاقت اور قد و قامت میں تم سے بڑھ کر تھے مال و دولت کی فراوانی تھی آسمان سے بارشیں برستی تھیں تو زمین نہروں سے بھی سیراب ہوتی تھی اور ان کی کھیتیاں سونا اگلتی تھیں تمہارے پاس تو ان کے مقابلے میں نہ قوت ہے نہ شوکت اور نہ مال و زر میں ان کے ہم پلہ ہو مگر گناہ کا اپنا منطقی انجام ہوتا ہے جب انہوں نے برائی کا راستہ اپنا لیا اور کسی صورت باز نہ آئے تو ہم نے انہیں تباہ وبرباد کردیا کھیت ویران نہریں خشک اور مکان کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے بسنے والوں کا نام و نشانمٹ گیا نہ مال و دولت کام آیا اور نہ شان و شوکت عذاب الہی سے بچا سکی۔ عاد وثمود اور مدائن وغیرہکا حال دیکھو در اصل قرآن حکیم کا موضوع تاریخ نہیں اصلاح احوال ہے لہذا اس غرض سے جس قصے کا جتنا حسہ جس جگہ ضروری ہوتا ہے بیان کردیا جاتا ہے اسی لیے ایک ہی بات کے متفرق ٹکڑے مختلف جگہوں پہ ملتے ہیں اس میں بڑا لطیف اشارہ ہے کہ طالب حق کو دنیا کی بات اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے ورنہ خاموشی سے اللہ اللہ کیا کرے اور ایسی باتوں میں وقت صرف نہ کیا جائے جن کا تعلق اخروی فائدے سے نہ ہو ہاں رزق حلال حاصل کرنا یا اصلاح احوال اگرچہ دنیا کے کام ہیں مگر ان سے آخرت بنتی ہے لہذا ان امور پہ گفتگو کرے مگر وہ بھی اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو اور لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی قوموں کی تباہی سے کارگاہ حیات متاثر نہیں ہوئے اللہ کریم فرماتے ہیں ہمارے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑا ان کی جگہ دوسرے لوگ پیدا کردئیے ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ روزانہ دفن ہو کر ذہنوں سے بھی محو ہوجاتے ہیں اور زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے آگے اور آگے کی طرف اپنی منزل کی طرف جہاں پہنچ کر سب کچھ ختم ہونے کو ہے۔ اہل مکہ کا یہ مطالبہ بھی کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب بھیجی جائے قبول نہ کرنے کا ایک بہانہ ہے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی سے بڑی حقیقت اور کیا ہوگی اور اگر ان میں ان کی بات میں خلوص ہوتا تو ایسا ہوجانا ناممکن نہ تھا مگر یہ ایسے لوگ ہیں کہ آسمان سے کتاب آجائے یہ اسے چھو کر ٹٹول کر تسلی کرلیں کہ ہاں واقعی کتاب ہے مھض وہم نہیں تو کہہ دیں گے یہ جادو کا کرشمہ ہے چونکہ ان کا مطالبہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے نہیں یہ صرف آپ کو عاجز اور لاجواب کرنا چاہتے ہیں یہی حال ان کے دوسرے مطالبے کا ہے کہ ہمارے سامنے آ کر فرشتہ بات کرے ان کی یہ بات پہلی بات سے بھی عجیب تر ہے کہ کافر کو اگر فرشتہ یا برزخ یا آخرت نظر آنے لگے تو اس کے بعد اسے مہلت نہیں دی جاتی نہ اس کی توبہ قبول ہوتی ہے کیونکہ موت کے وقت ہر انسان کو کشف ہوجاتا ہے یہ سب مفسرین کرام نقل فرماتے ہیں اور قرآن حکیم میں کفار کے ساتھ موت کے وقت فرشتوں کا باتیں کرنا یا انہیں مارنا وغیرہ مذکورہ ہے مگر اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی جیسے فرعون نے توبہ کی تھی مگر ارشاد ہوا ۔ الان و قد کنت من الکفرین۔ اب توبہ کرتے ہو اور جب توبہ کا وقت تھا اللہ کا رسول (موسی علیہ السلام) توبہ کی دعوت دیتا رہا کفر پر جمے رہے اب قبولیت کا وقت گذر چکا اور اگر یہ ایمان لے آئیں تو مطالبہ فضول ٹھہرا یعنی بحالت کفر فرشتے نظر آنے لگیں تو قصہ ختم پھر انہیں مہلت نہ ملے گی اور مومن ہوں تو پھر مطالبے کی ضرورت نہیں ایک صورت دوسری ہے کہ فرشتہ انہیں بصورت انسان نظر آئے اور فرشتے کو انسانی لباس میں بھیج دیا جائے ایسی صورت میں ان کی ہلاکت کا اندیشہ تو نہیں مگر وہ فرشتہ بھی آپ کے پایہ کا انسان تو نہ بن سکے گا اس کا اپنا مقام ہوگا یہ آپ کی بات تسلیم نہیں کر رہے تو اس کی بات کیا خاک مانیں گے۔ آپ ان کے مذاق سے دل برداشتہ نہ ہوں کہ آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے رسولوں کو بھی ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑا اور کفار سے جب کوئی بات بن نہ پڑی تو ان سے بھی مذاق کرتے تھے اور انہیں اپنی باتوں سے ایذا پہنچاتے تھے مگر ان کا یہ فعل اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت گراں ثابت ہوا اور جن عذاب کے وعدوں پر وہ ہنسا کرتے تھے انہیں ان عذابوں نے آپکڑا اور ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ و برباد ہوگئے۔ ان کے پاس بھی دو ہی راستے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت جس میں امن کی ضمانت بھی ہے اور آبرو کی بھی ہر دو عالم کی کامیابی کا وعدہ ہے یا پھر زلت کی موت شکست اور رسوائی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 3 : جعل (اس نے بنایا) ‘ الظلمت (ظلمۃ) ۔ اندھیرے ‘ النور (روشنی) ‘ یعدلون (عدل) برابر کرتے ہیں۔ (شرک کرتے ہیں) ‘ طین (مٹی) ‘ قضی (مقرر کردیا۔ فیصلہ کردیا) ‘ اجل (ایک مدت) ‘ مسمی (مقرر۔ متعین) تمترون (تم شک کرتے ہو) سر (بھید ‘ چھپی ہوئی چیز) ‘ جھر (کھلاہوا۔ ظاہر) تکسبون (تم کماتے ہو) تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کو دیکھنے اس پر غور کرنے اور پھر دل سے تعریف کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ایسا کون ہے جو آسمان و زمین کی ٹھہری ہوئی اور حرکت کرتی ہوئی چیزوں کو دیکھے ‘ اس آنے والی اور جانے والی تاریکیوں اور روشنیوں کو دیکھے ‘ اس سکونی اور گردشی نظام کائنات کو دیکھے کہ سب کچھ انسان کو زندگی اور اس کی نعمتیں بخشنے کے لئے بنے ہیں۔ اور پھر بھی اس کا دل حیرت اور احسان مندی سے عش عش نہ کر اٹھے۔ الحمد کے معنی تعریف کے بھی ہیں اور شکر کے بھی۔ یعین حسن آفرینش کی قدرو قیمت پہچاننا بھی اور قولی و عملی احسان مندی بھی۔ یعنی معرفت بھی اور بندگی بھی۔ اس آیت نے ان دو سوالوں کا جواب دے دیا ہے جن کی طرف سائنس نے اپنی مصلحت سے اب تک رخ نہیں کیا۔ ہر چیزچاند ‘ سورج ‘ پہاڑ ‘ انسان کے ساتھ چند سوالات لازمی اٹھتے ہیں۔ یہ کیا ہے ؟ اسے کس نے بنایا ؟ اور کیوں بنایا ؟ سائنس اپنے آپ کو کیا اور کیسے میں الجھائے رکھتی ہے۔ ‘ کون ‘ اور ‘ کیوں ‘ سے دور بھاگتی ہے۔ تمام سائنس داں جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ‘ کون ‘ اور ’ کیوں ‘ میں تحقیق کی تو ہمیں دین اسلام میں دخل ہونا پڑے گا اور یہ ان کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے۔ اسے کس نے بنایا۔ اس کا جواب لفظ اللہ میں ہے۔ اسے کیوں بنایا اس کا جواب لفظ الحمد میں ہے۔ الحمد للہ ہی سے قرآن شروع ہوتا ہے۔ الحمد للہ ہی تمام حقائق کی بنیاد ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ انسان یہ سارے انسان کائنات کو اپنے لئے کام کرتے ہوئے دیکھتا تو اس کا سر خالق ومالک کے سامنے تحسین و تشکر میں جھک جاتا لیکن حیرت کا مقام ہے کہ کفار اور مشرکین غیر اللہ کو معبود ٹھہرا رہے ہیں۔ ذرا انسان یہ تو سمجھے کہ اسے کس نے پیدا کیا ‘ کس چیز (مٹی) سے پیدا کیا ‘ کس نے اس کی زندگی کی مدت مقرر کردی۔ کس نے اس کی موت کی تاریخ مقرر کردی اور پھر موت کے بعد قیامت تک کی مدت مقرر کردی۔ ذرا یہ سمجھئے کہ جو اسے موت دے سکتا ہے وہ مارنے کے بعد جلا بھی سکتا ہے اور جلانے کے بعد جزا و سزادے سکتا ہے۔ ذرا انسان یہ تو سمجھے کہ وہ جو آسمانوں ‘ زمین اور ہر چیز کو بنا سکتا ہے ‘ ایک نظام میں لگا کر سب کو مختلف حرکتوں اور منزلوں سے گزار سکتا ہے ‘ وہ انسان کی ایک ایک رکت کو کیوں نہیں دیکھ سکتا خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر۔ اور پھر وہ ہر ایک کا اعمال نامہ کیوں نہیں مرتب کرسکتا۔ مگر جو بد نصیب ہے وہ ابھی تک شک میں پڑا ہے۔ اور مدت عمل گزرتی چلی جارہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ سورت سابقہ کے انجام اور اس کے آغاز میں تو مناسبت ہے کہ دونوں مشتمل میں ابطال شراک اور اثبات توحید اور اس کے دلائل پر اور ان دونوں کے مجموعہ میں یہ مناسبت ہے کہ دونوں مشتمل میں شرائع پر گوسورت سابقہ میں شرائع سے فروع بھی مثل اصول کے کثیر ہیں چناچہ بیس تک ان کا شمار پہنچا ہوا اور یہ اس میں تقریبا تمام سورت میں اصول ہی زیادہ ہیں فروع بہت کم ہیں کہ عدد مذکور کے ثلث یا ربع سے متجاوز نہیں اور خود اس سورت کے باہم اجزاء میں مناسبت وارتباط یہ ہے کہ حاصل سورت کا چند امور ہیں اثبات توحید اثبات رسالت توحید و رسالت کی تائید کے لیے بعض قصص انبیاء کے اثبات قرآنی اثبات بعث ان کے منکرین کا عناد قلی وفعلی ان منکرین پر وعیدیں ان وعیدوں کی تائید کے لیے بعض امم مکذبین کا حال ہلاکت ان منکرین سے مکالمت ومحاجہ کود ان کے رسول و عادات کی تقتیح ان کے ساتھ معاملہ رکھنے میں اعتدال کی تعلیم کو تبلیغ میں کی نہ ہو تشدد میں حد شرعی سے تجاوز ہو مخالطت میں مداہنت نہ ہو دلجوئی یا فکر ہدایت میں مبالغہ نہ ہو ان کے رسول جہالت کے مقابلہ میں بعض مکارم اخلاق اسلامیہ کا بیان اور یہ تمام تر گفتگو مشرکین سے ہے صرف دو تین جگہ مسئلہ نبوت و قرآن یاحلت و حرمت اشیاء کی بحث مناسبت سے ضمنا اہل کتاب خصوص یہود کی تقبیح آگئی ہے یہ حاصل ہے سورت کا اور ان سب مضامین میں وجہ تعلق وربط مخفی نہیں پس سب سے اول توحید کی آیتیں ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن قرآن مجید نے اس حقیقت کو بار بار واضح فرمایا ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش میں رطب اللّسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اسی بنا پر اس سورة کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اپنی حمد کا استحقاق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور اسی نے ظلمات اور نور بنایا لیکن کافر اتنے ناعاقبت اندیش ہیں کہ وہ اس عظیم الشان ہستی کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں حالانکہ وہ ایسی ہستی ہے جس نے نہ صرف سب کو پیدا فرمایا ہے بلکہ ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اس کی پرورش کا انتظام فرمایا ہے۔ یہاں زمین و آسمانوں کے لیے تخلیق کا لفظ استعمال فرمایا۔ اندھیروں اور روشنی کے لیے ” جَعَلَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شاید اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو جو موجودہ سائنس دانوں نے ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے جس طرح زمین ایک کرَّہ ہے اسی طرح سورج چاند اور بیشمار کرّہ جات ہیں۔ جس طرح سورج کے عکس سے چاند روشن ہوتا ہے اسی طرح بلندی پر جاکر دیکھیں تو زمین چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ہر کرّہ ایک دوسرے کو روشن کیے ہوئے ہے۔ پھر اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا اور روشنی کو واحد قرار دیا۔ اس لیے اکثر مفسرین نے واضح فرمایا کہ اندھیرے کئی قسم کے ہیں اور روشنی ایک ہی ہوتی ہے۔ ظلمات سے مراد مختلف قسم کی گمراہیاں ہیں اور نور کا مفہوم ہدایت لیا گیا ہے کیونکہ ہدایت ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور گمراہی ہر دور میں اپنا روپ بدلتی رہتی ہے۔ لفظ ظلمات کو پہلے اس لیے لایا گیا یہ کائنات پہلے دھواں کی شکل میں تھی جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اور موجودہ سائنس بھی اس کی تائید کر رہی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نیز ہمیں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب طرح یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ رسول نازل کیا گیا اسی طرح اس کا طریق کار بھی اللہ تعالیٰ نے سنت رسول کے ذریعے مقرر فرما دیا ۔ یہ مسنون طریق کار ہی اس دین کے مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس دین اور اس کے فطری طریق کار کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ جس طرح اسلام نظریاتی اصلاح کے ذریعہ انسان کے کردار میں اصلاح اور تبدیلی چاہتا ہے بعینہ اسی طرح وہ اس طریق کار کو بھی بدل دینا چاہتا ہے جس کے مطابق فکری اور نظریاتی اصلاح درکار ہے ۔ مثلا یہ کہ وہ محض فکری تعمیر ‘ فلسفیانہ طور پر نہیں چاہتا بلکہ وہ فکری اصلاح اور راہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک تحریک بھی برپا کرنا چاہتا ہے ‘ تاکہ ایک ایسی امت (GreAt NAtion) کی تعمیر ہو جس کے طرز فکر میں اعتقادی تصورات اور ایک زندہ وفعال معاشرے کا وجود ساتھ ساتھ موجود ہوں۔ غرض اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اس کے طرز فکر ‘ اور اس فکر کے مطابق اساسی تصورات اور ان تصورات کے مطابق وجود میں آنے والے معاشرے کے درمیان ایسی کوئی حد فاصل نہیں ہے کہ جب ایک پر کام ہو رہا ہو تو دوسرے کو ہاتھ نہ لگایا جائے ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کے مطابق سب پر بیک وقت کام ہوگا ۔ اس طریق کار کی اہمیت : احیائے دین کے اس طریق کار کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ طریق نہایت اہم اور نہایت بنیادی ہے ۔ یہ کسی خاص مرحلے کسی خاص خاندان اور کسی خاص معاشرے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ ہی یہ طریق پہلی تحریک اسلامی کے ظروف واحوال کے ساتھ مخصوص تھا ۔ یہ ایسا طریق کار ہے جس کو اختیار کیے بغیراحیائے دین کا کام کسی جگہ اور کسی زمانے میں بھی نہیں ہو سکتا ۔ اسلام کے پیش نظر صرف یہ نہ تھا کہ لوگوں کے کچھ عقائد میں تبدیلی کرکے اور معاشرتی حالات میں کچھ اصلاحات کر کے بیٹھ جائے ۔ وہ لوگوں کے فکر ونظر میں ہمہ گیر تبدیلی چاہتا تھا اور یہی وہ مہم تھی جس کا بیڑا اس نے اٹھایا ۔ اس نے انہیں نظریہ بھی دیا اور واقعیت بھی دی اور اس کے لئے ایک خاص طریق کار بھی دیا اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ طریق کار ہے اس لئے وہ اپنے مزاج کے اعتبار ہی سے انسانوں کے وضع کردہ ناقص طریق ہائے کار سے سراسر مختلف ہے ۔ اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کا حصول اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم اپنے اندر اسلامی طرز فکر (IslAmic WAy of Thinking) پیدا نہ کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرز فکر پر لوگوں کے افطار و تصورات کی تعمیر کی اور ان کے تمام عقائد درست ہوگئے اور ان کی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر بھی صحیح خطوط پر ہوئی ۔ جدید افکار سے متاثر ہو کر جب ہم اسلامی نظریہ حیات کو محض تعلیمی اور تدریسی نظریہ بنا دیں گے تو وہ اپنا مخصوص مزاج کھو دے گا اور ہم اس ذہنی شکست کا شکار ہوں گے کہ گویا اسلامی طریق کار اور الہی نقطہ نظرانسانی نظریوں اور نظاموں سے فروتر ہے یا یہ کہ وہ ان سے ناقص ہے اور ہم یہ تبدیلی کرکے اس کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انسانی طریق کار اور معیار کے مطابق ہوجائے ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم شکست ہوگی اور تباہ کن بھی ۔ اسلامی نظام حیات کی خصوصیت یہ ہو کہ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو ایک خاص طرز فکر عطا کرے اور انہیں جاہلی طرز فکر کے بندھنوں سے آزاد کردے ‘ جو اس وقت ہر طرف چھائے ہوئے ہیں اور جن سے ہماری تنظیمیں اور ہماری پوری ثقافت متاثر ہے ۔ اگر ہم اسلامی نظام حیات کو اسی نقطہ نظر سے دیکھیں ‘ جو کسی دنیاوی جاہلی نظام کے بارے میں رکھا جاتا ہے تو یہ اسلامی نظام حیات کے مزاج کے سراسر خلاف ہوگا اس طرح اس دین کا وہ اصلی مقصد ہی فوت ہوجائے گا جو مقصد وہ فلاح انسانیت کے سلسلے میں پیش نظررکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے بعد ہمارے لئے یہ بےحد مشکل ہوگا کہ ہم جاہلی نظام حیات سے نجات پاسکیں ۔ جب کہ یہ نظام اس وقت ہر طرف سے غلبہ پارہا ہے ۔ اس طرح ہم ایک زریں موقع کھو دیں گے اور ہماری اجتماعی زندگی جاہلی نظریات اور غیر اسلامی افکار کے نیچے دب جائے گی اور اس کے نتائج دور رس اور تباہ کن ہوں گے ۔ نقطہ نظرکا توازن : تحریک احیائے اسلام میں طرز فکر اور طریق کار تصور حیات اور نظام حیات کے در میان اہمیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ طرز فکر اور طریق کار ‘ کسی وقت بھی مفصل نظام حیات اور تصور حیات سے منفصل نہیں ہو سکتے اور اس تصور حیات اور نظام حیات کو اگر محض تعبیری شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں قطعا کوئی تحریک وجود میں نہ آئے گی اور اسلامی نظریہ حیات محض ذہنی نظریہ بن کر رہ جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر ہم اسلام کے تصور حیات کو پیش کرنے کے لئے محض تعبیری طریق کو اختیار بھی کرلیں تو پھر بھی اس سے وہی لوگ مستفید ہو سکیں گے جو عملا اس تحریک کو اپنائے ہوئے ہوں اور یہ بھی اس صورت میں کہ جس منزل پر یہ کارکن ہوں اس میں وہ اسلامی نظام حیات کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں ۔ یعنی اس نظریہ حیات سے استفادہ مقدار عمل کے مطابق اٹھایا جاسکتا ہے ‘ مقدار علم کے مطابق نہیں ۔ غرض میری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات فی الفور ایک تحریک کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے اور یہ تحریک اس تصور حیات کی صحیح تمثیل اور ترجمہ ہو ۔ یہی اسلامی نظام حیات کے قیام کا فطری طریق کار ہے اور تمام دوسرے طریقوں سے اعلی ارفع اور ٹھوس بھی ہے ۔ انسانی فطرت کے ساتھ زیادہ مطابق بھی ہے اور اس میں زیادہ تحریکیت اور فعالیت پائی جاتی ہے ۔ محض جامد شکل میں ایک مستقل اور مکمل نظریہ حیات پیش کردینے سے یہ طریق کار زیادہ مفید ہے کیونکہ اس میں فعال اور متحرک لوگوں کے سامنے لائحہ عمل پیش ہوتا ہے اور غیر متحرک لوگوں سے واسطہ نہیں پڑتا بلکہ لوگ ذہنی تصورات اور نظریہ حیات کی جیتی جاگتی تصور ہوتے ہیں ۔ تحریک اسلامی اور علمی تحقیقات : اگر یہ رائے اصل اسلامی نظریہ حیات کے بارے میں درست ہے تو اسے اسلامی نظریہ حیات کے اساسی تصورات کے بارے میں بھی درست ہونا چاہئے ۔ نیز اسلامی نظام حیات کے مفصل قوانین پیش کرنے کے مسئلے میں بھی یہی طریق کار ‘ یعنی تدوین ونفاذ کا اتحاد ہی درست ہونا چاہئے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اردگرد جاہلیت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے ۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ جوں جوں وہ احیائے دین کے لئے اسلامی نظام حیات کے مقررہ طریق کار کے مطابق قدم آگے بڑھاتے ہیں وہ ان سے بڑے معصوم لہجے میں سوال کرتی ہے کہ جس نظام حیات کی طرف تم لوگوں کو بلا رہے ہو اس کی تفصیلات کیا ہیں ۔ اس کے نفاذ کے لئے تم نے کیا کیا علمی تحقیقات کی ہیں ‘ اس کی علمی اور نظری بنیادی کہاں تک تیار ہوچکی ہیں اور جدید خطوط پر اسلامی فقہ کی تدوین کہاں تک ہوگئی ہے ؟ ان معصومانہ سوالات کو سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی راہ میں ‘ اب صرف یہی رکاوٹیں حائل ہیں کہ صرف فقہی احکامات کی تدوین اور بعض فقہی موضوعات پر تحقیق کی ضرورت پوری ہوجائے ۔ رہی جاہلیت تو وہ تو اللہ کی حاکمیت کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور تمام لوگ اس کے لئے آمادہ ہوچکے ہیں کہ اسلامی قوانین کو نافذ کیا جائے ، مشکل صرف یہ درپیش ہے کہ کوئی ایسا فقیہ مجتہد اور مفنن نہیں مل رہاجو جدید قانونی خطوط پر اسلامی شریعت کو مدون کرسکے ۔ یہ دراصل ایک گہری سازش اور ایک کھلا مزاح ہے جو شریعت اسلامیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے اور ہر حساس دل کو اس کی طرف خاطر خواہ توجہ دینا چاہئے ۔ جاہلیت کے پیروکار ایسے سوالات اٹھا کر ‘ دراصل شریعت اسلامی کے نفاذ سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ انکا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو بدستور غیر اسلامی اور انسانی قوانین کے تابع رکھا جائے ، دوسرا مقصد یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اقامت دین کے اسلامی طریق کار سے ہٹا دیا جائے ‘ تعمیر افکار اور احیائے تحریک کے ضروری مرحلے کو نظر انداز کردیاجائے اور اس سے پہلے ہی قانون کی تدوین شروع کردی جائے ‘ حالانکہ اقامت دین کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات تحریک اسلامی کی فعال شکل میں ظہور پذیر ہو اور اقامت دین کا جو مرحلہ درپیش ہو اس کی حقیقی ضرورت کے مطابق ہی تفصیلی قوانین کو سامنے لایا جائے اور تدوین قانون اس وقت ہو جب اس کی ضرورت درپیش ہو ۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ اسی طریق کار کو پیش نظر رکھیں ۔ سازشوں اور فوجی انقلابات کے طریق کار سے باز رہیں اور اس اسلامی طریق کار کے مقابلے میں اپنی طرف سے کوئی طریق کار املاء نہ کرائیں جو لوگ سرے سے خدا اور رسول پر یقین ہی نہیں رکھتے ان کی باتوں پر توجہ نہ دیں ۔ یہ لوگ دراصل ہمارے تحریک اسلامی کے کارکنوں کو گمراہ کرکے جلد باز بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ہمیں بےحد سنجیدہ ہونا چاہئے ۔ اسلام پسند عناصر میں مختلف طریقوں سے جو تنگی دلی پھیلائی جارہی ہے اس کا مقابلہ بےحد ضروری ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس سازش کو بھی ناکام بنائیں اور اس پست ذہنیت کو نظر انداز کو دیں جو ” فقہ اسلامی کے ارتکائ “ کے نام سے ایک ایسے ملک میں پھیلائی جارہی ہے جو سرے سے شریعت کی اطاعت اور نفاذ کا قائل ہی نہیں ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس بےفائدہ مزاح کو نظر انداز کرتے ہوئے صحیح اسلامی طریق کار کے مطابق اپنے حقیقی نصب العین کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہوا میں تخم ریزی کا فائدہ کچھ نہ ہوگا ۔ اسلام تحققات اور فقہی ارتقاء کا یہ خوش آئند کھیل دراصل ایک گہری سازش ہے اور ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں احیائے دین کے صحیح اور فطری طریق کار ہی پر ڈٹ جائیں ۔ اسی میں اس دین کی قوت کا راز مضمر ہے اور وہی ہمارے کارکنوں کی معنوی قوت کا مصدر ہے ۔ (اس وقت مصر میں پاکستان کے ادارہ ثقافت اسلامیہ اور مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کی طرز پر کئی ادارے اسلام پر تحقیقا کر رہے ہیں ۔ یہ تحقیقات ایسی ہی ہیں جیسے کوئی مشاق فن ریگستانوں میں اثری اکتشافات میں مصروف ہوتا ہے ۔ سید قطب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اسلام کے احیاء سے کوئی سروکار ہے نہ وہ لوگ جو ان اداروں میں کام کرتے ہیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور انہ ان کی حکومتوں کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان تحقیقات کو نافذ کیا جائے بلکہ محض علمی اور فنی عیاشی کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی تدبیر اسلام کو مطلوب نہیں ہے ۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام کے ہر موضوع پر اٹھائے ہوئے جدید سوالات اور جدید حالات کی روشنی میں تحقیقات کی اشد ضرورت ہے ‘ خصوصا دفاعی تحقیقات ۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہے کہ عربوں کے سامنے اسلامی نظام پہلی مرتبہ پیش ہوا اور ساتھ ساتھ بتدریج اس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے ۔ لہذا قدرتی طور پر تعمیر افکار ‘ اس کا طریق کار اور تحریک اسلامی اور تشکیل نظام حیات کے ساتھ ساتھ ہی ہوتے رہے ۔ لیکن اب ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک طرف عوام الناس ہیں جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے آمادہ ہیں یا کم از کم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ ان پر یہ نظام نافذ کیا جائے اور دوسری طرف ایک محدود اقلیت ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی امکانیت کی قائل نہیں اور یہ اقلیت محض طاقت اور اقتدار کے بل بوتے پر اسلامی نظام حیات کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ‘ لہذا اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بعینہ وہ طریق کار جس میں تمام لوگوں کو غیر مسلم فرض کرکے اختیار کیا جاتا ہے ‘ نہیں اپنایا جاسکتا ۔ ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ دور اول میں اسلامی قوانین کی تفصیلات پر وہ غیب میں مستور تھیں اور جاہلیت کے حامل صرف انہیں قوانین اور احکامات پر اعتراض کرسکتے تھے جو نازل ہوجاتے تھے ۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلامی نظام حیات مفصل طور پر قرآن وسنت میں موجود ہے ۔ اسلامی تاریخ مدون ہے اور جاہلیت کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اسلامی ثقافت کے بارے میں قسم قسم کے اعتراضات اٹھائے ۔ لہذا اسلامی نظام حیات کے احیاء کے ابتدائی طریق کار کے ہر مرحلے میں یہ ضروری ہوگا کہ جاہلیت کے اعتراضات کا دفعیہ کیا جائے اور اسلامی قوانین کے مختلف گوشوں کی وضاحت کی جائے ، نیز اس وقت ساری دنیا کو زندگی کے اساسی مسائل کا سامنا ہے اور مختلف نظام ہائے حیات کی باہمی آویزش میں صرف وہی نظام حیات کامیاب ہوسکتا ہے جو عالمی مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہو۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ تحریک اسلامی اس میدان میں بھی اسلامی نظام حیات کی برتری کو ذہن نشین کرائے ۔ اس طرح صحیح خطوط پر اسلامی تحقیقات کا کام بھی اشد ضروری ہوجاتا ہے ۔ ان حقائق کے پیش نظر سید قطب کا یہ فرمان کہ اسلامی قانون کی تفصیلات کو بالکل نہ چھیڑا جائے خالی از مبالغہ نہیں ہے) احیائے دین کا اسلامی طریق کار اور خود اسلامی نظام حیات آپس میں عین ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق اور جدائی نہیں ہے ۔ اس طریق کار کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اسلامی نظام حیات کو جنم نہیں دے سکتا ۔ کسی دوسرے طریق کار کے نتیجے میں کوئی انسانی اور جاہلی نظام حیات ہی جنم لے سکتا ہے ۔ اسلامی نظام حیات کا احیاء اس کے مطابق ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ غرض اس پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ احیائے دین کی ہر تحریک اور ہر کوشش میں ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کا التزام ضرری ہے ۔ یہ میری آخری بات ہے اور مجھے یہ یقین ہے کہ اس طویل نوٹ کے ذریعے میں نے مکی سورتوں اور ان کے اندر طے کردہ منہاج کی پوری پوری وضاحت کردی ہے ۔ اب ان تمام قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریکوں کے لئے اسلامی منہاج کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جو اسلام کا کام کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر اطمینان کرلیں اور امید رکھیں کہ وہ جس منہاج کو پا چکے ہیں وہ خیر اور بھلائی ہے اور یہ کہ وہی بلند ترین لوگ ہیں اور یہ کہ قرآن کریم جو راہ دکھاتا ہے وہ اقوام اور مضبوط ہے ۔ (آیت) ” ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) اب ہم کچھ بات اس سورة کے بارے میں کرتے ہیں ۔ ضلال القرآن میں یہ پہلی مکی سورة ہے جس پر ہمیں کلام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے اور یہ سورة مکی قرآن اور مکی انداز کلام اور مضامین کی ایک مکمل تصویر ہے ‘ جس کے خصائص ‘ جس کے مزاج اور مضامین کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس سورة میں قرآن کریم کے خصائص ‘ اس کے منہاج کلام ‘ اس کے موضوع اساسی ‘ اور طرز ادا کے زاوے سے ایک مثالی بحث موجود ہے ۔ اس عمومی اسلوب کو اپناتے ہوئے سورة کے اپنے مزاج کو بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ جس طرح قرآن کریم کی تمام سورتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ان میں قرآن کریم کے عمومی اسلوب اور اخذ کے ساتھ ساتھ سورة کا ایک خاص مزاج اور اسلوب بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ اور ہر سورة کا مخصوص ماحول دوسری سورتوں میں نہیں پایا جاتا ۔ چناچہ قرآن کریم کی ہر سورة کی اپنی ذاتی شخصیت بھی ہوتی ہے ‘ اس کا ایک علیحدہ محور ہوتا ہے ‘ ہر سورة کے مخصوص خدوخال ہوتے ہیں اور اس کا ایک بڑا موضوع ہوتا ہے جس کے گرد تمام مباحث گھومتے ہیں ۔ پھر اس موضوع کی مناسبت اور دوسرے اسباب جو ادائے مطلب کو نہایت ہی موثر بناتے ہیں ۔ مخصوص منظر کشی ‘ مخصوص سائے اور مخصوص فضا ہر سورة میں ممیز وممتاز نظر آتی ہے ۔ ہر سورة میں مخصوص اسلوب کے جملے بار بار تکرار کے ساتھ آتے ہیں ۔ موضوعات بعض اوقات ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں ‘ سورة کی شخصیت کا تعین موضوع سے نہیں ہوتا بلکہ کچھ دوسرے خدوخال ہوتے ہیں جو اس سورة کی شخصیت کے لئے سیٹ کا کام دیتے ہیں جو اس سورة کے ساتھ خاص ہوتے ہیں اور دوسری سورتوں میں نہیں ہوتے ۔ رہی سورة زیر بحث تو اس کا ایک مرکزی موضوع ہے اور یہ موضوع ہر لمحہ ‘ ہر وقت ‘ ہر منظر میں نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ ایسی خوبصورتی کے ساتھ جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں ۔ انسان انگشت بدنداں رہ جائے ار اس کی سانس رک جائے ، اس وقت جبکہ کوئی اس کے مناظر پر غور کرے ‘ اس کے زیروبم کو دیکھے اور اس کے اثرات کو محسوس کرے ۔ ہاں یہ ایک حقیقت بہت اہم ہے ‘ میں اپنے نفس کے اندر اس حقیقت کو پاتا ہوں ‘ جب بھی اس سورة کے سیاق کلام کے ساتھ چلتا ہوں ‘ اس کے مناظر کی سیر کرتا ہوں اور اس کے اثرات کو محسوس کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص بھی ایک حساس دل رکھتا ہے ‘ وہ ضرور ان احساسات میں سے کچھ نہ کچھ پائے گا جو میں محسوس کرتا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سورة کی خوبصورتی انسان کو مبہوت کردیتی ہے اور دل و دماغ مسحور ہو کر اس کے ساتھ چلتے ہیں ۔ یہ سورة مجموعی لحاظ سے اللہ کی حاکمیت سے بحث کرتی ہے ۔ اس پوری کائنات کے دائرے میں بھی اور انسانی زندگی کے دائرے میں بھی ۔ انسانی نفس اور ضمیر کے دائرے میں بھی اور اس دکھائی دینے والی کائنات کے نامعلوں رازوں کے دائرے میں بھی ، نیز عالم الغیب کے نامعلوم رازوں کے دائرے میں بھی ۔ یہ سورة اس کائنات کی تخلیق اس کرہ ارض کے اوپر زندگی کی تخلیق ‘ پھر حیوانات کے اوپر انسان کی تخلیق کے باب میں تصور حاکمیت الہ کو پیش کرتی ہے ۔ پھر تاریخی زوایے سے یہ سورة گزرنے والوں کی باہمی کشمکش اور پھر ان کی جگہ لینے والوں کی جانشینی میں بھی حاکمیت الہیہ کے کچھ رنگ دکھاتی ہے غرض اس کائنات کے اوپر نظر ڈالتے ہوئے مظاہر فطرت پر اللہ کی حاکمیت ‘ دنیا میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں اللہ کی حاکمیت ‘ اور دنیا میں خوشحالی اور بدحالی میں اللہ کی حاکمیت اس سورة کا موضوع ہے ۔ قدرت الہیہ کے مختلف مظاہر ومشاہد میں اللہ حاکمیت ‘ انسانی زندگی کے اوپر اللہ کی ظاہری اور باطنی گرفت میں اللہ کی حاکمیت ‘ اس کرہ ارض پر رونما ہونے والے واقعات و حوادث میں اللہ کی حاکمیت اور سب سے آخر میں مشاہد قیامت اور لوگوں کے بارگاہ الہی میں کھڑے ہونے میں اللہ کی حاکمیت ۔ وہ موضوع جو اس سورة میں آغاز سے انتہا تک چلتا ہے وہ نظریے کا موضوع ہے ۔ اس موضوع کے تمام عناصر ترکیبی نظریاتی ہیں اور اس کے تمام پوشیدہ معانی بھی نظریاتی ہیں ۔ یہ سورة انسانی معاشروں کا ہاتھ پکڑتی ہے اور انہیں لے کر اس پوری کائنات کی سیر کراتی ہے ۔ یہ انہیں اس کائنات کے نظریاتی سرچشموں اور ان کے ظاہری اور خفیہ اشارات کی سیر کراتی ہے ۔ نفس انسانی کو لے کر یہ زمین وآسمانوں کی بادشاہت میں چلتی ہے ۔ جہاں یہ نفس عالم ظلمات اور عالم نور کی سیر کرتا ہے ‘ سورج چاند اور ستاروں کے جھرمٹ دیکھتا ہے ۔ یہ اس زمین کے باغات میں سیر کرتا ہے جس میں قسم قسم کے پھل ہیں ۔ ان پر بارشیں ہو رہی ہیں اور ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ۔ پھر یہ سورة نفس انسانی کو ایسے معرکہ کار زار میں لا کر کھڑا کردیتی ہے جس میں گذشتہ اقوام مرتی مٹتی نظر آتی ہیں اور ان کے آثار قدیمہ نظر آتے ہیں ۔ پھر بحر وبر کے اندھیروں کی سیر کرائی جاتی ہے ۔ کچھ غیبی راز بتائے جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کے راز آشکارا ہوتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ زندہ مردے سے نکلتا ہے اور مردہ زندے سے نکلتا ہے ۔ ایک بیج ہے جو زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں پوشیدہ ایک نطفہ ہے جو رحم کے اندھیروں میں پرورش پارہا ہے ۔ پھر اس سورة کی اسکرین پر جن وانس کے غور آتے ہیں پھر پرندوں اور دوسرے وحوش کے گلے آتے ہیں ۔ پھر اولین اور آخرین آتے ہیں ۔ زندہ لوگ اور مرے ہوئے لوگ بھی نظر آتے ہیں اور رات ودن کے وقت محافظین الہی بھی نظر آتے ہیں ۔ یہ بیشمار کائناتی مشاہد ومناظر انسانی حس اور انسانی نفس پر ہر جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں انسان بالکل ایک نیا ٹچ محسوس کرتا ہے ۔ نہایت ہی زندہ احساس نفس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور یہ مناظر اور یہ معانی پردہ خیال پر زندہ دوڑتے نظرآتے ہیں ۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ مکرر اور دیکھے ہوئے مناظر اور احساسات بھی بالکل نئے اور انوکھے نظر آتے ہیں ‘ بالکل جدید اور بالکل متحرک اور زندہ ۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ احساس اور یہ شعور بالکل پہلی مرتبہ حاصل ہوا ہے ۔ گویا اس سے قبل کوئی انسانی ضمیر اور شعور ان احساسات سے کبھی دوچار نہ ہوا تھا ۔ یہ سورة اپنے ان شاہدات ومواقف ‘ اپنے اشارات واثرات اور اپنی تصاویر وشیڈز کے ساتھ اس طرح جاری وساری ہے جس طرح کوئی دریا اپنی امواج کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے ۔ ایک موج ساحل سے نہیں ٹکراتی کہ دوسری اٹھتی ہے ۔ امواج کے ان نشیب و فراز میں اس سورة کا دریا مسلسل آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔ یہ سورة اپنی امواج کے اس مسلسل طلاطم کے ساتھ اور اپنی امواج کے باہم ٹکراؤ کے ساتھ اس قدر خوبصورت نظر آتی ہے کہ انسان محسور ہوجاتا ہے ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مضامین اور مفاہیم کو بھی نہایت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے اور اس قدر اثر انگیز طریقے سے مضامین پیش کئے گئے ہیں کہ انسان کے احساسات دنگ رہ جاتے ہیں ۔ نہایت ہی زندہ ‘ متحرک ہم آہنگ اور موثر صوتی اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثر انداز ہو کر اسے مسحور کردیتے ہیں ۔ زندگی سے بھرپور فقرے ‘ موثر صوتی اور تصویری انداز تعبیر نفس انسانی کے ہر پہلو پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اس سورة میں وہ اثرات جو دل و دماغ پر مرتب ہوتے ہیں ‘ ان کا اظہار ہم اپنے الفاظ میں نہیں کرسکتے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ پڑھنے والا اسے خود پڑھے اور خود براہ راست اس کے اثرات اور کرشمے محسوس کرے ۔ اس سورة کے ادبی اور اشاراتی اوصاف ہم اپنے انسانی الفاظ اور فقروں میں بیان ہی نہیں کرسکتے ۔ البتہ ہم ان لوگوں کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعے ایک راہ دکھلاتے ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔ ان کی زندگی اور قرآن کے درمیان خلیج واقعہ ہوگئی ہے اور وہ قرآن کی فضا سے متضاد فضاؤں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ قرآنی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں ‘ اس کو قرات کے ساتھ پڑھیں اور اس کے علوم وفنون سے آگاہ ہوں اور اس کی ادبی خوبیاں ہمیں معلوم ہوں ۔ یہ قرآنی فضا نہیں ہے ۔ قرآن کی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی ہمارے نزدیک یہ ہیں کہ انسانی ایسے حالات میں ‘ ایسی فضا میں ایسی کشمکش میں ‘ ایسی مشکلات میں اور ایسی اقدار میں زندگی بسر کرے جس طرح دور اول میں نزول قرآن کے وقت تھی ۔ اس طرح کہ گویا قرآن ابھی نازل ہو رہا ہے ۔ انسان اس جاہلیت کے بالمقابل زندگی بسر کرے جو اس وقت پورے کرہ ارض پر چھائی ہوئی ہے ۔ انسان اپنے دل میں اپنے ارادوں میں ‘ اپنی حرکات میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کر رہا ہو ‘ اپنے نفس اور لوگوں کے نفس کے اندر اسلام کو پید اکر رہا ہو ‘ اپنی زندگی میں اور لوگوں کی زندگیوں میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کرتے ہوئے از سر نو اسلام کو پیدا کر رہا ہو۔ وہ جاہلیت کے تمام تصورات ‘ جاہلیت کی تمام ترجیحات ‘ جاہلیت کی تمام رسومات اور جاہلیت کی تمام عملی صورت حال کا از سرنو مقابلہ کرے ۔ جاہلیت کے تمام پریشرز ‘ جاہلیت کی ہر قسم کی معرکہ آرائی ‘ ہر قسم کے مقابلے اور اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام حیات پر ہر قسم کے حملے کے سامنے صف آراء ہوجائے ۔ اسلامی نظام اور اسلامی نظریہ حیات کے تمام تقاضے پورے کرے ‘ اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور اس پر مصر رہے ۔ یہ ہے قرآنی فضا کا مفہوم ۔ یہ ہے وہ قرآنی فضا جس میں رہنے کا تقاضا یہ قرآن کرتا ہے ‘ صرف اسی صورت میں کوئی صاحب ذوق فہم قرآن کو پاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے ہی حالات میں یہ قرآن نازل ہوا ‘ ایسے ہی بحر مشکلات میں قرآن نے اپنا کام کیا جو مسلمان ایسی فضاؤں سے ناآشنا ہیں ۔ وہ قرآن سے محروم ہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی مدارس میں پڑھتے ہوں ‘ قاری ہوں اور قرآنی علوم وفنون کے ماہر ہوں ۔ قرآن کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے مخلصین کے استعمال کے لئے ہم جو فہم قرآن کا پل تعمیر کر رہے ہیں ‘ اس کا فائدہ ان مخلصین کو تب ہی ہوگا کہ وہ اس پل کو عبور کر کے قرآن کی دنیا میں داخل ہوجائیں ‘ وہ اس جہاں اور منطقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے علاقے میں داخل ہوجائیں ‘ اور اپنے عمل اور اپنی جدوجہد کے ذریعے وہ قرآن کی فضا میں داخل ہوجائیں ‘ اور یہ فضا وہ خود پیدا کریں ‘ صرف اس وقت ان کو قرآن کا ذائقہ محسوس ہوگا اور صرف اس وقت ہی وہ محسوس کریں گے کہ اللہ نے انہیں ایک نعمت سے نوازا ہے ۔ یہ سورة اسلامی نظریہ حیات سے بحث کرتی ہے ۔ اس کا موضوع اللہ کی الوہیت اور بندے کی بندگی ہے ۔ یہ سورة اللہ کے بندوں کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کرتی ہے کہ اللہ کیا ہے ؟ اس کائنات کی اصلیت کیا ہے ؟ اس کی پشت پر کیا راز ہائے دروں ہیں ؟ یہ انسان کون ہیں ؟ انہیں کون وجود میں لایا ہے ؟ انہیں کس نے پیدا کیا ؟ انہیں رزق کون فراہم کرتا ہے ؟ ان کی کفالت کون کرتا ہے ؟ ان کے معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ ان کے دلوں اور ان کے نقطہ نظر میں تبدیلی کون لاتا ہے ؟ ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ ان کی زندگی کو یہاں محدود کیوں رکھا گیا ہے ؟ ان کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ زندگی کیا ہے اور اس کی بوقلمونیاں کیا ہیں ؟ اس کرہ ارض پر اسے کس نے پھیلایا ؟ یہ پانی کیا ہے ؟ یہ چشمے ‘ یہ پھل اوپر نیچے ‘ یہ شہاب ثاقب ‘ یہ صبح کی نموداری ‘ یہ رات کی تاریکی ‘ یہ آسمانوں کی گردش ‘ ان کے پیچھے کون ہے ؟ اور ان کے پیچھے کیا راز ہیں ؟ کیا اطلاعات ہیں ؟ یہ اقوام ‘ یہ صدیاں ‘ یہ اقوام ہلاکت سے کیوں دوچار ہوتی ہیں ؟ اور پھر نئے لوگوں کو اوپر لا کر جس آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ان کا انجام ‘ آزمائش اور جزاء وسزا کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہے عمل اور مکافات عمل کا یہ کیا چکر ہے ؟ اس طرح یہ سورة قلب انسانی کو لے کر ان تمام ابعادوآفاق تک لے جاتی ہے اور ان تمام نشیب و فراز کی سیر کراتی ہے ۔ لیکن پوری سورة میں قرآن کریم کا مکی انداز برقرار ہے جس کے اسلوب کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ مکی اسلوب کے ساتھ ساتھ پورے قرآن کا انداز کلام بھی اس سورة میں اپنے اعلی میعار پر ہے ۔ انداز بحث صرف نظریاتی نہیں ہے اور نہ ہی لاہوتی جدلیات پر مشتمل ہے کہ قارئین کے افکار اور ان کے ذہنوں کو مشغول کیے رکھے ‘ بلکہ سیدھے سادے انداز میں ‘ یہ سورة رب العالمین کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے تاکہ اپنے سچے رب کی بندگی اور غلامی اختیار کریں ۔ ان کا ضمیر اور ان کی روح اللہ کی غلام ہوجائے ۔ ان کی جدوجہد اور انکی تمام مساعی اللہ کی تابعداری میں ہوں ‘ ان کے رسوم اور رواج اللہ کی اطاعت میں ہوں اور ان کی زندگی کی پوری عملی صورت حال اللہ وحدہ کی حاکمیت کے تحت ہو جس کے سوا زمین وآسماں کے اندر کسی کی حاکمیت نہیں ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ سورة اول سے آخر تک ایک متعین نصب العین کی طرف بڑھ رہی ہے ‘ یہ کہ اللہ ہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی قدرتوں والا ہے اور وہی بادشاہ اور قہار ہے ۔ وہی پوشیدہ چیزوں اور غیب کا جاننے والا ہے ۔ وہ جس طرح رات اور دن کو گردش دے رہا ہے اسی طرح وہ دلوں اور دماگوں کا بھی پھیرنے والا ہے اس لئے اسی کو تمام لوگوں کی زندگیوں پر حاکم ہونا چاہئے اور لوگوں کی زندگیوں میں امر اور نہی کا اختیار صرف اسے ہونا چاہئے ۔ کوئی حکم کوئی قانون اس سے سوا نہ ہوگا ۔ حلال و حرام کے تعین کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور اللہ کی الوہیت کے عناصر ترکیبی ہیں ۔ لہذا لوگوں کی زندگیوں میں ان کے بارے میں تصرف صرف اللہ کرسکتا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے ‘ نہ کوئی رازق ہے ‘ نہ زندہ کرنے والا ہے ‘ نہ مارنے والا ہے ‘ نہ نفع دینے والا ہے ‘ نہ نقصان دینے والا ہے نہ کوئی داتا ہے اور نہ کوئی مانع ہے ۔ غرض نہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کے لئے یا اپنے نفع ونقصان کا مالک ہو سکتا ہے ‘ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔ اس سورة میں اول سے آخر تک اس مقصد کے لئے دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں اور یہ دلائل ان مشاہدات ‘ مؤثرات اور قدرتی مواقف کے ذریعے پیش کئے گئے ہیں جو اس کائنات میں موجود ہیں اور فکر ونظر کو مسحور کرنے والے ہیں ۔ ان مناظر فطرت کے اس مطالعے سے دل پر ہر طرف سے اشارات ومؤثرات ہر دروازے اور ہر پہلو سے ہوتے ہیں ۔ وہ سب سے بڑا مسئلہ جس پر یہ سورة زور دے رہی ہے ‘ وہ زمین وآسمانوں کے اندر اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا مسئلہ ہے ۔ زمین و آسمان کے وسیع دائرے میں اور اس کائنات کے وسیع و عریض میدان میں تصور حاکمیت الہیہ کا مسئلہ ۔ یہ سورة اسی مسئلے کو پیش کرتی ہے لیکن اخلاقی انداز اور بات کی مناسبت یہ ہے کہ جاہلیت کے پیروکار بعض ذیبحوں اور بعض کھانوں کے معاملے میں حلال و حرام کے اختیارات اللہ کے سوا دوسروں کو دیتے تھے ۔ اسی طرح نذر بعض قربانیوں بعض پھلوں اور بعض بچوں کے سلسلے میں جاہلیت کے پرستار اللہ کے سوا دوسروں الہوں کو اختیارات دیتے تھے ۔ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کے اندر نظریہ حاکمیت الہیہ یہاں تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس مناسبت کی طرف سورة کی آخری آیات کے اندر اشارے کئے گئے ہیں ۔ (پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (٦ : ١١٨۔ ١٢١) (اور ان لوگوں نے اللہ کے لئے خود اس کی پیدا کی ہوئی کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے ‘ اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے بزعم خود ‘ اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے ۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اولاد کے قتل کو خوشنما بنایا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ عنقریب اللہ انہیں ان کی افتراء پر دازیوں کا بدلہ دے گا اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کیلئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ‘ لیکن اگر وہ مردہ ہوں تو دونوں اس کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ یقینا خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی وجہ سے قتل کیا اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کر کے حرام ٹھہرا لیا ۔ یقینا وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے ۔ (٦ : ١٣٦۔ تا ١٤٠) امت مسلمہ کی زندگی میں یہ ایک عملی پہلو تھا ‘ جس کی مناسبت سے اس سورة میں اس عظیم مسئلہ کو لیا گیا ۔ اس دور میں امت مسلمہ کے ماحول پر بھی جاہلیت چھائی ہوئی تھی جس میں قانون سازی اور حلال و حرام کے تعین کے معاملے میں یہ شرکیہ عقائد موجود تھے ۔ ان کی اصلاح کے حوالے سے یہاں اللہ کی الوہیت ‘ اللہ کی حاکمیت اور تمام انسانوں کی بندگی اور عبودیت کے مسائل کو لیا گیا ۔ چناچہ جس طرح تمام مکی قرآن میں اس مسئلے کو لیا گیا ہے ‘ اسی طرح اس سورة میں بھی اس مسئلے کو بڑی تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ مدنی آیات میں جہاں بھی حلال و حرام اور حق قانون سازی کا بیان آتا ہے وہاں بھی مسئلہ حاکمیت الہیہ کو لیا جاتا ہے ۔ اس سیاق کلام میں جن موثر ہدایات اور فیصلوں اور قرار دادوں کا سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہے اور ان جانوروں ‘ نذروں اور ذبیحوں کے بارے میں اہل شرک کی جو تردید کی جارہی ہے ‘ اسی حوالے سے یہاں اللہ کے مسئلہ الوہیت اور اللہ کے حق قانون سازی کو بھی بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کی اس قانون سازی کا تعلق اسلامی عقائد اور اسلامی نظریات کے ساتھ ہے ۔ وہ نظریہ اسلام کا نظریہ حاکمیت الہیہ اور انسانوں کی بندگی اور غلامی کا ہے اور یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ‘ اسلام اور کفر اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے ۔ ہدایات کے اس سیلاب میں سے ہم یہاں اس سورة کے تعارف میں صرف چند نمونے پیش کریں گے لیکن ان کی مکمل تفصیلات اس وقت آئیں گی جب ہم اس سورة کی آیات پر تفصیلی بحث کریں گے ۔ لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ سیلاب نفس انسان کے اندر اس دین کے مزاج کی حقیقی ماہیت بٹھا دیتا ہے ۔ وہ یہ کہ انسانی زندگی کا چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا ‘ ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے حق حاکمیت کے تحت حل ہونا چاہئے اور اللہ کی حاکمیت اسلامی شریعت کی صورت میں ریکارڈ شدہ ہے ۔ اگر اس طرح نہ ہوگا تو پھر یہ تصور ہوگا ۔ کہ ایسے لوگ یا معاشرہ دین سے خارج ہے ۔ ایک جزوی مسئلے یا معمولی مسئلے کی حد تک انسان دین سے نکل گیا ہے ۔ ہدایات کا یہ کثیر مجموعہ اس بات کا کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ دین انسانی زندگی کے تمام مظاہر سے اور زندگی کے تمام معاملات میں سے انسانوں کی حاکمیت کو ختم کرتا ہے ۔ یہ معاملات اہم ہوں یا غیر اہم ‘ بڑے ہوں یا چھوٹے ‘ ان معاملات کو اس عظیم اصول کے دائرے کے اندر لاتا ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پورے کرہ ارض پر حاکم مطلق ہے اور وہ بلاشرکت غیرے اس کائنات کے اوپر متصرف ہے ۔ یہ اصول دین اسلام کے اندر پوری طرح ظاہر اور مجسم ہے ۔ اس سورة میں مویشیوں ‘ پھلوں ‘ نذر ونیاز اور اولاد کے بارے میں دور جاہلیت کی رسومات اور شعائر کے ذکر کے بعد مختلف قسم کے تبصرے بھی کئے گئے ہیں ‘ جن سے اس بات کا اظہار مطلوب ہے کہ یہ رسومات اور شعائر نہایت ہی احمقانہ ‘ نہایت ہی متضاد ہیں ۔ بعض میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان کا یہ حق نہیں ہے کہ حلال و حرام کا تعین خود کرے بلکہ یہ کام تو ایک عظیم نظریاتی کام ہے اور حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت ہی درست راستہ اور صحیح طرز عمل ہے ۔ اگر کوئی شخص حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا تو وہ دین سے خارج ہے ‘ سابقہ آیات کے بعد ملاحظہ ہو ذرا طرز ادا اور پھر تبصرے : ” وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کئے ۔ کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ‘ زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ اس کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو ‘ جب ان کی فصل کاٹو ‘ اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جن سے سواری وبار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ یہ آٹھ نرو مادہ ہیں ‘ دوبھیڑ کی قسم سے ‘ دو بکری کی قسم سے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ ‘ یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے ۔ پوچھو ‘ ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں ۔ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم دیا تھا ؟ “ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی راہنمائی کرے یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو ‘ الا یہ کہ وہ مردار ہو ‘ یابہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو ‘ کہ وہ ناپاک ہے ‘ یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے ‘ یقینا تمہارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجر اس کے کہ جو ان کی پیتھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو ‘ یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی ‘ اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں اب اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کا دامن رحمت وسیع ہے اور مجرموں سے اس کے عذاب کو پھیرا نہیں جاسکتا ۔ یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ پھر کہو ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “ ان سے کہو ” کہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ۔ “ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا اور ہر گز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم کیا کیا پابندیاں عائد کی ہیں ۔ ؟ (١) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ (٢) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ (٣) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ‘ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بےشرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ ۔ خواہ وہ کھلی ‘ یا چھپی ہوں۔ (٤) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ یہ باتیں ہیں جس کی ہدایت تمہیں اس نے کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو ۔ (٥) اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے ۔ (٦) اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ‘ ہم ہر شخص پر ذمہ داریوں کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ۔ (٧) اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنی رشتہ داری کا کیوں نہ ہو۔ (٨) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔۔۔۔۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (٩) نیز اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ‘ لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو ۔ “ یہاں یہ بات نظر آتی ہے کہ مویشیوں ‘ جانوروں اور پھلوں اور بچوں کی نذر ونیاز کی جو رسوم جاہلیت میں مروج تھیں ان کے جواز اور عدم جواز کے ایک بالکل جزوی مسئلے کو بھی عظیم نظریاتی اور فکری مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ اس جواز وعدم جواز کو ہدایت اور گمراہی ‘ اسلامی نظام کے اتباع اور شیطانی نظام کے اتباع اور اللہ کی رحمت اور اللہ کی پکڑ کے مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں ۔ یہ قرار دیا گیا کہ ان مسائل سے عقیدہ توحید اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو برابر کرنے کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ قرار دیا گیا کہ جو لوگ غیر اللہ کی نذر ونیاز دیتے ہیں وہ اللہ کے صراط مستقیم سے ہٹ گئے ہیں ۔ اس لئے ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر وہی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو ان بلند نظریاتی مسائل کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی تھیں ۔ یہ وجہ ہے کہ یہاں اشارات و دلائل کا وہی رنگ اختیار کیا گیا ہے جو قرآن کریم ان مسائل عالیہ کے لئے اختیار کرتا ہے ۔ مسئلہ تخلیق اور مختلف زندہ چیزوں کی اقسام ‘ باغات اور تاکستان ‘ نخلستان اور کھیت ‘ مختلف رنگ اور ذائقے ‘ زیتون ‘ انار ‘ ایک سے ذائقے اور مختلف ذائقے وغیرہ ۔ وہ حقائق بھی لائے گئے جو عقیدہ توحید کے لیے لائے جاتے ہیں اور یہاں مشرکین کے لئے اللہ کے عذاب اور پکڑ کو بھی لایا گیا ہے ۔ یہ تمام مشاہد ومناظر اس سے پہلے بھی اس سورة میں پیش کئے گئے ‘ جب موضوع عقیدہ توحید تھا ۔ اس وقت نذر ونیاز کا مسئلہ زیر بحث نہ تھا ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ جہاں بات عقیدہ توحید کی ہو اور اللہ کی حاکمیت کا مسئلہ زیر بحث ہو تو قرآن کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے چاہے کوئی جزوی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ظلمات اور نور کو پیدا فرمایا اور ہر ایک کی اجل مقرر فرمائی یہاں سے سورة انعام شروع ہے یہ سورت مکی ہے البتہ بعض مفسرین نے تین چار آیات کو مستثنیٰ لکھا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ مدنی ہیں۔ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ جب سورة انعام نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبحان اللہ کہا پھر فرمایا کہ اس سورت کو اتنے فرشتوں نے رخصت کیا جنہوں نے افق یعنی آسمان کے کناروں کو بھر دیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ستر ہزار فرشتوں نے اس کو رخصت کیا۔ (من روح المعانی ج ٧ ص ٧٦) اس سورت میں انعام یعنی چو پاؤں کے بعض احکام بیان فرمائے ہیں اس لئے سورة الانعام کے نام سے موسوم ہے۔ اس سورت میں احکام کم ہیں۔ زیادہ تر توحید کے اصول اور توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں۔ سورة فاتحہ کی طرح اس کی ابتداء بھی اَلْحَمْدُ للّٰہِسے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ ہر تعریف کا مستحق ہے اس کو کسی حمد اور تعریف کی حاجت نہیں۔ کوئی حمد کرے یا نہ کرے وہ اپنی ذات وصفات کاملہ کے اعتبار سے محمود ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت بیان فرمائی۔ اور فرمایا (الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ) کہ اس کی وہ عظیم ذات ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا۔ آسمان و زمین سب کی نظروں کے سامنے ہیں جس ذات پاک نے ان کی تخلیق فرمائی ظاہر ہے کہ وہ مستحق حمد و ثنا ہے۔ پھر فرمایا (وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ) کہ اس نے تاریکیوں کو بنایا اور نور کو بنایا۔ روشنی اور اندھیریاں بھی آسمان و زمین کی طرح نظروں کے سامنے ہیں ان میں بھی انقلاب ہوتا رہتا ہے۔ کبھی روشنی ہے اور کبھی اندھیرا۔ یہ انقلاب اور الٹ پھیر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آئیں۔ ان کو وجود دینے والی کوئی ذات ہے اس بات کے ماننے کے لئے کسی خاص غور و فکر کی ضرورت نہیں سب پر عیاں ہے۔ (السموت والارض) کے ساتھ خلق اور ظلمات اور نور کے ساتھ لفظ جعل لانے کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ نکتہ بتایا ہے کہ آسمان و زمین اجسام و اجرام ہیں اپنے وجود میں کسی دوسری مخلوق کے محتاج نہیں اور اندھیرا اور اجالا عوارض ہیں قائم بالذات نہیں ان کو محل ومکان یعنی جگہ کی ضرورت ہے، جو لوگ آسمانوں کے وجود کو نہیں مانتے ان کے وجود میں متردد ہیں۔ اس آیت شریفہ میں ان کی بھی تردید ہوگئی۔ اور جو لوگ دو خدا مانتے ہیں یعنی یزداں اور اھر من (اور یزداں کو خالق خیر اور اھرمن کو خالق شر بتاتے ہیں پھر ان دونوں کو نور اور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں) آیت شریفہ سے ان کی بھی تردید ہوگئی اس کے بعد ارشاد فرمایا ( ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ ) (پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں) یعنی خالق جل مجدہ جس نے اتنی بڑی کائنات کو پیدا فرمایا اس کے شرکاء تجویز کرتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں جو بہت بڑی حماقت اور سفاہت ہے۔ پھر فرمایا (ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ) (اللہ ہی ہے جس نے تم کو کیچڑ سے پیدا فرمایا) انسان کی ابتدائی تخلیق چونکہ مٹی سے ہے اس لئے سبھی کی اصل مٹی ہے۔ آدم (علیہ السلام) بلاواسطہ مٹی سے پیدا ہوئے اور ان کی نسل اپنے باپ کی توسط سے مٹی سے پیداہوئی قرآن مجید میں (خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) بھی فرمایا (سورۃ مومن) یعنی تم کو مٹی سے پیدا فرمایا اور (خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ) بھی فرمایا (سورۂ انعام) یعنی تم کو کیچڑ سے پیدا کیا اور (اِنَّا خَلَقْنَا ھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لاَّزِبٍ ) بھی فرمایا (سورۂ صافات) یعنی ہم نے ان کو چپکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ) بھی فرمایا (سورۂ رحمن) اس نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا جو ٹھیکری جیسی تھی اور یہ بھی فرمایا (وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) ( اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو بجتی ہوئی سڑی ہوئی مٹی سے ) ۔ (سورء حجر)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ حصہ اول۔ نفی شرک فی التصرف یا نفی شرک اعتقادی سورة انعام سے قرآن مجید کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو سورة بنی اسرائیل کے آخر تک ہے۔ اس حصے کا مرکزی مضمون ربوبیت ہے یعنی اس حصے میں زیادہ تر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو حد کمال تک پہنچانے والا اور ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ خلاصہ کے بیان میں مذکور ہوچکا ہے کہ سورة انعام کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ سورت کی ابتداء سے لے کر رکوع 14 میں وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ تک ہے اس حصے میں نفی شرک فی التصرف کا ذکر کیا گیا ہے اور مسئلہ توحید پر عقلی ونقلی اور وحی سے گیارہ دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ نو دلائل عقلیہ، دو نقلی دلیلیں اور تین دلائل وحی۔ حَمْد سے صفات الوہیت مراد ہیں جیسا کہ سورة فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ملاحظہ ہو ص 4 حاشیہ 2 ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایک دعویٰ ہے۔ یعنی وہ تمام صفات کارسازی جنہیں تم اپنے معبودوں کے لیے ثابت کرتے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور تمہارے معبودوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اَلَّذِیْ اسم موصول تعلیل کے لیے ہے اور اس کا صلہ مذکورہ دعویٰ پر پہلی عقلی دلیل ہے یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا۔ اندھیرے اور اجالے کو بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا کارساز اور متصرف بھی وہی ہے اس لیے اسی کو پکارو چونکہ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسا کہ ارشاد ہے وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ (لقمان ع 3) اس لیے اس مسلمہ حقیقت کو بطور حجت ذکر فرمایا۔ 3 ظلمت سے گمراہی اور نور سے ہدایت مراد ہے۔ چونکہ گمراہی کے راستے بہت ہیں اور نجات و ہدایت کا راستہ ایک ہی ہے یعنی اسلام۔ اس لیے ظلمات کو جمع اور نور واحد استعمال کیا گیا۔ لان المراد بالظلمۃ الضلال۔ ھو متعدد و باالنور الھدی وھو واحد (روح ج 7 ص 82) ۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ میں ثُمَّ استبعاد کے لیے ہے۔ یعنی جب تم کو معلوم ہوگیا کہ ہر شئے کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو یہ بات عقل سے بعید ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر کرو اور اس کو اللہ کی طرح متصرف سمجھو و لم للاستبعاد (جامع البیان ص 12) و ثم لاستبعاد ما وقع من الذین کفروا (روح ج 7 ص 85) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 تمام تعریفیں اور ہر قسم کی حمد وثناء کا وہی اللہ تعالیٰ سزا وار ہے اور مستحق ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے اندھیرے اور تاریکیاں روشنی اور نور بنایا یعنی دونوں کا خالق وہی ہے مجوسی جو کہتے ہیں وہ غلط ہے پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے کافرانہ روش اختیار کر رکھی ہے اپنے پروردگار کے ساتھ دوسرے معبود ان باطلہ کو برابری کا درجہ دے رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔