Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 120

سورة الأنعام

وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ ﴿۱۲۰﴾

And leave what is apparent of sin and what is concealed thereof. Indeed, those who earn [blame for] sin will be recompensed for that which they used to commit.

اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَذَرُواْ ظَاهِرَ الاِثْمِ وَبَاطِنَهُ ... Leave evil, open and secret... Mujahid said that, it refers to all kinds of sins committed in public and secret. Qatadah said that, وَذَرُواْ ظَاهِرَ الاِثْمِ وَبَاطِنَهُ (Leave sin, open and secret...), encompasses sins committed in public and secret, whether few or many. In another statement, Allah said, قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ Say: "(But) the things that my Lord has indeed forbidden are Al-Fawahish (evil sins) whether committed openly or secretly. (7:33) This is why Allah said, ... إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُواْ يَقْتَرِفُونَ Verily, those who commit sin will get due recompense for that which they used to commit. Whether the sins they committed were public or secret, Allah will compensate them for these sins. Ibn Abi Hatim recorded that An-Nawwas bin Sam`an said, "I asked Allah's Messenger about Al-Ithm. He said, الاِْثمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ النَّاسُ عَلَيْه The sin is that which you find in your heart and you dislike that people become aware of it.

ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک کر دو چھوٹے بڑے پوشیدہ اور ظاہر ، ہر گناہ کو چھوڑو ۔ نہ کھلی بدکار عورتوں کے ہاں جاؤ نہ چوری چھپے بدکاریاں کرو ، کھلم کھلا ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ، غرض ہر گناہ سے دور رہو ، کیونکہ ہر بدکاری کا برا بدلہ ہے ، حضور سے سوال ہوا کہ گناہ کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ چاہے کہ کسی کو اس کی اطلاع ہو جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] ظاہری گناہ کیا ہیں اور باطنی کیا ؟ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس فقرہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مشرکوں کے بہکانے پر نہ ظاہراً کوئی عمل کرو اور نہ دل میں کسی قسم کا شک و شبہ رکھو تاہم یہ حکم عام ہے۔ ظاہری گناہوں سے مراد ایسے گناہ ہیں جنہیں دوسرے لوگ دیکھ سکیں اور باطنی گناہ وہ ہیں جنہیں دیکھا نہ جاسکے جیسے کفر اور شرک کا عقیدہ حسد، بغض، بخل، تکبر وغیرہ جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ ۔۔ : یعنی حلال و حرام صرف کھانے کی چیزوں میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ہر ظاہر و باطن گناہ کو چھوڑنا ضروری ہے۔ شاہ عبدالقادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی کافروں کے بہکانے پر نہ ظاہر میں عمل کرو اور نہ دل میں شبہ رکھو۔ “ (موضح) علماء نے لکھا ہے کہ ظاہر گناہ وہ ہیں جو ہاتھ پاؤں سے کیے جائیں، جیسے چوری، زنا وغیرہ اور چھپے گناہ وہ ہیں جن کے کرنے کا دل میں عزم ہو، یا جو عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، جیسے کفر و شرک اور نفاق وغیرہ، یا جن گناہوں کا نقصان عام لوگوں پر واضح ہو وہ ظاہر گناہ کہلاتے ہیں اور جن کے نقصان سے چند مخصوص آدمیوں کے سوا دوسرے واقف نہ ہوں وہ باطن کہلاتے ہیں۔ (المنار )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۝ ٠ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ۝ ١٢٠ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ ظَهَرَ ظاهر هونا الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] . ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ قرف أصل القَرْفِ والِاقْتِرَافِ : قشر اللّحاء عن الشّجر، والجلدة عن الجرح، وما يؤخذ منه : قِرْفٌ ، واستعیر الِاقْتِرَافُ للاکتساب حسنا کان أو سوءا . قال تعالی: سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 120] ، وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها [ التوبة/ 24] . والِاقْتِرَافُ في الإساءة أكثر استعمالا، ولهذا يقال : الاعتراف يزيل الاقتراف، وقَرَفْتُ فلانا بکذا : إذا عبته به أو اتّهمته، وقد حمل علی ذلک قوله : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] ، وفلان قَرَفَنِي، ورجل مُقْرِفٌ: هجين، وقَارَفَ فلان أمرا : إذا تعاطی ما يعاب به . ( ق ر ف ) القعف والا اقترا ف کے اصل معنی در کت سے چھال اتار نے اور زخم سے چھلکا کرید نے کے ہیں اور جو چھال یا چھلکا اتارا جاتا ہے اسے قرف کہا جاتا ہے اور بطور استعار ہ اقراف ( افتعال کمات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہسب اچھا ہو یا برا جیسے فرمایا : ۔ سَيُجْزَوْنَ بِما کانُوا يَقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 120] وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے ۔ وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں ۔ وَأَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها[ التوبة/ 24] اور مال جو تم کماتے ہو ۔ لیکن اس کا بیشتر استعمال برے کام کرنے پر ہوتا ہے اسی بنا پر محاورہ ہے الا اعتراف یز یل الا قترا ف کہ اعتراف جرم جر م کو مٹا دیتا ہے میں نے فلاں پر تہمت لگائی اور آیت کریمہ : وَلِيَقْتَرِفُوا ما هُمْ مُقْتَرِفُونَ [ الأنعام/ 113] کو بھی بعض نے اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ فلان قرفنی فلاں نے مجھ پر تہمت لگائی ۔ رجل مقرف دو غلا آدمی قارف فلان امرا اس نے برے کام کا ارتکاب کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ( وذروا ظاھر الاثم و باطنہ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی) ضحاک کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کھلم کھلا زنا کاری کو گناہ سمجھتے تھے لیکن حفیہ طور پر اس فعل بد کے ارتکاب کو گناہ نہیں خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( وزروا ظاھر الاثم و باطنہ) اس میں ہر ایسے فعل سے جو لفظ اثم کے تحت آتا ہو علانیہ طور پر باز رہنے کے حکم میں عموم ہے اور خفیہ طور پر بھی۔ یہ آیت شراب کی تحریم کی بھی موجب ہے اس لیے کہ قول باری ہے ( یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا گناہ ہے ۔ آیت زیر بحث میں کھلے گناہوں سے افعال مراد ہوسکتے ہیں جو اعضاء و جوارح کے ذریعے کیے جائیں اور چھپے گناہوں سے ایسے امور مراد لیے جائیں جن کا تعلق دل کے ساتھ وہتا ہے یعنی ایسے اعتقادات و جذبات اور تصورات و خیالات سے دل کو پاک رکھنا جن کی شریعت میں ممانعت کردی گئی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

53: ظاہری گناہوں میں وہ گناہ بھی داخل ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرے، مثلاً جھوٹ، غیبت، دھوکا، رشوت، شراب نوشی، زنا وغیرہ، اور باطنی گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے مثلاً حسد، ریا کاری، تکبر، بغض، دوسروں کی بد خواہی وغیرہ، پہلی قسم کے گناہوں کا بیان فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت فقہاء سے حاصل کی جاتی ہے اور دوسری قسم کے گناہوں کا بیان تصوف اور احسان کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مشائخ سے رجوع کیا جاتا ہے، تصوف کی اصل حقیقت یہی ہے کہ باطن کے ان گناہوں سے بچنے کے لئے کسی رہنما سے رجوع کیا جائے افسوس ہے کہ تصوف کی اس حقیقت کو بھلا کر بہت سے لوگوں نے بدعات وخرافات کا نام تصوف رکھ لیا ہے۔ اس حقیقت کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اپنی بہت سی کتابوں میں خوب واضح فرمایا ہے، آسان طریقے سے اس کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ فرمائے حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) کی کتاب‘‘ دل کی دنیا ’’۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:120) ذروا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ وذر سے تم چھوڑدو۔ ملاحظہ ہو 6:109 ۔ کانوا یقترفونمضارع جمع مذکر غائب کانوا یقترفون ماضی استمراری (جس کا) وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو 6:114

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی حلال و حرام صر کھانے کی چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ظاہر و باطن گناہ سے اجتناب ضروری ہے (وحیدی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کافروں کے بہکانے پر نہ ظاہر میں عمل کرو اور نہ دل میں شبہ رکھو۔ (موضح) علمانے لکھا ہے کہ ظاہر گناہ وہ ہے جو ہاتھ پاؤں کے ذریعے کیا جائے جیسے چوری زنا وغیرہ اور چھپنے گناہ وہ ہیں جن کے کرنے کا دل میں عزم ہو یا جو عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں جیسے شرک وکفر اور نفاق وغیرہ یا جن گناہوں کا نقصان عام لوگوں پر واضح ہو وہ ظاہر کہلاتے ہیں اور جن کے نقصان سے چند مخصوص آدمیوں کے سوا دوسرے واقف نہ ہوں وہ باطن کہلاتا ہیں۔ ( المنار)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صرف حرام کھانا ہی نہیں چھوڑنا بلکہ خفیہ اور اعلانیہ گناہ بھی چھوڑ دینے چاہییں۔ اس سے پہلے حکم میں مجبور انسان کو حرام کھانے کی اجازت دی گئی تھی جس سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ حرام کھانے والا کس حد تک مجبور ہے۔ یعنی حالت کا صرف متعلقہ آدمی کو ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے واضح کردیا گیا کہ مومن وہ ہے جو پوشیدہ اور کھلے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا انتباہ فرمایا کہ جو لوگ خفیہ یا اعلانیہ گناہ کریں گے بہت جلد سزا سے دو چار ہوں گے۔ جلد سے مراد دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی شکل میں گرفت ہوسکتی ہے پھر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی نہایت مختصر ہے۔ اس لحاظ سے آخرت کی سزا بھی بہت جلد ملنے والی ہے اللہ سے ڈرنے والا شخص ہمیشہ آخرت کو قریب ہی سمجھا کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ موت انسان کی جوتی کے تسمے سے بھی قریب ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِکَ ) [ رواہ البخاری : بابالْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت اور دوزخ تم میں سے ہر کسی کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔ “ ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دینے کے حکم کے ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ یہ بھی گناہ ہے کہ تم وہ جانور کھاؤ جس کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ایسے جانور کا گوشت کھانا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کرنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کے بجائے کسی غیر کا نام لے کر یا بظاہر تو اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا رہا ہو لیکن ذبح کسی مزار، بت یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر کیا گیا ہو۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ کسی فوت شدہ کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے ذبح کرنا بھی تو غیر اللہ ہی کے لیے ہوگا۔ یہی وہ مغالطے ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والے ہمیشہ سے مسلمانوں کو دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ اسی لیے غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز دینے اور ذبح کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شیطان اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ذہن میں ایسی ایسی باتیں اور دلیلیں ڈالتا ہے جس سے وہ موحدوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ لہٰذا موحدین کا فرض ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہ کھائیں اور نہ استعمال کریں اور نہ ہی ایسے دلائل سے دھوکا کھائیں۔ اگر کوئی غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ مشرکوں کے زمرہ میں سمجھا جائے گا۔ اس مقام پر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو روا داری میں ایسی چیزیں ہڑپ کر جاتے ہیں یا غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز وصول کرلیتے ہیں حالانکہ اس کا لینا بھی حرام ہے بیشک وہ چیز باہر پھینک دی جائے یا کسی جانور کو کھلا دی جائے اس کا وصول کرنا کسی نہ کسی درجے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ مسائل ١۔ کھلے اور پوشیدہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ نیکی ہو اور برائی کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کھانا حرام ہے۔ ٤۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کو مومنین کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ ٥۔ اللہ کے طریقہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا گمراہی ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر قسم کے گناہ چھوڑ دینے کا حکم : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہر و باطن کی بےحیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کردیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٢۔ درویش اور علماء لوگوں کو گناہ کی باتوں سے منع کیوں نہیں کرتے۔ (المائدۃ : ٦٣) ٣۔ اللہ کے بندے کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٣٧) ٤۔ بیشک نیک لوگ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (النجم : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ظاہری اور پوشیدہ تمام گناہوں سے بچنے کا حکم : (وَ ذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ ) ( اور چھوڑ دو ظاہری گناہ اور باطنی گناہ) اس میں ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے گناہ چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے۔ جو گناہ ظاہری طور پر علانیہ ہے وہ بھی چھوڑو اور جو پوشیدہ ہو اسے بھی چھوڑو اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو جانتا ہے اور وہ گناہوں کی سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے گناہ گار یہ نہ سمجھیں کہ تنہائی میں جو گناہ کرلیا اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر نہیں ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ ) بلاشبہ جو لوگ گناہ کرتے ہیں انہیں عنقریب ان کے اعمال کی جزا دیدی جائے گی۔ (وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ) اور بلاشبہ شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ اہل فارس مشرک تھے اور قریش مکہ بھی مشرک تھے انہوں نے مشرکین مکہ کو یہ بات سمجھائی کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کرو۔ اور یہودیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو سمجھایا کہ تم یہ اعتراض لے کر جاؤ اور مسلمانوں سے جھگڑا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتادیا کہ تم ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ اگر تم نے ان کا کہا مانا تو مشرک ہوجاؤ گے یعنی مشرکوں والا کام کرلو گے۔ یعنی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی اور غیروں کی اطاعت کر کے شرک کرنے والے بن جاؤ گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم کو ماننا اور ان کو تحلیل و تحریم کا مختار سمجھنا مشرکوں کا کام ہے۔ (فی معالم التنزیل قال الزجاج فیہ دلیل علی من احل شیئاً مما حرم اللہ او حرم ما احل اللہ فھو مشرک) مسئلہ : اگر ذبح کرتے وقت قصداً اللہ کا نام لیناچھوڑ دیا تو اس جانور کا کھانا حلال نہیں اگرچہ ذبحہ کرنے والا مسلم یا کتابی ہو۔ اور جس جانور پر ذبح کرنے والا بسم اللہ پڑھنا بھول گیا اس کا کھانا جائز ہے بشرطیکہ ذبح کرنے والا مسلم یا کتابی ہو۔ مذبوحہ اور میتہ جانوروں کے بارے میں متعدد مسائل سورة مائدہ کے پہلے رکوع کی تفسیر کے ذیل میں گزرچکا ہیں۔ (انورا البیان ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

131 ظَاھِرَ الْاِثْمِ جو گناہ ظاہری اعضاء سے کیے جائیں مثلاً شرک فعلی وغیرہ بَاطِنَہٗ جو گناہ دل سے کیے جائیں مثلاً شرک اعتقادی وغیرہ الشرک الجلی والخفی (مدارک ج 2 ص 24) المراد بظاھر الاثم افعال الجوارح و باطنہ افعال القلوب الخ (خازن ج 2 ص 146) ۔ 132 یہاں الاثم سے مذکورہ ظاہری اور باطنی اثم ہی مراد ہے یہ تخویف اخروی ہے شرک فعلی اور شرک اعتقادی کرنے والوں کے لیے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

120 اور تم کھلے گناہ اور چھپے گناہ سب چھوڑ دو اور ترک کردو بلاشبہ جو لوگ گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں اور گناہ کما رہے ہیں عنقریب ان کو ان افعال کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔