Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 122

سورة الأنعام

اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾

And is one who was dead and We gave him life and made for him light by which to walk among the people like one who is in darkness, never to emerge therefrom? Thus it has been made pleasing to the disbelievers that which they were doing.

ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of the Disbeliever and the Believer Allah says; أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن ... Is he who was dead, and We gave him life, and set for him a light, whereby he can walk among men -- This is an example that Allah has given of the believer who was dead, meaning, wandering in confusion and misguidance. Then, Allah brought life to him, by bringing life to his heart with faith, guiding him to it and guiding him to obeying His Messengers, لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن (And set for him a light whereby he can walk amongst men) for he became guided to where he should go and how to remain on the correct path. The light mentioned here is the Qur'an, according to Ibn Abbas, as Al-Awfi and Ibn Abi Talhah reported from him. As-Suddi said that the light mentioned here is Islam. Both meanings are correct. ... مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ ... Like him who is in the darkness, of ignorance, desires and various types of deviation, ... بِخَارِجٍ مِّنْهَا ... From which he can never come out, for he is unable to find a way out from what he is in. In Musnad Ahmad, it is recorded that the Prophet said; إِنَّ اللهَ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ فَمَنْ أَصَابَهُ ذَلِكَ النُّورُ اهْتَدَى وَمَنَ أَخْطَأَهُ ضَل Allah created creation in darkness, then He showered His Light upon them. Whoever was struck by that light is guided, whoever it missed is astray. Allah said in other Ayat, اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَأوُهُمُ الطَّـغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَـتِ أُوْلَـيِكَ أَصْحَـبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ Allah is the Guardian of those who believe. He brings them out from darkness into light. But as for those who disbelieve, their friends are Taghut, they bring them out from light into darkness. Those are the dwellers of the Fire, and they will abide therein forever. (2:257) and, أَفَمَن يَمْشِى مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِى سَوِيّاً عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ Is he who walks prone on his face, more rightly guided, or he who walks upright on the straight way! (67:22) and, مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالاٌّعْمَى وَالاٌّصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلً أَفَلَ تَذَكَّرُونَ The parable of the two parties is as the blind and the deaf and the seer and the hearer. Are they equal when compared! Will you not then take heed! (11:24) and, وَمَا يَسْتَوِى الاٌّعْمَى وَالْبَصِيرُ وَلاَ الظُّلُمَاتُ وَلاَ النُّورُ وَلاَ الظِّلُّ وَلاَ الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِى الاٌّحْيَأءُ وَلاَ الاٌّمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَأءُ وَمَأ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلاَّ نَذِيرٌ Not alike are the blind and the seeing. Nor are darkness and light. Nor are the shade and the sun's heat. Nor are the living and the dead. Verily, Allah makes whom He wills to hear, but you cannot make hear those who are in the graves. You are only a warner. (35:19-23) There are many other Ayat on this subject. We explained before why Allah mentioned the light in the singular sense and the darkness in the plural sense when we explained the Ayah at the beginning of the Surah, وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ (And originated the darknesses and the light). (6:1) Allah's statement, ... كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ Thus it is made fair seeming to the disbelievers that which they used to do. means, We made their ignorance and misguidance appear fair to them, as Allah decreed out of His wisdom, there is no deity worthy of worship except Him alone without partners.

مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا ، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے ، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ:257 ) ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت میں ہے ( افمن یمشی مکبا علی وجھہ ) یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے؟ اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے اور جگہ فرمان ہے اندھا اور بینا ، اندھیرا اور روشنی ، سایہ اور دوپ ، زندے اور مردے برابر نہیں ۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے ، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا ، جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے اور جیسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

122۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت (مردہ) مومن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورة بقرہ 257، سورة ھود 24، سورة فاطر، 19، 22،

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] ایک کافر اور ایماندار کی مثال :۔ یہاں مردہ سے مراد روحانی طور پر مردہ ہے۔ یعنی ایک شخص پہلے کافر تھا پھر وہ اسلام لے آیا اور اسے وحی کے علم کی روشنی نصیب ہوئی۔ لوگوں میں رہ کر وہ اسی روشنی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہا ہے اور دوسرا شخص کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اسے ان تاریکیوں سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں مل رہی تو کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہوسکتی ہے اور نکلنے کی راہ اس لیے نہیں ملتی کہ انہیں یہ تاریکیاں ہی روشنی معلوم ہونے لگتی ہیں اور ان کے برے کام انہیں بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں ہر بدکاری میں انہیں مزہ آتا ہے اور ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھنے لگتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ ۔۔ : یعنی وہ کافر تھا اسے مسلمان بنایا۔ (شوکانی) اوپر جانوروں کے مردوں کا ذکر تھا، یہاں کافر پر وہی مثال فرمائی، یعنی جب کافر تھے تو جہل اور کفر و شرک کے باعث سب مردے تھے، پھر جس کو ایمان ملا وہ زندہ ہوا اور روشنی اور راہ ہدایت پائی اور اس کے چہرے پر سب لوگ ایمان کی روشنی دیکھتے ہیں اور جس کو ایمان نہ ملا وہ اندھیروں میں پڑا رہا۔ (موضح) مسلمان اور کافر کے زندہ اور مردہ ہونے کا مضمون دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٧) ، سورة ہود (٢٤) اور سورة فاطر (١٩ تا ٢٢) میں۔ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : یعنی شیطان اپنے وسوسوں کے ذریعے سے ان کافروں کی نگاہ میں ان کے اعمال کو خوبصورت کر کے پیش کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the previous verses, mentioned there was the demand of ever new miracles by disbelievers as proof of their sheer obstinacy as they had already witnessed the open miracle of the Qur&an itself. After that, the Qur&an argued that the miracles already before their eyes should have been enough to lead them to the true path, only if these people themselves would have been genuinely seeking truth. Then, came the description of these miracles. The present verse employs a similitude to focus on two life-styles in a tight frame. On one side is the state of those who believe in the Qur&an and in the Prophet of Islam, may he be blessed and protected by Allah Ta` ala. Then, on the other side, there is the state of those who refuse to believe in them. Also stated through it is the good or bad end of both, as well as, the reality of what a believer or disbeliever stands for, and what belief and disbelief actually are. A believer is like one alive and the disbeliever is like one who is dead. Belief or &Iman is like light - and Disbelief or Kufr is like darkness. These are Qur&anic similitude. They are no poetry. They are a statement of reality. Believer is Alive; Disbeliever, dead. In this similitude, a Mu&min, a true believer has been identified as alive while a Kafir, a disbeliever, has been pointed to as dead. The rea¬son is that kinds and forms of life in human beings, animals and vege-tation differ, but this much no sensible person can deny that every life form is there for a specific purpose. And nature has endowed it with full ability to achieve this purpose. This is what the Qur&an is saying in: أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (Our Lord gave everything its creation, then guid¬ed it - 20:50), that is: Allah Jalla Sha&nuhu created everything in the universe and gave it full instructions to achieve the purpose for which it was created. It is under this arrangement that all created beings are pursuing the mission assigned to them. In this eco-system, land, wa¬ter, air and fire, and the moon, the sun and the stars are all aware of their duties and are fulfilling it. And this act of fulfilling their duties is a proof of life in all those things. And when one of these, whatever the condition or time, stops fulfilling its duties, then, it is no more alive; it is dead. If water stops its function of quenching thirst and removing impurities, it will not remain water anymore. If fire stops igniting and burning, it will not be the fire it was anymore. Trees and vegetation, once they stop growing and bearing flowers and fruits, will not be the trees and vegetation as they are - because they have abandoned the purpose of their life, as a result of which, they became lifeless, like the dead. After looking at the universe around him bit by bit, anyone with the least fund of reason and understanding with him is bound to pon¬der about questions such as: What is the purpose of human life? What is one supposed to do as duty? Now, if one is fulfilling the purpose of one&s life, one is entitled to be taken as alive - and whoever is not ful¬filling the purpose of one&s life, he or she is no better than a dead body. What is the purpose of human life and what are the duties human beings have to fulfill? The question needs thought and - an answer. Ac-cording to the principle &stated above, it has already been determined that one who is fulfilling the purpose of his or her life is alive, otherwise, is dead. Now there are sightless tyrants among human beings who would take their species as self-rising vegetation or some kind of smart animal, with whom there is no distinction between a human be¬ing and a donkey or dog. According to them, the sole purpose of life is to fulfill the desire of one&s self, to eat, drink, sleep, wake up, and then die. So, reasonable people anywhere in the world would not take them as their addressees. People of reason and understanding, no matter what their religion, community or school of thought, have all along the lanes of time been in agreement that human beings are the superior most in creation and that the universe has been made and put into their service. It is obvious that what is most superior has to have a purpose of life which is matchingly superior. Every discerning person knows that there is no difference between human beings and animals as far as eating, drinking, sleeping and waking, finding and holding a shelter, dressing and wearing is concerned - in fact, many animals eat better and eat more than them, are even dressed better in standard natural attires. They even live in better surroundings with lots of fresh air. As for knowing their gain and loss, there too, every animal, even every tree, has awareness to limits suited to it. They have the ability to acquire the beneficial and stay away from the harmful. Simi¬larly, when it comes to being beneficial to others, all animals and the vegetation seem to be obviously way ahead of human beings in that their flesh, skin, bone, ligaments, and of trees, including all they have in between their roots to the tiniest leaves, almost everything is har¬nessed into the service of man, yielding countless benefits to produce things needed in life. It is interesting that quite contrary to this, there is man whose flesh is of no use to anyone, nor is his skin, or hair, or bone or ligaments. Now worth finding out is how does Monseigneur Humane (Mr. Man, the homo sapiens), under these circumstances, stand to deserve being the served one in this universe and being the cream of creation as much heralded? This brings us closer to the destination of truth. A little reflection will reveal that the reach of reason and consciousness given to all these units of creation is limited to the transitory and acci-dental gain or loss - and it is in this life, it appears beneficial for oth¬ers. What was there before the life on this earth and what will be com¬ing after is a field in which the reason and consciousness of nothing organic or inorganic, not even that of the smartest of animals, would work, nor can anything there serve as functional or beneficial in this particular field. So, this is the field in which human beings have to work, human beings for whom the universe has been commissioned to serve, and human beings who are the most superior of all creation. Only this will bring out the difference between the distinct status of human beings as compared with other elements of creation clearly and conclusively. What we now know is that the purpose of human beings on this earth is to keep in sight the beginning and the end of this universe, to assess what it entails as a result, to determine what is collectively beneficial or harmful, then use the insight so gained to acquire the beneficial and abstain from the harmful, and also invite others towards the beneficial and take measures to shield them from the harm¬ful - so that the dream of a life of lasting peace and tranquility can be fulfilled. Now that it is settled that the purpose of human life is to ac-quire this standard benefit issuing forth from human perfection indi-vidually and collectively, enriching one&s own self and at the same time enriching others. This realization helps us see the similitude of the Holy Qur&an we have been talking about in the form of a reality - that alive is one who puts his or her faith in Allah Ta` ala and in His Rasul (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and in between his or her view of the beginning and end of life, recognizes his collective gain and loss in the light of Divine Rev-elation, because human reason alone has never triumphed over this field, nor it can. And when we know that, in terms of the fulfillment of the purpose of life, the person alive is the person who follows the Divine Revelation and is a believer, then we also come to the definite conclusion that whoever does not do that deserves to be called dead. Maulana Rumi has put it so delightfully: زندگی از بہر طاعت بندگی است بےعبادت زندگی شرمندگی ست آدمت لحم و شحم و پوست نیست آدمیت جز رضایے دوست نیست Life is to obey and serve Life without devotion is a shame Man&s reality is not flesh; fat and skin Man&s reality is but the pleasure of the Friend! This was the first similitude of the Qur&an, that of a believer and a disbeliever, where believers have been likened to the living and the disbelievers to the &dead. The second similitude is that of &lman (faith) and Kufr (disbelief) which have been placed in juxtaposition to light and darkness. Faith is Light and Disbelief, Darkness In this verse, &Iman (faith) has been called Nur (light) and Kufr (disbelief) has been equated with Zulmah (darkness). A little thought will show that this similitude is not imaginary. It is a statement of fact. As we looked for the real purpose of things earlier, we can do the same here by finding out the justification for the existence of light and darkness. The purpose of light is to be able to see things far and near with its help, as a result of which, one has the advantage of staying away from the harmful and the opportunity of acquiring what is bene¬ficial. Let us now look at ` Iman. This is a light which surrounds everything in the heavens and the earth. It is this light alone which can show the end of the universal system as well as the correct conse¬quences of everything done. Whoever has this light by his side, he can not only save himself from the consequences of everything harmful and injurious, but can also help others to stay safe from them. But, one who does not have access to this light remains in the dark. He has no panoramic view. He cannot see life as a whole, neither beginning, nor end. He cannot distinguish between what is beneficial and what is not. At best what he can do is to grope around and use his sense of touch to figure out what they are, at least to some extent. The life of this world as we know it is just about the environment most of us usu¬ally live in and around. The disbeliever thus does find out the life around him and the benefit and loss it has to offer within that limited framework. But, he has no idea or awareness of what lies ahead in the eternal life to come later, nor can he comprehend how beneficial or harmful it can be for him. This subject has been further explained by the Qur&an in Surah Ar-Rum: يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾ They know the obvious from the present life of the world while, about the life-to-come (&Akhirah), they are (totally) heedless - 30:7). In a verse of Surah Al-` Ankabut, after the description of past com¬munities given to denial and disbelief, the Qur&an says: وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِ‌ينَ (though they were men of sight - 29-38). It means that these people who had dismissed this matter of &Akhirah demonstrating rank heedless-ness and seeming lack of foresight were really not that dense when it came to their matters in worldly life. In fact, they were |"mustabsirin|" - keen-sighted, enlightened people. But, this enlightenment of theirs was outwardly oriented, of the surface, of the mundane, which could only serve them well to enrich what revolved round their transitory life in this world. However, for the eternal life of &Akhirah, the life-to come, this was not to work. After hearing these details, please recite the present verse of the Qur&an once again: أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورً‌ا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِ‌جٍ مِّنْهَا . It means that one who was dead earlier, that is, was a dis¬believer, then, Allah raised him back to life, that is, gave him the tau¬fiq to become a Muslim - and then, He gave him a light, that is, ` Iman or faith, with which he moves about among people. Now can this person be equal to one who is surrounded by all sorts of darkness, out of which, he cannot get out, that is, is groping in the darkness of disbe¬lief, does not himself know what is good or bad for him, and there is no way he can ward off his destruction. If so, how can he bring any benefit to others? The Light of Faith Brings Benefits for Others Too In this verse, by saying: نُورً‌ا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ (light with which he walks among men), the instruction given was that the light of faith is not re¬stricted to a mosque (masjid), spiritual seminary (khanqah) or a mod¬est roomette secluded for reflection and remembrance (hujrah). Whoev¬er is blessed with this light by Allah Ta` ala, he carries it with him everywhere he goes through the lives of people on the streets and in the homes. Everywhere he is, he himself benefits from the light and lets others too benefit by it. Light is light and cannot be suppressed by any darkness. Even a tiny flickering lamp does not easily give up un¬der the weight of surrounding darkness, though the light it emits does not go very far. When light is strong, it spreads over a larger area. When light is dim, it lightens a smaller area. But light is light. It sub-dues darkness after all - darkness does not subdue light. Light is not light if it surrenders to darkness. Similarly, an &Iman which surrenders to Kufr, or is scared by it, is no &Iman. This light of& Iman, this light of faith is there with its bearer in all walks of life, under all conditions and in every age. In this similitude, there is yet another hint that light is after all universally beneficial. Every human being and every animal benefits by it, intentionally, or without intention, more or less. Let us suppose that a person who has the light but does not wish to let the other person benefit from it, nor the other person has come out to seek the bene¬fit of his light, but the very fact that someone is walking with light by his side is bound to spread out its benefit to others naturally, rather compulsively. This is what happens with the &Iman of a true Muslim. It does make its benefit shower on others too, in some degree, whether or not the receivers realize it. At the end of the verse, it was said: كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِ‌ينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (This is how their deeds appear beautified to the dis¬believers). It means that the disbelievers and deniers of truth who do not accept proofs which are open and clear do so because everyone has a craze of his own which keeps him pleased with himself. There is the ever-present Sahytan, and no less is the retinue of one&s desires, whims and fancies which present before the eyes of such people a mo¬saic of their evil deeds which they start seeing as nice and beautiful. Calling it a deception is an understatement. May Allah keep all of us protected from it.

خلاصہ تفسیر ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ (یعنی گمراہ) تھا ہم نے اس کو زندہ (یعنی مسلمان) بنادیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور (یعنی ایمان) دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے (یعنی ہر وقت وہ اس کے ساتھ رہتا ہے، جس سے وہ سب مضرتوں سے مثل گمراہی وغیرہ محفوظ اور مامون دبے فکر پھرتا ہے تو) کیا ایسا شخص (بدحالی میں) اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ (گمراہی کی) تاریکیوں میں (گھرا ہوا) ہے (اور) ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا (مراد یہ کہ وہ مسلمان نہیں ہوا، اور اس کا تعجب نہ کیا جاوے کہ کفر پر باوجود اس کے ظلمت ہونے کے وہ کیوں قائم رہا، وجہ یہ کہ جس طرح مومنین کو ان کا ایمان اچھا معلوم ہوتا ہے) اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال (کفر وغیرہ) مستحسن معلوم ہوا کرتے ہیں (چنانچہ اسی وجہ سے یہ روسائے مکہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مہمل فرمائشیں اور شبہات و مجادلات پیش کرتے رہتے ہیں اپنے کفر کو مستحسن ہی سمجھ کر اس پر مصر ہیں) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیتوں میں پہلے اس کا ذکر آیا تھا کہ مخالفین اسلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے کھلے کھلے معجزات دیکھنے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی سے نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے بعد قرآن نے بتلایا کہ اگر یہ لوگ واقعی حق طلب ہوتے تو جو معجزات ان کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں وہ ان کو راہ حق دکھانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھے، پھر ان معجزات کا بیان آیا۔ مذکورہ آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لانے والوں اور کفر و انکار کرنے والوں کے کچھ حالات و خیالات اور دونوں کے نیک و بد انجام کا بیان اور مومن و کافر اور ایمان و کفر کی حقیقت کو مثالوں میں سمجھایا گیا ہے، مومن اور کافر کی مثال زندہ اور مردہ سے اور ایمان و کفر کی مثال روشنی اور اندھیرے سے دی گئی ہے، یہ قرآنی تمثیلات ہیں جن میں کوئی شاعری نہیں ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ مومن زندہ ہے اور کافر مردہ اس تمثیل میں مومن کو زندہ اور کافر کو مردہ بتلایا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ انسان اور حیوانات اور نباتات وغیرہ میں اگرچہ حیات اور زندگی کی قسمیں اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن اتنی بات سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیں کرسکتا کہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کسی خاص مقصد کے لئے ہے، اور قدرت نے اس میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھی ہے، ارشاد قرآنی (آیت) اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی۔ میں اسی کا بیان ہے کہ اللہ جل شانہ نے کائنات عالم کی ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کو جس مقصد کے لئے پیدا فرمایا تھا اس تک پہنچنے کی اس کو پوری ہدایت دیدی، جن کے ماتحت ہر مخلوق اپنے اپنے وظیفہ زندگی اور اپنی اپنی ڈیوٹی کا حق ادا کر رہی ہے، اس عالم میں زمین، پانی اور ہوا اور آگ، اسی طرح آسمانی مخلوقات اور چاند، سورج اور کل ستارے اپنی اپنی ڈیوٹی پوری طرح پہچان کر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں، اور یہی اداء فرائض ان میں سے ہر چیز کی زندگی کا ثبوت ہے، اور جس وقت جس حال میں ان میں سے کوئی چیز اپنی ڈیوٹی ادا کرنا چھوڑ دے تو وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے، پانی اگر اپنا کام پیاس بجھا دینا اور میل کچیل دور کرنا وغیرہ چھوڑ دے تو وہ پانی نہیں کہلائے گا، آگ جلنا اور جلانا چھوڑ دے تو وہ آگ نہیں رہے گی، درخت اور گھاس اگنا اور بڑھنا پھر پھل پھول لانا چھوڑ دے تو وہ درخت اور نبات نہیں رہے گی، کیونکہ اس نے اپنے مقصد زندگی کو چھوڑ دیا، تو وہ ایک بےجان مردہ کی طرح ہوگئی۔ تمام کائنات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک انسان جس میں کچھ عقل و شعور ہو اس بات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوگا کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے، اور یہ کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی کو پورا کر رہا ہے، تو وہ زندہ کہلانے کا مستحق ہے، اور اس کو پورا نہیں کرتا تو وہ ایک مردہ لاش سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ انسان کا مقصد زندگی کیا اور اس کے فرائض کیا ہیں، اور مذکور الصدر اصول کے مطابق یہ متعین ہے کہ اگر وہ اپنے مقصد زندگی اور ڈیوٹی کو ادا کر رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے، جن بےبصیرت لوگوں نے انسا کو دنیا کی ایک خودرو گھاس یا ایک ہوشیار قسم کا جانور قرار دے دیا ہے اور ان کے نزدیک ایک انسان اور گدھے کتے میں کوئی امتیاز نہیں، ان سب کا مقصد زندگی انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، پھر مرجانا ہی قرار دے لیا ہے، وہ تو اہل عقل و شعور کے نزدیک قابل خطاب نہیں، عقلاء دنیا خواہ کسی مذہب و ملت اور کسی مکتب خیال سے تعلق رکھتے ہوں ابتداء عالم سے آج تک انسان کے مخدوم کائنات اور فضل المخلوقات ہونے پر متفق چلے آئے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ افضل و اعلیٰ اسی چیز کو سمجھا اور کہا جاسکتا ہے، جس کا مقصد زندگی اعلیٰ و افضل ہونے کے اعتبار سے ممتاز ہو، اور ہر سمجھ بوجھ والا انسان یہ بھی جانتا ہے کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، رہنے سہنے، اوڑھنے پہننے میں انسان کو دوسرے جانوروں سے کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں، بلکہ بہت سے جانور اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کھاتے پیتے ہیں، اس سے بہتر قدرتی لباس میں ملبوس ہیں، اس سے بہتر ہوا و فضاء میں رہتے بستے ہیں، اور جہاں تک اپنے نفع نقصان کے پہچاننے کا معاملہ ہے اس میں بھی ہر جانور بلکہ ہر درخت ایک حد تک باشعور ہے، مفید چیزوں کے حاصل کرنے اور مضر چیزوں سے بچنے کی خاصی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے، اسی طرح دوسروں کے لئے نفع رسانی کے معاملہ میں تو تمام حیوانات اور نباتات کا قدم بظاہر انسان سے بھی آگے نظر آتا ہے کہ ان کے گوشت کھال ہڈی، پٹھے اور درختوں کی جڑ سے لے کر شاخوں اور پتوں تک ہر چیز مخلوق کے لئے کار آمد اور ان کی ضروریات زندگی پیدا کرنے میں بیشمار فوائد کی حامل ہے، بخلاف انسان کے کہ نہ اس کا گوشت کسی کے کام آتا ہے نہ کھال، نہ بال نہ ہڈی نہ پٹھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں پھر حضرت انسان کس بناء پر مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات ٹھہرتے ہیں، اب حقیقت شناسی کی منزل قریب آپہنچی، ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان ساری چیزوں کے عقل و شعور کی رسائی صرف موجودہ زندگی کے وقتی اور ہنگامی نفع نقصان تک ہے، اور اسی زندگی میں وہ دوسروں کے لئے فائدہ بخش نظر آتی ہے، اس دنیا کی زندگی سے پہلے کیا تھا، اور بعد میں کیا آنے والا ہے، اس میدان میں جمادات، نباتات تو کیا کسی بڑے بڑے ہوشیار جانور کی عقل و شعور بھی کام نہیں دیتی، اور نہ اس میدان میں ان میں سے کوئی چیز کسی کیلئے کارآمد یا مفید ہوسکتی ہے، بس یہی وہ میدان ہے جن میں مخدوم کائنات اور افضل المخلوقات انسان کو کام کرنا ہے، اور اسی سے اس کا امتیاز دوسری مخلوقات سے واضح ہوسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان کا مقصد زندگی پورے عالم کی ابتداء و انتہاء کو سامنے رکھ کر سب کے نتائج اور عواقب پر نظر ڈالنا اور یہ متعین کرنا کہ مجموعی اعتبار سے کیا چیز نافع اور مفید ہے، اور کون سی چیز مضر اور تکلیف دہ ہے، پھر اس بصیرت کے ساتھ خود اپنے لئے بھی مفید چیزوں کو حاصل کرنا اور مضر چیزوں سے بچنا اور دوسروں کو بھی ان مفید چیزوں کی طرف دعوت دینا اور بری چیزوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے، تاکہ دائمی راحت و سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل ہوسکے، اور جب انسان کا مقصد زندگی اور کمال انسانی کا یہ معیاری فائدہ خود حاصل کرنا اور دوسروں کو پہنچانا ہے، تو اب قرآن کی یہ تمثیل حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ زندہ صرف وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، اور عالم کی ابتداء و انتہاء اور اس میں مجموعی اعتبار سے نفع و نقصان کو وحی الٓہی کی روشنی میں پہچانے، کیونکہ نری عقل انسانی نے نہ کبھی اس میدان کو سَر کیا ہے نہ کرسکتی ہے، بڑے بڑے عقلاء و حکماء اور فیلسوفان عالم نے انجام کار اس کا اقرار کیا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے زیرکان موشگافان دہی کردہ ہر خرطوم خطِّ ابلہی اور جب مقصد زندگی کے اعتبار سے زندہ صرف وہ شخص ہے جو وحی الٓہی کا تابع اور مومن ہو تو یہ بھی متعین ہوگیا جو ایسا نہیں وہ مردہ کہلانے کا مستحق ہے مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے زندگی از بہر اطاعت و بندگی است، بےعبادت زندگی شرمندگی ست آدمیت لخم و شحم دپوست نیست، آدمیت جز رضائے دوست نیست یہ قرآنی مثال تھی مومن و کافر کی کہ مومن زندہ اور کافر مردہ ہے، دوسری مثال ایمان و کفر کی نور و ظلمت کے ساتھ دی گئی ہے۔ ایمان نور ہے اور کفر ظلمت ایمان کو نور اور کفر کو ظلمت اور اندھیرہ قرار دیا گیا ہے، ذرا غور کیا جائے تو یہ مثال بھی کوئی خیالی مثال نہیں، ایک حقیقت کا بیان ہے، یہاں بھی روشنی اور اندھیرے کے اصل مقصد پر غور کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی کہ روشنی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نزدیک و دور کی اشیاء کو دیکھ سکیں، جس کے نتیجہ میں مضر چیزوں سے بچنے اور مفید کا اختیار کرنے کا موقع ملے۔ اب ایمان کو دیکھو کہ وہ ایک نور ہے جس کی روشنی تمام آسمانوں اور زمین اور ان سب سے باہر کی تمام چیزوں پر حاوی ہے، صرف یہی روشنی پورے عالم کے انجام اور تمام امور کے صحیح نتائج کو دکھا سکتی ہے، جس کے ساتھ یہ نور ہو تو وہ خود بھی تمام نقصان دہ و مضر چیزوں سے بچ سکتا ہے، اور دوسروں کو بھی بچا سکتا ہے، اور جس کو یہ روشنی حاصل نہیں وہ خواہ اندھیرے میں ہے، مجموعہ عالم اور پوری زندگی کے اعتبار سے کیا چیز نافع ہے کیا مضر اس کا کوئی امتیاز نہیں کرسکتا، صرف پاس پاس کی چیزوں کو ٹٹول کر کچھ پہچان لیتا ہے، مگر بعد میں آنے والی دائمی زندگی کی اس کو کچھ خبر نہیں، نہ اس کے نفع و ضرر کا اسے کچھ ادراک ہے، قرآن کریم نے اسی مضمون کے لئے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوة الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون، یعنی یہ لوگ ظاہری دنیوی زندگی اور اس کے کھرے کھوٹے کو تو کچھ پہچانتے ہیں، مگر عالم آخرت سے قطعاً غافل ہیں۔ دوسری ایک آیت میں پچھلی منکر اور کافر امتوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے فرمایا ہے : (آیت) وکانوا مستبصرین، یعنی آخرت کے معاملہ میں ایسی شدید غفلت اور بےعقلی برتنے والے اس دنیا میں بیوقوف نادان نہ تھے، بلکہ مستبصرین، یعنی روشن خیال لوگ تھے، مگر یہ ظاہری سطحی روشن خیالی صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کے سنوارنے ہی میں کام دے سکتی تھی آخرت کی دائمی زندگی میں اس نے کچھ کام نہ دیا۔ اس تفصیل کو سننے کے بعد قرآن مجید کی آیت مذکور کو پھر ایک مرتبہ پڑھ لیجئے : اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو پہلے مردہ یعنی کافر تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا، یعنی مسلمان بنادیا، اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور یعنی ایمان دے دیا جس کو لئے ہوئے وہ لوگوں میں پھرتا ہے، اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ وہ قسم قسم کی اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے، جس سے نکلنے نہیں پاتا، یعنی کفر کی اندھیریوں میں مبتلا ہے، وہ خود ہی اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچانتا، اور ہلاکت سے نہیں بچ سکتا دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتا ہے۔ نور ایمان کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے اس آیت نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاس فرما کر اس طرف بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ نور ایمان صرف کسی مسجد یا خانقاہ یا گوشہ و حجرہ کے ساتھ مخصوص نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نور دیا ہے وہ اس کو لے کر سب جگہ لوگوں کے رزم دبزم میں لئے پھرتا ہے، اور ہر جگہ اس روشنی سے خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے، اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے، نور کسی ظلمت سے دب نہیں سکتا، جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی اندھیرے میں مغلوب نہیں ہوتا، ہاں اس کی روشنی دور تک نہیں پہنچتی، تیز روشنی ہوتی ہے تو دور تک پھیلتی ہے کم ہوتی ہے تو تھوڑی جگہ کو روشن کرتی ہے، مگر اندھیرے پر بہرحال غالب ہی رہتی ہے، اندھیری اس پر غالب نہیں آتی، وہ روشنی ہی نہیں جو اندھیری سے مغلوب ہوجائے، اسی طرح وہ ایمان ہی نہیں جو کفر سے مغلوب یا مرعوب ہوجائے، یہ نور ایمان انسانی زندگی کے ہر شعبہ ہر حال ہر دور میں اس کے ساتھ ہے۔ اسی طرح اس مثال میں ایک اور اشارہ یہ بھی ہے کہ جس طرح روشنی کا فائدہ ہر انسان و حیوان کو ارادہ و بےارادہ ہر حال میں کچھ نہ کچھ پہنچتا ہے، فرض کرو کہ نہ روشنی والا یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچے، نہ دوسرا یہ قصد کرکے نکلا ہے کہ اس کی روشنی سے مجھے فائدہ پہنچے، مگر جب روشنی کسی کے ساتھ ہوگی تو اس سے جبری اور قدرتی طور پر سب کو ہی فائدہ پہنچے گا، اسی طرح مومن کے ایمان سے دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا ہے، خواہ اس کو احساس ہو یا نہ ہو، آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ یعنی ان واضح کھلے ہوئے دلائل کے باوجود منکرین اور کفار جو بات کو نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ” ہر کس بخیال خویش خبطے دارد “۔ شیطان اور نفسانی خواہشات نے ان کی نظروں میں ان کے برے اعمال ہی کو خوبصورت اور بھلا بنا رکھا ہے جو سخت مغالطہ ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٢٢ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ می کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٢) یہ آیت عمار بن یاسر (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی حضرت عمار پہلے صاحب ایمان نہ تھے پھر ہم نے ان کو ایمان کی بدولت عزت عطا کی اور ہم نے انکو ایسی معرفت عطا فرمائی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں یا یہ کہ ہم ان کو پل صراط پر ایک خاص نور عطا فرمائیں گے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان سے اس پر بلاخوف وخطر گزر جائیں گے،۔ تو کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو دنیا میں کفر کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور قیامت کے دن جہنم کے اندھیروں میں پڑا ہوگا وہ ابوجہل ہے اور دنیا میں کفر کی تاریکیوں اور آخرت میں جہنم کے اندھیروں سے وہ نکلنے ہی نہیں پاتا۔ جیسا کہ ابوجہل کو اپنے غلط اعمال وکردار اچھے معلوم ہوتے ہیں اسی طرح تمام کفار کو اپنے اعمال اچھے معلوم ہوا کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” او من کان میتا “۔ (الخ) ابوالشیخ نے ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ آیت حضرت عمر فاروق (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نیز ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٢ (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ ) اس سے معنوی حیات و ممات مراد ہے ‘ یعنی ایک شخص جو اللہ سے واقف نہیں تھا ‘ صرف دنیا کا بندہ بنا ہوا تھا ‘ اس کی انسانیت در حقیقت مردہ تھی ‘ وہ حیوان کی حیثیت سے تو زندہ تھا لیکن بحیثیت انسان وہ مردہ تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی ہدایت دی تو اب گویا وہ زندہ ہوگیا۔ (وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ط) (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) مثال کے طور پر ایک وہ شخص تھا جسے پہلے ہوش نہیں تھا ‘ کبھی اس نے نظریاتی معاملات کی پیچیدگیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی ‘ لیکن پھر اس کو اللہ نے ہدایت دے دی ‘ نور قرآن سے اس کے سینے کو منور کردیا ‘ اب وہ اس نور میں آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ جیسے حضرت عمر (رض) کو حق کی طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت حمزہ (رض) بھی چھ سال بعد ایمان لائے۔ لیکن اب انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اللہ کے راستے میں سرفروشی کی مثالیں پیش کیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو ساری عمر انہی اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں انہیں موت آئی۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. 'Death' signifies here the state of ignorance and lack of consciousness, whereas 'life' denotes the state of knowledge and true cognition, the state of awareness of Reality. He who cannot distinguish between right and wrong and does not know the Straight Way for human life, may be alive on the biological plane, but his essential humanity is not. He may be a living animal but is certainly not a living human being. A living human being is one who can distinguish right from wrong, good from evil, honesty from dishonesty. 89. The question is: 'How can they expect one who has been able to attain genuine consciousness of his true human nature and who, by virtue of his knowledge of the Truth, can clearly discern the Straight Way among the numerous crooked ways, to live like those who lack true consciousness and go on stumbling in the darkness of ignorance and folly?' 90. The law of God with regard to those to whom light is presented but who wilfully refuse to accept it, preferring to follow their crooked paths even after they have been invited to follow the Straight Way, is that in the course of time such people begin to cherish darkness, and to enjoy groping their way in the dark, stumbling and falling as they proceed. They tend to mistake cacti for orchids, thorns for roses. They find pleasure in every act of evil and corruption. They look forward to renewed experiences of corruption, hoping that where they were previously unsuccessful they will now find success.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :88 یہاں موت سے مراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے ، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسر نہیں ہے ۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں ۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل ، نیکی اور بدی ، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :89 یعنی تم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہو کہ جس انسان کو انسانیت کا شعور نصیب ہو چکا ہے اور جو علم کی روشنی میں ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کو صاف دیکھ رہا ہے وہ ان بے شعور لوگوں کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرے گا جو نادانی و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :90 یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں ، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انہیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گرنا ہی پسند کرتے ہیں ۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھول نظر آتے ہیں ۔ انہیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اس سے بڑھ کر دوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اس امید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: یہاں روشنی سے مراد اسلام کی روشنی ہے اور ’’لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو‘‘ فرماکر اشارہ اس طرف کردیا گیا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اِنسان مذہبی عبادات کو لے کر دُنیا سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے، اور لوگوں سے میل جول چھوڑدے، بلکہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عام اِنسانوں کے درمیان رہے، ان سے ضروری معاملات کرے، ان کے حقوق ادا کرے، لیکن جہاں بھی جائے، اسلام کی روشنی ساتھ لے جائے، یعنی یہ سارے معاملات اسلامی احکام کے تحت انجام دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اگرچہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوجہل کی شان میں اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت امیر حمزہ اور ابوجہل کی شان میں اتری ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ زمانہ شروع اسلام سے قیامت تک ہر مسلمان اور کافر کی مثال میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ٥ ؎ جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کی مثال ایک ایسے شخص زندہ کی دی ہے کہ زندہ ہونے کے سبب سے جس کے حواس قائم ہیں اور انہی سے بچنے کے لیے اس کے پاس روشنی ایمان کی ہے ضرر کی چیز کو اجالے کے وقت آنکھوں سے اور اندہیرے کے وقت روشنی سے دیکھتا اور ضرور سے بچتا ہے اور کافر کی مثال ایسے شخص کی دی ہے کہ مردہ ہونے کے سبب سے نہ اس کی آنکھیں ہیں اور نہ اس کے پاس کسی طرح کی روشنی ہے اس لیے دنیا میں تو وہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے کہ وہ اچھے کام کر رہا ہے لیکن آخرت کے ضرر سے بچاؤ کا اس کے پاس ذریعہ نہیں ہے حاصل یہ ہے کہ اس حالت میں تو مومن کافر سب یکساں ہیں کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے نیست سے ہست کیا اب ان سب کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق اگرچہ جان لیا تھا کہ دنیا میں پیدا ہونے اور نیک و بد کا اختیار دیے جانے کے بعد کس قدر لوگوں کا انجام نیک ہوگا اور کس قدر کا بد چناچہ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک وبد کے لحاظ سے ہر ایک شخص کا ٹھکانہ بھی جنت یا دوزخ میں لکھا جا چکا ہے ١ ؎ اس کے بعد یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کی راہ سے جزا وسزا کا مدار اپنے اس علم ازلی پر نہیں رکھا بلکہ سب کو ایک حالت پر پیدا کیا چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ہر بچہ کی فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے اس فطرت اسلام پر پیدا کرنے سے پہلے عالم ارواح میں سب کی روحوں پر ہدایت کا نور چھڑکا لیکن جو لوگ پیدا ہونے کے بعد بد انجام رہنے والے تھے ان کو روحوں پر اس نور کا اثر عالم ارواح میں کچھ نہ ہوا چناچہ مسندامام احمد ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو عالم ارواح میں پیدا کیا تو سب مخلوقات جہالت اور خواہشات نفسانی کے اندہیرے میں تھی اللہ تعالیٰ نے ان سب پر ہدایت کا نور چھڑ کا جن روحوں پر اس نور کا اثر ہوا وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد نیک راستہ سے لگ گئے اور جن روحوں پر اس نور کا کچھ اثرنہ ہوا وہ دنیا میں پیدا ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ٣ ؎ مسند امام احمد کی سند بھی معتبر ہے۔ صحیح بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد نسائی صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوداؤد نسائی صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ طرح طرح کی خواہش نفسانی سے گھرا ہوا ہے اور جنت طرح طرح کی تکلیفات شرعیہ سے گھری ہوئی ہے خواہشات نفسانی سے مقصود دنیا کی وہ راحت اور آرام کی چیزیں ہیں جن کی شریعت میں مناہی ہے اور تکلیفات شرعیہ سے مقصود ان خواہشات سے بچ کر ان باتوں کو بجالانا ہے جن کے بجا لانے کا شریعت میں حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خواہش نفسانی کی پابندی گویا دوزخ میں جانے کا راستہ ہے اور تکلیفات شرعیہ کی پابندی جنت کا راستہ ہے۔ یہ سب حدیثیں آپ کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک وبد دو طرح کے لوگ دنیوی حالت کے موافق جو آیت میں ذکر کئے گئے ہیں اگرچہ یہ سب فطرت اسلام پر پھریں ہوئے لیکن عالم ارواح میں جن روحوں پر خواہش نفسانی کا اندہیرا چھایا رہا وہ روحیں جسموں میں آنے کے بعد بھی عمر بھر اس اندہیرے میں پھنسی رہیں اور دوزخ کا راستہ ان کے گلے کا ہار رہا اور اس عالم ارواح کے اندہیرے کے سبب سے ان کو اس راستہ کی برائی کچھ نظر نہ آئی اور جن روحوں کو علم ازلی کے موافق عالم میں نور ہدایت کا حصہ مل گیا تھا انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ تک اس نور کے طفیل سے کبھی نہ کبھی جنت کا راستہ ڈھونڈ کر نکال لیا۔ صحیح بخاری ‘ مسلم ‘ ابوداؤد ‘ نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کے حاصل یہ ہے کہ سوتے ہوئے آدمی کو صبح کی نماز کے اول وقت شیطان یوں بہکاتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے ذرا اور سو جا اس پر اگر آدمی نے شیطان کا کہا مان لیا تو اول وقت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہی اور اگر اول وقت کی فضیلت کا شرعی حکم اس نے مان لیا تو اس فضیلت کا اجر ہاتھ آگیا ١ ؎ اس مثال میں رات آخری وقت کی برائی کو رات کے باقی ہونے کی زیب وزینت کا برقعہ اوڑھ کر سونے والے شخص کو یوں بہکا دیا کہ ابھی نماز کا آخری وقت دور ہے غرض ہر ایک چیز کی پیدائش کے لحاظ سے بعض آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے برے کاموں کی زیب وزنیت کی نسبت اپنی ذات پاک کی طرف فرمائی ہے جیسے اس سورة میں ہے کذلک زینا کل امۃ عملھم (٦۔ ١٠٨) اور بعضی آیتوں میں اس زیب و زنیت کے ظہور کا سبب شیطان کو ٹھہر کر یہ نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے جیسے سورة النمل میں ہے وزین لھم الشیطان اعمالھم (٢٩۔ ٣٨) لیکن جو تفصیل اوپر بیان کی گئی اس کے موافق ان آیتوں میں کچھ مخالفت نہیں ہے کذلک زین للکافرین ماکانوا یعملون۔ اس آیت میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ ان کافروں کے برے کاموں پر ملمع کر کے ان کو اچھا دکھانے والا کون ہے لیکن اوپر کی تفصیل کے موافق حاصل مطلب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کے طور پر جس طرح نیک لوگوں کو نیک کام اچھے معلوم ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو کام میں لے کر شیطان نے ان کے برے کاموں پر اس طرح کا ملمع کردیا ہے کہ جال میں پھنسنے والے جانوروں کی طرح ان کو جال میں کا دانہ تو نظر آتا ہے مگر جال نہیں نظر آتا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:122) یمشی بہ فی الناس۔ کا مطلب ہے (ہم نے اس کے لئے نور بنادیا) جس کے اجالے میں (یا جس کی مدد سے) وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔ یا اس کا مطلب یوں بھی ہوسکتا ہے کہ (ہم نے اس کے لئے نور بنادیا) جس کو لے کر وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے (اور اس طرح دوسروں کو بھی روشنی مہیا کرتا ہے) کذلک۔ ای کما زین للؤمن ایمانہ۔ یعنی جس طرح مومن کے لئے اس کا ایمان خوبصورت و دلکش بنادیا گیا اسی طرح کافروں کے لئے ان کا عمل جاذب و دلکش کردیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی وہ کافر تھا اسے مسلمان بنایا (شوکانی)11 بیشتر مفسیرن (رح) کے نز دیک یہ مثال عام ہے اور ہر زمانہ کے مومن اور کافر پر منطبق ہوسکتی ہے۔ فتح القدیر) یعنی شیطان اپنے وساوس کے ذریعے ان کافرو کی نگاہ میں ان کے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 122 : احیینا (ہم نے زندہ کردیا) ‘ یمشی (چلتا ہے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 122 : قرآن کس چزٓ کو زندگی کہتا ہے ؟ انسان اور ہر چیز فلکیات ‘ فضائیات ‘ حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات ‘ آبیات ‘ بخارات ‘ متحرکات کی زندگی کا تعلق بس اسی دنیا سے ہے۔ ان کا مقصد زندگی جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے۔ انسان کی زندگی اور مقصد زندگی کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی ہے۔ اس کے پاس دوزندگیاں ہیں۔ فانی زندگی کھیتی ہے۔ لافانی زندگی اس کا پھل۔ انسان جب تک اپنا فریضہ زندگی ادا کر رہا ہے جس کا تعلق سراسر اس دنیا سے ہے وہ زندہ ہے ورنہ وہ مردہ۔ انسان جب تک اپنا فریضئہ زندگی ادا کررہا ہے (جس کا تعلق اس دنیا کے ذریعہ آخرت سے ہے) وہ زندہ ہے ورنہ مردہ۔ وہ لوگ جو صرف اسی دنیا کے لئے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں مردہ ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔ مردہ تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن یہ مردہ دل خود بھی بہکے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی بہکار ہے ہیں۔ ارسطوں جو با بائے سائنس کہا جاتا ہے اس کی عقل کی انتہا کہاں تک ہے۔ کہتا ہے کہ انسان ذی عقل حیوان ہے۔ یعنی ہے تو وہ حیوان ہی لیکن اس کے پاس ایک عقل بھی ہے۔ اسلام اس ذی عقل حیوان کو اٹھاتا ہے اور بلند ترین خلیفۃ اللہ فی الارض کا درجہ عطا کرتا ہے اور اس کی موجودہ زندگی کا تعلق آئندہ زندگی سے جوڑ دیتا ہے کہ اگر وہ اپنا فرض منصبی انجام دیتا ہے تو جنت میں ورنہ جہنم میں جائے گا۔ یہ انسان اپنی عقل سے حیوانیت ہی کا کام لے گا اگر اس کے پاس وہ خاص روشنی نہ ہو جس کا نام ایمان ہے۔ اس آیت میں ایمان کو روشنی سے اور بےایمانی کو اندھیرے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تمام انسان کسی نہ کسی طرح کی روشنی کے محتاج ہیں اور روشنی کے بغیر کوئی صحیح قدم نہیں اٹھا سکتے ‘ تو آخرت کے کام کے لئے بھی ہمیں ایک خاص روشنی کی ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورج چاند بجلی اور آگ کا انتظام کردیا ہے اسی طرح وحی جلی اور وحی خفی کا بھی انتظام کردیا ہے۔ اور جس طرح وہ سورج چاند کا محافظ ہے اسی طرح وحی جلی اور وحی خفی کا بھی رہتی دنیا تک محافظ ہے۔ ” ایک وہ شخص جو پہلے مردہ یعنی کافر تھا ‘ اللہ نے اسے دونوں عالم کے لئے زندہ کردیا یعنی اسے حلقہء اسلام میں لے آیا اور اس نے اس کو نور ایمان عطا کردیا جسکی مدد سے وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہیں طے کر رہا ہے۔ دوسرا شخص جو گھپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے اس کی حیوانیت اسے کفر سے باہر نکلنے نہیں دیتی اور اس کے اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کررہی ہے۔ بھلا یہ دوطرح کے انسان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ بھلا بینا اور اندھا برابر ہو سکتے ہیں ؟ “ چراغ سے صرف چراغ والا ہی فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ جہاں تک اس کی روشنی جاتی ہے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مومن کے ایمان سے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب رہے وہ بد نصیب جو کفر کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں اور اسی میں مست ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کے اعمال انہیں خوش نما بنا کر دکھا رہا ہے اور وہ خود عقلمندی کے چکر میں مبتلا ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی گمراہ تھا۔ 8 یعنی مسلمان بنادیا۔ 9۔ یعنی ایمان دے دیا جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے جس سے وہ سب مضرتوں سے مثلا گمراہی وغیرہ سے محفوظ ومامون وبے فکر پھرتا ہے۔ 1۔ چناچہ اسی وجہ سے یہ روساء مکہ جو آپ سے مہمل فرمائشیں اور شبہات ومجادلات پیش کرتے ہیں اپنے کفر کو مستحسن ہی سمجھ کر اس پر مصر ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٢٢ تا ١٢٥۔ ان آیات میں ہدایت وضلالت کی ماہیت کی تصویر کشی کی گئی ہے اور حقیقت ہدایت وضلالت پر حقیقت ضلالت کی نہایت ہی حقیقت پسندانہ تعبیر کی گئی ہے ۔ اس کے اندر جو تشبیہات اور جو مجاز استعمال کیا گیا ہے وہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ تصویر پرتاثیر بن جائے ۔ تشبہیات اور مجاز بھی نہایت ہی واقعیت پسندانہ ہیں۔ ہدایت وضلالت کے حقائق اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسے ہیں جن کو سمجھانے کے لئے اس قسم کی تصویر کشی اور موثر انداز بیان نہایت ہی ضروری ہے ۔ اگرچہ بلاشبہ ہدایت وضلالت حقائق ہیں ۔ لیکن یہ روحانی اور نظریاتی حقائق ہیں اور ایسے حائق میں جنہیں تجربات اور عمل کے ذریعے چکھا جاسکتا ہے ۔ رہی کسی روحانی حقیقت کی تعبیر یا حسن تعبیر تو اس سے لطف اندوز صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان حقائق کو عملا برتا ہو ۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو تاریک قلب ونظر کو روشن کرتے ہیں ۔ یہ حقائق انسان کو ایسی زندگی دیتے ہیں ۔ جس کے ذریعے انسان ہر چیز کا مزہ لیتا ہے ۔ ہر چیز کے بارے میں درست نقطہ نظر اپناتا ہے ‘ ہر چیز کی صحیح قدروقیمت متعین کرتا ہے ۔ انسان کا احساس تمام محسوسات کے بارے میں یکسر بدل جاتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں اس قدر روشنی پیدا ہوجاتی ہے جس میں انسان ایک نئے جہان کو دریافت کرلیتا ہے ‘ جس کے بارے میں پہلے اسے کچھ احساس بھی نہیں ہوتا ۔ ایک ایسا تجربہ ہے جو عام انسان کے حس وادراک میں نہیں آسکتا ۔ نہ انسان اسے الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے ۔ اس کا ادراک صرف وہ شخص کرسکتا ہے جس نے اس حقیقت کو چکھا ہو ، قرآن کریم کا اسلوب بیان اس قدر زور دار ہے کہ صرف وہی اسے ہمارے ادارک کے قریب ترک کرسکتا ہے ۔ کیونکہ یہ قرآن کا کمال ہے کہ وہ ہر حقیقت کے لئے حسب حال الفاظ لے کر آتا ہے جو مفہوم کی حقیقت کے ساتھ ہم رنگ ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کفر انسان کو ازلی اور ابدی حقیقت سے دور کردیتا ہے ۔ یہ ازلی اور ابدلی حقیقت ایسی ہوتی ہے جس کے لئے فنا نہیں ہے ۔ جو اوجھل نہیں ہوتی اور نہ گہرائی تک اترتی ہے ۔ ابدی اور ازلی حقیقت سے قطع تعلق ہی درحقیقت موت ہے ‘ کسی انسان کے لئے ۔ ایسا انسان کبھی بھی فعال نہیں ہوسکتا ‘ موثر نہیں ہو سکتا اور اس کائنات پر اسے کنٹرول نہیں حاصل ہو سکتا ۔ چناچہ ایسا شخص مردہ شخص ہے ۔ اس کی قوتیں اور صلاحیتیں مر جاتی ہیں ۔ اور وہ فطرتا مردہ انسان ہوتا ہے ۔ یہی ہے موت کی حقیقت ۔ اس کے مقابلے میں ایمان نام ہے اس ابدی قوت کے ساتھ اتحادواتصال کا ۔ ایمان اس قوت سے مدد لیتا ہے اور یہ قوت اس کی دعا کو قبول کرتی ہے لہذا ایمان حیات ہے اور کفر موت ہے ۔ پھر کفر کی حالت میں روح انسانی شرف اور علم سے محروم ہوتی ہے ۔ وہ تاریکی میں گھر جاتی ہے ۔ انسان کے اعضاء اور اس کے شعور پر تالے پڑجاتے ہیں ۔ انسان تاریکی میں کھو جاتا ہے اور گمراہ ہوجاتا ہے ۔ ایمان ہی درحقیقت آنکھیں کھول دیتا ہے ۔ وہ ادراک کا بہترین وسیلہ ہے ۔ اس سے استقامت نصیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک نور ہے ‘ نور کے ہر مفہوم کے اعتبار سے ۔ کفر سے انسان سکڑ جاتا ہے ‘ اور بالاخر پتھر بن جاتا ہے ‘ اس کی سوچ تنگ ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان فطری راستے سے بےراہ ہوجاتا ہے ۔ لہذا کفر ایک قسم کی تنگی ہے جس میں ہر شخص اطمینان سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اور ہر وقت دل تنگ رہتا ہے جبکہ ایمان سے شرح صدر ‘ خوشی ‘ سہولت حاصل ہوتی ہے اور اس کے خوشگوار سائے میں اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ کافر کی حیثیت اس طرح ہوتی ہے جس طرح کوئی خودروگھاس اور پودا ہوتا ہے جس کا اس کرہ ارض پر کوئی مضبوط وجود نہیں ہوتا اور نہ اس کی پختہ جڑیں ہوتی ہیں ‘ وہ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو اپنے خالق سے منقطع ہوتا ہے اور تنہا تنہا نظر آتا ہے ۔ اس کائنات سے بھی وہ مربوط نہیں ہوتا ‘ اس کائنات کے ساتھ اس کا روحانی ربط نہیں ہوتا ۔ فقط مادی ربط ہوتا ہے جو نہایت ہی محدود تعلق ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح کسی بھی حیوان کا اس کائنات کے ساتھ فطری ربط ہوتا ہے ۔ محض محسوس ربط اور دائرہ ۔ اس کے مقابلے میں للہ فی للہ جو تعلق ہوتا ہے وہ انسان فانی کو حقیقت ابدیہ اور حقیقت ازلیہ کے ساتھ مربوط کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اس کائنات ظاہری کے ساتھ بھی موصول اور مربوط کردیتا ہے ۔ اس کے بعد ایک مومن کا گہرا تعلق اس قافلہ ایمان کے ساتھ اور ایک ایسی امت کے ساتھ ہوتا ہے جس کی جڑیں انسان تاریخ میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ لہذا مومن روابط کے ایک بڑے خزانے کا مالک ہوتا ہے ۔ وہ تعلقات کا ایک عظیم اور وسیع سرمایہ رکھتا ہے ۔ وہ ایک نہایت ہی بھرپور اور وسیع شخصیت رکھتا ہے ۔ اس کا وجود اور اس کی شخصیت اس کی عمر کے اختتام کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی ۔ جب انسان ایمان لاتا ہے تو وہ اپنے دل میں ایک روشنی پاتا ہے اور اس روشنی کے ذریعے پھر اسے دین کے حقائق معلوم ہوتے ہیں اور اسے اس دین کے منہاج عمل اور طرز تحریک کا بھی علم ہوجاتا ہے ۔ اس کے قلب پر عجیب انکشافات ہوتے ہیں ۔ جب ایک مومن اپنے دل میں یہ نور پاتا ہے تو اسے عجیب و غریب مناظر ومقامات نظر آتے ہیں ۔ اسے نظر آتا ہے کہ اس دین کے تمام اجزاء کے اندر ایک گہراربط پایا جاتا ہے ۔ اسے حقائق واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ اسے نظر آتا ہے کہ اس دین کا منہاج عمل نہایت ہی گہرا اور نہایت ہی خوبصورت ہے ۔ یہ دین متفرق عقائد اور متفرق عبادات کا کوئی بےربط مجموعہ نہیں ہے جس میں کچھ قوانین بھی ہوں اور کچھ ہدایات بھی ‘ بلکہ یہ دین ایک مکمل منصوبہ ہے ‘ اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے میں داخل اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں ‘ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی گہرا عشق رکھتے ہیں ۔ یہ تمام اجزاء ایک جسم کی طرح زندہ اور اس کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم سفر ہیں اور یہ سفر نہایت ہی دوستانہ ‘ باہم محبت اور گہری الفت کے ساتھ جاری وساری ہے ‘ نہایت ہی جوش و محبت کے ساتھ ۔ انسان اپنے دل میں یہ نور پاتا ہے ‘ اس کے ذریعے اس پر اپنی ذات کے حقائق اپنی حیات کے حقائق ‘ کرہ ارض پر رونما ہونے والے حقائق لوگوں کے حقائق اور لوگوں کے احوال کے حقائق منکشف ہوتے ہیں ۔ ان کی نظروں کے سامنے نہایت ہی روشن اور خیرہ کن مناظر آتے ہیں وہ اس کائنات کے اندر جاری وساری سنت الہیہ اور اس کے ضوابط کو بھی پالیتا ہے ‘ جو نہایت ہی محکم اور فطری اور خوشگوار انداز میں جاری ہیں ۔ پھر وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ ان سنن و ضوابط کے پیچھے اللہ کی مشیت بھی کام کررہی ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہی ہے جس نے اس کائنات میں سنن الہیہ اور اس کے ضوابط کے پیچھے اللہ کی مشیت بھی کام کر رہی ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہی ہے جس نے اس کائنات میں سنن الہیہ کو آزادی کے ساتھ جاری وساری کیا ہے اور کام کے مواقع فراہم کئے ہیں ۔ ایسا شخص پھر اس کائنات کے انسانوں کو دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح سنن الہیہ کے مطابق چلتے پھرتے ہیں لیکن سنن الہیہ کے حدود کے اندر ۔ جب کسی انسان کے دل میں یہ نور ایمانی پیدا ہوجاتا ہے تو ہر معاملے ‘ ہر واقعہ اور ہر مسئلے میں سچائی کی راہ واضح طور پر پالیتا ہے ۔ اب وہ اپنے اردگرد جاری سنن الہیہ اور واقعات اچھی طرح دیکھ سکتا ہے ۔ خواہ وہ اس کے نفس سے متعلق ہوں ‘ اس کے خیالات سے متعلق ہوں یا اس کے اردگرد مختلف لوگوں کی طرف سے جاری منصوبوں سے متعلق ہوں ۔ وہ اپنے ماحول کے ارادوں کو بھی معلوم کرلیتا ہے چاہے یہ ارادے ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ واقعات کی تعبیر و توضیح وہ اپنی عقل اور اپنے نفس کے اندر واضح طور پر پاتا ہے ۔ وہ رونما ہونے والے تمام واقعات کی تعبیر اچھی طرح کرسکتا ہے گویا وہ ہر معاملے کا جواب کتاب اللہ اخذ کررہا ہے ۔ جسے یہ نور حاصل ہوتا ہے اس کے خیالات ‘ اس کا شعور اور اس کے خدوخال بھی روشن نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے دل میں مسرور ‘ اپنے حالات پر خوش اور اپنے انجام سے مطمئن ہوتا ہے ۔ وہ حکم دیتے وقت نرم اور خوشگوار رویہ اپناتا ہے ۔ وہ واقعات و حالات کا سامنا بھی نہایت ہی سنجیدگی سے کرتا ہے اور ہر حال میں مطمئن پرامید پر یقین ہوتا ہے ۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کی تصویر کشی قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا ہے اور کتنی خوبصورتی سے اور کس پیارے انداز میں۔ (آیت) ” أَوَ مَن کَانَ مَیْْتاً فَأَحْیَیْْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا (122) ” کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اس سے نہ نکلتا ہو۔ “ اس دین سے قبل مسلمان ایسے ہی تھے ‘ وہ مردہ تھے ‘ یہ اسلام ہی ہے جس نے ان کی روح کو وسعت دی اور انہیں زندگی بخشی ۔ ان کو ترقی جستجو ‘ حرکت اور حیات جاوداں عطا کی جبکہ اس سے پہلے ان کے دل بجھے بجھے تھے ۔ ان کی روح تاریک تھی ‘ لیکن جب ان کے دلوں کے اوپر ایمان کی بارش ہوئی تو وہ سرسبز اور لہلہاتے ہوئے کھیت کی طرح ہوگئے ۔ ان کی روح سے نور کے چشمے پھوٹنے لگے ‘ روشنی اور نور کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ وہ گمراہوں کو راہ بتلانے لگے ۔ وہ حران وپریشان لوگوں کو راہ دکھاتے ‘ خوفزدہ انسانیت کو اطمینان دلاتے ‘ غلاموں کو رہائی دلاتے ‘ وہ لوگوں کے لئے زندگی کے سفر کی سمت متعین کرنے لگے اور یہ اعلان کرنے لگے کہ انسان کو از سر نو زندگی عطا ہوگئی ہے ۔ اب وہ صرف اللہ کا غلام ہے اور دنیا کی تمام غلاموں سے اس نے رہائی پالی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جس کی روح میں اللہ نے زندگی بھر دی ہو ‘ کیا وہ شخص اس آدمی کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور ان سے اس کے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ یقینا ان دونوں افراد کے حالات ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف ہیں ۔ اور اس کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ لہذا کون ہے جو اس ظلمت کدے میں دھرنا مار کر بیٹھ جائے جبکہ اس کے اردگرد ونور کا فیضان ہو رہا ہو۔ (آیت) ” کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ “۔ (٦ : ١٢٢) ” کافروں کے لئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں۔ “ یہ ہے حقیقی راز ۔ یہاں کفر کی تعبیر تاریکی اور موت سے کی گئی ہے اور کفر کے اندر یہ صفات مشیت الہی نے ودیعت کی ہیں ۔ پھر اللہ نے انسانوں کے اندر ایسی اقسام پیدا کی ہیں کہ ان میں سے بعض لوگ نور کو پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ ظلمت کو پسند کرتے ہیں ۔ جب کوئی ظلمت کو پسند کرنے لگتا ہے تو اس کے لئے ظلمت محبوب کردی جاتی ہے اور وہ گمراہی میں دور تک نکل جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے واپس آنے کا کوئی راستہ ہی نہیں رہتا ۔ اس کے بعد جنوں اور انسانوں میں سے شیاطین کا ایک لشکر سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے سامنے بدنما اور گمراہ کن باتوں کو اچھا بنا کر پیش کرتا ہے ۔ اور پھر وہ کافروں کے لئے ان کے اعمال کو مزید خوشنما بنادیتے ہیں ۔ جس دل میں نور ایمان نہیں ہوتا وہ ان شیاطین کی باتوں پر توجہ سے کان دھرتا ہے ۔ وہ ان کے وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے اب وہ ہدایت وضلالت کی بھی کوئی تمیز نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوتا ہے ۔ یوں اللہ کافروں کے لئے ان کے اعمال کو خوشنما بنا دیتا ہے ۔ اس اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر گاؤں میں کچھ و ڈیرے مجرم بنا دیئے ہیں اور وہ ان بستیوں میں اپنی مکاریوں کے جال پھیلاتے ہیں ۔ یوں اللہ کی جانب سے انسانوں کے ابتلاء کی یہ اسکیم مکمل ہوتی ہے اور اللہ کی تقدیر اپنا کام کرتی ہے ۔ اس کی حکمت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور ہر شخص اس دنیا میں وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے لئے ساز گار بنا دیا گیا ہوتا ہے اور آخر کار ہر شخص اپنے مقرر انجام تک جا پہنچتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومن زندہ ہے اس کے لیے نور ہے اور کافر اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے علامہ بغوی معالم التنزیل ج ٢ ص ١٢٨ میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت دو خاص آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ پھر ان دو آدمیوں کے تعین میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ (وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا) سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا) مراد ہیں، اور (مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ ) سے ابو جہل مراد ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ابو جہل نے ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گھوڑے کی لید پھینک دی تھی۔ حضرت حمزہ (رض) کو اس کا پتہ چلا جو شکار کر کے ہاتھ میں کمان لیے ہوئے آ رہے تھے اور ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابو جہل کی حرکت کا علم ہوا تو غصہ میں بپھر گئے اور ابو جہل کے پاس آکر اس کے سر پر کمان ماری وہ عاجزی کرنے لگا اور کہنے لگا کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ کیسا دین لے کر آئے ہمیں بیوقوف بناتے ہیں اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں اور ہمارے باپ دادوں کے مخالف ہیں۔ اس پر حضرت حمزہ (رض) نے فرمایا کہ تم سے بڑھ کر بیوقوف کون ہوگا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو۔ پھر انہوں نے اسی وقت اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اس پر آیت کریمہ (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحیَیْنٰہُ ) نازل ہوئی۔ سبب نزول جو بھی ہو۔ آیت کا عموم ہر کافر اور ہر مومن کو شامل ہے۔ جو لوگ پہلے کافر تھے وہ کفر کی وجہ سے مردہ تھے۔ جس نے اسلام قبول کرلیا وہ زندوں میں شمار ہوگیا اور اسے نور ایمان مل گیا۔ وہ اسی نور ایمان کو لے کر لوگوں میں پھرتا ہے اور یہ نور ایمان اسے خیر کا راستہ بتاتا ہے اور اعمال صالحہ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا جو مردہ تھا اسے ہم نے زندہ کردیا ایمان کا نور دیدیا وہ اس جیسا کہاں ہوسکتا ہے جو اندھیریوں میں ہے۔ برابر انہیں میں گھرا ہوا ہے وہاں سے نکلنے والا نہیں۔ پھر فرمایا (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) جس طرح اہل ایمان کے لیے ایمان مزین کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے اعمال کفریہ مزین کردیئے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے اور وہ اپنی حرکت بد کو اچھا سمجھ رہے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

134 بشارت مع تخویف۔ یہ مومن و کافر اور موحد و مشرک کی تمثیل ہے۔ کفر وشرک کو موت اور ظلمت سے ور ایمان و توحید کو حیات اور نور سے تشبیہ دی یعنی جو شخص پہلے کافر و مشرک تھا اللہ نے اس کے مردہ دل کو زندگی عطا فرمائی اور اسے ایمان کی توفیق دے کر ہدایت کی روشنی عطا کی وہ اس شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو کفر شرک کے اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور ایمان کی توفیق اور ہدایت کی روشنی سے محروم ہے کَذٰلِکَ زُیِّنَ الخ یہ انکار کی چوتھی وجہ کا اعادہ ہے۔ 135 یہ نہ ماننے کی چھٹی وجہ ہے۔ اَکٰبِرَ جَعلْنَا کا مفعول اول اور مُجْرِمِیْھَا مفعول ثانی یا برعکس لِیَمْکُرُوْا لام عاقبت یعنی ہر بستی کے بڑے بڑے لوگ مجرم ہوتے ہیں اور دین حق کے خلاف مکر و فریب کی چالیں سوچتے اور لوگوں کو قبول حق سے روکتے رہتے ہیں۔ وَمَا یَمکُرُوْنَ الخ مکر و فریب کا وبال خود ان کی اپنی جانوں پر پڑے گا۔ اس سے وہ دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے یعنی ما یحیق ھذا المکر الا بھم لان وبال مکرھم یعود علیھم (خازن ج 2 ص 148) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

122 کیا ایک ایسا شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی عطا فرمائی اور اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور عطا کیا اور اس کے لئے ایک ایسی روشنی مقرر کی جس کول یکر وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہو کہیں یہ شخص اس شخص کی مثل ہوسکتا ہے جو مختلف تاریکیوں میں پڑا ہوا ہے اور تاریکیوں میں ایسا مبتلا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے وہ اعمال جو وہ کر رہے ہیں ان کے لئے آراستہ اور خوش نما کردیئے گئے ہیں ، یعنی مردہ وہ جو کفر و گمراہی کی موت مرا ہوا ہو اور زندہ وہ جس کو ایمان عطا کیا ہو اور وہ ایمان کی روشنی ہر طرف لوگوں میں لئے پھرتا ہو تاریکیاں کفر وشرک کی دلدل جس میں پھنسا ہوا ہے جس طرح مسلمان کو اپنے کام مستحسن نظر آتے ہیں اسیطرح کافر کی نظر میں اس کے اعمال مزین آراستہ اور خوش نما کردیئے گئے ہیں۔