Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 149

سورة الأنعام

قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ ۚ فَلَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۴۹﴾

Say, "With Allah is the far-reaching argument. If He had willed, He would have guided you all."

آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی رہی ۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "With Allah is the perfect proof and argument; had He so willed, He would indeed have guided you all." Allah said to His Prophet; قُلْ ... Say, (O Muhammad, to them), ... فَلِلّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ... "With Allah is the perfect proof and argument...," the perfect wisdom and unequivocal proof to guide whom He wills and misguide whom He wills. ... فَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ had He so willed, He would indeed have guided you all. All of this happens according to His decree, His will, and His choice. So in this way, He is pleased with the believers, and angry with the disbelievers. Allah said in other Ayat, وَلَوْ شَأءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى And had Allah willed, He could have gathered them together (all) on true guidance, (6:35) and, وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لامَنَ مَن فِى الاٌّرْضِ And had your Lord willed, those on earth would have believed, all of them together. (10:99) and, وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبّكَ لاَمْلَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ And if your Lord had so willed, He could surely have made mankind one Ummah, but they will not cease to disagree. Except him on whom your Lord has bestowed His mercy and for that did He create them. And the Word of your Lord has been fulfilled: "Surely, I shall fill Hell with Jinns and men all together." (11:118-119) Ad-Dahhak said, "No one has an excuse if he disobeys Allah. Surely, Allah has the perfect proof established against His servants." Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اتمام حجت کردی ہے اور اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کی راہوں اور ان کے انجام سے پوری طرح مطلع کردیا ہے اور حلت و حرمت کے احکام بھی واضح کردیئے ہیں۔ [١٦٣] یہ مشرکوں کے اس عذر لنگ کا جواب ہے جو یہ ہے کہ فی الواقع اس کی مشیئت یہی ہے کہ تمہیں ہدایت نصیب نہ ہو لیکن یہ اس کی رضا نہیں۔ اور چونکہ اللہ اتمام حجت کرچکا ہے لہذا تمہیں تمہارے جرائم کی سزا ضرور دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۔۔ : آپ ان سے کہہ دیں کہ پھر کامل دلیل تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو واقع کے عین مطابق ہے کہ اس کی مشیت، ارادہ اور اختیار الگ چیز ہے اور کسی کام پر راضی اور خوش ہونا الگ چیز ہے اور اس میں اس کی حکمت ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت اور گمراہی کا اختیار دے کر آزمایا ہے، اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا، پھر کوئی گمراہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، مگر یہ جبر ہوتا، جو اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہے۔ دیکھیے سورة ھود (١١٨، ١١٩) اور سورة یونس (٩٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ۝ ٠ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٤٩ حجة : الدلالة المبيّنة للمحجّة، أي : المقصد المستقیم الذي يقتضي صحة أحد النقیضین . قال تعالی: قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] ، وقال : لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150] ، فجعل ما يحتجّ بها الذین ظلموا مستثنی من الحجة وإن لم يكن حجة، وذلک کقول الشاعر : 104- ولا عيب فيهم غير أنّ سيوفهم ... بهنّ فلول من قراع الکتائب ويجوز أنّه سمّى ما يحتجون به حجة، کقوله تعالی: وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ، فسمّى الداحضة حجّة، وقوله تعالی: لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، أي : لا احتجاج لظهور البیان، الحجۃ اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] کہدو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے ۔ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150]( یہ تاکید ) اس لئے کی گئی ہے ) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگا سکیں ۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ( وہ الزام دیں تو دیں ۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنیٰ کیا ہے گو اصولا وہ حجت میں داخل نہیں ہے ۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (100) ولا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن للول من قراع الکتاب ان میں صرف یہ عیب پایا جاتا ہے ک لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندا نے پڑنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] اور جو لوگ خدا کے بارے ) میں بعد اس کے کہ اسے ( مومنوں نے ) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے ۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قراد دیا گیا ہے اور آیت کریمہ : لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر تمہارے پاس تمہارے دعوے کے لیے کوئی دلیل نہیں تو پھر پوری اور اعتماد والی قطعی بات تو اللہ ہی کی رہی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٩ (قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ج) ۔ تمہاری اس کٹ حجتی کے مقابلے میں حقیقت تک پہنچی ہوئی حجت صرف اللہ کی ہے۔ اس نے ہر طرح سے تم پر اتمام حجت کردیا ہے ‘ تمہاری ہر نامعقول بات کو معقول طریقے سے رد کردیا ہے ‘ مختلف انداز سے تمہیں ہر بات سمجھا دی ہے۔ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللہ البالغہ کا نام اسی آیت سے اخذ کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

125. This provides a complete refutation of their apology. In order to appreciate it fully, careful analysis is required. In the first place they are told that citing God's will to justify one's errors and misdeeds, and making it a pretext for refusing to accept true guidance was the practice of the evil-doers before them. But they should remember that this had led to their ruin and they themselves were witnesses to the evil consequences of deviation from the Truth. Furthermore, it is being clarified that the plea of the unbelievers that the only reason for their error was that God had not willed that they be guided to the Truth, is based on fancy and conjecture rather than on sound knowledge. They refer to God's will without understanding the relationship between God's will and man's action. They entertain the misconception that if a man commits theft under the will of God, that does not mean that he will not be reckoned a criminal. For the fact is that whichever path a man chooses, be it that of gratitude or ungratitude to God of guidance or error, obedience or disobedience, God will open that path for him, and thereafter God will permit and enable him within the framework of His universal scheme, and to the extent that He deems fit - to do whatever he chooses to do whether it is right or wrong. If their forefathers had been enabled by God's will to associate others with Him in His divinity and prohibit clean things, that did not mean that they were not answerable for their misdeeds. On the contrary, everyone will be held responsible for choosing false ways, for having a false intent, and for having striven for false ends. The crucial point is succinctly made at the end in the words: 'Then say to- them, (As against your argument) Allah's is the conclusive argument. Surely, had He willed, He would have guided you all to the Truth.' The argument which they put forward, viz. 'If Allah had willed, neither we nor our forefathers could have associated others with Allah in His divinity', does not embody the whole truth. The whole truth is that 'had He willed, He would have guided you all to the Truth'. In other words, they were not prepared to take the Straight Way of their own choice and volition. As it was not God's intent to create them with inherent right guidance like the angels, they would be allowed to persist in the error they had chosen for themselves.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :125 یہ ان کے عذر کا مکمل جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے: پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی غلط کاری و گمراہی کے لیے مشیت الہٰی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ، اور اس کا انجام یہ ہوا ہے کہ آخر کار وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا برا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ۔ پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کررہے ہو یہ دراصل علم حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے ۔ تم نے محض مشیت کا لفظ کہیں سے سن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کرلی ۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیت کیا ہے ۔ تم مشیت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر میشت الہٰی کے تحت چوری کر رہا ہے تو وہ مجرم نہیں ہے ، کیونکہ اس نے یہ فعل خدا کی مشیت کے تحت کیا ہے ۔ حالانکہ دراصل انسان کے حق میں خدا کی مشیت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر ، ہدایت اور ضلالت ، طاعت اور معصیت میں سے جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا ، خدا وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا ، اور پھر غلط یا صحیح ، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، خدا اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا اسے اس کام کا اذن اور اس کی توفیق بخش دے گا ۔ لہٰذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیت الہٰی کے تحت شرک اور تحریم طیبات کی توفیق پائی تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ تم لوگ اپنے ان اعمال کے ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو ۔ اپنے غلط انتخاب راہ اور اپنے غلط ارادے اور سعی کے ذمہ دار تو تم خود ہی ہو ۔ آخر میں ایک ہی فقرے کے اندر کانٹے کی بات بھی فرما دی کہ فِللّٰہ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ، فَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ یعنی تم اپنی معذرت میں یہ حجت پیش کرتے ہو کہ ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ، اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی ۔ پوری بات کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو کہ ” اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“ ۔ بالفاظ دیگر تم خود اپنے انتخاب سے راہ راست اختیار کر نے پر تیار نہیں ، بلکہ یہ چاہتے ہو کہ خدا نے جس طرح فرشتوں کو پیدائشی راست رو بنایا ہے اس طرح تمھیں بھی بنا دے ۔ تو بے شک اگر اللہ مشیت انسان کے حق میں ہوتی تو وہ ضرور ایسا کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی مشیت نہیں ہے ، لہٰذا جس گمراہی کو تم نے اپنے لیے خود پسند کیا ہے اللہ بھی تمھیں اسی میں پڑا رہنے دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

80: یعنی تم تو فرضی دلائل پیش کررہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت پودی کردی ہے اور ان کے بیان کئے ہوئے دلائل دلوں میں اترنے والے ہیں ان کی تصدیق اس حقیقت نے بھی کردی ہے کہ جن لوگوں نے انہیں جھٹلایا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے شکار ہوئے، لہذا یہ بات توصحیح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توسب کو زبردستی ہدایت پر لے آتا لیکن اس سے تمہاری یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوتی تم اپنے اختیار سے پیغمبروں کے ناقال انکار دلائل کو قبول کرکے ایمان لاؤ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:149) الحجۃ البالغۃ۔ دلیل کامل۔ الحجۃ الدلیل۔ البالغۃ اسم فاعل۔ واحد مؤنث۔ پہنچی ہوئی۔ پہنچنے والی (حقیقت کو پہنچنے والی۔ انتہا کو پہنچنے والی۔ دلیل تامہ) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

فوائد صفحہ ہذا۔1 یعنی تم جو یہ عذر پیش کر رہے تو وہ کسی عقلی اروعلمی بنیاد پر قائم نہیں ہے بلکہ محض تخمینہ اور گمان ہے اور اللہ پر بہتان باندھتے ہو ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مگر حق تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں کسی کو توفیق دی کسی کو نہیں دی البتہ اظہار حق اور اعطاء اختیار و ارادہ سب کے لیے عام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ہی کے لیے حجت بالغہ ہے : پھر فرمایا (قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ) (آپ فرما دیجیے ! کہ اللہ ہی کے لیے حجت بالغہ ہے) یعنی اللہ ہی کی حجت پوری ہے اور تمہاری کٹ حجتی غلط ہے۔ (فَلَوْشَآءَ لَھَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لے آتا) لیکن چونکہ حق اور باطل دونوں کے وجود میں آنے اور باہمی ایک دوسرے کے مقابل چلنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں اس لیے اس نے ایصال الی المطلوب والی ہدایت سے سب کو نہیں نوازا، البتہ راہ حق بتانے والی ہدایت سب کے لیے عام ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

167 اَلْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃ وہ واضح دلیل جو قوت و متانت میں انتہاء کو پہنچی ہوئی اور ہر لحاظ سے کامل ہو۔ یعنی مشرکین کے پاس تو کوئی معمولی سی دلیل بھی نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس مضبوط اور محکم دلائل ہیں جن سے اس نے توحید کے ہر پہلو کا اثبات اور شرک کے ہر پہلو کا رد فرمایا ہے فَلَوْشَاءَ لَھَدٰ کُمْ اَجْمَعِیْنَ اس کے بعد وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں (اگرچہ وہ ایسا کرسکتا تھا) کو ین کہ اس طرح امتحان و ابتلاء کی حکمت فوت ہوجاتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

149 اور جب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ان کے پاس کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ انتہائی واضح پوری اور مضبوط دلیل تو اللہ ہی کے لئے پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ ہدایت دکھا دیتا اور تم سب کو راہ پر لے آتا یعنی ایک طرف کوئی سند نہیں اور دوسری طرف مضبوط دلائل موجود ہیں تو اللہ تعالیٰ کا الزام ان پر پورا ہوگیا۔