Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 156

سورة الأنعام

اَنۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اُنۡزِلَ الۡکِتٰبُ عَلٰی طَآئِفَتَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِنَا ۪ وَ اِنۡ کُنَّا عَنۡ دِرَاسَتِہِمۡ لَغٰفِلِیۡنَ ﴿۱۵۶﴾ۙ

[We revealed it] lest you say, "The Scripture was only sent down to two groups before us, but we were of their study unaware,"

کہیں تم لوگ یوں نہ کہو کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is Allah's Proof Against His Creation Allah says; أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَأيِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا ... Lest you should say: "The Book was sent down only to two sects before us, Ibn Jarir commented on the Ayah, "The Ayah means, this is a Book that We sent down, so that you do not say, إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى ... طَأيِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا ("The Book was sent down only to two sects before us)." This way, you will have no excuse. Allah said in another Ayah, وَلَوْلا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُواْ رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتِّبِعَ ءايَـتِكَ Otherwise, they would have suffered a calamity because of what their hands sent forth, and said: "Our Lord! Why did You not send us a Messenger We would then have followed Your Ayat."" (28:47) The Ayah, عَلَى طَأيِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا (to two sects before us), According to Ali bin Abi Talhah who narrated it from Ibn Abbas, refers to the Jews and Christians, Similar was reported from Mujahid, As-Suddi, Qatadah and several others. Allah's statement, ... وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ "...and for our part, we were in fact unaware of what they studied." meaning: `we did not understand what they said because the revelation was not in our tongue. We, indeed, were busy and unaware of their message,' so they said. Allah said next,   Show more

لاف زنی عیب ہے دوسروں کو بھی نیکی سے روکنے والے بدترین انسان ہیں فرماتا ہے کہ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دیئے جیسے فرمان ہے ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُو... ْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْن ) 28- القصص:47 ) ، یعنی اگر انہیں ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو کہدیتے کہ تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے ۔ اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں ۔ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو؟ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 47- القصص28 ) ، یعنی مؤکد قسمیں کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ ہم میں اگر کوئی نبی آ جائے تو ہم ہدایت کو مان لیں ۔ اللہ فرماتا ہے اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آ چکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے ، اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28- القصص:47 ) خود اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ) 4- النسآء:168 ) یعنی جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الٰہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى ) 75- القيامة:31 ) یعنی نہ تو نے مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیر لیا ۔ ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

156۔ 1 یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود و انصاریٰ ہیں۔ 156۔ 2 اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چناچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٩] قرآن کے نزول سے کفار مکہ پر اتمام حجت :۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے یعنی ان کی طرف یہ کتاب دو وجہ سے نازل کی گئی ہے۔ ایک وجہ تو اتمام حجت ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ یہود و نصاریٰ کی طرف جو کتابیں اتاری گئی ہیں وہ تو انہی کے لیے تھیں، سب لوگوں کے لیے تو نہ تھیں کہ ہم بھی ان سے مستفید ہونے کی کوشش ک... رتے۔ اب جو کچھ اور جیسے وہ ان کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے رہے اس کی ہمیں کیا خبر ہوسکتی ہے ؟ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کتابیں تو عجمی زبانوں میں تھیں عربی میں نہیں تھیں لہذا ہم ان کتابوں کو کیسے پڑھ سکتے یا پڑھا سکتے تھے۔ اور دوسری وجہ جذبہ مسابقت ہے یعنی تمہاری طرف کتاب نازل نہ ہونے کی صورت میں تم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے دلوں میں یہ ولولہ اٹھ سکتا تھا کہ اگر ہمارے پاس اللہ کی کتاب آتی تو ہم دوسروں سے بڑھ کر اس پر عمل کر کے دکھا دیتے۔ سو اب جو کتاب تمہاری طرف نازل کی جا رہی ہے وہ کئی لحاظ سے تو تورات سے بہتر ہے اور اب تم اپنی مسابقت کا شوق پورا کرسکتے ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ ۔۔ : تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہماری طرف تو کوئی کتاب آئی ہی نہیں، کتاب تو صرف ہم سے پہلے دو گروہوں یہود و نصاریٰ پر اتری اور وہ صرف ان کے لیے تھی اور انھوں نے ہمیں دعوت بھی نہیں دی کہ ہم ان سے پڑھ کر ایمان لے آتے، بلکہ وہ اسے بنی اسرائیل ہی کے لیے قرار دیتے رہے، ہ... م بھی اسے ان کے ساتھ مخصوص سمجھ کر اور کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے اسے پڑھنے سے بیخبر رہے، ورنہ زبان نہ جاننا تو کوئی معقول عذر نہیں کیونکہ جب معلوم ہوجائے کہ اللہ کا حکم آیا ہے تو آدمی کسی سے سمجھ بھی سکتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝ ٠ ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۝ ١٥٦ ۙ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي...  الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) درس دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب . ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معی مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦) اور یہ اس لیے نازل ہوئی تاکہ قیامت کے دن مکہ والوتم یوں نہ کہنے لگو کہ اہل کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے یہودی و عیسائی تھے، ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم تو توریت وانجیل کے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَآءِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَاص) یہ بالکل سورة المائدۃ کی آیت ١٩ والا انداز ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا : (اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّلاَ نَذِیْرٍز) مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر اور نذیر آیا ہی نہیں تھا۔ اور ... اس احتمال کو رد کرنے کے لیے فرمایا گیا : (فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ ط) پس آگیا ہے تمہارے پاس بشیر اور نذیر۔ کہ ہم نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا ہے آخری کتاب ہدایت دے کر تاکہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے۔ لیکن وہاں اس حکم کے مخاطب اہل کتاب تھے اور اب وہی بات یہاں مشرکین کو اس انداز میں کہی جا رہی ہے کہ ہم نے یہ کتاب اتار دی ہے جو سراپا خیر و برکت ہے ‘ تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ اللہ کی طرف سے کتابیں تو یہودیوں اور عیسائیوں پر نازل ہوئی تھیں ‘ ہمیں تو کوئی کتاب دی ہی نہیں گئی ‘ ہم سے مواخذہ کا ہے کا ؟ (وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ ) ۔ اور وہاں یہ نہ کہہ سکو کہ تورات تو عبرانی زبان میں تھی ‘ جب کہ ہماری زبان عربی تھی۔ آخر ہم کیسے جانتے کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہوا تھا ‘ لہٰذا نہ تو ہم پر کوئی حجت ہے اور نہ ہی ہمارے محاسبے کا کوئی جواز ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

137. The allusion is to the Jews and the Christians.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :137 یعنی یہود و نصاریٰ کو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(156 ۔ 157) ۔ اوپر ذکر تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی اسی طرح اس نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن نازل فرمایا ہے ان آیتوں میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن عربی زبان میں نازل فرمایا ہے تاکہ اہل عرب کو قیامت کے دن کسی عذاب کے پیش کرنے کا ... موقع باقی نہ رہے اور ان لوگوں کے دل میں یہ ہوس بھی نہ رہے کہ ان پر کوئی آسمانی کتاب نازل ہوتی تو یہ لوگ یہودو نصاریٰ سے زیادہ راہ راست پر آجاتے۔ قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے قریش یہ ہوش کیا کرتے تھے جس کا ذکر آیت کے اس ٹکڑے میں ہے او یہ لوگ اور قوموں کی بہ نسبت اپنے آپ کو عقلمند زیادہ سمجھتے تھے اس واسطے آسمانی کتاب کی ہوس کے ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ہم لوگوں پر آسمانی کتاب نازل ہوئی تو اور قوموں سے بڑھ کر ہم راہ راست پر آجاویں گے۔ آگے فرمایا اگر یہ لوگ اپنی اس تمنا اور ہوس میں سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تمنا اور ہوش کے موافق اپنی رحمت سے ان پر ان کی زبان میں یہ قرآن نازل فرمایا ہے جس میں حلال حرام جزا وسزا جنت و دوزخ نجات کے راستے کی ہدایت سب کچھ ہے پھر فرمایا جو کوئی اللہ کی اس رحمت کی قدر نہ کرے گا اور قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے سے خود بھی کنی کی اور لوگوں کو بھی اس نیک راستہ سے روکے گا وہ کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ ایسا شخص اپنے ہی نفس پر بڑا ظلم کرنے کی جرأت کر رہا ہے کیونکہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت سزا بھگتنی پڑے گی صحیح بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) اور مغیرہ بن شعبہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صاحب عذر کا عذر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی رسولوں کو بھیجا تاکہ کسی شخص کو نجات کے راستہ کی انجانی کا عذر باقی نہ رہے صحیح مسلم کے حوالہ سے جریر بن عبداللہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دین میں جو شخص ایسا راستہ نکالے گا جس سے لوگ بد راہ پر لگ جاویں تو ایسے شخص کو قیامت کے دن اس طرح دوسری سزا ملے گی کہ اس کی ذاتی بدعملی کی سزا جدا اور لوگوں کو بہکانے کی سزا جدا۔ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صاحب عذر کے عذر کا سننا بہت پسند رہے اس لئے اس نے عربی میں قرآن نازل فرما کر اہل عرب کی انجانی کا عذر رفع کردیا اب جو کوئی قرآن کو نصیحت خود بھی نہ مانے گا اور لوگوں کو بھی ایسے نیک راہ سے روکے گا تو اس پر قیامت کے دن دہرا عذاب ہوگا :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:156) ان تقولوا۔ ان انزلنہ کی علت ہے یعنی ہم نے اسے نازل فرمایا ۔ تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو ۔ طائفتین۔ یعنی یہود اور نصاری۔ ان کنا۔ ان ثقیلہ سے مخفف ہے۔ وانہ کنا اور یہ کہ ہم (ان کے پڑھنے اور پڑھانے سے بالکل بیخبر تھے) ۔ دراستھم۔ ان اک پڑھنا پڑھانا۔ ان کی تلاوت۔ درس یدرس کا مصدر ہے۔ مضاف ہے۔ ہم ضمیر ج... مع مذکر غائب جو ان کتب کے متعلق ہے جن کا ذکر ابھی ابھی ہوا ہے کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی تھی۔ مضاف الیہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی چونکہ ہم ان کی زبان نہ نانتے تھے۔ اس لیے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے اور ان کے سمجھنے سے قاصر رہے۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 20 ۔ آیات 156 تا 166 ۔ اسرار و معارف : اور اب یہ کتاب ہے یعنی قرآن حکیم جسے ہم نے بہت برکت کے ساتھ نازل فرمایا ہے یعنی کتب سابقہ کا دور ختم ہوا پہلی کتابوں کا انکار نہ کیا جائے گا کہ وہ بھی اللہ کی نازل کردہ تھیں مگر ان پر عمل کا زمانہ بیت چکا اب ساری برکات قرآن کا اتباع کرنے سے ہی نصیب ہو... سکتی ہیں اور اللہ کی عظمت کا احساس کرو تاکہ اللہ تم پر رحم فرمائے اور تمہاری کوتاہیوں اور کمزوریوں کو معاف فرمائے کہیں یہ نہ کہنا کہ اللہ کی کتابیں تو صرف یہود و نصاری پہ ہی نازل ہوئی تھیں جنہیں ہم سمجھنے سے قاصر تھے ان کا پڑھنا پڑھانا ہمارے بس میں ہی نہ تھا زبان اور تھی یا اصل کتب نہ رہیں اور ردوبدل کردیا گیا یا پھر یہ کہو کہ اگر ہمیں اللہ کی کتاب نصیب ہوتی تو عمل کرنے کا حق ادا کردیتے اب تمہارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے جو بہت واضح اور روشن ہے دلائل کے ساتھ بھی اور زندگی کے سوال کا جواب رکھتی ہے درست اور حق اور رحمت الہی کو پانے کا بہت بڑا سبب بھی ہے۔ یعنی خود کتاب کے حق ہونے پر دلائل موجود ساری انسانیت کے لیے اور سب زمانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے اور پھر یہی رحمت الہی کا خزانہ بھی ہے بھلا خود سوچ لو کہ جو انسان اس کتاب سے بھی پھرجائے اور نہ مانے تو اس سے بھی بڑا ظالم بھی کوئی ہوگا۔ یاد رکھو کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر اللہ کی کتاب کو نہ مان کر خود نہ ماننے والے اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں اور عنقریب بہت بڑے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اعاذنا اللہ منھا۔ ختم نبوت : نزول قرآن اور بعثت آقا سے نامدار اس قدر واضح اور روشن دلائل رکھتے ہیں کہ اب مزید کوئی نئی نشانی نازل تہ ہوگی جن بدنصیبوں کو اس پر بھی ایمان نصیب نہیں ہوا تو کیا وہ قیام قیامت کا انتظار کر رہے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد قیامت تک کوئی نئی نبوت یا کتاب نہ آئے گی آپ پر ایمان نہ لانے والوں کو یا تو موت سے سابقہ پڑے گا جس پر فرشتے اور برزخ نظر آنے لگتے ہیں یا قیام قیامت کا جب فرشتے جنت و دوزخ ہر چیز سامنے ہوگی حتی کہ ذات باری تعالیٰ خود میدان حشر میں تشریف فرما ہوں گے تو ایسے وقت میں اگر کفار نے مان بھی لیا تو کیا فائدہ کہ اس وقت ایمان لانا نفع نہ دے گا۔ جب سب کچھ سامنے ہوگا تو کون نہیں مانے گا مگر اب ماننے سے کیا حاصل ماننا تو دنیا کا تھا کہ عقل و شعور کو کام میں لاتے اور اللہ کے نبی کی اطاعت میں یا صاف لفظوں میں اگ رکہا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتماد کرکے مانتے اب موت نے پردے اٹھا دیتے تو انکار کی گنجائش کہاں یا میدان حشر میں پہنچ گئے تو انکار کیسے کرسکیں گے اللہ کریم میدان حشر میں تشریف فرما ہوں گے یہ ہمارا ایمان ہے مگر کیسے یہ سمجھنا عقل و شعور کی رسائی سے باہر لہذا ایمان ضروری اور کیفیت میں بحث ممنوع ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ توبہ کا وقت آخرت سے انکشاف سے پہلے ہے یا بعض نشان دنیا میں بھی ظاہر ہوں گے جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا گویا نظام عالم کی رفتار الٹ جائے گی اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائیگا۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد نشانیاں ارشاد فرمائی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی مگر جب طلوع آفتاب مغرب سے ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا صرف وہ ایمان کام دے گا جو اس سے پہلے نصیب ہوا یا وہ نیکی جو ایمان کے ساتھ کرلی کہ اس کے اگر کسی نے مانا بھی تو اللہ کے رسول پر اعتماد کرکے نہ مانا بلکہ ایسے نشانات سامنے آگئے تو اب انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہی یہی حال موت کے انکشافات کا ہے۔ تو آپ نہ مانئے والوں سے فرما دیجئے انتظار کرو ہم بھی تو انتظار ہی کر رہے ہیں جب وقت آئیگا تو تمہیں میری دعوت کی عظمت اور اپنے انکار کی مصیبت کا پتہ چل جائیگا۔ شیعان علی : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگ دین کے معاملے میں بکھر کر گروہ گروہ بن گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے کوئی تعلق نہیں جس کی واضح مثال یہود و نصاری اور مشرکین ہیں کہ اپنی پسند سے رسومات ایجاد کرکے انہیں مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھا دیا گیا جب انسانی پسند آئی تو لازما اس میں فرق بھی تھا لہذا مختلف آراء کو ماننے والے مختلف مذہب گروہ بن گئے جو سب دین حق سے دور ہوگئے ایسے راہ گم کردہ گروہوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی تعلق نہیں کتاب اللہ کا انداز یہ ہے کتاب اللہ کا انداز یہ ہے کہ گمراہ گروہوں کو شیعہ کہا گیا ہے لہذا یہ گمان کرن ادرست نہیں کہ حضرت علی (رض) نے کوئی گروہ بنا کر اس کا نام شیعان علی رکھا ہوگا یہ خلاف اسلما تحریک کی دسیسہ کاری ہے لفظ شیعہ کا لغوی ترجمہ گروہ ہے مگر قرآن کریم کی اصطلاح میں گمراہ مذہبی فرقے یا گروہ کو شیعہ کہا گیا ہے۔ بدعت کی مصیبت : یہ حاسل صرف ان سے پہلے لوگوں کا ہی نہیں اس امت میں بھی قبول اسلام سے بعد جن لوگوں نے اصول دین میں اپنی رائے اختیار کی اور سنت خیر الانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تعامل صحابہ کو چھوڑا انہیں شیعہ کہا جانا چاہئے اس سے کمتر وہ لوگ ہیں جو رسومات کو باعث ثواب جان کر اختیار کرلیتے ہیں تو ایسے سب لوگ جو بدعت میں مبتلا ہو کر گروہ بندی کا شکار ہوتے ہیں اس ضلالت کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اور یہ اتنی بڑی مصیبت ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہاں تشریح احکام میں حدود شرعی کے اندر رہ کر خلوص کے ساتھ رائے کا اختلاف باعث برکت ہے کہ بات یا حکم کی ہر پہلو سے تعمیل ہوجاتی ہے مگر اغراض فاسدہ کے لیے سلف صالحین کی بابرکت آراء کو ٹھکرا محض حصول شہرت یا دولت کوئی فائدہ نہیں رکھتی کہ اس پر بہت بڑی محرومی مرتب ہوتی ہے کہ ایسا کرنے والوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے جب اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو انہیں ان کے کرتوتوں سے باخبر فرمائے گا۔ ہاں اس کا کرم کتنا وسیع ہے کہ ہر نیکی پر کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے زیادہ جس قدر چاہئے اور یاد رہے ہر وہ کام جو حضور اکرم صلی اللہ علی ہوسلم کی اطاعت میں کیا جائے نیکی ہے ذاتی گھریلو معاشرتی قوم یا بین الاقوامی کسی بھی نوعیت کا ہو نیکی ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خلاف سنت تو جا سنت کے تابع ہو تو کم از کم دس گنا اجر پائے گا اور گناہ کرنے والا صرف اپنے جرم کے مطابق سزا کا مستحق ہوگا کسی پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی کہ نیکی کا اجر ضائع ہو یا برائی پر زائد بوجھ لاد دیا جائے۔ آپ یہ فرما دیجئے کہ مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما دی ہے یعنی نزول وحی سے زندگی کی بہترین راہ متعین فرما دی عقائد سے لے کر اعمال تک اور زندگی سے موت تک ہر بات کا صحیح ترین انداز سکھا دیا اس لیے کہ یہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے زندگی وجود اور روح سے عبارت ہے انسان دنیا میں عقل و خرد سے ایسے کام تو کرسکتا ہے جن سے وجود سلامت رہے مگر روح تک مادی نگاہ کی رسائی ہے نہ مادی عقل کی تو عین ممکن ہے کہ جسم کی ضروریات پوری کرتے کرتے روح کی تباہی کا سامان پیدا کرلے اللہ کریم جس طرح جسموں کے رب ہیں ارواح کے رب بھی وہی ہیں لہذا وحی نازل فرما کر ایسا روشن طرز حیات متعین فرما دیا کہ جسم کی ضرورتیں بطریق احسن پوری ہوں اور ساتھ روح کی بہتری کے اسباب ازخود مہیا ہوتے چلے جائیں مضبوط ترین اللہ کا پسندیدہ راستہ اور یہی راستہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی تھا ملت ابراہیم سے مراد یہ نہیں کہ شریعت مصطفوی ان کی شریعت کے تابع تھی بلکہ مقصد ایک تھا جس پر ان کی ساری زندگی کی کوشش نچھاور ہوئیں اور وہی مقصد حیات دین محمدی میں ہے یہ جو یہودونصاری اپنی اپنی جگہ اور مشرکین عرب اپنی جگہ حضرت ابراہیم کا متبع ہونے کا دعوی کرتے ہیں بلکل غلط اور باطل ہے کہ وہ ہرگز شرک میں مبتلا ہونے والوں میں سے نہ تھے بلکہ اللہ کی راہ پر سیدھے چلنے والوں میں سے تھے۔ آپ فرما دیجئے کہ میری جسمانی عبادتیں میری سب مالی قربانیاں غرض میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے کہ وہی تمام جہانوں کا خالق مالک رازق اور سب ضرورتیں پوری کرنے والا ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ کو مجال دم زدن ہے اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں ہی سب سے پہلا مسلمان یعنی مان کر چلنے والا بھی ہوں کہ وحی الہی سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی اور چشم فلک نے دیکھا کہ روئے زمین پر اللہ کا ایک بندہ کس شدت سے اللہ کی بات کو مان رہا ہے کہ اس کفر کو جس کی ظلمت روئے زمی پر چھا رہی ہے للکار کہہ رہا ہے کہ تیرے دن گنے جا چکے اب انسانوں کے دلوں کو تجلیات باری سے منور کرنے کے لیے میں مبعوث ہوا ہوں اور بلحاظ کیفیت بھی ہمیشہ حضور ہی اول ہیں کہ جس درجہ آپ کا یقین ہے وہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ہے۔ اور اگر ازل سے لیا جائے تو بھی اول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ماننے والے ہیں نادانوں اس عظمت کے ساتھ میں کسی دوسرے کے پاس اپنی حاجات لے جاؤں گا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ رب جلیل کے مقابلے میں کسی نفع کی امید پر یا کسی نقصان کے خوف سے کسی اور سے امید وابستہ کرلوں ہرگز نہیں اس لیے اس کی ذات یکتا ہے اور اس کے علاوہ جو کوئی بھی ہے وہ اس کی مخلوق ہے اور وہ اکیلا سب کا رب ہے پھر کسی دوسرے کو کیسے امیدوں کا مرکز مانا جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھو ہر جرم کرنے والا اپنے فعل کے لیے جوابدہ ہوگا یہ جو تمہارے راہب اور مذہبی بیشوا تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ جو جی میں آئے کرو ہم تمہیں بخشوا لیں گے دھوکہ کرتے ہیں یہ تمہارے حصے کی برائیاں ہرگز نہیں بانٹیں گے اور نہ کوئی دوسرا کسی کے حصے کا بوجھ اٹھا سکتا ہے کہ یہودونصاری میں آج تک رواج ہے جو اس دور میں بھی تھا کہ مذہبی پیشوا ہی فیس لے کر گناہ بخش دیا کرتے تھے بلکہ آج تو ان سے مسلمانوں میں بھی یہ مرض داخل ہوگیا ہے اور نام نہاد پیر لوگوں سے نذرانے لینے کے لیے ناجائز امور میں بھی ان کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں مگر یہ نہ بھولو کہ تمہیں آخرت کا حساب ان لوگوں کے سامنے نہیں دینا بلکہ اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور وہ ایسا قادر ہے کہ تم اپنے بعض گناہ بھول چککے ہوگے مگر اس کے علم میں موجود ہوں گے اور تمہارا سارا عمل تمہارے سامنے کر دے گا پھر تمہیں اپنے اختلافات کی حیثیت کا پتہ چل جائے گا جو تمہیں دین حق کے ساتھ ہیں خواہ تم نے خود گھڑ لیے ہیں یا تمہارے مذہبی پیشواؤں نے تمہیں ان میں مبتلا کردیا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ زمین پر آباد ہونے والے پہلے لوگ تم نہیں ہو تم سے پہلے بھی لوگ آباد تھے مگر چلے گئے اور تمہیں یہاں ان کا جانشین بنا دیا پھر تم میں مختلف درجے مقرر فرما دئیے کوئی پڑھا لکھا ہے تو کوئی ان پڑھ کوئی مزدور اور کوئی مالک کسی کو حکومت بخشی اور کسی کو خدمت پہ لگا دیا اس سب سے تمہاری آزمائش ہی تو مراد ہے کہ کون اپنی ذمہ داری کس طرح پوری کرتا ہے پھر تمہیں بھی یہاں سے جانا ہے دوسرے لوگ آجائیں گے یہ صرف اللہ کا کام ہے جو اکیلا رب ہے اور باقی سب اس کے بندے۔ یاد رکھو اللہ کریم عذاب میں گرفتار کرنا چاہے تو کوئی دیر نہیں لگتی مگر وہ بہت بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنیوالا بھی ہے لہذا وقت کو غنیمت جانو توبہ کرو کہ تمہارے گناہ معاف فرمائے اور اطاعت اختیار کرو کہ تم پر رحم فرمائے۔ الحمدللہ سورة انعام بتوفیق الہی تمام ہوئی۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٥٦ تا ١٥٧۔ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں پیغام دے کر بھیجا گیا اور جب آخری رسالت دنیا میں آئی تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام اقوام عالم کی طرف بھیجا گیا ۔ لہذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں کے لئے آخری رسول ہیں ۔ کیونکہ ان کو تم... ام انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ عربوں پر اللہ نے حجت اس طرح تمام کردی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوموں کی طرف بھیجے گئے اور عرب کہتے تھے کہ ہم ان کی کتابوں کو نہیں پڑھ سکتے تھے ۔ ہم عالم نہ تھے ‘ نہ ہم تک اس دعوت کو پہنچانے کا کوئی اہتمام کیا گیا ۔ اگر ہمارے پاس ہماری زبان میں کوئی کتاب آئی ہوتی تو ہم ضرور ایمان لاتے اور ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے ۔ چناچہ ان کے پاس یہ کتاب آگئی اور رسول بھی آگئے بلکہ یہ رسول تمام جہان والوں کے لئے آگئے ، اس رسول کو ایسی کتاب دی گئی جو خود اپنی سچائی کی دلیل ہے ۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب ۔ پھر اس کتاب میں جو حقائق بیان ہوئے ان میں کوئی التباس یا پیچیدگی نہیں ہے ۔ لوگ جس گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں انکے لئے چراغ روشن ہے اور جن مصیبتوں میں وہ مبتلا ہیں ان کے مقابلے میں رحمت ہے ‘ دنیا کے لئے بھی اور آخرت کے لئے بھی ۔ اگر صورت حال یہ ہے تو پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو ایسی کتاب کی آیات کی تکذیب کرتا ہو یا ان سے منہ موڑتا ہو حالانکہ یہ کتاب صحیح راہ ‘ اصلاح حال اور دنیا وآخرت کی فلاح کی طرف بلاتی ہے ۔ جو شخص اپنے آپ کو اور عوام الناس کو اس کتاب کی برکتوں سے محروم کرتا ہے ‘ اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے ۔ وہی شخص ظالم ہے جو جاہلی تصورات اور خلاف اسلام قانون بنا کر اس زمین پر فساد پھیلاتا ہے ۔ جو لوگ اس کتاب سے روگردانی کرتے ہیں درحقیقت ان کے مزاج میں فساد پوشیدہ ہے جو انہیں اس چشمہ خیر سے دور رکھتا ہے ۔ مثلا اونٹ کے پاؤں میں جب نقص ہو یا بیماری ہو تو وہ ایک طرف جھکتا ہے اور سیدھا نہیں چلتا ۔ (صدف کا یہی مفہوم ہے) یعنی یہ لوگ سچائی سے ایک طرف چلے جاتے ہیں جس طرح ایک بیمار اونٹ ایک طرف جھکا ہوا ہوتا ہے اور سیدھا نہیں چل سکتا ۔ اپنے اس میلان کی وجہ سے وہ برے عذاب کے مستحق ہوں گے ۔ آیت ” سَنَجْزِیْ الَّذِیْنَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوء َ الْعَذَابِ بِمَا کَانُواْ یَصْدِفُونَ (157) ” جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں ‘ انہیں اس روگردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزا دے کر رہیں گے ۔ “ ۔ قرآنی انداز بیان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ عربی زبان کے ایک ایک لفظ کو حسی مفہوم سے بلند کرکے معنوی مدلول کے لئے استعمال کرتا ہے ‘ لیکن یہ استعمال معنوی مفہوم پر اس طرح منطبق ہوتا ہے کہ اصل حسی مفہوم بھی اپنی جگہ درست نظر آتا ہے ۔ اسی طرح (یصدفون) کا استعمال ہوا ہے ۔ (صدف) کے معنی یہ ہیں کہ اونٹ اپنے پاؤں کی بیماری کی وجہ سے ایک طرف جھک کرچکے ۔ اس کی دوسری مثال ہے (الصعر) صعر عربی زبان میں ایک ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جس میں اونٹ کا منہ ایک طرف ٹیڑھا ہوجاتا ہے اور گردن سیدھی نہیں ہو سکتی ۔ یہ بیماری انسانوں کو بھی لاحق ہوتی ہے ۔ قرآن کریم نے اسے بطور تکبر منہ ٹیڑھا کرنے کے لئے استعمال کیا ۔ آیت ” ولا تصعر خدک “۔ (٣١ : ١٨) منہ کو ٹیڑھا نہ کرو ‘ تکبر نہ کرو ‘ اس کی تیسری مثال خبط کی ہے ۔ خبط کے معنی ہیں کسی جانور کا زہریلی گھاس کھا کر پھول جانا ۔ خطبت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی زہریلی گھاس چر کر پھول جائے ۔ قرآن نے یہ لفظ بےمقصد اور بغیر ایمان کے اعمال کے لئے استعمال کیا ہے ۔ جس میں بظاہر اعمال بڑے نظر آئیں ۔ اس قسم کے استعمال کی بیشمار قرآن میں ہیں۔ اب بات ذرا آگے بڑھتی ہے اور اس کتاب کے آجانے کے بعد اب یہ لوگ مزید خوارق عادت واقعات اور معجزات طلب کرتے ہیں تاکہ وہ اسے تسلیم کرلیں ۔ اس قسم کی تہدید سورة کے آغاز میں بھی تھی جہاں اسلامی نظریہ توحید اور عقائد کو تسلیم نہ کرنے پر تہدید دی گئی تھی اور یہاں یہ تہدید اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے کی مناسبت سے دوبارہ دہرائی گئی ہے ۔ ابتداء میں یہ کہا گیا تھا : آیت ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8) ” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “ یہاں اسی مضمون کو دہرایا گیا :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل عرب کی کٹ حجتی کا جواب : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جو یہ کتاب نازل کی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہم سے پہلے دو جماعتوں پر کتاب نازل ہوئی تھی (یعنی یہود و نصاریٰ پر) اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے غافل تھے وہ ہماری زبان میں نہ تھی لہٰذا ہم اس سے استفادہ نہیں کرسکتے اللہ تعالی... ٰ نے قرآن مجید نازل فرما کر اس عذر کو ختم کردیا۔ اور یہ بھی ممکن تھا کہ تم یوں کہتے کہ ہمیں کتاب نہیں دی گئی اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو ہم خوب اچھی طرح عمل کرتے اور ہم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی عمل کرنے میں ان سے بڑھ چڑھ کر ثابت ہوتے۔ اور ان کے مقابلہ میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

177 یہ اصل میں تھا کراھیۃ ان تقولوا یا لئلا تقولوا۔ طائفتین سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ یعنی یہ کتاب (قرآن مجید) تم پر اتمام حجت کے لیے نازل کی تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہم سے پہلے یہود ونصاریٰ پر تورات وانجیل نازل ہوئی اور ہم ان کی تعلیم سے بیخبر تھے یا یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ یہود ونصاریٰ کی طرح اگر ہم پ... ر بھی کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے بڑھ کر آسمانی کتاب کی پیروی کرتے اور ان سے بڑھ چڑھ کر راہ ہدایت پر گامزن ہوتے فَقَدْ جَآءَکُمْ بَیِّنَۃٌ الخ لہذا اتمام حجت کے طور پر اللہ کی طرف سے تمہارے پاس کتاب آچکی ہے۔ جو کھلے دلائل سے بھرپور ہے اور سیدھی راہ دکھاتی ہے اور جس کی پیروی باعث رحمت ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

156 اور یہ کتاب ہم نے اس لئے نازل فرمائی تاکہ تم قیامت میں یوں نہ کہہ سکو کہ آسمانی کتاب تو صرف یہود و نصاریٰ کے دو فرقوں پر نازل کی گئی تھی جو ہم سے پہلے ہو گزرے تھے اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بیخبر تھے یعنی ہم پر تو کتاب نازل نہیں ہوئی یہود و نصاریٰ کے درس و تدریس کا ہم کو علم نہ تھا تو ہم...  کو توحید و رسالت کا پتہ کیونکر لگتا اس لئے ہم ایمان لانے سے معذور تھے۔  Show more