Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 158

سورة الأنعام

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ یَاۡتِیَ رَبُّکَ اَوۡ یَاۡتِیَ بَعۡضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ؕ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ بَعۡضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنۡفَعُ نَفۡسًا اِیۡمَانُہَا لَمۡ تَکُنۡ اٰمَنَتۡ مِنۡ قَبۡلُ اَوۡ کَسَبَتۡ فِیۡۤ اِیۡمَانِہَا خَیۡرًا ؕ قُلِ انۡتَظِرُوۡۤا اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾

Do they [then] wait for anything except that the angels should come to them or your Lord should come or that there come some of the signs of your Lord? The Day that some of the signs of your Lord will come no soul will benefit from its faith as long as it had not believed before or had earned through its faith some good. Say, "Wait. Indeed, we [also] are waiting."

کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی ( بڑی ) نشانی آئے جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ۔ ہو آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers Await the Commencement of the Hereafter, or Some of its Portents Allah sternly threatens the disbelievers, those who defy His Messengers, deny His Ayat and hinder from His path, هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيهُمُ الْمَليِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ ... Do they then wait for anything other than that the angels should come to them, or that your Lord (Allah) should come... on the Day of Resurrection, ... أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ ايَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ ايَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا ... or that some of the signs of your Lord should come! The day that some of the signs of your Lord do come no good will it do to a person to believe then. Before the commencement of the Day of Resurrection, there will come signs and portents of the Last Hour that will be witnessed by the people living at that time. In a section explaining this Ayah, Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لاَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا رَاهَا النَّاسُ امَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَلِكَ حِين The Last Hour will not commence until the sun rises from the west. When the people witness that, they will all believe. This is when. ... لااَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ امَنَتْ مِن قَبْلُ ... no good will it do to a person to believe then, if he believed not before. Ibn Jarir recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, ثَلَثٌ إِذَا خَرَجْنَ لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ امَنَتْ مِنْ قَبْل أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّةُ الاَْرْض Three, if they appear, then a soul will not benefit from its faith, if it had not believed before or earned good in its faith: when the sun rises from the west, Ad-Dajjal and the Beast of the earth. Ahmad also recorded this Hadith, and in his narration, the Prophet mentioned the Smoke. Imam Ahmad recorded that `Amr bin Jarir said, "Three Muslim men sat with Marwan in Al-Madinah and they heard him talking about the signs (of the Last Hour). He said that the first sign will be the appearance of Ad-Dajjal. So these men went to Abdullah bin `Amr and told him what they heard from Marwan about the signs. Ibn `Amr said, Marwan said nothing. I remember that I heard the Messenger of Allah saying, إِنَّ أَوَّلَ الاْياتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ ضُحًى فَأَيَّتُهُمَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالاُْخْرَى عَلَى أَثَرِهَا The first of the signs to appear are the sun rising from the west and the Beast that appears in the early morning. Whichever comes before the other, then the second sign will appear soon after it." Then Abdullah said - and he used to read the Scriptures - "And I think the first of them is the sun rising from the west. That is because when it sets it comes under the Throne, prostrates and seeks permission to return. So it is permitted to return until Allah wants it to rise from the west. So it does as it normally would, it comes beneath the Throne, it prostrates and seeks permission to return. But it will get no response. Then it will seek permission to return (again), but it will get no response, until what Allah wills of the night to pass goes by, and it realizes that if it is permitted to return it would not (be able to) reach the east. It says; `My Lord! The east is so far, what good would I be to the people' Until the horizons appear as a (lightless) ring, it seeks permission to return and is told; `Rise from your place,' so it rises upon the people from where it set." Then he recited, ... لااَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ امَنَتْ مِن قَبْلُ ... no good will it do to a person to believe then, if he believed not before, This was also recorded by Muslim in his Sahih, and Abu Dawud and Ibn Majah in their Sunans. Allah's statement, ... لااَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ امَنَتْ مِن قَبْلُ ... no good will it do to a person to believe then, if he believed not before, means, when the disbeliever believes then, it will not be accepted from him. As for those who were believers before, if they earned righteous deeds, they will have earned a great deal of good. If they had not done good nor repented before then, it will not be accepted from them, according to the Hadiths that we mentioned. This is also the meaning of Allah's statement, ... أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ... ...nor earned good through his faith. meaning, one's good deeds will not be accepted from him unless he performed good deeds before. Allah said next, ... قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ Say: "Wait you! We (too) are waiting." This is a stern threat to the disbelievers and a sure promise for those who delay embracing the faith and repenting until a time when faith or repentance shall not avail. This will occur when the sun rises from the west because the Last Hour will then be imminent and its major signs will have begun to appear. Allah said in other Ayat, فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَأءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَأءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ Do they then await (anything) other than the Hour, that it should come upon them suddenly! But some of its portents have already come; and when it is upon them, how can they benefit then by their reminder! (47:18) and, فَلَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا قَالُواْ ءَامَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَـفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَـنُهُمْ لَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا So when they saw Our punishment, they said: "We believe in Allah alone and reject (all) that we used to associate with Him as partners." Then their faith could not avail them when they saw Our punishment. (40:84-85)

قیامت اور بےبسی اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار ، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا ، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دجال کا آنا ، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا ۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے ۔ حضرت ابو ذر سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوجھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہدیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بےنفع ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں حضور بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم کا آنا اور دجال کا نکلنا ، مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبر دست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہ گی ( مسلم وغیرہ ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گذاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہو گی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہو گا ۔ ( ابن مردویہ ) ایک حدیث میں حضور کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے ، ایک روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی یہی ہو گی اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے اور حدیث میں ہے لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہو گی اسے تہجد گذار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کر دین گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ ناگہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہو گیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہو گا ، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں اور روایت میں ہے کہ تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی ، حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الٰہی سے مغرب سے ہی نکلنا ہو گا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت تلات فرمائی ، طبرانی میں ہے کہ جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الہی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی ، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے اللہ اعلم ۔ حضور فرماتے ہیں ہجرت منقطع نہ ہو گی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے کہ بہت سے نشانات گذر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں ، سورج کا نکلنا دجال دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے ۔ ایک طویل مرفوع غیب منکر حدیث میں ہے کہ اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے ۔ اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعوی اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے ۔ ہاں ابن عباس یا وہیب بن منبہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا کاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بےسود ہو گا ، ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہو گا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہو گی جیسے کہ پہلے حدیثیں گذر چکیں برے لوگوں کے نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لیں گے بعد کام نہ آئیں گے ۔ پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی ہوتا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں جیسے اور آیت میں ہے ( ھل ینظرون الا الساعتہ ) الخ ، قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہے اس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آچکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں؟ اور آیت میں ہے ( فلما راوا باسنا ) ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بےسود ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے اس وقت یہ ایمان لائیں گے، یا آپ کا رب ان کے پاس آئے۔ یعنی قیامت برپا ہوجائے اور اللہ کے ربرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے ؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے، جیسے قیامت کے قریب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا، تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے۔ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لاینفع نفسا ایمانھا لم تکن اٰمنت من قبل۔ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ 158۔ 2 یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہ ہوگا۔ 158۔ 3 اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیر مقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨١] فرشتہ آئے یا پروردگار، عام انسان ان کے دیدار تک کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورتوں میں اس پر فوراً موت واقع ہوجائے گی اور موت کے وقت کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور اگر انسان کوئی ایسا حسی معجزہ دیکھ لے جو اسے ایمان لانے پر مجبور بنا دے تو ایسا جبری ایمان بھی قابل قبول نہیں کیونکہ ایسی صورتوں میں ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں اور فائدہ ایمان بالغیب کا ہے۔ موجود اور آنکھوں دیکھی چیز پر تو سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ جب حقیقت سے پردہ اٹھ گیا تو پھر ایمان کے کیا معنی ؟ لہذا یقینی چیز یا کوئی یقینی علامت دیکھنے کے بعد اس پر ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو قیامت قائم نہ ہوگی۔ پھر جب لوگ سورج کو مغرب سے نکلتا دیکھ لیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر اس وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ && (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && جب تین چیزیں ظاہر ہوں گی تو کسی کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو۔ دجال اور دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور موت کے وقت ایمان کے فائدہ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ دو باتوں پر ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایمان کے زبانی اقرار کی تصدیق تو اعمال صالحہ سے ہی ہوسکتی ہے۔ اور مرنے والے کو عمل کا وقت ہی نہیں ملتا لہذا مرتے وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ : کفار پر اسلام کے حق ہونے کے دلائل تو پوری طرح واضح ہوچکے تھے، مگر وہ صرف لاجواب کرنے کے لیے ایسی چیزیں دکھانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جن کا دنیا میں ہوتے ہوئے دکھایا جانا ممکن ہی نہیں، کیونکہ ان کے آنے کے بعد اپنے اختیار سے غیب پر ایمان کا موقع ہی باقی نہیں رہتا، نہ ان کے آنے کے بعد کسی کی مجال ہے کہ وہ ایمان نہ لائے، مگر اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ ان مطالبات کا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں اکٹھے نو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، جن میں نہایت گستاخانہ مطالبہ خود اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کا تھا : ( اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بنی إسرائیل : ٩٢ ] ” یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “ سورة فرقان میں بھی یہ مطالبہ ذکر فرمایا، جیسا کہ فرمایا : (ا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ ) [ الفرقان : ٢١ ] ” ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے ؟ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان پر حجت تو پوری ہوچکی، یعنی : ( فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ ) [ الأنعام : ١٥٧ ] اب دلیل کی تو نہ انھیں ضرورت ہے نہ ان کا مطالبہ، اب اس کے سوا انھیں کیا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں، یا تیرا رب خود آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آجائے۔ مگر فرشتے آئے تو موت یا عذاب لے کر آئیں گے، پھر ایمان کی مہلت کہاں ؟ جیسا کہ فرمایا : (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) [ الحجر : ٨ ] ” ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔ “ اور اللہ تعالیٰ آئے گا تو قیامت کے دن فیصلے کے لیے فرشتوں کے ساتھ آئے گا : (كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكا، وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢١، ٢٢ ] ” ہرگز نہیں، جب زمین کوٹ کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “ پھر تو دنیا کا کام ہی تمام ہوجائے گا، فرمایا : (ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ ) [ البقرۃ : ٢١٠ ] ” وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اللہ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام تمام کردیا جائے۔ “ اور تیرے رب کی بعض نشانیوں سے مراد خاص نشانیاں ہیں، جن کی تفصیل آرہی ہے۔ بعض لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے آنے کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے آنے کا مطلب اس کے حکم کا یا عذاب کا آنا ہے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان کو پیدا فرما کر عرش پر بلند ہونے کے بھی منکر ہیں اور اس کے آسمان دنیا پر اترنے کے بھی، بلکہ عرش کو بھی نہیں مانتے۔ سورة حاقہ (١٧) میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا عرش آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔ یہاں لاجواب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ متشابہات سے ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا آنا پھر بھی نہیں مانتے۔ اللہ کے بندو ! تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سے بھی عاجز سمجھ لیا کہ تم اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہو جاؤ، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی مرضی سے آنا جانا ممکن ہی نہیں مانتے۔ یہ سب نتیجہ یونانی فلسفے اور ان کے خدا کے متعلق تصورات سے متاثر ہونے کا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، قیامت کے دن زمین پر آئے گا اور زمین اس کے نور سے روشن ہوجائے گی، مگر اس کا آنا مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ اس طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ : اس سے مراد صحیح احادیث کے مطابق قیامت کے قریب نمودار ہونے والی چند نشانیاں ہیں، جن میں سے سب سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگا، جب اسے لوگ دیکھیں گے تو جو بھی زمین پر ہوں گے ایمان لے آئیں گے، تو یہ وہ وقت ہوگا جب کسی جان کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہوگی۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب ( لا ینفع نفسا إیمانہا ) : ٤٦٣٥ ] ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین نشانیاں جب نمودار ہوں گی تو کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا آنا اور زمین سے جانور کا نکلنا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الإیمان : ١٥٨ ] عبد اللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلے نکلنے والی نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا ہے اور زمین سے ایک جانور کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا ہے۔ دونوں میں سے جو بھی پہلے ہوئی دوسری قریب ہی اس کے پیچھے ہوگی۔ “ [ مسلم، الفتن، باب فی خروج الدجال و مکثہ فی الأرض۔۔ : ٢٩٤١ ] اس جانور کا ذکر سورة نمل (٨٢) میں بھی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مراد قیامت کی کوئی بھی بڑی نشانی ہے جس کے بعد اختیار ختم ہوجائے گا اور ایمان لانے اور توبہ کرنے کے بغیر چارہ ہی نہیں رہے گا، البتہ اکثر اہل ایمان کا رجحان مغرب سے سورج طلوع ہونے کی طرف ہے، جیسا کہ ہمارے استاد مولانا محمد عبدہٗ (رح) نے صرف اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ ۔۔ : طبری (رض) نے فرمایا کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی کافر کو جو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے ایمان نہ لایا ہو اس کے طلوع ہونے کے بعد اس کا ایمان لانا اسے کوئی نفع نہیں دے گا اور کسی مومن کو بھی، جس نے طلوع سے پہلے نیک عمل نہ کیا ہوگا طلوع کے بعد وہ اسے نفع نہیں دے گا، کیونکہ اس وقت ایمان اور عمل کا حکم اس شخص کے ایمان و عمل جیسا ہے جو موت کے غرغرہ کے وقت ایمان لائے یا عمل کرے، جبکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ) [ المؤمن : ٨٥ ] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ “ اور جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کا غرغرہ ( موت کے وقت گلا بولنا) شروع نہ ہو۔ (ترمذی : ٣٥٣٧) اور ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ جب کافر اس دن ایمان لائے گا تو اس سے قبول نہیں ہوگا لیکن جو اس سے پہلے مومن ہوگا تو اگر اپنے عمل میں درست ہوگا تو وہ بہت بڑی بھلائی پر ہوگا اور اگر درست نہیں ہوگا اور اس وقت توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور یہی مطلب ہوگا ( اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ۭ ) کا، یعنی اس کا نیک عمل اس وقت قبول نہیں ہوگا جب وہ اس سے پہلے اسے کرنے والا نہ ہوگا۔ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ : ایمان لانے اور نافرمانی ترک کرنے میں دیر کرنے والوں کے لیے شدید دھمکی ہے۔ دیکھیے سورة محمد (١٨) اور سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The major portion of Surah Al-An` am has been revealed to correct the beliefs and deeds of the people of Makkah and the disbelievers of Arabia and to remove their doubts and to answer questions raised by them. All through the Surah, specially in the previous verses, the people of Makkah and the rest of Arabia were given to understand that they had seen open signs and miracles at the hands of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . They had heard about the prophesies of past books and prophets about him. Then, they had themselves listened to the recita¬tion of the Qur&an from one totally unlettered (Ummiyy) - a standing miracle on its own. Now the avenues of truth lay open before them. The argument of Allah Ta` ala stood conclusively established against them. Believing was all they needed to do. What else could it be they were waiting for before they would do that? This subject was eloquently put in the cited verse by saying: هَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَ‌بُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَ‌بِّكَ (They are waiting for nothing less than that the angels come to them or comes your Lord or come some signs of your Lord). In other words, it means: ` Are these people waiting to believe only when the angels of death reach them, or are they waiting to be on the plains of Resurrection when Allah Ta` ala will come to decide destinies, or are they waiting to see some last signs of the coming of the fateful Day of Doom. That the most exalted Rabb of all shall appear on the Judgment Day has been mentioned in several verses of the Holy Qur&an. Speaking in the same terms, a verse from Surah Al-Baqarah says: هَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ‌ They are looking forward to nothing but that Allah comes upon them in canopies of clouds with the angels ter is closed - 2:210. The state in which Allah Ta` ala shall appear on the Judgment Day cannot be conceived by human imagination. Therefore, in the case of such verses, the standard creed of the noble ha-bah and righteous elders of the Muslim Ummah is that one should believe in what has been mentioned in the Qur&an, have faith in it, then resign the matter of how it shall come to pass to Divine knowledge. For instance, in the case of the verse quoted above, one should be certain that Allah Ta` ala will be present on the Day of Judgment - without having to worry about the state and orientation in which this would happen. Next in the verse, it was said: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَ‌بِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرً‌ا (The day some signs of your Lord come, the believing of a per-son will be of no use to him who had never believed before, or had not earned some good through his faith). The warning given here is that, as soon as some of these signs of Allah appear, the doors of Taubah (repentance) will be closed. Anyone who had not come to believe before this happens will find his or her declar¬ation of faith after that as unacceptable. As for a person who had believed before but had done nothing by way of good deeds will find that his or her act of Taubah and the resolve to be good in future deeds - af¬ter these signs - are not acceptable. In short, that will be ominous time when the Taubah of a disbeliever from his disbelief and the Taubah of a sinner from his sin and disobedience, even if offered, will not be ac¬cepted. The reason is that &Iman (faith) and Taubah (repentance) can be ac¬cepted only upto the time it remains within the choice of a person. Once Divine punishment and the reality of the-life-to-come become open to perception, every human being stands compelled to believe and abstain from sin. A faith under duress and a repentance under threat are not acceptable. There are many verses of the Qur&an which mention how the peo¬ple condemned to Hell will start wailing on arrival there. They will make big promises that should they be returned back to the mortal world, they would do nothing but believe and be good in deeds. But, the answer given to them will be: The time for belief and deed is over. What you are saying now is because you have no other choice. This is not valid. Explaining this verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said : When comes the last among the signs of the Qiyamah and the sun will rise from the West instead of the East seeing which the disbelievers of the whole world will start saying that they now believe. All those who had been disobedient will turn into the obedient ones. But, at that time, no believing and no repenting will remain worth accepting. (Al-Baghawi on authority from Sayyidna Abu Hurairah (رض) . However, what we do know from the Qur&anic explanation is the fact that there will be the manifestation of some signs following which the door of Taubah (repentance) will be closed - no Taubah from a dis¬believer or sinner will be accepted after that. But, the Qur&an itself has not made it clear as to what that sign is. In the Tafsir of this verse, there is a Hadith narrated by Sayyidna Abu Hurairah رضی اللہ تعالیٰ عنہ appearing in Sahih al-Bukhari where the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been reported to have said: ` Qiyamah will not stand established until passes the event that the sun rises from the West. When people see this sign, they will all believe. This will be the time about which the Qur&an says - believing then will not benefit anyone.& The following details about it have been reported in Sahib Muslim as based on a narration from Sayyidna Hudayfah ibn Usayd (رض) . Once the Sahabah were talking among themselves about the signs of Qiyamah when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came in. At that time, he said: Qiyamah will not come in fact until you have seen ten signs: (1) The sun rising from the West, (2) a particular kind of smoke, (3) the animal of the earth, (4) the coming out of Gog and Magog, (5) the coming of ` Isa (علیہ السلام) (6) the coming of Anti-Christ (Dajjal), (7) the sinking of land at three places - in the East ..., (8) in the West, and ... (9) in the Arabian Peninsula, and (10) a fire which will emerge from an abyss in Eden and will move driving people ahead of it. And in the Musnad of Ahmad, it has been reported on the authority of Sayyidna Ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Out of these signs, the first to come will be the rising of the sun from the West, and the appearance of the animal of the earth. Imam Al-Qurtubi, in his Tazkirah, and Hafiz ibn Hajar, in Sharh al-Bukhari, while citing a narration from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) have also reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: After this event, that is, after the rising of the sun from the West, the world will keep surviving for one hundred and twenty years. (Ruh al Ma&ani) After these details, there is a question. According to authentic re¬ligious reports, when Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) will return to the world, he will invite people to believe. People would believe. Islam will become the religion of the world. It is obvious that, should believing at that time remain unacceptable, this call and the entry of people in the fold of Islam would become meaningless. In Tafsir Ruh al-Ma&ani, commentator Alusi answers this by saying that the event of the sun rising from the West will take place after the passage of a long time since the appearance of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) - and that would be the time when the door of Taubah will close. ` Allamah Balqini and others say that it is not improbable that this prohibition of faith and repentance being unacceptable, as tied with the rising of the sun from the West, may not remain operative through the last period. It could be that this restriction changes after the pas-sage of some time, and faith and repentance start being acceptable again. (Ruh al-Ma&ani) (Allah knows best) To sum up, it can be said that: Though, the sign after the appear¬ance of which Taubah will not be acceptable has not been clarified in the present verse, but, from the statement of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it has become evident that it means the rising of the sun from the West. Then, remains the question: Why has the Qur&an itself left it un¬-clarified? According to Tafsir Al-Bahr Al-Muhit, the very ambiguity of the Qur&an at this place is more suited to the task of putting heedless human beings on alert so that they could draw their essential lesson from all forthcoming events of ominous nature and hasten to repent and correct their course of life. In addition to that, in this ambiguity and brevity, there is the ad-vantage that everyone will be alerted to the danger that the way the door of repentance shall be closed when the sun rises from the West for all human beings, the same way it happens in a miniaturized form when, for everyone personally and individually, the door of Taubah is shut close for one at the time of death. This phenomena has been de-scribed in another verse of the Holy Qur&an clearly as well: وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ‌ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ And Taubah is not accepted from those who keep committing sins until death visits one of them and they say, ` now I repent - 4-18.& Explaining this, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِنَّ تَوبۃَ العَبدِ تُقبَلُ مَا لَم یُغرغِر The Taubah of a servant of Allah continues being accepted un¬til comes the agony of death (when Ruh comes into the throat and creates a recognizable, parting, hurtling, sound). This tells us that at the time when man is taking his last breath and the soul is about to depart from the body - since angels of death come in sight - even then, repentance is not accepted. It is obvious enough that this state of affairs too is a significant sign from Allah. Therefore, included under this verse is this time of death as well as it is also in the saying of some ` Ulama& and other pious elders reported in Al-Bahr Al-Muhit: مَن مَاتَ فقَد قامت قِیَامَتہ that is, ` whoever dies, his Day of Doom (Qiyamah) has dawned at that very instant.& This is so because the place and time of deeds is all over. What one expects in return for his deeds in his mortal life, he would start seeing a sample from it right from the time he has been lowered into his grave. The Persian poet, Sa&ib has put it pithily in poetry: تَوبَہ ہارا نفس باز پسیں دست زدست بیخبر دیر رسیدی درمحمل بستند Your repentance after the last breath stands rejected Unaware man, you are late, the door of the beloved is closed. Worth noting here is the nuance of the Arabic language in that it was first said in the verse اَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَ‌بِّكَ (or come some signs of your Lord) and then, by repeating the same sentence, it was said: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَ‌بِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا (The day come some signs of your Lord, the believing of a person shall be of no use to him). It will be noticed that no pronoun has been used here to make the statement brief. This seems to suggest that: بَعْضُ آيَاتِ (Ba` edu Ayat: some signs) mentioned first are not the same as those mentioned in: بَعْضُ آيَاتِ (Ba` edu Ayat: some signs) of the second sentence, that is, they are different from each other. This may be a hint towards the substance of the narration from Sayyidna Hudhayfah ibn Usayd (رض) you have read a little earlier in which he has enumerated ten important signs of the coming of Qiyamah, the last of them being the rising of the sun from the West which is symbolic of the discontinuation of the acceptance of Taubah. At the end of the verse, it was said: قُلِ انتَظِرُ‌وا إِنَّا مُنتَظِرُ‌ونَ (Say, |"Wait, of course, we are waiting|" ). The address here is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He is being asked to tell those people that they, despite the arguments of Allah conclusively established against them, still wish to wait for death or the Day of Doom (Qiyamah), then, they are welcome to it. They can wait if they must. As for us, we too shall be waiting to see what their Rabb decides to do with them.

خلاصہ تفسیر یہ لوگ (جو کہ بعد نزول کتاب و سنت و بینات و وضوحِ حق کے بھی ایمان نہیں لاتے اپنے ایمان لانے کے لئے) صرف اس امر کے منتظر (معلوم ہوتے) ہیں (یعنی ایسا توقف کر رہے ہیں جیسے کوئی انتظار کر رہا ہو) کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا ان کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آوے (جیسا قیامت میں حساب کے وقت واقع ہوگا) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی کوئی بڑی نشانی (منجملہ قیامت کی نشانیوں کے) آوے (مراد اس بڑی نشانی سے آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، مطلب یہ ہوا کہ کیا ایمان لانے میں قیامت کے وقوع یا قرب کا انتظار ہے سو اس کے متعلق سن رکھیں کہ) جس روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی (یہ) بڑی نشانی (مذکور) آپہنچے گی (اس روز) کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا ہو (بلکہ اسی روز ایمان لایا ہو) یا (ایمان تو پہلے سے بھی رکھتا ہو، لیکن) اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (بلکہ اعمال بد اور گناہوں میں مبتلا ہو، اور اس روز ان سے توبہ کرکے اعمال نیک شروع کرے تو اس کی توبہ قبول نہ ہوگی، اور اس سے قبل اگر معاصی سے توبہ کرتا تو مومن ہونے کی برکت سے توبہ قبول ہوجاتی، تو قبول توبہ منجملہ منافع ایمان کے ہے، اس وقت ایمان نے یہ خاص نفع نہ دیا اور جب علامت قیامت مانع ہوگئی قبول ایمان و توبہ سے تو خاص وقوع قیامت تو بدرجہ اولیٰ مانع ہوگا، پھر انتظار کا ہے کا، اور اگر اس توبیخ پر بھی ایمان نہ لاویں تو) آپ (تہدید مزید کے طور پر) فرما دیجئے کہ (خیر بہتر) تم (ان امور کے) منتظر رہو (اور مسلمان نہیں ہوتے تو مت ہو) ہم بھی (ان امور کے) منتظر ہیں (اس وقت تم پر مصیبت پڑے گی، اور ہم مومن انشاء اللہ تعالیٰ ناجی ہوں گے) ۔ معارف و مسائل سورة انعام کا اکثر حصہ اہل مکہ اور مشرکین عرب کے عقائد اور اعمال کی اصلاح اور ان کی شبہات اور سوالات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔ اس تمام سورة اور خصوصاً پچھلی آیات میں مکہ اور عرب کے باشندوں پر واضح کردیا گیا کہ تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات و بینّات دیکھ چکے، پچھلی کتابوں اور پہلے انبیاء کی پیشینگوئیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق سن چکے، پھر ایک اُمِّی محض کی زبان سے قرآن کی آیات بینات سن چکے، جو ایک مستقل معجزہ بن کر آیا، اب حق و صدق کی راہیں تمہارے سامنے کھل چکیں، اور خدا تعالیٰ کی حجت تم پر تمام ہوچکی، اب ایمان لانے میں کس چیز کا انتظار ہے۔ اس مضمون کو اس آیت مذکورہ میں نہایت بلیغ پیرایہ میں اس طرح بیان فرمایا ، (آیت) هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ، ” یعنی یہ لوگ کیا ایمان لانے میں اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کے فرشتے ان کے پاس پہنچ جائیں، یا میدان حشر کا انتظار کر رہے ہیں کہ جس میں جزاء و سزا کے فیصلہ کے لئے اللہ تعالیٰ آئے گا، یا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت کی بعض نشانیاں دیکھ لیں، رب کریم کا میدان قیامت میں فیصلہ کے لئے تشریف فرما ہونا قرآن مجید کی کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے، سورة بقرہ میں اسی مضمون کی آیت اس طرح آئی ہے : (آیت) ہل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملئکۃ وقضی الامر، ” یعنی کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس آجائے اور فرشتے آجائیں اور لوگوں کے لئے جنت و دوزخ کا جو فیصلہ ہونا ہے وہ ہو جائے “۔ اللہ تعالیٰ کا میدان قیامت میں تشریف فرما ہونا کس شان کس کیفیت کے ساتھ ہوگا اس کا عقل انسانی احاطہ نہیں کرسکتی، اس لئے صحابہ کرام اور اسلاف امت کا مسلک اس قسم کی آیات کے متعلق یہ ہے کہ جو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے اس پر ایمان لایا جائے اور یقین کیا جائے اور اس کی کیفیات کو علم الٓہی کے حوالہ کیا جائے، مثلاً اس آیت میں یہ یقین کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ میدان قیامت میں فیصلہ جزاء و سزاء کے لئے تشریف فرما ہوں گے، اور اس میں بحث اور فکر نہ کی جائے کہ کس کیفیت اور کس جہت میں ہوں گے۔ اس آیت میں آگے ارشاد فرمایا : (آیت) يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ، اس میں متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں سامنے آجانے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا اب ایمان لائے گا تو قبول نہیں ہوگا، اور جو شخص ایمان تو لا چکا تھا مگر عمل نیک نہیں کئے تھے وہ اب توبہ کرکے آئندہ نیک عمل کا ارادہ کرے گا تو اس کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی، خلاصہ یہ ہے کہ کافر اپنے کفر سے یا فاسق اپنے فسق و معصیت سے اگر اس وقت توبہ کرنا چاہے گا تو وہ توبہ قبول نہ ہوگی۔ سبب یہ ہے کہ ایمان اور توبہ صرف اس وقت تک قبول ہو سکتی ہے جب تک وہ انسان کے اختیار میں ہے، اور جب عذاب الٓہی کا اور حقائق آخرت کا مشاہدہ ہوگیا تو ہر انسان ایمان لانے میں اور گناہ سے باز آنے پر خود بخود مجبور ہوگیا، مجبوری کا ایمان اور توبہ قابل قبول نہیں۔ قرآن مجید کی بیشمار آیات میں مذکور ہے کہ اہل دوزخ دوزخ میں پہنچ کر فریاد کریں گے، اور بڑے بڑے وعدے کریں گے اگر ہمیں اب دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے تو ہم ایمان اور عمل صالح کے سوا کچھ نہ کریں گے، مگر سب کا جواب یہی ہوگا کہ ایمان وعمل کا وقت ختم ہوچکا، اور اب جو کچھ کہہ رہے ہو مجبور ہو کر کہہ رہے ہو اس کا اعتبار نہیں۔ اسی آیت کی تفسیر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جس وقت قیام کی آخری نشانیوں میں یہ نشانی ظاہر ہوگی کہ آفتاب مشرق کے بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا، اور اس کو دیکھتے ہی سارے جہان کے کافر ایمان کا کلمہ پڑھنے لگیں گے اور سارے نافرمان فرمان بردار بن جائیں گے، لیکن اس وقت کا ایمان اور توبہ قابل قبول نہ ہوگا (بغوی بسندہ عن ابی ہریرة (رض) ۔ اس آیت میں اتنی بات تو قرآنی تصریح سے معلوم ہوگئی کہ بعض نشانیاں ایسی واقع ہوں گے، جن کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، کسی کافر یا فاسق کی توبہ قبول نہ ہوگی، لیکن قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی، کہ وہ کونسی نشانی ہے۔ صحیح بخاری میں اسی آیت کی تفسیر میں بروایت ابوہریرہ (رض) یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک یہ واقعہ پیش نہ آجائے کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہو، جب لوگ یہ نشانی دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جس کے لئے قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ اس وقت کسی نفس کو ایمان لانا نفع نہیں دے گا “۔ اس کی تفصیل صحیح مسلم میں بروایت حذیفہ ابن اسید (رض) اس طرح نقل کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام علامات قیامت کا تذکرہ آپس میں کر رہے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، آفتاب کا جانب مغرب سے نکلنا، اور ایک خاص قسم کا دھواں، اور دابة الارض اور یاجوج و ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا، دجال کا نکلنا، اور تین جگہوں پر زمین کا دھنس جانا، ایک مشرق میں، ایک مغرب میں، ایک جزیرة العرب میں، اور ایک آگ جو عدن کے قعر سے نکلے گی اور لوگوں کو آگے آگے ہنکا کرلے چلے گی۔ اور مسند احمد میں براویت ابن عمر (رض) منقول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان آیات میں سب سے پہلے مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب اور دابة الارض نکلنا واقع ہوگا۔ امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے تذکرہ میں اور حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) یہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس واقعہ یعنی عرب سے آفتاب طلوع ہونے کے بعد ایک سو بیس سال تک دنیا قائم رہے گی (روح المعانی) اس تفصیل کے بعد یہاں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب نازل ہوں گے تو روایات صحیحہ کے موافق آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیں گے، اور لوگ ایمان قبول کریں گے، اور پوری دنیا میں نظام اسلام رائج ہوگا، ظاہر ہے کہ اگر اس وقت کا ایمان مقبول نہ ہو تو یہ دعوت اور لوگوں کا اسلام میں داخلہ سب غلط ہوجاتا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں تو اس کا یہ جواب اختیار کیا ہے کہ مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے کا واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تشریف لانے کے کافی زمانہ بعد ہوگا، اور اسی وقت دروازہ توبہ کا بند ہوگا۔ اور علامہ بلقینی رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایمان اور توبہ قبول نہ ہونے کا یہ حکم جو آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے وقت ہوگا آخر زمانہ تک باقی نہ رہے، بلکہ کچھ عرصہ کے بعد یہ حکم بدل جائے اور ایمان و توبہ قبول ہونے لگے۔ (روح المعانی) واللہ اعلم خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں اگرچہ اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ جس نشانی کے ظاہر ہونے کے بعد توبہ قبول نہ ہوگی وہ کونسی نشانی ہے، مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے واضح ہوگیا کہ اس سے مراد آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع ہے۔ اور قرآن کریم نے خود کیوں اس کی وضاحت نہ کردی ؟ تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس جگہ قرآن کا ابہام ہی غافل انسان کو چونکانے میں زیادہ مفید ہے کہ اس کو ہر نئے پیش آنے والے واقعہ سے اس پر تنبیہ ہوتی رہے اور توبہ میں جلدی کرے۔ اس کے علاوہ اس ابہام اور اجمال سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس پر تنبیہ ہوجائے کہ جس طرح پورے عالم کے لئے مغرب سے آفتاب طلوع ہونے پر توبہ کا دروازہ بند ہوجائیگا اسی طرح اس کا ایک نمونہ ہر انسان کے لئے شخصی طور پر توبہ کے منقطع ہوجانے کا اس کی موت کے وقت پیش آتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو واضح طور پر بھی بیان فرما دیا ہے : (آیت) ولیست التوبة للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الئن، ” یعنی ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آجائے تو کہتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ نزع روح کے وقت جب سانس آخری ہو اس وقت بھی چونکہ فرشتے موت کے، سامنے آجاتے ہیں اس وقت بھی توبہ قبول نہیں ہوتی، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بھی اللہ کی طرف سے ایک اہم نشانی ہے، اس لئے آیت مذکورہ میں بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ میں یہ موت کا وقت بھی داخل ہے، جیسا کہ تفسیر بحر محیط میں بعض علماء کا یہ قول نقل بھی کیا ہے، اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے : من مات فقد قام قیامتہ، ” یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہوگئی “۔ کیونکہ دار العمل ختم ہوا اور جزائے اعمال کا کچھ نمونہ قبر ہی سے شروع ہوگیا، صائب نے اسی مضمون کو نظم کیا ہے توبہ بارا نفس باز پسیں دست زدست بیخبر دیر رسیدی در محمل بستند یہاں عربی زبان کے اعتبار سے یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں پہلے فرمایا اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ اور پھر اسی جملہ کا اعادہ کرکے فرمایا يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا، اس میں ضمیر سے کام لے کر کلام کو مختصر نہیں کیا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کلمہ میں جو بعض آیات مذکورہ ہیں وہ اور ہیں، اور دوسرے کلمہ کی بعض آیات اس سے مختلف ہیں، اس سے اس تفصیل کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے جو ابھی آپ نے بروایت حذیفہ ابن اسید (رض) پڑھی ہے کہ قیامت کی دس نشانیاں بہت اہم ہیں، اس میں سے آخری نشانی مغرب سے طلوع آفتاب ہے جو انقطاع توبہ کی علامت ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا : (آیت) قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ، اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ کی ساری حجتیں پوری ہوجانے کے بعد بھی اگر تمہیں موت یا قیامت کا انتظار ہے تو یہ انتظار کرتے رہو، ہم بھی اسی کا انتظار کریں گے کہ تمہارے ساتھ تمہارے رب کا کیا معاملہ ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِـيَہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ۝ ٠ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُہَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِہَا خَيْرًا۝ ٠ ۭ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ۝ ١٥٨ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٨) کیا مکہ والے اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے فرشتے آئیں یا قیامت کے دن ان کا پروردگار ان کے پاس آئے یا مغرب سے سورج طلوع ہوجائے ، جب مغرب سے آفتاب طلوع کیا جائے گا تو تب مہلت عمل ختم ہوجائے گی اس وقت کسی شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے ایمان نہ رکھتا ہوگا یا اس نشانی کے ظہور سے پہلے اس نے اپنے ایمان میں ابھی تک کوئی نیکی کا کام نہیں کیا ہوگا کیوں کہ جو شخص اس نشانی کو دیکھ کر ایمان لائے گا تو اسکا ایمان اور توبہ اور کوئی عمل بھی قبول نہیں ہوگا ماسوا اس کے کہ وہ اس وقت چھوٹا ہو یا یہ کہ پیدا ہوا ہو اور پھر مرتد ہوجائے اور نشانی کے بعد پھر اسلام قبول کرے تو اس نومسلم کا اسلام قبول ہوگا۔ اور جو شخص اس دن مومن گنہگار ہوگا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہوگی ایک قول کے مطابق وہ یہ کہ جو اس دن گنہگار ہوگا اور پھر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا یا چھوٹا ہوگا یا اس کے بعد پیدا ہوا ہوگا تو ان کا ایمان توبہ اور عمل ان کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ تم قیامت کا انتظار کرو، ہم تو تمہارے عذاب کے منتظر ہیں خواہ قیامت کے دن ہو یا اس سے پہلے ہو یا یہ کہ آپ فرمادیجیے کہ تم میری موت کے منتظر رہو، میں تمہاری ہلاکت کا منتظر ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨ (ہَلْ یَنْظُرُوْنَ الاّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلآءِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ط) دراصل یہ ان واقعات یا علامات کا ذکر ہے جن کا ظہور قیامت کے دن ہونا ہے۔ جیسے سورة الفجر میں فرمایا : (وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَلا یَوْمَءِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی ) قصۂ زمین برسر زمین کے مصداق روز محشر فیصلہ یہیں اسی زمین پر ہوگا۔ یہیں پر اللہ کا نزول ہوگا ‘ یہیں پر فرشتے پرے باندھے کھڑے ہوں گے اور یہیں پر سارا حساب کتاب ہوگا۔ چناچہ اس حوالے سے فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ سب علامات ظہور پذیر ہوجائیں ؟ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے : (یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا) (لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا ط) دراصل جب تک غیب کا پردہ پڑا ہوا ہے تب تک ہی اس امتحان کا جواز ہے۔ جب غیب کا پردہ ہٹ جائے گا تو یہ امتحان بھی ختم ہوجائے گا۔ اس وقت پھر جو صورت حال سامنے آئے گی اس میں تو بڑے سے بڑا کافر بھی عابد و زاہد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن جو شخص یہ نشانیاں ظاہر ہونے سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کا کچھ توشہ اس نے اپنے لیے جمع نہیں کرلیا تھا ‘ اس کے لیے بعد میں ایمان لانا اور نیک اعمال کرنا کچھ بھی سود مند نہیں ہوگا۔ (قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ) ۔ اب انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

139. That is, either tokens of the approach of the Day of Reckoning or God's scourge or any other sign that will uncover the Truth, after which there will be no reason left for testing man. 140. Those tokens will be so clear that after their appearance it will neither avail the unbeliever to repent of his unbelief nor the disobedient to forsake his disobedience. For faith and obedience have meaning and value only as long as the Truth remains hidden, as long as the tenure of life granted to people does not seem to have approached its end and the world with all its vanities continues to delude man that, as there may neither be God nor After-life, one should eat, drink and enjoy oneself as best one can.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :139 یعنی آثار قیامت ، یا عذاب ، یا کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کر دینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی سوال باقی نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :140 یعنی ایسی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بے معنی ہے ، اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی بے معنی ، اس لیے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردے میں ہے ، مہلت کی رسی دراز نظر آرہی ہے ، اور دنیا اپنی ساری متاع غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت ، بس کھاؤ پیو اور مزے کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

84: اس سے مراد قیامت کی آخری نشانی ہے، جس کے بعد ایمان قبول نہیں ہوگا، کیونکہ معتبر ایمان وہی ہے جو دلائل کی بنیاد پر ایمان بالغیب ہو، کسی چیز کو آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانے سے امتحان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لئے یہ دُنیا پیدا کی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعضے مفسروں نے اس انتظار کے وعدہ کی حدیث آیت جہاد کو ٹھہرایا ہے اور آیت جہاد سے اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے اس واسطے کہ آیت کے اوپر کے ٹکڑے میں جن نشانیوں کا مجمل طور پر ذکر ہے اس کی صراحت حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے صحاح ستہ میں آچکی ہے کہ ان نشانیوں سے مراد علامت قیامت میں سے آفتاب کو مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ہے اور خود قرآن شریف میں فَہْلْ یَنُظْرُوُنَ اِلَّاالسَّاعَۃَ اَنْ تَاْیِتَہُمْ بَغْتَہً سے اس انتظار کی تفسیر ہوچکی ہے اس وجہ سے صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس انتظار سے مراد آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے اور معنے آیت میں گویا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ تسکین فرمائی گئی ہے کہ روزمرہ کی قرآن کی آیتوں کی نصیحت پر بھی جو یہ لوگ اپنے شریک اور قرآن کے انکار سے باز نہیں آتے تو اس سے کچھ گھبرانا اور تنگ دل نہ ہونا چاہئے یہ شرک اور قرآن کے انکار کا سلسلہ تو ان مشرکوں کی موت تک یا پشت بہ پشت قیامت تک چلنے والا ہے معتبر سند سے عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک آدمی کا دم کھینچ کر سینہ میں نہیں آتا اور موت کے وقت خوفناک شکل کے فرشتے ان نافرمان آدمیوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو عذاب آخرت اور اللہ تعالیٰ کی خفگی سے ڈراتے ہیں جس سے ان کی روح جس میں جگہ جگہ چھپتی پھرتی ہے آخر بڑی سختی سے ان کی روح قبض کی جاتی ہے یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے ھل ینظرون الا ان تاتیہم الملائکۃ کی گویا تفسیر ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ یہ نافرمان لوگ موت سے پہلے تو اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے ہاں جب ان کا دم اکھڑ کر سینے میں آجاتا ہے اور موت کے فرشتے ان کو نظر آنے لگتے ہیں تو ان کو اپنی حالت پر پچھتاوا آتا ہے لیکن اس وقت کا پچھتاوا کچھ مفید نہیں کیونکہ پہلی حالت پر پچھتانا اور راہ راست پر آنے کا ارادہ کرنا تو اس وقت تک کا انسان کو مفید ہے جب تک عذاب الٰہی اس کی آنکھوں کے سامنے نہیں آیا جب موت کے وقت عذاب کے فرشتے اس کو نظر آنے لگے اور روح کو سختی سے نکالنے کے لئے ان فرشتوں نے طرح طرح کا عذاب شروع کردیا تو اس وقت کا پچھتانا ایسا ہے جس طرح دنیا میں سزا کے وقت کوئی مجرم جرم کر کے پچھتاتا ہے جس بےوقت کے پچھتاوے سے اس کی سزا ٹل نہیں سکتی۔ سورة بقرہ اور سورة آل عمرن میں یہ بیان گذر چکا ہے کہ فصاحت الٰہی کی آیات متشابہات کہلاتی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق یہ بھی گذرا ہے کہ جو آیتیں نماز روزہ وغیرہ کے کسی عمل سے متعلق ہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور جن آیتوں سے کوئی عمل متعلق نہیں ہے بلکہ ان آیتوں پر بندوں کا فقط ایمان لانا مقصود الٰہی ہے یہ سب آیتیں متشابہات ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ متشابہ آیتوں کی تاویل کے درپے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرنا چاہئے اس صحیح حدیث سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو متشابہ آیتوں کی تاویل سے ڈرایا ہے اس لئے صحابہ اور تابعین کا زمانہ اس طریق پر گذرا ہے کہ وہ لوگ متشابہ آیتوں کی تاویل کے درپے نہ تھے بلکہ اس کو برا جانتے تھے بعد اس زمانہ کے جن علمائے مفسرین نے اپنی تفسیروں کا مدار صحابہ (رض) اور تابعین (رح) کے طریقہ پر رکھا ہے وہ بھی اس قسم کی آیتوں میں تاویل کو جائز نہیں رکھتے بلکہ ان کو ظاہر معنے پر قائم رکھ کر ان کی تلاوت کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان آیتوں سے کوئی عمل شرعی متعلق نہیں ہے اس واسطے ان آیتوں کی تفصیلی تفسیر بھی ضروری نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان علمائے مفسرین نے جن کی تفسیروں کی مدار صحابہ اور تابعین کے طریقہ پر ہے سورة بقرہ کی آیت کے ٹکڑے ھَلْ یَنْظْرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتَیِہُمُ اللّٰہُ فیْ ظُلَل مِّنْ الْغَمَامِ (٢: ٢١٠) اور اس آیت کے ٹکڑے اویاتی ربک کو ان کے اس معنی ظاہری پر قائم رکھا ہے کہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ نیک وبد کے فیصلے کے لئے میدان محشر میں نزول فرماویگا اور اس معنے کی تائید میں بعضے صحابہ (رض) کے آثار بھی اپنی تفسیروں میں نقل کئے ہیں ٣ ؎۔ اسحاق ابن راہویہ (رح) سے کسی شخص نے پوچھا کہ جب اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے تو بلند جگہ سے نیچی جگہ کے نزول کو اللہ تعالیٰ کی شان میں تسلم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کی مشابہت جسمی چیزوں کے ساتھ لازم آتی ہے۔ اسحاق بن راہو (رح) یہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ نزول ذات الٰہی کی کچھ کیفیت جب ہم بیان نہیں کرتے اور لیس کمثلہ شیء ہمارا عقیدہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کی مشابہت جسمی چیزوں سے کیونکر لازم آسکتی ہے۔ یہ اسحاق بن راہو (رح) یہ امام احمد کے طبقہ کے مفسر اور بڑے عالم ہیں۔ حاصل مطلب آیت کے ٹکڑے ھل ینظرون الا ان یاتیہم اللہ اور اویاتی ربک کا ہی ایک ہی ہے کہ یہ نافرمان لوگ اب تو اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے لیکن جس طرح دنیا میں موت کے فرشتوں کے نظر آجانے کے بعد ان لوگوں کو اپنی حالت پر پچھتاو آوے گا اور اس وقت کا پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آویگا یہی حال ان لوگوں کا اس وقت ہوگا جبکہ یہ لوگ میدان محشر میں اپنی نافرمائی کی جواب دی کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ صحیح بخاری ومسلم میں عدی بن حاتم کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میدان محشر میں نیکی بدی کے دریافت کے وقت اللہ تعالیٰ بغیر واسطے کسی فرشتے یا رسول کے ہر شخص سے اس شخص کے اعمال کی حالت خود دریافت فرماویگا ١ ؎ معتبر سند سے معاذبن جبل (رض) کی حدیث مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حشر کے میدان میں ہر شخص کو چار باتوں کی جواب وہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا۔ ایک تو یہ کہ تمام عمر کس کام میں صرف کی دوسرے یہ کہ جوانی میں کیا کیا۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں روپیہ پیسہ کیونکر کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا۔ چوتھے یہ کہ دین کہ کچھ علم سیکھا تو اس کے موافق کیا عمل کیا ٢ ؎ اللہ تعالیٰ کے میدان محشر میں نزول فرمانے کی اور ہر شخص سے بلا واسطہ نیکی بدی کا حال دریافت کرنے کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب آفتاب مغرب سے نکلے گا تو اس وقت کے سب نافرمان لوگ گھبرا کر راہ راست پر آجاویں گے لیکن ایسی مجبوری کہ وقت کا انکا راہ راست پر نا ان کو کچھ نفع نہ دے گا۔ ٣ ؎ معتبر سند سے ترمذی میں صفوان بن عسال کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مغرب کی طرف لوگوں کی توبہ کی کے آسمان پر جانیکا آسمان میں ایک دردو ازہ ہے جب آفتاب مغرب کی طرف سے نکل آویگا تو وہ روازہ بند ہوجاویگا تو وہ دروازہ بند ہوجاویگا اور پھر کسی کی توبہ قبول نہ ہوگی ٤ ؎ ایمان اور نیک عمل کے فائدے کے اٹھ جانے کی جس نشانی کا ذکر اس آیت میں ہے یہ حدیثیں گویا اس کو تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نشانی مغرب سے آفتاب کے نکلنے کی ہے اس کے بعد نامہ اعمال کے کاغذ پیٹ کر فرشتے مسلمان پر پڑھ جاویں گے اور اعمال کا لکھنا بند ہوجاویگا آخر کو فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان نافرمان لوگوں سے کہہ دو کہ اب تو تم لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے لیکن موت کے فرشتوں کے نظر آنے اور میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے اور آفتاب کے مغرب سے نکلنے کے وقتوں کا ہم بھی انتظار کرتے ہیں اور تم بھی انتظام کرو یہ وقت ایسے ہیں کہ ان میں نیک وبد کا سب حال کھل جاوے گا۔ معتبر سند سے شدادبن اوس (رض) کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقل مندوہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے مابعد کا کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے مابعد کے سامان سے غافل رہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے عقبی میں بہبودی کی توقع رکھے ٥ ؎۔ یہ حدیث آیت کی آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مایوسی کے جن وقتونکا ذکر کر آیت میں ہے ان وقتوں میں عقبیٰ سے فافل لوگون کو اللہ تعالیٰ سے بہودی کی توقع کا رکھنا بڑی نادانی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:158) ینظرون۔ نظر ینظر (نصر) مضارع۔ جمع مذکر غائب۔ وہ انتظار کرتے ہیں ۔ وہ دیکھتے ہیں۔ ہل ینظرون۔ وہ کس کی انتظار کر رہے ہیں الا ان۔ وائے اس کے کہ۔ یہاں استفہام انکاری ہے۔ بمعنی کہ وہ کسی اور بات کا انتظار نہیں کر رہے بجز اس کے کہ۔ الملئکۃ۔ سے مراد امر ربک بالعذاب۔ تیرے رب کا حکم ان کے عذاب کے لئے۔ ایات۔ سے مراد آیات قاہرہ ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

یعنی ان تین چیزوں سے کسی ایک کے منتظر ہیں اور ان آیات سے مراد علامات قیامت ہیں اور وہ احادیث میں بکثرت مذکور ہیں مگر دس علامات وہ جو حذیفہ (رض) سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ (روح) جامع البیان میں ہے یعنی وہ نشان جو ان کے ایمان لانے پر مجبور کردیں مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں بعض آیات سے خاص کر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا مراد ہے۔ کذافی المو ضح) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ اس جملہ کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی تفسیر فرمائی ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا اور جب وہ طلوع ہوگا مگر اس وقت ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دیگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی بلکہ یہ تعین متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ (کذافی الروح وابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس کا عطف امنت پر ہے یعنی ایمان کی عدم قبولیت کے لیے ان دونوں چیزوں کا عدم شرط ہے جس سے مفہوما یہ ثابت ہوتا ہے کہ نفع کے لیے منع المخلو کے طور پر اک چیز کا تحقق ہی کافی ہے یعنی جب سورج مغرب سے طلوع ہوچکے گا تو اس کے بعد اس شخص کا ایمان قبول نہ ہوگا جو پہلے نہ ایمان لایا اور انہ اس نے معاصی سے تائب ہو کر کار خیر ہی کیا کیونکہ اس وقت ایسے شخص کا ایمان لانا یا عمل کرنا اپنے ارادہ اختیار سے نہ ہوگا بلکہ محض مجبوری کی بنا پر ہوگا کالا یمان عند الغوغرۃ اور کوئی ایما یا عمل اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ ارادہ یا اختیار سے ہو الغرض یہاں نفی عموم ہے عموم نفی نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزوں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں گی تو کسی ایسے شخص کو جو اس سئے پہلے ایمان نہیں لایا تھا ایمانلانا اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا سورج کا مغرب سے طلو ع ہونا دجال اور دبتہ الارض کا ظہور، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے صرف طلوع شمس من المغرب ہی مراد ہو، حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ طلوع شمس والی علامت کے ظہور کے بعد لوگ ایک سو بیس سال تک باقی رہیں گے۔ طلوع شمس میں مغرب کی کیفیت احادیث میں مذکور ہے، ( روح المعانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ ہوا کہ کیا ایمان لانے میں قیامت کے وقوع یاقرب کا انتظار ہے۔ 2۔ یہاں تک زیادہ حصہ بیان مشرکین کے باب میں ہے آگے ایک عام عنوان سے دوسرے گمراہوں کا حق سے بعید اور مورد وعید ہونا بیان فرماتے ہیں جس میں سب کفار مشرکین اور اہل کتاب اور اہل ہوا اور بدعات بتفاوت مراتب وعید سب داخل ہوگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جو لگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب یا ان سے انحراف کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے ملائکہ آئیں جو ان کو اپنے زور سے کتاب اللہ کو ماننے پر مجبور کریں یا پھر اللہ کی طرف سے ایسی نشانی یا عذاب نازل ہو کہ یہ مجبور ہو کر پکار اٹھیں کہ واقعی یہ رسول سچا اور اس پر نازل ہونے والی کتاب برحق ہے۔ یاد رہے اہل مکہ برملا یہ اظہار کیا کرتے تھے۔ اس نبی کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے نازل کیوں نہیں کرتا یا اب تک ایسا عذاب نازل کیوں نہیں ہوا کہ جس کو دیکھ کر ہم قرآن مجید کی تائید اور نبی کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورتحال پر تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ یا کوئی فیصلہ کن نشانی آئے گی تو جو پہلے ایمان نہیں لایا۔ اس کے ایمان لانے کا اس وقت اسے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور وہ شخص بھی نہیں بچ پائے گا جس نے ایمان لانے کے باوجود نیک کام نہیں کیے۔ اس کی مثالیں پہلی اقوام کے حوالے سے بیشمار ہیں کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کن عذاب آیا تو وہ چیخ چیخ کر اپنے ایمان کی دہائی دے رہے تھے لیکن ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ لہٰذا اے نبی انھیں فرمائیں اگر تم اس گھڑی کے انتظار میں ہو تو مزید انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتا ہوں۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ (رض) قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ ) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بھی بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں پوری نہ ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری آگ یمن کے علاقہ سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو کہ لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب استحباب الاستغفار ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بندہ بھی سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے۔ “ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ )[ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کی جان ہنسلی میں اٹکنے سے قبل تک قبول کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیشمار نشانیاں نازل ہوئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں مگر ظالم لوگ پھر بھی ان کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٥٨۔ یہ ایک دو ٹوک اور واضح تہدید ہے ‘ کیونکہ یہ اللہ کی ناقابل تبدیل سنت ہے کہ جب کوئی معجزہ آتا ہے اور لوگ پھر بھی تکذیب کرتے ہیں تو انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جن خوارق عادت واقعات کا مطالبہ کرتے ہیں اگر ان میں سے کوئی واقعہ لایا جاتا تو ان کا فیصلہ کب کا ہوچکا ہوتا کیونکہ جب اس قسم کا کوئی معجزہ آتا ہے تو مدت عمل اور مہلت ختم ہوجاتی ہے اور پھر ایمان وعمل مفید نہیں ہوتے ۔ جو لوگ پہلے سے مومن اور اسلامی نظام پر عمل پیرا نہ تھے ان کے لئے پھر کوئی وقت نہیں ہوتا ۔ قرآن کریم میں ایمان کے ساتھ عمل کا ذکر ہمیشہ کیا جاتا ہے کیونکہ اسلامی پیمانے کے مطابق وہی ایمان مقبول ہے جو عمل کے ساتھ ہو ۔ متعدد روایات میں آتا ہے کہ اس آیت یَوْمَ یَأْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ (٦ : ١٥٨) سے علامات قیامت مراد ہیں کیونکہ علامات قیامت آنے کے بعد پھر ایمان وعمل مفید نہیں رہتے اور بعض روایات میں اشراط الساعہ کو گنوایا بھی گیا ہے ۔ لیکن اس آیت کی تفسیر اس مفہوم میں زیادہ بہت ہے کہ اس سے مراد اس دنیا میں اللہ کی سنت جاریہ ہے ۔ اس کی مثال اسی سورة کے آغاز میں موجود ہے ۔ آیت ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8) ” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “ یہ بات ذہن میں رہے کہ آغاز سورة میں یہی باتیں ایمان لانے اور اسلامی نظریات قبول کرنے کے موضوع پر کہی گئی تھیں اور یہاں باتیں اسلامی نظام کے نفاذ اور شریعت کے اجراء کے موضوع پر کہی جارہی ہیں ۔ یہ نہایت ہی اہم اور یاد رکھنے کے قابل بات ہے تاکہ اسلامی شریعت اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کی حقیقت ذہن میں رہے ۔ جس طرح آغاز سورة کی یہ بات سنت جاریہ پر محمول ہے ‘ اسی طرح یہاں بھی اس کی تاویل اشراط قیامت کے مقابلے میں سنت جاریہ کے ساتھ مناسب ہے ۔ یہ مناسب تاویل و تفسیر ہوگی اور یہاں اسے قیامت پر محمول کرنے کی ضرورت نہ ہوگی جس کے وقوع کا علم عالم الغیب کو تھا ۔ اب بات کا رخ رسول اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے کہ آپ کی شریعت اور آپ کی ملت دنیا میں تمام قائم ملتوں سے علیحدہ ہے ۔ تمام فرقے اور مذاہب جن میں مشرکین مکہ کا مذہب بھی شامل ہے ‘ سب باطل ہیں اور آپ کے دین و شریعت سے متضاد ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جب مغرب سے سورج طلوع ہوگا تو کسی کا ایمان اور توبہ قبول نہ ہونگے پہلی آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس جو واضح حجت آچکی ہے قرآن نازل ہوچکا ہے جو ہدایت ہے اور رحمت ہے، اور اس آیت میں یہ فرمایا کہ محض واضح ہونے کے بعد اور ہدایت سامنے آجانے کے بعد اب کسی انتظار کی ضرورت نہیں حق قبول کرو اور ہدایت پر آؤ۔ اب بھی حق قبول نہیں کرتے تو کیا انتظار ہے (ان کا ڈھنگ ایسا ہے) جیسے اسی انتظار میں ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آجائیں یا اللہ تعالیٰ ہی ان کے پاس پہنچ جائے۔ یا اللہ تعالیٰ کی کسی بڑی نشانی کے انتظار میں ہیں، لیکن جس دن اس کی ایک نشانی ظاہر ہوجائے گی تو کسی کافر کو اس وقت اس کا ایمان لانانفع نہ دے گا، اور جو کوئی صاحب ایمان بد اعمالیوں میں مبتلا ہو جس نے اپنے ایمان میں کوئی عمل خیر نہ کیا ہو اس کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان بالغیب معتبر ہے جب آنکھوں سے دیکھ لیا تو اس کے بعد ایمان معتبر نہ ہوگا جب قیامت ہوگی تو اس وقت سب مومن ہوجائیں گے مگر اس وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ پچھم سے سورج نکلنا بہت بڑی نشانی ہے۔ اس وقت جو شخص ایمان لائے گا قبول نہ ہوگا۔ جو شخص گناہوں میں مبتلا ہو اور موت کے فرشتے نظر آنے لگیں اس وقت کی توبہ قبول نہیں۔ اس سے پہلے جو توبہ کی جائے وہ مقبول ہے۔ پچھم سے سورج نکل آنے کے بعد جس طرح کسی کا ایمان قبول نہیں اسی طرح توبہ بھی قبول نہیں ہوگی۔ صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٦٧ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ پچھم سے سورج طلوع نہ ہو۔ سو جب سورج (پچھم سے) نکلے گا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے اور اس وقت کسی شخص کو ایمان نفع نہ دے گا اس کے بعد آپ نے آیت بالا تلاوت فرمائی۔ حضرت صفوان بن عسال (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک دروازہ بنایا ہے جو اتنا چوڑا ہے کہ اس کی دونوں جانبوں کے درمیان ستر سال تک چل سکتے ہیں یہ دروازہ توبہ کا دروازہ ہے۔ جب تک اس کی جانب سے سورج نہیں نکلے گا اس وقت تک بند نہ کیا جائے گا۔ (اور اس وقت تک توبہ قبول ہوتی رہے گی) اللہ عزو جل نے (یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ) میں اسی کو بیان فرمایا ہے۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) حضرت معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہجرت منقطع نہ ہوگی جب تک توبہ منقطع نہ ہوگی۔ اور توبہ منقطع نہ ہوگی جب تک پچھم سے سورج نہ نکلے گا۔ (رواہ ابو داؤد و الدارمی) پچھم سے سورج کا نکلنا قیامت کے قریب ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ظاہر ہونے کے اعتبار سے سب سے پہلی نشانی پچھم سے سورج نکلنا اور دابۃ الارض کا ظاہر ہونا ہے جو چاشت کے وقت لوگوں پر ظاہر ہوگا ان دونوں میں سے جو بھی ظاہر ہوگی دوسری نشانی اس کے بعد قریب ہی زمانہ میں ظاہر ہوجائے گی۔ (رواہ مسلم ص ٤٠٤ جلد ٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہوگا تو کسی شخص کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا اور جس نے اپنے ایمان میں کسی خیر کا کام نہ کیا ہوگا (١) پچھم سے سورج کا نکلنا (٢) دجال کا ظاہر ہونا (٣) دابۃ الارض کا نکلنا (رواہ مسلم ص ٨٨ جلد ١) دابۃ الارض کے بارے میں انشاء اللہ تعالیٰ سورة نمل کی آیت (وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَاھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ ) (الآیۃ) کے ذیل میں احادیث نقل کی جائیں گی۔ آخر میں فرمایا (قُلِ انْتَظِرُوْآ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ) اس میں تہدید ہے کہ وہ جو حق کے بعد ایمان نہیں لاتے تو کب ایمان لائیں گے ؟ جب پچھم کی طرف سے سورج نکلنے والی نشانی ظاہر ہوگی کیا اس وقت ایمان لائیں گے لیکن اس وقت ایمان لانا مقبول نہ ہوگا لہٰذا اس سے پہلے ابھی آجائیں کہ کفر کی وجہ سے اہل کفر عذاب نار میں گرفتار ہوں گے اور مومن جنت میں جائیں گے۔ فائدہ : ہیئت و ریاضی پر ایمان رکھنے والے بعض لوگ مغرب سے سورج نکلنے کو محال سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی جہالت کی باتیں ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہر چیز کا خالق ومالک ہے سورج کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس کو مسخر فرمایا ہے اور اسی نے سورج کا نظام مقرر فرمایا ہے کہ وہ اس طرف سے نکلے اور اس طرف چھپ جائے اسے یہ بھی قدرت ہے کہ سورج کو غروب والی جہت پر پہنچا کر واپس اسی جانب لے آئے جدھر سے وہ گیا ہے۔ اس حقیقت کو (فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ ) میں بیان فرمایا اللہ تعالیٰ ہی اس کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں چھپا دیتا ہے۔ بلکہ دونوں جہات کا نام مشرق مغرب اسی طلوع و غروب کی وجہ سے رکھا گیا اگر اللہ تعالیٰ شانہٗ آفتاب کی گردش کا نظام ایسا مقرر فرماتے کہ جس جانب میں غروب ہوتا اسی جانب سے نکلا کرتا تو طلوع ہونے والی جانب کو مشرق اور اس کی مقابل جانب کو مغرب کہا جاتا۔ فائدہ : مفسر ابن کثیر ص (ص ١٩٤ جلد نمبر ٢) نے بحوالہ ابن مردو یہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ پچھم سے سورج نکلنے سے پہلے ایک رات تین راتوں کے برابر ہوجائے گی۔ لوگ گھبرا اٹھیں گے کہ صبح ہوتی ہی نہیں۔ اور چیخنے لگیں گے۔ گھبرا کر مسجدوں کی طرف چلے جائیں گے۔ اچانک پچھم کی جانب سے سورج نکل آئے گا اور آسمان کے درمیان تک پہنچ کر واپس ہوجائے گا اور اس کے بعد اپنے اسی مطلع سے نکلے گا جہاں سے نکلا کرتا تھا۔ مفسر ابن کثیر نے روایت نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا صرف اتنا کہہ دیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور صحاح ستہ میں نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

179 یہ تخویف دنیوی ہے۔ عذاب دنیوی ہے۔ عذاب دنیوی کی یہاں تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی مذکورہ دلائل وبراہین کے باوجود وہ ایمان نہیں لا رہے ہیں۔ کیا وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں خہ موت کے فرشتے آپہنچیں اور ان کی جانیں قبض کرلیں تو موت کے بعد ان کی آنکھیں کھل جائیں گی یا یہ کہ ان پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت کی نشانیوں میں سے کوئی ایسی نشانی دیکھ لیں جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کردے۔ مگر ان تینوں صورتوں میں ایمان لانا بےسود ہوگا فرشتوں کے آنے سے قبض ارواح کے لیے یا اللہ کا عذاب لے کر آنا مراد ہے۔ یَاتِیْ رَبُّکَ ای یاتی امر ربک بالعذاب (روح ج 8 ص 62) ۔ 180 بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جس نشان کا یہاں ذکر ہے۔ اس سے سورج کا مغرب سے طلوعہونا مراد ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں اس سے ہر وہ نشان مراد ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں اس سے ہر وہ نشان مراد ہے جسے دیکھ کر لوگ ایمان لانے پر مجبور و مضطر ہوجائیں اور طلوع الشمس من المغرب بھی اس میں داخل ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن صفی نے طلوع الشمس من المغرب کو بطور مثال پیش کیا ہے اور جن نشانات کے ظاہر ہونے پر ایمان فائدہ مند نہیں ہوگا ان کو اس میں منحصر نہیں کیا۔ آیت مع تفسیر ملاحظہ ہو۔ اَوْ یَاتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ کطلوع الشمس من المغرب (یَوْمَ یَاتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ) التی تضطرھم الی الایمان۔ (جامع البیان ص 130) فرعون بوقت غرق ایمان لے آیا تھا مگر اس کا ایمان قبول نہ ہوا۔ کیونکہ وہ ایمان اضطراری تھا اور ایمان لانے پر عذاب غرق نے اس کو مضطر کیا تھا۔ صحیح بخاری باب التفسیر میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من المغرب فاذا خلعت وراٰھا الناس اٰمنوا اجمعون وذلک لا ینفع نفساً ایمانھا ثم قرا ھَلْ یَنْظُرُوْنَ الخ اس سے معلوم ہوتا ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت بطور استشہاد تلاوت فرمائی نہ کہ بطور تفسیر جن روایتوں سے تفسیر ہونے کا احتمال ہوتا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔ لہذا اس آیت سے مطلق نشانات مراد ہیں۔ جنہیں دیکھ کر انسان ایمان لانے پر مجبور و مضطر ہوجائے اس کی تائید سورة مومن ع 9 کی اس آیت سے ہوتی ہے۔ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُھُمْ اِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْ بَاسَنا۔ 181:۔ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایمان کے غیر نافع ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ اضطراری حالات کے رونما ہونے کے بعد ایمان لایا جائے۔ دوم یہ کہ بحالت ایمان اعمال صالحہ بجا نہ لائے۔ دوسری شق کا مقتضا یہ ہے کہ جس مومن نے کوئی نیک عمل نہ کیا اس کا ایمان بےکار ہے اور اس کی نجات نہیں ہوگی۔ حالانکہ یہ بات کتاب و سنت کی صریح نصوص اور اہل سنت و جماعت کے متفق علیہ مسلک کے سراسر خلاف ہے۔ چناچہ معتزلہ اسی کے قائل ہیں۔ مفسرین نے اس کے مختلف جواب دئیے ہیں جو متداول تفسیروں میں مذکور ہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہٗ فرماتے ہیں یہ آیت علفتہا تبنا و ماء بارداً کے قبیل سے ہے۔ اصل میں تھا لَا يَنْفَعُ نَفْسًا عَمَلُھَا لَمْ تَکُنْ کَسَبَتْ فِیْ اِيْمَانِھَا خَیْرًا۔ یعنی دوسری شق میں اس سابق ایمان کے نافع ہونے کی نفی نہیں کی گئی جس میں عمل صالح نہ ہو۔ بلکہ اس شق سے اس عمل صالح کے نافع ہونے کی نفی مقصود ہے جو اضطراری حالات کے بعد واقع ہو۔ علامہ آلوسی نے بھی بعض علماء سے اسی قسم کا ایک جواب نقل کیا۔ لانہ قیل لاینفع نفسا ایمانھا ولا کسبھا فی ایمانھا خیرا لم یکن امنت من قبل او لم تکن کسبت خیرا (روح ج 8 ص 66) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

158 کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا آپ کا پروردگار ان کے پاس کے پروردگار کی۔ ……… یہ بڑی نشانی ظاہر ہوگی اور آجائے گی اس دن کسی ایسے شخص کو جو ظہور نشان سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا ایمان لانا نفع نہیں دے گا اور ان کے حق میں ایمان لانا مفید نہیں ہوگا یا وہ شخص جو ظہور علامت سے پہلے ایمان لے آیا تھا مگر اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو اور باوجود مومن ہونے کے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو تو اس کو بھی توبہ کرنا اور توبہ کرکے کوئی بھلا کام کرنا مفید اور نافع نہ ہوگا آپ کہہ دیجئے اچھا تم انتظار کرو اور ہم بھی حالات کا انتظار کررہے ہیں۔ یعنی باوجود دلائل واضحہ کے جو ایمان لانے میں پس و پیش کررہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کے آنے کے منتظر ہیں کہ فرشتے آکر کہیں کہ یہ پیغمبر صادق ہے اور یہ قرآن کریم حق ہے یا فرشتے ان کی جان قبض کرنے آجائیں یا آپ کا پروردگار خود ان کے پاس آکر رسول کی اور قرآن کریم کی تصدق کرے یا قیامت کی کسی بڑی نشانی کے منتظر ہیں۔ مثلاً مغرب سے آفتاب کے طلوع ہونے کے منتظر ہوں لیکن جس دن قیامت کی کوئی بڑی علامت اور نشانی آجائے گی تو اس دن منکروں کو ایمان لانا اور ایمان والوں کو گناہوں سے توبہ کرکے نیک بننا کچھ مفید نہ ہوگا کیونکہ اس دن کفر اور شرک اور فسق سے توبہ کرنے کا موقعہ باقی نہ رہے گا اور قبولیت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اچھا اگر تم کو ایسا انتظار ہے تو انتظار کرتے رہو اور ہم بھی منتظر ہیں کہ تمہارا انجام کیسا ہوگا۔