Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 160

سورة الأنعام

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا ۚ وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾

Whoever comes [on the Day of Judgement] with a good deed will have ten times the like thereof [to his credit], and whoever comes with an evil deed will not be recompensed except the like thereof; and they will not be wronged.

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہو گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Good Deed is Multiplied Tenfold, While the Sin is Recompensed with the Same Allah mentioned His kindness in His decisions and His justice on the Day of Resurrection, when He said, مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّيَةِ فَلَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ Whoever brings a good deed shall have ten times the like thereof to his credit, and whoever brings an evil deed shall have only the recompense of the like thereof, and they will not be wronged. This Ayah explains the general Ayah; مَن جَأءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا Whoever comes with good, then he will receive better than that. (28:84) There are several Hadiths that are in agreement with the apparent wording of this honorable Ayah. Imam Ahmad bin Hanbal recorded that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said about his Lord, إِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ رَحِيمٌ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا إِلَى سَبْعِمِايَةٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّيَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ وَاحِدَةً أَوْ يَمْحُوهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلاَ يَهْلِكُ عَلَى اللهِ إِلاَّ هَالِك Your Lord is Most Merciful. Whoever intends to perform a good deed and does not do it, it will be written for him as a good deed. If he performs it, it will be written for him as ten deeds, to seven hundred, to multifold. Whoever intends to commit an evil deed, but does not do it, it will be written for him as a good deed. If he commits it, it will be written for him as a sin, unless Allah erases it. Only those who deserve destruction will be destroyed by Allah. Al-Bukhari, Muslim and An-Nasa'i also recorded this Hadith. Ahmad also recorded that Abu Dharr said that the Messenger of Allah said, يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ عَمِلَ حَسَنَةً فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَأَزِيدُ وَمَنْ عَمِلَ سَيِّيَةً فَجَزَاوُهَا مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ وَمَنْ عَمِلَ قُرَابَ الاَْرْضِ خَطِييَةً ثُمَّ لَقِيَنِي لاَ يُشْرِكُ بِي شَيْيًا جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً وَمَنِ اقْتَرَبَ إِليَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَمَنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَة Allah says, `Whoever performs a good deed, will have tenfold for it and more. Whoever commits a sin, then his recompense will be the same, unless I forgive. Whoever commits the earth's fill of sins and then meets Me while associating none with Me, I will give him its fill of forgiveness. Whoever draws closer to Me by a hand's span, I will draw closer to him by a forearm's length. Whoever draws closer to Me by a forearm's length, I will draw closer to him by an arm's length. And whoever comes to Me walking, I will come to him running.' Muslim also collected this Hadith. Know that there are three types of people who refrain from committing a sin that they intended. There are those who refrain from committing the sin because they fear Allah, and thus will have written for them a good deed as a reward. This type contains both a good intention and a good deed. In some narrations of the Sahih, Allah says about this type, "He has left the sin for My sake." Another type does not commit the sin because of forgetfulness or being busy attending to other affairs. This type of person will neither earn a sin, nor a reward. The reason being that, this person did not intend to do good, nor commit evil. Some people abandon the sin because they were unable to commit it or due to laziness, after trying to commit it and seeking the means that help commit it. This person is just like the person who commits the sin. There is an authentic Hadith that states, إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّار When two Muslims meet with their swords, then the killer and the killed will be in the Fire. They said, "O Allah's Messenger! We know about the killer, so what about the killed?" He said, إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِه He was eager to kill his companion. Al-Hafiz Abu Al-Qasim At-Tabarani said that Abu Malik Al-Ash`ari said that the Messenger of Allah said, الْجُمُعَةُ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الَّتِي تَلِيهَا وَزِيَادَةُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ وَذَلِكَ لاَنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ Friday (prayer) to the next Friday (prayer), plus three more days, erase whatever was committed (of sins) between them. This is because Allah says: مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا Whoever brings a good deed shall have ten times the like thereof to his credit. Abu Dharr narrated that the Messenger of Allah said, مَنْ صَامَ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ فَقَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّه Whoever fasts three days every month, will have fasted all the time. Ahmad, An-Nasa'i, and Ibn Majah recorded this Hadith, and this is Ahmad's wording. At-Tirmidhi also recorded it with this addition; فأنزل الله تصديق ذلك في كتابه So Allah sent down affirmation of this statement in His Book, مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (Whoever brings a good deed shall have ten times the like thereof to his credit), اليوم بعشرة أيام Therefore, a day earns ten days. At-Tirmidhi said; "This Hadith is Hasan." There are many other Hadiths and statements on this subject, but what we mentioned should be sufficient, Allah willing, and our trust is in Him.

نیکی کا دس گنا ثواب اور غلطی کی سزا برابر برابر ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے کہ ( فلہ خیر منھا ) جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے ۔ اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کر سکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گذرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں ( بخاری مسلم نسائی وغیرہ ) ایک حدیث قدسی میں ہے نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کر دیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ برھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں ( مسلم مسند وغیرہ ) اس سے پہلے گذری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے ۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا اور حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کر دیا ۔ حضور فرماتے ہیں لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں ۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی ۔ بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بد بخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بے آبرو ، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا ، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا ۔ واجب کر دینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گذرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے ( ترمذی ) فرمان ہے کہ جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے ، ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لئے کہ وعدہ الٰہی میں ہے آیت ( مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) 6 - الانعام:160 ) جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے ۔ طبرانی میں ہے جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے ۔ فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے ( ترمذی ) ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گذری ۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں لیکن ان شاء اللہ یہ ہی کافی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

160۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔ 160۔ 2 یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٣] یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان اور رحمت ہے کہ نیکی کے بدلے میں صرف اتنی ہی نیکی کا اجر نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ اجر وثواب دیتا ہے مگر برائی کا بدلہ اسی قدر ہی دیتا ہے جتنی برائی ہو۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوجاتی ہے۔ خ نیکی کا بدلہ دس گنا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ && اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمانا سچ ہے کہ جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو (اے فرشتو ! ) اس کی ایک نیکی لکھ لو۔ پھر اگر وہ کرچکے تو اس کی دس نیکیاں لکھو۔ اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرے تو کچھ بھی نہ لکھو۔ اور اگر کرچکے تو ایک ہی برائی لکھو۔ اور اگر نہ کرے تو اس کے لیے بھی ایک نیکی لکھ دو ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے جو روایت ہے اس میں یوں ہے کہ جب کوئی شخص نیکی کا ارادہ کرنے کے بعد نیکی کرتا بھی ہے تو اللہ اسے دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں عطا کرتا ہے (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب من ہم بحسنۃ اوسیئۃ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ۔۔ : اللہ تعالیٰ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے، اب اللہ تعالیٰ کا نیکی کرنے والوں پر اپنے فضل اور برائی کرنے والوں پر عدل کا بیان ہے۔ نیکی کرنے والوں کی نیکی میں دس گنا اضافہ کم از کم ہے، ورنہ وہ سات سو گنا سے لے کر بےحساب تک بھی بڑھایا جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے والے کی مثال ایک دانے کو سات سو دانوں تک بڑھانے کے ساتھ اپنی مرضی کے ساتھ اس سے بھی بڑھانے کی بات فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦١) خوشے کی مثال کا جہاد سے تعلق سمجھنے کے لیے سورة بقرہ (٢٧٣) اور سورة توبہ (٦٠) ملاحظہ فرمائیں۔ جہاد کے ساتھ دوسری نیکیوں میں سات سو سے بڑھ کر ثواب بھی قرآن میں مذکور ہے، فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : یعنی ایک بدی کا بدلہ ایک سے زیادہ کا نہیں دیا جائے گا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا : ” جو شخص نیکی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اگر کرے تو دس سے لے کر سات سو گنا سے بہت گنا تک لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے ایک پوری نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر برائی کا ارادہ کیا اور اسے کر بھی لیا تو اللہ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے، یا اللہ عزوجل اسے بھی مٹا دیتا ہے اور اللہ کے ہاں ہلاک نہیں ہوتا مگر جو سرے ہی سے ہلاک ہونے والا ہو۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب إذا ہم العبد بسیءۃ ۔۔ : ٢٠٧، ٢٠٨؍١٣١۔ بخاری : ٦٤٩١ ] اس مقام پر حافظ ابن کثیر (رض) نے ایک نفیس بات لکھی ہے کہ برائی چھوڑنے والا جو اسے نہیں کرتا، تین طرح کا ہوتا ہے، کبھی تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑتا ہے، اس پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے کہ برائی سے اللہ کے لیے رک جانا ایک عمل اور نیت ہے، جیسا کہ بعض صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے اسے میری خاطر چھوڑا ہے اور کبھی وہ غفلت یا بھول کی وجہ سے برائی نہیں کرتا، اسے نہ گناہ ہے نہ ثواب، کیونکہ اس کی نیت نہ خیر کی ہے نہ شر کی اور کبھی اپنی پوری کوشش کے باوجود بس نہ چلنے کی وجہ سے کر نہیں سکتا، تو یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے وہ برائی کی ہو، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! یہ تو قاتل ہے، مقتول کا کیا معاملہ ہے ؟ “ فرمایا : ” وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی حرص رکھتا تھا۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب : ( و إن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا ۔۔ ) : ٣١۔ مسلم : ٢٨٨٨ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Said in the second (160) verse is: مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١٦٠﴾ (Whoever comes with a good deed, receives ten times as much, and whoever comes with an evil deed, he will not be recompensed by anything but its equal, and they shall not be wronged). Stated in the previous verse (159) was that the punishment for the evil deeds of those who turn away from the straight path rested with Allah alone. In the present verse, the generous procedure of reward and punish¬ment in the Hereafter has been described by saying that a person who does one good deed will get ten times more in return - and a person who commits one sin, the return for him will be equal to that of one sin. As reported in the Sahih of Al-Bukhari and Muslim and in Nasa&i and the Musnad of Ahmad, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Most Exalted and Very Merciful is your Rabb. A person who intends to do a good deed has one good recorded in his Book of Deeds - even if he does not get around to do it. Following that, when he gets to do that good deed, ten good deeds are recorded in his Book of Deeds. And if a person intends to do a sin, then stays back and does not do it, still a good is recorded for him - and if he were to actually commit a sin, still what he gets registered in his name is one sin, or that too is erased. With this showering of grace and mercy in the presence of Allah, who can apprehend total destruction? Unless, of course, there be that rare person who is determined to be destroyed. (Ibn Kathir) In a Hadith Qudsi narrated by Sayyidna Abu Dharr (رض) it is said: ` A person who does one good deed gets the reward of ten, even more - and a person who commits one sin will get its punish¬ment equal to one sin only, or I shall forgive even that. And a person who comes to Me with sins which would fill the whole earth, and still seeks forgiveness, I shall treat him with matching forgiveness. And a person who comes closer towards Me to the measure of one hand finger-span, I step one hand-span towards him. And a person who steps one hand-span toward Me, I come towards him by the measure of one Ba& (the stretch of both hands). And the person who comes walking towards Me, towards him I come running.& From these Hadith narrations, we can see that the increase of ten times for one good deed as mentioned in this verse is actually a de¬scription of its base limit - and Allah Ta` ala, in His mercy and generos¬ity, may give even more than that, and shall give, as proved by other narrations which place it upto the level of seventy times or seven hun¬dred times. In the words of the verse, it is noteworthy that the expression used جَاءَ بِالْحَسَنَةِ (` comes with a good deed& ) and not: عَمِلَ بِالْحَسَنَةِ (does a good deed). According to Tafsir Al-Bahr Al-Muhit, this indicates that such reward or punishment will not be awarded just on having done something good or bad. Instead of that, the condition is that to deserve reward or punishment, a good or bad deed must survive as such until the time of death. The outcome is that a person who has done a good deed, but it gets destroyed because of the misfortune of some sin, then, he no longer remains deserving of reward against this deed. An exam¬ple of it is, God forbid, that of Shirk and Kufr which, in fact, destroy all good deeds. In addition to that there are many other sins which make some good deeds turn false and ineffectual - as it appears in the Holy Qur&an: لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ (do not nullify your charities by boasting about favour, and teasing -2:264). This tells us that the good deed of charity (sadaqah) gets nullified and wasted by boasting about the favour done or by causing hurt through teasing and underrating the recipient. Similarly, it appears in Hadith that sitting in the Masjid and talking about worldly things eats up good deeds as fire eats up the wood. This tells us that good deeds, such as, Nafl, Tasbih and Dhikr, go to waste by indulging in mundane conversation. Similar is the case of evil deeds which, if repented from, become the cause of the sin being erased from the Book of Deeds - it does not keep sticking to a person until the time of death. Therefore, not said in the verse was something like: ` does any deed, good or bad, for which there will be punishment or reward.& Instead, what was said, in effect, was: Whoever brings to Us a good deed will get a reward ten times as much and whoever brings to Us an evil deed, then, it will be only one deed he will be punished for. The point is that this act of bringing to Allah Ta` ala can become possible only when this deed remains intact and unharmed right through the end. The crucial thing is that it sur¬vives, that nothing happens in between which will cause the good deed to be spoiled or wasted - and of course, the method is to keep repenting and seeking the forgiveness of Allah Ta` ala from falling into any evil deed. At the end of the verse, it was said: وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (and they shall not be wronged). It means that this is no human court. This is the Highest of the high. No probability of any injustice to anyone exists there, nor can there be a decrease in the return for someone&s good deed, nor is there any possibility of an increase in the punishment for someone&s evil deed.

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : (آیت) مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ پچھلی آیت میں اس کا بیان تھا کہ صراط مستقیم سے منحرف ہونے والوں کو روز قیامت اللہ تعالیٰ ہی ان کے اعمال کی سزاء دیں گے۔ اس آیت میں آخرت کی جزاء و سزاء کا کریمانہ ضابطہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص ایک نیک کام کرے گا اس کو دس گنا بدلہ دیا جائے گا، اور جو ایک گناہ کرے گا اس کا بدلہ صرف ایک گناہ کے برابر دیا جائے گا۔ صحیح بخاری اور مسلم، نسائی اور مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا رب عزوجل رحیم ہے، جو شخص کسی نیک کام کا صرف ارادہ کرے اس کے لئے ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے، خواہ عمل کرنے کی نوبت بھی نہ آئے، پھر جب وہ اس نیک کام کو کرلے تو دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں، اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے، مگر پھر اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اور گناہ کا عمل بھی کرے تو ایک گناہ لکھ دیا جاتا ہے، یا اس کو بھی مٹا دیا جاتا ہے، اس عفو وکرم کے ہوتے ہوئے اللہ کے دربار میں وہی شخص ہلاک ہوسکتا ہے جس نے ہلاک ہونے ہی کی ٹھان رکھی ہے (ابن کثیر) ۔ ایک حدیث قدسی میں بروایت ابوذر (رض) ارشاد ہے : ” جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے، اور اس سے بھی زیادہ اور جو شخص ایک گناہ کرتا ہے تو اس کی سزا صرف ایک ہی گناہ کی برابر ملے گی، یا میں اس کو بھی معاف کر دونگا اور جو شخص اتنے گناہ کرکے میرے پاس آئے جن سے ساری زمین بھر جائے اور مغفرت کا طالب ہو تو میں اتنی ہی مغفرت سے اس کے ساتھ معاملہ کروں گا، اور جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں، اور جو شخص ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے میں اس کی طرف بقدر ایک باع کے آتا ہوں (باع کہتے ہیں دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کو) اور جو شخص میری طرف جھپٹ کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں “۔ ان روایات حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کی جزاء میں دس تک کی زیادتی جو اس آیت میں مذکور ہے ادنیٰ حد کا بیان ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں اور دیں گے، جیسا کہ دوسری روایات سے ستر گنا یا سات گنا تک ثابت ہوتا ہے۔ اس آیت کے الفاظ میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہاں لفظ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فرمایا ہے عمل بالحسنة نہیں فرمایا، تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ محض کسی نیک یا بدکام کرلینے پر یہ جزاء و سزاء نہیں دی جائے گی، بلکہ جزاء و سزاء کے لئے موت کے وقت تک اس عمل نیک یا بد عمل کا قائم رہنا شرط ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نیک عمل کیا، لیکن پھر اس کے کسی گناہ کی شامت سے وہ عمل حبط اور ضائع ہوگیا تو وہ اس عمل پر جزاء کا مستحق نہیں رہا، جیسے معاذ اللہ کفر و شرک تو سارے ہی اعمال صالحہ کو برباد کردیتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ ایسے ہیں جو بعض اعمال صالحہ کو باطل اور بےاثر کردیتے ہیں، جیسے قرآن کریم میں ہے (آیت) لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی ،” یعنی تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر باطل اور ضائع نہ کرو “۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ کا عمل صالح احسان جتانے یا ایذاء پہنچانے سے باطل اور ضائع ہوجاتا ہے، اسی طرح حدیث میں ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنا نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں جو اعمال صالحہ نوافل اور تسبیح وغیرہ کے لئے ہیں، وہ دنیا کی باتیں کرنے سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح برے اعمال سے اگر توبہ کرلی تو وہ گناہ نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے، موت کے وقت تک باقی نہیں رہتا، اس لئے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی عمل کرے نیک یا بد تو اس کو جزاء یا سزا ملے گی “۔ بلکہ یوں فرمایا کہ جو ” شخص ہمارے پاس لائے گا نیک عمل تو دس گنا ثواب پائے گا اور ہمارے پاس لائے گا برا عمل تو ایک ہی عمل کی سزا پائے گا “۔ اللہ تعالیٰ کے پاس لانا اسی وقت ہوگا جب یہ عمل آخر تک قائم اور باقی رہے، نیک عمل کو ضائع کرنے والی کوئی چیز پیش نہ آوے اور برے عمل سے توبہ و استغفار نہ کرے۔ آخر آیت میں فرمایا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ، یعنی اس عدالت عالیہ میں اس کا امکان نہیں کہ کسی پر ظلم ہو سکے نہ کسی کے نیک عمل کے بدلے میں کمی کا امکان ہے، نہ کسی کے برے عمل میں اس سے زائد سزا کا احتمال ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَـنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا۝ ٠ ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ١٦٠ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نیکی کا دس گنا اجر قول باری ہے (من جآء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے) الحسنۃ اس چیز کا نام ہے جو حسن اور خوبی میں سب سے اونچے مپام پر ہو اس لیے کہ اس میں حرف تاء مبالغہ کے لیے ہے۔ اس کے تحت تمام فرائض اور نوافل آ جاتے ہیں تا ہم اس میں مباحات داخل نہیں ہیں اگرچہ وہ بھی حسن ہیں۔ اس لیے کہ مباح پر عمل کر کے ایک شخص نہ کسی تعریف کا مستحق قرار پاتا ہے اور نہ کسی ثواب کا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حسنۃ کی ترغیب دی ہے جو طاعت کے معنوں میں ہے۔ فعل حسن اور حسنہ کا فرق اس طرح احسان ( فرائض و نوافل کو بہترین طریقے سے سرانجام دینے کا نام ) کی بنا پر بھی ایک شخص تعریف کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ حسن کے تحت ہر مباح فعل آتا ہے اس لیے کہ ہر فعل حسن، مباح ہوتا ہے لیکن اس میں ثواب کا استحقاق نہیں ہوتا۔ لیکن اگر لفظ حسن پر حرف تاء داخل ہوجائے اور حسنۃ بن جائے تو یہ لفظ حسن کی اعلیٰ ترین صورتوں یعنی طاعات کے لیے اسم بن جاتا ہے۔ قول باری ( فلہ عشر امثالھا) کے معنی ہیں آرام و راحت اور لذت کے اعتبار سے دس گنا “ اس سے درجے کی بلندی کے لحاظ سے دس گنا مراد نہیں ہے۔ اس لیے کہ درجے کی بلندی اور عظمت طاعت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ نیکی کا اجر دس گنا دینا یہ محض فضل باری ہے، بندے کا اس پر کوئی استحقاق نہیں ہوتا۔ جس طرح ارشاد باری ہے ( لیوفیھم اجورھم و یذید ھم من فضلہ۔ تاکہ انہیں ان کا پورا پورا اجردے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی دے) عظمت اور بلندی کے لحاظ سے تفضیل یعنی اللہ کے فضل سے ملنے والا مرتبہ ثواب کے مرتبے کے برابر نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اگر یہ بات جائز ہوتی تو پھر بندوں کو کسی عمل کے بغیر ابتداء ہی سے جنت کی صورت میں یہ مرتبہ بخش دینا درست ہوتا۔ نیز وہ بندہ جسے اعلیٰ ترین انعامات سے نوازا گیا ہو اس بندے کے برابر ہوجاتا جسے کوئی بھی انعام نہ ملا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٠) جو توحید کے ساتھ نیکی کرے تو اسے دس گناہ ثواب ہے اور جو شرک کے ساتھ برائی کرے تو اس کا بدلا دوزخ ہے، ان کی نیکیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انکی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٠ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا ج) (وَمَنْ جَآء بالسَّیِءَۃِ فَلاَ یُجْزٰٓی الاَّ مِثْلَہَا) یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ بدی کی سزا بدی کے برابر ہی ملے گی ‘ لیکن نیکی کا اجر بڑھا چڑھا کردیا جائے گا ‘ دو دو گنا ‘ چارگنا ‘ دس گنا ‘ سات سو گنا یا اللہ تعالیٰ اس سے بھی جتنا چاہے بڑھا دے : (وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) (البقرۃ : ٢٦١) (وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) اس دن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی اور کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ اگلی دو آیات جو قُلْ سے شروع ہو رہی ہیں بہت اہم ہیں۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کو یاد رہنی چاہئیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اس آیت کی تفسیر صحیح حدیثوں میں آئی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت میں نیکی کے بدلے دس گنا ثواب کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ کم سے کم بھی ہر نیکی پر اجر اور ثواب دیا جاوے گا تو وہ دس گناہ کو ہوگا اور زیادہ سات سو تک بھی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے اور ہر بدی پر ایک گناہ کی سزا کا وعدہ ہے لیکن چاہے تو اللہ تعالیٰ بغیر سزا کے یوں ہی بخش دیوے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی مسلمان نیک عمل کرتا ہے تو دس گنا سے سات سو تک اس کا اجر لکھا جاتا ہے اور بدی ایک کرے تو ایک ہی لکھی جاتی ہے اور کبھی بغیر لکھے معاف بھی ہوجاتی ہے اور صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ نیکی کا کوئی شخص ارادہ کرے اور ارادہ کے موافق عمل نہ کرے تو بھی ایک نیکی محض ارادہ پر لکھ لی جاتی ہے اور بدی بدوں عمل کے نہیں لکھی جاتی ہے اور بدی کا کوئی شخص دل میں ارادہ کرے اور پھر اس بد ارادہ کو بدل ڈالے تو بھی ایک نیکی لکھی جاتی ہے سورة قصص میں آوے گا مَنْ جَائَ بِالُحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌمِّنْہَا (٢٨: ٨٤) یہ آیت سورة قصص کی اس آیت کی تفسیر ہے کیونکہ سورة قصص کی آیت میں مبہم طور پر یہ تھا کہ نیکی کرنے والے شخص کی نیکی سے بہتر بدلا ملے گا اس آیت میں اسی کی تفسیر یہ فرمائی کہ بہتر بدلے کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کرنے والے شخص کی ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا لکھا جاولگا۔ ہر ایک نیک کام کا ثواب دس سے لیکر سات سو تک جو ہے اس میں روزہ داخل نہیں کہ ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کے ثواب کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو آدمی کی نیت کا حال معلوم نہیں ہے اس لئے جس قدر نیک نیتی سے آدمی کوئی نیک عمل کرتا ہے دس سے سات سو تک ثواب کا درجہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے لکھ لیتے ہیں۔ روزے میں ریاکاری کا دخل بہت کم ہے اس واسطے روزے کا ثواب قیامت کے دن روزہ داروں کو خود اللہ تعالیٰ عنایت فرماوے گا فرشتوں کو روزے کے ثواب کا درجہ پوچھنے اور لکھنے کا حکم نہیں ہے وھم لایظلمون۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ اللہ تعالیٰ کو انصاف بہت پسند ہے اس لئے نیک عمل کی جزا کے کم کرنے میں یا بد عمل کی سزا کے بڑھا دینے میں کسی ظلم و زیادتی کا دخل نہ ہوگا بلکہ پورے انصاف سے جیسا جس کا عمل ہوگا اسی کے موافق جزا اور سزا کا برتاؤ ہوگا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن بعضے گنہگار اللہ تعالیٰ کے روبرو اپنے گناہوں کا انکار کریں گے جس پر ان لوگوں کے ہاتھ اور پیروں سے گواہی دلوائی جاکر ان لوگوں کو قائل کیا جاوے گا حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نہایت انصاف سے ہر ایک کو قائل معقول کیا جاوے گا اور قائلی معقولی کے بعد سزا کا حکم دیا جاوے گا اسی طرح جزا میں انصاف ہوگا کہ خالص دل ہے ایک کلمہ توحید جو پڑھا اس کا ثواب اس قدر دیا جاوے گا کہ گناہوں کا انبار اس کے مقابلہ میں ہلکا ہوجاویگا چناچہ اس باب میں ترمذی ابن ماجہ وغیرہ کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی حدیث گذر چکی ہے۔ اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے لیکن حاکم نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہاں حسنہ او سیئہ عام ہیں جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہیں اور یہاں عشر امثال (دس گنا بدلہ) سے مقصد تحدید نہیں ہے بلکہ کئی دس گنے ہوسکتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ساتھ گنا تک اور اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ جیسا کہ سورة بقرہ آیت 245، میں گزر چکا ہے۔ (رازی)7 بشر طی کہ دنیا میں توبہ نہ کرلی ہو اگر توبہ کرے یا اس کی نیکیاں برائیوں سے زیادہ ہوں یا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرمادے تو یہ سزا بھی نہیں ملے گی، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کا قصد کرے اور عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اگر اور اگر برائی کا قصد کرے اور برائی نہ کرے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا، (مسلم۔ ابن ماجہ بردیت انس بن مالک) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ترک سیئہ تین قسم کا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر برایہ کا ترک کرے یہ چونکہ عمل اور نیت سے اس لیے اسے ایک نیکی کا ثواب ملے گا جیسا کہ الصحیح کے بعض الفاظ میں ہے فانما تر کھا من جزانی کہ اس نے مجھے سے ڈر کر برائی کر ترک کیا دوم یہ کہ نسیان اور ذہول کی وجہ سے برای نہ کرسکے اس صورت میں نہ تو اس پر گناہ ہوگا اور نہ کچھ ثواب ہی ملے گا تیسرے یہ کہ باوجود کوشش کے برائی نہ کرسکے ایسی برائی کا اس پر گنا ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلوار سے ایک دوسرے کو قتل کر نیکی کوشش کرتے ہیں قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے لوگوں نے سوال کیا مقتول کا کیا گناہ ہے فرمایا کہ وہ بھی دوسرے کو قتل کرنے کوشش میں تھا۔ ( ابن کثیر) بعض سلف نے یہاں نیکی سے مراد توحید کا اقرار اور اور برائی سے مراد شرک لیا ہے واللہ اعلم ( قرطبی ، )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کہ کوئی نیکی درج نہ ہو یا کوئی بدی زیادہ کرکے لکھ لی جائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت کے آخری الفاظ ” بما کانو یفعلون “ ہیں۔ یہاں اعمال کی تشریح اور ان کی حیثیت بیان فرمائی کہ اگر لوگ نیکی کریں گے تو اس کا کم ازکم دس گنا اجر پائیں گے اگر برائی کریں گے تو صرف اس کے برابر سزادی جائے گی۔ پارہ تیس کی سورة الزلزال میں فرمایا کہ انسان نے ذرہ بھر بھی نیکی کی تو قیامت کے دن اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پائے گا۔ اگر اس نے ذرہ برابر برائی کی تو اسے بھی دیکھ لے گا۔ یہاں نیکی یا بدی کے اجر کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ ہر حسنہ کا اجر اس کے دس گنا ہوگا۔ تاہم برائی کی سزا دوگنی یا دس گناہ نہیں بلکہ اسی کے برابر ہوگی۔ لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو دوگنا عذاب ہوگا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ان کو دوگنا عذاب ہوگا۔ کیونکہ ان کا گناہ ایک کا دوگنا ہوگا۔ لہٰذا ہر کسی کو اس کے گناہ کے بدلے سزا ہوگی۔ البتہ احادیث کی روشنی سے ثابت ہوتا ہے کہ اخلاص اور آدمی کے حالات کے مطابق کی گئی نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہی نہیں بلکہ سات سو گنا سے بھی زیادہ دیں گے جس کی مفسرین نے اس طرح تشریح فرمائی ہے کہ کروڑ پتی آدمی کسی کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کے لیے یہ کوئی بھاری اور بڑا کام نہیں اور اگر فاقہ کش آدمی کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کی یہ نیکی بڑا مقام رکھتی ہے۔ کیونکہ خود بھوکا رہ کر دوسرے کا پیٹ بھرتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں دونوں کی نیکی کے اجر میں فرق ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اسباب نہیں اخلاص کی بنا پر فرق ہوگا۔ جتنا نیکی کرنے والے میں اخلاص اور للٰھیت ہوگی۔ اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا اس کے مقابلہ میں برائی کی سزا برائی کے برابر ہوگی اور کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُہَا بِیَمِینِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیہَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاک کمائی ہی قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہوئے پھر اسے بڑھائے گا اپنے بندے کے لیے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اللہ تعالیٰ نیکی کو پہاڑ کی مانند بنادے گا۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا یَرْوِی عَنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّءَاتِ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَی سَبْعِ ماءَۃِ ضِعْفٍ إِلَی أَضْعَافٍ کَثِیرَۃٍ وَّمَنْ ہَمَّ بِسَیِّءَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ سَیِّءَۃً وَّاحِدَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب من ہم بحسنۃ اوسیءۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں پھر ان کو واضح کردیا ہے جو کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے مگر عمل نہ کرسکے اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اس کی مکمل نیکی لکھ لیتا ہے اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا سے بڑھا دیتا ہے۔ جو کوئی برائی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے مکمل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ ) [ رواہ ابن ماجۃ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ ] ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُول اللّٰہُ إِذَا أَرَادَ عَبْدِی أَنْ یَّعْمَلَ سَیِّءَۃً فَلَا تَکْتُبُوہَا عَلَیْہِ حَتّٰی یَعْمَلَہَا فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوْہَا بِمِثْلِہَا وَإِنْ تَرَکَہَا مِنْ أَجْلِی فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَعْمَلَ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلٰی سَبْعِ ماءَۃِ ضِعْفٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون أن یبدلوا کلام اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے۔ تم اس کو نہ لکھو یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرے اگر وہ عمل کرتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی لکھو اور اگر اسے میری وجہ سے چھوڑتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو ۔ اور جب وہ کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ بھی کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو ۔ اگر اسے عملی جامہ پہنائے تو اسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دو ۔ “ (فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ )[ الزلزال : ٧۔ ٨] جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ (بھی) اسے دیکھ لے گا۔ مسائل ١۔ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم دس گنا ہوگا۔ ٢۔ برائی کی سزا صرف اس کے برابر ہوگی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن نیکی کی جزا، برائی کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ : ٧١) ٣۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٤۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت کی جزا ہے۔ (الدھر : ١٢) ٧۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٩۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ١٠۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ١١۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٦٠ ، تا ١٦٥۔ یہ تعقیب اور خاتمہ کلام اس سورة کے شروع کے مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے ‘ ایک نہایت ہی خوبصورت زمزمہ ہے ‘ نہایت موزوں اور خیرہ کن ۔ اس زمزے کے ساتھ ذبیحوں اور نذر ونیاز ‘ پھلوں اور فصلوں سے نیاز ‘ اور اس سلسلے میں جاہلیت کے ادہام ورسومات اور پھر یہ دعوے کہ یہ شریعت من جانب اللہ ہے ‘ کا موضوع یہاں اپنے اختتام کو پہنچتا ہے ۔ یہ تعقیب اور آخری زمزمہ اس مضمون میں کیا اضافہ کرتا ہے ؟ میں سمجھتا ہوں ان موضوعات پر ہم نے جو بات کی ہے اس کے بعد اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آیت ” قُلْ إِنَّنِیْ ہَدَانِیْ رَبِّیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (161) ” اے محمدنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے ‘ بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ‘ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔ یہ سپاس گزاری پر مشتمل اعلان ہے ‘ جس سے یقین محکم اور بھرپور بھروسے کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس میں عبارت کی لفظی تعمیر اور اس کے حقیقی مفہوم کو سمو دیا گیا ہے ۔ اس سے رب کے ساتھ ہدایت کا ربط ‘ ربوبیت کا تعلق اور اس کی جانب سے مسلسل نگہبانی کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس میں اس بات کا شکر ادا کیا گیا ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت بخشی ‘ جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ۔ وہ دین قیم ہے اور یہ دین ہماری قدیم میراث بھی ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے یہی دین اسلام ہے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس امت کے ابو الاباء ہیں اور اس وقت سے امت مسلمہ مبارک امت ہے ۔ اس میں دو ٹوک اعلان ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرکین میں سے نہ تھے ۔ آیت ” قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (162) لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (163) ” کہو ‘ میری نماز ‘ میرے تمام مراسم عبودیت ‘ میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ جس کا کوئی شریک نہیں اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں ۔ “ یہ توحید کا نغمہ ہے ۔ مطلق توحید اور ہمہ گیر بندگی کا اظہار جس میں نماز ‘ اعتکاف ‘ زندگی اور موت سب امور اللہ کے لئے مختص کردیئے گئے ہیں جو رب العالمین ہے ۔ جو سنبھالنے والا وحدہ متصرف اور نگہبان ہے ۔ مربی اور عالمین کا حاکم اور رب ہے ۔ اس میں مکمل اسلام کا اعلان ہے نفس سنبھالنے والا وحدہ متصرف اور نگہبان ہے ۔ مربی اور عالمین کا حکم اور رب ہے ۔ اس میں مکمل اسلام کا اعلان ہے نفس زندگی کے تمام امور بلکہ موت تک میں ‘ ضمیر میں اور عمل میں سب میں مکمل اسلام ۔ (وبذلک امرت) میں یہ کہا گیا کہ یہ مکمل اسلام امر الہی ہے محض رضاکارانہ فعل نہیں ہے ۔ اس لئے سب سے پہلے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آیت ” قُلْ أَغَیْْرَ اللّہِ أَبْغِیْ رَبّاً وَہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْْء ٍ وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی ثُمَّ إِلَی رَبِّکُم مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُونَ (164) ” کہو کیا میں میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے ؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے ‘ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا ‘ پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ‘ اس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا ۔ “ یہ ایک لفظ ہے جو پوری کائنات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ زمین و آسمان اور مافیہا ۔ وہ تمام مخلوق اس میں آتی ہے جو معلوم ہے یا نامعلوم ہے ۔ ہر واقعہ اور ہر حادثہ اس میں آتا ہے جو ظاہری ہو یا باطنی ۔ یہ سب اللہ کی ربوبیت کے سائے میں ہیں ۔ اور یہ عظیم کائنات اللہ کی ربوبیت کے دائرے میں ہے ۔ اس پر اللہ کی حاکمیت حاوی ہے اور یہ اس کی مطیع فرماں ہے ۔ عقائد میں ‘ عبادت میں اور قانونی نظام میں ۔ آیت ” وھو رب کل شیئ “۔ ذرا انداز کلام ملاحظہ ‘ استفہام انکاری ۔ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور رب کو تلاش کروں ؟ آیت ” وھو رب کل شیء “ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں غیر اللہ کو رب تسلیم کروں ‘ وہ میرا حاکم ہو ‘ وہ میرے امور میں متصرف ہو ‘ وہ مجھ پر نگہبان ہو ‘ وہ میرا مصلح اور راہنماہو حالانکہ میری نیت اور عمل کے بارے میں مجھ سے باز پرس صرف اللہ کرے گا ‘ صرف وہی ہے جو حساب لے گا ‘ اطاعت کا اور معصیت کا۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں غیر اللہ کو رب تسلیم کروں جبکہ یہ پوری کائنات اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور میں اور تم سب اس کے نظام ربوبیت کا حصہ ہیں ۔ میں غیر اللہ کو کس طرح رب بنا سکتا ہوں ‘ کیونکہ آخرت میں جب ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے جرائم کی سزا ملے گی تو یہ غیر کیا کرسکے گا ‘ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہوگا اور کوئی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا ۔ میں غیر اللہ کو رب کس طرح بنا سکتا ہوں ‘ انہی میں انسانون کو تو اللہ نے لا کر بسایا ہے اور اس میں ان کی تنظیم کر کر کے کسی کو بلند رتبے دیئے ہیں اور کسی کو ماتحت بنایا ہے ۔ کسی کو عقل مند اور کسی کو نادان ‘ کسی کو تنومند اور کسی کو ناتواں ‘ کسی کو مالدار اور کسی کو غریب تاکہ سب کی آزمائش ہو ‘ کسی غیر کو کس طرح بناؤں جب غفور ورحیم تو صرف اللہ رب العالمین ہے۔ آیت ” وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ(165) ” وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا ‘ اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں بلند درجے دیئے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ، بیشک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنیو الا اور رحم فرمانے والا بھی ہے ۔ “ کیا میں غیر اللہ کو رب بناؤں اور اس کی شریعت کو اپنے لئے شریعت بناؤں اور اس کے امر کو سمجھوں ‘ اس کے حکم کو حکم مانوں یہ سب دلائل میرے سامنے موجود ہیں ‘ سب شواہد موجود ہیں اور یہ سب دلائل بتاتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ وحدہ کو رب بنانا چاہئے ۔ یہ توحید کا نغمہ ہے ‘ نہایت نرم اور خوشگوار ۔ اس نغمے کے اندر ایمان کی حقیقت اور اس کے مظاہر ومشاہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کی اسکرین پر صاف صاف نظر آتے ہیں ۔ اسے ایسے انداز اور ایسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو قرآن کا واضح اعجاز ہے اور منفرد انداز بیان ۔ شعور کی تاروں پر یہ آخری ضرب ہے جس کا مقصد اللہ کی حاکمیت اور اس کے قانون نظام کی اطاعت کا اعلان ہے بعینہ اس طرح ہے جس طرح سورة کے آغاز میں ‘ اللہ کی حاکمیت کے بارے میں نظریاتی اظہار کے وقت کیا گیا تھا ۔ سورة کے آغاز میں سے اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات کو ذرا دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ۔ آیت ” قُلْ أَغَیْْرَ اللّہِ أَتَّخِذُ وَلِیّاً فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلاَ یُطْعَمُ قُلْ إِنِّیَ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکَیْنَ (14) قُلْ إِنِّیَ أَخَافُ إِنْ عَصَیْْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (15) مَّن یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ (16) ” کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں اور ” تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو “ کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ “ اب اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سورة کے آغاز میں جن امور کا تذکرہ ہوا تھا اسے اختتام پر دوبارہ دہرایا گیا تھا ۔ ابتداء کے معانی اور اختتام کے معانی ایک جیسے ہیں ‘ ابتداء میں ان معانی اور حقائق کے نظریاتی پہلو کو لیا گیا تھا اور اختتام پر انکو عملی اور نظام حیات کی شکل میں لیا گیا ہے ۔ دونوں جگہ اس دین کی ایک ہی حقیقت کے دو پہلوؤں کو لیا گیا ہے ۔ اب یہ سورة ختم ہوگئی ہے ‘ ذرا پیچھے مڑ کر نظر ڈالئے ‘ ہم نے ایک طویل ذہنی سفر کیا ‘ معانی کے وسیع صحراؤں اور دریاؤں کو عبور کیا ‘ طویل اور گہری وادیوں کا سفر کیا ۔ اس سورة کا کچھ حصہ سابقہ پارے میں تھا اور کچھ حصہ زیر نظر پارے میں آیا ۔ معانی وحقائق کا یہ کس قدر عظیم سفر تھا ۔ اگر اس سورة کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ گنے چنے صفحات ہی ہیں۔ محدود آیات وعبارات ہیں ۔ اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو وہ ان لامحدود حقائق کو اس قدر مختصر سورة میں ادا نہ کرسکتا ۔ حقائق مشاہدات ‘ ہدایات واشارات کا ایک عظیم ذخیرہ ہے جو ان آیات میں سمو دیا گیا ہے ۔ اور کلام کا انداز نہایت ہی معجز اور مترنم ہے اور تعبیر نہایت ہی مختصر اور بےمثال ۔ اس سورة کے مضامین کی دنیا میں ہم نے جو سفر کیا یہ نہایت ہی طویل ‘ وسیع اور نشیب و فراز پر مشتمل تھا ۔ اس میں اس کائنات کے حقائق سے بھی ہم دوچار ہوئے اور اسلامی تصور حیات کے حدود کی پیمائش بھی ہم نے کی ۔ اس سفر میں ہم حقیقت الوہیت ‘ اس کی خوبصورتی اور اس کے جلال و جمال سے بھی آگاہ ہوئے ۔ اس سفر میں ہم نے اس کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے حقائق ‘ اس کے اندر زندگی اور اس کی قلمونیوں کا بھی مشاہدہ کیا اور اس کے پس منظر میں جو غیبی حقائق موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے مناظر بھی ہم نے دیکھے ۔ اللہ کے نظام مشیت کے بارے میں بھی ہمیں علم ہوا کہ کس طرح وہ ثبات دیتی ہے اور کس طرح مٹا دیتی ہے کس طرح پیدا کرتی ہے اور کس طرح معدوم کردیتی ہے کس طرح زندگی بخشتی ہے اور کس طرح موت طاری کرتی ہے ۔ اس پوری کائنات کو اس نے کس طرح متحرک کردیا ہے تمام زندہ اور مردہ مخلوق کس طرح رواں اور دواں ہے ۔ اس سفر میں ہم نفس انسانی کی گہرائیوں تک بھی گئے ‘ اس کے نشیب و فراز میں بھی ہم نے سفر کیا ‘ اس کی ظاہری تصویر اور باطنی حقیقت سے بھی آگاہ ہوئے ‘ اس کی خواہشات اور میلانات سے بھی دوچار ہوئے ‘ اس کی ہدایت یابی اور گمراہی کو بھی دیکھا ‘ اس نفس انسانی کے اندر شیاطین جن وانس کی کارستانیاں بھی ملاحظہ کیں اور ان کے اقدامات ومنصوبے دیکھے ‘ ہدایت دینے والوں اور گمراہ کرنے والوں کو باہم دست و گریبان ہوتے بھی دیکھا ۔ اس طویل سیر میں مشاہد قیامت ‘ حشر ونشر کے مناظر کرب وابتلا کے اوقات ‘ خوشی اور فلاح کے لمحات اس کرہ ارض پر انسانیت کی آبادی اور اس کی تاریخ کے بعض باب اور اس کائنات کی تاریخ کی بعض جھلکیاں بھی نظر آئیں ۔ غرض اس سورة میں ہم نے وہ کچھ دیکھا جس کی پوری تلخیص یہاں ممکن نہیں ہے ۔ پوری حقیقت تو اس سورة کے مطالعہ اور اس کے پیارے اسلوب ہی سے اخذ ہو سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن فی الواقعہ ایک کتاب مبارک ہے اور یہ سورة اس کی برکات میں سے ایک حصہ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک نیکی پر کم از کم دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اس آیت میں نیکیوں کی جزا اور برائیوں کی سزا کا قانون بتایا ہے اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اس نے اپنے بندوں پر یہ کرم فرمایا کہ ایک نیکی کرنے پر اس جیسی کم از کم دس نیکیاں کرنے کا ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کا اعلان عام فرما دیا اور جو شخص کوئی گناہ کرلے تو اس میں اضافہ نہیں ہے بلکہ ایک گناہ پر ایک ہی گناہ کی سزا ملے گی۔ پھر یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ گناہ پر سزا مل ہی جائے۔ توبہ استغفار سے بھی گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیوں سے بھی معاف ہوتے رہتے ہیں۔ اور نیکی کا جو دس گنا ثواب بتایا ہے یہ کم سے کم ہے اس سے زیادہ بھی ثواب ملتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں (رکوع ٣٦) اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا ثواب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کی ایسی مثال ہے جیسے ایک دانہ ہو اس دانہ سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں پھر اخیر میں (وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے چند در چند اضافہ فرماتا ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ سات سو پر بھی منحصر نہیں اس سے زیادہ بھی اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے اضافہ فرما دیتا ہے۔ متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کی راہ میں خرچہ بھیج دیا اور وہ اپنے گھر ہی میں رہا تو اسے ہر درہم کے بدلہ سات سو درہم ثواب ملے گا اور جس نے اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کیا اس کے لیے ہر درہم کے بدلہ سات لاکھ درہم کا ثواب ہوگا پھر آپ نے آیت کریمہ (وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ) تلاوت فرمائی۔ (رواہ ابن ماجہ) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور برائیوں (کے قانون) کو لکھ دیا ہے سو جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے پھر اسے نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے پاس سے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کرنے کے بعد اس نیکی کو کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے اس جیسی دس نیکیاں سات سو گنا تک (بلکہ) اس سے بھی زیادہ چند در چند کر کے لکھ دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے پھر وہ (اللہ کے ڈر سے اسے چھوڑ دیتا ہے) اور اپنے ارادہ پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک گناہ لکھ دیتا ہے۔ (رواہ البخاری ص ٦١ ١ و مسلم ج ١ ص ٧٨) دوسری روایت میں ہے کہ جب گناہ کا ارادہ کر کے چھوڑ دیتا ہے اور گناہ کو نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اِنَّمَا تَرَکَہٗ مِنْ جَرَادِءِیْ یعنی اس کے لیے گناہ چھوڑنے کی وجہ سے اس لیے نیکی لکھی گئی کیونکہ اس نے گناہ میری وجہ سے چھوڑا ہے۔ (رواہ مسلم ج ١ ص ٧٨)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

183 یہ ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کے لیے بشارت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

160 جو شخص کوئی نیکی لے کر حاضر ہوگا اس کو اس جیسی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور جو شخص کوئی برائی اور بدی لے کر پیش ہوگا تو اس کو صرف اس برائی کی مثل بدلہ دیا جائے گا اور اس برائی کے برابر ہی سزا دی جائے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا اور ان کے ساتھ غیر منصفانہ برتائو نہیں کیا جائے گا۔ یعنی ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر اور گناہ کی سزا ایک کی ایک۔